صحیح بخاری میں نبی کریمﷺ کا فرمانِ گرامی مروی ہے کہ ''وہ پہلا لشکر جو مدینہ قیصر [قسطنطنیہ] کا جہاد کرے گا، اُس کو معاف کردیا گیا ہے۔'' بہت سے علما مثلاً حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ابن کثیر، حافظ بدر الدین عینی اور شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ وغیرہم نے یزید بن معاویؓہ کو اس پہلے لشکر کا سالار اور اس سعادت کا مستحق بتلایا ہے جس نے مدینہ قیصر پر حملہ کیا ۔ جنوری 2010ء کے محدث میں ڈاکٹر ابو جابر دامانوی کا تفصیلی مضمون شائع ہوا کہ مدینہ قیصر پر پہلے تین حملے سیدنا معاویہ نے کئے تھے جبکہ یزید بن معاویہ کا مدینہ قیصر پر حملہ چھٹے نمبر پر آتا ہے، اس بنا پر یزید بن معاویہ کو اس خوشخبری کا مصداق نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ بعدازاں اسی مضمون پر اپریل2010ء میں مولانا عبد الولی حقانی کی بعض تنقیدات مختصراً شائع ہوئیں۔ زیر نظر مضمون میں فاضل محقق نے دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ ڈاکٹر دامانوی کا یہ دعویٰ حقائق پر مبنی نہیں ہے کہ قسطنطنیہ پر پہلے تین حملے سیدنا معاویؓہ نے کئے تھے۔تفصیل ملاحظہ فرمائیے... ح م
ہم مناسب سمجھتےہیں کہ مولانا ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی کے مضمون '' کیا یزید بن معاویؓہ فوجِ مغفور لہم کا سپہ سالار تھا؟'' کا تنقیدی جائزہ لینے سے قبل مولانا دامانوی کے مضمون میں سے ایک اہم اقتباس ضرور نقل کردیں ۔ مولانا لکھتے ہیں:
اس مضمون کا مطالعہ کرنے والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ تنقیدی نظر سے اس مضمون کا جائزہ لیں اور اس مضمون کے سلسلے میں جو مثبت یا منفی دلائل ان کے پاس موجود ہوں ، اُن سے راقم الحروف کو ضرور بہ ضرور آگاہ کریں لیکن واضح رہے کہ وہ جو کچھ نقل کریں ، وہ کسی شخص کی رائے نہ ہو، بلکہ وہ جو کچھ بھی نقل کریں وہ تحقیقی مواد ہونا چاہیے اور جو روایت بھی وہ نقل کریں وہ باسند اور صحیح ہو جو محدثین کے اُصول کے مطابق صحیح یا حسن درجہ کو پہنچی ہوئی ہو، کیوں کہ بے سند روایت کا وجود اور عدم برابر ہے اور وہ شریعت میں کسی دلیل کی حیثیت نہیں رکھتی۔1
مولانا دامانوی صاحب نے قسطنطنیہ پر چھ حملوں کا ذکر کیا اور پہلا ، دوسرا ،تیسرا حملہ حضرت معاویہ کا ثابت کیا ہے۔ ہم اس مضمون میں صرف ان تین حملوں کا تنقیدی جائزہ لیں گے:
پس منظر
آج سے تقریباً تیرہ سال پہلے،۱۹۹۷ءمیں جامعہ لاہور اسلامیہ کے شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی﷾سے سوال کیا گیا کہ "أوّل جیش من أمتي یغزون مدینة قیصر مغفور لهم" اس حدیث کے مطابق جیشِ مغفور کا پہلا کمانڈر کون ہے؟
اس کے جواب میں آپ نے لکھا کہ '' اس حدیث میں اوّلیت کے اعتبار سے تو کسی شخص کا تعین نہیں ، البتہ شارح صحیح بخاری المهلّب نے اس کا مصداق یزید بن معاویہؓ کو قرار دیا ہے ، لیکن واقعاتی طور پر مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھا ، جس کا تذکرہ سنن ابوداؤد میں موجود ہے ، اس کے باوجود کئی مؤرخین نے اس کا مصداق یزید بن معاویہ کو سمجھا ہے۔''2
اس کے جواب میں راقم الحروف نے ''قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے پہلے لشکر کی قیادت''کے عنوان سے ایک مضمون لکھ کر الاعتصام کی اسی جلد ۴۹ کے شمارہ نمبر ۳۱،۳۲ میں شائع کرایا ، جس میں اصح الکتب صحیح بخاری کی حدیث کو بنیاد بناکر اوّل لشکر کا قائد یزید بن معاویہ کو ثابت کیا۔اس مضمون کے جواب میں مولانا حافظ زبیر علی زئی ﷾ نے ''حدیثِ قسطنطنیہ اور یزید''کے عنوان سے ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل ایک مضمون لکھا جو الاعتصام کی جلد ۴۹ کے شمارہ ۳۵ میں شائع ہوا۔موصوف کے اس مضمون کے جواب میں راقم الحروف نے ''حدیثِ قسطنطنیہ اور یزید '' کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں مولانا حافظ زبیر علی زئی کے اعتراضات کا بطریق احسن ردّ پیش کیا گیاتھا۔ اس کی اشاعت کا سہر ا ا ہفت روزہ 'اہل حدیث' لاہورکے سر ہے جس کی جلد ۲۹ کے شمارہ نمبر۱۹،۲۰ میں یہ مضمون مؤرخہ ۲۲،۲۹ مئی ۱۹۹۸ء کوشائع ہوا۔
مولانا حافظ زبیر علی زئی ﷾ نے چھ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد ماہنامہ 'الحدیث' حضرو کے شمارہ نومبر۲۰۰۴ء میں راقم الحروف کے پہلے مضمون کا دوبارہ جواب لکھا جب کہ اس سے پہلے موصوف نے اسی مضمون کا جواب'الاعتصام'کی جلد ۴۹ کے شمارہ ۳۵ میں دے دیا تھا۔آپ لکھتے ہیں:
ہفت روزہ'الاعتصام'ج ۴۹،شمارہ ۳۱،۳۲ (اگست ۱۹۹۷ء) میں محترم پروفیسر محمد شریف شاکر صاحب کا ایک مضمون دو قسطوں میں شائع ہوا ہے جس میں پروفیسر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے پہلے حملہ میں سیدنا معاویہ کا بیٹا یزید بھی شامل تھا۔3
حافظ زبیر علی زئی صاحب کا راقم الحروف کے بارے میں یہ لکھنا کہ ''پروفیسر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے پہلے حملہ میں سیدنا معاویہ کا بیٹا یزید بھی شامل تھا''صحیح نہیں ہے۔
اصل حقیقت
راقم الحروف نے اپنے اس مضمون میں یزید کی شمولیت نہیں بلکہ صحیح بخاری کی حدیث کی رو سے یزید کو '' قسطنطنیہ پر سب سے پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد ''ثابت کیا ہے۔
2004 میں الحدیث میں مولانا زبیر علی زئی کا جواب نہ لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ راقم الحروف نے مولاناموصوف کے اس مضمون کا جواب ۱۹۹۸ء میں دے دیا تھا، اس لیے اس جواب کا دہرانا تحصیلِ حاصل خیال کیا۔
اب جواب لکھنے کی ضرورت یہ ہے کہ مدتِ مدید کے بعد ماہنامہ 'محدث'،لاہور میں جنوری ۲۰۱۰ء کو شائع ہونے والا مضمون بعنوان 'کیا یزید بن معاویہؓ فوجِ مغفورلهم کا سپہ سالار تھا؟' نظر سے گزرا، جس میں مولانا ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی صاحب نے صحیح بخاری کی حدیث : «أوّل جیش من أمتي یغزون مدینة قیصر مغفور لهم»کے صحیح مصداق کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے مسلمانوں کی نیتوں پر حملہ کرتے ہوئے لکھا :
''منکرین حدیث میں سے محموداحمد عباسی اور اس کے ہم نوا ناصبی حضرات نے اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہؓ کوقرار دیا۔''4
اور پھر اُن محدثین کے اسماے گرامی اور ان کے دلائل یوں ذکر کیے ہیں:
''یزید کے قسطنطنیہ والے لشکر میں شرکت کے متعلق علما کرام کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
1. حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:''مہلب فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں معاویہؓ کی منقبت بیان ہوئی ہے ،اس لیے کہ اُنہوں نے سب سے پہلے سمندری جہاد کیا، اور ان کے بیٹے یزید کی بھی منقبت بیان ہوئی ہے کیوں کہ اس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر میں جہاد کیا۔5'' مہلب بن احمد بن ابی صفره اندلسی کی وفات ۴۳۵ھ میں ہوئی۔6 اور مذکورہ غزوہ ۵۲ھ میں ہوا تھا ، یاد رہے کہ مہلب نے اپنے دعویٰ پر کوئی دلیل بیان نہیں کی۔
2. حافظ ابن کثیر بیان کرتے ہیں : ''اور یزید پہلا شخص ہے جس نے یعقوب بن سفیان کے قول کے مطابق ۴۹ھ میں قسطنطنیہ کی جنگ کی اور خلیفہ بن خیاط نے ۵۰ھ بیان کیا ہے۔ پھر اس نے سرزمین روم سے اس غزوہ سے واپس آنے کے بعد اس سال لوگوں کو حج کروایا اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :''اُمّت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، وہ مغفور ہے۔'' اور وہ دوسری فوج تھی جسے رسول اللہﷺنے اُمّ حرامؓ کے پاس اپنے خواب میں دیکھا تھا اور اُمّ حرام نے کہا: اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل کردے۔آپﷺ نے فرمایا تو اوّلین میں سے ہے یعنی سیدنا معاویہؓ کی فوج میں شامل ہوگی جب وہ قبرص میں جنگ کریں گے ، پس سیدنا معاویہ ؓ نے سیدنا عثمان ؓکے دورِ حکومت میں ۲۷ھ میں قبرص کو فتح کیا اور امّ حرام بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ اُنہوں نے وہیں قبرص میں وفات پائی ، پھر دوسری فوج کا امیر ان کا بیٹا یزید بن معاویہؓ تھا اور اُمّ حرام نے یزید کی اس فوج کو نہیں پایا اور یہ دلائل نبوت میں سے ایک انتہائی بڑی دلیل ہے۔''7
3. حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:'' اور اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جہاد ہر امیر کے تحت جائز ہے (چاہے وہ نیک ہویا بد ) اس حدیث میں قیصر کے شہر میں جہاد کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے اور اس جہاد کا امیر یزید بن معاویہؓ تھا اور یزید تو یزید ہی تھا۔''8
4. علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: '' قیصر کے شہر(قسطنطنیہ) پر سب سے پہلے یزید بن معاویہ ؓ نے جہاد کیا ،اور ان کے ساتھ سادات صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت بھی شریک تھی جس میں عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہؓ بن عباسؓ ، عبداللہ ؓبن زبیرؓ، اور ابو ایوب انصاری ؓتھے اور ابوایوب ؓ نے اسی غزوہ میں ۵۲ھ میں وفات پائی۔9
5. علامہ بدر الدین عینی رقم طراز ہیں :'' یزید بن معاویہ نے بلادِ روم میں جہاد کیا یہاں تک کہ وہ قسطنطنیہ تک جا پہنچے۔''10
6. شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں : '' قسطنطنیہ پر پہلا حملہ کرنے والے لشکر کے سپہ سالار یزید تھے اور چوں کہ لشکر معین مقدار کو کہا جاتا ہے، اس لیے فوج کا ہر ہر فرد بشارتِ مغفرت میں شریک ہے، نہ کہ اس کا کوئی فرد تو لعنت میں شریک ہو اور کوئی اس میں سے ظالموں میں شریک ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یزید اسی حدیث کی بنا پر قسطنطنیہ کی جنگ میں شریک ہوا تھا۔''11
مندرجہ بالا چھ محدثین علما کے اقوال جناب ڈاکٹر دامانوی صاحب کے پیش کردہ ہیں ۔ دامانوی صاحب مزید لکھتے ہیں :
1. امام خلیفہ بن خیاط اپنی تاریخ میں ۵۰ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں: ''اور اسی سن میں یزید بن معاویہ نے ارضِ روم میں جہاد کیا اور ان کے ساتھ سیدنا ابو ایوب انصاریؓ بھی تھے۔''12
2. حافظ ابن کثیر نے '۵۲ھ' عنوان قائم کرکے اس کے ضمن میں سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کی وفات کا ذکر کیا اور ۵۲ھ کے قول کو زیادہ قوی قرار دیا ہے۔13
3. حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ''اوریہ غزوہ مذکور۵۲ھ میں ہوا اور اسی غزوہ میں ابو ایوب انصاری ؓکی وفات ہوئی اور اُنہوں نے وصیت فرمائی کہ انہیں قسطنطنیہ کے دروازہ کے قریب دفن کیا جائے۔''14
تنقیدی جائزہ
قارئین توجہ فرمائیں کہ دامانوی صاحب لکھتے ہیں کہ '' محمود احمد عباسی اور اس کے ہم نوا ناصبی حضرات نے اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہؓ کو قرار دیا۔''15
دامانوی صاحب یہ بتائیے کہ (۱) مہلب شارح بخاری ، (۲) حافظ ابن کثیر (۳) حافظ ابن حجر عسقلانی (۴) علامہ قسطلانی (۵) علامہ عینی (۶)اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کیا یہ تمام کے تمام ائمہ وشارحین حدیث محمود احمد عباسی کے ہم نوا ہیں؟
دامانوی صاحب محمود احمد عباسی کو جانتے ہیں جودورِ حاضر کے ایک معروف مؤلف ہیں۔ دامانوی صاحب!آپ محمود احمد عباسی کا غصّہ اسلافِ کرام پر مت نکالیں۔ کیا محمود احمد عباسی کی دعوت اس کے پیدا ہونے سے صدیوں پہلے ان ائمہ کرام تک پہنچ گئی تھی؟ ؟
کیا ائمہ کرام کو غلطی لگی؟
پھر دامانوی صاحب کس قدر جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''جن حضرات نے یزید بن معاویہ کے لشکر کو اوّل جیش کا مصداق قرار دیا ہے اُنہیں اس سلسلہ میں غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس بات کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی اور نہ سنداً کوئی روایت ذکر کی بلکہ صرف یہی بات ذکرکرکے کہ یزید کے لشکر نے قسطنطنیہ پر لشکر کشی کی تھی اور بس...''16
ناقدانہ جائزہ: «وکم من عائبٍ قولاً صحیحًا ... و آفته من الفهم السقیم»
درج ذیل سطور کے مطالعہ سے قارئین کرام خوب سمجھ سکیں گے غلطی ان حضرات کو لگی ہے یا دامانوی صاحب کو؟
قائدِ جیش سے متعلق بیانات میں تضاد
4. شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾ نے ''مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید '' کو قرار دیا۔17
5. حافظ زبیر علی زئی صاحب نے حافظ ثناء اللہ مدنی﷾ کے جواب کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ ''درج ذیل کتابوں میں بھی صحیح سند کے ساتھ اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید ہی مذکور ہے۔''18
چونکہ حافظ ثناء اللہ مدنی﷾ نے ''مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید''لکھا تھا، اس لئے حافظ زبیر علی زئی نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ ''اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید تھا۔''
6. اور اسی اشاعت میں حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اپنے پہلے بیان کے خلاف لکھ دیا کہ ''تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ''قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوئے ہیں۔'' آپ نے مزید لکھا کہ ''بلکہ ان تمام لشکروں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر ایک لشکر کے حملے کا ثبوت ملتا ہے جس میں حضرت معاویہ بھی شامل تھے۔''19
کیا ہی خوب تحقیق ہے! اس لشکر کے امیر کون تھے؟ اس کا جواب دینا مولانا علی زئی صاحب کے ذمہ ہے۔
7. ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی صاحب نے پہلے لشکر کا قائد حضرت معاویہ کو قرار دیا۔ آپ لکھتے ہیں کہ ''اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ قسطنطنیہ پر کتنے حملے کئے گئے اور ان حملوں میں سب سے پہلا حملہ کس نے کیا تھا۔''20
کیا قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہ ؓنے کیا تھا؟
دامانوی صاحب مزید لکھتے ہیں:
''قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا۔'' حافظ ابن کثیر نے اگرچہ یزید بن معاویہؓ کے لشکر کو'اوّل جیش' کا مصداق قرار دیا ہے، لیکن وہ خود ہی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
8. اور ۳۲ھ میں سیدنا معاویہؓ نے بلادِ روم پر چڑھائی کی یہاں تک کہ وہ خلیج قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔''21
9. حافظ موصوف ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ''کہتے ہیں کہ خلیج قسطنطنیہ کی جنگ سیدنا معاویہ کی امارت میں ۳۲ھ میں ہوئی، وہ خود اس سال لوگوں پر امیر تھے۔''22
10. حافظ ذہبی لکھتے ہیں: "فیها کانت وقعة المضیق بالقرب من قسطنطینیة وأمیرها معاویة"23 ''اس سن میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر معاویہ ؓتھے۔ لہٰذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔''24
ناقدانہ جائزہ: دامانوی صاحب نے مندرجہ بالا تین اقتباس نقل کئے ہیں: پہلا اور دوسرا اقتباس البدایہ والنہایہ سے اور تیسرا اقتباس حافظ ذہبیکی تاریخ اسلام سے نقل کیا ہے۔ دامانوی صاحب کے پیش کردہ اقتباس میں واضح طور پر لکھا موجود ہے کہ ''۳۲ھ میں سیدنا معاویہؓ نے بلادِ روم پر چڑھائی کی یہاں تک کہ وہ خلیج قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔'' یہاں دامانوی صاحب قسطنطنیہ پر حملہ کا ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ جسے دامانوی صاحب نے خلیج قسطنطنیہ لکھا ہے یہی مَضِیق قسطنطنیہ ہے۔ فافہم
حافظ ابن کثیرسے نقل کردہ دوسرے اقتباس میں بھی دامانوی صاحب نے ''خلیج قسطنطنیہ کی جنگ''لکھا، یہ بھی وہی ۳۲ھ کی جنگ ہے۔ اور امام ذہبی سے نقل کردہ اقتباس میں بھی قسطنطنیہ کے قریب مضیق کا واقعہ لکھا ہے نہ کہ یہ قسطنطنیہ پر حملہ ہے۔ ان تینوں اقتباسات میں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے مولانا دامانوی صاحب نے اپنے الفاظ میں لکھ دیا: ''لہٰذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔''لیکن اس کی دلیل کیا ہے؟ یاد رہے کہ قسطنطنیہ اور خلیج ؍ مضیق قسطنطنیہ دو علیحدہ مقامات ہیں ، دونوں کو ایک ہی باور کرنا درست نہیں۔
اب مولانا دامانوی صاحب کے اُستاد موصوف (محترم جناب مولانا علی زئی) کے حضرت معاویہ کے حملوں کے بارے میں دلائل ملاحظہ فرمائیے! آپ لکھتے ہیں:
1۔ سیدنا معاویہؓ نے رومیوں کی زمین پر سولہ مرتبہ فوج کشی کی۔25
2۔ یزید بن معاویہ کے آخری حملہ سے پہلے قسطنطنیہ پر سابقہ حملوں کے علاوہ ایک اور حملہ بھی ہوا ہے۔حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
«واستعمل معاویة سفیان بن عوف على الصوائف وکان یعظمه»26
اور معاویہؓ نے سفیان بن عوف کو قسطنطنیہ پر صیفی حملوں میں امیر بنایا اور آپ ان کی تعظیم کرتے تھے۔
«وفي 28هـ جهّز معاویة جیشا عظیمًا یفتح قسطنطینیة وکان على الجیش سفیان بن عوف» (ج ۲، ص ۱۱۴) اور ۴۸ھ میں معاویہ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لئے ایک عظیم لشکر بھیجا جس کے امیر سفیان بن عوف تھے۔27
قارئین توجہ فرمائیں! ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ نے سرزمین روم (یعنی رومی مقبوضات) پر بہت سے حملے کئے اور کئی بار آپ نے مختلف سالاروں کے تحت فوج بھیجی، لیکن جن حملوں کا مذکورہ بالا سطور میں جناب مولانا علی زئی صاحب نے تذکرہ کیا ہے ان میں سے کوئی لشکر قسطنطنیہ تک نہیں پہنچ سکا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت معاویہؓ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لئے بڑی فوج دے کر سفیان بن عوف کو بھیجا، لیکن وہ بھی قسطنطنیہ تک نہیں پہنچ سکے۔
حضرت معاویہ کے بیٹے (یزید) کے بارے میں امام ذہبی لکھتے ہیں:
«قال سعید بن عبدالعزیز لما قُتل عثمان و وقع الاختلاف لم یکن للناس غزو حتی اجتمعوا علىٰ معاویة فأغزاهم مراتٍ ثم اغز ابنه في جماعة من الصحابه برّا وبحرًا حتى أجاز بهم الخلیج وقاتلوا أهل القسطنطینیة علىٰ بابها ثم قفل»28
سعید بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان شہید کر دیئے گئے اور (مسلمانوں میں) اختلاف رونما ہو گیا اور لوگوں کے لئے جہاد کا موقع جاتا رہا، یہاں تک کہ معاویہ پر لوگ مجتمع ہو گئے تو آپؓ نے اِن کو غزوات میں بھیجا۔ پھر آپ نے صحابہ کی ایک جماعت میں اپنے بیٹے کو بحر و برّ میں جہاد کرنے کے لئے بھیجا، یہاں تک کہ وہ ان (مجاہدوں) کو خلیج سے پار لے گیا اور قسطنطنیہ کے دروازے پر اہل قسطنطنیہ سے جنگ کی، پھر واپس پلٹ آیا۔
مذكورہ بالا بحث سے چار مختلف خیالات سامنے آئے:
11. حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾ کے ہاں: ''واقعاتی طور پر مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید تھا۔''
12. حافظ زبیر علی زئی صاحب کے دو قسم کے خیالات سامنے آئے:
1۔اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید ہی مذکور ہے۔
2۔قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوئے ہیں، بلکہ ان تمام لشکروں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر حملے کا ثبوت ملتا ہے۔'' علی زئی صاحب نے یہاں قائد کا ذکر ہی نہیں کیا۔
13. ڈاکٹر دامانوی صاحب نے برملا لکھا کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا۔
14. راقم الحروف اور سرکردہ محدثین کے ہاں: قسطنطنیہ پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد یزید بن معاویہؓ تھا۔
اصل مقصد تک پہنچنے کے لئے درج ذیل تین چیزوں کی معلومات حاصل کرنا ضروری ہے:
1۔ارضِ روم کا اطلاق کس کس علاقے پر ہوتا ہے؟
2۔مدینہ قیصر سے کونسا شہر مراد ہے؟
3۔مَضِیقِ قسطنطنیہ سے کیا مراد ہے؟
15. ارضِ روم: ارضِ روم کا اطلاق مشرقی روم اور مغربی روم پر ہوتا ہے۔
میجر جنرل محمد اکبر خان لکھتے ہیں کہ
''مدتِ دراز کے بعد روما کی حکومت قیصر کے دو شہزادوں میں تقسیم ہو گئی۔ دونوں حکمران قیصر کہلائے۔ ایک مغربی روما کا، اور دوسرا مشرقی روما کا۔
مغربی روما: یورپ کا بیشتر حصہ مغربی روما رہا، اور اس سلطنت کا دارالحکومت شہر روم رہا۔مشرقی روما: اس کی سلطنت میں بلقان، یونان، ایشیائے کوچک، شام، مصر، حبشہ وغیرہ تھے اور یہ علاقہ شہزادہ قسطنطین کے حصہ میں آیا۔''29
''اناطولیہ :(عربی میں اناضُول، انگریزی میں (Anatolia،یہ کوہستانی جزیرہ نما مغربی ایشیا میں بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے۔ یہ مملکت ترکیہ کے ۹۰ فیصد سے زیادہ علاقے پر مشتمل ہے۔ اسے ایشیائے کوچک (Asia Minor) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو (بحیرہ روم کے علاوہ) بحیرہ ایجین، بحیرہ مرمرہ، بحیرہ اسود، درّۂ دانیال اور باسفوس کی آبناؤں نے گھیر رکھا ہے۔ ''30
''محل وقوع: اناطولیہ کے مشرق میں آرمینیا، جارجیا اور ایران ہیں۔ اور جنوب مشرق میں شام واقع ہے۔''31
16. مدینہ قیصر یعنی قسطنطنیہ (استنبول): مدینہ قیصر سے مراد قسطنطنیہ ہے۔یہ ۱۴۵۳ء سے ۱۹۲۳ء تک سلطنتِ عثمانیہ (خلافتِ عثمانیہ) کا دارالحکومت رہا۔
ترکوں سے پہلے رومیوں کا یہ دارالحکومتConstantinopolisیعنی'شہر قسطنطین'کہلاتا تھا۔ کیونکہ قیصر روم قسطنطین اعظم نے۳۳۰ء میں اسے یونانی شہر بیزنطیم (Byzantium) کی جگہ آباد کیا تھا جس کی بنیاد ساتویں صدی ق م میں رکھی گئی تھی۔32
یاقوت حموی (متوفی ۶۲۶ھ) نے لکھا ہے کہ قسطنطین اعظم نے اسے دارالحکومت بنا کر اس کا نام قسطنطنیہ (عربی میں قسطنطینية) رکھا جسے آج کل اِصْطنبول کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شہر پہلے سے مسلمانوں میں 'اصطنبول' یا 'استنبول'کے طور پر معروف تھا۔33
فتح قسطنطنیہ: سلطان محمد فاتح (۸۵۵ھ تا۸۸۶ھ) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ۲۰؍جمادی الاولیٰ ۸۵۷ھ؍۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو قسطنطنیہ فتح کرنے میں الحمد للہ کامیاب ہو گئے اورسلطان محمد فاتح نے صوتی اور معنوی مناسبت کے باعث 'استنبول'کو 'اسلامبول'کا نام دیا۔34
17. مَضیق : لغۃً مَضِیْق، ضَیْقٌ سے ظرف کا صیغہ ہے، اور یہ تنگ جگہ کا معنیٰ دیتا ہے۔ جغرافیہ کی اصطلاح میں یہ 'آبنائے' کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
آبنائے: پانی کے اس تنگ قطعے کو کہتے ہیں جو دو سمندروں کو ملائے۔
خلیج: سمندر کے اس تنگ حصے کو کہتے ہیں جو دور تک خشکی کے اندر چلا گیا ہو۔35
اس سے ثابت ہوا کہ آبنائے اور خلیج میں تفاوت و تضاد پایا جاتا ہے۔
درّۂ دانیال اور آبنائے باسفورس: یہ (دونوں) یورپی ترکی کو ایشیائی ترکی سے الگ کرتی ہیں۔
آبنائے باسفوس: بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمرہ سے ملاتی ہے۔ استنبول (قسطنطنیہ) اسکے جنوب میں بحیرہ مرمرہ کے کنارے واقع ہے۔ اسکی لمبائی ۳۰ کلومیٹر اور چوڑائی ۵۰۰ میٹر سے ۳ کلومیٹر تک ہے۔
درّۂ دانیال: بحیرہ مرمرہ کو بحیرہ ایجین (اور بحیرہ روم) سے ملاتا ہے۔ اس کا طول ۷۰ کلومیٹر اور عرض ۱۲۷۰ میٹر سے ۷ کلومیٹر تک ہے۔ درّۂ دانیال کے یورپی ساحل پر گیلی پولی کی بندرگاہ واقع ہے۔36
مندرجہ بالا تاریخی معلومات سے قارئین کرام خوب اندازہ لگا سکتے ہیں بلکہ یقین کی حد تک یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ مضیق قسطنطنیہ سے قسطنطنیہ شہر مراد نہیں ہے، اس سے آبنائے باسفورس یا درّۂ دانیال مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔
اُور خان بن عثمان ۷۲۶ھ؍۱۳۲۶ء میں تختِ حکومت پر براجمان ہوا، اور اُس کی حکومت ۷۶۱ھ؍۱۹۵۹ء تک قائم رہی۔ اُور خان کو اپنے والد (عثمان) کی طرف سے روحِ جہادِ اسلامی کے احیا کے لئے جو جذبہ حاصل ہوا تھا، اسے بروئے کار لاتے ہوئے اس نے اپنے عہد میں سلطنت کی توسیع کا کام جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں ازمیت، ازنیق اور بحیرہ مرمرہ کے جنوب میں امارت 'قرہ سی' کی فتح عطا فرمائی۔ ۷۵۸ھ؍۱۳۵۶ء میں اُور خان کے بیٹے سلیمان نے ایک رات ۴۰ جانبازوں کے ساتھ درّۂ دانیال کو پار کیا اور اس کے مغربی کنارے جا پہنچے۔ وہاں سے اُنہوں نے رومی کشتیاں چھینیں اور مشرقی ساحل پر لَوٹ آئے۔ اس وقت عثمانیوں کے پاس بحری بیڑا نہیں تھا کیونکہ ابھی ان کی سلطنت کے قیام کے ابتدائی مراحل طے ہو رہے تھے۔ مشرقی کنارے پر پہنچ کر سلیمان نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ اِن کشتیوں میں سوار ہو جائیں۔ پھر اُنہوں نے اِن کشتیوں میں (سوار ہو کر) یورپی ساحل پر ہلا بول دیا اور قلعہ'ترنب'کی بندرگاہ اور'گیلی پولی'فتح کر لئے۔ یہ دونوں دّرٔہ دانیال کے یورپی ساحل پر واقع تھے۔ یہ چاروں اہم مقام درّۂ دانیال کے مغربی ساحل پر جنوب سے شمال تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان پر قبضہ کر کے اس عظیم مسلم سپہ سالار نے یورپی ساحل پر ایسے مراکز حاصل کر لئے جن سے بعد میں قسطنطنیہ کی فتح کیلئے آنے والوں نے استفادہ کیا۔37
اُورخان کی وفات کے بعد زمام سلطنت اس کے بیٹے مراد اوّل کے ہاتھ آئی (۷۶۱ھ؍۱۳۶۰ء) اور اس کا عہدِ حکومت ۷۹۱ھ؍۱۳۸۹ء تک محیط رہا۔ اس عثمانی حکمران نے اپنے پیش روؤں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُس نے جہاد کا پرچم اٹھایا اور اللہ تعالیٰ نے اسے ۷۶۳ھ؍۱۳۶۲ء میں اَدَرْنہ کی فتح عطا کی۔ اس کے ساتھ ہی مراد اپنا دارالحکومت بَرُوْسہ سے اَدْرَنہ لے گیا۔38 اَدَرْنہ شہر یورپی ترکی یعنی تھریس کی سرحد پر واقع ہے۔ فتح قسطنطنیہ تک ادرنہ عثمانی دارالحکومت رہا۔39
کیا قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا؟
ڈاکٹر ابو جابر دامانوی صاحب نے ''سیدنا معاویہ ؓکا قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ''صحیح ثابت کرنے کے لئے عبداللہ بن صالح (ابو صالح) کی روایت کا سہارا لیا ہے جسے انہوں نے (التاریخ الصغیر للبخاری کے حوالے سے) یوں نقل کیا:
«حدثنا عبد الله بن صالح حدثني معاویة عن عبد الرحمٰن بن جبیر بن نفیر عن أبیه عن أبي ثعلبة الخشني قال سمعته، في خلافة معاویة بالقسطنطینیة، و کان معاویة غزا الناس بالقسطنطینیة، اَنّ الله لا یعجز هذه الأمة مِن نصف یوم»40
''سیدنا ابو ثعلبہ خشنی بیان کرتے ہیں کہ میں نے معاویہؓ کو اُن کے دورِ حکومت میں قسطنطنیہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا، جبکہ وہ لوگوں کو قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لئے روانہ کر رہے تھے کہ ''بیشک اللہ تعالیٰ اس اُمّت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجز نہیں کریگا۔''
ناقدانہ جائزہ: ڈاکٹر دامانوی صاحب نے مطلب براری کے لئے حدیث کے ترجمہ میں تحریف کر دی، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حدیث کے یہ الفاظ "اِنَّ الله لا یعجز هٰذه الأمة مِن نصف یومٍ" حضرت معاویہ کے ہیں، اور آپ نے یہ الفاظ قسطنطنیہ میں کہے تھے، تاکہ حضرت معاویہ کا قسطنطنیہ میں جانا ثابت کیا جائے۔ حالانکہ یہ الفاظ حضرت ابو ثعلبہ خشنی کے ہیں، اور جبیر بن نفیر نے یہ الفاظ ابوثعلبہ سے سنے ہیں۔ جبکہ یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے۔
حدیث کا صحیح ترجمہ
''عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ (جبیر بن نفیر) سے وہ ابو ثعلبہ خشنی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے معاویہؓ کے دورِ خلافت میں اس (ابوثعلبہ خشنی) سے قسطنطنیہ میں سنا، اور معاویہؓ نے لوگوں کو قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لئے روانہ کیا تھاکہ بے شک اللہ تعالیٰ اس اُمّت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجز نہیں کرے گا۔''
جملہ معترضہ
"وکان مُعَاویة غزا الناس بالقسطنطینیة" (اور معاویہ نے لوگوں کو قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لئے روانہ کیا تھا۔'' یہ جملہ معترضہ ہے۔ اس سے پہلے والے الفاظ اور بعد والے الفاظ کا ترجمہ ملا کر پڑھا جائے تو پوری بات واضح ہو جاتی ہے۔ اور مولانا دامانوی صاحب نے "وَکَانَ معاویةُ غزا الناس بالقسطنطینیة" کا ترجمہ بھی غلط کیا ہے کہ ''معاویہؓ لوگوں کو قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لئے روانہ کر رہے تھے''جبکہ صحیح ترجمہ وہ ہے جو ہم نے اوپر کیا ہے، کیونکہ "کَانَ غَزَا" ماضی بعید ہے اور اس کا ترجمہ مولانا نے زمانہ ماضی استمراری میں کیا ہے جو بالکل غلط ہے اور علما اس سے خوب واقف ہیں۔ دامانوی صاحب کی (مسند احمد سے) پیش کردہ صحیح حدیث کے ترجمہ سے ہمارے پیش کردہ ترجمہ کی تصدیق ہوتی ہے۔
''سیدنا جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کے صحابی سیدنا ابو ثعلبہ خشنی کو اس وقت فرماتے سنا جب کہ وہ خیمہ میں تھے اور یہ معاویہؓ کی خلافت کا زمانہ تھا۔''41
دامانوی صاحب نے حسب سابق اس حدیث کے آخری حصہ کان معاویة أغزی الناس القسطنطینیة کا ترجمہ یوں کیا: ''سیدنا معاویہ اس وقت لوگوں کو قسطنطنیہ پر لشکر کشی کے لئے روانہ فرما رہے تھے''حالانکہ درست ترجمہ ''روانہ فرمایا تھا''ہے۔ مولانا دامانوی صاحب کے پیش کردہ ترجمہ سے سیدنا معاویہ کے قسطنطنیہ میں موجود ہونے کا مغالطہ پڑتا ہے، لیکن صحیح ترجمہ سے یہ مغالطہ نہیں پڑتا۔
مزید تعجب یہ ہے کہ مولانا دامانوی صاحب نے عبداللہ بن صالح کی ضعیف حدیث کی متابعت میں ایک صحیح حدیث (جس کا ترجمہ اوپر پیش کیا گیا) مسند احمد سے پیش کی، جس کا متن (لفظًا یا معنیً) کسی طرح بھی باہم مطابقت نہیں رکھتا۔
دونوں حدیثوں کے متعلقہ الفاظ کا تقابل
ضعیف حدیث کے الفاظ: "سمعتُه، في خلافة معاویة بالقسطنطینیة" جبکہ صحیح حدیث کے الفاظ: "سمعتُ أبا ثعلبة الخشنیَّ یقول وهو بالفسطاط في خلافة معاویة" ہیں۔' قسطنطنیہ'اور ' فسطاط'میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔ لہٰذا متابعت کا قاعدہ اس پر لاگو نہیں ہوتا۔بلکہ یہاں 'المنکر'اور'المعروف'کاقاعدہ جاری ہوگا کیوں کہ ضعیف راوی نے ثقہ کی مخالفت کی ہے۔
ضعیف حدیث کا متفرد راوی ابو صالح عبداللہ بن صالح
ڈاکٹر دامانوی صاحب نے حضرت معاویہ کا قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس کے ایک راوی ابو صالح عبداللہ بن صالح کے بارے میں خود دامانوی صاحب، حافظ ابن حجر عسقلانیکے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ''وہ صَدوق ہیں، بہت غلطیاں کرنے والے ہیں...الخ''42
ابو صالح عبداللہ بن صالح کا حال ملاحظہ فرمائیے: حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ عبداللّٰہ بن صالح بن محمد بن مسلم جہنی قبیلہ جہینہ کا آزاد کردہ غلام ابو صالح مصری ،لیث (بن سعد) کا کاتب رہا ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کی تعدیل سے متعلق اگرچہ یہ الفاظ نقل کئے:
«سمعتُ عبد الملك بن شعیب بن اللیث یقول: أبو صالح ثقة مأمون قد سمع من جدّی حدیثه»43
میں نے عبدالملک بن شعیب بن سعد سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ ابو صالح ثقہ مامون ہے، اس نے میرے دادا سے حدیث سنی ہے۔
لیکن زیادہ تر محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
«عبدالله بن صالح کاتب اللیثِ کان أوّل أمره متماسکًا ثم فسد بآخره ولیس بشيء»44
لیث بن سعد کا کاتب عبداللہ بن صالح شروع شروع میں حدیث سے تمسّک رکھنے والا تھا، پھر آخر میں اس (کے حافظہ ) میں خرابی پیدا ہو گئی اور وہ کوئی چیز نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
«قال عبد الله بن أحمد: سالتُ أبي عنه فقال کان أوّل أمره متماسکًا ثم فسد بآخره، و لیس هو بشيء. قال وسمعت أبي ذکره یومًا فذمّه، وکرهه، و قال: إنه روي عن اللیث عن ابن أبي ذئب وأنکر أن یکون اللیث سمع من ابن أبي ذئب، وقال أحمد بن صالح المصري: أخرج أبو صالح درجًا قد ذهب أعلاه وَلَمْ یُدْرَ حدیث من هو؟ فقیل له: هذا حدیث ابن أبي ذئب، فرواه عن اللیث عن ابن أبي ذئب، قال أحمد ولا أعلم أحدًا روٰى عن اللیث عن ابن أبي ذئب إلا أبا صالح»45
امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے کہا: میں نے اپنے ابّا جی سے اس (عبداللہ بن صالح) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: کہ شروع شروع میں وہ (حدیث سے) تمسّک کرنے والا تھا، پھر آخر میں اس (کے حافظہ) میں خرابی پیدا ہو گئی، اور وہ کوئی چیز نہیں ہے۔ عبداللہ بن احمد نے کہا کہ ایک دن میں نے اپنے والد کو اس کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا۔ آپ نے اس کی مذمّت کی اور اس سے کراہت کی، اور فرمایا کہ اس نے لیث کے واسطہ سے ابن ابی ذئب سے روایت کیا، اور احمد بن حنبل نے اس کا انکار کیا کہ لیث نے ابن ابی ذئب سے کچھ سنا ہے۔احمد بن صالح مصری نے کہا کہ ابو صالح (عبداللہ بن صالح) نے ایک رجسٹر نکالا جس کا اوپر کا حصہ ضائع ہو چکا تھا اور یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ حدیث کس کی ہے؟ عبداللہ بن صالح سے کہا گیا کہ یہ ابن ابی ذئب کی حدیث ہے، تو اس نے اس کو لیث کے واسطہ سے ابن ابی ذئب سے روایت کر دیا۔ احمد نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ عبداللہ بن صالح کے سوا کسی نے اس حدیث کو لیث کے واسطہ سے ابن ابی ذئب سے روایت کیا ہو۔
حافظ ابن حجر مزید لکھتے ہیں:
«قال صالح بن محمد: کان ابن معین یوثقه، و عندي انه کان یکذب في الحدیث، و قال ابن المدیني: ضربت على حدیثه، وما اَرْوِی عنه شیئًا، وقال أحمد بن صالح: متهم لیس بشيء، و قال النسائي: لیس بثقةٍ، و قال سعید البرذعي: قلتُ لأبي زرعة أبو صالح کاتب اللیث فضحك، وقال ذاك رجل حسن الحدیث»46
صالح بن محمد نے کہا کہ یحییٰ بن معین عبداللہ بن صالح کو ثقہ قرار دیتے تھے۔ میرے ہاں یہ ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹ کہا کرتے تھے۔ ابن مدینی نے کہا کہ میں اس کی روایت کو دفع کرتا ہوں اور میں اس سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا ہوں؛ اور احمد بن صالح نے کہا کہ وہ متہم ہے اور وہ کوئی چیز نہیں؛ امام نسائی نے فرمایا کہ وہ ثقہ نہیں ہے؛ سعید برذعی نے کہا کہ میں نے ابوزرعہ سے کہا کہ لیث کا کاتب ابوصالح کیسا ہے؟ تو آپ ہنس پڑے اور کہا کہ وہ شخص اچھی حدیث والا ہے۔
ابن حجر عسقلانی مزید لکھتے ہیں:
«قال ابن عدي: هو عندي مستقیم الحدیث إلا انه یقع في حدیثه في أسانیده و متونه غلط ولا یتعمد الکذب»47
ابن عدی نے کہا کہ وہ میرے ہاں مستقیم الحدیث ہے مگر اس کی حدیث میں، اس کی اسانید و متون میں اغلاط ہیں۔ وہ عمدًا جھوٹ نہیں بولتا۔
سابقہ حدیث کی متابعت میں پیش کردہ روایت مع مکمل سند پیش خدمت ہے:
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
«حدثنا هاشم قال حدثنا لیث عن معاویة بن صالح عن عبدالرحمٰن بن جبیر عن أبیه قال سمعتُ أبا ثعلبة الخشني صاحب رسول الله ﷺ أنه سمعه یقول وهو بالفسطاط في خلافة معاویة، و کان معاویة أغزی الناس القسطنطینیة، فقال: والله لا تَعْجِزُ هذه الأمة من نصف یوم إذا رأیتَ الشامَ مائدةَ رجل واحدٍ و أهل بیته فعند ذلك فتح القسطنطینیة»48
محترم ڈاکٹر دامانوی صاحب نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:
سیدنا جبیر بن نضیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابی سیدنا ابو ثعلبہ خشنی کو اس وقت فرماتے سنا جب کہ وہ خیمہ میں تھے اور یہ معاویہؓ کی خلافت کا زمانہ تھا اور سیدنا معاویہؓ اس وقت لوگوں کو قسطنطنیہ پر لشکر کشی کے لئے روانہ فرما رہے تھے۔ پس اُنہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اس اُمت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجز نہیں کرے گا اور جب تو شام میں ایک شخص اور اس کے گھر والوں کے لیے ایک دستر خوان دیکھے تو اس وقت قسطنطنیہ فتح ہوگا۔
درج بالا حدیث میں 'اُنہوں نے فرمایا'سے مراد حضرت ابو ثعلبہ خشنی ہیں۔جیسا کہ آپﷺ سے یہ حدیث مرفوعاً بھی مروی ہے:
حدثنا موسٰى بن سهل: حدثنا حجاج بن إبراهیم: حدثنا ابن وهب: حدثني معاویة بن صالح عن أبي ثعلبة الخشني قال: قال رسول الله ﷺ: «لن یُّعْجِزَ اللهُ هٰذهِ الأمّة مِن نصف یوم»49
محترم جناب ڈاکٹر دامانوی صاحب کی پیش کردہ، مسند احمد کی مندرجہ بالاحدیث سے حضرت معاویہ کا قسطنطنیہ میں جانا سرے سے ثابت نہیں ہوتا، لہٰذا ان کی یہ دلیل بھی تارِ عنکبوت ثابت ہوئی۔
متابعت کا دعویٰ
محترم جناب ڈاکٹر دامانوی صاحب لکھتے ہیں کہ ''عبداللہ بن صالح اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں بلکہ مسند احمد میں لیث بن سعد نے اُن کی متابعت کر رکھی ہے، اور لیث ثقہ، ثبت فقیہ اور مشہور امام ہیں، اور صحاحِ ستہ کے راوی ہیں، لہذا یہ روایت صحیح ہے۔''
تنقیدی جائزہ: ہمیں لیث بن سعد کے بارے میں مکمل اعتماد ہے کہ وہ ثقہ، ثبت اور امام ہیں، صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ لیکن متابعت کی شرائط یہاں موجود نہیں ہیں۔ آئیے نخبۃ الفکر کا مطالعہ کریں... حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
«والمتابعة علىٰ مراتب: ان حصلت للراوی نفسه فهي التامة، و إن حصلت لشیخه فمن فوقه، فهو القاصرة ویستفاد منها التقویة. مثال المتابعة التامة ما رواه الشافعي في الأم، عن مالك عن عبد الله بن دینار عن ابن عمر أن رسول الله ﷺ قال: «الشهر تسع وّعشرون، فلا تصوموا حتی تروا الهلال، ولاتفطروا حتی تروه، فإن غمّ علیکم فأکملوا العدة ثلاثین». فهذا الحدیث بهذا اللفظ ظنّ قوم أن الشافعي تفرّد به عن مالك، فعدّوه في غرائبه لِأنَّ أصحاب مالك رَوَوْهُ عنه بهٰذا الأسناد بلفظ: فإن غمّ علیکم فاقدروْا لَه، لکن وجدنا للشافعي متابعًا وهو عبد الله بن مسلمة القعنبي، کذلك أخرجه البخاري عنه عن مالك وهٰذه متابعة تامة. ووجدنا له أیضًا متابعةً قاصِرة في صحیح ابن خزیمة من روایة عاصم بن محمد، عن أبیه محمد بن زید عن جده عبد الله بن عمر بلفظِ: «فکمِّلوا ثلاثین» و في صحیح مسلم مِن روایة عبید الله بن عمر عن نافع عن ابن عمر بلفظ «فاقدروا ثلاثین». ولا اقتصار في هذه المتابعة سواءً کانت تامة أو قاصرة علىٰ اللفظ بل لو جاءت بالمعنى لکفى»50
''متابعت کے کئی مراتب ہیں: اگر خود راوی کو یہ متابعت حاصل ہو جائے تو یہ متابعتِ تامہ ہے، اور اگر اس کے شیخ کو حاصل ہو تو یہ متابعتِ قاصرہ ہے۔ اور اس سے تقویت مقصود ہوتی ہے۔ متابعتِ تامہ کی مثال جیسے کہ امام شافعی نے (اپنی کتاب)'الامّ' میں مالک سے روایت کیا، اُنہوں نے عبداللہ بن دینار سے، اُنہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مہینہ اُنتیس دن کا ہوتا ہے، اس لئے روزہ نہ رکھو جب تک تم ہلال نہ دیکھ لو، اور نہ تم افطار کرو جب تک کہ تم اس (ہلال) کو نہ دیکھ لو۔ پس اگر تم پر اَبر کی وجہ سے پوشیدہ ہو جائے تو تم تیس دن پورے کرو۔'' ایک قوم کا خیال تھا کہ اس حدیث کو انہی لفظوں کے ساتھ امام شافعی، امام مالک سے روایت کرنے میں متفرد ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اس (حدیث) کو غرائبِ شافعی میں شمار کیا، کیونکہ امام مالک کے باقی شاگردوں نے اس حدیث کو اس سند کے ساتھ ان لفظوں «فَاِنْ غمّ علیکم فاقدروا له» ''پس اگر ابر کی وجہ سے تم پر ہلال پوشیدہ ہو جائے تو تم اس کے لئے اندازہ لگا لو۔'' کے ساتھ روایت کیا، لیکن ہم نے شافعی کا ایک مُتابِع پا لیا، اور وہ عبداللہ بن مسلمہ قعنبی ہیں۔ امام بخارینے اُن سے اور انہوں نے امام مالک سے ایسے ہی «فإن غمّ علیکم فأکملوا العدة ثلاثین» روایت کیا، اور یہ متابعتِ تامّہ ہے۔ نیز ہم نے ان کے لئے متابعتِ قاصرہ بھی پا لی جو کہ صحیح ابن خزیمہ میں عاصم بن محمد کی روایت ہے۔ اُنہوں نے اپنے والد محمد بن زید سے، انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن عمر سے «فکمّلوا ثلٰثین» لفظوں کے ساتھ روایت کیا۔ اور صحیح مسلم میں عبیداللہ بن عمر سے، اُنہوں نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر سے «فاقدروا ثلثین» لفظوں کے ساتھ روایت کیا۔ اور اس متابعت میں، خواہ یہ تامّہ ہو یا قاصرہ، الفاظ پر ہی انحصار نہیں ہوتا بلکہ اگر معنوی متابعت بھی پائی جائے تو کافی ہے۔''
ڈاکٹر دامانوی صاحب نے جو حدیث عبداللہ بن صالح کی روایت سے نقل کی ہے اس میں زیر بحث لفظ قسطنطینية ہے،اور اس کی متابعت میں آپ نے جو حدیث لیث کی روایت سے نقل کی ہے اس میں قسطنطینية کی بجائے الفسطاط(خیمہ) ہے۔ کیا کوئی عقلمند اِن دونوں لفظوں کو ہم معنیٰ قرار دے سکتا ہے؟
نخبۃ الفکر کی مندرجہ بالا عبارت میں امام مالک سے امام شافعی کے روایت کئے ہوئے الفاظ فاکملوا العدة ثلٰثین تھے، جبکہ امام مالک کے دیگر بہت سے شاگردوں نے امام مالک سے فاقدروا له روایت کیا، لہذا بعض لوگوں کا خیال تھا کہ امام شافعی ان لفظوں کے ساتھ امام مالک سے روایت کرنے میں متفرد ہیں۔ لیکن ہمیں امام شافعی کا مُتابِع عبداللہ بن مسلمہ قعنبی مل گیا جو کہ امام بخاری کا اُستاذ ہے۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں اُن سے اور اُنہوں نے امام مالک سے فإن غمّ علیکم فأکملوا العدة ثلثین51 روایت کی ہے۔ دیکھئے دونوں جگہ لفظوں میں کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا معنیٰ میں بھی کوئی فرق نہیں ہے، اور یہ متابعتِ تامّہ ہے۔ جبکہ امام شافعی کو صحیح مسلم میں فاقدروا ثلٰثین اور صحیح ابن خزیمہ میں فکمّلوا ثلٰثین متابعتِ قاصرہ بھی حاصل ہوگئی ہے۔
اس ساری بحث کے بعد یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ڈاکٹر دامانوی صاحب کی پیش کردہ دونوں حدیثوں میں معاویہ بن صالح کے دونوں شاگردوں: عبداللہ بن صالح اور لیث کا معاملہ متابعت کے زمرہ میں نہیں آتا بلکہ 'المنکر اور المعروف'سے تعلق رکھتا ہے۔ 'المنکر'حدیث، ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے۔ اس کے مقابلہ میں المعروف، صحیح حدیث ہوتی ہے۔
المنکَرکی تعریف
اس کی تعریف کرتے ہوئے، حافظ ابن الصلاح، حافظ ابوبکر احمد بن ہارون بردیجی برذعی (م۳۰۱ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
«إنه الحدیث الذي ینفرد به الرجل ولا یعرف متنه مِن غیر روایته، لا من وجه الذي رواه منه، ولا مِن وجه آخرَ»52
'المنکر' ایسی حدیث ہے جسے ایک ہی شخص روایت کر رہا ہو، اور اس حدیث کا متن اس (شخص) کی روایت سے نہ پہچانا جاتا ہو، نہ اس سند سے جس (سند) سے اس نے یہ حدیث روایت کی ہو، اور نہ ہی یہ(متن)کسی اور سند سے پہچانا جاتا ہو (اسے منکر کہا جاتا ہے)۔''
امام مسلم (م ۳۶۱ھ) اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
«علامة المنکر في حدیث المحدث، إذا ما عُرِضتْ روایته للحدیث علىٰ روایة غیره من أهل الحفظ والرضا، خالفتْ روایتُه، روایتَهُم أو لَمْ تکدْ توافقها، فإذا کانت الأغلب مِن حدیثه کذلك، کان مهجور الحدیث، غیرَ مقبوله ولا مستعمله»53
''محدث کی حدیث میں 'المنکر ' کی علامت یہ ہے کہ جب اس کا حدیث روایت کرنا، اس کے علاوہ اہل حفظ و رضا (عدل و ضبط والے محدثین) کے حدیث روایت کرنے پر پیش کیا جائے تو یہ ان کی روایت کے مخالف ٹھہرے یا ان سے موافقت نہ کر سکے۔ جب اس کی (روایت کی ہوئی) حدیث زیادہ تر ایسی ہو، تو ایسے شخص کی حدیث چھوڑ دی جائے گی۔ نہ اسے قبول کیا جائے گا اور نہ ہی اس پر عمل ہوگا۔''
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
«وَإِنْ وَقَعَتِ المخالفة مع الضعْف، فالراجح یقال له المعروف. ومقابله یقال له المنکر»54
اور اگر (قوی) روایت، ضعیف (روایت) کے مخالف ہو، تو راجح کو'المعروف ' اور اس کے مقابل (یعنی مرجوح) کو'المنکر ' کہا جائے گا۔
مثال: کتب اصولِ حدیث میں 'المنکر'کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ یہاں اختصار کے پیش نظر صرف ایک مثال ذکر کی جاتی ہے: امام ابن ابی حاتم (م۳۲۷ھ) حُبَیْب بن حَبِیْب کے طریق سے عن أبي إسحاق عن عیزار بن حُریث عن ابن عباس عن النبي ﷺ قال: «من أقام الصلوة وآتى الزکوة وحج وصام وقری الضیف دخل الجنة»55 مرفوع روایت کیا، جبکہ اس (حُبَیْب بن حبیب) کے سوا بعض ثقات نے اس حدیث کو ابو اسحٰق سے موقوف روایت کیا، اور موقوف روایت کی ہوئی حدیث معروف ہے۔'' لہٰذا ابو اسحٰق سے حبیب بن حبیب کی مرفوع روایت کی ہوئی حدیث منکر ٹھہری۔
یہی حال ڈاکٹر دامانوی صاحب کی پیش کردہ عبداللّٰہ بن صالح عن معاویہ کی روایت کی ہوئی حدیث کا ہے۔ یہ حدیث 'المنکر'ہے جبکہ اس کے خلاف 'لیث عن معاویہ'کی روایت کی ہوئی حدیث 'المعروف'ہے۔ اس لئے عبداللہ بن صالح کی قسطنطینية والی روایت ضعیف ٹھہری۔ والحمد لله علىٰ ذلك
کیا قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا؟
مولانا ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی، سیدنا معاویہ ؓ کا قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ ثابت کرنے کے لئے لکھتے ہیں کہ ''سیدنا معاویہ کے قسطنطنیہ پر ایک اور حملہ کی نشاندہی سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی اس روایت سے ہوتی ہے: عبداللہ بن عباسؓ، سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: إن أبا أیوب...الخ56
تنقیدی جائزہ: مولانا کی پیش کردہ عبداللہ بن عباس کی یہ روایت جسے آپ نے مستدرک حاکم اور المعجم الکبیر کے حوالے سے بلا سند نقل کیا ہے، ہم اسے اس کی سند سمیت ذیل میں نقل کرتے ہیں تاکہ اس روایت کا ضعیف ہونا واضح ہو سکے اور مولانا کا ہی کیا ہوا ترجمہ نقل کریں گے تاکہ مولانا کے ترجمہ کی اغلاط کی نشاندہی بھی ہو سکے۔
امام حاکم کہتے ہیں:
«حدثنا أبو محمّد أحمد بن عبد الله المزني، ثنا محمد بن عبد الله المخرمي، ثنا أبو کریب، ثنا فِردوس الأشعري، ثنا مسعود بن سلیم عن حبیب بن أبي ثابت عن محمد بن علي بن عبد الله بن عباس عن أبیه عن ابن عباس، إن أبا أیوب خالد بن زید الذي کان رسول الله ﷺ نزل في داره غزا أرض الروم فمرّ علىٰ معاویة فجفاه معاویة ثم رجع مِن غزوته فجفاه ولم یرفع به رأسًا، قال أبو أیوب: إنّ رسول الله ﷺ اَنْبَأَنَا: إنّا سنرٰی بعده اِثرةً، قال معاویةُ: فما أمرکم؟ فقال أمرنا أنْ نَّصْبِرَ، قال: فاصْبروا»57
اس حدیث کی دوسری سند اس طرح ہے... امام طبرانی فرماتے ہیں:
«حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا أبو کریب، ثنا فردوس بن الأشعري، ثنا مسعود بن سلیمان، حدثنا حبیب بن أبي ثابت، عن محمد بن علي بن عبد الله بن عباس عن ابن عباس رضی الله عنهما إن أبا أیوب...الخ»58
مستدرک حاکم اور معجم کبیرازطبرانی کی ان سندوں میں اختلاف کی کیفیت
۱۔ مستدرک حاکم میں فردوس اشعری، اور معجم طبرانی میں فردوس بن الاشعری
۲۔ مستدرک حاکم میں مسعود بن سلیم، اور معجم طبرانی میں مسعود بن سلیمان
۳۔ مستدرک حاکم میں محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس عن ابیہ عن ابن عباس، اور معجم طبرانی میں محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس عن ابن عباس ہے۔
جبکہ کتبِ جرح و تعدیل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ 1۔ فردوس بن الاشعری کی بجائے فردوس الاشعری صحیح ہے۔ 2۔مسعود بن سلیم کی بجائے مسعود بن سلیمان صحیح ہے۔3۔مستدرک حاکم کے مطابق 'عن ابیہ عن ابن عباس' میں اتصال پایا جاتا ہے یعنی محمد بن علی، اپنے باپ علی سے، وہ اپنے باپ عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں۔ اور معجم طبرانی کے مطابق 'محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس عن ابن عباس'میں انقطاع پایا جاتا ہے۔ کیونکہ محمد بن علی کی اپنے دادا عبداللہ بن عباس سے ملاقات اورسماع ثابت نہیں ہے۔ امام مسلملکھتے ہیں:« لا یعلم له سماع من جده ولا انه لقیه»59
''اس کا اپنے دادا (ابن عباس) سے سماع معلوم نہیں اور نہ ہی اس سے ملاقات ہوئی''
عبداللہ بن عباس کی روایت کے رواۃ پر جرح
18. فردوس اشعری: یہ ایک مجہول راوی ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانیلکھتے ہیں:
«''مسعود بن سلیمان عن حبیب بن أبي ثابت، و عنه فردوس الأشعري مجهول''»60
''مسعود بن سلیمان، حبیب بن ابی ثابت سے اور اس سے فردوس اشعری (روایت کرتا ہے) اور یہ مجہول ہے۔''
19. مسعود بن سلیمان راوی کے بارے میں ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:
«مسعود بن سلیمان روي عن حبیب بن أبي ثابت، روى عنه أبو الحسن الأسدي، نا عبد الرحمٰن قال: سألتُ أبي عنه فقال مجهولٌ»61
مسعود بن سلیمان نے حبیب بن ابی ثابت سے روایت کیا ہے (یعنی مسعود حبیب بن ابی ثابت کا شاگرد ہے)، اس کے بارے میں ابوالحسن اسدی نے روایت کیا کہ ہمیں عبدالرحمٰن (ابن ابی حاتم) نے خبر دی کہ میں نے اپنے باپ (ابو حاتم) سے اس کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا کہ یہ مجہول ہے۔
t اس روایت کا ایک اہم راوی حبیب بن ابی ثابت ہے۔ یہ اگرچہ ثقہ ہے، لیکن یہ مدلِّس راوی ہے۔ اس کی تدلیس کے ثبوت میں محدثین کے اقوال پیش کئے جاتے ہیں:
1۔ قال ابن خزیمة: إنَّ حبِیْبَ بْنَ أبي ثابتٍ مدلِّسٌ
ابن خزیمہ نے کہا کہ حبیب بن ابی حبیب مدلّس ہے۔
2۔قال ابن حبان: حبیب بن أبي ثابت کان یدلِّسُ
ابن حبان نے کہا کہ حبیب بن ابی ثابت تدلیس کیا کرتا تھا۔
3۔قال البیهقي: حبیب بن أبي ثابت وان کان من الثقات فقد کان یدلِّسُ62
بیہقی نے کہا:حبیب بن ابی ثابت اگرچہ ثقات میں سے تھا،پر وہ تدلیس کیا کرتا تھا۔
حبیب بن ابی ثابت نے یہ روایت محمد بن علی بن عبداللہ سے 'عن' کے ساتھ روایت کی ہے اور سماع کی وضاحت موجود نہیں ہے لہٰذا تدلیس کی وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں ۔
امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں ایک اور منقطع السند روایت تخریج کی ، آپ فرماتے ہیں:
«حدثنا محمّد بن عبد الله الحضرمي حدثنا أبو کریب، حدثنا إسحٰق بن سلیمان عن أبي سلیمان عن حبیب بن أبي ثابت قال قدم أبوأیوب علىٰ معاویة رحمهما الله فشکا إلیه أن علیه دینًا فذکر الحدیث»63
اس حدیث کی سند پر بحث کرتے ہوئے امام ہیثمی لکھتے ہیں :
«فذکر الحدیث بإسنادین ورجال أحدهما رجال الصحیح إلاّ أنّ حبیب بن أبي ثابت لم یسمع من أبي أیوب»64
امام طبرانی نے یہ حدیث دو سندوں کے ساتھ ذکر کی ہے، جن میں سے ایک کے رجال ، صحیح ( صحیح بخاری) کے رجال ہیں ، لیکن حبیب بن ابی ثابت کا ابو ایوب سے سماع ثابت نہیں ہے۔