خبر واحد؍حدیثِ نبویﷺ کی حجیّت کو تعاملِ اُمّت حاصل ہے!

حدیث کو خبر بھی کہتے ہیں اور خبر کی دو قسمیں ہیں:             1۔ خبر متواتر         2۔خبر واحد
حدیث کی ان دونوں قسموں کا دین اسلام میں حجیتِ شرعیہ ہونا اُمّتِ مسلمہ میں مسلّم رہا ہے۔ معتزلہ اور ان کے ہم نوا منکرین حدیث کو چھوڑ کر اُمّت ِمسلمہ کے تمام ائمہ و محدثین اور علما ومحققین اخبارِ آحاد سے احکامِ شرعیہ کا استنباط کرتے آئے ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب أخبار الأحاد کے تحت خبر واحد کے حجتِ شرعیہ ہونے پر کتاب و سنّت سے دلائل پیش کئے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
«باب ماجاء في إجازة خبر الواحد الصدوق في الأذان والصلوة والصوم والفرائض والأحکام»
جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ ایک عادل اور سچّے شخص کے خبر دینے پر اذان، نماز، روزہ اور دیگر فرائض و احکام پر عمل کرنے کا بیان... اس کے بعد اُنہوں نے اس پر دلائل کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ ایک امانت دار مؤذن کے اذان کہنے پر نماز کے وقت ہوجانے کا اعتبار کیا جاتا ہے او راس پر اعتماد کرتے ہوئے وہ نماز ادا کی جاتی ہے جس کے لیے اذان کہی جاتی ہے او رنماز کی ادائیگی کےلیے ایک معتبر شخص جہت قبلہ کا تعین کردے تو اسے قبول کیا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہتا کہ جب تک سو افراد خبر نہ دیں کہ قبلہ اس طرف ہے تو نماز ادا نہ کی جائے۔
اسی طرح روزہ رکھنے کے لئے طلوعِ فجر اور غروبِ شمس کی خبر دینے کے لیے ایک ثقہ مسلمان ہی کافی سمجھا جاتا ہے او راس کی خبر پر روزہ رکھا جاتا اور افطار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلام کے دیگر فرائض و احکام میں اُمّت مسلمہ خبر واحد کو حجت مانتی ہے، گویا خبر واحد اگرچہ سند کے اعتبار سے حدِّ تواتر کونہیں پہنچتی لیکن اس کے حجّت اور دلیل شرعی ہونے کے اعتبار سے یہ'سنّتِ متواترہ'بن گئی ہے جسے ہر دور میں اُمّت کا تعامل حاصل رہاہے۔ نبی اکرمﷺ سےلے کر آج تک اہل اسلام میں سے کسی نے بھی خبر واحد کی حجیّت سے انکار نہیں کیا۔ صحابہ کرام ، تابعین﷭، تبع تابعین﷭، ائمہ کرام﷭، محدثین عظام اور علماے اسلام سب کے سب اخبارِ آحاد کو شرعی دلیل کےطور پر پیش کرتے آرہے ہیں اور خبر واحد کی حجیّت سے وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو دین اسلام کی جامعیت اور اس کی وسعت کو سمجھنے سے قاصر ہےاور وہ تمام علماے اُمت ، اَئمہ و محدثین کی خدمتِ دین کے لئے ان تھک محنتوں کوناقابل اعتبار بنا دینے کے درپے ہے۔
خبر واحد عہدِ نبویﷺ میں
خبر واحد کے شرعی حجت ہونے کی بنیاد تو نبی کریمﷺ کے مبارک دور میں ہی پڑ گئی تھی، بلکہ آپ نے خود حجیتِ خبر واحد کو زیر عمل لاتے ہوئے بہت سے موقعوں پر ایک ہی شخص کو دوسرے علاقے کا مبلغ بنا کر بھیجا یہاں تک کہ امیر لشکر بھی ایک ہی ہوتا ،باقی سب مجاہدین پر اس کی بات کی اطاعت واجب ہوتی تھی۔ عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:
«لما بعث النبي ﷺ معاذ بن جبل إلىٰ نحو أهل اليمن قال له: «إنك تقدم علىٰ قوم من أهل الكتاب فليكن أوّل ما تدعوهم إلىٰ أن يوحّدوا الله تعالىٰ، فإذا عرفوا ذلك فأخبرهم أن الله فرض عليهم خمس صلوات في يومهم وليلتهم، فإذا صلّوا فأخبرهم أنّ الله افترض عليهم زكاة أموالهم تؤخذ من غنيهم فترد علىٰ فقيرهم، فإذا أقرّوا بذلك فخذ منهم وتوق كرائم أموال الناس»1
''نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذؓ کو یمن بھیجا تو فرمایا آپ اہل کتاب کی طرف جارہے ہو، سب سے پہلے اُنہیں توحیدِ باری تعالیٰ کی دعوت دینا، جب وہ اس کا اعتراف کرلیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنےلگیں تو اُنہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے ، جو ان کے امیروں سے لے کر غریبوں کو دی جائے گی ، جب وہ اس کا بھی اقرار کرلیں تو آپ ان سے زکوٰۃ لیتے وقت ان کے عمدہ مال لینے سے بچیں۔''
اسی طرح نبی اکرمﷺ جب دعوتِ اسلام دینےکے لیےغیر مسلم حکمرانوں کو خط بھیجا کرتے تھے تو اس کے لیے بھی ایک آدمی کا انتخاب فرمایا کرتے تھے تاکہ وہ مراسلہ اس حکمران تک پہنچا دے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہی بیان کرتے ہیں :
«أنّ رسول الله ﷺ بعث بكتابه إلىٰ كسرى مع عبد الله بن حذافة السهمي فأمره أن يدفعه إلىٰ عظيم البحرين فدفعه عظيم البحرين إلى كسرٰى فلمّا قرأه مزقه»2
'' رسول اکرمﷺ نے عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ کے ہاتھ اپنا خط کسریٰ کی طرف بھیجا او رفرمایا کہ آپ یہ خط بحرین کے سردار کو دے دیں، وہ آگے کسریٰ تک پہنچا دے گا۔یوں یہ خط جب کسریٰ کے پاس پہنچا تو اُس نےپھاڑ دیا۔''
رسول اللہ ﷺ سے ایسی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ آپ نے اپنے دور میں خبر واحد پر اعتماد کرتے ہوئے ایک ہی آدمی کو مبلغ یا قاصد یا کمانڈر بنا کربھیجا اور ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ آپ نے کبھی ایک بڑی جماعت کو قاصد یا مبلغ بنا کربھیجا ہو تاکہ ان کی کثیر تعداد سے تواتر حاصل ہوجائے اور ان کی بات یقینی قرار پائے۔
معلوم ہوا کہ ایک دو آدمیوں کی خبر معتبر اور قابل قبول ہے، تب ہی تو آپ نے اسے اختیارفرمایا ہے۔ منکرین حدیث میں سے کوئی شخص یہ اشکال پیش کرسکتا ہے کہ یہاں تو قاصد اور مبلغ کوبھیجنے والے نبی اکرمﷺ تھے اور جسے بھیجا جاتا تھا، وہ صحابی رسولﷺ تھا۔ لہٰذا ان کی بات تو معتبر ہے خواہ خبر دینے والا ایک ہی ہو جبکہ دیگر رواۃِ حدیث کا یہ حکم نہیں ہے جو صحابہ کرام کا ہے،لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن کی طرف اس مبلغ یا قاصد کوبھیجا گیا تھا، وہ غیر مسلم قوم سے تعلق رکھتے تھے جو نہ تو نبی اکرمﷺ کی نبوت کو مانتےتھے او رنہ ہی قاصد یا مبلغ کو صحابی تسلیم کرتے تھے جن کی ثقاہت ان کے ہاں مسلّم ہو۔ ان کے نزدیک تو صحابی عام آدمی کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن آپ نے اُن کو یقین دلانے کے لیے ان کی طرف لوگوں کی ایک جماعت کو نہیں بھیجا جن سے تواتر حاصل ہوجائے بلکہ ایک آدمی بھیج کر ان پر حجّت قائم کردی تاکہ وہ عنداللہ پیغامِ حق نہ پہنچنے کا عذر نہ کرسکیں۔

عہدِ صحابہ کرام
سیدنا ابوبکر صدیق کا دور
حضرت ابوبکر صدیق خبر واحد (حدیث) کے قبول کرنے میں سبقت لے جانے والے تھے، ان کے ہاں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ، اس سےمتعلق اُنہیں حدیث مل جاتی تو آپ اس کے مطابق فیصلہ صادر فرما دیا کرتے تھے۔ وہ کبھی اس کے حد تواتر تک پہنچنے کا انتظار نہیں کیا کرتے تھے، جیسا کہ موطا امام مالک وغیرہ میں یہ واقعہ موجود ہے کہ'' ایک دادی اپنے فوت ہونے والے پوتے کے مال سے اپنا حصہ معلوم کرنے کے لئے حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئی۔ آپ نے فرمایا کہ میرے علم کے مطابق اس پر کوئی حدیث نہیں ہے جس کے مطابق تجھے حصہ دلوایا جائے اور فرمایا کہ میں اس سے متعلق نبی اکرم ﷺ کی حدیث کے بارے میں صحابہ کرامؓ سے دریافت کروں گا، اگر حدیث سے تیرا حصہ ثابت ہوا تو تجھے دلوا دیا جائے گا۔ چنانچہ آپ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے اس مسئلہ کو رکھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے دادی کو پوتے کے مال سے جب چھٹا حصہ دیا تھا تو میں بھی آپﷺ کے پاس موجو دتھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا :کیا آپ کے ساتھ کسی دوسرےصحابی کو بھی اس حدیث کا علم ہے تو حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اس کی تائید کی، تب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس عورت کےلیےچھٹا حصہ دینے کا فیصلہ کردیا۔''3
منکرین حدیث یہاں یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر ؓ نےایک آدمی کی خبر پر اعتبار نہیں کیا بلکہ جب دوسرے صحابی محمد بن مسلمہؓ نے اس کی تائید کی تب اسےقبول کیا ہے۔ ایسے لوگ حقیقت سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں یا اپنے قارئین کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ مقامِ غور ہےکہ دوسرے آدمی کی گواہی او راس کی تائید سے بھی وہ حدیث خبر واحد ہی رہتی ہے،سنّت ِمتواترہ نہیں بن جاتی، کیونکہ خبر واحد کی تعریف ہی یہ ہے: «هو ما لم یجمع شروط المتواتر»4 یعنی '' جس حدیث میں متواتر کی شرطیں نہ پائی جائیں وہ خبر واحد ہوگی'' اور اس کے حجّت ہونے پر امت کا اتفاق ہے۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں:
«وعلىٰ العمل بخبر الواحد کان کافة التابعین و من بعدهم من الفقهاء»5
'' تمام تابعین کرام﷭ اور تمام فقہاے عظام خبر واحد پر عمل کرتے رہے ہیں۔''
دورِ فاروقی
حضرت عمر فاروقؓ بھی خبرواحد کو حجّت سمجھتے اور اسے قبول فرمایا کرتے تھے اور جب کسی مسئلہ میں اُنہیں حدیثِ نبویﷺ پہنچ جاتی تھی تو اُس کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے تھے۔ جیسا کہ کتبِ احادیث میں وارد ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں:
«أن عمر خرج إلى الشأم فلما كان بسرغ بلغه أن الوباء قد وقع بالشام فأخبره عبد الرحمٰن بن عوف أن رسول الله ﷺ قال: «إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارًا منه»6
'' سیدنا عمر فاروقؓ ملکِ شام جانے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، جب وہ 'سرغ' مقام تک پہنچے تو اُنہیں وہاں بتایا گیا کہ شام کے علاقے میں تو وبا پھیلی ہوئی ہے۔اس پرسیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب تم سنو کہ کسی علاقے میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں آؤ نہیں، اور اگر تمہارے علاقے میں وبا پھیل جائے، جہاں تم مقیم ہو تو وہاں سے وبا (طاعون وغیرہ) سے بچنے کےلیے نکلو نہیں۔ یہ حدیث سن کر حضرت عمر فاروقؓ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا او روہاں سے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ واپس مدینہ آگئے ۔''7
مسلمانوں کے خلیفہ سیدناعمر فاروقؓ ایک آدمی سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی حدیث (خبر واحد) پر یقین کرتے ہوئے بجائے شام جانےکے، راستے سے ہی واپس آجاتے ہیں۔ اس پر اُنہوں نے کوئی گواہ طلب نہیں کیا اور نہ ہی اسے ظنّی کہہ کر رد کیا ہے، جیسا کہ یہ منکرین حدیث کا وتیرہ ہے۔ بلکہ سیدناعمر بن خطابؓ نے طلبِ علم کے لیے ایک انصاری صحابی سے باری مقرر کی ہوئی تھی اوران کی بیان کردہ احادیث کوقبول کیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عباسؓ حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
«قال كنت أنا وجار لي من الأنصار في بني أمية بن زيد وهي من عوالي المدينة وكنا نتناوب النزول علىٰ الرسول الله ﷺ فينزل يومًا وأنزِل يومًا فإذا نزلت جئتُه بخير ذلك اليوم من الوحي و غيره وإذا نزل فعل مثل ذلك»8
'' سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں میں نے اپنے ایک انصاری پڑوسی سے باری مقرر کررکھی تھی جو مدینہ کے بالائی علاقہ میں بنو اُمیہ میں رہتا تھا، او رہم باری باری نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن میں آتا (وہ اپنا کام کاج کرتا) او رایک دن وہ آپ کے پاس حاضر ہوتا اور میں اپنے گھریلو کام کاج کرتا رہتا۔ اور ہم میں ہر ایک، نبی اکرم ﷺ پر جو وحی نازل ہوتی یا کوئی دیگر مسئلہ ہوتا تو ،اپنے ساتھی کو آکربتا دیتے تھے۔ '' اس طرح گویا دونوں علم نبوت حاصل کیا کرتے تھے۔
سیدنا عمرؓ کے ہاں ایک آدمی کی خبر قبول کرنے کے لیے کوئی شرطیں مقر رنہیں تھیں بس یہی کافی سمجھا جاتا تھا کہ خبر دینے والا ثقہ اور معتبر مسلمان ہو۔
اگرکبھی انہوں نے حدیث پر گواہ کا مطالبہ کیا ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ وہ خبر واحد کو حجّت نہیں سمجھتے تھے او رنہ ہی ثقہ راوی پر کوئی الزام لگاتے تھے بلکہ وہ تو صرف خبر واحد کے ثابت ہونےکے لیے تحقیق کی ایک صورت تھی جیسا کہ حدیثِ استیذان ہے اورخبر واحد کی تحقیق کے تو سب قائل ہیں۔حدیثِ استیذان جس پر حضرت عمر فاروقؓ نے گواہ کا مطالبہ کیا تھا، وہ ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے، حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں:
«كنت في مجلس من مجالس الأنصار إذ جاء أبو موسٰى كأنه مذعور فقال: استأذنت علىٰ عمر ثلاثًا فلم يؤذن لي فرجعت فقال ما منعك؟ قلت استأذنت ثلاثًا فلم يؤذن لي فرجعتُ وقال رسول الله ﷺ: «إذا استأذن أحدكم ثلاثًا فلم يؤذن له فليرجع». فقال والله لتقيمن عليه بينة، أ منكم أحد سمعه من النبي ﷺ؟ فقال أبي بن كعب والله لا يقوم معك إلا أصغر القوم، فكنتُ أصغر القوم فقمتُ معه فأخبرت عمر أن النبي ﷺ قال ذلك»9
''میں انصار کی ایک مجلس میں حاضر تھا، اس وقت حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پاس جانےکے لیے دروازے پرکھڑے ہوکر تین دفعہ اندر جانے کی اجازت طلب کی،لیکن اجازت نہ ملنے پر میں واپس آگیا تو حضرت عمرؓ نے مجھے بلا کر وجہ پوچھی تو میں نے کہا: میں نے تین دفعہ اجازت طلب کی تھی لیکن جواب نہ آنے پر میں واپس ہوگیا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:جب تم میں سے کسی شخص کو تین مرتبہ اجازت طلب کرنے کے باوجود اجازت نہ ملے تو اسے واپس ہوجانا چاہیے، تو یہ حدیث سن کر سیدناعمر فاروقؓ نے کہا: اس حدیث پر کوئی گواہ پیش کرو جس نے آپ کےساتھ اس حدیث کو سنا ہو تو سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ نے ہم سے کہا: کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جس نے میری طرح اس حدیث کو نبی اکرمﷺ سےسنا ہو؟ تو اہل مجلس میں سے حضرت اُبی بن کعبؓ نے کہا کہ اس حدیث کو تو ہم میں سب سے چھوٹی عمر والا (یعنی ابوسعید خدریؓ) بھی جانتا ہے، تو ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں: میں ابوموسیٰ اشعریؓ کےساتھ حضرت عمرؓ کے پاس گیا اور جاکر ان سے کہا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا ہے۔''
منکرین حدیث کاایک ٹولہ اس حدیث کو خبر واحد کی حجیّت کے خلاف دلیل کےطو رپر پیش کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اگر خبر واحد شرعی اعتبار سے حجت ہوتی تو حضرت عمرؓ اس پر گو اہ طلب نہ کرتے ،لیکن یہ لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گواہ کی گواہی کے باوجود بھی یہ حدیث خبر واحد ہی رہتی ہے جسے سیدنا عمر فاروقؓ نےقبول کیا ہےلہٰذا یہ حدیث یعنی خبرواحد کو قبول کرنے کی دلیل ہے او رحضرت عمر فاروقؓ کا شاہد کا طلب کرنا صرف ثبوتِ حدیث کی تحقیق کے لیے تھا۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ حضرت اُبی بن کعبؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا:
«لاتکن عذابًا علىٰ أصحاب رسول الله ﷺ فقال: سبحان الله إنما سمعتُ شیئا فأحببت أن اتثبت»10
''اےعمرؓ ! آپ صحابہ کرام پر عذاب نہ بنیں تو آپ نے از راہِ تعجب فرمایا : سبحان اللہ! میں نے ایک بات سنی اور چاہا کہ اس کی صحت کی تحقیق کرلوں؟''
یعنی سیدنا عمرؓ کا گواہ طلب کرنا صحّتِ حدیث جانچنے کے لیے تھا او رکسی بھی حدیث کی صحت کو پرکھنے کا آج بھی کوئی شخص انکار نہیں کرتا،محدثین کرام نے ہر لحاظ سے احادیث کی صحت کی جانچ پڑتال کرکے اُن کی صحت ثابت ہونےکے بعد ہی اُنہیں قبول کیا ہے۔ سواے منکرین حدیث کے اُمّتِ مسلمہ میں سے کسی صاحبِ علم نے کسی حدیث کے خبر واحد ہونےکی وجہ سے کبھی اسے ردّ نہیں کیا۔
دور ِعثمانی﷜
خلیفہ ثالث حضرت عثمانؓ کے دور میں بھی خبرواحد کی حجیت مسلّم تھی او راس کی روشنی میں لوگوں کے مسائل نمٹائے جاتے تھے، خود حضرت عثمان ؓ خبر واحد کو قبول کرتے تھے، اور جب اُنہیں خبر واحد (حدیثِ نبویﷺ) پہنچ جاتی تو اُسے فیصلہ کن قرار دیتے اور اس کےمقابلہ میں اپنی رائے کو قربان کردیا کرتے تھے۔ مثال کےطور پر آپ کی رائے یہ تھی کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے، وہ جہاں چاہے، وہاں رہ کر عدتِ وفات پوری کرسکتی ہے، لیکن جب سیدنا ابوسعید خدریؓ کی بہن حضرت فریعہ بنتِ مالک نے بتایا کہ میرے خاوند کی وفات پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے خاوند کے چھوڑےہوئے گھر میں رہ کر عدت گزارنے کا حکم دیا تھا تو سیدنا عثمانؓ نے اس خبر واحد کو قبول کیا اور یہ حدیث سن کر اُنہوں نے اپنی رائے کوخير باد کہہ دیا اور فیصلہ کردیاکہ فوت شدہ خاوند والیعورت اسی گھر میں رہ کر عدت پوری کرے جس میں وہ خاوند کی زندگی میں رہائش پذیر تھی۔11
سیدناعلی﷜ کا دور
حضرت علیؓ بھی باقی صحابہ کرامؓ کی طرح خبر واحد کو حجّتِ شرعیہ تسلیم کرتے تھے اورجب انہیں کوئی شخص نبی اکرمﷺ کی حدیث بیان کردیتا تو اس پر اعتماد کرتے ہوئے خبر واحد کو قبول کرتے تھے۔جیسا کہ بخاری شریف میں ہے ، حضرت علی ؓ خود بیان کرتے ہیں :
كنتُ رجلا مذّاء فأمرتُ رجلا أن يسأل النبي ﷺ لمكان ابنته فسأل فقال:«توضأ واغسل ذَكرك»12
'' مجھے مذی بکثرت آتی تھی، چونکہ میرے گھر میں نبی کریمﷺ کی صاحبزادی (سیدہ فاطمہؓ) تھیں، اس لیے میں نے ایک آدمی سے کہا کہ وہ اس (مذی) کے متعلق نبی کریمﷺ سے سوال کرے۔ اس نے آپﷺ سے اس کےمتعلق پوچھا تو آپﷺ نےفرمایا: ''مذی آنے سےشرمگاہ کو دھوکر وضو کرلیا کریں ۔'' (یعنی یہی کافی ہے، اس سے غسل کرنےکی ضرورت نہیں ہے)
سیدنا علیؓ نے ایک آدمی کے بتانے پراعتماد کرتے ہوئے اس کی خبر کو قبول کیا جو اس نے نبی اکرمﷺ سے بیان کی تھی۔
دورِ تابعین﷭
تابعین کرام کی بھی خبر واحد کو قبول کرنے میں کوئی خاص شرطیں نہیں تھیں او رنہ ہی اُن میں سے کسی نے حدیثِ نبویﷺ (خبر واحد) کو قبول کرنے کے لیے دو یا دو سے زائد راویوں کی شرط لگائی ہے بلکہ وہ ہر ثقہ راوی سے حدیث اخذ کرتے تھے۔ایک دفعہ سلیمان بن موسیٰ، طاؤس تابعی سےملے او رکہا کہ مجھے فلاں آدمی نےفلاں حدیث بیان کی ہے، کیا قبول کروں؟ تو طاؤس نے کہا: إن کان صاحبك مليئًا فخذ عنه
''اگر تووہ ثقہ ہے تو قبول کرو۔''
ائمہ أربعہ اور حدیثِ نبویﷺ (خبرواحد)
امام ابوحنیفہ حدیث و سنّت سے استدلال میں بڑے سخت تھے یہاں تک کہ وہ ثقہ راویوں کی روایت کردہ مرسل روایات کو بھی حجّت مانتے تھے۔حالانکہ مرسل روایت محدثین کرام کےہاں ضعیف کی اقسام سے شمار ہوتی ہے، لیکن امام صاحب مرسلات کو بھی دلیل مانتے تھے، توصحیح اورثابت اخبارِ آحاد کا وہ انکار کیونکر کرسکتے ہیں، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ فقہ حنفی کےمستدلات میں اخبارِ آحاد کو مسائل کی دلیل بنایا جاتا ہے، حالانکہ ان میں سے بعض اخبار آحاد ضعیف بھی ہوتی ہیں۔
امام مالک بھی اخبارِ آحاد کو حجت مانتےتھے حتیٰ کہ وہ امام ابوحنیفہ کی طرح مرسلات سے استدلال کرنے کے قائل تھے۔ ان کی تصنیف موطا امام مالک میں مرسل احادیث کوبکثرت ذکر کیا گیا اور ان سے استدلال کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب امام مالک کے دور میں زبردستی لی گئی طلاق کا مسئلہ پیدا ہوا تھا تو امام صاحب نے طلاق المکره غیر جائز یعنی زبردستی لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، کو دلیل بنایا تھا جو کہ خبر واحد ہے او رموطا میں امام مالک نے خبر واحد کوبطور دلیل قبول کیا ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سےمروی ہے:
«بینما الناس بقباء في صلوٰة الصبح إذ جاءهم اٰتٍ فقال إن رسول الله ﷺ قد أنزل علیه اللیلة قرآن وقد أمر أن یستقبل الکعبة فاستقبلوها وکانت وجوههم إلىٰ الشام فاستداروا إلىٰ الکعبة»13
'' قبا والے فجر کی نماز بیتُ المقدس کی طرف متوجہ ہوکر پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والےنے آکر اُنہیں بتایا کہ نبی اکرم ﷺ پر قرآن نازل ہوچکا ہے اور آپ کو خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہوکر نماز پڑھنےکا حکم دے دیا گیا ہے لہٰذا تم بھی کعبہ کی طرف منہ کرلو، جبکہ ان کے چہرے سے شام (یعنی بیت المقدس)کی طرف تھے تو (وہ ایک آدمی کے خبر دینے سےبیت المقدس سے)بیت اللہ (خانہ کعبہ)کی طرف متوجہ ہوگئے۔''
رہے امام شافعی تو وہ تو خبر واحد کی حجیّت پر اس کےمنکروں سے مناظرے کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ان کی عظیم تصنیف'الرسالہ' میں اس موضوع پر خبرواحد کےمنکر سے اُن کے دلچسپ مناظرے کاتفصیل سے ذکرملتا ہے۔بلکہ امام صاحب نے'الرسالہ' میں یہ عنوان قائم کیا ہے: الحجة في تثبـیت خبر الواحد ... اس کے بعد فرماتے ہیں :
«فإن قال قائل: أذکر الحجة في تثبیت خبر الواحد بنصّ خبر أو دلالة فیه أو إجماع، فقلت له أخبرنا سفیان عن عبد الملك بن عمیر عن عبد الرحمٰن بن عبد الله بن مسعود عن أبیه أن النبي ﷺ قال: «نضر الله عبدًا سمع مقالتی فحفظها ووعاها و أداها فرُبّ حامل فقه غیر فقیه و ربّ حامل فقه إلىٰ من هو أفقه منه»
''اگر کوئی شخص خبر واحد کی حجیت پر نص یا اجماع سے دلیل طلب کرے تو میں اسے دلیل دیتے ہوئے کہوں گا کہ نبی ﷺ نےفرمایا ہے: ''اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرّم رکھے جو میری کلام سن کر اسے حفظ کرتا ہے او رپھر یاد کی ہوئی میری حدیث کو لوگوں تک پہنچاتا ہے اوربہت سے حامل فقہ خود غیر فقیہ ہوتے ہیں اور بہت سے حامل فقہ ایسے لوگوں تک علم پہنچا دیتے ہیں جو اُن سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں۔''
امام شافعی فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب اپنی حدیث سن کر اسے حفظ کرنے اور یاد کی ہوئی حدیث کو آگے پہنچانے کی دعوت دے گئے ہیں تو اسی لئے کہ آپ کی حدیث اُمّت کےلیے حجّت اور شرعی دلیل ہے۔14
امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ کسی بھی مسئلہ کی بنیاد آیتِ قرآنی یا حدیثِ نبوی پر رکھی جائے گی، اگر کسی مسئلہ میں حدیث نہ ہوتو قولِ صحابی کو لیاجائے گا ، اگر یہ بھی نہ ہو تو قولِ تابعی کو بھی قبول کیا جائے گا۔لہٰذا امام احمد بھی خبرواحد (حدیث) کو شرعاً حجت ماننے میں جمہور اُمّت کےساتھ ہیں جیسا کہ اُصول مذهب الإمام أحمد میں خبرواحد کے متعلق اُن کامذہب بیان کرتے ہوئےکہا گیا ہے :
«الإمام أحمد والحنابله جمیعًا مع جمهور الأمة في وجوب العمل بخبر الواحد»15
''امام احمد اور تمام حنابلہ خبر واحد پرعمل کو فرض کہنے میں جمہور اُمت کے ساتھ ہیں۔''
اور جمہور کا مذہب ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ
«جمهور الأمة یقولون بوجوب العمل بخبر الواحد سواءً منهم من قال: إنه یفید العلم أم من قال: إنه يفید الظنّ»16
''خبر واحد پر عمل کی فرضیت کا مذہب جمہور اُمّت کا ہے، اس بارے میں خبر واحد کو مفید للیقین یا مفید للظنّ کہنے والے سب جمہور کےساتھ ہیں۔''
خطیب بغدادی
منکرین حدیث کو چونکہ اپنے جمہور اُمّت کے خلاف نظریات کو اہل اسلام میں مقبول بنانے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت ہے، اس لیے وہ عموماً کوشش کرتے ہیں کہ علامہ خطیب بغدادی کو اپنے باطل افکار کی ترویج کےلیے استعمال کریں اور ان کی کتاب الکفاية کی عبارتوں کو زبردستی اخبارِ آحاد (احادیثِ نبویہﷺ) کے حجّت نہ ہونے کے لئے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ خبر واحد کو جب کہ وہ قرآن و سنت کے یا عقل کے فیصلے کے خلاف ہو، حجت نہیں مانتے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی خبر واحد (حدیث) جو صحیح ثابت ہو وہ قرآن و سنت یا عقل کے خلاف نہیں ہوسکتی، بلکہ منکرین حدیث کی کج فکری اورکم فہمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی حدیث (خبر واحد) کو قرآن و سنت کے خلاف سمجھ لیتے ہیں۔ علامہ خطیب بغدادی تو اپنی کتاب الکفاية میں اخبار آحاد کی حجیت پر مستقل باب قائم کرکے متعد دلائل جمع کرگئے ہیں جو اُن کے جمہور امت کےموافق ہونے پر بین ثبوت ہے، وہ فرماتے ہیں:
«باب ذکر بعض الدلائل علىٰ صحة العمل بخبر الواحد و وجوبه»17
یعنی ''خبر واحد پرعمل کی صحت اور فرضیت پر بعض دلائل کا بیان''
اس کےبعد اُنہوں نے خبر واحد کےشرعی حجت ہونے اور اخبار آحاد پر عمل کے فرض ہونے پرمتعدد دلائل جمع کئے ہیں۔
حافظ ابن حزم
علامہ ابن حزم نے الإحکام میں خبر واحد کی حجیت پر تفصیلی بحث کی ہے او رمنکرین کو طرح طرح سے حق کی طرف لانے کی کوشش کی ہے، ہم ان کی ایک جامع اور مختصر عبارت نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جو اخبارِ آحاد کے شرعاً حجت ہونے پردلالت کرتی ہے ، وہ فرماتے ہیں:
«إن خبر الواحد العدل عن مثله إلىٰ رسول الله ﷺ یوجب العلم والعمل معًا و بهٰذا نقول»18
یعنی'' ہم اس بات کے قائل ہیں کہ عادل ثقہ کی خبر واحد جو وہ اپنے جیسے عادل و ثقہ راوی سے بیان کرےاو راسی طرح سارا سلسلہ اسناد رسولِ اکرم ﷺ تک پہنچتا ہو تو ایسی خبر واحد علم یقین کا فائدہ دیتی ہے او راس پر عمل کرنا فرض ہے۔''
سلف و خلف کا عمل اخبارِ آحاد کی حجیت پر رہا ہے، صحابہ و تابعین و تبع تابعین، ائمہ کرام اور محدثین عظام کےاَدوار میں جب بھی کوئی سائل کسی صاحبِ علم سے کسی مسئلہ کے بارے میں دریافت کرتا تھا تو اس عالم کے جواب پر مطمئن ہوکر عمل پیرا ہوجاتاتھا، اس جواب کو حدِتواتر تک پہنچانے کے لیے کبھی کسی سائل نے دیگر تمام اہل علم سے دریافت کرنے کی زحمت نہیں کی۔ دورِ حاضر میں بھی ایک آدمی کی خبر کا اس کی عدالت و ثقاہت کے پیش نظر اعتبار کیا جاتا ہے، رسائل و جرائد میں ایک ہی مضمون نگار کےلکھے ہوئے مضمون کو قبول کیا جاتا ہے او رایک ہی لیکچرار کے لیکچر کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں آنے والا ہر انسان خبر واحد کی بنیاد پر ہی اپنے والد (باپ) کو یقین کے ساتھ جانتا اور مانتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خبر واحد سے ثابت ہونے والے باپ کی موت پر اُس کے ورثا کے لئے احکامِ وراثت مرتب کیے ہیں۔ لیکن منکرین حدیث کو اگر اس بات پر ہی اصرار ہے کہ خبر واحد ظن کا فائدہ دیتی ہے اور جو چیز ظن ہے اس میں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ وہ
1.  غلط ہوسکتی ہے۔
2.  وہ جھوٹ اور افترا ہوسکتی ہے۔
3.  وہ کسی راوی کا وہم ہوسکتی ہے۔19
تو اہل اشراق کو چاہیے کہ وہ ایک ہی مضمون کو اپنےماہنامہ میں بیسیوں بار شائع کریں تب اس کو قابل التفات سمجھا جائے، ورنہ وہ ایک آدمی کی خبر(خبر واحد) ہوگی جس میں جھوٹ اور افترا نیز وہم و غلطی کا امکان باقی رہے گا۔
حجیتِ خبر واحد قرآنِ کریم سے
منکرین حدیث کے نزدیک قرآن کریم کا ثبوت متواتر ہے اور یہ علم کا فائدہ دیتا ہے اور قرآن کریم بھی خبر واحد کے حجت ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔مصر میں فرعون اور اس کے حواری حضرت موسیٰ کے قتل کا منصوبہ بنا رہے تھے تو ایک آدمی نے آکر موسیٰ کو یہ خبر دی کہ اے موسیٰ ! تیرےقتل کے منصوبے بن رہے ہیں لہٰذا یہاں سے جان بچا کر نکل جائیں ۔ قرآنِ کریم اس خبر واحد کو یوں ذکر کرتا ہے:
﴿وَجاءَ رَ‌جُلٌ مِن أَقصَا المَدينَةِ يَسعىٰ قالَ يـٰموسىٰ إِنَّ المَلَأَ يَأتَمِر‌ونَ بِكَ لِيَقتُلوكَ فَاخرُ‌ج إِنّى لَكَ مِنَ النّـٰصِحينَ ٢٠ فَخَرَ‌جَ مِنها خائِفًا يَتَرَ‌قَّبُ ۖ قالَ رَ‌بِّ نَجِّنى مِنَ القَومِ الظّـٰلِمينَ ٢١ ﴾...... سورة القصص
اس ایک آدمی کی خبر کا اعتبار کرتے ہوئے حضرت موسیٰ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے، لیکن اگر وہ یہ کہتے کہ یہ تو خبر واحد ہے جو ظنی ہے اور جو چیز ظن ہو ،اس میں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ وہ
1.  غلط ہوسکتی ہے۔
2.  وہ جھوٹ اور افترا ہوسکتی ہے۔
3.  وہ کسی کا وہم ہوسکتی ہے۔
تو اس سے جو نتیجہ نکلتا وہ ظاہر ہے۔ اس سے آگے مائے مدین پر بھی حضرت موسیٰ ، حضرت شعیب کی دو لڑکیوں میں سے ایک کےکہنے پر،کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے۔چل پڑے اور حضرت شعیب کے داماد بننے کا شرف حاصل ہوا۔
یہاں منکرین اخبارِ آحاد کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا جاسکتا ہے کہ یہ تو قرآن ہے اور قرآنِ کریم کو تواتر حاصل ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم کو تواتر تو تب حاصل ہوا ہے جبکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاحبِ قرآن(ﷺ) پر نازل ہوا ہے اور موسیٰ کوایک آدمی کے خبر دینے کا واقعہ اس سے بہت پہلے کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ذکر فرمایا ہے ۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اور پہلے انبیا اور رسولوں کے ہاں بھی خبر واحد معتبر اور قابل حجت رہی ہے۔ صرف منکرین حدیث اس کی حجیت سے انکاری ہیں!!
علماے حدیث نےسورۃ الحجرات کی حسبِ ذیل آیت سے بھی عادل ثقہ کی خبر کے مقبول ہونے پر استدلال کیا ہے۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا...... ٦ ﴾..... سورة الحجرات
اور اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فاسق شخص کی خبر کو قبول کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرلینے کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایک عادل او رثقہ شخص کی خبر کو قبول کرنے کے لیے تحقیق کی ضرورت نہیں ہے، ورنہ عادل اور فاسق کی خبر کو قبول کرنے میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔علماے حدیث نے صحیح حدیث کے قابل قبول ہونے کےلیے جو شرطیں عائد کی ہیں، ان سےان خطرات کا ازالہ ہوجاتا ہے جن سے منکرین حدیث ڈرتے ہیں اور اُنہوں نے صحیح حدیث کی تعریف ہی یہ کی ہے :
«ما اتصل سنده بنقل العدل الضابط عن مثله إلىٰ منتهاه ولا یکون شاذًا ولا معللًا»
کسی بھی حدیث میں یہ شرطیں پائے جانے سے وہ قابل قبول ہوتی ہے او ریہ شرطیں رواۃِ حدیث سے وہم اور غلطی نیز جھوٹ کے امکان کو دور کرنےکےلیے ہی لگائی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی اگر بعض لوگ یہ سمجھتے بلکہ واویلا کرتے ہیں کہ خبر واحد ظنّی ہوتی ہے اور جو چیز ظن ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اس بات کاامکان پایا جاتا ہے کہ وہ
1.  غلط ہوسکتی ہے۔
2.  وہ جھوٹ اور افترا ہوسکتی ہے اور
3.  کسی راوی کا وہم ہوسکتی ہے۔
تو ایسے توہم پرست لوگوں کے متعلق امام ابن قیم جوزیہ فرماتے ہیں:
«من قال إن خبر الواحد یفید الظن نقول له: یفید الظن هذا بالنسبة لك و بالنسبة لعلمك ولکن بالنسبة للمتخصصین من أهل العلم والحدیث یفید عندهم العلم لأن عندهم خبرة بالأحادیث و دراسة الأسانید و معرفة حال الرجال إلىٰ آخر ذلك ... فنقول یفید الظن بالنسبة لك أنت وأمثالك ممن لم یعرفوا هٰذا العلم و هذا الفن»20
'' جو شخص یہ کہے کہ خبرواحد تو ظنی ہے (اور ظن کا کوئی اعتبارنہیں) تو ہم اسے کہتے ہیں: ہاں واقعی خبر واحد تیرے جیسےناقص العلم کو ظن کا فائدہ دیتی ہے، لیکن محدثین کرام جو علم حدیث کے ماہر اور متخصص ہیں، اُنہیں خبر واحد علم و یقین کا فائدہ دیتی ہے، کیونکہ انہیں احادیث و اسانید کا ماہرانہ تجربہ حاصل ہوتا ہے اور وہ رواۃِ حدیث کےکوائف اور دیگر معلومات سے واقف ہوتے ہیں۔ ہم پھر منکرین اخبارِ آحاد سے کہیں گے کہ خبر واحد آپ جیسوں کےلیے ظن کا ہی فائدہ دیتی ہے جو فن حدیث سےنابلد اور علم حدیث سے ناآشنا ہوتے ہیں۔''
حوالہ جات

1. صحیح بخاری مع الفتح: 13؍347

2. صحیح بخاری : 8 ؍126

3. سنن ترمذی: 2100

4. نزہۃ النظر: 33

5. الکفایۃ فی علم الروایۃ :26 تا 31

6. صحیح بخاری مع الفتح :10؍179، رقم5730

7. صحیح بخاری :10 ؍179، رقم5729

8. صحیح بخاری مع الفتح :1 ؍185، رقم 89

9. صحیح بخاری مع الفتح:11؍27، رقم 6245

10. فتح الباری :11؍30

11. سنن ترمذی:رقم 1204

12. صحيح بخاری مع الفتح :1؍379

13. الموطا :1؍128

14. الرسالہ از امام شافعی : 401، 402

15. اُصول مذہب الامام احمد : 287

16. اُصول مذہب الامام احمد : 287

17. الکفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي : 67

18. الإحکام شرح أصول الأحکام : 115

19. ماہنامہ 'اشراق' لاہور: ص36 ... جولائی2012ء

20. حجية الآحاد في العقیدة : 30 ؛ مختصر الصواعق :2؍359، 432