عقیقہ کے احکام ومسائل

وجہ تسمیہ
عقیقہ کے وجہ تسمیہ میں علما کے کئی اقوال ہیں:
1.  حافظ ابن حجربیان کرتے ہیں کہ ''عقیقہ نو مولود کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور کا نام ہے اور اس کے اشتقاق میں اختلاف ہے۔ چنانچہ ابو عبید اور اصمعی کہتے ہیں:
«أَصْلُهَا الشَّعْرُ الَّذِي یَخْرُجُ عَلى رَأْسِ الْمَوْلُوْدِ»
"عقیقہ دراصل مولود کے سر کے وہ بال ہیں، جو ولادت کے وقت اس کے سر پر اُگے ہوتے ہیں۔ "
علامہ زمخشری وغیرہ کا بیان ہے:
«"وَسُمِّیَتْ الشَّاةُ الَّتِی تُذْبَحُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْحَالَةِ عَقِیْقَةً لِأَنَّهُ یُحْلَقُ عَنْهُ ذَلِكَ الشَّعْرُ عِنْدَ الذَّبْحِ"»
" پیدائش کے بالوں کی موجودگی میں مولود کی طرف سے ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ سے موسوم کیا جاتا ہے، کیونکہ ذبح کے وقت یہ بال مونڈھے جاتے ہیں۔"
امام خطابی بیان کرتے ہیں:
«"اَلْعَقِیْقَةُ اسْمُ الشَّاةِ الْمَذْبُوْحَةِ عَنِ الْوَلَدِ، سُمِّیَت بِذَلِكَ لِأَنَّهَا تُعَقُّ مَذَابِحُهَا أی تُشَّقُّ وَ تُقْطَعُ» 1"نومولود کی طرف سے ذبح کی ہوئی بکری کو عقیقہ کہا جاتا ہے، کیونکہ ( نو مولود کی ولادت پر) اُس کی رگیں کاٹی جاتی ہیں۔ "
2.  امام شوکانی بیان کرتے ہیں:
«"اَلْعَقِیْقَهُ الذَّبِیْحَةُ اَلَّتِي تُذْبَحُ لِلْمُوْلُوْدِ وَالْعَقُّ فِي الْأَصْلِ: الشَّقُّ وَالْقَطْعُ، وَسَبَبُ تَسَمِیْتِهَا بِذٰلِكَ أَنَّهُ یُشَّقُّ حَلْقُهَا بِالَّذَبْحِ وَقَدْ یُطْلَقُ اسْمُ الْعَقِیْقَةِ عَلى شَعْرِ الـْمَوْلُوْدِ"»2
"عقیقہ وہ ذبیحہ ہے، جو نو مولود کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔ اصل میں عَقَّ کا معنی پھاڑنا اور کاٹنا ہے اور عقیقہ کو عقیقہ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ذبح کے وقت ذبیحہ کا حلق کاٹا جاتا ہے، نیز کبھی عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں پر بھی ہوتا ہے۔"
الغرض عقیقہ کی بحث میں قول فیصل یہ ہے کہ عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں اور اس کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور، دونوں پر ہوتا ہے اور عقیقہ سے مقصود پیدائش کے ساتویں دن نومولود کے بال مونڈھنا اور اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا ہے۔
عقیقہ کو' نسیکہ' یا 'ذبیحہ' کہنا مستحب وافضل ہے!
عقیقہ کے بجائے نسیکہ یا ذبیحہ کا لفظ استعمال کرنا افضل ہے اورنو مولود کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور کو نسیکہ یا ذبیحہ کہنا مستحب اور عقیقہ سے موسوم کرنا مکروہ ہے، جس کی دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے جس میں عبد اللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں :
«سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنِ الْعَقِیْقَةِ؟ فَقَالَ: «لَا یُحِبُّ اللهُ الْعُقُوْقَ، کَأَنَّهُ کَرِهَ الإِْسْمَ»، وَقَالَ: «مَنْ ُولِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ، عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ مکَافَئَتَانِ وَعَنِ الْجَارِیَةِ شَاةٌ»3
''نبیﷺ سے عقیقہ کے بارے سوال ہو تو آپﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ (لفظ) عقوق ( نافرمانی) کو نا پسند کرتا ہے، گویا آپﷺ نے ( یہ نام) مکروہ خیال کیا، اور آپﷺ نے فرمایا: "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہے تو وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرے، لڑکے کی طرف سے برابر دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔''
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ
1. عقیقہ کے متعلق سوال پر آپﷺ کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ عقوق (نافرمانی) کو نا پسند کرتا ہے، میں اشارہ ہے کہ ( نومولود کی جانب سے ذبح کیے جانے والے جانور) کا نام عقیقہ مکروہ ہے کیونکہ عقیقہ اور عقوق (مادہ) ایک ہے۔ اور اس جملے «فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ» میں توضیح ہے کہ لفظ عقیقہ کو نسیکہ سے تبدیل کر دیا جائے۔ (یعنی عقیقہ کو نَسِیکہ کہا جائے)۔4
2.  علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مسئلہ عقیقہ کی توہین اور اس فعل کا سقوط مقصود نہیں، بلکہ اس سے تو یہ مراد ہے کہ آپﷺ نے اس فعل کے عقیقہ نام کو ناپسند کیا ہے اور یہ بتلایا کہ اس کا اس سے کوئی اچھا نام یعنی نسیکہ یا ذبیحہ رکھا جائے۔5
عقیقہ کا حکم
عقیقہ آیا واجب ہے، سنّتِ موٴکدہ یا مکروہ عمل ہے؟ اس بارے علماء کے مختلف مذاہب ہیں، ذیل میں ہم ان مذاہب ہر مذہب کے دلائل، پھر راجح مذہب کی نشاندہی کریں گے :
مذہب اوّل : حسن بصری، داؤد ظاہری اور ظاہریہ کا مذہب ہے کہ عقیقہ واجب ہے۔6 جس کے دلائل حسبِ ذیل احادیث ہیں:
1. سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
«کُلُّ غُلاَمٍ رَهِیْنَةٌ بِعَقِیْقَةِ، تُذْبَحُ عَنْهُ یَوْمَ سَابِعِهِ وَیُحْلَقُ وَ یُسَمَّی»7
"ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے ( عقیقہ) ذبح کیا جائے، اُس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔"
امام خطابی بیان کرتے ہیں کہ ''اس حدیث کے مفہوم کے بارے علما کا اختلاف ہے، چنانچہ احمد بن حنبل کے مطابق اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس بچے کا عقیقہ نہ ہو اور وہ بچپن میں فوت ہو جائے تو وہ روزِقیامت اپنے والدین کی شفاعت نہیں کرے گا اور دوسرے قول کے مطابق اس سے مقصود یہ ہے کہ عقیقہ بہر صورت لازم ہے۔ اور نومولود کے لیے عقیقہ ایسے لازم ہے، جیسے مُرتہن(قرض کے عوض گروی رکھنے والا) کے ہاتھ میں گروی چیز لازم ہوتی ہے (یعنی جیسے گروی چیز حاصل کرنے کے لیے قرض خواہ کو قرض لوٹانا لازم ہے، اسی طرح نو مولود کیلئے عقیقہ لازم ہے) اور یہ قولِ ثانی وجوبِ عقیقہ کے قائلین کے موقف کو قوت دیتا ہے۔ ''8
2. سلمان بن عامر ضبیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :
«مَعَ الْغُلاَمِ عَقِیْقَةٌ فَأَهْرِیقُوَا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِیْطُوْا عَنْهُ الْأَذَی»9
"ہر بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، سو اس کی طرف سے خون بہاؤ (عقیقہ کرو) اور اس سے گندگی محو کرو ( یعنی سر کے بال مونڈھ دو)۔"
3.  سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں:
«أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ نَعُقَّ عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَیْنِ، وَعَنِ الْجَارِیَةِ شَاةً»10
"رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں۔"
یہ احادیث دلیل ہیں کہ نو مولود کی طرف سے عقیقہ واجب ہے، کیونکہ عقیقہ کرنے کا حکم وارد ہوا ہے، نیز "رَهِیْنَةٌ " ( بچہ عقیقہ کے عوض گروی ہے) کے الفاظ نص ہیں کہ عقیقہ واجب ہے اور اسے کسی بھی صورت استحباب پر محمول نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جیسے گروی چیز کو قرض ادا کیے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے، اسی طرح نو مولود کی پیدائش کے شکریہ کی ادائیگی کے لیے عقیقہ لازم و واجب ہے۔
مذہبِ ثانی: جمہور علماے کرام کا موقف ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔11 امام ابن قدامہ حنبلیبیان کرتے ہیں:
«وَالْعَقِیْقَةُ سُنَّةٌ فِي قَوْلِ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ وَفُقَهَاءِ التَّابِعِیْنَ وَأَئِمَّةِ أَهْلِ الْأَمْصَارِ»12
"اکثر اہل علم مثلاً ابن عباس، ابن عمر، عائشہ ، فقہاے تابعین﷭ اور ائمہ کا قول ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔"
حافظ ابن قیم الجوزیۃ کا بیان ہے :
«فَأَمَّا أَهْلُ الْحَدِیْثِ قَاطِبَةً، وَفُقَهَاءُهُمْ وَجَمْهُوْرُ أَهْلِ السُّنَّةِ فَقَالُوْا: هِيَ مِنْ سُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِﷺ »13
"جمیع محدثین و فقہا اور جمہور اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ( عقیقہ) رسول اللہﷺکی سنت ہے۔"
ان کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی سابقہ حدیث ہے،وہ بیان کرتے ہیں :
«سُئِلَ النَّبِیُّ ﷺ عَنِ العَقِیْقَةِ، فَقَالَ: «لاَ یُحِبَّ اللهُ الْعُقُوْقَ، کَأَنَّهُ کَرِهَ الإِْسْمَ» وَقَالَ: مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ»14
"نبیﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ عقوق کو نا پسند کرتا ہے، گویا آپﷺ نے یہ نام ( عقیقہ) نا پسند کیا۔ پھر فرمایا : "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے نسیکہ (جانور ذبح ) کرنا چاہے تو نسیکہ کرے۔"
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ
1. امام شوکانیؓ بیان کرتے ہیں: حدیث میں: «مَنْ أَحَبَّ» کے الفاظ سے عقیقہ میں اختیار دینا وجوب کو ختم کرتا ہے اور اس کو استحباب پر محمول کرنے کو متقاضی ہے۔15
2.  حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں: اس حدیث میں«مَنْ أَحَبَّ»کے الفاظ میں اشارہ ہے کہ عقیقہ کرنا واجب نہیں بلکہ سنتِ موٴکدہ ہے۔16
3.  امام مالکبیان کرتے ہیں: «وَلَیْسَتِ الْعَقِیْقَةُ بِوَاجِبَةٍ، وَلَکِنَّهَا یُسْتَحَبَّ الْعَمَلُ بِهَا، وَهِیَ مِنَ الْأَمْرِ الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ عَلَیْهِ النَّاسُ عِنْدَنَا»17
"عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب عمل ہے اور ہمارے ہاں ہمیشہ سے لوگ اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔"
مذہب ثالث : ابو حنیفہ اور احناف کا مذہب ہے کہ عقیقہ نہ واجب ہے، نہ سنت بلکہ جاہلیت کی ایک رسم ہے۔18
علماے احناف کی دلیل گزشتہ روایت کے یہ الفاظ ہیں :
«لاَ یُحِبُّ اللهُ الْعُقُوْقَ» (اللہ تعالیٰ عقوق کو ناپسند کرتے ہیں)
راجح موقف
عقیقہ واجب ہے، یہی موقف راجح اور اقرب الیٰ الصواب ہے، کیونکہ جس حدیث سے جمہور علما نے عقیقہ کے استحباب کی دلیل لی ہے، اس روایت سے عقیقہ کے استحباب کی دلیل لینا درست نہیں، نیز اس روایت سے استدلال کرنے میں جمہور علما اور احناف افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں، کیونکہ سیاقِ حدیث نہ تو عقیقہ کے مکروہ ہونے پر دال ہے اور نہ اس سے عقیقہ کا وجوب ساقط ہوتا ہے، بلکہ اس حدیث میں لفظِ عقیقہ کے استعمال کو مکروہ قرار دیا گیا اور اس لفظ کے نام کی تبدیلی پر زور دیا گیا ہے کہ اس کو نسیکہ یا ذبیحہ کہا جائے، کیونکہ لفظ عقوق اور عقیقہ کا مادہ ایک ہے، لہٰذا اس اشتباہ و مماثلت کا ازالہ مقصود ہے۔ عقیقہ کی کراہت و استحباب مقصود نہیں، چنانچہ علامہ سندھی مذکورہ حدیث کی توضیح یوں بیان کرتے ہیں:
'' اس حدیث میں عقیقہ کی توہین اور اس کے وجوب کو ساقط کرنا مقصود نہیں، بلکہ آپﷺ نے محض اس (عقیقہ) نام کو نا پسند کیا ہے اوریہ پسند فرمایا کہ اس کا اس سے بہتر نام یعنی 'نسیکہ یا ذبیحہ' وغیرہ ہو۔''19
اس مسئلہ کی مزید توضیح و بیان کے لیے محدثِ شہیر حضرۃ العلام حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کا فتویٰ قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے جسے من و عن پیش کیا جاتا ہے:
عقیقہ واجب ہے یا سنّت ؟
عقیقہ کے واجب و غیر واجب ہونے میں اختلاف ہے۔ حسن بصریتابعی اور ظاہر یہ وجوب کے قائل ہیں اور جمہور کہتے ہیں، سنت ہے اور امام ابو حنیفہکہتے ہیں: "نہ فرض ہے، نہ سنت۔" امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمدکے نزدیک قربانی کے ساتھ منسوخ ہو گیا ہے اور امام ابو حنیفہسے یہ بھی روایت ہے کہ یہ جاہلیت کی رسم تھی، اسلام نے اسے مٹا دیا ہے، شاید امام ابو حنیفہکو عقیقہ کی احادیث نہ پہنچی ہوں۔ یہ تمام اقوال امام شوکانینے نیل الأوطار میں ذکر کیے ہیں۔20 امام شوکانی کا میلان جمہور کے مذہب کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے جمہور کی دلیل کے طورپر جو حدیث پیش کی ہے، اس حدیث میں «أحَبَّ» ( جو پسند کرے) کا لفظ چاہتا ہے کہ عقیقہ ضروری نہ ہو۔ مگر یہ دلیل کمزور ہے، کیونکہ دوسری احادیث سے ضروری ثابت ہوتا ہے، کیونکہ بعض روایتوں میں صیغہ امر آیا ہے۔ مثلاً
«أَهْرِیْقُوْا عَنْهُ دَمًا» "اس سے خون بہاؤ" جو وجوب کے لیے ہے اور بعض میں «رَهِیْنَةٌ» کا لفظ آیا ہے۔ جس کا معنی ہے کہ عقیقہ نہ ہو تو بچہ ماں باپ کی شفاعت نہیں کر سکتا، یا عقیقہ اس طرح لازمی ہے جیسے کوئی شے گروی ہوتی ہے اور قرض کی ادائیگی کے بغیر چھوٹ نہیں سکتی اور بعض نے اس کے معنی کیے ہیں کہ وہ گروی کی طرح بند ہے۔جب تک عقیقہ نہ کیا جائے، نہ نام رکھا جائے اور نہ بال اُتارے جائیں اور بال اُتارنے سے تو چارہ نہیں، پس عقیقہ بھی ضروری ہو گیا اور بعض روایتوں میں «أَمَرَنَا» کا لفظ آیا ہے، یعنی رسول اللہﷺ نے ہمیں عقیقہ کا حکم دیا، اس سے بھی وجوب ثابت ہوتا ہے۔ امام شوکانینیل الأوطار میں کہتے ہیں، اگرچہ یہ الفاظ وجوب کے لیے ہیں، مگر «مَنْ أَحَبَّ» کا لفظ قرینہ صارفہ ہے، اس لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ الفاظ سے وجوب مراد نہیں، بلکہ امر استحبابی ہے، لیکن امام شوکانی کا یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ امر کا صیغہ یا امر کا لفظ کبھی قرینہ کے ساتھ استحباب کے لیے آ جاتا ہے، لیکن «مَنْ أَحَبَّ» کے معنی استحباب کے لیے مشکل ہے، علاوہ اس کے «رَهِیْنَةٌ» کا لفظ استحباب کے لیے تسلی بخش دلیل نہیں۔ دیکھیے قرآن میں ہے ﴿ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠﴾ " کہہ دو، اگر تم اللّٰہ کو دوست رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اس آیت میں وہی محبت کا لفظ ہے، مگر باوجود اس کے آپﷺ کی اتباع ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح حدیثِ مذکور کو سمجھ لینا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ جیسے شرط ہوتی ہے ویسے ہی جزا کا حکم ہوتا ہے، اللہ کی محبت چونکہ ضروری ہے اس لیے آپﷺ کی اتباع بھی ضروری ہے، اسی طرح عقیقہ چونکہ ضروری ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے، اس لیے لڑکے کی طرف سے دو بکریاں(یعنی دونوں مُسنّہ) ہوں اور لڑکی کی طرف سے ایک ضروری ہے، یعنی اس سے کم نہ کرے، ہاں اگر حدیث یوں ہوتی کہ جو عقیقہ کرنا دوست رکھے تو وہ عقیقہ کرے تو پھریہ حدیث استحباب کی دلیل بن سکتی تھی،اب نہیں۔ علاوہ ازیں محبت کے لفظ سے خلوص مقصود ہے، پس اس صورت میں مطلب یہ ہو گا، جو اخلاص سے عقیقہ کرے، وہ دو ہم عمر بکریاں لڑکے کی طرف سے کرے اور ایک لڑکی کی طرف سے اور ظاہر ہے کہ اخلاص ضروری ہے، پس عقیقہ خود ہی ضروری ہے۔21
کیا عقیقہ کے بجائے رقم صدقہ کرنا جائز ہے ؟
کچھ لوگ عقیقہ کرنے کے بجائے اتنی رقم صدقہ کر دیتے ہیں، لیکن احادیثِ عقیقہ کی لغوی تعریف کی رو سے عقیقہ کا جانور ذبح کرنا لازم ہے، رقم صدقہ کرنے سے عقیقہ نہیں ہو گا، چنانچہ ابن قدامہ حنبلیبیان کرتے ہیں:
'' عقیقہ کی رقم صدقہ کرنے کے بجائے عقیقہ کرنا افضل ہے، امام احمدنے اس پر نص بیان کی ہے اور وہ کہتے ہیں: جب عقیقہ کرنے والے کے پاس عقیقہ کرنے گنجائش نہ ہو اور وہ قرض لے کر عقیقہ کرے تو مجھے قوی اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے احیاے سنّت کے عوض بہتر نعم البدل دے گا۔ ابن منذرکا قول ہے کہ امام احمدکا قول مبنی بر حق ہے، کیونکہ سنت کا احیا اور ان کی اتباع افضل ہے، نیز عقیقہ کے متعلق روایات میں جتنی تاکید آئی ہے، دیگر مسائل میں اتنی تاکید وارد نہیں ہوئی، پھر اس ذبیحہ کے بارے نبیﷺ نے حکم بھی دیا ہے، سو ولیمہ اور قربانی کی طرح عقیقہ ذبح کرنے کا اہتمام اولیٰ و افضل ہے۔ ''22
عقیقہ میں جانور کے عوض گوشت دینا
عقیقہ میں جانور ذبح کرنے کے بجائے اتنی مقدار میں گوشت تقسیم کرنے سے عقیقہ کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی، کیونکہ عقیقہ میں لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کا حکم ہے اور گوشت تقسیم کرنے سے حکم کی تعمیل نہیں ہوتی، جس سے عقیقہ کا فرض ادا نہیں ہوتا۔ اسی سلسلے میں حافظ عبد اللہ روپڑی﷫ کا فتویٰ یہ ہے :
سوال:عقیقہ کیلئے جانور ذبح کرنا ضروری ہے، یا اسکے عوض گوشت بھی کافی ہے؟
جواب: حدیث میں لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور کا ذکر ہے، اس لیے گوشت کفایت نہیں کر سکتا، کیونکہ گوشت جانور نہیں۔23
عقیقہ میں لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنا مشروع ہے۔ اس کے دلائل حسبِ ذیل ہیں:
1.  سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں
«أَنَّ رَسُولَ اللهِ أَمَرَهُمْ عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ مُکَافِئْتَانِ وَعَنِ الْجَارِیَةِ شَاةٌ»24
"بلا شبہ رسول اللہﷺ نے اُنھیں ( صحابہ کرام ) کو لڑکے کی طرف سے دو ہم مثل بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری (ذبح کرنے) کا حکم دیا۔
2.  اُمّ کرزؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ مُکَافَئَتَانِ وَ عَنِ الْجَارِیَةِ شَاةٌ»25
"لڑکے کی طرف سے دو ہم مثل بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ذبح کی جائے۔"
مذکورہ بالا احادیث دلیل ہیں کہ لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور عقیقہ کیا جائے گا۔
حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں: یہ احادیث جمہور علما کے موقف کی دلیل ہیں کہ لڑکے اور لڑکی کے عقیقہ میں فرق ہے۔26
شافعی، احمد، ابو ثور،ابو داؤد اور امام ظاہری﷭ بھی اسی موقف کے قائل ہیں۔27
کیا لڑکے کی طرف سے ایک جانور کا عقیقہ جائز ہے
درج ذیل روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جانور کا عقیقہ بھی جائز ہے،سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے:
«أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ کَبْشًا کَبْشًا»28
"بے شک رسول اللہﷺ نے حسن و حسین کی طرف سے ایک ایک مینڈھا عقیقہ کیا۔ "
یہ حدیث باعتبارِ سند صحیح ہے، تاہم ابن عباسؓ ہی سے مروی روایت میں حسن و حسین کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کرنے کا بھی تذکرہ ملتا ہے:
«عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا بِکَبْشَیْنِ کَبْشَیْنِ»29
"رسولﷺ نے (عقیقہ میں) حسن و حسین کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"
حافظ ابن حجرگزشتہ حدیث جس میں حسن و حسین کی طرف سے ایک ایک مینڈھا ذبح کرنے کا بیان ہے، نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ دلیل نہیں کہ لڑکے کی طرف سے عقیقہ کے طور پر ایک مینڈھا ذبح کرنا مشروع ہے، کیونکہ ابو الشیخ نے ایک دوسری سند سے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے، جس میں دو دو مینڈھے ذبح کرنے کا بیان ہے۔ نیز عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده کے طریق سے بھی یہی الفاظ منقول ہیں، پھر بالفرض ابو داؤد میں مروی روایت کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس میں لڑکے کی طرف سے عقیقہ میں دو جانور ذبح کرنے کی منصوص روایات کا ردّ نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو گا کہ لڑکے کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنا بھی جائز ہے۔30
قاضی شوکانیبیان کرتے ہیں: جس روایت میں حسن و حسین کے عقیقہ میں ایک ایک مینڈھا ذبح کرنے کا بیان ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ جن احادیث میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ذبح کرنے کا بیان ہے، وہ زائد الفاظ پر مشتمل ہے، لہٰذا زائد الفاظ پر مشتمل روایت قبول کے اعتبار سے راجح ہیں، پھر یہ بھی کہ قول فعل سے راجح ہوتاہے۔ اس اعتبار سے لڑکے کی طرف سے دو جانور ذبح کرنا ہی قرین صواب ہے۔31
عقیقہ میں بھیڑ اور بکری ہی کو ذبح کرنا مشروع ہے !
عقیقہ میں بھیڑ اور بکری ہی کفایت کرتی ہیں، ان کے علاوہ اونٹ گائے وغیرہ کا عقیقہ نبیﷺ سے ثابت نہیں، دلائل حسب ِذیل ہیں :
1.  امّ کرز سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
«عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ، وَ عَنْ الْجَارِیَةِ وَاحِدَةٌ، لاَ یَضُرُّ کُمْ ذُکْرَانًا کُنَّ أَوْ إِناثًا»32
"(عقیقہ میں) لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے، بکریوں کا مذکر یا مؤنث ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں۔"
2.  سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کا بیان ہے :
«عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ بِکَبْشَیْنِ بِکَبْشَیْنِ»33
"رسول اللہﷺ نے حسن و حسینؓ کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ دو جنسوں: بھیڑ اور بکری ہی کا عقیقہ مسنون و مشروع ہے اورعقیقہ میں گائے اور اونٹ کفایت نہیں کرتے، نیز قولِ سيده عائشہؓ بھی اس مفہوم کی تائید کرتا ہے جيسا كہ عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابو ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو عائشہؓ صدیقہ سے کہا گیا : اے امّ المومنین!
«عَقِّی عَنْهُ جَزُوْرًا، فَقَالَتْ : مَعاَذَ اللهِ! وَلٰکِنْ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَاتَانِ مُکَافَئَتَانِ»34
"اسکی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں، اس پر اُنھوں نے کہا : معا ذ اللہ ! بلکہ (ہم وہ ذبح کریں گے) جو رسول ﷺ نے فرمایا ہے: ( لڑکے کی طرف سے) دو ایک جیسی بکریاں۔"
عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنا ثابت نہیں اور جس روایت میں عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنے کی مشروعیت ہے وہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔ اور وہ یہ کہ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
«مَنْ وُلِدَ لَهُ غُلاَمٌ فَلْیَعُقَّ مِنْ الإِْبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ»35
"جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ (عقیقہ میں) اونٹ، گائے یا بھیڑ بکری ذبح کرے۔"
1۔اس روایت میں امام طبرانی کے اُستاد ابراہیم احمد بن مرادی واسطی ضعیف ہیں۔
2۔عبد الملک بن معروف خیاط مجہول ہے۔ 3۔ مسعدہ بن یسع باہلی کذاب ہے۔
4۔ حریث بن سائب تمیمی اور حسن بصری کی تدلیس ہے۔
عقیقہ کے جانور کی شرائط
عقیقہ کے جانور میں وہ شرائط نہیں، جو قربانی کے جانور میں ہیں، لیکن مبنی بر احتیاط یہی ہے کہ قربانی کی شرائط عقیقہ میں بھی ملحوظ رکھی جائیں، کیونکہ عقیقہ کے جانور کے لیے شاة (بکری) اور کبشًا( مینڈھے) کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اور لفظ شاة کا اطلاق اس بکری پر ہوتا ہے جو بچہ جننے کے قابل ہو، اس طرح کبشٌ کا اطلاق پوری عمر کے جوان مینڈھے پر ہوتا ہے، لہٰذا بکری اور مینڈھے میں پوری عمر کے جوان جانور ذبح کیے جائیں اور وہ جانور نقائص و عیوب سے بھی پاک ہونے چاہییں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی جانے والی چیز کا نقائص و عیوب سے پاک ہونا افضل ہے۔


حوالہ جات

1. فتح الباری : ۹؍۷۲۶

2. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۰

3. سنن ابو داؤد: ۲۸۴۲؛ سنن نسائی: ۴۲۱۷

4. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۳؛عون المعبود : ۸؍۴۶

5. شرح النسائی از اما م سندی : ۵؍۴۹۸

6. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۰؛ المغنی مع الشرح الکبیر : ۱۱؍۱۲۱

7. صحیح بخاری:۵۴۷۲

8. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۱؛ عون المعبود : ۸؍۴۲

9. صحیح بخاری: ۵۴۷۲

10. جامع ترمذی: ۱۵۱۳؛ سنن ابن ماجہ: ۳۱۶۳

11. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۰

12. المغنی مع الشرح الکبیر : ۱۱؍۱۲۰

13. تحفۃ الودود باحکام المولود: ص ۲۸

14. سنن ابو داؤد : ۲۸۴۴۲؛سنن نسائی: ۴۲۱۷

15. نیل الأوطار : ۵؍۴۴

16. التمہید لا بن عبد البر : ۴؍۳۱۱

17. موطا امام مالک: ۲۹۵

18. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۱؛ المغنی مع الشرح الکبیر: ۱۱؍۱۲۰

19. شرح سنن نسائی از اما م سندی : ۵؍۴۹۸

20. جلد ۴؍صفحہ۳۶

21. فتاویٰ اہل حدیث از حافظ عبد اللہ محدث روپڑی﷫: ۲؍۵۴۸، ۵۴۹

22. المغنی مع الشرح الکبیر : ۱۱؍۱۲۱

23. فتاویٰ اہل حدیث : ۲؍۵۴۹

24. جامع ترمذی : ۱۵۱۳‎؛ سنن ابن ماجہ : ۳۱۶۳

25. جامع ترمذی : ۱۵۱۶؛ سنن ابن ماجہ: ۳۱۶۲

26. فتح الباری : ۹؍۷۳۳

27. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۲

28. سنن ابو داؤد: ۲۸۴۱؛ طبرانی کبیر : ۱۱۸۳۸؛ سنن بیہقی: ۲؍۲۹۹۔ إسنادہ صحیح

29. سنن نسائی: ۴۲۲۴... علامہ البانی نے ارواء الغلیل: ۴؍۳۷۹ میں اس روایت کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔

30. فتح الباری:۹؍۷۳۳

31. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۲

32. جامع ترمذی : ۱۵۱۶؛ سنن ابن ماجہ : ۳۱۶... إسنادہ صحیح

33. سنن نسائی : ۴۲۲۴... إسنادہ صحیح

34. سنن بیہقی: ۹؍۳۰۱ إسنادہ حسن... عبد الجبار بن ورد صدوق راوی ہے۔

35. طبرانی صغیر : ۲۲۹... یہ روایت مسلسل بالضعفاء ہے۔ (موضوع)