بقیع؛ مدینہ منوّرہ کا قبرستان
بقیع (بروَزن امیر) ایسے کھلے میدان کو کہتے ہیں جس میں مختلف قسم کے خودرُو گھاس، پودے اور درخت ہوں۔ مدینہ منورہ کے قرب و جوار میں بہت سی جگہیں بقیع کہلاتی تھیں۔ مثلاً 'بقیع الغرقد' جہاں عوسج کا ایک بہت بڑا درخت تھا، اسے غرقد کہا جاتا او راسی نسبت سے اس جگہ کو 'بقیع الغرقد' کہتے تھے۔ اس کے علاوہ بقیع الزبیر، بقیع الخیل او ر بقیع الخبخبة بھی معروف مقامات تھے۔1
بقیع الغرقد: عہدِ رسالت میں مدینہ منورہ کی شہری آبادی از حد محدود اور مختصر تھی۔ مسجد نبویؐ او رحجرات النبی ﷺ سے مشرقی جانب کچھ مکانات تھے او ر اُن سے ذرا ہٹ کر ایک میدان تھا جسے بقیع الغرقد کہا جاتا تھا۔ عنوان النجابة في معرفة من مات بالمدینة من الصحابة کے صفحہ 135 پراسی کو بقیع الخبخبة بھی لکھا گیا ہے۔مسجدِ نبویؐ کی متعدد توسیعات کے بعد اب مسجد نبویؐ کا مشرقی صحن بقیع تک پھیل چکا ہے۔
نقیع الحضمات: یہ بھی مدینہ منورہ کے نواح میں ایک جگہ کا نام ہے۔ اس کا بھی احادیثِ مبارکہ میں تکرار کے ساتھ ذکر آیا ہے۔ بعض اہل علم کو سہو ہوا اور وہ اسے بھی بقیع (با کے ساتھ) لکھتے اور پڑھتے ہیں جبکہ یہ لفظ با کے ساتھ نہیں بلکہ نون کے ساتھ ہے۔2
مدینہ منورہ میں قبرستان کے لیے جگہ کا تعین
رسول اکرمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جسے مسلمانوں کے قبرستان کے لیے متعین کیا جاسکے۔ آپ ؐایک دن بقیع الغرقد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اس جگہ کو قبرستان کے لیے متعین کرنے کا حکم دیا گیاہے۔3
اوّلین مدفون: بقیع کے قبرستان میں سب سے پہلے دن ہونے والے شخص کے بارے میں اہل سیرو مؤرّخین کے دو قول ہیں۔ ایک قول کے مطابق اسعد بن زرارہ بن عدس بن عبید بن ثعلبہ بن غنم بن مالک بن نجار، ابوامامۃ انصاری خزرجی بخاری ؓ اور دوسرے قول کے مطابق ابوسائب عثمان بن مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن جمح جمعیؓ سب سے پہلے اس قبرستان میں دفن ہوئے۔
ان دونوں اقوال میں یوں تطبیق دی جاسکتی ہے کہ انصار میں سب سے پہلے سیدنا اسعد بن زرارہ ؓ او رمہاجرین میں سے سیدنا عثمان بن مظعونؓ سب سے پہلے اس قبرستان میں مدفون ہوئے۔ اہل تاریخ لکھتے ہیں کہ ابوامامہ سیدنا اسعد بن زرارہ ؓ کی وفات ہجرتِ مدینہ سے نو ماہ بعد اور ابوسائب سیدنا عثمان بن مظعونؓ کی وفات ہجرت سے اڑھائی سال بعد ،ماہ شعبان میں بعد از غزوۂ بدرہ ہوئی تھی۔ اس طرح سیدنا ابوامامہ اسعد بن زرارہؓ علیٰ الاطلاق سب سے پہلے اس قبرستان میں دفن ہوئے۔ واللہ اعلم!
سیدنا عثمان بن مظعونؓ کی تدفین
مطلبؓ بن ابی وداعۃ کا بیان ہے کہ عثمان بن مظعونؓ کی وفات ہوئی۔ ان کا جنازہ لے جا کر دفنایا گیا تو نبی ﷺ نے ایک آدمی کو ایک پتھر لانے کا حکم دیا۔ اس آدمی سے وہ پتھر نہ اُٹھایا جاسکا تو رسول اللہ ﷺ نے جاکر اپنے بازوؤں سے آستین اوپر کی طرف اٹھائے۔ مطلبؓ کہتے ہیں کہ بیان کرنے والے نے بیان کیا کہ میں گویا اس وقت بھی آپ کے بازوؤں کی سفیدی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ آپؐ پتھر اُٹھا کر لائے اور ان کی قبر کے سرہانے کی طرف رکھ دیا اور فرمایا میں اس پتھر کے ذریعے اپنے بھائی کی قبر پر نشانی رکھ رہا ہوں۔ میرے اہل خاندان میں سے جو کوئی فوت ہوا ،میں اسے اس کے قریب دفن کروں گا۔4
یاد رہے کہ سیدنا عثمان بن مظعونؓ ، رسول اللہﷺ کے رضاعی بھائی تھے۔
سیدنا عثمان بن عفانؓ کی تدفین : خلیفہ راشد سیدنا عثمان بن عفانؓ کی قبر اس وقت بقیع میں ہی ہے۔ شاید بعض حضرات کے لیے یہ بات نئی ہو کہ جب امیر المؤمنین ؓ کی شہادت کا الم ناک واقعہ پیش آیا تو مدینہ منورہ کے حالات اس قدر پُرخطر تھےکہ امیر المؤمنین ؓ کو بقیع میں دفن کرنا ممکن نہ تھا۔ بقیع کے مشرق میں'حُشِ کوکب' نامی ایک باغ تھا۔ کسی زمانے میں اس باغ کا مالک 'کوکب' تھا۔اسی کی نسبت سے یہ باغ 'حُشِّ کوکب' کہلاتا تھا۔ سیدنا عثمانؓ نے یہ باغ خرید لیا تھا اور شہادت کے دنوں میں یہ آپ ہی کی ملکیت میں تھا۔ چنانچہ آپؓ کی تدفین آپ کے اسی باغ میں کی گئی۔ بعد میں امیرالمؤمنین سیدنا معاویہؓ کے عہد میں بقیع کی توسیع کرتے ہوئے اس باغ کو بقیع میں شامل کردیا گیا ۔
بقیع قبرستان اور اس میں مدفون حضرات کی فضیلت
1. رسول اکرمﷺ اکثر و بیشتر بقیع میں جاکر وہاں کے مدفون حضرات کے حق میں دعائے مغفرت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی جب بھی میرے ہاں باری ہوتی تو آپؐ رات کے آخری حصے میں بقیع کو تشریف لے جاتے اور یہ دعا فرماتے :
«السلام علیکم دار قوم مؤمنین وأتاکم ما توعدون،غدا مؤجلون وإنا إن شاء الله بکم لاحقون، اللهم اغفر لأهل بقیع الغرقد»5
''اس گھر یعنی قبرستان کے مؤمنو! تم پر سلام ہو۔ جس (موت) کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ پورا ہوچکا۔ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا کل ملنے والی ہے اور اللہ نے چاہا تو ہم بھی عنقریب تم سے آملنے والے ہیں۔ یا اللہ! اہل بقیع کی مغفرت فرما۔''
2. سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کابیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''تم میں سے جس آدمی کے لیے ممکن ہو، وہ مدینہ منورہ میں مرنے کی کوشش کرے کیونکہ جس کی وفات مدینہ منورہ میں ہوگی، میں اس کے حق میں قیامت کے دن سفارش کروں گا۔''6
3. عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''قیامت بپا ہونے کے بعد جب مُردوں کو زندہ کیا جائے گا تو سب سے پہلے میں اپنی قبر سے باہر آؤں گا۔ اس کے بعد ابوبکرؓ او ران کے بعد عمرؓ، بعد ازاں میں بقیع والوں کی طرف جاؤں گا۔ وہ میرے پاس جمع ہوجائیں گے۔ اس کے بعد میں مکہ والوں کا انتظار کروں گا اور میں حرمین کے درمیان سے اُٹھایا جاؤں گا۔ ''7
4. اُمّ قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اُن سے فرمایا: ''کیا تم اس قبرستان (بقیع) کو دیکھ رہی ہو؟ قیامت کے دن اس میں سے ستّر ہزار افراد ایسے اُٹھیں گے جن کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی مانند روشن ہوں گے اور وہ سب بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔''8
5. امیرالمؤمنین سیدناعمر بن خطابؓ کی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں شہادت کی موت، مدینہ منورہ میں عطا کرے، آپؓ یوں دعا کیا کرتے تھے:
اللهم ارزقنی شهادة في سبیلك واجعل موتي في بلد رسولك
''یا اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرمانا او رمجھے تیرے رسولﷺ کےشہر (مدینہ منورہ) میں موت آئے۔''9
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؓ کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا۔ آپ کو شہادت کی موت، مدینہ طیبہ میں آئی اور رسول اللہ ﷺ کے جوار میں مدفن ملا۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ آمین!
مدفون حضرات
اس قبرستان میں رسول اللہ ﷺ کی ازواج ، اولاد اور دیگر اقربا کے علاوہ دس ہزار کے قریب صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد لاتعداد تابعین، تبع تابعین، ائمہ دین، مفسرین، محدثین، اہل علم خواص و عوام مدفون ہیں۔ ان کی صحیح تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ان میں سے معروف معروف شخصیات کی قبریں اور اُن کی جگہیں معروف ہیں اور اہل مدینہ اُن سے واقف ہیں۔ آلِ سعود سے پہلے جب حجاز پر اہل بدعت کی حکومت اور اقتدار تھا تو اُنہوں نے ان تمام قبور پر قبے کھڑےکردیئے اور عمارات قائم کردی تھیں او رہرقبر کے سرہانے ان کے نام لکھ دیئے تھے۔ چونکہ شریعتِ مطہرہ میں قبروں پرعمارات بنانا سخت منع ہے۔ اس لیے موحدین آلِ سعود نے حکومت سنبھالنے کےبعد ان خلافِ شرع تمام مظاہر کا خاتمہ کردیا ۔ اللہ تعالیٰ اس حکومت کی حفاظت فرمائے اور دشمنوں کے شر اور حسد سےمحفوظ رکھے۔ آمین!
یوم انہدامِ بقیع
بقیع میں قبروں کے اوپر کی عمارات کے انہدام کا واقعہ ما ہ شوال میں پیش آیاتھا۔ اسلئےبرصغیر کے قبرپرست حضرات ماہِ شوال میں یومِ انہدامِ بقیع مناکر اس توحیدی اقدام پر احتجاج کیا کرتے ہیں۔ مگر اس طرح کے خلافِ شرع اقدامات سے شمع توحید کوبجھایا نہیں جاسکتا۔ابتدا میں جب آلِ سعود نے یہ توحیدی اقدام اُٹھایا تھا تب بھی ان لوگوں نے شور شرابا کیا تھا تو اس وقت کے حامل توحید سعودی فرماں روا نے علیٰ الاعلان کہاتھا کہ اگر آپ لوگ ان قبّوں کے جواز پر ایک بھی شرعی دلیل پیش کردیں تو میں یہ تمام قبے اور مزارات سونےکے بنوا دوں گا۔ چونکہ ان لوگوں کے پاس ان قبوں اور مزارات کے جواز میں کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، اس لیے آج تک وہ اس سلسلے میں لاجواب ہیں۔
'جنّت البقیع' کی اصطلاح
کتبِ حدیث اور مدینہ منورہ کی تاریخ پر لکھی گئی تمام مستند ومعتبر کتابوں میں اس قبرستان کو بقیع ، البقیع یابقیع الغرقد ہی لکھا گیا ہے۔ مگر برصغیرکے اہل علم او ریہاں پر تاریخ مدینہ منورہ یا حج وغیرہ کی کتابوں میں اس قبرستان کا ذکر کرتے ہوئے اسے 'جنت البقیع' لکھتے ہیں جبکہ اس کے لیے کوئی واضح نص یا شرعی دلیل موجود نہیں۔ لہٰذا اہل علم پر لازم ہےکہ نہ صرف وہ خود اس اصطلاح سے اجتناب کریں بلکہ اپنے اپنے حلقہ احباب میں بھی اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ واللہ تعالیٰ ہو الموفق
حوالہ جات
1. منتهیٰ الإرب في لغات العرب: جلد اوّل؍صفحہ 107
2. النهایة في غریب الحدیث از ابن اثیر: جلد2؍صفحہ 44
3. مستدرک حاکم: 3؍ 209
4. سنن ابو داؤد مع عون المعبود: 3؍ 203
5. صحیح مسلم: 974
6. سنن ترمذی:3926
7. سنن ترمذی:3701
8. مسند ابو داؤد طیالسی (مبوّب): 2؍ 206...:2738
9. صحیح بخاری:1890