سورۃ البقرۃ کی آیتوں 278 اور 279 سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہےکہ اسلام میں سُود کی ہر شکل قطعی ممنوع ہے اور سُود اس لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ ظلم اور استحصال کا سبب بنتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سُودی نظام کےمتبادل کے طور پر اسلامی بینکاری کا جو بھی نظام وضع کیا جائے، اوّل: اس نظام میں سُود کا شائبہ بھی نہیں ہوناچاہیے۔ دوم: اس نظام سے سُودی بینکاری سے ہونے والے ہر قسم کے ظلم، ناانصافی اور استحصال کا لازماً خاتمہ ہونا چاہیے اور سوم: اس نظام کے نفاذ سے اسلامی نظامِ معیشت کے حصول میں نہ صرف معاونت ہونی چاہیے بلکہ تمام فریقوں کو لازماً سماجی انصاف ملنا چاہیے۔ گزشتہ برسوں کے تجربات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلامی بینکاری کے عملی نفاذ سے آخر الذکر دونوں مقاصد تو یقیناً حاصل نہیں ہورہےجبکہ اسلامی بینکوں کی آڈٹ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوّل الذکر مقصد کے ضمن میں بھی خاصے تحفظات موجود ہیں۔
'اسٹیٹ بینک آف پاکستان' کے اَحکامات کے تحت پاکستان میں یکم جنوری2003ء سے سُودی بینک اور اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینک ساتھ ساتھ کام کررہے ہیں چنانچہ سُودی نظام کو ملک میں دوام بخش دیا گیا ہے۔بینکاری کا یہ متوازی نظام قطعی غیر اسلامی ہے۔ وہ قابل احترام علما جو مروّجہ اسلامی نظام بینکاری کی پُشت پرہیں، اُنہوں نے حیران کن طور پر اس معاملے میں قطعی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور وہ یہ فتویٰ جاری نہیں کررہے کہ یہ متوازی نظام بینکاری غیر اسلامی ہے، اس طرح وہ بھی سودی بینکاری کو برقرار رکھنے اور دوام بخشنے میں عملاً معاونت کررہے ہیں۔یہی نہیں، بیشتر اسلامی بینک نفع ونقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر اپنے کھاتے داروں کو اپنےمنافع میں حقیقی معنوں میں شریک نہ کرکے نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی کررہے ہیں بلکہ ان کا اِستحصال بھی کررہے ہیں۔
اس حقیقت کا اِدراک بھی ضروری ہے کہ اگر آنے والی ناانصافی کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرے بھی تو وہ ناکام رہے گی کیونکہ اُسے اپنی فنانسنگ (قرضوں) پر لی جانے والی شرحِ منافع بڑھانی پڑے گی جس کے لیے سرمایہ لینے والی بیشتر پارٹیاں تیارنہیں ہوں گی کیونکہ انہیں سُودی بینکوں سے کم شرحِ سُود پر قرضہ دستیاب ہے۔ واضح رہےکہ اسلامی بینک اپنے بچت کھاتے داروں کو اسٹیٹ بینک کے احکامات کے تحت 6 فیصد سالانہ شرح منافع دے رہے ہیں جبکہ ملک میں افراطِ زر کی شرح تقریباً 10 فیصد سالانہ ہے یعنی 4 فیصد حقیقی منفی شرحِ منافع جو کہ استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔
اب سے چند برس قبل تک علما حضرات کا موقف تھاکہ اسلامی بینکاری کی اصل بنیاد نفع ونقصان کی تقسیم پر قائم ہوگی اور اسلامی بینکوں کا بیشتر کاروبار مشارکہ و مضاربہ پر مبنی ہوگا جبکہ صرف عبوری دور کےلیے بوقتِ ضرورت کچھ دوسرےطریقے مثلاً مرابحہ وغیرہ اختیار کئے جاسکتے ہیں۔ حیران کن طور پرعبوری دور کالفظ اب عملاً حذف کردیا گیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اسلامی بینک مشارکہ و مضاربہ کے تحت اپنی مجموعی فنانسنگ (قرضوں) کا صرف 3 فیصد فراہم کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں اسلامی بینک اپنے 86 فیصد فنانسنگ مرابحہ اور اجارہ وغیرہ کے تحت کررہے ہیں جہاں حتمی نتیجہ سودی نظام سے مختلف نہیں ہوتا۔ اسلامی بینک سرمایہ لینے والی پارٹی کے کاروبار میں ہونے والےنقصان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور پہلے سے طے شدہ شرحِ منافع وصول کرلیتے ہیں۔
سُود پرمبنی معیشت کے ماحول میں اسلامی بینکاری کے تحت فنانسنگ کےطریقوں کو قابل عمل بنانے کے لئےعلما حضرات بہت زیادہ لچک کامظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ اسلامی بینکاری میں جبکہ بہانے بازی کے تصور کو پروان چڑھا دیا گیا ہے۔ اسلامی بینکاری کے فلسفہ میں علما کی منظوری سےبنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں اور شریعت کے مقاصد پس پشت جاچکے ہیں۔ پاکستان میں سودی بینکوں کے اسلامی بینکاری کےضمن میں کچھ اہم فیصلے ان سودی بینکوں کی انتظامیہ ہی کرتی ہے۔
بدنام زمانہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والی سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بنچ نے 24؍جون 2002ء کو اپنی ہی بنچ کے 23؍دسمبر 1999ء اور وفاقی شرعی عدالت کے 14؍نومبر 1991ء کے سُود کو حرام قرار دینےکے فیصلوں کو کالعدم کرکےمقدمہ از سر نو شنوائی کےلیے وفاقی شرعی عدالت کوبھیج دیا جہاں کے 122؍ماہ گزرنے کے باوجود شنوائی شروع ہی نہیں ہوئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل، مذہبی جماعتوں اور علما نے اِس پر کسی اضطراب کا اظہار نہیں کیا۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج تو کیفر کردار تک پہنچ چکے ہیں مگران کایہ تباہ کن فیصلہ پوری آب و تاب سے 10 برس کا عرصہ گزرنےکے باوجودبرقرار ہے۔ ان حالات میں عام مسلمان مایوسی کا شکار ہے۔
پاکستان میں96 فیصد کھاتےسودی بینکوں کے پاس ہیں جبکہ صرف 4؍فیصد کھاتے اسلامی بینکوں کے پاس ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ڈھائی برس سے زیادہ عرصہ گزرنےکے باوجود قرضوں کی معافی او راسٹیٹ بینک کے سرکلر 29 مؤرخہ 15؍اپریل 2002ء کے ضمن میں فیصلےنہ آنے سے ان قرضوں کی وصولی کا امکان تقریباً ختم ہوگیا ہے جس سے کئی سو ارب روپے کا جھٹکا لگے گا۔وکلا برادری اور ریٹائرڈ جج صاحبان بھی اس معاملے میں خاموش ہیں۔ یہی نہیں 10؍اگست 2012ء کو اسٹیٹ بینک نے اپنی خود مختاری سے دستبردار ہوکر وزارتِ خزانہ کےایک ذیلی ادارےکا روپ اپنایا اور پالیسی ریٹ کو 12 فیصد سے کم کرکے 5ء10 فیصد کردیا جس سے حکومت کو ملکی قرضوں پرسود کی ادائیگی کی مد میں کئی ارب روپے ماہانہ کی بچت ہوگی مگر اس کےنتیجے میں سودی او راسلامی بینک او رنیشنل سیونگ سنٹرز میعادی کھاتے داروں اور سرمایہ کاروں کو دی جانے والی شرح منافع میں کمی کا اعلان کردیں گے۔ شرح سُود میں کمی کے بجائے اسٹیٹ بینک کوبینکنگ اسپریڈ میں 350 پوائنٹس کمی کا اعلان کرنا چاہیے تھا تاکہ بینکوں کےکھاتےداروں کو دی جانے والی شرح 250 پوائنٹس اضافہ اور قرضوں پر مارک اَپ کی شرح میں کمی ممکن ہوتی۔
اب ضرورت اس امر کی ہےکہ وہ چند علما جو مروجہ اسلامی بینکاری کی پشت پر ہیں فتویٰ جاری کریں کہ موجودہ نظام ؍متوازی بینکاری غیراسلامی ہے اور اگر سودی نظام کے تحت چھ ماہ بعد ڈپازٹس لینے اور ان کی تجدید کرنے پر پابندی نہ لگائی گئی تو وہ موجودہ اسلامی نظام بینکاری کی حمایت واپس لے لیں گے۔موجودہ اسلامی نظام بینکاری کو شریعت کی روح کےمطابق لانے کے لیے ان جید علما سے جنہوں نے28؍اگست 2008ء کو متفقہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ مروّجہ اسلامی نظام بینکاری غیر اسلامی ہے اور اسلامی ذہن رکھنے والے بینکاری کے ماہرین کی مشاورت سےبنیادی نوعیت کی تبدیلیاں اس نظام میں لانا ہوں گی۔