ختم نبوت کی تحریکوں میں علماے اہل حدیث کا کردار

عقیدۂ ختم نبوت ہر مسلمان پرواجب ہے ۔ اُمّتِ مسلمہ کی اجتماعیت اسی عقیدے سے وابستہ ہے۔ اگر کوئی شخص ختم نبوت کی نفی کرتا ہے یا اس میں کمی بیشی کا مرتکب ہوتا ہے تو گویا وہ اسلام کی خوبصورت عمارت میں نقب زنی کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے :
﴿وَلـٰكِن رَ‌سولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ......٤٠﴾..... سورة الاحزاب
محمدﷺ نہ صرف اللہ کے رسول ہیں بلکہ تمام انبیا کو ختم کرنے والے ہیں۔
اور خود آپﷺ نے فرمایا:«أنا خاتم النّبيـین لا نبي بعدي»1
''میں انبیا کو ختم کرنے والا ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔''
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول ﷺ کے ان فرامین کے تحت تمام اُمّت کا ختم نبوت کےعقیدہ پر اجماع و اتحاد ہے جس سے اِنحراف یا اختلاف متفقہ طور پر دائرۂ اسلام سے اِخراج ہے۔ پوری اُمّت کا اس اَمر پر بھی اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص آپﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا تو وہ جھوٹا اورکذّاب ہے۔ اُمت اس پر بھی متفق ہے کہ سیدنا عیسیٰ جنہیں زندہ آسمان پر اٹھایا گیا ہے، ان کا نزول دوبارہ ہوگا مگر نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ خاتم الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ کے اُمّتی کی حیثیت سے نزول ہوگا۔
سرزمین ہند میں قادیان کےمرزاغلام احمدنے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تو علماے اُمت نے اس فتنہ کےسدّباب کےلیےبھرپور کردار اَدا کیا اور اس عظیم جدوجہد میں علماے اہل حدیث کی خدمات سرفہرست اور امتیازی حیثیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ آغاشورش کاشمیری مرحوم نے اپنی زندگی کی آخری تصنیف 'تحریکِ ختم نبوت' میں لکھا ہے کہ مرزا قادیانی کی سب سے پہلے سرکوبی کرنے والے مولانا محمد حسین بٹالوی  اہل حدیث تھے جنہوں نےجگہ جگہ مرزا کا تعاقب کرکے اس کے مذموم مقاصد اور دعاوٰی کوباطل ثابت کیا ۔اُنہوں نے اپنے استاذِ گرامی میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوکر ایسے غلط عقائد اور دعوے کرنے والے شخص کےبارے میں کفر کا فتویٰ حاصل کیا جبکہ دوسرے مکاتبِ فکر ابھی سوچ بچار کررہے تھے اور مرزا کے ان گمراہ کن عقائد کے صغرے کبرے بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ انہی دنوں سردارِ اہل حدیث مولانا ثناء اللہ امرتسری نے تو قادیان جاکرمرزا کو للکارا، لیکن اسے مولانا موصوف کا سامنا کرنےکی جرأت نہ ہوسکی۔
اس سلسلہ میں قاضی محمد سلیمان منصورپوری اور مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی اور حافظ محمد عبداللہ روپڑی  کے تبحر علمی و سید محمد شریف گھڑیالوی کی حکیمانہ بصیرت اور کاوشوں کو کون نظر اَنداز کرسکتا ہے جن کےبعد مولانا عطاء اللہ حنیف او رمولانا محمد حنیف ندوی کی تصنیفی و تالیفی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
1953ء کی تحریک ختم نبوت میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی (جو اس تحریک کی مجلس عمل کے جنرل سیکرٹری تھے)، مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجرانوالہ، مولانا عبدالحمید سوہدری ، علامہ محمد یوسف کلکتوی کراچی ، مولانا معین الدین لکھوی، مولانا حکیم عبدالرحمٰن آزاد گوجرانوالہ، مولانا محمد عبداللہ گورداسپوری، مولانا عبدالرشید صدیقی ملتان، مولانا عبداللہ احرار، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف، مولانا حافظ محمد اسماعیل روپڑی، مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح راولپنڈی، مولانا حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری ، مولانا علی محمد صمصام اور مولانا احمددین گکھڑوی﷭ اور بہت سے اس زمانے کے علماے اہلحدیث کا کردار تحریک میں نمایاں تھا جن میں سے اکثر نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔اسی تحریک کے دوران فیصل آباد میں مولانا علی محمد صمصام ، مولانا احمد دین گکھڑوی، مولانا محمد صدیق، مولانا محمد ابراہیم خادم تاندلیانوالہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
ان سطور کا راقم بھی اپنی صغر سنی میں والد  حاجی عبدالرحمٰن پٹوی کے ہمراہ ان اَکابر کے ساتھ چند ہفتے ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میں رہا، کیونکہ میں نےمرکزی جامع مسجد کچہری بازار کےبہت بڑے جلسہ میں مولانا صمصام کی ایک نظم مرزا غلام احمد کی مذمت میں پڑھی تھی۔
1974ء کی تحریک ختم نبوت 29؍مئی 1974ء کو شروع ہوئی۔اس روز قادیانی جماعت کی ربوہ تنظیم 'کمانڈو' کے کارکنوں نے چناب نگر ریلوے اسٹیشن (سابقہ ربوہ) پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے مسلمان طلبہ پر جو تفریحی ٹور سے چناب ایکسپریس کے ذریعے واپس آرہے تھے محض اس جرم کی پاداش میں حملہ کردیا کہ اُنہوں نے ختم نبوت زندہ باد کےنعرے لگائے تھے۔ اس واقعہ کی فیصل آباد میں خبر پہنچتے ہی بہت سے لوگوں کےعلاوہ فیصل آباد شہر کےعلما مولانا محمد صدیق، مولانا محمد اسحٰق چیمہ، مفتی زین العابدین، مولانا عبدالرحیم اشرف، مولانا تاج محمود اور راقم الحروف فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پر آگئے جہاں چناب ایکسپریس 2؍ گھنٹے رُکی رہی اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے زخمی طلبہ کی مرہم پٹی کی۔ علما نے اس سانحہ پر مشتعل ہجوم کو یقین دلایا کہ قوم کے ان نونہالوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔چنانچہ فی الفور پریس کانفرنس کرکے اس اَلم ناک صورت حال کوبیان کیا گیا اور ملک بھر کو آگاہ کیا گیا، اگلے روز شہر میں ہڑتال کی گئی۔بیرونی شہروں سے علما نے فیصل آباد کی دینی قیادت سے رابطہ قائم کیا اور ایک مجلس مشاورت کے بعد راولپنڈی میں مولانا غلام اللہ خان کی دعوت پر ان کی مسجد راجہ بازار میں نمائندہ اجلاس کے انعقاد کافیصلہ کیا گیا۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے فیصل آباد سےجو وفد بنایا گیا اس میں مفتی زین العابدین، مولانا عبدالرحیم اشرف، مولانا تاج محمود، مولانا محمد صدیق، مولانامحمد شریف اشرف اور راقم الحروف شامل تھے۔
ٹرین پر سفر کےلیےاسٹیشن روانگی سے قبل مولانامحمد اسحٰق چیمہنےفرمایاکہ راستے میں گرفتاری ہوسکتی ہے۔اس لیےبہتر ہوگا کہ کچھ حضرات بذریعہ کار روانہ ہوں، اس تجویز پر مفتی زین العابدین، مولانا محمد اسحٰق چیمہ اور مولاناعبدالرحیم اشرف ٹرین سے اور مولانا محمد صدیق، مولانا محمد شریف اشرف اور راقم الحروف بذریعہ کار عازمِ راولپنڈی ہوئے۔چنانچہ ٹرین پر سفر کرنے والے علما کو لالہ موسیٰ ریلوے اسٹیشن پر پولیس نےگرفتار کرلیا، جبکہ بذریعہ کارجانے والے راولپنڈی پہنچ گئے۔ دیگر شہروں سے آنے والے علما کے ساتھ بھی راستوں میں یہی سلوک ہوا تاہم علما کی اچھی خاصی تعداد اس ہنگامی اجلاس میں موجود تھی۔
اس اِجلاس میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت قائم کی گئی جس کے امیر مولانا محمد یوسف بنوری، کراچی بنائے گئے۔ مولانا محمود احمد رضوی سیکرٹری جنرل اور ناظم مالیات میاں فضل حق ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیۃ اہلحدیث مقرر ہوئے۔ فیصل آباد سے شروع ہونے والی یہ تحریک چند دنوں میں ملک گیر شکل اختیارکرگئی جس میں مرکزی سطح پر علامہ احسان الٰہی ظہیر، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا حافظ عبدالحق صدیق ساہیوال، مولانا محمد حسین شیخوپوری، مولانا محمد عبداللہ گورداسپوری بوریوالہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ آف گوجرانوالہ پیش پیش تھے۔ ہمارے شہر فیصل آباد میں مقامی مجلس عمل کےصدر میاں طفیل احمدضیا (جماعت اسلامی) اور ان سطور کا راقم سیکرٹری جنرل تھے۔ تمام مکاتبِ فکر پر مشتمل علماے کرام، مرکزی مجلس عمل کے ممتاز قائدین اور علماے اُمت نے یہ تحریک اسی منصوبہ بندی اورحکمت عملی سے چلائی کہ سارا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔
حکومت نے صمدانی کمیشن تشکیل دیاجس نے ربوہ اسٹیشن کے سانحہ اور آمدہ واقعات کی تحقیقات کی مگر پھر ہوا یہ کہ قومی اسمبلی کو انکوائری کمیٹی میں تبدیل کردیا گیا اور مرزائی لاہوری پارٹی کے سربراہ قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد پر قومی اسمبلی میں کئی روز تک جرح ہوتی رہی، جرح کے لیےیہ طریق کارطے ہوا کہ اراکین اسمبلی جو سوال کریں وہ سکریننگ کمیٹی میں پہلے پیش کریں او راس کے ساتھ مرزائی لٹریچر سے وہ عبارت مع حوالہ جات درج کریں جس کی بنا پر وہ سوال کررہے ہیں۔ کمیٹی کے مطالبہ پر اصل کتاب اور دستاویزات بھی مہیا کریں۔ یہ کمیٹی معقول اور مدلل سوالات اٹارنی جنرل کو فراہم کرے جو متعلقہ رکن اسمبلی کےحوالےسے مرزائی لیڈروں سےجواب طلب کریں۔
سوالات مرتب کرنے کے لیے رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد سلیمان تونسوی نے خواجہ قمر الدین سیالوی سےکہاکہ وہ ان کی راہنمائی کے لیے کسی صاحبِ علم کا انتظام کریں۔ خواجہ سیالوی نےمولانا محمد ابراہیم کمیرپوری معروف اہلحدیث عالم اورمناظر کا انتخاب کیا۔چنانچہ مولانا کمیرپوری خواجہ تونسوی کےپاس اسلام آباد پہنچ گئے جہاں اُنہیں معلوم ہوا کہ مفتی محمود ، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالحکیم اور پروفیسر عبدالغفور و دیگر حضرات نے بھی اسی مقصد کے لیے کچھ علما کی خدمات حاصل کررکھی ہیں۔اٹارنی جنرل ممبران کے حوالے سے جو سوال کرتے، وہ دراصل انہی علما کےمرتب کردہ ہوتےتھے جو درمیانی کمیٹیوں سے پاس ہوکر وہاں تک پہنچتے تھے۔ اَرکانِ اسمبلی کی طرف سے مرزا ناصر پر کیا جانے والا آخری سوال یہ تھا:
''آپ لوگ مرزا کی نبوت کو ظلّی بروزی اور لغوی وغیرہ کہہ کر اس کی شدت اور سنگینی کو کم کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ خود اپنے آپ کو آنحضرتﷺ کے نعوذ باللہ ہم پلّہ بلکہ ان سے اونچی شان کا حامل قرار دیتے ہیں جیسا کہ ان کا ایک مرید ان کی زندگی اور ان کی موجودگی میں ان کی مدح اور توصیف ان الفاظ میں کرتاہے ؎

محمد پھر اُتر آئے ہیں ہم میں          اور آگے سے بڑھ کر ہیں اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل          غلام احمد کو دیکھے قادیان میں

مرز ا غلام احمد نے اس گستاخ کونہ جھڑکا اور نہ ہی ڈانٹا بلکہ زبانِ مبارک سے جزاک اللہ کہااور فریم شدہ قصیدہ گھر لے آئے۔
مولانا کمیرپوری بتاتے ہیں کہ سکریننگ کمیٹی میں جو سوالات ہماری طرف سے پیش کئے گئے، ان میں یہ سوال اپنے صحیح حوالہ سے ساتھ شامل تھا۔ تاہم یہ سوال ایک اور رُکن اسمبلی کی طرف سےبھی آیا تھا، لیکن اُنہوں نے غلطی سے اخبار بدر،قادیان کی جگہ الفضل قادیان لکھ دیا تھا۔ سکریننگ کمیٹی نے طے کیا کہ یہ سوال اس معزز ممبر کی طرف سے پیش ہوا اور اس کامنشا یہ تھاکہ زیادہ سے زیادہ ارکانِ اسمبلی کو جرح کےعمل میں شریک کیا جائے۔ مرزاناصر احمد سے اٹارنی جنرل نےجب یہ سوال کیا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ سوال قطعی بے بنیاد ہے کیونکہ اخبار الفضل تو شروع ہی مرزاغلام احمد کی وفات کے بعد ہوا تھا۔ اٹارنی جنرل نے سوال واپس لےلیا اور ارکانِ اسمبلی کو صحیح حوالہ پیش کرنے کی ہدایت فرمائی۔ مولانا کمیرپوری نےمتعلقہ کمیٹی کی وساطت سے قومی اسمبلی کے سیکرٹری او راٹارنی جنرل تک اصل حوالہ پہنچایا، دوسرے دن کارروائی کے آغاز ہی میں اٹارنی جنرل نےمرزا ناصر احمد سےکہا کہ مرزا صاحب وہ کل والی بات پوری طرح صاف نہیں ہوئی۔مرزا ناصر احمد نے پُراعتماد اَنداز میں کہا:جناب میں بتا چکا ہوں کہ 1902ء میں 'الفضل' تھا ہی نہیں۔ اٹارنی جنرل نےکہاکہ ہوسکتا ہےکہ کسی او راخبار ، رسالے یا کتاب میں ہو اور فاضل ممبر کو حوالہ لکھنے میں غلطی ہو گئی ہو۔ آپ اپنے پورے لٹریچر سے اس کی نفی کریں، مرزا ناصر احمد نے ایسے ہی کہا اور کہاکہ یہ ہم پرکھلم کھلا بہتان ہے، میں اپنے مکمل لٹریچر میں سے اس کی نفی کرتاہوں اس پر اٹارنی جنرل نے ہمارا پیش کردہ 22؍ اکتوبر 1902ء کا اخبار'بدر' قادیان نکالا اور بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے ہوئے قومی اسمبلی کو ورطۂ حیرت میں اور خلیفہ ربوہ کو بحرندامت میں ڈال دیا۔
اُنہوں نے خلیفہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: مرزا صاحب! یہ بات قطعاً قرین قیاس نہیں کہ یہ حوالہ آپ کو او رآپ کے معاونین کو معلوم نہ ہو، بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ نے ایک مذہبی راہنما ہوتےہوئے اس ہاؤس میں حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناروا جسارت کی۔خلیفہ اس کارروائی سے اتنا بددل ہوا کہ اس نے مزید سوالات کا جواب دینے سے معذوری ظاہر کردی اور اس کی پسپائی اور رسوائی سےمعاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
1974ء کی یہ تحریک اس قدر منظّم تھی کہ صرف تین ماہ اور دس دنوں میں اسےاللہ تعالیٰ نے کامیابی سے ہم کنار کیا۔ اور 7؍ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ اس واقعہ کی یاد میں 7؍ستمبر کو یوم فتح کےطور پر ہر سال منایا جاتا ہے اور زبان و قلم پر اس روز طرح طرح کی کہانیاں زور شور سےلائی جاتی ہیں، لیکن اسےکم ظرفی یا تنگ دلی یاتجاہل عارفانہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ تحریک کے آغاز و پس منظر اورمحرکین کے نام تک نہیں لیےجاتے،حالانکہ ان میں اہلحدیث علما کاکردار سرفہرست ہے جو ایک عظیم سعادت ہے!!
7؍ستمبر کا دن یقیناً خو ش و مسرت کا دن ہے کہ ہمارے اَکابرکی کوششوں اور گراں قدر قربانیوں کےنتیجہ میں ایک دیرینہ مسئلہ حل ہوا، لیکن اس دن کے بعد قادیانیوں نے آئین سے بغاوت کرتےہوئے خود کو غیر مسلم تسلیم کرلینے کی بجائے خود کو مسلمان ثابت کرنا اور مظلوم ثابت کرنا شروع کردیا۔ مزید برآں اسلامی اصطلاحات کو بڑے دھڑلے سے استعمال کرنا شروع کردیا جس پر ہمارے علما نے جنرل ضیاء الحق مرحوم سے ایک آرڈیننس جاری کروایا کہ قادیانی اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کرسکتے۔ لیکن قادیانی اس آرڈیننس کےخلاف پہلے شرعی عدالت میں گئے اور کہا کہ یہ ہمارے ساتھ ظلم ہے مگر شرعی عدالت نے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ فیصلہ دیاکہ قادیانی اپنی اصطلاحات الگ بنائیں اورمسلمانوں کی اصطلاحات استعمال نہ کریں۔ پھر قادیانی اس فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ میں گئے کہ یہ مذہبی آزادی کےخلاف ہے جس پر سپریم کورٹ نے 1993ء میں تاریخی فیصلہ دیا کہ قادیانی اسلامی اِصطلاحات استعمال کرکے مسلمانوں کےدلوں کو مجروح کرتے ہیں۔ لہٰذا آج پھر ضرورت شدید ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کےخلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنا دیں اور اس اہم کام کے لیے تمام مکاتبِ فکر کوماضی کی طرح اپنے اَکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے متفقہ لائحہ عمل اختیار اور پوری دل جمعی سے اس پر کام کرنا چاہیے۔


حوالہ جات

1. جامع ترمذی: رقم 2145