ملکی حالات، امریکی دھمکی اور اس کے مضمرات

پاکستان میں حالات کچھ اس تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ ہرلمحے صورتحال گھمبیر ترہوتی چلی جارہی ہے۔گذشتہ صرف ایک ماہ کے دوران چند ایسے غیرمعمولی واقعات پاکستان میں رونما ہوئے ہیں جن کے نتائج جہاں انتہائی دور رَس ہیں ، وہاں مستقبل پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے پہلے بھی وطن عزیز میں ایسے رجحان ساز واقعات کا ایک طویل تسلسل ہے جس سے صورتحال اس مرحلے تک آپہنچی ہے کہ آج ہم بحیثیت ِقوم اپنے آپ کوسنگین مسائل سے دوچار پاتے ہیں ۔ ماضی قریب میں بلوچ سرداروں کے قتل، حدود قوانین کی معطلی اور ۱۲ مئی کو کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماہِ رواں میں پیش آنے والے اہم ترین مسائل کا ایک عبوری جائزہ لیا جانا چاہئے۔

10؍ جولائی 2007ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جس دن ظلم و سفاکی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے شوکت ِاسلام کا جنازہ نکال دیا گیا۔ اس کاروائی کے ذریعے اسلامی احکام پر عمل کرنے والوں کو حکومتی سرپرستی میں ہرممکنہ جارحیت کا پیغام دیا گیا اور مغرب کے لبرل نظریات پر یقین رکھنے اور اس پر عمل کرنے والوں کو پوری تائید کے ساتھ ہر طرح کی پوری چھوٹ دے دی گئی۔ حکومت ِوقت کی نظر میں فحاشی اور بے راہ روی کے مرتکب تو تحفظ و تائید کے مستحق ٹھہرے اور ان کے خلاف ایک حرف ِمذمت یا معمولی سی کاروائی بھی دیکھنے میں نہ آئی لیکن قرآن کو پڑھنے اور نفاذِ اسلام کا مطالبہ کرنے والوں سے ایسا سلوک کیا گیا کہ آج بھی قرآن کے اوراق، شہید ہونے والوں کے اعضا، معصوم طالبات کی اوڑھنیاں اور برقعے اسلام آباد کے کوڑے اور گندے نالوں میں بکھرے نظر آتے ہیں ۔ سینکڑوں خواتین اور بچوں کو شہید کرتے ہوئے نہ صرف ہر اخلاقی ضابطہ کو پامال کردیاگیا بلکہ اسلام کی محکم ہدایات اور عالمی قوانین کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توکفار کی عورتوں ، بچوں اور عبادتگاہوں کو جنگ میں تحفظ دینے کی تلقین کی ہے، یہاں ان مقدس ہدایات ِنبویﷺ کو بھی پرکاہ کی اہمیت نہیں دی گئی۔ آج تک ان شہید ہونے والوں کے خون سے اسلام آباد کی فضا بوجھل اور سوگوار ہے اورمستقبل میں بھی شہداکے خون کی یہ خوشبو ایک عرصہ تک اسلام آباد کی فضا میں رچی بسی رہے گی۔اس سانحہ پر ہر پاکستانی کا دل غم واندوہ سے بوجھل ہے کیونکہ یہ ایک قوم کے بعض افراد کی ہی دوسروں پر طاقت آزمائی کی ایک المناک مثال ہے۔مرنے اور مارنے والے دونوں ایک ہی دھرتی کے سپوت اور ایک ہی قوم کے فرزند ہیں ۔

جنرل مشرف نے اس واقعہ سے چند روز پہلے میڈیا سے کہا تھا کہ اگر میڈیا لاشیں نہ دکھائے تو اس معاملہ کو بڑی آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے لیکن میڈیا نے یہ بات تلقین وترغیب سے نہ مانی تو حکومتی احکامات کے بل بوتے پر میڈیا کو جائے سانحہ سے میلوں دو رکردیا گیا۔ اور آج تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی اس واقعہ کے حقائق مخفی ہیں جو امریکہ کے مطابق آئندہ بھی پردئہ خفا میں ہی رہیں گے۔ اقتدار پر براجمان قوتوں نے تو جن محرکات کے تحت اس سنگ دلانہ 'آپریشن سائلنس' کے احکامات صادر کئے، ان سے آہستہ آہستہ پردہ اُٹھتا ہی رہے گا، البتہ اُن مسلمان فوجیوں کی غیرتِ ایمانی اور حمیت ِدینی پر بھی حیرت ہے کہ اُنہوں نے کس شقاوت سے اپنی سنگینوں کا نشانہ ان پردہ دار طالبات کوبنایا جن کی جھلک بھی کسی غیرمرد نے نہ دیکھی ہوگی۔ باپردہ خواتین کا تو آج بھی مسلم معاشرے میں غیرمعمولی احترام کیا جاتا ہے اور ان کو دیکھنے والی بے باک نظریں بھی آخر کار جھک جانے پر مجبور ہوجاتی ہیں لیکن جارحیت کرنے والوں کو اس کا کوئی خیال آڑے آیا اور نہ ہی ان درو دیوار کی بے حرمتی کا جنہیں خانوادئہ رسولﷺ کی محترم خواتین سے منسوب کیا گیاتھا۔ اس آپریشن کے ذریعے قوم اور اس کے محافظوں میں خون کی ایک لکیر کھینچ د ی گئی جس کے اثرات انتہائی مہلک ہوں گے۔ (i)

اس بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ یہ سانحہ انتہائی المناک ہے جس کے اس سے بہتر کئی اور حل بھی ہوسکتے تھے۔لیکن ۱۱ جولائی کو وزیر اعظم اور 12 جولائی کو وزیر داخلہ کے بیانات سے ہر بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اوّل الذکر کے مطابق آپریشن 6 ماہ پہلے سے طے تھا اور وزیر داخلہ کے مطابق مدرسہ کو شہید کرنا ہمارے بنیادی اَہداف میں شامل تھا، حتیٰ کہ صدر بش نے بھی اپنی تقریر میں کہاکہ لال مسجد ہمارے ایجنڈے پر موجود تھی۔ چنانچہ 24؍ جولائی کو عوام کے پرزور احتجاج کے باوجود جامعہ حفصہ کی وسیع وعریض عمارت کو کلی طورپرمسمار کردیا گیا۔ ابھی تک نہ صرف کئی افراد لاپتہ ہیں اور ان کے والدین ان کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں بلکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود زخمیوں سے بھی ان کے اہل خانہ کو ملنے نہیں دیا جارہا۔ ان والدین کی کیا کیفیت ہوگی جو اپنے جگرگوشوں کی تلاش میں دربدر کی خاک چھان رہے ہیں ، اور ابھی تک اُنہیں اس کا بھی علم نہیں کہ وہکسی ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہے یا گولیوں کا نشانہ بن کر آخرت کو سدھار چکا ہے؟ان زخمیوں تک میڈیا کو آج بھی رسائی کی اجازت حاصل نہیں ہے۔ معاشرے میں اس واقعے کے حوالے سے شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے اورلوگوں کو ایک ہزار سے زائد طلبہ وطالبات کی شہادت کا یقین ہے۔ قاضی حسین احمد نے اس المناک موقع پر قومی اسمبلی میں اپنی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے تمام گم شدگان کی بازیابی کا ذمہ دار مشرف حکومت کو قرار دیا ہے اور وفاق المدارس نے صدر سمیت اہم حکومتی ذمہ داروں کے خلاف سپریم کورٹ میں قتل عام کی درخواست دائر کر دی ہے۔

انتہائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک ایسے ملک میں ہوا جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا، اسلام کے نام سے قائم شہر 'اسلام آباد' کی قدیم مرکزی مسجد میں ہوا، اس فوج کے ہاتھوں ہوا جس کا ماٹو ایمان، تقویٰ اورجہادفی سبیل اللہ ہے اور اس حکومت کے آرڈر پر ہوا جس کا سب سے عالی منصب اس شخص کو حاصل ہے جو اپنے آپ کو 'سید زادہ' قرار دیتا ہے۔ لیکن یہ تما م مناسبتیں ان لوگوں کے کوئی کام نہ آسکیں جن کا نعرہ 'ملک میں اسلامی نظام کا قیام' اور 'معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ' اور 'فحاشی کا قلع قمع' کرنا تھا۔

اس المناک سانحے کا ردّ عمل ہے کہ آج پوری پاکستانی قوم بدترین ہلاکت ودہشت گردی کی آگ میں سلگ رہی ہے۔ جمعہ ۲۷ جولائی کو لال مسجد میں پہلی بار نمازِ جمعہ کے موقع پر اسلام آباد میں جس طرح ایک بار پھر خانہ جنگی اور ہلاکت وبربادی کی کیفیت دیکھنے میں آئی اور قوم کے نگہبان اور قانون کے محافظ جس طرح بربریت کا نشانہ بنے، اس پر ہر پاکستانی کا دل شدید رنج واَلم سے دوچار ہے۔ معاشرے سے امن وامان کا بھرم اُٹھ چکا ہے اور کوئی بھی شہری اگرکسی دہشت گردی کا شکار ہو تو معلوم نہیں کہ اس شہری کو ہی خود کش حملہ آور قرار دے کر اس کے پس ماندگان کو ہمدردی کے بجائے مزید ظلم واذیت کا نشانہ بنا دیا جائے۔

20؍ جولائی کو ۱۳ ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے فل بنچ نے چیف جسٹس کی غیرفعالیت کے احکامات اور ان کے خلاف حکومتی الزامات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اُنہیں اپنے عہدے پر بحال کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ بحا ل کئے جانے والے چیف جسٹس آف پاکستان کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے منصب کو سنبھالنے کے بعد سے مختلف اہم معاملات پر از خود سینکڑوں نوٹس لے چکے تھے۔ اُنہوں نے نہ صرف بلوچستان کے مسئلے پر نوٹس لیا، ملکی خزانے کی خرد برد مثلاً سٹیل مل کے اونے پونے داموں فروخت پر نوٹس لیا بلکہ لاپتہ افراد کی تفصیلات جاری کرنے کے بارے میں بھی سرکار کو احکامات صادر کئے اور حکومت کی ان کے خلاف حقیقی فردِ جرم اور ریفرنس یہی ہے۔ ان کی جبری رخصت کے خلاف وکلا برادری نے جس طرح متحد ہوکر عدل وانصاف کے ایوانوں کا وقار بحال کرنے کی کوشش کی، یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے۔ ان کی جدوجہد فقید المثال اور عدیم النظیررہی جس میں مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکلا نے غیرمعمولی کردار پیش کیا، چنانچہ ان کی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہوئی جس کے اچھے ثمرات مستقبل قریب میں قوم کو ضرور حاصل ہوتے رہیں گے۔

جولائی کا پورا مہینہ وطن عزیز شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ 19 جولائی تک صورتحال یہ تھی کہ 14 روز میں 15 سے زائد بم دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے تھے جن میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد سینکڑوں میں رہی۔ 19 جولائی کا دن دہشت گردی کے حوالے سے بدترین رہا جس روز تین دھماکے: حب، کوہاٹ اور ہنگو میں ہوئے اور 58 سے زائد معصوم لوگ شہید ہوگئے۔ اس سے قبل 15 جولائی کو بھی سوات اور ڈیرہ اسماعیل خاں میں بھی تین حملوں میں 31 اہل کاروں سمیت 52 افراد جاں بحق ہوئے اور 100 کے قریب زخمی ہوگئے۔ جولائی کے مہینے میں ہلاکتوں اور تشدد کے واقعات اتنی کثرت سے ہوئے کہ بعض سیاستدانوں نے پاکستان کو عراق جیسے جنگ کے شکار ملک سے تشبیہ دی۔

صدر مشرف نے تو حسب ِمعمول اسے انتہاپسندوں اور اعتدال پسندوں کی جنگ قرار دے کر مزعومہ انتہاپسندی کے خلاف قوم کو کھڑے ہونے اورڈٹ جانے کی تلقین کی، البتہ دیگر قومی رہنمائوں نے اس موقعہ پر غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے اسے بیرونی سازش قرار دیا ۔اس موقع پر حکومت نے ملک کے معتمدعلماے کرام سے ملاقات کرکے ان سے خودکش بم دھماکوں کی حرمت کا فتویٰ بھی حاصل کیا جس سے حکومت کے رجحان کا علم توہوجاتاہے کہ وہ دراصل راسخ العقیدہ مسلمانوں کو ہی ان دھماکوں کا مجرم باور کراناچاہتی ہے۔ جبکہ اسلام آبادمیں وکلاکے جلوس میں ۱۷ جولائی کو ہونے والے حملے اور کوہاٹ کی مسجد میں نمازِ عشاکے موقع پر ہونے والے دھماکوں سے بخوبی علم ہوجاتا ہے کہ جامعہ حفصہ کے ردعمل کی آڑ میں ملک دشمن قوتیں یا دیگر ذرائع اس موقع پر دہشت گردی کی فضا پیدا کرکے مذموم اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں اور باعمل مسلمانوں کو دہشت گرد باور کرکے ان کے خلاف عوامی فضا کو حکومت کے حق میں سازگار کرنا چاہتے ہیں ۔کیونکہ اسلام آباد میں چیف جسٹس کے خطاب کے موقعہ پر وکلا کو دھماکہ کے ذریعے منتشر کرکے حکومت کے خلاف ان کی تحریک کو متاثر کرنا، ایسے ہی کوہاٹ میں 19 جولائی کو نماز پڑھنے والے فوجیوں پردورانِ نماز حملہ کا ملزم مذہبی طبقہ کو قرار دینا بالکل بعیداز قیاس ہے۔ علاوہ ازیں بلوچستان میں جانے والے قافلے جس میں چینی انجینئرزبھی موجود تھے، پر حملہ کرنے کا واضح مقصد بھی پاکستان کو اپنے دوستوں کی حمایت سے محروم کرنا ہے۔ یاد رہے کہ چینی باشندوں پر پاکستان میں ہونے والی جارحیت اور اس پر چین کی حکومت کے ردّ عمل کو عالمی میڈیا غیرمعمولی طورپر بڑھاچڑھا کر اور تکرار سے پیش کررہا ہے۔

دہشت گردی کے ان واقعات سے دنیا بھر میں پاکستان کا تاثر ایک ایسے ملک کے طورپر اُبھرا جہاں امن وسکون نام کی کوئی شے موجود نہیں اور ملک خانہ جنگی اور ہلاکت خیز تباہی سے دوچار ہے۔ ایک ایٹمی قوت کے دار الحکومت کے عین قلب میں فوج کو ایک مسجد کے مقابلے میں صف آرا دکھا کر دنیا بھر کو کیا پیغام دیا گیا ہے اور اس پیغام کے فوائد کون حاصل کررہا ہے اور اس کے نقصانات کس کو برداشت کرنا ہوں گے؟ یہ تمام باتیں انتہائی توجہ طلب ہیں !

قوم کو جامعہ حفصہ کے دردانگیز سانحہ سے دوچارہونے کے چند روز بعد یہ خبر ملی کہ وزیرستان اور اس سے ملحقہ علاقوں کے عمائدین نے حکومت سے ہونے والے معاہدہ کو منسوخ کر دیا ہے۔ پاکستانی قوم پہلے ہی ان سنگین حالات سے دوچار تھی، اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر جو معمولی نہیں تھی، درحقیقت ایک نئے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی،اخبارات کے مطابق:
''شمالی وزیر ستان میں طالبان نے معاہدہ ختم اورگوریلا جنگ شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ ستمبر 2006ء میں ہونے والے اس معاہدہ میں غیرملکیوں کو علاقے سے نکالنے اور افغانستان آنے جانے پر پابندی کو قبول کیا گیا تھا جس کے جواب میں حکومت نے زمینی اور فضائی آپریشن بند کرنے، قبضہ میں لیا ہوا سامان اور مراعات واپس کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ عبد اللہ فرہاد نے معاہدہ ختم کرنے کی وجہ رزمک اور دتہ خیل میں فوجی آپریشن کرنے اور دیگر شرائط مثلاً معاوضہ ادا کرنے اور فوجی چوکیاں وغیرہ ہٹانے کی حکومتی خلاف ورزیوں کی بنا پر معاہدہ کو منسوخ قرار دے دیا۔ ''1

یوں تو اس معاہدے کے خاتمے میں شرائط کو نظرانداز کرنے کا تذکرہ کیاگیا ہے لیکن درحقیقت اس معاہدہ کے خاتمہ میں لال مسجد پر ہونے والی جارحیت کا ایک اہم کردار ہے۔ کیونکہ ۲۰۰۴ء میں لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز نے قبائلی علاقوں پر حکومتی کاروائیوں کی مذمت کی اور اس کے لئے لال مسجد کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا تھا، اس وقت پہلی بار لال مسجد اور حکومتی حلقوں میں باہمی تنائو اورناراضگی کی لہر پیدا ہوئی۔ اس بات پر معاہدہ وزیرستان کی منسوخی کی تواریخ بھی گواہ ہیں ۔ لال مسجد کا سانحہ جہاں مسلمانوں کے خلاف جاری جارحیت اور افغانستان میں امریکہ کی تائید پر ردّ عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا، وہاں قبائلی علاقوں کے موجودہ حالات اور ان میں جاری جنگ اسی رنج وغم کا اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہمند ایجنسی میں عظیم مجاہد ِآزادی حاجی ترنگزئی کی قبر کے قریب واقع مسجد کو انہی دنوں لال مسجد کا نام دے کر وہاں برسرپیکار مسلمانوں نے جامعہ حفصہ اُمّ حسان کے نام سے عظیم مدرسہ قائم کرنے کے عزم کا بھی اظہار کردیا ہے۔ 2

ماضی میں تسلسل سے رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کو ذہن میں رکھیں اور دوسری طرف صرف جولائی کے مہینے میں ہونے والے اقدامات کو بھی تازہ رکھتے ہوئے پاکستان کو اس ماہ کے اَواخر میں جس نئے مسئلہ کا سامنا کرناپڑاہے، اس نے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری کے قضیے کو سلگا دیا ہے۔اس مسئلہ کی جڑیں اس داستانِ وفاسے ملتی ہیں جس کا آغاز امریکی صدر بش نے نائن الیون کے بعد صدر پرویز مشرف کے بھرپور تعاون سے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی شکل میں کیا تھا۔ بش انتظامیہ نے امریکی مفادات کے لئے پاکستانی حکومت کے والہانہ اقدامات کا صلہ ایسی صورت میں پیش کردیا ہے جس کے بعد جہاں پاک امریکہ دوستی کی حقیقت کھل کرسامنے آگئی ہے، وہاں امریکہ کے عزائم اور رجحانات بھی طشت ازبام ہو گئے ہیں ۔ چنانچہ گزشتہ دنوں صدر بش نے اپنے خطاب میں پاکستان پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اُسامہ بن لادن زندہ موجود ہیں ، یہ قرار دیا ہے کہ اگر امریکہ میں کسی بھی مقام پر دہشت گردی کی کوئی کاروائی ہوتی ہے توامریکہ پاکستان کے ان علاقوں پر حملہ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرے گا۔

15؍ جولائی کی خبر یہ تھی کہ امریکہ کو اپنی سلامتی کے لئے جہاں کہیں بھی حملہ کرنا پڑا تو اس سے قطعاًگریز نہیں کیا جائے گا۔ادھربرطانوی حکومت نے بھی پاکستان کے دینی مدارس پر ایک بار پھر دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے القاعدہ کے کارکنوں کی بھرتی کے مراکز قرار دیا ہے۔27؍ جولائی کے اخبارات میں ایک بار پھر امریکی نائب وزیر خارجہ کی یہ دھمکی جلی سرخیوں سے شائع ہوئی ہے کہ پاکستان کے اندر کاروائی کرنے کا آپشن برقرار رہے گا۔

دوسری طرف صدر بش کے بالمقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی اُمیدوار بارک اوباما نے بھی قرار دیا ہے کہ ''اصل میدانِ جنگ عراق نہیں ، پاکستان ہے۔ امریکہ وہاں القاعدہ پر بلا جھجک حملے کرے۔ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو عراق سے فوجیں نکال کر حقیقی میدانِ جنگ پاکستان بھیجیں گے، اس سلسلے میں اسلام آباد کے کسی احتجاج کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ پاکستان کو ہرصورت دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا، وگرنہ وہ امریکی امداد کے خاتمے اور حملے کے لئے تیار رہیں ۔'' گویا پاکستان پر حملے کے بارے میں صدر بش کی ری پبلکن پارٹی اور ان کے مقابل ڈیموکریٹک پارٹی دونوں میں اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے جو امریکی عوام اور دانشوروں کی متفقہ رائے کا غماز ہے، اور اس کی مخالفت کرنے والا عہدئہ صدارت حاصل نہیں کر سکتا!!

امریکہ کے اس نئے رجحان کے بعد جہاں پاکستان ایک بار پھر عالمی طورپر شدید مشکلات کا سامنا کررہا ہے، وہاں پاکستان کو اس مرحلے پر پہنچانے والے صدر مشرف بھی اپنے غاصبانہ اقتدار کے مشکل ترین ایام سے گزر رہے ہیں ۔ یوں تو حکومت نے فوری طورپر ملکی خود مختاری کے اظہار کے لئے اس نوعیت کے امریکی بیانات پر شدید ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے اُسے قومی اُمور میں دخل اندازی قرار دیا ہے اور بعض ذرائع کے مطابق اپنی فوج کو مداخلت کرنے والوں کو روکنے کے احکامات صادر کئے ہیں لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی حکومت کا سفارتی ردّ عمل توقع اور ضرورت سے انتہائی کم ہے۔

امریکی دھمکی کا مقصد اور ہدف
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ صدر مشرف ان دنوں ہمہ نوعیت کے چیلنجوں کا سامنا کررہے ہیں اور وہ اپنے عرصۂ اقتدار کی کمزور ترین پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں ۔ گاہے بگاہے تبدیلیوں اور اپنے ساتھیوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ وہ ان اِمکانات پر بھی غور کررہے ہیں کہ اگر اُنہیں اقتدار سے محروم کردیا گیا تو وہ کیا متبادل صورت اختیار کریں گے۔ اس مقصد کے لئے ان کی اہلیہ صہبا مشرف 29 صندوقوں کے ساتھ دوماہ قبل امریکہ جانے کے بعد وطن واپس بھی آچکی ہیں ، گویا اس طرح اُنہوں نے اپنے آقاے ولی نعمت کے ہاں اپنے تحفظ کے راستے بھی بنالئے ہیں ۔ پاکستان کے اندر بھی صدر مشرف کو ہرطرف سے شدید دبائو کا سامنا ہے :

صدر مشرف کو جامعہ حفصہ کے حادثہ کے بعد شدید عوامی اور ابلاغی ردعمل کا سامنا ہے، ایوانِ صدرکو وہ مرکز سمجھا جارہا ہے جہاں سے غازی برادران سے مفاہمت کے بعد اس ہلاکت خیز جارحیت کے احکامات صادر ہوئے۔ جامعہ حفصہ پر ہونے والے ظلم کی تردید میں پوری قوم یک زبان ہے۔ علاوہ ازیں مدارس ومساجد کے خلاف کئی انضباطی اقدامات ،ذرائع آمدن کو بند کرنے کی کوششوں اوربعض مدارس کو تنبیہی نوٹس جاری کرنے نے بھی جلتی پر تیل کاکام کیا ہے۔ مدارس کے خلاف ان اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے قاضی حسین احمد نے اسے 'سول وار'کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ 3

اس سے دین دار طبقے میں شدید رد عمل پیدا ہورہا ہے جو مساجد کے ذریعے اسلام دوستعوام تک پھیلتا جارہا ہے۔ یہ ملک کے اکثریتی طبقے کا عوامی دبائو ہے !

عدالت ِعظمیٰ کا فیصلہ حکومت کے لئے غیرمتوقع تھا، اس کے بعد حکومت کے لئے من مرضی کے امکانات محدود ترہوگئے ہیں ۔یہ جدید تعلیم یافتہ اور سول سوسائٹی کے علم بردار کہلانے والوں کا دبائو ہے جس کی پشت پر ملک کے سب سے اہم ستون عدلیہ کی قوت موجود ہے۔ اس کی قیادت وکلا کررہے ہیں جنہوں نے چیف جسٹس کی بحالی کو کامیابی کا پہلا زینہ قرار دیتے ہوئے اپنی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم تسلسل سے دہرایا ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر منیر ملک نے کہا ہے :
''وکلا امریکی ایما پر آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے والوں کے ہاتھ توڑ دیں ، بعض سیاسی جماعتیں امریکہ کے کہنے پر ڈیل کررہی ہیں ، عوام اُنہیں قبول نہیں کریں گے۔ امریکہ بعض سیاسی جماعتوں کے ذریعے مشرف کو لائف لائن دینے کی کوشش کررہا ہے۔ ''4

یوں نظر آتا ہے کہ قاضی حسین احمد کی صدر مشرف کے دو عہدوں پر براجمان رہنے کے خلاف آئینی درخواست اس سمت میں عدلیہ کی جدوجہد کو ایک بامقصد رخ دینے کا کردار ادا کرے گی۔چنانچہ جسٹس رانا بھگوان داس نے 30 جولائی کو اس آئینی درخواست پر اپیل کی مناسب وقت پرکھلی سماعت کے احکامات صادر کردیے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسی درخواست کو قبل ازیں سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے بعض اعتراضات لگا کر مسترد کردیا تھا۔ 5

یہ آئینی درخواست عدلیہ کی آزاد حیثیت اور مبنی بر قانون فیصلے کا ایک امتحان ہے!

تیسری طرف سیاسی جماعتوں نے 8 اور 9 جولائی کو لندن میں آل پارٹیز کانفرنس کے بعد 'اے پی ڈی ایم' کی شکل میں اپنے آپ کو منظم کرلیا ہے۔ اور ان میں کافی اُمور مثلاً ایم کیو ایم کی حمایت سے دستبرداری اور استعفوں کا دبائو استعمال کرنے وغیرہ پر اتفاقِ رائے سامنے آیا ہی جس کے بعدمناسب موقع پر سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے کارڈز استعما ل کرنے کیلئے مختلف مراحل سے گزر رہی ہیں ۔یہ سیاسی جماعتوں اور کارکنان کا دباؤ ہے۔

ملک امن وامان کی بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے، قومی یکجہتی کا تصور سرے سے معدوم ہے۔ حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے، مساجد اورعوام آپس میں برسرپیکار ہیں ۔ دہشت گردی کی صورتحال بدترین ہے، عوام بم دھماکوں کے رحم وکرم پر اور فوج ؍ پولیس ملک بھر بشمول قبائلی علاقوں میں اپنی لاشیں اُٹھا کر حوصلے چھوڑتی جا رہی ہے۔

پشاور میں گورنر سرحد کے زیرسرپرستی ہونے والا گرینڈ قبائلی جرگہ ناکام ہوچکا ہے، حا ل ہی میں عبد اللہ محسود کی بامعنی 'شہادت' نے مفاہمت اورمذاکرات کی کوششوں کو مزید متاثر کیا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی فوج نے بھی ان علاقوں میں اپنی کاروائیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ گذشتہ دوہفتوں میں دوطرفہ کاروائیوں اور ہلاکتوں میں کافی تیزی آچکی ہے۔ بعض اہم شخصیات نے ان علاقوں میں فوج کو اُلجھانے سے روک کر امن وامان کی ضمانت کی حامی بھری ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان، امریکہ اور نیٹو افواج میں مفاہمت ومذاکرات جاری ہیں ، دوسری طرف تینوں قوتوں کے متوقع آپریشن کی فاٹا گرینڈ الائنس نے بھرپور مذمت کی ہے۔

ہمسایہ ملک افغانستان کی حکومت امریکہ کی تمام تر سرپرستی کے باوجود حالات کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے، اس کا اقتدار کابل کے گرد ونواح تک ہی محدود ہوچکا ہے اور وہ اپنی تمام ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے رہی ہے۔ دوسرا ہمسایہ ملک چین جو ہمیشہ سے پاکستان کا مضبوط اتحادی رہا ہے، اس سے بھی پاکستان کے تعلقات کافی متاثر ہیں اور لگاتار چینی ماہرین پر حملوں سے پاک چین تعلقات میں گہری دراڑیں پڑرہی ہیں ۔

اس لحاظ سے پاکستان ان دنوں شدید عوامی، قانونی، نظریاتی، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کا شکار ہے، ملک کے تمام اداروں اور طبقہ ہائے زندگی میں ان پریشان کن حالات کا ذمہ دار فردِ واحد کی حکمرانی کو قراردیا جارہاہے۔ دوسری طرف صدر مشرف بہر صورت اپنے اقتدار کو طول دینے پر مصر ہیں اور الیکشن سے قبل (15 ستمبر تا 16؍ اکتوبرکے دوران) اپنے صدارتی انتخاب کو یقینی بناکر اپنے زیر نگرانی الیکشن کروانے کے لئے ہر ممکنہ سیاسی جوڑ توڑ کررہے ہیں ۔

ان مشکل حالات میں امریکہ کا پاکستان کو کھلم کھلا جارحیت کی دھمکی دینا واضح طورپر اس رویہ کا غماز ہے کہ امریکی انتظامیہ ماضی کی طرح اپنے پیشہ وارانہ اہداف کے حصول پر ہی اپنی توجہ مرتکز رکھتی ہے اورہردم زیادہ سے زیادہ مفادات سمیٹنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتی ہے۔ امریکہ کا موجودہ حالات میں پاکستان کی سلامتی اور داخلی خود مختاری کو کھلم کھلا چیلنج کرنا دو دھاری تلوار ہے جس سے بیک وقت کئی مقاصد حاصل کئے جارہے ہیں :

صدر مشرف کا دوام اورتسلسل: امریکی مقاصد کی تکمیل کے لئے پاکستان میں صدر مشرف کا برسراقتدار رہنا ضروری ہے،یہ امریکہ کی علاقائی ضرورت بھی ہے کیونکہ امریکہ افغانستان سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ کے لئے افغانستان میں اپنے ہرلحظہ کمزور پڑتے تسلط کوبرقراررکھنا ممکن نہیں ۔موجودہ حالات میں صدر مشرف کے ماسوا کسی اور حکومت پر امریکی حکومت اپنے مفادات کے سلسلے میں اعتماد نہیں کرسکتی جیسا کہ صدر نے جامعہ حفصہ پر ایک سنگین جارحانہ کاروائی کے احکام دے کر اپنے دوٹوک رجحانات کا تعین کرنے کے علاوہ دنیا کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ مزعومہ مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا ودیگر ممالک نے بڑے واضح الفاظ میں صدر مشرف کے اس اقدام کی تحسین کی ہے۔ چنانچہ امریکی ذمہ داران کا کہنا ہے کہ وہ صدر مشرف کی حد تک پوری طرح مطمئن ہیں ، البتہ پاکستان کی انتظامیہ اور دیگر حکومتی اداروں کے بارے میں وہ تاحال مخمصے کا شکار ہیں ۔

مئی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے جان ڈی نیگرو پونٹے(امریکی نائب وزیر خارجہ وسابق ڈائریکٹر امریکی انٹیلی جنس) نے دی نیشن کو بتایا کہ ۳ اہم امریکی عہدیداروں کے حالیہ دورے کا مقصد آئندہ سیاسی ڈھانچے کی تشکیل ہے جس کو انتہاپسند عناصر سے پاک رکھنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے۔ مشرف آج بھی امریکہ کا بہترین آپشن ہیں ۔ امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے پاکستان کے وزیر خارجہ قصوری کو کہا کہ صدر مشرف ہمارے بہترین اتحادی ہیں ، جن کی کوششوں سے پاکستان شدت پسندی کے خاتمے اور اصلاحات میں بہت آگے نکل چکاہے۔

صدر مشرف کے متبادل کے طورپر بے نظیر بھٹوبھی سرگرم ہیں ۔ دونوں بڑھ چڑھ کرعالمی قوتوں کا منظورِ نظر بننے کی جستجومیں ہیں ۔ دونوں کی مشترکہ حکومت کے بعض فارمولے بھی سامنے آرہے ہیں ۔ مثال کے طورپر یہ کہ ملک میں اقتدار بے نظیر حکومت کے سپرد کرکے قومی سلامتی اور دفاعی اُمورمیں مشرف کے ساتھیوں کو موقع دیا جائے اوراس طرح امریکہ کا حمایت اقتدار عالمی مفادات پورے کرنے کے لئے پاکستان کے سر پر ہی مسلط رہے۔ تاہم بے نظیر نے وردی میں ان کو صدر قبول کرنے سے انکارکیاہے، اور ان کی صدارت اُنہیں اسی صورت میں قبول ہے جب وہ آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں ii ۔6

امریکی حکومت کا داخلی مفاد: پاکستان میں جس جارحیت کاامریکی حکومت نے واضح طورپر اشارہ دیا ہے، اس کا ایک مقصد بش انتظامیہ کا داخلی مفاد بھی ہے، کیونکہ ان کی حکومت غیرمقبولیت کی آخری حدوں کو چھورہی ہے اور مستقبل قریب میں ہونے والے امریکی انتخاب میں اُنہیں امریکی عوام کے سامنے کوئی ایسا کارنامہ پیش کرنا ہوگاجس سے ری پبلکن کا اقتدار میں معقول حصہ برقرار رہ سکے۔ یا کم از کم قوم کو جنگی مسائل میں مشغول کرکے اُنہیں بیرونِ ملک اَہداف پر مجتمع کیا جاسکے۔

بش انتظامیہ کو اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے اُسامہ بن لادن کا ہوا دوبارہ کھڑا کرنے اور امریکی قوم کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کسی بھی اِقدام کی ضرورت پڑی تو بش حکومت اس سے قطعاً دریغ نہیں کرے گی۔ امریکی حکومت کی اسی داخلی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ۲۷ جولائی کے اخبارات میں پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ
''امریکی انتخابات پاکستان کی قیمت پر نہیں لڑے جانے چاہئیں ۔ اگلے سال ہونے والے امریکی انتخابات میں پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنانا چاہئے۔'' 7

28 جولائی کو سینٹ کے اجلاس کے دوران اس موضوع پر مختلف ممبران نے اپنے شدید ردّ عمل کا اظہار کیا جہاں سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر نے کہا کہ
''افغانستان اور عراق میں امریکہ فیل ہوچکا ہے،اگلے سال امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ امریکہ اس وقت پاکستان میں دہشت گردوں کو استعمال کررہا ہے۔''8

پاکستان میں اپنے مفادات کا حصول:چونکہ صدر مشرف ان دنوں کمزور ترین سیاسی حیثیت میں ہیں ، اس لئے ان کے پاس اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ہرممکنہ حد تک امریکہ پر انحصار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ صدر کی اس کمزور حیثیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکہ نے فوری طورپر وزیرستان میں کاروائی کا اشارہ دے دیا ہے جس کا ردّعمل یہ ہوا ہے کہ پاکستانی حکومت نے جہاں ڈھکے چھپے الفاظ میں اس پر احتجاج کا اظہار کیا ہے، وہاں پر ایک ذومعنی آمادگی بھی موجود ہے۔ چنانچہ حکومتی مشیر سید مشاہد حسین کا بیان شائع ہوا ہے کہ
''ہم شمالی علاقہ جات میں امریکہ کے اکیلے اقدام کی حمایت نہیں کرتے۔''

مزید برآں اخبارات میں امریکہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ بیان بھی شائع ہوا ہے :
''وائٹ ہائوس کے ترجمان ٹونی سنو نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان کے قبائلی علاقوں پر حملوں کا حق حاصل ہے۔ وزیرخارجہ قصوری نے کہا کہ اگر امریکہ کے پاس اطلاعات ہیں تو ہمیں بتائے، ہم خود کاروائی کریں گے۔ جس کے جواب میں امریکہ نے کہا کہ القاعدہ کی قیادت قبائلی علاقوں میں ہے۔ ہم اسامہ، ظواہری اور القاعدہ سے نمٹنے کے لئے اپنے آلات کسی کو فراہم نہیں کرسکتے۔ ''9

یہ بیان صاف اس حکومتی خواہش کی غمازی کررہا ہے کہ اگر امریکہ یہ اقدام کرنا ہی چاہتا ہے تو اسے اس مقصد کے لئے اپنے ساتھیوں پر اعتماد کرنا چاہئے اور ان کے اشتراک سے قبائلی علاقوں پر کاروائی کرنی چاہئے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستانی فوج کو اس آپریشن میں اپنے ساتھ لینا چاہئے تاکہ نہ تو قومی خود مختاری کا مسئلہ آڑے آئے اور نہ ہی موجودہ پاکستانی حکومت امریکی سرپرستی سے محروم ہوکر رہ جائے۔

واضح رہے کہ افغانستان کی شمالی سرحد جو ایران سے ملتی ہے، پر بھی طالبان کی کافی قوت موجود ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان کی صرف جنوبی سرحد پر ہی سارا زور دینا اور قبائلی علاقہ جات کو اپنی دلچسپیوں اور جارحیتوں کا مرکز بنانا مستقبل میں اس امریکی سازش کا آئینہ دار ہے جس میں بھارت کے لئے کشمیر کی طرح ، پاکستان کے لئے ان علاقوں کوایک مستقل دردِ سر بنانے کی مکروہ منصوبہ بندی کارفرما ہے۔ اس سے پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل میں ہی اُلجھا کرہمسایہ ملک بھارت کو آزادی سے علاقائی تھانیدار کا کردار ادا کرنے کے قابل بنانا بھی پیش نظر ہے جس کے لئے امریکہ نے بھارت سے جوہری ہتھیاروں سمیت زندگی کے ہرپہلو پر تعاون میں کافی اضافہ کردیا ہے۔

یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ امریکہ کے یہ تقاضے یہاں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ ماضی کی طرح ہرآن اُن میں اضافہ (Do more)ہی ہوتا رہے گا۔جیسا کہ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ لال مسجد کا سانحہ مئی میں تین امریکی عہدیداروں (رچرڈ بائوچر، ولیم فالن اور نیگرو پونٹے) کی آمد اور مذاکرات کا نتیجہ ہے جب اُنہوں نے مشرف حکومت کی کارکرگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مزید کچھ کردکھانے کی تلقین کی اور اس سانحہ کے بعد اب مزید مطالبہ داغ دیا۔

مشرف کے اقتدار کے خاتمے پر امریکی جارحیت کی دھمکی: امریکی بیان کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں مشرف کی زیر نگرانی سیکولر حکومت ہی گوارا ہے۔ اس دھمکی کا منشا یہ ہے کہ اگر پاکستان اپنی سلامتی چاہتا ہے تو اسے اپنے قومی، سیاسی اور عدالتی رجحانات کواس رخ پر موڑنا چاہئے جہاں پاکستان کے اقدامات امریکی مفادات سے ہم آہنگ ہوجائیں ۔ بصورتِ دیگر ایک سنگین الزام کی شکل میں پاکستان پر جارحیت کی پیش بندی پہلے سے کی جاچکی ہے۔یہ انتظام بطورِ خاص مشرف کی شدید کمزوری اور نظریاتی جنگ کے فیصلہ کن مرحلے، بالخصوص قومی انتخاب کے مرحلے پر کیا جارہا ہے کہ اگر پاکستان میں اسلام یا پاکستان پسند قوتیں اقتدار میں فیصلہ کن حیثیت حاصل کرلیتی ہیں تو امریکی حکومت کی جارحیت کا تحفہ ختم ہونے والی حکومت کی طرف سے اُنہیں وراثت میں حاصل ہوگا۔ پاکستان میں مداخلت اور قبائلی علاقوں پر حملوں کے جواز کے لئے امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی فرضی واقعہ رو بہ عمل لانا امریکی حکومت کے لئے کوئی گھاٹے کاسودا نہیں لیکن اس سے پہلے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو حکومت ِپاکستان کے تصرف سے خارج کرنے کی بھرپور کوشش ہوگی۔

چنانچہ اپنے اعزاز کے تحفظ کی طرف بھی قوم کے ہمدردوں کو پوری توجہ دینا ہوگی۔ اس پیش بندی کا اندازہ 29 جولائی کی اس خبر سے بھی ہوتا ہے جس میں پاکستان کو ملنے والی امداد کو اس امر سے فوری طورپر مشروط کردیا گیا ہے کہ
''امریکی سینٹ نے یکم اکتوبر کو ملنے والی 70 کڑوڑ ڈالر کی امریکی امداد کو اس امر سے مشروط کردیا کہ جب تک صدر اس امر کی تصدیق نہیں کردیتے کہ پاکستان دہشت گردوں کے ٹھکانے اور ان کی حمایت ختم کرنے کے واضح اقدامات کررہاہے۔ بصورتِ دیگر یہ فوجی امداد اور آئندہ سال متوقع ملنے والے 80 کڑوڑ ڈالر کی امداد بھی بند ہوسکتی ہے۔ اس بل کی حمایت میں 8 کے مقابلے میں 85 ممبرانِ سینٹ نے ووٹ ڈال کر منظوری کیلئے صدر کو پیش کردیا۔ ''

موجودہ پریشان کن حالات میں پاکستان کو مزعومہ دہشت گردی کے خلاف اپنے بظاہر قریبی دوست سے ایسے رویے کا سامنا ہے جو مشکل صورتحال میں اپنے پیشہ وارانہ اہداف کو ہی مد نظر رکھ کر مزید سے مزید کا مطالبہ داغ دیتا ہے۔امریکہ نے جامعہ حفصہ کے واقعے، عدالتی فیصلے اور چین سے دوری کے سنگین مسائل میں صدر مشرف کی غیرمقبولیت کو بھانپتے ہوئے قریبی انتخاب میں ان کے تسلسل کے لئے نہ صرف اپنا تما م وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے بلکہ ان سے اس عنایت کا نقد حقِ خدمت وصول کرنے کے لئے بھی ایک دوٹوک تقاضا پیش کردیا ہے۔

ظاہر بات ہے کہ سابقہ چند سالوں کی طرح اپنے قبائلی علاقہ جات میں کسی قسم کی جارحیت کرنا جہاں قومی مفادات کے شدید منافی ہوگا، وہاں ملک کے اندر اس سے نظریاتی کشیدگی میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ وطن کوکمزور کرنے کی لگاتار کوششیں ، قوم کو مزید تقسیم کرنے اور باہم صف آرا کرنے کا تمام تر نقصان پاکستان اور اہل پاکستان کو ہی پہنچے گا۔ قومی وحدت اور ملکی سا لمیت کے ساتھ داخلی امن وامان کو دائو پر لگا کرکوئی قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔البتہ ان تمام اقدامات سے اگر شخصی طورپر کسی کو فائدہ پہنچتا ہے یا عالمی طاقتوں کے مذموم اَہداف پورے ہوتے ہیں تو اس کے لئے پاکستانی عوام کو کیوں قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے؟

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ،ق لیگ اور پیپلز پارٹی سے مشرف کے جوڑ توڑ کی تفصیلات اخبارات میں چھپ رہی ہیں اور یہی نظر آتاہے کہ ان حالات میں ق لیگ کے سوا باوردی صدر کسی کو بھی قبول نہیں ۔ ملک کے کسی حلقے میں ان کے بارے میں کوئی حمایت نہیں پائی جاتی، البتہ اس مشکل مرحلہ پر ان کا واحد حمایتی امریکہ ہے جو اپنی حمایت کی نقد قیمت وصول کرکے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہی پرویز مشرف کے اقتدار کو طول دے رہا ہے۔

اس صورتِ حال میں فیصلہ قوم اور اہل فکر ودانش کو کرنا ہے کہ اُنہوں نے مستقبل میں پاکستان میں نظریاتی تصادم اور داخلی کشمکش کو مزید ہوا دینے والے حکمرانوں کو موقع دینا ہے، یا اپنی عقل وبصیرت کو کام میں لاکر محب وطن اور اسلام پسندعناصر کی حمایت کرنا ہے ۔ قوم کو منظم کرنا مختلف سیاسی، دینی اور معاشرتی رہنمائوں کا کام ہے، تب ہی بظاہر نظر آنے والے متوقع مکروہ مستقبل سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے ۔پاکستان عالمی قوتوں کی سرپرستی میں سیکولر قوتوں کے اشتراک سے جبر وتشدد کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جس پر باخبر صحافی حامد میر نے 'لبرل فاشزم' کے نام سے ۳۰ جولائی کے روزنامہ جنگ میں مستقل کالم لکھ کر قوم کو توجہ دلائی ہے۔ یہ وقت باخبر و متوجہ ہونے اور مثبت سمت میں اپنی صلاحتیں کھپانے کا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شعور اور فراست کے ساتھ اپنے فیصلے کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔


حوالہ جات
1. روزنامہ ایکسپریس، 16 جولائی 2007ء، صفحہ اوّل
2. اداریہ نوائے وقت : 31؍ جولائی
3. نوائے وقت:31 جولائی
4. روزنامہ ایکسپریس: 31جولائی 2007ء ، صفحہ اوّل
5. نوائے وقت: 31 جولائی
6. نوائے وقت:31 جولائی
7. نوائے وقت
8. ایکسپریس: 29؍ جولائی
9. ایکسپریس: 25 جولائی، صفحہ اوّل

 


 

i. فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (لاَ تَقْتُلُوا شَیْخًا فَانِیًا وَلاَ طِفْلًا وَلاَ صَغِیرًا وَلاَ امْرَأَةً ) (صحیح سنن ابوداود :2614)
ii. بے نظیر کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ انتخابات سے قبل ڈیل طے کی جائے جبکہ حکومت اسے انتخابات کے بعد طے کرنا چاہتی ہے۔بے نظیرکے تیور اور ارادے ان کے برلن میں دیے گئے بیان سے صاف جھلکتے ہیں جس میں اُنہوں نے یہ قرار دیا ہے کہ ''پاکستان کے 'انتہاپسند' صدر مشرف کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کررہے ہیں ، اُنہوں نے شہروں میں قائم اپنے مدارس کو عسکری مراکز میں تبدیل کردیا ہے۔پاکستان میں اسلامی دہشت گردوں کے انقلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے، لال مسجد کا واقعہ تو اس کی محض ابتدا ہے۔''اس پیغام میں حقائق کا مسخ کرنا اور اس کو ذو معنی رخ دینا قابل دید ہے، ساتھ ہی ان کا یہ بھی موقف ہے کہ انہی اسمبلیوں سے صدر کے انتخاب کی صورت میں وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں گی۔گویا ان کی نظر میں صدر مشرف کا اقتدار بے نظیر سے قبل از انتخاب مفاہمت اوربلاوردی صدارت کی صورت میں ہی قابل قبول ہے، کوئی اور صورت اُنہیں قبول نہیں ۔ یہاں یہ امر بھی خارج از امکان نہیں کہ مشرف اور بے نظیر میں مفاہمت طے پاچکی ہو، البتہ انتخابات میں ق لیگ کے ذریعے مشرف کے حمایت یافتہ اور پیپلز پارٹی کے ذریعے مشرف کے مخالف ووٹ حاصل کرکے بعد از انتخاب حکومتی اشتراک کو روبہ عمل لایا جائے اور ان اخباری بیانات کی حیثیت عوام کو دھوکہ دینے سے زیادہ نہ ہو۔البتہ دوسری طرف شریف برادران سے کوئی مفاہمت فی الوقت خارج از امکان ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف 25جولائی کو 1997ء میں درج بغاوت کیس کو دوبارہ زندہ کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں ، علاوہ ازیں 30 جولائی کو ایوانِ صدر نے سعودی عرب اور امارات میں شریف برادران سے کسی بھی ملاقات اور ڈیل کی پرزور تردید کرتے ہوئے بے نظیر سے مفاہمت اور روابط کی باضابطہ طور پر تصدیق کی ہے۔