سانحہ لا ل مسجد ؛ ایک لمحۂ فکریہ

لال مسجد میں ہونے والی ظلم وبربریت پر پوری قوم یک آواز ہے۔ ایسے سنگین واقعات برسوں کیا، صدیوں میں رونما ہوتے ہیں۔ اس سانحہ پر تبصرے تجزیے اور تاثرات لکھنے والوں سے اخبارات ورسائل بھرے پڑے ہیں۔ ہرکوئی اس ملی المیہ کو اپنے انداز سے بیان کررہا ہے۔ جامعہ حفصہ کو دہشت وہلاکت کی یادگار بنانے والوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کی یہ سازش لال مسجد کو حیاتِ دوام عطا کردے گی۔ آج ملک بھر میں لال مسجدیں بن رہی ہیں اور جارحیت کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔

ایسے سانحوںکا یہ تو ایک فطری اور عوامی ردعمل ہے جبکہ اہلِ فکر ودانش کا رویہ اس سے قدرے مختلف ہوتا ہے۔ ذمہ دار لوگ تبصروں پر ہی اکتفا کرلینے کی بجائے ان محرکات ووجوہات پر بھی غور کرتے ہیں جن سے ایسے سانحے جنم لیتے ہیں۔ وہ ان احتیاطی تدابیر کو زیربحث لاتے ہیں جن پر عمل کرکے آئندہ اس نوعیت کے المیے دوبارہ رونما نہ ہوسکیں۔ وہ ایسے واقعات میں چھپا درس حاصل کرنے اور ان اَسباب تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں سے مستقبل کے لئے رہنما خطوط میسر آسکیں۔

ملک بھر میں ا س سانحہ کے حوالہ سے جو عام تاثرات پائے جاتے ہیں حتیٰ کہ بعض رہنما اسے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد دوسرا سنگین ترین واقعہ بھی قراردیتے ہیں، ا س سے بھی اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے جو مقاصد حکومت ِوقت نے حاصل کئے اور جس بے رحمی سے دین دار معصوم لوگوں کونشانہ بنایا، اس پر بھی شدید تکلیف دہ احساس اُبھرتا ہے، لیکن تبصروں اور تاثرات کی اس عام روش سے ہٹ کر اس موضوع کے بعض سبق آموزپہلووں کو نمایاں کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، چنانچہ ہم دیگر اہل فکر کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ اس سانحہ پر لکھے جانے والے دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ اس نوعیت کے غور وفکر میں بھی اپنا حصہ ڈالیں۔

طاقت اور قوت کا استعمال
اس واقعہ سے بحیثیت ِقوم ہمیں جو اہم سبق حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے مسائل ومعاملات کو اِفراط وتفریط کی بجائے توازن واعتدال سے سمجھا اور جانچا جانا چاہئے۔ کسی بھی مسئلہ کو قوت کی بجائے اِفہام وتفہیم سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ قوت کے استعمال سے فوری طورپر نتائج تو حاصل ہوجاتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے نفرتیں اور کدورتیں جنم لیتی ہیں۔

اس سانحہ میں یہ واضح سبق پوشیدہ ہے کہ جب تک غازی برادران بزور اپنے مطالبات منوانے کے دعووں پر جمے رہے اور اُنہوں نے اپنے مسائل کا حل چلڈرن لائبریری پر قبضے کے ساتھ معاشرے سے فحاشی کے جبری خاتمہ کو قرار دیا تو ملک کا دینی طبقہ اپنی تمام تردلی ہمدردیوں اور مسائل کی تشخیص میں ان سے اتفاق اور ان کے مطالبات سے کلی اظہارِ یکجہتی کے باوجود ان کی حمایت پر مجتمع نہ ہوسکا۔ 7،8 جولائی تک کی خبروں کو تازہ کیجئے جب لال مسجد کے غمگسار ودلی ہمدرد بھی قوت کے استعمال پر مبنی ان کے طریقہ کار کی مخالفت پر یک آواز تھے۔ ملک کے تمام دینی حلقے ان کے مطالبات کو جائز اور برحق قرار تو دیتے لیکن ان کے طریقہ کار کی مخالفت کرتے حتیٰ کہ اسی بنا پر وفاق المدارس العربیہ اور ان کے سرپرستوں نے بھی ان سے اظہارِ ناراضگی کرتے ہوئے قطع تعلقی اختیار کی۔

دوسری طرف ہمیں حکومت کے رویے سے بھی یہی سبق ملتا ہے۔ وہ پوری پاکستانی قوم جو لال مسجد والوں کے طریقہ کار کی مخالفت میں یک زبان تھی، جونہی حکومت نے جولائی کے پہلے عشرہ میں اِفہام وتفہیم کی بجائے جارحیت کا راستہ اختیار کیاتو قوت کے اس بے جا استعمال نے حکومت کو عوام کی حمایت سے کلی محروم کردیا۔10 جولائی کے یومِ سیاہ سے لے کر آج تک قوم کے غم وغصہ میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ وہ لوگ جو اس ملک میں مدارس ومساجد کے بڑے نظریاتی مخالفوں میں شمار ہوتے ہیں، اُنہوں نے بھی اس موقع پرحکومت کے رویہ کی مذمت کی ہے۔ اس واقعہ کے اہم حکومتی کردار اگر عوام کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرسکے تو گھروں میں جاکر اُنہوں نے ضمیر کے بوجھ تلے ندامت کے آنسو ضرور بہائے ہیں۔ پوری قوم اس ظلم پر سراپا احتجاج ہے۔ اس احتجاج کی وجہ قوت کا وہ بدترین استعمال ہے جو اپنے ہی ملک کے باشندوں سے روا رکھا گیا۔الغرض اس المیہ سے بحیثیت ِقوم ہمیں یہ واضح سبق ملتا ہے کہ اپنے مسائل کو اِفہام وتفہیم اور توازن واعتدال کی بجائے قوت سے حل کرنا غلطی، نادانی اور قوم کی حمایت سے محرومی کا سبب ہے...!!

آج پاکستان میں جامعہ حفصہ کے حوالے سے یہ بات گویا نقارئہ خلق بن چکی ہے کہ لال مسجد والوں سے طریقِ کار کی اگر لغزش ہوئی ہے تو حکومت نے اس سے کہیں بڑھ کر شدید غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ مولانا عبدالرشید غازی شہید نے اپنے آخری انٹرویو میں کہا تھا کہ ''ہم نے غلطی کی ہے لیکن ہمیں اس کی سزا اس سے کہیں زیادہ دی جارہی ہے۔ہماری غلطی اتنی بڑی تو نہ تھی۔''حکومت ِوقت نے اس لغزش کو جواز بنا کر اس موقع پر نہ صرف بین الاقوامی بلکہ ملکی، سیاسی، عوامی اور نظریاتی مفادات سمیٹنے کے لئے استحصالی رویہ کا مظاہرہ کیا۔

مناسب اَہداف کی طرف درست پیش قدمی
دینی جماعتیں اور ادارے عوام الناس کی اصلاح کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ عوام بھی ان کی اس خدمت کی قدر کرتے ہوئے نہ صرف اپنے جگرگوشوں کو ان کے حوالے کرنے کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں بلکہ حسب ِاستطاعت ان اداروں کے مالی تعاون سے بھی گریز نہیں کرتے۔ان دینی اداروں اور تحریکوں کو اپنی منزل کا تعین کرتے ہوئے اعلیٰ ہدف کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے لیکن زمینی حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ معاشرے کے مصلح افراد کی اپنے معاشرے کے رجحانات اور حالات پر گہری نظر ہونی چاہئے۔ اہداف کے تعین اور اس کے لئے عملی طریقہ کار میں جہاں ایک معقولیت اور معروضیت ہونی ضروری ہے، وہاں اپنی صلاحیت اور قوت ِکار کا بھی پورا علم ہونا چاہئے۔

بعض ادارے ایسے اَہداف کے لئے اپنی صلاحیتیں کھپا نا شروع کردیتے ہیں جن کو پانے کے لئے اُنہیں خارجی ذرائع کی مدد لینا ناگزیر ہوجاتا ہے یا ایجنسیاں تعاون کے نام پر خود اُنہیں اپنے اَہداف کے لیے استعمال کرنا شروع کر دتی ہیں۔ اس لحاظ سے کسی بھی تحریک وتنظیم کے قائد اور مرکزی اَفراد پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے زیر اثر افراد کی صلاحیتوں کو صحیح رخ دیتے ہیں یا ان کے دینی رجحانات کو جذباتی رنگ دے کر آخر کار ان کو ایسے میدان میں جھونک دیتے ہیں جہاں سے نتائج کا حصول مزید دور ہوجاتا ہے۔(i)

اسلامی تحریکوں کے پاس قوم کا اعتمادایک بہت بڑی امانت ہے۔ آج بھی لوگوں میں اُنہیں غیرمعمولی قدرومنزلت سے دیکھا جاتا اور قوم کے محسن سمجھا جاتا ہے۔ ان اداروں کو اپنے مقاصد کے تعین میں کسی ردعمل کا بھی شکار نہیں ہونا چاہئے جہاں وہ غصہ نکالنے یا نیچا دکھانے کی منفی نفسیات سے مغلوب ہوجائیں۔ ہردم اپنی قوتِ کار کا صحیح ادراک رکھتے ہوئے اپنی طے کردہ منزل کی طرف ہی قدم اُٹھنے چاہئیں۔

بعض اوقات اسلامی تحریکیں خود توکسی مغالطے یا ردّ عمل کا شکار نہیں ہوتیں لیکن ان کے ساتھ شریک ہونے والے ان کی صلاحیت کو دوسری سمت موڑدینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اداروں اور تنظیموں کے ذمہ داران کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ اپنے ساتھ شامل ہونے والے افراد پر بھی کڑی نظر رکھیں، ان کی سرگرمیوں کا جائزہ رکھتے ہوئے ایک طے شدہ مثبت سمت میں ہی ان کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں۔

پاکستان کے عوام دین سے گہری وابستگی رکھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان دینی تحریکوں کا ایک بڑا مرکزہے۔بعض دینی تحریکیں ان حالات میں مرحلہ وار جدوجہد کی بجائے ایسا راستہ اختیار کرنے کی طرف مائل ہوجاتی ہیں جہاں وہ کسی خارجی مدد سے جلد اپنی منزل کو حاصل کرلیں۔ اس مقصد کے لئے بعض تنظیموں کے ہاں سرکاری شخصیات سے راہ ورسم بڑھائے جاتے ہیں تو کچھ تنظیمیں بااثر شخصیات کی اپنے ساتھ شمولیت کو غیرمعمولی اہمیت دیتی ہیں۔ مقصد کی طر ف پیش رفت کے لئے معاون ذرائع حاصل کرنا اور افراد کو ساتھ جوڑنا قطعاً غلط نہیں ہے، لیکن ایسے لوگوں کی شرکت جہاں کسی تنظیم کے لئے بظاہر اعزاز کا باعث ہوتی ہے وہاں آہستہ آہستہ ایسے لوگ اپنے اثرات کے ذریعے تنظیم کا رخ بدل کر اُسے اپنے مقاصد کی طرف لے جانے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔

بعض اوقات اہم اداروں کے ہاں ایسے لوگ بھی راہ ورسم بنالیتے ہیں جن کے پیش نظر تنظیم کی بجائے اپنے مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ بڑے خلوص و محنت اور لگن و جدوجہدسے کامیابی کی سمت بڑھنے والا ادارہ اپنے اصل اہداف سے ہٹ کر اپنی منزل تبدیل کربیٹھتا ہے۔ بعض اوقات ایسے اہم لوگوں کی آمد ورفت سے ایسے دینی ادارے اپنے آپ کو محفوظ ومامون تصور کرنے لگتے ہیں اور یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کسی آڑے وقت میں ان لوگوں کا تعاون ہمیں پورا کام دے گا۔ یہ سب چیزیں نہ تو اصلاً غلط ہیں اور نہ ہی ناجائز؛ البتہ ایسے تعلقات کواپنے جائز مقاصد کے لئے بروے کار لانا اور ان سے اپنے اصل دینی ہدف کو تقویت دینا اور کسی مغالطے کا شکار نہ ہونا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ اہم شخصیات سے میل جول کے بعد ان کی رائے کو نظر انداز کرنا بھی ایک کارِ مشکل ہے!

جامعہ حفصہ کے سلسلے میں ایسی ہی بعض مثالیں سامنے آتی ہیں۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد پاکستان کے اہم ترین علاقے میں ایک عظیم دینی مرکز ہے جس کی دین کے لئے عظیم الشان خدمات رہی ہیں۔اس ادارہ میں اہم شخصیات کی آمد ورفت بھی مسلمہ حقیقت ہے۔ دینی حلقوں میں جامعہ حفصہ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس جامعہ کے ذمہ داروں نے دوستوں کو پہچاننے میں غلطی کی ہے۔ اپنے اہداف کو مساجد کی تعمیر کے جائز مطالبے سے بڑھا کر نفاذِ شریعت تک وسعت دینے، قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے فحاشی کے مراکز کے جبری خاتمے کی کوشش اور اس کے ذمہ داروں کو پکڑکر لانا وغیرہ انہی 'مہربان' دوستوں کی سفارشات کا نتیجہ ہے جنہوں نے ان کو غیرمعمولی قوت وصلاحیت کو مغالطے میں مبتلا کرکے اُنہیں اپنے ٹریک پر چلانے کی کوشش کی۔ مولانا عبد العزیز کا برقعے میں گرفتار ہونا انہی 'مہربانوں' کی ہدایات پر چلنے کا نتیجہ ہے جنہوں نے آڑے وقت میں اُنہیں بدترین دھوکہ دیا...!!

غازی بردران دین کے مخلص خادم ہیں، ان کی عظیم الشان خدمات ان کے اسلام سے والہانہ تعلق کا ثبوت ہیں لیکن آج اُمت ِمسلمہ اس عظیم دینی مرکز سے محروم ہے، اپنے عظیم فرزندوں اور بیٹیوں کی شہادت کا زخم لئے ہوئے ہے تو اس میں اس امر کا بھی بڑا عمل دخل ہے کہ اُنہوں نے اپنے اَہداف کو متعین کرنے، دوستوں کو پہچاننے اور اپنی طاقت کا درست تجزیہ کرنے میں لغزش کھائی ہے۔

اس سانحہ میں یہ سبق موجود ہے کہ آج بھی کچھ متشدد تنظیمیں جو حقیقی جدوجہد اور تدریجی مراحل کی بجائے دیگر عوامل پر غیرمعمولی اعتماد اور انحصار کئے بیٹھی ہیں، اُنہیں اپنے حقیقی اور جائز اَہداف کا معروضی طورپر جائزہ لینا چاہئے۔ اپنی صفوں سے دوست کے روپ میں موجود دشمنوں کو پہچاننا اور ہرصورت اُنہیں الگ کرنا چاہئے، وگرنہ وہ لوگ اُنہیں ایسے مرحلے پر پہنچا کر چھوڑیں گے، جہاں سے واپسی کا راستہ بند اور صرف ہلاکت وبربادی کا راستہ کھلا ہوگا، جس سے زخموں سے چورچور اُمت کے لئے مزید المیے جنم لیتے رہیں گے۔

آج بھی وطن عزیز میں ایسی عسکری تنظیمیں کام کررہی ہیں جنہوں نے اپنے کارکنوں کو عالمی قوتوں کو ذلیل ورسوا کرنے کا غیر حقیقی نعرہ دے رکھا ہے، لیکن خود وہ ایسی حکومتی ایجنسیوں کے رحم وکرم پر ہیں جو صرف استعمال کرنے اور وقت آجانے پر اُنہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے مشن پر مامور ہیں۔ بالفرض اگر ایسے کسی مقابلے میں کوئی عسکری تنظیم کامیاب ہوبھی جائے تو چونکہ اس کی قوت اس کی اپنی نہیں بلکہ مستعار لی ہوئی ہوتی ہے، اس لئے اس کے نتائج تنظیم کو ملنے کی بجائے وہی لوگ اس کے ثمرات سمیٹ لے جاتے ہیں، جن کی مصنوعی قوت سے کوئی مقصد پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔اس سلسلے میں معرکہ کارگل کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں بعض عسکری تنظیموں کو بھرپور شمولیت کا دعویٰ ہے لیکن ایسی عسکری تنظیمیں اپنے فرزندوں کے خون کا نذرانہ تو پیش کرتی ہیں، لیکن ظاہری کامیابی کی صورت میں اس کے نتائج میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ کشمیر کے لئے یہ عسکری تنظیمیں قوم کا جوان خون پیش کرتی ہیں، لیکن بالفرض کشمیر کا تصفیہ ہوجانے پر وہ اسلام جس کے نام پر یہ سب قربانیاں پیش کی گئیں، اس کو کچھ حاصل ہونے کی بجائے وہاں ایک لادین سیاسی نظام کا اقتدار ہی برقرار رہتا نظر آتا ہے۔

ایک طرف پاکستان کے اہم دینی اداروں اور تنظیموںمیں مذکورہ بالا صورتحال کے شواہد کی طرف ہر شخص کی نظر جارہی ہے، اور جامعہ حفصہ کے بارے میں ہر غور وفکر کرنے والا یہ سمجھ رہاہے کہ یہ المیہ ایجنسیوں کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے تو دوسری طرف عین انہی دنوں 26 جولائی کو مقبوضہ کشمیر کے بھابھا ایٹمی سینٹر میں دہشت گردی کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ اور 31 جولائی کے اخبارات کے مطابق ایک عسکری تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

موجودہ حالات میں اس عقل ودانش کا ماتم کرنے کو جی چاہتاہے جسے ان حالات میں یہ کارنامہ اپنے کھاتے میں ڈالنے کی تو فکر ہے لیکن اس کے نتائج وعواقب سے وہ دانش بالکل بے پرواہ ہے۔اگر خبر اور ذمہ داری دونوں کو درست سمجھ لیا جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف مجاہدین نے ایٹمی سنٹر میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تو دوسری طرف پاکستان میں اس عسکری تنظیم کے مراکز کو بھی اسی المیہ اور سانحہ کی طرف تدریجا ًبڑھایا جارہاہے جس کا مشاہدہ اسلام آباد کی لال مسجدمیں قوم کرچکی ہے۔جنرل مشرف ہرقیمت پر سپرطاقتوں کی تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں، چاہے اس کے لئے اُنہیں ملک، قوم، دین اور انسانی جانوں کو قربان کرنا پڑے۔ ان حالات میں اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

اور اگر یہ دونوں باتیں حقائق پر مبنی نہیں بلکہ غیروں کی اُڑائی ہوئی افواہیں ہیں تو پھر ہماری دینی عسکری تحریکوں کو اپنے اوپر منڈلاتے بادلوں کو بھانپ لینا چاہئے اور اپنی حقیقی قوت پر ہی انحصا رکرنا چاہئے، ایجنسیاں پرائیویٹ اداروں سے کہیں زیادہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے طاقتور اور سفاک ہیں۔ جامعہ حفصہ کے سانحے میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ دینی اداروں اور تحریکوں کو اپنے اصل کام یعنی دعوت واصلاح پر توجہ مرتکز رکھنی چاہئے اور دھوکے مغالطے میں ڈالنے والے عناصر سے محتاط رہنا چاہئے۔

دینی ادارے امن وسلامتی کے پیامبر ہیں!
ملک دہشت گردی اور بدامنی کی بدترین کیفیت سے دوچار ہے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام، بالخصوص دین دار مسلمان حکومت کے خلاف شدید غم وغصہ کا شکار ہیں۔ ان حالات میں ملک کو مزیدابتری سے دوچار کرنے کے لئے غیرملکی ہاتھ بھی پاکستان میں سرگرم ہوگیا ہے اور اس نے اپنے مفادات کے پیش نظر مختلف نوعیت کی ہلاکت خیزیوں اور بم دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ان بم دھماکوں کا مجرم دینی طلبہ کو قرار دے کر جہاں عوام کو دینی طبقہ سے مزید متنفر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہاں حکومت بھی اُنہیں خودکش بم دھماکے قرار دے کر گویا اپنے آپ کو بری قرار باور کرا رہی ہے۔ اس سے ملک میں نظریاتی کشمکش کو بھی مزید ہوا مل رہی ہے۔ ان حالات میں ایسے دینی اداروں کو دانشمندی اور عقل وہوش کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہئے۔اس مرحلہ پر اس امر کی شدیدضرورت ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ غیرملکی مداخلت کار ان اداروں اور نوجوانوں کو اپنی پرفریب چال کا اس طرح شکار بنانے میں کامیاب نہ ہوجائے کہ اُنہیں اپنا آلہ کار بناکر اپنے ہی ملک او راپنے ہی ہم مذہبوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیں۔

اسلام کی تعلیمات اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں اور اسلامی ادارے ماضی کی طرح پرامن جدوجہد پر ہی یقین رکھتے ہیں۔ خارجی عناصر و وجوہات کی بنا پر مدارس ومساجد جیسے امن کے گہواروں کی دیرینہ روایت کسی طور متاثر نہیں ہونی چاہئے۔ لا ل مسجد سے قبل ذمہ دارانِ مدارس کا معاشرے کے ہر طبقہ کو یہ چیلنج ہوتاتھا کہ کسی مدرسہ میں اگر کوئی پرتشدد کاروائی اور اسلحہ ہے تو اس کی نشاندہی کی جائے اور اس الزام میں آج تک اسلام مخالف عناصر کامیاب نہیں ہوسکے۔ مدارس کی یہ روایت آج بھی برقرار ہے اور اسلا م کے علم بردار آج بھی اپنے پیش روئوں کی طرح پرامن رہ کرہی اپنی جدوجہد اور فرض کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے رہیں گے۔

یاد رہے کہ کسی کی غلطی اور کوتاہی کا بوجھ دوسرے پر کسی طورعائد نہیں ہوتا۔ بالفرض قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بعض معاملات میں قوتِ مقتدرہ کا حکم مان کر اپنے مسلمان بھائی بہنوں پرگولیاں چلائی ہیں تو اس سے دیگر فوجیوں یا سپاہیوں پر جارحیت کسی طور جائز نہیں ہوگئی۔ اسلام تو سب سے پہلے ہمیں اپنے وجود پر اسلامی احکامات نافذ کرنے کی تلقین کرتا ہے پھر ہمیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا درس دیتا ہے، لیکن یادرہے کہ یہ درس دو باتوں سے مشروط ہے :
نہی عن المنکراس صورت میں مشروع ہے جہاں برائی فروغ پا رہی ہو، اس کو ختم کرنے کی تدریجی کوشش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ البتہ برائی کے وقوع کے بعد اس کی سزا دینا ہیئت ِمقتدرہ کا کام ہے۔ قانون کوہاتھ میں لینے کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ اگر کسی جگہ بدکاری یا چوری کا ارتکاب ہورہا ہو تو اس سے اُس وقت مرتکبین کو روکنے کی ہرممکنہ کوشش کرنا نہی عن المنکرکا تقاضا ہے، لیکن وقوع کے بعد زانی یا چور کو اغوا یا قید کرکے سزا دینا گویا قانون کو ہاتھ میں لینا ہے جس کی کسی عام آدمی کو اجازت نہیں ہے۔

نہی عن المنکر میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ روکنے والے کی استطاعت میں ہو، اگر روکنے کا نتیجہ اس سے بڑے منکر کی شکل میں برآمد ہوتا ہے تو ایسی شکل میں نہی عن المنکر کے دیگر مراحل مثلاً زبان سے کہہ دینا یا دل سے برا جاننے وغیرہ پر عمل کرنا چاہئے۔ اس موضوع پرائمہ اَسلاف کا موقف اورتفصیلی بحث 'محدث' کے شمارئہ مئی میں گزر چکی ہے۔

دینی اداروں اور تحریکوں کو اسلامی تعلیمات اور موجودہ حالات وواقعات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اسی طریقہ کار کو اپنانا چاہئے جس کی نشاندہی اسلام نے کی ہے۔ اسلام ہی ہمارا سرمایۂ حیات ہے اورہر وہ عمل جو اس کی حدود سے متجاوز ہو، اس سے ہرصورت ہمیں بچنا چاہئے۔ اس وقت شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دانشور اُن مناسب طریقوں کی نشاندہی کریں جن کے ذریعے دینی مشن کو باحسن طریق ادا کیا جاسکتا ہے۔

ہم پر ان حالات میں دینی لحاظ سے کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مساجد ومدارس کے طلبہ کن رہنما خطوط کو اپنے سامنے رکھ کر اپنے کام کو مثبت بنیادوں پر توسیع دے سکتے ہیں، یہ رہنمائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ماضی میں اس حوالے سے 31 معتمد علما کے 22 نکات، دستوری جدوجہد، قانون کی اسلامائزیشن کے مراحل، ذرائع ابلاغ پر اپنے موقف کو احسن انداز میں پہنچانا، پاکستانی عوام کو خطباتِ جمعہ اور دیگر تقاریر کے ذریعے دینی تصورات اور تقاضوں سے اچھے انداز میں آگاہ کرنا، تبلیغ ودعوت کے تمام ذرائع اختیا رکرنا، رجوع الیٰ القرآن والسنہ کی تحریک اور قرآن وسنت کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا وغیرہ وہ اسالیب ہیں جن پر علماے کرام عرصۂ دراز سے کاربند چلے آرہے ہیں، ان سے اگر مکمل نتائج حاصل نہیں بھی ہوئے تو بہر حال معاشرے میں دینی روایات واقدار کوایک عظیم تحفظ ضرور حاصل ہوا ہے جس کی واضح شہادت پاکستانی معاشرے کی اُن دیگر مسلم معاشروں سے واضح فرق میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں دینی روایات واَقدار مسخ ہوکر مٹ چکی ہیں اور لادینیت واباحیت کے اثرات روز افزوں ہیں۔

کیا نفاذِ شریعت بزور بازو ہوسکتاہے؟
سانحہ لال مسجد سے ایک بار پھر یہ بات کھل کرسامنے آئی ہے کہ نفاذِ شریعت کا عمل مسلح جدوجہد یا قوت کے استعمال کے ذریعے کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ماضی میں تحریک ِنفاذِ شریعت ِمحمدیؐ وغیرہ اسی نوعیت کی کوششیں تھیں، اور حال میں بھی بعض جماعتیں قوت کے ذریعے انقلاب کی بات کرتی ہیں۔ لیکن جدید دور کی ریاست اس حد تک طاقتور ہوچکی ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا دائرئہ اثر اس حد تک وسیع ہوچکا ہے کہ قوت سے انقلاب لانا ایک ناقابل عمل طریقہ بنتا جارہا ہے۔اس طریقہ کا مذہبی طبقہ کو سراسر نقصان ہے۔

یوں بھی اگر وقتی طورپر کسی واقعاتی تائید یا مصنوعی مددسے یہ مرحلہ مکمل بھی ہوجائے تو اس کے فوائد سمیٹنا یا اس کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس واقعہ سے سماج میں کام کرنے والی ہرتنظیم کو سبق سیکھنا چاہئے۔

یہ وقت جہاں سانحۂ لال مسجد کے حوالے سے اپنے رنج وغم سے قوم کو آگاہ کرنے کا ہے، ہونے والے ظلم کی مذمت کرنے کا ہے، وہاں اس سانحہ کے بعد اس بحث کو بھی شروع ہونا چاہئے کہ دینی جماعتیں اور ادارے کن رہنما خطوط پر اپنے کام کو مثبت انداز میں آگے بڑھا کر اسلامی اہداف و مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ وقت ماضی میں استعمال کئے جانے والے طریقوں کے جائزے، حال کے تجزیے اور مستقبل کے لئے پیش بندی اور منصوبہ بندی کا ہے۔ نادان لوگ ظلم وستم پر رودھو کر چپ ہوجاتے ہیں لیکن ذمہ دارلوگ ہر واقعہ سے سبق حاصل کرتے اور اپنے اَہداف کو مزید نکھارتے چلے جاتے ہیں۔

محدث کے صفحات اس حوالے سے حاضر ہیں کہ دینی جماعتوں، اداروں، شخصیات اور اَفراد کو مستقبل کا کیا لائحہ عمل اور مقاصد کے حصول کی کیا حکمت ِعملی اختیار کرنا چاہئے؟

اللہ تعالیٰ اپنے دین کے لئے ہماری خدمات کو قبو ل فرمائے،اس سانحے میں جامِ شہادت نوش کرنے والے اُن فرزندان اور دخترانِ اسلام کی قربانی کو قبول فرمائے جنہوں نے نیک اسلامی مقاصد کے لئے اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کردیا۔ آمین!

 


 

i. بعض لوگ غزوئہ بد ر میں 313 مسلمانوں سے کفا رکے عظیم لشکر کا مقابلہ کرنے کی مثال دیتے ہیں تویہ درست نہیں ،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوئہ حسنہ سے ہمیں اس کے برعکس رہنمائی ملتی ہے۔ دعوت کے میدان میں آپ کی حکمت ِعملی بھی وہی ہے جس کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانثاروں کے ساتھ اس بیت اللہ میں ہی 13سال نماز پڑھتے رہے جہاں 360 بت موجود تھے۔ آپ کے جانثار صحابہ میں سے کوئی بھی کسی رات جاکر ان بتوں کو اللہ کے گھر سے ہٹا نے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا لیکن قوت کے ایسے استعمال کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تلقین نہ کی بلکہ اس کے لئے مناسب وقت کا انتظار کیا۔جہاں تک غزوئہ بدر وغیرہ کا تعلق ہے تو یہ بات سیرتِ نبویۖ کے ہر طالبعلم کو بخوبی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ غزوات اِقدامی کاروائی نہیں بلکہ غیروں کی مسلط کی ہوئی جنگ تھی۔ اور غیروں کی مسلط کی ہوئی لڑائی میں اور خود اختیار کردہ حالات میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ دین میں گہری بصیرت رکھنے والے لوگ اسلام کے اس رجحان سے بخوبی آگاہ ہیں !