عصر حاضر کے نوجوانوں کے مسائل اور اُن کا حل

موجودہ دور مغربی فکر وفلسفہ اور مادی نظاموں کے غلبے کا دور ہے۔ مغرب کی موجودہ فکر نے اِنسانیت پر صرف اپنے گہرے اَثرات ہی نہیں مرتب کیے بلکہ حیاتِ انسانی کو اپنے مطلوبہ سانچوں کے مطابق ڈھالا بھی ہے جس کی وجہ سے اَقدار و روایات کا مضبوط نظام تہہ وبالا ہو کر رہ گیا ہے۔ اِنسانیت بڑی سخت معنوی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ ان کٹھن اور تلخ حالات نے سب سے زیادہ مسائل ہمارے مسلم نوجوانوں کے لئے پیدا کئے ہیں جو ایک ایسے دین کے پیروکار ہیں جو اپنے دائمی اور عالمگیر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، جو اپنی تعبیر میں لا محدود وسعتوں کا قائل ہے، ایسے دین کی اِتباع میں اس سے غیر متعلقہ پیوندکاری کی کیسے گنجائش نکل سکتی ہے؟
دوسری طرف سے یہ پریشانی ہے کہ پُر فتن حالات میں بھی علماے اسلام کی طرف سے ایسا حل پیش نہیں کیا جارہا جو پیش آمدہ مسائل کو بطریق اَحسن کامل طور پر حل کر نے کا ضامن ہو۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر اَلمیہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول اور معاشرے میں اپنی دینی ثقافت کا رنگ بھی نہیں پاتا۔ اس کے پاس اَسلاف سے رشتہ و ناطہ جوڑنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے یعنی وہ لٹریچر جو اَسلاف نے اپنے دور کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر تیار کیا تھا۔ بالعموم ہمارے مسلم نوجوان ان مسائل کا شکار ہیں، کیونکہ بوڑھوں کی زندگی جن سانچوں میں ڈھلی ہوئی تھی، وہ اپنے دور کے فکری تقاضوں کے بقدر ہم آہنگ تھے۔ وہ انہیں پہ کار بند ہیں اور انہی کے مطابق رہنا چاہتے ہیں۔ چاہے حالات کا طوفان جس طرف بھی بہہ جائے جبکہ نوجوان ہر آنے والی تبدیلی کا بری طرح شکار ہوتے ہیں۔
ہماری نظر میں نوجوانوں کے ان مسائل کا حل دو چیزوں میں پنہاں ہے:
1.  دین سے گہرا رابطہ ورشتہ     2. اخلاق
یہی دونوں چیزیں معاشرے کے ستون ہیں،انہی سے دنیا اور آخرت کی اِصلاح ہوسکتی ہے اور انہی کے ذریعے خیرات و برکات کو حاصل کیا جا سکتا اور شرور وآفات ختم ہو سکتی ہیں۔
یہ بات تو بلا شبہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح مکان صرف اپنے مکینوں سے ہی آباد ہوتا ہےایسے ہی دین، دینداروں سے ہی قائم ہوتا ہے۔ جب وہ دین کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیں گے تو پھر ان کا دشمن چاہے کوئی بھی ہو تو اللہ ان کی مدد کریں گے۔
قرآن میں ہے:﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن تَنصُرُ‌وا اللَّهَ يَنصُر‌كُم وَيُثَبِّت أَقدامَكُم ٧ وَالَّذينَ كَفَر‌وا فَتَعسًا لَهُم وَأَضَلَّ أَعمـٰلَهُم ٨ ﴾..... سورة محمد
''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوطی سے جما دے گا۔رہے وہ لوگ جنہوں نےکفر کیا ہے تو ان کے لیے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے۔''
جب حقیقت یہ ہے کہ دین صرف دینداروں کے ذریعے ہی قائم ہوتا ہے تو ہم اہل اسلام اور اس کا عَلم اٹھانے والوں پر لازم ہے کہ سب سے پہلے بذاتِ خود اس پر عمل پیرا ہوں۔ تاکہ ہم دنیا کے لیے قیادت و ہدایت کا فریضہ سر اَنجام دے سکیں اور توفیق و اصلاح کا محور بن سکیں ۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنّت سیکھیں جو ہمیں قول و عمل اور راہنمائی و دعوت کا اہل بنا دے تاکہ ہم ہر اُس شخص کے لیے جو حق و باطل کی تلاش اور اس میں امتیاز کا اِرادہ رکھتا ہے، اَسلاف کی رو ایات کے امین او رروشن چراغ کے متحمل بن سکیں۔
پھر ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ جو کچھ ہم نے سیکھا ہے، اسے اپنی عملی زندگی میں ایسی تطبیق کریں جس کا چشمہ ایمان و یقین اور اخلاص و اتباع سے پھوٹے۔ صر ف باتیں اور دعوے ہی کرنا اہل اِسلام کے شایان شان اور لائق نہیں، کیونکہ جب عمل بات کی تصدیق نہ کرے تو قائل کی بات کوئی مثبت اَثر نہیں رکھتی بلکہ اس کی دعوت کے اثرات برعکس ہو سکتے ہیں۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لِمَ تَقولونَ ما لا تَفعَلونَ ٢ كَبُرَ‌ مَقتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقولوا ما لا تَفعَلونَ ٣ ﴾..... سورة الصف
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جوکرتے نہیں۔''
ہمارے لیے زیادہ مناسب یہی ہوگا کہ ابتداءً ہم اپنی بحث کا آغاز اس طریقے سے کریں کہ نوجوانوں کے اَفکار و اعمال کے بارے میں غور کریں تاکہ جو اعمال صالح ہوں ان کی حوصلہ اَفزائی کرسکیں اور جو فاسد ہیں ان کی اصلاح کی جاسکے، کیونکہ آج کے نوجوان کل کے ذمہ دار شہری ہیں اور نوجوان ہی وہ اَساس ہیں جن پر اُمّت کے مستقبل کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے نصوصِ شرعیہ میں اُن کے ساتھ اچھا سلوک اور اس چیز کی طرف رہنمائی کرنے پر اُبھارا گیا ہے جس میں اِصلاح اور خیر ہو اور جب نوجوانوں کی اصلاح ہوجائے گی تو عنقریب اُمّت کا مستقبل روشن ہوجائے گا پھر ہمارے بزرگ نسل کے جانشین نیک اور صالح لوگ ہوں گے۔ نوجوان ہی اُمّت کی وہ اَساس ہیں جن پر اُمت کے مستقبل کا دار و مدار ہے اور ان کی اصلاح دو مضبوط معاشرتی ستونوں یعنی دین و اخلاق پر مبنی ہے۔
نوجوانوں کے رجحانا ت
جب ہم ایک تحقیقی نظر سےعصر حاضر کے نوجوانوں کےبارے میں غور و خوض کرتے ہیں تو ہمیں تین طرح کے لوگ نظر آتے ہیں:
1.  وہ نوجوان جو صراط ِمستقیم پر گامزن ہیں۔
2.  وہ نوجوان جو الحاد و دہریت کی راہ اختیار کرچکےہیں۔
3.  وہ نوجوان جو دونوں رجحانات کے مابین ابھی تک حیران و پریشان ہیں۔
صراطِ مستقیم پر گامزن نوجوانوں کے اَوصاف
وہ نوجوان جو صراطِ مستقیم پر چلنے والے ہیں وہ درج ذیل اَوصاف کے حامل ہوتے ہیں:
1.  ایسا نوجوان جو اسلام کے تمام تقاضوں کو کماحقہ تسلیم کرتا ہے، وہ اپنے دین پر محبت کے ساتھ ایمان لاتا ہے۔ اس کے تمام فرائض کی بجا آوری اور اس پر فخر کرتا ہے اس کے ساتھ کامیابی کو غنیمت اور اس سے محرومی کو سراسر خسارہ سمجھتا ہے۔
2.  ایسا نوجوان جو اللہ کے دین کے لیے مخلص ہوکر اُس اکیلے کی بلا شرکت غیر ےعبادت کرتا ہے۔
3.  ایسا نوجوان جو اپنے رسول محمدمصطفیٰﷺ کے قول و عمل اور اَوامر و نواہی میں اِتباع کرتا ہے،کیونکہ وہ آپﷺ پر ایمان لایا ہے کہ آپﷺ اللہ کے رسول اور میرے پیشوا و مطاع ہیں۔
4.  ایسا نوجوان جو اپنی اِستطاعت کے مطابق بہترین طریقے سے نماز اَدا کرتا ہے اور نماز پڑھنے سے جو اِنفرادی، اجتماعی، دینی اوردنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں، ان پر وہ ایمان رکھتا ہے۔
5.  ایسا نوجوان جو زکوٰۃ کومکمل صورت میں اس وجہ سے ادا کرتا ہے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں نیز یہ کہ اس کی اَدائیگی سے اسلام کے پانچ اَرکان میں سے ایک رکن کا تقاضا پورا ہوجاتا ہے۔
6.  ایسا نوجوان جوخواہ گرمی ہو یا سردی رمضان کے روزے رکھتا ہے ۔ اپنی خواہشات و لذّات سے خود کو باز رکھتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے ربّ کی رضا پر ایمان رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کو اس چیز سے جوڑے رکھتا ہے جسے اس کے ربّ نے اس کےلیے پسند کیا ہے۔
7.  ایسا نوجوان جو اس لیے بیت اللہ میں حج کا فریضہ اَدا کرتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے گھر سے محبت کرتا ہے اور اس کی رحمت و مغفرت کے شہروں کی طرف سفر کرنا پسند کرتا ہے نیز مسلمان بھائی جو اُن شہروں کی طرف جارہے ہیں ،اُن کے ساتھ شریک ہونا اسے اچھا لگتا ہے۔
8.  ایسا نوجوان جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے کہ اس نے اسے پیدا کیا ہے اور زمین و آسمان کو بھی پیدا کیا ہے، کیونکہ وہ اللہ کی ایسی نشانیاں دیکھتا ہے جو اس کے وجود پر اتنی واضح دلالت کرتی ہیں کہ اس کے وجود میں کسی قسم کے شک و تردّد کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ چنانچہ یہ کائنات جو اپنی شکل اور نظام میں ایک بالکل نئی اور وسیع و عریض ایجاد ہے، وہ اسے دیکھتا ہے تو یہ اپنے مُبدع وموجد کے وجود، اس کے کمالِ قدرت اور اس کی بالغ حکمت پر قطعی طور پر دلالت کرتی دکھائی دیتی ہے۔کیونکہ یہ کائنات خود بخود وجود میں آہی نہیں سکتی اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اَچانک وجود میں آجائے۔ چنانچہ یہ اپنے وجود سے پہلے معدوم تھی اور معدوم تو وجود نہیں رکھتا، کیونکہ وہ غیر موجود ہے۔ ایسے ہی یہ بھی ممکن نہیں کہ یہ کائنات خود بخود معرضِ وجود میں آ جائے۔ کیونکہ اس کا ایک نظام ہے جو جدید اور متناسب ومسلسل ہے جو اپنے طے شدہ قانون سے متغیر اور مختلف نہیں ہوتا،وہ قانون جسے اللہ نے اس کے لیے مقرر کیا کہ یہ اس پرچلے۔ قرآن میں ہے:
﴿فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبديلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحويلًا ٤٣ ﴾...... سورة فاطر
''تم اللہ کے طریقہ میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤگے او رتم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنّت کو اس کے مقررہ راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔''
نیز فرمایا:﴿ما تَر‌ىٰ فى خَلقِ الرَّ‌حمـٰنِ مِن تَفـٰوُتٍ ۖ فَار‌جِعِ البَصَرَ‌ هَل تَر‌ىٰ مِن فُطورٍ‌ ٣ ثُمَّ ار‌جِعِ البَصَرَ‌ كَرَّ‌تَينِ يَنقَلِب إِلَيكَ البَصَرُ‌ خاسِئًا وَهُوَ حَسيرٌ‌ ٤ ﴾.... سورة الملك
'' تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤگے پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ۔ تمہاری نگا ہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔''
لہٰذا جب یہ کائنات ایک بدیع اور متناسب وہموار نظام پر چل رہی ہے تو یہ بات ناممکن ہے کہ یہ اَچانک یا اتفاقیہ طور پر معرضِ وجود میں آجائے۔ کیونکہ اگر یہ خود اتفاقیہ طور پر معرضِ وجود میں آئی ہوگی تو پھر لامحالہ اس کا انتظام بھی اتفاقیہ ہوگا جو کسی بھی لمحہ تبدیل یا مضطرب ہوسکتا ہے۔
9.  ایسا نوجوان جو فرشتوں پر ایمان رکھتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اس کے رسول نے ان کے بارے میں سنّت میں خبر دی ہے۔ مزید یہ کہ کتاب و سنت میں ان کے وہ اَوصاف ، عبادات اور اعمال بھی موجود ہیں جن سے وہ متصف ہیں اور وہ مخلوق کی مصلحت کے لیے ہیں۔ یہ تمام خبریں ان کے وجود کی حقیقت پر قطعی دلیل ہیں۔
10.  ایسا نوجوان جو اللہ کی ان کتابوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس نے اپنے رسولوں پرنازل فرمائی ہیں اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی بھی کرتی ہیں۔ کیونکہ عقل انسانی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ عبادات و معاملات کی مصلحتوں کا تفصیلاً اِدراک کرسکتی۔
11.  ایسا نوجوان جو اللہ کے نبیوں اور اس کے اُن رسولوں پرایمان لاتا ہے جنہیں اللہ نے مخلوق کی طرف مبعوث کیا تھا جنہوں نے اس کی مخلوق کو نیکی کی طرف دعوت دی، نیکی کا حکم دیا اور بُرائی سے روکا تاکہ رسولوں کے بعد ان پر کوئی حجت نہ رہے اورسب سے پہلے رسول نوح تھے اورسب سے آخری پیامبر محمدﷺہیں۔
ایسا نوجوان جو یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو اُن کی موت کے بعد اس لیے اُٹھائے گا تاکہ وہ اُنہیں ان کے اعمال کی جزا دے ۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿فَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيرً‌ا يَرَ‌هُ ٧ وَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّ‌ةٍ شَرًّ‌ا يَرَ‌هُ ٨ ﴾..... سورة الزلزال
''پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔''
یہ اسی وجہ سے ہے کہ آخرت، دنیا کا حاصل اور کھیتی ہے۔ چنانچہ دنیا کی زندگی کا کوئی فائدہ اور حکمت و مقصد ہی نظر نہیں آتا جب تک مخلوق کے لیے ایک ایسا دن نہ ہو جس میں نیک کو اپنی نیکی کا اور بُرے کو اپنی بُرائی کا جزا و صلہ نہ ملے۔
12.  ایسا نوجوان جو تقدیر کے اچھے بُرے ہونے پر ایمان رکھتا ہے یعنی وہ ایمان لاتا ہے کہ ہر چیز اللہ کے قضا اور اس کی قدر کے ساتھ ہے۔ مزید یہ کہ اَسباب اور ان کے اَثرات و نتائج پر ایمان لاتا ہے۔ وہ مانتا ہے کہ خوش بختی او ربدبختی کے بھی اَسباب ہیں۔
13.  ایسا نوجوان جو دین اسلام کو اللہ، اس کے رسولﷺ، مسلمان حکمران او رعام رعایا کے لیے بھلائی کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ لہٰذا وہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح واضح اور صراحت سے معاملات کو سراَنجام دیتا ہے جیسے باقی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے ساتھ معاملہ کریں یعنی اس معاملے نہ کوئی دھوکہ ہو، نہ مغالطہ، نہ ٹال مٹول اور نہ ہی کوئی بات چھپائی جائے۔
14.  ایسا نوجوان جو اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ اس طریقے سے بلاتا ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔جیسے:
﴿ ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَ‌بِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ ۖ وَجـٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ ۚ ......١٢٥ ﴾..... سورة النحل ''اے نبیﷺ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت و حکمت او رعمدہ نصیحت کے ساتھ اور لو گوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔''
15.  ایسا نوجوان جو نیکی کا حکم دیتا ہے اور بُرائی سے منع کرتا ہے۔ وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ اسی میں قوموں اور اُمّت کی سعادت ہے۔ قرآن میں ہے:
﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ ۗ....... ١١٠﴾...... سورة آل عمران
''تم ایک بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہو نیکی کا حکم کرتے ہو اور منکر سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو ۔''
16.  ایسا نوجوان جو بُرائی کو اس طریقے سے بدلنے کی کوشش کرتا ہے جیسے بدلنے کا رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: «من رأی منکم منکرًا فلیغیّره بیده فإن لم یستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه»1
''جو تم میں سے بُرائی دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے ۔اگر ہاتھ سے بدلنے کی اِستطاعت نہیں تو زبان سے بدل دے ، اگر زبان سے بھی نہیں بدل سکتا تو اسے دل سے بُرا جانے۔''
17.  ایسا نوجوان جو سچ بولتا ہے اور سچائی کو تلاش کرتا ہے، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنّت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ ایک آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے او رہمیشہ سچائی کی تلاش میں رہتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں سچا لکھا جاتا ہے۔
ایسا نوجوان جو تمام مسلمانوں کے لیے بھلائی کو پسند کرتا ہے، کیونکہ آپﷺ نے فرمایا ہے: «لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیه ما یحب لنفسه»2
''تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔''
18.  ایسا نوجوان جو اللہ تعالیٰ اور اُمّت و وطن کے سامنے مسئولیت کا شعور رکھتا ہے وہ اپنی'اَنا' سے بلند و بالا ہوکر ہمیشہ دین، اُمّت اور وطن کے لیےجدوجہد کرتا ہے۔ ذاتی اور اِنفرادی مصلحت پر اجتماعی مصلحتوں کو ترجیح دیتا ہے۔
19.  ایسا نوجوان جو اللہ کے لیے ، اتنے اِخلاص سےدین کی ترویج کی کوشش کرتا ہے کہ اس میں کسی قسم کی ریا یا شہرت کی طلب نہیں ہوتی۔خود پسندی کا شکار ہوئے بغیر اور صرف اُسی ذات پر بھروسہ کرکے افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اسلام اور اہل اسلام کی خدمت کے لیے اپنی زبان، ہاتھ اور مال سے مجاہدہ وجہاد کرتا ہے۔
20.  ایسا نوجوان جو صاحبِ خُلق اور صاحب دین ہوتا ہے یعنی وہ اچھے اخلاق کا حامل ہوتا ہے۔ دین میں راہِ راست پر چلنے والا ہوتا ہے۔ نرم گوشہ اور عالی ظرف ہوتا ہے۔کریم النفس اور پاکیزہ دل، صابر و متحمل مزاج ہوتا ہے۔ لیکن پُرعزم اور اپنے فرصت کے لمحات کو ضائع نہیں کرتا ۔ اس کی عقل و اصلاح کے پہلو پرنرمی اور سستی غالب نہیں آتے۔
21.  ایسا نوجوان جو دانا اور سنجیدہ ہوتاہے۔ کام کرتا ہے تو حکمت اور خاموشی،مشقت اور بھرپور یقین کے ساتھ۔ اپنی عمر کا ہر لمحہ ایسی مصروفیت میں گزارتا ہے جو اس کے لیے اور اس کی اُمّت کے لیے نفع بخش ہوتا ہے۔
22.  یہ نوجوان اپنے دین و اَخلاق اور اپنے رویے کا محافظ ہوتا ہے۔ وہ ہر اس چیز سے دور رہتا ہے جو اس کی مؤمنانہ طرزِ زندگی کے مخالف ہوتی ہے۔ یعنی کہ ہر ایسی فکر، اِلحاد، فسق وعصیان ، گھٹیا اَخلاق اور بُرے معاملات سے ہر طرح کی دوری اختیار کرتا ہے۔
پس اِس طرح کا نوجوان اُمّت کے لیے فخر کا باعث اور اُمت کی حیات، سعادت اور دین کی روح ہے۔ یہی وہ نوجوان ہے جس کے بارے میں ہم اللہ سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے فضل سے اسلام اور مسلمانوں کے خراب حالات کی اصلاح کرے گا او رسالکین اِلیٰ اللہ کا راستہ روشن کرےگا۔ یہی وہ نوجوان ہے جو دنیا و آخرت کی سعادت کو پالیتا ہے۔
دوسری قسم: گمراہی کا شکار نوجوان
1.  دوسری قسم کا وہ نوجوان ہے جو اَپنے عقیدے میں منحرف، رویے میں جلد باز، اپنی ذات میں متکبر اور رذائل میں ڈوبا ہوا، اس پر مستزاد یہ کہ حق قبول نہیں کرتا اور باطل سے خود کو روکتا نہیں۔ اپنے معاملات میں ایسی آزادانہ روش اختیار کرتا ہے گویا کہ وہ دنیا کے لیے اور دنیا صرف اس اکیلے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔
2.  ایسا نوجوان جو حقوق اللہ او رحقوق العباد ضائع کرنے پر کسی قسم کی پروا نہیں کرتا۔
3.  ایسا نوجوان جو لاقانونیت کا حامی اور انارکی مزاج رکھتا ہے، اپنے رویے اور تمام معاملات میں غیر معتدل ہوتا ہے۔ اپنی رائے کو ایسے پسند کرتا ہے گویا اسی کی زبان پر حق جاری ہوتا ہےاور دوسرے غلطیوں اور خطاؤں کا پتلا ہیں۔
4.  اَیسا نوجوان اپنے دین کے معاملے میں راہِ راست اور اپنے معاملات میں اجتماعی رسوم ورواج سے اَٹا ہوا ہوتا ہے، لیکن اس کا بُرا عمل اس کے لیے مزین ہوتا ہے چنانچہ وہ اسے اچھا ہی تصور کرتا ہے۔ درحقیقت اپنے اَعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد وہی لوگ ہیں جن کی دنیا کی زندگی میں ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکتے گزری او روہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کررہے ہیں۔
5.  یہ نوجوان اپنی ذات پر نحوست اور اپنے معاشرے پر مصیبت ہوتا ہے ۔ وہ اُمت کو قعرمذلت میں گرا دیتا ہے ۔
تیسری قسم
تیسری قسم کا وہ نوجوان ہے جو حیران و سرگرداں ہوتا ہے۔وہ واضح شاہراہ کی بجائے چوراہوں پر ہی متردّد و متحیر ہوا رہتا ہے۔ حق کو پہچان جاتا ہے ، اس پر مطمئن بھی ہوجاتا ہے اور معاشرے میں نیک بن کر زندگی بسر کررہا ہوتا ہے۔ مگر اَچانک اس پر ہر طرف سے بُرائی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ پھر اس کے عقیدے میں شک، رویے میں اِنحراف او رعمل میں فساد پیدا ہوجاتا ہے۔
اس طرح کا نوجوان جو اپنی طرزِ زندگی میں منفی رویہ اختیار کرتا ہے۔ وہ ایک قوی سہارے کا محتاج ہوتا ہے جو اسے حق کی طرف لے جائے۔ ایسے نوجوان کو جب اللہ تعالیٰ خیر کا داعیہ عطا فرماتے ہیں تو اس پر بھلائی کا راستہ آسان ہوجاتا ہے بالخصوص جب وہ صاحبِ حکمت ، صاحبِ علم اور نیت حسنہ کا حامل ہو۔
اس طرح کے نوجوانوں نے پرورش تو ایک اسلامی معاشرے میں پائی ہوتی ہے، لیکن سائنسی علوم بہت زیادہ پڑھے ہوتے ہیں ۔ان سائنسی علوم کی تعبیر یا تو حقیقتاً شریعتِ اسلامیہ کے مخالف ہوتی ہے یا وہ نوجوان اپنی کج فہمی کی بنا پر اسے مخالف سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس طرح کی اضطرابی حالت سے چھٹکارے کا راستہ یہ ہےکہ اِسلامی ثقافت کو دل جمعی سے اختیار کیا جائے اور اسے اس کے اَصلی سر چشمہ یعنی کتاب و سنت سے حاصل کیا جائے، وہ بھی مخلص ومتدین علما کے ہاتھوں۔
نوجوانوں کے انحراف کے اسباب اور اُن کا حل
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو نوجوانوں کی گمراہی و اِنحراف کے کئی اَسباب سامنےآتے ہیں کیونکہ نوجوانی کی عمر ہی ایک ایسی عمر ہے جس میں انسان پر جسمانی، فکری اور عقلی حیثیت سے بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہوتی ہیں۔ اِنسانی جسم نشوونما اور اِرتقا کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ ہر لمحہ نئے تجربات اور تازہ احساسات عقل و فکر کے دریچے کھولتے جاتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ شعور واِدراک کی نت نئی منازل بھی طے ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کی بنا پر انسان سوچ و فکر کی نئی راہیں متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف جذبات کی شدت فیصلوں میں عجلت پر مجبور کرتی ہے۔ ان اَحوال میں نوجوانوں کو ایسے مربیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اعلیٰ اور لطیف حکمت و بصیرت کے ساتھ اِعتدال کا دامن اُن کےہاتھ سے چھوٹنے نہ دیں۔ بڑے احتیاط اور صبر و تحمل کے ساتھ صراطِ مستقیم کی طرف لے چلیں۔ اب ہم ایک مربی کے لیے ہم ان پانچ اَہم ترین اَسباب کا ذکر کرتے ہیں جو آج کل کے نوجوانوں کے بگاڑ میں نمایاں کردار اَدا کرتے ہیں تاکہ بعد میں حسبِ حال اِصلاح ممکن ہوسکے۔
1۔ فراغت
نوجوانوں کی تباہی و ہلاکت کا اَہم ترین سبب فراغت ہے۔جسم انسانی کو اللہ تعالیٰ نے اصلاً متحرک و فعال بنایا ہے۔لہٰذا اس کی ساخت اور کیفیت تقاضا کرتی ہیں کہ یہ ہر دم حرکت میں رہے۔ حرکت کا تعطل اس کے لیے فکری، عقلی بلکہ ظاہری اِعتبار سے بھی زہر قاتل ہے۔ فکری پراگندگی و اِنتشار،ذہنی رذالت و سطحیت، مجاہدانہ اُلوالعزمی کی بجائے کم حوصلگی، خواہشاتِ نفسانی اور وساوس شیطانی فراغت کے ہی کرشمے ہیں، کیونکہ جسم نے تو اپنے تقاضے کے مطابق حرکت میں رہنا ہی ہے۔ اب وہ حرکت بالخصوص اس وقت جب اسے شدتِ جذبات کی پشتیبانی بھی حاصل ہو تو بجائے مثبت اور تعمیری کاموں پر لگنے کے وہ منفی اور تخریبی اُمور سرانجام دیتی ہے ۔ جس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور مسلّمہ اَقدار کی بے حرمتی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسے نوجوانوں کو ذہنی یا عملی طور پر ان صلاحیت کے مطابق مصروف رکھا جائے۔ تعلیمی ، فنی، تجارتی، انتظامی یا دیگر سرگرمیوں میں سے کسی کی طرف لگا دیا جائے۔
2۔ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان دوری
نوجوانوں کی بے راہ روی میں اس فاصلے اور بُعد کا بھی بڑا حصہ کار فرما ہے جو ہمارے معاشرے میں بڑی عمر کے لوگ چھوٹی عمر والوں کے درمیان حائل رکھتے ہیں۔ چاہے وہ نوجوان اُن کے اپنے خاندان سے تعلق رکھتے ہوں یا دوسروں سے۔ وہ بلاتفریق اُن سے بُعد اور دوری ہی اختیار کرتے ہیں۔ آپ بوڑھوں کو دیکھیں جب وہ نوجوانوں کی بے راہ روی اور اِنحراف کا مشاہدہ کرتے ہیں تو کہیں گے:'بس جی آج کل دے منڈیاں تو اللہ دی پناہ' گو یہ حیرت کدہ ہیں اور نوجوانوں کی اِصلاح سے مایوس و نااُمّید نظر آئیں گے۔
بڑوں کے ایسے رویے سے پھر نوجوان بھی ان سےدوری کو ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ پھر وہ خواہ کوئی بھی حالات چاہے بہتری یا بدتری کے ، ان معاملات میں بڑوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرتے اور اپنے تئیں ان کا سامنا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر اکثر تو حالات کی رومیں بہہ جاتے ہیں اور جن چند ایک کو پاے ثبات نصیب ہوتا ہے، وہ بھی گرتے گرتے سنبھلتے ہیں اور بوڑھوں نے تو اُن سب کی خرابی کے بارے میں ایک نفسیاتی ساکلیہ بنا لیا ہوتا ہےجس سے معاشرتی دوریاں جنم لیتی ہیں، منفی رویے تشکیل پانا شروع ہوجاتے ہیں، نوجوان بوڑھوں کو اور بوڑھے نوجوانوں کو بنظر حقارت دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ دونوں گروہوں کے انہی رویوں کی وجہ سے کئی طرح کے خطرات معاشرےکے دروازے پر دستک دینا شروع کردیتے ہیں۔
اِس مشکل کا حل یہ ہے کہ دونوں گروہوں کے رویوں میں حسبِ ضرورت تبدیلیاں پیداہوں۔ بجائے فراق و بعد کے قربت و اِتحاد ہو ۔پورا معاشرہ جسدِ واحد کی طرح اپنے اَندر یگانگت کوجنم دے اور یہ شعور معاشرے کے ہر فرد میں رچ بس جائے کہ تمام اَفراد معاشرہ ایک ہی جسدِ واحد کے مختلف اَعضا ہیں۔ ایک کی خرابی و فساد تمام کی بربادی کا سبب بنے گی۔ بوڑھوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دلوں میں نوجوانوں کی اصلاح کا درد پیدا کریں، ان کے بارے میں حسرت و یاس ترک کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پر قدرتِ تامّہ رکھتا ہے۔کتنےہی وہ لوگ ہیں جو ضلالت و گمراہی کے قعر مذلت میں گرے ہوئے تھے،اللہ تعالیٰ نے انہیں منارۂ نور اور شمع ہدایت بنا دیا۔
دوسری طرف نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ بوڑھوں کے بارےمیں اپنے رویّوں میں تبدیلی لائیں ،ان کی آراکا اِحترام کریں۔ اُن کی طرف سے پیش کردہ مسائل و معاملات کی توجیہات کو قبول کریں کیونکہ وہ بڑے تجربات کا ما حاصل ہوتی ہیں۔ وہ زندگی کے ان تلخ حقائق سے گزرے ہوتے ہیں جن سے ابھی تک نوجوان دوچار نہیں ہوتے۔ اس طرح جب بوڑھوں کی فکر اور حکمت و دانائی نوجوانوں کی رہبر و رہنما بنے گی تو معاشرہ ترقی او رعروج میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے گا۔
3۔ گمراہ لوگوں کی صحبت
نوجوانوں کی گمراہی کا تیسرا سبب اُن کی ایسے لوگوں کے ساتھ صحبت اور میل جول رکھنا ہے جو گمراہ ہیں۔ صحبت ان عوامل میں سے سب سے زیادہ مؤثر ترین عامل ہے جس سےنوجوان متأثر ہوتے ہیں۔ یہ چیز ان کی عقل و فکر اور رویوں کو بدل کررکھ دیتی ہے۔ آں حضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: «المرء على دین خلیله ينظر أحدکم من یخالل» 3یعنی آدمی اپنے ہم نشین ساطرزِ زندگی اپناتا ہے چنانچہ کسی کی ہم نشینی سے پہلے اس کے بارے میں غور کرلو کہ وہ کیسا ہے؟ اور آپﷺ نے ایک جگہ فرمایا:
«مثل الجلیس السوء کنافخ الکیر أما أن یحرق ثیابك وأما أن تجد منه رائحة کریحة»4 ''برے مجلسی کی مثال لوہار کی بھٹی کی طرح ہے یا تو وہ تیرے کپڑے جلا دی گی یا پھر تو اس کے دھوئیں کو چکھ لے گا۔''

صحبتِ صالح را صالح کند            صحبتِ طالع راطالع کند

اس مسئلے کا حل یہ ہےکہ نوجوانوں کو چاہیے ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کریں جو نیکی اور بھلائی کا سرچشمہ ہوں اور عقل و دانش کاپیکر ہوں تاکہ اُن سے کسبِ خیر ،اِصلاح اَحوال اورعقل کوجلا بخشی جائے۔ اس لیے کسی صحبت سے پہلے اس معاملات اور رویوں کوخود بھی پرکھنا اور دوسرے لوگوں سےبھی سن لینا چاہئے۔اگر تو وہ صاحبِ اخلاق، صاحبِ دین اور اعلیٰ کردار کا مالک ہو اور لوگ بھی اسے اچھا کہیں یعنی دید شنید دونوں ہی بہتر ہوں تو اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ، تعلقات اِستوار کرو۔ اس کے برعکس اگر وہ بداَخلاق اور بدکردار ہے تو اس سے دوری اختیارکرجاؤ۔ چاہے وہ اپنی صورت میں چاند سے زیادہ خوبصورت ہو، اپنی باتوں میں شہد سے زیادہ شیرینی رکھتا ہو، اپنی شخصیّت اور ظاہری وضع قطع کے لحاظ سے کمال کو پہنچا ہواہو تو پھر بھی اس سے اجتناب کرو۔ کیونکہ یہ تمام ظاہری خوبیاں شیطان، بندگانِ الٰہ کو گمراہ کرنے کے لیےاستعمال کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی ظاہری چمک دمک نظروں کو خیرہ کردیتی ہے۔ سو اس وجہ سے لوگ اس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ بدقسمت شیطان کے لیے آلہ گمراہی اور فسق و فجور ہوتا ہے ؎

اب کسی پوشاک میں کردار کی خوشبو نہیں رہی
چھپ گئی ہے انسان کی پہچان ملبوسات میں!

4۔ منفی کتابوں کا مطالعہ اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال
نوجوانوں کی گمراہی کا چوتھاسبب ایسے رسائل و مجلّات ، اخبارات اور کتابیں وغیرہ پڑھنا ہے ، جو ایک نوجوان کے دل میں اس کے عقائد و نظریات کےبارے تردّد و شک کی راہ ہموارکرتے ہیں۔ اسےاَخلاقِ رذیلہ پر آمادہ کرتےاورکفر و فسق میں مبتلا کردیتے ہیں۔ بالخصوص اس وقت جب کسی فرد کی تربیت پر ثقافت اِسلامیہ کے اَثرات اچھی طرح مرتب نہ ہوں، اور وہ اپنے دین کے فہم کے حوالے سے ایسی بصیرت سے محروم ہو جو حق و باطل کے درمیان اچھی طرح خطِ امتیاز کھینچ سکے اور اپنے لیے نافع و ضرر رساں کا گہرے شعور کےساتھ اِدراک کرسکے۔اس طرح کی کتابوں کا مطالعہ نوجوان کو ایڑیوں سے پھیر دیتی ہے اوروہ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے ان گمراہوں کو نہ چاہتے ہوئے قبول کر بیٹھتا ہے۔
اس مشکل کا حل یہ ہے کہ نوجوان ایسی تخریبی کتابوں کے مطالعہ سے گریز کرے اور ان کتابوں کے مطالعے میں غرق ہو جو اُس کےدل کو محبتِ الٰہی اور محبتِ رسولﷺ کا سرچشمہ بنا دے اور اس کے ایمان و عمل صالح کی جڑیں مضبوط کردے،پھر صرف ایسی ہی کتابیں پڑھنے پراکتفا کرے۔ دوسری قسم کی منفی رجحانات پیدا کرنے والی کتابوں سے گریز کرےتو پھر آہستہ آہستہ وہ محسوس کرے گاکہ پہلے منفی اثرات مرتب کرنے والی کتب پڑھنے کی وجہ سے اس کےدل و دماغ میں تشکیک و تردّد کے جو کانٹے چبھ گئے تھے، وہ نکل رہے ہیں۔ اسے اَندازہ ہوتا جائے گا کہ وہ شک و اِضطراب کی دنیا سے باہر آرہا ہے۔ اس کا سرکش نفس اللہ، رسولﷺ کی اطاعت پر آمادہ ہورہا ہے، اس کا دل لہو و لعب کی دنیا سے اُچاٹ ہورہاہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم ترین کتاب'کتاب اللہ' ہے اور جو ان کی تفسیر وبیان پر مشتمل ہیں، چاہے وہ تفسیر بالمنقول ہو یاتفسیر بالرائے المحمود ہو۔ اسی طرح سنت رسولﷺ کا مطالعہ بھی اِنتہائی ضروری، نفع بخش اور مفید ہے، پھر وہ کتابیں جو ایسے استدلال و استنباط اور فقہی مسائل پرمشتمل ہوں جوعلماے ربانیین نے ان دونوں مصادرِ اَصلہ و اساسیہ سے نکالے ہیں۔
5۔ اِسلام کے بارے میں بدگمانیاں
دورِ جدید میں مغربی فلسفہ و فکر کے تسلط کی وجہ سے نوجوان طبقہ فکری طور پر اِسلام کےبارے میں بہت سی بدگمانیوں کا شکار ہوا ہے۔چنانچہ مغربی فلسفے کےتمام اِعتراضات کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اسلام کے حوالے سے مجموعی طور پر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کی آزادی سلب کرکے اسےفکری و عملی لحاظ سے قید کرکے رکھ دیتا ہے، ترقی کے دروازے مسدود کردیتا ہے، صلاحیتوں پر بندشیں عائد کردیتا ہے اور انسان کو دقیانوس بنا دیتا ہے۔ یہی وہ اعتراض و خدشات ہیں جو دورِ جدید کے نوجوانوں کے قلب و ذہن پر طاری ومسلط ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اسلام سے بباطن یا بظاہر اظہارِ بیزاری اور برات کا اظہارکردیتا ہے۔ نعوذ باللہ
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسےنوجوانوں کے سامنے اسلام کے حقائق سے پردہ کشائی کی جائے۔ کیونکہ وہ اسلام کے بارے میں پہلے تو بطریق اَحسن آگاہی ہی نہیں رکھتے ہوتے اور اگر رکھتے بھی ہیں تو وہ بھی ناقص و کم علمی پر مبنی ہوتی ہے۔ایسے نوجوانوں کو سمجھایا جائے کہ اسلام لوگوں کی آزادیاں سلب نہیں کرتا بلکہ ان کے اَندر نظم و ضبط پیدا کرتا ہے او راپنے اَحکام کی معتدل، بہترین توجیہات پیش کرتا ہے تاکہ ایک انسان کی آزادی دوسروں کی آزادی کو متاثر نہ کرے، کیونکہ جب ہم ایک انسان کی منشا کےمطابق اسے شتر بے مہار آزادی دیں گے تو وہ دوسروں کے لیےبہت زیادہ پریشانی پیدا کرے گی۔ایسے معاشرے میں تصادم رونما ہوجائے گا اور لاقانونیت چھا جائے گی پھر فساد و بربریت آئے گی۔اگر آپ غور فرمائیں تو اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام شریعت کو لفظ'حدود'سے تعبیرفرمایا ہے۔ اللہ جب کسی کام سےمنع کرتے ہیں تو فرماتے ہیں: ﴿تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَقرَ‌بوها
''یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کےقریب بھی نہ بھٹکو۔''
اسی طرح اللہ جب کسی کام کےکرنےکا حکم فرماتے ہیں تو بھی کہتے ہیں: ﴿تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَعتَدوها ''یہ اللہ کی حدیں ہیں ان میں تجاوز نہ کرو۔''
لہٰذا بات کرتے وقت اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے کہ قید اور نظم و ضبط کےتقاضوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ اگر آپ اس نظم و ضبط کو بھی قیدہی کہیں گے تو پھر اس عُقدے کو کیسےحل کریں گے کہ اس کائنات کے اُمورِ کو نیہ کے اَندر یہی نظم و ضبط ہے بلکہ انسان خود اپنی فطرت و طبیعت کے اعتبار سے ایک نظم طبعی کا پابند ٹھہرایا گیا ہے۔انسان بھوک، پیاس کے سامنے بے دست و پا ہے، ا س کے لیے وہ کھانے، پینے کے ایک وسیع نظام کا پابند ہے، وہ مجبور و مضطر ہے کہ وہ مخصوص اَقسام کی ہی چیزیں کھا پی سکتا ہے۔ پھر ان کی مخصوص مقدار اور مخصوص کیفیت کے ساتھ ہی کھا سکتا ہے۔ یعنی وہ گھاس کو اپنی خوراک نہیں بنا سکتا، وہ باسی اور خراب کھانا نہیں کھاسکتا، اسی طرح وہ ایک مخصوص مقدارسے زیادہ کھانا نہیں کھا سکتا۔اگر اس کے مخالف چلے گا تو اپنے جسم کی سلامتی و صحت کھو بیٹھے گا۔
چنانچہ اسی طرح اپنا اجتماعی اور معاشرتی نظم برقرار رکھنےکے لیے اِنسان نظم و ضبط یا قوانین و ضوابط کا پابند ہوتا ہے۔اپنے آپ معاشرتی وحدت میں پرونے کےلیےمتعلقہ معاشرے کے رسوم و رواج، عادات و اَطوار اور مجلس کے آداب کی پاسداری کرتا ہے۔ اپنے لباس کی تراش خراش، اپنے گھر کی شکل و ہیئت، اسی طرح سڑکوں اور راستوں کےقوانین کی پابندی انسان کرتا ہے اور ان رسوم و قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر اسےاخلاقی یاقانونی سزابہرحال بھگتنا پڑتی ہے۔اور ان قوانین و رسوم کی بندش در اصل انسان کو اس لیے محسوس نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ان سے مانوس ہوچکا ہوتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو زندگی ساری کی ساری حدود و ضوابط میں جکڑی ہوئی ہے، کیونکہ اگر ایسےنہیں ہوگا تو معاملات کیسے چلیں گے اور اُنہیں اپنے مطلوبہ اَنجام تک کیسےپہنچایا جائے۔ معاشرےکی اصلاح اور لاقانونیت ختم کرنے کےلیے ایک اجتماعی نظم کی پیروی کرنا ہی پڑتی ہے، کوئی شہری اس کی مخالفت نہیں کرتا۔
بس ایسے ہی اِصلاح اُمت کے لیے شرعی قوانین کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا یہ کہنے کاکوئی جواز ہی نہیں رہتاکہ اسلام انسانی آزادی سلب کرلیتا ہے۔یہ تو اسلام پر ایک بہت بڑا بہتان ہے او راس طرح کا گمان رکھنے والا اللہ کی عدالت میں مجرم ہوگا۔ اور یہ بھی غلط ہے کہ اسلام انسانی صلاحیتیں محدود کرکے رکھ دیتا ہے۔ اُنہیں ترقی اور نشوونما کےمواقع فراہم نہیں کرتا جبکہ حقیقتِ حال تو یہ ہےکہ انسان کی صلاحیتوں کےارتقا کے لیے اِسلام نے فکری، ذہنی اور جسمانی طور پرایک وسیع میدان چھوڑ ا ہے جس میں کودنےکےبعد انسانی نئی جولانیوں ذہن نئے افقوں سے روشناس ہوتے ہیں پھر جسم انسانی نئی قوتوں او رحرارتوں کا ملجا بن جاتا ہے۔چنانچہ اسلام انسان کوسو چنے اور غوروخوض کرنےکی دعوت دیتا ہے تاکہ اس کی فکری و عقلی صلاحیتوں کو جلا بخشی جائے۔ قرآن کہتا ہے:﴿قُل إِنَّما أَعِظُكُم بِو‌ٰحِدَةٍ ۖ أَن تَقوموا لِلَّهِ مَثنىٰ وَفُر‌ٰ‌دىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّر‌وا......٤٦﴾..... سورة صبا
''اے نبیﷺ! ان کہو کہ ' میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ کے لئے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو۔''
اِسلام صرف غوروفکر کی ہی دعوت نہیں دیتا بلکہ وہ توان لوگوں کو معیوب گردانتا ہے جو اَپنی عقل و فکر سےکام نہیں لیتے:
﴿أَوَلَم يَنظُر‌وا فى مَلَكوتِ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ وَما خَلَقَ اللَّهُ مِن شَىءٍ ...... ١٨٥﴾....... سورة الاعراف
''کیا ان لوگوں نے آسمان وزمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے ، آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا؟''
﴿وَمَن نُعَمِّر‌هُ نُنَكِّسهُ فِى الخَلقِ ۖ أَفَلا يَعقِلونَ ٦٨ ﴾...... سورة يٰس
''جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم الٹ ہی دیتے ہیں کیا (یہ حالات دیکھ کر) اُنہیں عقل نہیں آتی؟''
اَب آپ خود ہی انصاف سے فیصلہ فرمائیں جو اِسلام اتنی زیادہ غوروخوض کی دعوت دیتا ہو، بھلا کیسے ممکن ہے وہ انسانی صلاحیتوں کی نشوونما کو روک کر رکھ دے!!
﴿كَبُرَ‌ت كَلِمَةً تَخرُ‌جُ مِن أَفو‌ٰهِهِم ۚ إِن يَقولونَ إِلّا كَذِبًا ٥ ﴾...... سورة الكهف
''بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔''
پھر اسی طرح اِسلام نے بدنی و جسمانی نشوونما کے لیے ہر اس چیز کی اِجازت مرحمت فرما دی ہے جو انسان کو بدنی، دینی اور عقلی لحاظ سے کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے کہ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُلوا مِن طَيِّبـٰتِ ما رَ‌زَقنـٰكُم وَاشكُر‌وا لِلَّهِ ......١٧٢ ﴾..... سورة البقرة
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر اداؤ کرو۔''
اسلام نےوہ تمام ملبوسات زیب تن کرنے کی اجازت دی ہے حکمت اور فطرت کےمطابق ہیں:﴿ يـٰبَنى ءادَمَ قَد أَنزَلنا عَلَيكُم لِباسًا يُو‌ٰر‌ى سَوء‌ٰتِكُم وَر‌يشًا ۖ وَلِباسُ التَّقوىٰ ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ‌ ۚ ......٢٦﴾...... سورة الاعراف
''اے اولادِ آدم ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔''
اسی طرح اسلام نے معاشی میدان میں بھی انسان کی صلاحیتوں پر بندشیں عائد نہیں کیں بلکہ ہر اس بیع، تجارت اور ذریعہ آمدنی کو جائز قرار دیا ہے جوعدل و انصاف او رباہمی رضا مندی کے ساتھ سرانجام پائے: ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا.........٢٧٥﴾...... سورة البقرة
''حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔''
حرفِ معذرت: ماہ نامہ 'محدث' کی اشاعت میں سالِ رواں کے آغاز سے ہی بے قاعدگی چلی آرہی ہے۔ اور اس سال تمام شمارے دو ماہ کے مشترکہ شائع ہوے ہیں۔ زیر نظر شمارہ بھی اگست اور ستمبر2012ء کا مشترکہ شمارہ ہے۔ اللہ عزوجلّ سے دعا ہے کہ محدث کی اشاعت اسی طرح ماہوار بنیادوں پر باقاعدگی سے جاری ہوجائے۔ آمین!


حوالہ جات

1. صحیح مسلم:49

2. صحیح بخاری :13

3. سنن ابود اود:رقم4193

4. صحیح بخاری: 5108
يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن تَنصُرُ‌وا اللَّهَ يَنصُر‌كُم وَيُثَبِّت أَقدامَكُم ﴿٧