اسلام دشمن فلم پر میڈیا خاموش کیوں؟؟
لیبیا میں اِسلام مخالف فلم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں امریکی سفیر کی ہلاکت پر اَقوام متحدہ اور غیر مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک بشمول پاکستان نے فوری مذمت بیانات جاری کئے مگر کسی ایک اسلامی ملک نے بھی اَمریکہ کی مذمت کرنےکی جرأت نہ کی کہ اُس نے ایک ایسی فلم کو میڈیا میں کیوں آنے دیا جو اسلام دشمن ذہن کی خباثت ، کمینگی اور ذلالت کی تمام حدود کو پار کرتی ہے؟
49؍مسلمان ممالک میں سے کسی ایک ملک نے بھی امریکا سےباقاعدہ سفارتی احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔ اُلٹا امریکا سے ہمدردیاں کی جارہی ہیں کہ اُس کا لیبیا میں سفارت کار مارا گیا...!! شکر ہے کہ اس کو'شہادت' کا درجہ نہیں دیا گیا۔ عراق، افغانستان، پاکستان اور دوسرے ممالک میں لاکھوں مسلمانوں کے مارے جانے پر تو پتا بھی نہیں ہلتا، لیبیا کےلوگوں کے ہاتھوں کرنل قذافی کے قتل پر کوئی مذمتی بیان جاری نہیں ہوتے۔ اُس وقت کے پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا ضعیف کو تمام سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکا کے حوالے کردیا جاتا ہے، اس پر بھی پوری اقوام عالم خاموش رہتی ہے مگر دنیابھر میں بسنے والے تقریبا 2؍ارب مسلمانوں کےپیارے رسولﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی غرض سے امریکا میں بنائی جانے والی فلم کو آزادی اظہار کے بہانے دُنیابھر میں پھیلانےکی اِجازت دینے والے امریکا کا سفیر اگر مارا جاتا ہے تو سب 'غم زدہ' ہوجاتے ہیں۔ ہمارا دین یقیناً کسی معصوم کی جان لینے سے روکتا ہے مگر یہ کیسے ہوسکتا ہےکہ امریکا و یورپ آزادی رائے کے نام پر مسلمانوں کی مقدس ترین ہستیوں کا مذاق اُڑاتے رہیں اور اس کے جواب میں کسی قسم کاردّ عمل نہ ہو۔ یہاں تو کوئی شخص اپنے خلاف یا اپنے ماں باپ کے خلاف گالی برداشت نہیں کرتا، سرور دوجہاں حضرت محمدﷺ اور دوسرے انبیاے کرام کی شان میں گستاخی مسلمانوں کےلئے کیسے قابل برداشت ہوسکتی ہے...؟ لیبیا میں اَمریکی سفیر کی ہلاکت سے امریکا و یورپ کو سبق سیکھنا چاہیے مگر جب مسلمان ممالک کےحکمران اُن سے احتجاج کی بجائے ہمدردی کررہے ہوں تو وہ اپنے جرم کو جرم کیسےسمجھیں گے ؟ ہم مسلمانوں کا اَلمیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران امریکا کے پٹھو ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کی نمائندہ بین الاقوامی تنظیم او آئی سی(OIC) بھی امریکا کے اِشاروں پر ناچتی ہے۔ جب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے امریکا کے پٹھو ہوں گے تو عام مسلمان کے پاس احتجاج اور توڑ پھوڑ کے علاوہ کیا رستہ رہ جاتا ہے؟ اگر اُن کے نمائندے اُن کے اِحساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے گستاخ رسول اور اسلام دشمنوں کی سازشوں کے خلاف شدید ردّعمل کا اظہار کریں گے تو اس سے عام مسلمان کا بھی غصہ ٹھنڈا ہوگا ورنہ احتجاج کرنے والے پرتشدّد ہوسکتے ہیں۔
ہمارے صدر یا وزیراعظم کو امریکی صدر سےبات کرکے مسلمانوں کے احساسات کی نمائندگی کرتے ہوئے سخت احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیئے تھا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کو چاہیے تھاکہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اسلام مخالف فلم پر پاکستان کی طرف سے باقاعدہ مذمت کرتے مگر ہمارے صدر، وزیراعظم حتیٰ کہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سب اس واقعہ پرخاموش ہیں جبکہ دفتر خارجہ نے 12؍ستمبر کے روز (جب لیبیا میں امریکی سفیر کو ہلاک کیا گیا) دو پریس ریلیز جاری کی گئیں۔پہلی پریس ریلیز میں اسلام مخالف فلم کے بننے پر مذمتی بیان جاری کیا گیا مگراس احتیاط کے ساتھ کہ امریکی حکومت کا اس بیان میں کوئی ذکر نہ آئے۔ اُس کے ساتھ ہی ایک او ربیان جاری ہواجس میں لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت پر مذمت کااظہار کرتے ہوئے مارے جانے والے سفیر کے خاندان کےلیے دُعا کی گئی۔
ہماری حکومت کی طرح ہمارے میڈیا کا بھی اس واقعہ پر ردّعمل انتہائی پھسپھسا رہا۔ سوات میں ایک خاتون کو کوڑےمارنے سےمتعلق جعلی فلم پر تو بغیر تحقیق کیے ہمارے میڈیا نے ہفتوں آسمان سر پر اُٹھائے رکھا،ملالہ یوسف زئی کے معاملے پر تومیڈیا نے طوفان بلاخیز مچائے رکھا، مگر امریکیوں کی طرف سے اسلام مخالف فلم بنانے پر اکثر و بیشتر اینکر پرسن خاموش رہے۔ آسیہ مسیح، رمشا کیس، ہندوؤں کو سندھ سےبےدخل کئےجانے والی جھوٹی خبروں پر ہمارے کئی اینکر پرسنز تڑپ اٹھے، غصہ میں ان کےمنہ سے جھاگ نکلنے لگی مگر امریکا کی اس تازہ غلاظت پر وہ خاموش بیٹھے ہیں۔کچھ یہی حال ہماری نام نہاد انسانی حقوق، این جی اوز اور سول سوسائٹی کے'بڑے بڑے' علم برداروں کا ہے۔جہاں اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی بات ہو، میڈیا ، سول سوسائٹی او رانسانی حقوق کے علم برداروں کا ایک طبقہ برساتی مینڈکوں کی طرح ٹریں ٹریں کرنے لگتا ہے مگر اس شرمناک واقعہ پر تمام برساتی مینڈک خاموش بیٹھے ہیں!!