مذہبی پیشوائیت؛ مذہب ِپرویز کا ایک کھوٹا سکہ (آخری قسط)

پاکستان میں تھیاکریسی کا مصداق کون؟
پاکستان کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو زیادہ تر دو شخصیات نے متاثر کیا ہے ۔ جن میں ایک جناب سیدابوالاعلیٰ مودودی ہیں اور دوسرے جناب غلام احمد پرویز۔ مؤخر الذکر کے نزدیک سید مودودی اور ان کی جماعت ہی 'مُلّا' ہیں ، جو اگرچہ اقامت ِدین کا نام لیتے ہیں ، لیکن ان کے پیش نظر مذہبی پیشوائیت کا نظام قائم کرنا ہے :
''اقامت ِدین کی تحریک کے مدعی یہاں تھیاکریٹک نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں نظامِ حکومت مذہبی پیشوائیت کے حق میں ہوتا ہے۔ما أنزل اﷲ کے مطابق قیامِ حکومت ان میں سے کسی کا بھی مطالبہ یا نصب العین نہیں ۔'' 1

ہمیں معلوم نہیں کہ 'مفکر قرآن' صاحب نے اس حقیقت کا انکشاف بربناے وحی کیاہے یا ان کے دلوں کوٹٹولا ہے یا 'مزاج شناس خدا' ہونے کی حیثیت سے وہ اس حقیقت کو جان گئے ہیں کہ ان کا مقصودتھیاکریٹک نظام کا قیام ہے۔

زمینی حقائق کی بنیاد پر اگر بے لاگ تحقیق کی جائے کہ مولانا مودودی اور جناب پرویز صاحب میں سے کون 'مُلّا' ہے اور کس کے پیش نظر 'تھیاکریسی' قائم کرنا ہے تو تھیاکریسی کی اُن صفات کے پیش نظر جو'مفکر ِقرآن' صاحب نے بیان کی ہیں ، یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ پاکستان میں کس کے پیش نظر تھیاکریٹک نظام قائم کرنا ہے اور یہ کہ کس کی تحریک فی الواقع تھیاکریسی کی مصداق ہے اور کون ما أنزل اﷲ کے مطابق قیامِ حکومت کا متمنی ہے اور کون ما أنزل اﷲ کا ڈھنڈورا پیٹ کر مغربی معاشرت کے طور طریقوں کے ساتھ اشتراکیت کامعاشی نظام رائج کرنا چاہتا ہے۔

'مفکر ِقرآن' صاحب نے 'مذہبی پیشوائیت' کی صفات اتنی کثرت سے بیان کی ہیں کہ ان کاشمار کرنا مشکل ہے کہ ان کا اقتدارِ وقت کے ساتھ گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ محراب و منبر اور تاج وتخت کے درمیان ملی بھگت ہوا کرتی ہے، ارباب ِشریعت اربابِاقتدارکے گن گاتے ہیں اور وہ جواباً اُنہیں مراعات فراہم کرتے ہیں ۔ پیشوایانِ مذہب، عامة الناس کو کرسی نشینوں کی اطاعت و اِنقیاد پر آمادہ کرتے ہیں اور اہل اقتدار کے ساتھ 'ساجھا پن' کے مزے لوٹتے ہیں ۔ گدی نشینوں اور کرسی نشینوں کے درمیان 'شریفانہ معاہدہ' کے باعث علما حضرات لوگوں کو یہ سبق دیتے ہیں کہ ''راجہ، ایشور کا اوتار ہوتا ہے اور بادشاہ، خدائی حقوق کا حامل ہوتا ہے، لہٰذا اس کی اطاعت تم پر فرض ہے۔'' اس کے بدلہ میں راجہ اور بادشاہ مالی وظائف کا انتظام کرتے ہیں اور یوں مذہبی پیشوائیت اور اربابِ اقتدار کے درمیان راہ و رسم ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔

'مفکر قرآن' کی بیان کردہ ان صفات کی روشنی میں اگر بے لاگ عدل و انصاف سے کام لے کر تحقیق کی جائے توایک طرف تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مولانا مودودی اور ان کی جماعت پاکستان میں ہر حکومت کے مخالف رہے ہیں ۔ بلکہ بقول پرویز صاحب، اربابِ حکومت کو گالیاں دیتے رہے ہیں اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی طشت اَز بام ہوجاتی ہے کہ چوہدری غلام احمد پرویز کے ہر حکومت کے سربراہ کے ساتھ اچھے اور خوشگوار تعلقات ہمیشہ قائم رہے ہیں ، ہر حکمران کے وہ مقرب رہے ہیں اور ہر ذی اقتدار ہستی کے ساتھ ان کی اچھی علیک سلیک رہی ہے اور یہ بات اس اعتبار سے بھی قرین قیاس ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں سے جو بھی تخت ِاقتدار پر متمکن ہوا ہے، وہ مغربی افکار و نظریات ہی کا دودھ پی پی کر مغرب ہی کی بے حیا معاشرت کی گود میں پل کر آیا ہے اور اسے تقویٰ و پرہیزگاری کی اسلامی پابندی ہمیشہ گراں گزری ہے اس لئے ایسی پابندیوں کو 'ملا کی عائد کردہ پابندیاں ' قرار دے کر اُنہیں ختم کردینے کی 'دانشورانہ' کاوشیں برسر اقتدار طبقہ کوبڑی بھلی لگتی رہی ہیں ، کیونکہ وہ سب کچھ جو مغرب میں حلال اور جائز ہے اور 'ملاّ کے اسلام' میں حرام اور ممنوع ہے، وہ اگر 'مفکر قرآن' کی بارگاہ سے جائز اور حلال قرا رپائیں اور قرآن کی سند بھی ہاتھ میں رہے تو اس سے بڑھ کر اسلام کو چھوڑ کر مسلمان بنے رہنے کا اچھا نسخہ کون سا ہوسکتا ہے۔ اس لئے حکمرانوں کے ساتھ 'مفکر قرآن'کی راہ و رسم کا ہونا عین قرین قیاس ہے، لیکن 'مفکر قرآن' کے حکمرانوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا ہونا محض قیاس و گمان ہی کا تقاضا نہیں ہے بلکہ طلوعِ اسلام کے مشمولات بھی اسے امر واقعہ قرار دیتے ہیں :
''پرویز صاحب کے قائداعظم سے لے کر ان تمام حضرات سے جو وقتاً فوقتاً صاحب ِاقتدار رہے، اچھے مراسم تھے، لیکن اُنہوں نے ان میں سے کسی سے بھی کوئی مفاد حاصل نہیں کیا، نہ کوئی منصب مانگا، نہ کوئی اعزاز طلب کیا، نہ کوئی فیکٹری الاٹ کرائی، نہ جاگیر حاصل کی۔'' 2

فی الحال، اس بات کو نظر انداز کیجئے کہ اُنہوں نے اربابِ اقتدار سے کوئی مفاد حاصل کیا یا نہیں ۔ صرف یہ دیکھئے کہ وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ
''قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے جو راہنما برسراقتدار آتے رہے، ان میں سے قریب قریب ہر ایک کے ساتھ میری راہ و رسم تھی۔'' 3

صرف یہی نہیں بلکہ اربابِ اقتدار کو وہ اپنے سالانہ کنونشنوں میں مدعو کیا کرتے تھے، اور حکومتی وزرا کرسئ صدارت پر جلوہ افروز ہوکر شریک ِکنونشن ہوا کرتے تھے۔صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:
''طلوعِ اسلام کے کنونشن کے اجلاس، منعقدہ ۱۲ نومبر کی صدارت محترم المقام خواجہ شہاب الدین صاحب مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات نے فرمائی۔'' 4

ارباب ِ اقتدار سے استفادۂ پرویز
اب رہی یہ بات کہ 'مفکر قرآن' نے، اربابِ اقتدار سے اپنی 'قرآنی خدمات' کا کوئی اجر، کوئی معاوضہ اور کوئی مفاد حاصل نہیں کیا تو ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ بات مان لے کہ اُنہوں نے مادی طور پر(Materially)کوئی فائدہ نہ اُٹھایا ہو، لیکن اسے یہ بات ضرور ذہن نشین کرنی چاہئے کہ مفاد صرف وہی نہیں ہوتا، جو عہد، منصب، جاگیر یا فیکٹری ہی کی صورت میں حاصل کیا جائے۔ اس مفاد کی متنوع شکلیں ہیں جیسا کہ خود 'مفکر قرآن' فرمایا کرتے تھے:
''واضح رہے کہ دنیا میں مفاد صرف روپے کی شکل ہی میں نہیں ہوا کرتا۔ ذرا علم و فضل کی مسندوں ، زہدو تقویٰ کے آستانوں اور رہبرانِ ملت کی بارگاہوں پر ایک سرسری نظر ڈالو، اور دیکھو کہ کس قدر متنوع شکلیں ہیں جن میں اپنی بے لوث خدمات کامعاوضہ طلب کیا جاتا ہے۔ نذرانہ نہیں تو مخدومیت اور اطاعت اور اطاعت بھی اکثر پرستش کی حد تک، کبر نفس کے تقاضوں کی تکمیل، أنا الموجود ولاغیري کے بلند آہنگ دعاوی، تنقید کی حد سے ماورائیت اور کم ا زکم نام کی جھوٹی شہرت اور ان تمام داعیات واقتضائات کے باوجود بلا مدد ومعاوضہ خدمت کا دعویٰ۔ کتنا بڑا فریب ہے جواپنے آپ کو اور دوسروں کو دیا جاتا ہے۔'' 5

اگر کوئی شخص صحافی کے مقام سے آگے بڑھ کر 'مفکر قرآن' کا روپ بھی دھار چکا ہو، تو جھوٹے الزامات کے ذریعہ اپنے مخالفین کو رسوا و بدنام کرنا، اَربابِ اقتدار سے اپنے ذاتی تعلقات کو اپنے حریفوں کے خلاف استعمال کرنا، ملکی سیاست میں پس پردہ رہ کر اپنی پسندیدہ تبدیلیاں لانا، اپنی صحافت کے آرگن کو ان گوشوں تک وسیع کرنا جن تک رسائی اَربابِ اقتدار سے راہ و رسم پیدا کئے بغیر ممکن ہی نہیں ، دوسروں کے کارناموں کو اپنی ذات سے منسوب کرکے نام کی (جھوٹی) شہرت پانا، صرف اپنی ہی آواز کو صداے حق قرار دے کر یہ اعلان کرنا کہ ''آؤ لوگو! یہی سے نورِ خدا پاؤ گے۔'' یہ سب کچھ کیا ہیں ؟ ارباب اقتدار سے تعلقات کی 'برکات' اور 'خالص قرآن' کی'خدماتِ جلیلہ' کابدلہ و صلہ ہی تو ہیں ۔

ملکی سیاست میں کردارِ پرویز
آئیے، اب یہ دیکھیں کہ 'مفکر قرآن' صاحب ملکی سیاست میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں اگرچہ زبان سے وہ سیاست سے غیر متعلق یا غیر سیاسی شخصیت ہونے کے دعوے دار تھے اور یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہماری جماعت :
''بزمِ طلوع اسلام، نہ کوئی مذہبی فرقہ ہے، نہ سیاسی پارٹی'' 6

''میرا تعلق نہ کسی مذہبی فرقہ سے ہے، اور نہ کسی سیاسی پارٹی سے۔'' 7

لیکن عملاً وہ جماعتی حیثیت سے نہیں بلکہ جماعتی لیبل سے ہٹ کر الیکشن میں ارکانِ بزم طلوعِ اسلام کو حصہ لینے کی ترغیب دیا کرتے تھے،اور جہاں کہیں ان کے مسلک انکارِ حدیث پر پردہ پڑا رہا، اور سادہ لوح مسلمانوں کے ہاتھوں ووٹ لے کر جیت گئے،وہاں اُنہیں بصد فرحت و ناز ہدیۂ تبریک پیش کیا گیا:
''اکثر مقامات سے یہ مسرت بخش اطلاعات موصول ہونی شروع ہوگئی ہیں کہ بزموں کے بعض ارکان یاطلوعِ اسلام کی قرآنی فکر سے دلچسپی لینے والے حضرات بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ ہم ان تمام احباب کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔'' 8

بزمِ طلوع اسلام کے پلیٹ فارم سے جماعتی حیثیت میں حصہ لینے کی صورت میں پرویز صاحب کو بھی اور وابستگانِ طلوع اسلام کو بھی یقین کامل تھا کہ مسلک ِانکار حدیث کے علمبردار ہونے کے باعث وہ اس معاشرے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے جو قرآن و سنت کی حجیت کا قائل ہے، لیکن دل ودماغ میں واقع اس اصل وجہ پرپردہ ڈالتے ہوئے وہ الیکشن میں بطورِ جماعت حصہ نہ لینے کی علت یہ بیان کیا کرتے تھے کہ چونکہ پاکستان میں رائج سیاست، میکیاولی سیاست ہے، اس لئے وابستگانِ طلوعِ اسلام جیسے 'بلند اخلاق اور پاکباز لوگ' عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ ... ''آپ عملی سیاست میں حصہ نہیں لیتے، اس کی کیا وجہ ہے؟''...طلوع اسلام یہ کہتا ہے :
''اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دور میکیاولی سیاست کا ہے اور کوئی شخص قرآنی حدود میں رہتے ہوئے اس سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس میں کامیاب ہونے کے لئے جماعت اسلامی جیسی پالیسی اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے، وہ پالیسی یہ ہے: زندگی کی بعض ضروریات کے لئے جھوٹ بولنا واجب ہوجاتا ہےہم سے یہ کچھ نہیں ہوسکتا۔'' 9

طلوعِ اسلام کی اس سخن سازی پر اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ ؎


اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھا، ذرا بند قبا دیکھ!



رہا ان 'مطہر اور مقدس' ہستیوں کی قرآنی حدود کی پاسداری تو اس کی قلعی اس مقالہ میں بھی جگہ جگہ کھلتی نظر آتی ہے اور میری اس کتاب میں بھی جو''جناب غلام احمد پرویز صاحب اپنے الفاظ کے آئینے میں '' کے نام سے چھپ چکی ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وابستگانِ 'طلوعِ اسلام' ، میکیاولی سیاست کے اس دور میں ''قرآنی حدود میں رہتے ہوئے کامیاب نہیں ہوسکتے'' تو کیا پھر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات میں کامیاب ہونے والوں نے ''جماعت ِاسلامی کی پالیسی اختیار کرکے'' کامیابی حاصل کی تھی؟

 


اُلجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا

 


1954ء کی مقننہ کے خاتمہ میں کردار ِ پرویز
خواجہ ناظم الدین ایک شریف النفس سیاست دان تھے اور چاہتے تھے کہ ملک کواسلامی خطوط پر چلایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس مزاج کا آدمی طلوع اسلام ( یا پرویز صاحب) کو طبعاً گوارا نہیں جس میں ایسی اسلامیت کی ذرا سی رمق بھی پائی جائے جو کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دلیل ٹھہراتا ہو، پھر اس پر مستزاد یہ کہ اس کی وزارت میں مقننہ جو آئین بنا رہی تھی وہ بہرحال قرآن و سنت پرمبنی تھا۔ ایسے آئین سے بڑھ کر 'غلط اور خطرناک آئین' پرویز صاحب کی نگاہ میں اور کیا ہوسکتا تھا اور جو قانون ساز اسمبلی، ایسا آئین بنا رہی تھی اس کا وجود 'مفکر ِقرآن' کے لئے کیونکر قابل برداشت ہوسکتا تھا۔ اس لئے اُنہوں نے اس وقت کے ہمہ مقتدر گورنر جنرل ملک غلام محمد کو مشورہ دیا کہ مقننہ میں قرآن و سنت کی بنیاد پر آئین سازی کا اب تک جو کام ہوچکا ہے، اسے کالعدم قرار دیا جائے اور صرف قرآن ہی کی بنیاد پر از سر نو دستور سازی شروع کی جائے۔

''کرنے کاکام یہ ہے کہ جو کچھ اس وقت تک اس جذبے کے ماتحت ہوا ہے، اس پر خط ِتنسیخ کھینچ دیا جائے۔ ملک سے ایسے اربابِ فکر و نظر کو اکٹھا کرلیا جائے جو یہ بتا سکیں کہ دورِ حاضرہ کے تقاضوں کوپورا کرنے کے لئے قرآن کون کون سے اُصول دیتا ہے اور ان اُصولوں کی روشنی میں فکرِ انسانی کے مطابق اپنا آئین مرتب کرلیا جائے۔'' 10
چنانچہ اس مشورہ کے بعد کیا ہوا؟
''ملک غلام محمد (مرحوم) نے پوری جرأتِ رندانہ سے کام لیا اور اکتوبر ۱۹۵۴ء میں مجلس دستور ساز کو برخاست کردیا اور اس طرح مملکت کو تباہی سے بچالیا۔'' 11

ظاہر ہے کہ اگر 'قرآن و سنت' پر مبنی دستور بن جاتا تو مملکت ِپاکستان 'تباہی سے نہیں بچ سکتی تھی۔' ایک اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی، اور دوسرے اندھے نے اس 'سوجھ بوجھ' پر عمل پیرا ہوتے ہوئے 'مملکت ِپاکستان کو تباہی سے بچالیا۔'

پرویز صاحب کا معیار یہ تھا کہ ہر وہ حکمران جو علماے کرام کی ہم نوائی میں قرآن و سنت کا قائل ہو، ان کی نگاہ میں ناپسندیدہ بلکہ سخت مبغوض تھا۔ اس کے برعکس واہیات اور پتنگ بازی جیسی لغویات میں گہری دلچسپی رکھنے والا حکمران پرویز صاحب کی آنکھوں کا تارا تھا، بشرطیکہ وہ علماے کرام کا مخالف ہو۔ ملک غلام احمد ایسی ہی صفات کا مالک تھا ،اس کا مقننہ کو توڑ ڈالنا چونکہ خواہشِ پرویز کے مطابق تھا اور ا س کی تقاریر بھی چونکہ 'طلوع اسلام' ہی کے خیالات کا چربہ ہوا کرتی تھیں (بلکہ شاید وہ پرویز صاحب ہی کی تحریر کردہ تھیں ) اس لئے وہ قابل تعریف اور سزاوار ستائش تھا:
''وہ دبنگ قسم کے آدمی تھے، اس لئے اُنہوں نے یہ مخالفت کھلے بندوں کی۔'' 12

دورِ ایوبی اور پرویز صاحب
رہا ایوبی دور تو اس میں بھی اربابِ اقتدار کے ساتھ بالعموم اور ایوب خاں کے ساتھ بالخصوص 'مفکر قرآن' صاحب کے گہرے تعلقات تھے۔ علماے کرام جب یہ کہتے کہ...''ہم قرآن و سنت کی بنیاد پر، طرزِ یثرب، پاکستان کی تعمیر کے خواہاں ہیں ، کیونکہ وہی ریاست ِنبویہؐ ہمارے لئے نمونہ اور مثالی حیثیت رکھتی ہے۔''... تو اس کے جواب میں ایوب خاں کہا کرتے تھے :
''ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک کو تیرہ چودہ سو سال پیچھے دھکیل دیا جائے۔'' 13

ایوب خان دراصل ایسے اسلام کے قائل تھے جو مغربی تہذیب و تمدن کے معیار پرپورا اُترتا ہو، لیکن وہ مغربی تہذیب کے معیار کا برملا نام لینے کی جگہ 'وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے'کی گردان کیا کرتے تھے اور ان کی یہ اَدا پرویز صاحب اور طلوع اسلام کو بھا جاتی تھی، کیونکہ اصلاً یہ ان ہی کی اپنی ادا ہے۔

مالی اعانت ِ پرویز از ایوب خاں
ایوب خاں طلوع اسلام کے لٹریچر سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اور پرویز صاحب کی مالی اعانت بھی کیا کرتے تھے۔ اس مالی معاونت کا اعتراف دبے لفظوں میں طلوع اسلام میں بھی موجود ہے، خود پرویز صاحب فرماتے ہیں :
''صدر ایوب (مرحوم) سے میرے خاص روابط تھے، لیکن میں نے ان سے بھی کبھی کچھ نہیں مانگا تھا (جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے) وہ میرے لٹریچر میں بڑی دلچسپی لیتے تھے (ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ اُنہیں میری کوئی کتاب خاص طور پر پسند آئی تو اُنہوں نے کہا ''میں چاہتا ہوں کہ اس کی اشاعت وسیع تر ہو، اس کے لئے میں اپنی طرف سے بطورِ اعانت کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں ۔'' اس سے زیادہ میں نے ان سے بھی، نہ کچھ لیا، نہ مانگا) اس میں البتہ ایک استثناء ہوئی۔'' 14
صاحب ِ اقتدار اور ایوان اقتدار سے یہ تعلق بجائے خود ایک 'عظیم مفاد' ہے۔

'طلوعِ اسلام' کا مطالعہ فوج میں لازم کیا گیا
ایک اور 'مفاد' کوبھی ملاحظہ فرمائیے۔ اس مفاد کا ثبوت ظاہر ہے کہ پرویز صاحب کی زندگی میں تو ممکن نہ تھا کہ طلوع اسلام میں شائع ہوجاتا، لہٰذا جب تک وہ زندہ رہے، حصولِ مفاد کا یہ ثبوت منظر عام پر نہ آسکا۔ لیکن مرگِ پرویز کے بعد، وابستگانِ طلوعِ اسلام ، پرویز صاحب کی روایتی احتیاط کو ملحوظ نہ رکھ سکے اور میجر جنرل ... کے قلم سے یہ ثبوت مجلہ کے دامن میں بایں الفاظ ثبت ہوگیا:
''یہ شاید 1961ء کا ذکر ہے۔ پرویز صاحب میرے ہاں پنڈی آئے، اُنہیں فیلڈ مارشل ایوب خاں نے ملاقات کے لئے بلایا تھا۔ ایوب خاں کے کان میں بھی اس نئی سوچ کی بھنک پڑی، اُنہیں پسند آئی اور پھر اُنہوں نے چاہا کہ یہ سوچ دور دور تک پہنچنی چاہئے، چنانچہ مجھے یاد ہے کہ فوج میں ایک باقاعدہ مراسلہ آیا جس میں طلوعِ اسلام کی فکر کو سمجھنے اور عام کردینے کی ترغیب دی گئی تھی۔'' 15

ایوب خاں کو جماعت ِاسلامی کے خلاف مشورۂ پرویز
'مفکر ِقرآن' جناب غلام احمد پرویز صاحب کو مولانا مودودی اور جماعت ِاسلامی کے خلاف جو کینہ و کدورت، بغض و حسد، عداوت و عناد اور حقد و تعصب تھا، وہ ہر اُس شخص پر عیاں ہے جس نے سرسری طور پر بھی' طلوعِ اسلام' کی فائل پرنظر ڈالی ہو۔ وہ جماعت ِاسلامی اور اس کے بانی کی مخالفت میں اس قدر پرجوش اور سرگرمِ عمل تھے کہ پاکستان بننے کے بعد شاید ہی 'طلوعِ اسلام' کا کوئی ایسا پرچہ ہو جس میں جماعت اور مولانا مودودی کی بالواسطہ یا بلا واسطہ مخالفت نہ کی گئی ہو۔ وہ جماعت کو' میکیاولی سیاست کے علمبردار' اور' شریعت کے نقاب میں روباہ باز جماعت کہا کرتے تھے اور اسے مرزائیوں سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا کرتے تھے، عداوت و مخالفت جماعت کی آگ، ان کے سینہ کی بھٹی میں ہر وقت بھڑکتی رہتی تھی۔ ان کا دماغ جماعت کے خلاف آتش غضب و عداوت میں ہر وقت کھولتا رہتا تھا۔ اس جماعت کے متعلق اگر 'مفکر قرآن' صاحب ایوب خاں جیسے ہمہ مقتدر حکمران کو مشورہ دیں تو وہ یقینا کوئی خیرخواہانہ مشورہ نہیں ہوسکتا بلکہ بغض و عناد کے زہر میں بجھاہوا ہی کوئی مشورہ ہوسکتا ہے اور یہ بات بہرحال ثابت ہے کہ جماعت اسلامی کے متعلق پرویز صاحب نے صدر ایوب خاں کومشورہ دیا تھا ...
''قدرت اللہ شہاب جیسے لوگ جو ایوبی دور میں کلیدی حیثیت کے حامل تھے، بفضل خدا زندہ ہیں ، ان کے حافظے میں یہ تو محفوظ ہے کہ اس دور میں پرویز صاحب نے جماعت ِاسلامی کے متعلق کیامشورہ دیا تھا۔'' 16

پھر یہ بات بھی ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ ایوبی دور میں جماعت اسلامی اور اس کے امیر شدید ابتلا و آزمایش میں سے گزرے تھے۔ حتیٰ کہ جماعت ِاسلامی کو سرکاری طور پر کالعدم قرار دے دیا گیا تھا جسے بعد میں سپریم کورٹ نے بحال کردیا۔ ایوبی حکومت کو جس کی پشت پر پرویز صاحب کے 'مفکرانہ مشورے' اور 'دانشورانہ تجاویز' اور 'بصیرت افروز' تدابیر بھی موجود تھیں ، اس عدالتی جنگ میں شکست فاش ہوئی تھی۔ اسی ایوبی دور میں مولانا مودودی کو سزاے جیل بھی دی گئی تھی۔

کیا اب بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ پرویز صاحب نے اربابِ اقتدار سے اپنے روابط کے باعث کوئی مفاد نہیں اُٹھایا؟ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے ہر صاحب ِاقتدار سے تعلق رہے ہیں ۔ جاگیر و فیکٹری نہ لینے کے باوجود بھی وہ متنوع انداز میں اربابِ بست و کشاد سے متمتع ہوتے رہے ہیں ۔ جلب ِمنفعت کی صورت میں بھی اور اپنے مخالفین کے خلاف اپنے نفس حسد پرست کی تسکین کی صورت میں بھی۔

کرو خود اور الزام دوسروں پر لگاؤ!
لیکن اپنی خامی کو چھپانے کے لئے وہ اُلٹا الزام علماے کرام پر لگایا کرتے تھے کہ 'مذہبی پیشوائیت' اور 'اقتدار و ملوکیت' میں ہمیشہ گٹھ جوڑ رہا کرتا ہے اور پھر اس گٹھ جوڑ کی تان یہاں آکر ٹوٹا کرتی تھی کہ... ''پاکستان میں ملائیت کے منظم ادارے کے سرخیل سید ابوالاعلیٰ مودودی ہیں '' ...اب اگر واقعی یہ حقیقت ہے کہ 'ملائیت' اپنے دور کی ' ملوکیت و اقتدار' کی حامی ہوتی ہے، تو پھر مولانا مودودی اور جماعت ِاسلامی آخر کس قسم کی 'ملائیت' ہیں جو اربابِ حکومت اور اہل اقتدار کی حامی و ناصر ہونے کی بجائے ہر حکومت کے خلاف رہے ہیں ۔ حقائق کی روشنی میں 'ملائیت' کا مصداق پاکستان میں تحریک ِطلوعِ اسلام سے بڑھ کر اور کون سی تحریک ہوسکتی ہے جس کے سرخیل نے اربابِ حکومت کی بہتی گنگا سے ہمیشہ ہاتھ دھوئے ہیں ۔ ہر حکمران سے خوشگوار تعلقات استوار کئے رکھے ہیں ۔ ہر سربراہِ پاکستان سے راہ و رسم برقرار رکھی ہے۔ مخفی دروازوں سے اربابِ حکومت کے ساتھ 'شریفانہ معاہدے' کرتے رہے ہیں ۔ اربابِ اقتدار سے مالی اعانت وصول کرتے رہے ہیں ۔ اپنے صحافتی آرگن کو، ان گوشوں تک پہنچاتے رہے ہیں جن تک پہنچنا اہل اقتدار کی آشیرباد کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ اپنے فکری حریفوں کو نیچا دکھانے کے لئے اربابِ اقتدار کے ساتھ اپنے روابط کو استعمال کرتے رہے ہیں ۔ اپنے مخالفین کے خلاف 'مرکزانِ ملت' کے ذریعہ وہ کچھ کرتے رہے ہیں جو ان کے نفس حسد پرست کی تسکین کا ذریعہ بن سکے۔

لیکن یہ سب کچھ کرڈالنے کے بعد ذرا اس دیدہ دلیری کو بھی ملاحظہ فرمائیے۔جس کے ساتھ بڑی بلند آہنگی کے ساتھ یہ جھوٹ بھی بولا جاتا ہے کہ 'طلوع اسلام' اپنے خوے 'حق گوئی' کو قائم رکھنے کے لئے اقتدار کے ایوانوں سے دور رہا ہے :
''تشکیل پاکستان کے بعد بھی اُس نے اربابِ حل و عقد کو ہر دوراہے پر للکارا، اور اُنہیں قرآن کے تجویز کردہ صراط ِ مستقیم کی طرف دعوت دی۔ وہ ان کی بارگاہوں سے دور دور رہا تاکہ وہاں کی سحر انگیز فضائیں ، اس کے جذبۂ حق گوئی و بے باکی کو نرم خیز نہ بنا دیں حتیٰ کہ یہ ملک کی عملی سیاسیات سے بھی کنارہ کش رہا۔'' 17

'مفکر قرآن' کا کذب ِخالص
بعض اوقات'مفکر ِقرآن' صاحب انتہائی متانت و سنجیدگی سے ، از حد وقار و شائستگی، نہایت سلیقہ و قرینہ اور بکمال اعتماد و وثوق سے ایساجھوٹ بولا کرتے تھے کہ ناواقف آدمی تو فوراً ہی اسے سچ سمجھ لیتا۔ مگر حقیقت ِحال سے شناسا شخص وقف ِحیرت و استعجاب ہوجاتا اور یہ سوچنے لگ جاتا کہ کتاب اللہ کا یہ'مفسر' اور قرآنِ کریم کا یہ 'مفکر' کس قدر دیدہ دلیری اور دھڑلے سے جھوٹ بولتا ہے۔ اسے نہ آخرت میں اللہ کے ہاں اپنی جوابدہی کا احساس ہے اور نہ دنیا میں مخلوق ہی سے شرم و حیا کا پاس ہے۔ پھر وہ محض بولتا ہی نہیں کہ الفاظ کے پھاگ، ہوا میں تحلیل ہوجائیں اور اس جھوٹ کا نام و نشان ماسواے اس کے اپنے نامہ اعمال کے کہیں باقی نہ رہے، بلکہ اسے ضبط میں لاکر صفحۂ قرطاس پر محفوظ بھی کرڈالتا ہے۔ 'مفکر قرآن' صاحب کے ایسے اکاذیب و اباطیل یوں تو ہر عنوان اور ہر پہلو سے موجود ہیں ، لیکن یہاں موضوع کی مناسبت سے ان کا ایسا جھوٹ پیش کیا جارہا ہے جو قطعی بے اصل، بے بنیاد اور بے حقیقت ہے اور جس میں صداقت کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں پایا جاتا۔

'مذہبی پیشوائیت' کے ظالمانہ اور مستبدانہ اقتدار کی قباحت و شناعت کی نہایت گھناؤنی تصویر پیش کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
''جس زمانے میں ہماری مذہبی پیشوائیت ذی اقتدار تھی، مسئلہ تقدیر کے ضمن میں خونِ مسلم کی جس قدراَرزانی ہوئی اور باہم قتل و غارت گری اس فتنۂ ارتداد کو دبانے کے لئے روا رکھی گئی، اس کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے۔'' 18

اب معلوم نہیں کہ 'مفکر قرآن' صاحب اگر زندہ ہوتے تو ان سوالات کا کیاجواب دیتے کہ مذہبی پیشوائیت کس دور میں 'ذی اقتدار' تھی؟ کس سرزمین میں 'ذی اقتدار' تھی؟ وہ کون سی تھیاکریٹک شخصیت تھی جو'ذی اقتدار' تھی؟ مذہبی پیشوائیت کے 'ذی اقتدار' ہونے کا سن وسال کیا تھا؟ اور اُس 'ملا' کا نام کیا تھا جو 'ذی اقتدار' تھا؟

حقیقت یہ ہے کہ خلافت ِراشدہ سے لے کر دورِ حاضر تک کبھی کوئی عالم دین ، کوئی مفسر قرآن، کوئی محدثِ ذی شان اور کوئی فقیہ عالی مقام، کسی مقام پر کبھی بھی'ذی اقتدار' نہیں رہا۔ یہ صرف' مفکر قرآن' کا اپنا خود ساختہ جھوٹ ہے جس کی کوئی تائید، مسلمان کی تاریخ کی کسی گری پڑی کتاب سے بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔ ہم اس کذب ِ خالص کانرا جھوٹ ہونا، طلوعِ اسلام ہی کے اوراق سے پیش کئے دیتے ہیں تاکہ اس دروغ بے فروغ پر ایمان لانے والے اس تحریر کے آئینے میں 'مفکر قرآن' کا سراپا ملاحظہ فرما سکیں :
''چودہ صدیوں میں کبھی بھی مسلمانوں نے مولویوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں دی۔ اس لئے کہ وہ حکومت چلانے کی ضروری تربیت سے محروم تھے۔'' 19

اس سے اندازہ لگائیے کہ یہ 'مفکر ِقرآن' جھوٹ بولنے میں کس قدر جری اور جارح واقع ہوئے ہیں ۔ نازیوں کے گوئبلز بھلا ہمارے اس 'قرآنی گوئبلز' کا کیا مقابلہ کرسکتے ہیں ؟

مذہبی پیشوائیت ہے کیا؟
اب اس کے بعد یہ بھی دیکھ لیجئے کہ مذہبی پیشوائیت کی تعریف (Definition)بیان کرنے میں وہ کس طرح دور کی کوڑی لاتے رہے ہیں ۔ چونکہ یہ اصطلاح ان کی اپنی خود ساختہ تھی، اس لئے اس کی تعریف بھی ان ہی کے نہاں خانۂ دماغ کی پیداوار تھی۔ چونکہ ان کے دماغ میں ہر آن خیالات و گمانات کی نئی لہریں اُٹھتی رہتی تھیں ، ا س لئے یہ تعریفات بھی ہر جدید لہر کے ساتھ بدل جایا کرتی تھیں ۔

پھر یہ تعریفات کسی بے لاگ تجزیہ کے بعد علمی تحقیق پر مبنی نہیں ہوا کرتی تھیں ، بلکہ یہ کسی 'مُلاّ' یا اس کے حلیہ یا اس کے طرزِعمل کے رد عمل پر موقوف ہوا کرتی تھیں ۔ علماے کرام چونکہ اتباع سنت ِنبویؐ میں داڑھی رکھنے کے عادی ہیں ، اس لئے ایسے باریش علما کا کسی ایک جگہ اس طرح مجلس منعقد کرنا کہ اس میں کوئی بے ریش فرد نہ ہو،'مفکر قرآن' کے نزدیک 'پریسٹ ہڈ' قرار پاتا تھا۔ چنانچہ اسلامی دستور کے خاکہ کی تیاری میں اکتیس علما کا جو اجتماع کراچی میں منعقد ہوا تھا، اس کے 'پریسٹ ہڈ' ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس میں کوئی ایک فرد بھی بے ریش نہ تھا، سب کے سب داڑھی والے تھے :

''خود ان اکتیس علما کی فہرست کو اُٹھا کر دیکھئے جنہوں نے کراچی میں اسلامی دستور کا خاکہ مرتب کیا تھا، اور جو آج کل دستور سے متعلق تنقیدی بحث کے لئے پھر کراچی میں جمع ہوئے ہیں ۔ کئی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کسی دینی درس گاہ کی باضابطہ سند نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجود وہ دین میں Authorityکا درجہ رکھتے ہیں ۔ اس کے برعکس اس فہرست میں کسی ایک داڑھی منڈے کا بھی نام نہیں ہے 'پریسٹ ہڈ' ۔'' 20

ایک اور مقام پر ملائیت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
''ملائیت کے معنی یہ ہیں کہ دین کے احکام کے لئے، نظامِ اسلامی کے مرکز کی طرف رجوع کرنے کی بجائے، افراد کی طرف رجوع کیا جائے اور یہ حق نمائندگانِ ملت کو نہ دیا جائے، بلکہ دوسرے افراد کو دیا جائے کہ وہ ملت کے لئے شریعت کا قانون مرتب کریں ، یہ ہے پیشوائیت یا ملائیت ۔'' 21

اب ظاہر ہے کہ ملائیت کے بالمقابل 'قرآنیت' یہ ہے کہ
''احکام دین کے لئے قرآن سے استنباط و استخراج کیا جائے اور یہ کاوش بھی انفرادی نہیں بلکہ نمائندگانِ ملت کی اجتماعی کاوش ہوگی۔'' 22

تین قابل غور اُمور
یہاں تین باتیں قابل غور ہیں :
اولاً ... یہ کہ اسلامی زندگی کے احکام کا مصدر و مخرج، تنہا قرآن نہیں بلکہ قرآن وسنت دونوں ہیں ۔ عہد ِنبویؐ اور خلافت ِراشدہ میں جو اسلامی حکومت قائم تھی، ا س کا آئین و دستور بھی تنہا قرآن نہیں بلکہ قرآن کے ساتھ سنت ِرسولؐ بھی تھا جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباس سے واضح ہے۔ یاد رہے کہ یہ اقتباس ایک کٹر منکر حدیث اسلم جیراجپوری صاحب کا ہے جو 'مفکر قرآن' صاحب کے استاد تھے اور جس کتاب سے یہ اقتباس ماخوذ ہے، وہ طلوعِ اسلام ہی کے ایک ادارہ میزان پبلی کیشنز کی شائع شدہ ہے:
''خلافت ِراشدہ میں تشریع کی بنیاد قرآن اور سنت پر تھی۔ اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا جس کے بارے میں کوئی صریح حکم ان دونوں میں نہ ملتا تو امثال اور نظائر سے قیاس کرکے اس کا حکم نکالتے تھے۔ خلیفہ استنباطِ مسائل میں دیگر علما ومجتہدین سے کوئی خاص امتیاز نہیں رکھتا تھا بلکہ اکثر خود ان سے سوال کرتا یا اپنے اجتہاد میں مدد لیتا تھا۔ اگر کسی امر میں سب لوگ متفق ہوجاتے تو اس کا اتباع لازمی ہوجاتا۔ اسی کو اصطلاحِ فقہ میں اجماع کہتے ہیں اور اگر باہم اختلاف ہوتا تو خلیفہ ان میں سے کسی صورت کو ترجیح دے کر اس کے مطابق حکم دیتا تھا۔ الغرض خلیفہ کو کوئی تشریعی اختیار یا کوئی اس قسم کی دینی ریاست حاصل نہ تھی کہ وہ جو چاہے حکم دے دے، وہی مذہبی مسئلہ قرار پاجائے بلکہ وہ احکام دینی کو صرف نافذ کرنے کا مجاز تھا۔'' 23

لہٰذا پہلی بات تو یہی غلط ہے کہ خلافت راشدہ میں قوانین و احکام کا سرچشمہ صرف قرآن تھا اور سنت ِرسول ماخذ اسلا م نہ تھی۔

ثانیاً ... خلافت ِفاروقی میں عرب و ایران اور عراق و مصر پر پھیلی ہوئی وسیع و عریض مملکت میں لوگوں کے لئے یہ بات نہ تو عملاً ممکن ہی تھی اور نہ ضروری ہی تھی کہ اپنے ہر مسئلے کے حل کے لئے وہ 'مرکز ِملت'کی طرف رجوع کرتے اور وہاں سے 'نمائندگان ملت کے اجتماعی اجتہاد' پر مبنی فیصلہ پاکر واپس لوٹتے۔ لامحالہ صورت حال یہی تھی کہ ہر جگہ کے لوگ اس عالم ہی کی طرف رجوع کرتے تھے جو علم و تقویٰ، فہم و فراست، درک و بصیرت اور اجتہاد و استنباط میں دوسروں پر فوقیت رکھتا تھا۔ ایسے صاحب ِعلم و فضیلت لوگوں کو حضرت عمرؓ مختلف اَمصار و دیار میں معلم بناکر بھیجا کرتے تھے تاکہ وہ عامة الناس کو قرآن و سنت کی تعلیم دیں ۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنی شہادت کے وقت اللہ کو اپنے جن اعمال پر شاہد بنایا تھا ان میں ایک تعلیمِ سنت ِرسولؐ کا عمل بھی تھا:
قال اللھم إني أشھدك علی أمراء الأمصار فإني إنما بعثتھم لیعلموا الناس دینھم وسنة نبیھم... 24
''(عمرؓ نے ) کہا ''خدایا! میں تجھ کو ملکوں کے حکام پر گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میں نے ان کو اس لئے بھیجا تھا کہ وہ لوگوں کو ان کا دین اور ان کے نبی کی سنت سکھائیں ...''

اگر کسی جگہ کا حکمران دینی بصیرت کے اعتبار سے یا سیرت کے لحاظ سے ان اصحابِ علم وتفقہ سے کمتر ہوتا، تب بھی عقل اسے باور کرنے سے گریز کرتی ہے کہ صاحب ِمعاملہ، فہم وفراست والے علما کو چھوڑ کر اُسی خام بصیرت حکمران ہی سے اپنے مسائل کا شرعی حل دریافت کرتا۔ محض اس لئے کہ حکمران ہی 'نمائندگانِ ملت کے اجتماع' پر مبنی شرعی حکم دینے کا مجاز تھا اور علما کا شرعی مسئلہ بتانا، اوّلاً انفرادی حیثیت سے ہوتا۔ ثانیاً 'قرآنیت' کے مخالف ہوتا، ثالثا ً 'ملائیت' کے مطابق ہوتا۔ مثلاً حضرت عثمان ؓ کے عہد ِحکومت میں کوفہ کا گورنر ولید بن عقبہ بن ابی معیط تھا جو علم و عمل کے اعتبار سے اسی مقام پر موجود حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ جیسے بلند پایہ صاحب ِعلم و فضل اصحابِ رسولؐ سے بہت فروتر تھا، ایسی صورت میں :
''وہاں اگر کسی کو کوئی اہم معاملہ پیش آتا ہوگا تو وہ اس معاملہ کے متعلق شریعت کا حکم پوچھنے کے لئے حضرت عبداللہ بن مسعود، سعد بن ابی وقاص یا ابوموسیٰ اشعری جیسے صحابۂ کبار کی طرف رجوع کرتا ہوگا یاولید بن عقبہ کی طرف؟ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لئے کوئی شخص ولید بن عقبہ کی طرف نہیں جاتا تھا بلکہ سب مسلمان ان عظیم المرتبہ حضرت صحابہ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔'' 25

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں جلیل القدر صحابہؓ جنہوں نے براہِ راست قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا، قرآن کا اتنا فہم بھی نہیں رکھتے تھے جتنا ہمارے 'مفکر قرآن' صاحب کو حاصل ہے، اور وہ ہر آنے والے کو اس کے ہر معاملے کا حکم شریعت'انفرادی طور پر' بتاتے رہے، حالانکہ نہ وہ 'مرکز ملت' تھے، اور نہ ہی 'نمائندگانِ اُمت' تھے اور کبھی کسی پوچھنے والے کو یہ نہیں کہا کہ ''... بھائی! 'قرآنی حکومت' میں ، میں انفرادی اجتہاد کے ذریعہ تمہیں حکم شریعت نہیں بتا سکتا۔ تمہیں میرے پاس آنے کی بجائے ، خلیفۂ ثالث کے پاس جانا چاہئے جو 'مرکز ملت' کی حیثیت سے آج کا 'اللہ اور رسول' ہے، کیونکہ وہی 'نمائندگان ملت کے اجتماعی اجتہاد' کے ذریعہ تمہیں حکم شریعت بتانے کا مجاز ہے'' ... اور اس پر مستزاد استعجاب بالائے استعجاب یہ امر ہے کہ لوگ بھی ان 'ملاؤں ' کی 'مذہبی پیشوائیت' کو قبول کئے ہوئے تھے اور کسی بھی 'مفکر قرآن' نے اُس دور میں ان رفیع المرتبت صحابہ کرام کو یہ نہیں بتایا کہ
'' مذہبی پیشوائیت کا تصور ہی قرآن و سنت کے خلاف ہے۔'' 26

اب ایک طرف تو یہ کچھ کہا جاتا ہے اور دوسری طرف بڑے دھڑلے سے خلافت ِراشدہ کی خوبی ہی یہ بتائی جاتی ہے کہ
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت ِراشدہ کے زمانہ میں مذہبی پیشوائیت کا نام تک نہیں ملتا۔'' 27

اس اقتباس میں مذہبی پیشوائیت کے وجود کی نفی عہد ِرسالت مآب اور خلافت ِراشدہ دونوں کے اَدوار میں کی گئی، لیکن 'مفکر قرآن' نے ایک اور جگہ عہد نبوی میں غیر متعدی 'مذہبی پیشوائیت' کے وجود کا یہ کہہ کر انکشاف کیا ہے کہ
''اس وقت جو کچھ اسلام کے نام سے پیش کیا جاتا ہے ، اسے قرآن کے ترازو میں تول کر دیکھ لیا جائے۔ جو کچھ اس پر پورا اُترے، اسے صحیح سمجھ کر اختیار کرلیا جائے اور جو کچھ غلط ثابت ہو اسے مسترد کردیا جائے۔ لیکن مذہبی پیشوائیت نہ نزولِ قرآن کے زمانہ میں اس کے لئے آمادہ ہوئی تھی نہ اب آمادہ ہوگی۔'' 28

رہا خلافت ِراشدہ کا دور تو دین ودنیا میں تفریق و ثنویت کا دروازہ (جس کے نتیجہ میں 'ملائیت' اور 'ملوکیت' پیدا ہوئی) کھلا ہی دورِ عثمانی میں تھا جس کا حوالہ مع اقتباس آگے آرہا ہے۔

ثالثا ً ... یہ کہ ہمارے 'مفکر قرآن' کا اپنا طرزِعمل بھی 'خلاف ِقرآن' تھا اور ملائیت کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ وہ خود نہ تو پاکستان میں ملت ِاسلامیہ کے 'مرکز ِملت' تھے اور نہ ہی یکے از 'نمائندگانِ ملت' تھے۔ وہ اس کے باوجود اپنے 'انفرادی اجتہاد' ہی سے لوگوں کو ان کے پیش آمدہ مسائل کا شرعی حکم بتایا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لئے اُنہوں نے طلوع اسلام میں 'باب المراسلات' کا ایک مستقل عنوان قائم کررکھا تھا تاکہ ان کے مسائل و مشکلات کا شرعی حل (اپنے انفرادی اجتہاد) سے دے سکیں ۔ اُنہوں نے کبھی کسی سائل اور مستفسر کو یہ نہیں کہا کہ میاں ! میں نہ تو'مرکز ِملت' ہی ہوں اور نہ ہی ملت ِاسلامیہ کا 'نمائندہ' ہوں ۔ لہٰذا میں اپنے 'انفرادی قیاس و اجتہاد' کی بنا پر تمہارے مسائل کا شرعی حل پیش کرنے کا مجاز نہیں ہوں ۔ اگر میں ایسا کروں تو یہ 'ملائیت' ہوگی، 'قرآنیت' نہیں ہوگی۔ لہٰذا ہم سب کے لئے شرعی طرزِ عمل صرف یہی ہے کہ 'مرکز ملت' کو وجود میں لانے کی جان توڑ جدوجہد کریں اور جب تک یہ نہیں ہوتا، اس وقت تک تمہارے مسائل کے شرعی حل بھی اور خود قرآنِ کریم بھی معطل رہیں گے۔

کیاستم ظریفی ہے کہ اگر 'مفکر قرآن' صاحب نکاح و طلاق، وراثت و وصیت، نماز وروزہ، حج و زکوٰة، قربانی و اضاحی، معیشت و معاشرت، سیاست و عمرانیات، مزارعت ومخابرت، حدود و تعزیرات اور عدلیہ و انتظامیہ وغیرہ کے متعلق اُمور پر قلم کشی کرتے جائیں تو ان سب کا مجموعہ 'قرآنی فیصلے' قرار پاتے ہیں ۔ لیکن اگر فقہاے کرام قرآن و سنت کی بنیاد پر تدبر و تفکر فرمائیں اور اپنے نتائجِ فکر کو قلم بند کریں تو یہ 'مذہبی پیشوائیت'کا 'عجمی اسلام' قرار پائے۔

خلاصۂ بحث
الغرض حقائق کی روشنی میں اگر بے لاگ تحقیق کی جائے تو 'ملائیت' کا ادارہ طلوع اسلام کا ادارہ ہے، نہ کہ دیگر دینی جماعتیں ۔ اس لئے کہ اقتدارِ وقت کے ساتھ 'ملی بھگت' اور راہ و رسم کا رویہ اوّل الذکر ہی نے اپنائے رکھا ہے نہ کہ مؤخر الذکر نے۔ اور اس لئے بھی کہ اگر 'مفکر قرآن' کے نزدیک 'ملائیت' اس چیز کا نام ہے کہ ... دین کے احکام جاننے کے لئے نظامِ اسلامی کے مرکز کی طرف رجوع کرنے کی بجائے افراد کی طرف رجوع کیاجائے اور یہ حق نمائندگانِ ملت کو نہ دیا جائے بلکہ دوسرے افراد کو دیا جائے کہ ملت کے لئے شریعت کا قانون مرتب کریں ، تب بھی 'مفکر قرآن' خود ایسا کرنے کی بنا پر 'ملائیت' کے مصداق قرار پاتے ہیں ۔ لیکن ''کرو خود، مگر الزام دوسروں پر لگاؤ'' کی پالیسی کے تحت'ملائیت'، 'مذہبی پیشوائیت' 'پریسٹ ہڈ' اور 'تھیا کریسی' کی اصطلاحات کی آڑ میں وہ نشانہ علماے کرام، محدثین عظام اور مفسرین و مجتہدین کو بناتے رہے ہیں ۔ میرے نزدیک اس کی تین وجوہ ہیں :
اولاً... یہ کہ قرآن و سنت پر اساس پذیر جس دین کے علماے کرام علمبردار ہیں وہ دین چونکہ 'مفکر قرآن' صاحب کے اس مذہب سے کلی منافات رکھتا ہے جس کے معاشی نظام کو اشتراکیت سے اور معاشرتی طور طریقوں کو تہذیب ِمغرب سے قرآنِ کریم کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا گیاہے۔ اس لئے قرآن و سنت پر مبنی اسلام کی مخالفت کے لئے 'ملا' اور 'ملائیت' کی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں تاکہ اسلامی شعائر اور دینی ثقافت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کے لئے ان اصطلاحی الفاظ سے پردے کاکام لیا جائے اور کھلے عام دین اور اسلام کا نام لے کر اسے مطعون کرنے کی بجائے 'ملائیت' کی آڑ میں اسے نشانہ بنایا جاسکے۔

ثانیاً... یہ کہ 'مصلحت' اور 'حسن تدبیر' کا بھی یہی تقاضا تھا کہ براہِ راست اسلام اور اس کے مبادیات و مبانی اور اس کے ثقافتی علامات و آثار کو نشانہ نہ بنایا جائے تاکہ مسلمان، مشتعل نہ ہونے پائیں ۔ اس لئے اسلام سے تنفر اور گریز پیدا کرنے کے لئے حکمت ِعملی یہ اپنائی گئی کہ اس کی ایک ایک چیز کومطعون تو کیا جائے، لیکن اسلام کے نام پر نہیں بلکہ 'ملائیت' کے نام پر ایسا کیا جائے۔

ثالثا ً... یہ کہ چونکہ قرآن و سنت پر مبنی اسلام کے علمبردار علماے کرام ہیں ۔ اس لئے عامة الناس کو ان سے برگشتہ کرنے کے لئے جس اصطلاح کو کارگر سمجھا گیا، وہ 'ملا' کی اصطلاح تھی۔ اس لفظ میں سارے جہاں کی نفرتوں کو سمیٹ کر اسے ہر اس عالم دین پر چسپاں کردیا گیا جو پرویزی نظریات کا مخالف اور قرآن و سنت کا شیدائی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ 'ملا' قرآن سے جاہل ، کتاب اللہ کا منکر، فہم و فراست سے عاری، عقل ودانش کا دشمن اور تقاضاے وقت سے نابلد ہے اور کبھی دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے، اس لفظ کو کسی گندی اور گھناؤنی صفت کا موصوف بنا کر مرکب ِتوصیفی کی صورت میں پیش کیا گیا۔ مثلاً کوڑھ مغز ملا وغیرہ۔ پھر اس لفظ (ملا) کی کمان سے جو تیر اندازی کی جاتی ہے، اس کا نشانہ اور ہدف صرف دورِ حاضر کے علماے کرام ہی نہیں بنتے ہیں بلکہ سلف و خلف کے جملہ اکابرین تک اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ خلیفۂ ثالث حضرت عثمان بن عفانؓ بھی اس تیرافگنی کا شکار ہوجاتے ہیں ، کیونکہ دین و دنیا کی تفریق اور ثنویت کے نتیجہ میں 'ملائیت' کی جو عمارت آج منکرینِ حدیث کو دکھائی دے رہی ہے اس کی پہلی اینٹ اُنہوں نے ہی رکھی تھی۔ کب؟ جب (بقول پرویز صاحب) صحابہ کرام ؓ کو اُنہوں نے مدینہ سے باہر جانے کی کھلی چھٹی دے دی تھی اور وہ مختلف شہروں میں گھومتے پھرتے تھے :
''اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روز مرہ کے معاملات کے متعلق لوگ صحابہ ؓ کی بیان کردہ روایات کو معمولی بہانا بنانے لگ گئے اور نمائندگانِ حکومت کے فیصلوں کا دائرہ سمٹتے سمٹتے انہی اُمور تک محدود ہوکر رہ گیا جن کا تعلق سلطنت کے انتظامی اُمور سے تھا۔ اس سے نہ صرف اجتماعیت کی جگہ انفرادیت ہی آگئی، بلکہ اس سے دین و دنیا کی ثنویت کی پہلی اینٹ بھی رکھی گئی جس نے آگے چل کر وہ تباہی پیدا کی جس سے مسلمان اس وقت تک نہیں پنپ سکا۔'' 29

حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ کے فردِ اعمال میں ہمارے 'مفکر قرآن' صاحب یہ جرمِ بے گناہی صرف اس لئے ڈال رہے ہیں کہ اپنا 'اُلو' سیدھا کرسکیں اور ایسا کرنے کے لئے اُنہیں کبھی بھی مسخ حقائق ، تقلیب ِاُمور یا تنکیسِ واقعات میں دریغ نہیں ہوا۔ خلافت ِراشدہ کے بعد دین و دنیا میں جس ثنویت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، وہ کسی مفسر قرآن ، محدثِ ذی اکرام، فقیہ ِذی شان یا عالم دین کی پیدا کردہ نہیں تھی بلکہ اس دور کے 'مرکز انِ ملت' کی ایجاد تھی۔ لیکن پھربھی علماے کرام پورے اسلام کوبلا کم و کاست پیش کرتے رہے ہیں اور اُمت مسلمہ میں مرورِ ایام کے ساتھ جو مسائل بھی پیدا ہوئے وہ اُنہیں مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ قرآن و سنت کی بنیاد پر حل کرتے رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ زمانہ نے کروٹ بدلی اور امت میں روحِ اجتہاد اور جذبۂ جہاد سرد پڑتا چلا گیا۔ شاید یہ صدیوں کی حکومت کے بعد تھک کر سو جانے کا نتیجہ تھا اور جب یہ غفلت کے ماتے، نیند سے بیدار ہوئے تو مسیحی یورپ سیف و قلم کے ساتھ عالم اسلام پر دھاوا بول رہا تھا اور مسلمانوں کی بستیاں پے درپے کفار کے قبضہ میں جارہی تھیں ۔ مغرب کی غالب اور مستولی اقوام اپنے مقبوضات میں اپنی تہذیب و معاشرت اور اپنا فکرو فلسفہ رائج کرنے کے لئے نظامِ تعلیم کے ساتھ ساتھ پورا نظامِ حیات لے کر آئے تھے جس کے نتیجہ میں مفتوح اقوام کے خیالات اور طبائع میں عظیم الشان انقلاب واقع ہوا۔ جدید تعلیم اور جدید تہذیب نے اسلام اور اس کے اُصول و قوانین میں قرآن اور اس کی تعلیمات، سنت ِرسول ؐاور اس کی ہدایات میں شکوک و شبہات پیداکردیئے جو قلب و روح میں بے چینی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ ایمان وعمل میں بھی اضمحلال کا باعث بن گئے۔

اس صورتِ حال میں ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقہ نے جو عقلیت کا بڑا دعویدار ہے، ایک ایسی روش اختیار کی جو سراسر عقل کے خلاف ہے۔ اس روش پر چلتے ہوئے، اس میں ایسے متناقض اُصول جمع ہوگئے ہیں جن کے مجموعہ کو عقلیت سے موسوم کرنا عقلیت کو بے عقلیت کا ہم معنی بنا دینا ہے۔ عقلیت کا اوّلین اور بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں بھی کوئی رائے بلاتحقیق قائم نہ کی جائے اور تحقیق کا معنی یہ ہے کہ انسان دوسروں کی جیب میں اپنے ایمان ڈال کر ان کی اندھی تقلید کرنے کی بجائے خود اپنی سعی و کاوش سے حقیقت کا سراغ لگائے اور جس مسئلہ کی حقیقت وہ معلوم کرنا چاہتا ہے اس کی بابت زیادہ سے زیادہ صحیح اور معتبر ذرائع سے معلومات فراہم کرکے ان سے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ پھر ایک صاحب عقل و دانش محقق کی شان یہ ہے کہ نہ وہ وہم و گمان اور شک و شبہ پر اپنی رائے کی بنیاد رکھتا ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کی عبارات میں اپنے ہی خیالات کو پڑھنے کا خوگر بنتا ہے اور نہ ہی وہ یہ بددیانتی کرتا ہے کہ اپنے مخالفین کومطعون کرنے کی خاطر ان کے قوی دلائل سے صرفِ نظر کرکے کمزور باتوں کو زورِ آزمائی کے لئے تلاش کرتاہے، اور نہ ہی وہ چند سنی سنائی باتوں اور چند کتابوں کے سرسری مطالعہ سے سطحی معلومات حاصل کرکے ان پر اعتماد کرتے ہوئے رائے قائم کرتاہے۔

لیکن ہمارے دور کے علمبرداران عقلیت اور عقل و دانش کی بنیاد پر قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کے دعویدار ان تمام رذائل و معائب میں مبتلا ہیں ۔ یہ لوگ عقلیت کے نام پر بلا تحقیق، سرسری اور سطحی معلومات پر اپنی رائے قائم کرکے، اُنہیں بلا تکلف شائع کرڈالتے ہیں تاکہ اپنے شکوک و شبہات کو دوسروں تک متعدی کردیں اس مقصد کے لئے خیانت و بددیانتی، دجل و فریب اور کذب و افترا کے حربے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔

ہمارے تعلیم یافتہ طبقے میں سے پرویزی گروہ کا اصل مرض یہ ہے کہ وہ 'تعلیم بلا معلّم'، 'کتاب بدونِ پیغمبر' اور 'قرآن بغیر محمدؐ ' کا نرالا مسلک ایجاد کرتے ہیں اور کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہمی تعلق کو کاٹ پھینکتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ہدایت و نجات کے لئے صرف کتاب اللہ ہی کافی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے براہِ راست لوگوں تک پہنچانے کی بجائے یہ فعل عبث کیا کہ اسے نبی کے واسطہ سے پہنچا دیا اور پھر دوسری غلطی (معاذ اللہ) خداے قدوس نے یہ کی کہ اقوال و افعال رسول پر مشتمل اُسوۂ رسولؐ کی پیروی کے 'اَغلال و اِصر'' میں لوگوں کو جکڑ دیا۔

اب چاہئے تو یہ تھا کہ یہ برخود غلط لوگ اپنی کوتاہی کو محسوس کرتے جو مغرب کی ذہنی غلامی کے باعث حقیقت دین سے بے بہرہ ہونے کے باعث پیدا ہوئی تھی، لیکن اُنہوں نے اپنی غلط روش پر برقرار رہتے ہوئے کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا بالفاظِ دیگر قرآن و سنت کے باہمی تعلق کو نظر انداز کردیا۔ علوم حدیث کا خود تحقیقی مطالعہ کرنے کی بجائے مستشرقین کی اندھی تقلید پر اعتماد کیا، احادیث کو پرکھنے اور اس سے اخذ ِمسائل کے طریقوں کو جاننے کی رتی بھر کوشش نہیں کی، کتب ِاحادیث کا مطالعہ اس ذہنیت کے ساتھ کیا جس کے ساتھ عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجی تحریکوں نے کبھی قرآن کا مطالعہ کیا تھا۔ فقہ کے مآخذ اور اس کے اُصولوں کو معلوم کرنے کے لئے معمولی اور قلیل وقت بھی صرف نہیں کیا، مگر حال یہ ہے کہ ناقص اور غیرمعتبر معلومات کی بنا پر یہ لوگ خود مجتہد ِمطلق بن کر ایک رائے قائم کرتے ہیں اور پھر بڑے فاضلانہ طمطراق کے ساتھ ایک ایسا مضمون تحریر فرماتے ہیں جس کی ابتدا مولوی پر سب و شتم اور انتہا اپنے اعلانِ اجتہاد و تفقہ پر ہوتی ہے۔

ان کے مضامین پڑھنے سے یہ حقیقت و اشگاف ہوجاتی ہے کہ جن اُمو رپر یہ لوگ بحث کرتے ہیں ، ان کی ابجد تک سے ناواقف ہیں ، لیکن اپنے جہل و بے علمی پر پردہ ڈالنے کے لئے حربہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ اپنے فکری مخالفین کے خلاف طعن و تشنیع کا ایسا شور مچا دیا جائے کہ عامة الناس کی نگاہیں ان کے علمی اِفلاس کی طرف متوجہ ہی نہ ہوپائیں ۔ اس امر کی بہترین مثال 'مفکرقرآن' جناب چوہدری غلام احمد پرویز کی ذات میں پائی جاتی ہے جو اگرچہ مستشرقین کی اندھی تقلید میں طعن برحدیث کے سلسلہ میں ان ہی کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو جب اپنے منہ سے اُگلتے ہیں تو اُنہیں 'دلائل' کا نام دیتے ہیں ، حالانکہ خود 'مفکر قرآن' صاحب فنِ حدیث کی ابجد تک سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ گولڈ زیہر اور شاخت وغیرہ نے تو ممکن ہے کہ اعتراض ڈھونڈنے کے لئے احادیث کا کچھ نہ کچھ مطالعہ کیا ہو، لیکن ہمارے 'مفکر قرآن' صاحب کو اس فن کے بارے میں اتنا بھی مطالعہ نہیں ہے کہ مبادیاتِ فن ہی سے شناسا ہوں ۔ علم حدیث کی بالکل ابتدائی اصطلاحات تک سے قطعی ناواقف اور مطلق بے خبر تھے اور یہ تک نہیں جانتے تھے کہ ضعیف حدیث کسے کہتے ہیں اور اپنی جہالت کی بنا پر وہ 'ضعیف حدیث' کا معنی 'غلط حدیث' سمجھتے تھے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے (بقولِ طلوع اسلام) یہ فرمایا تھا کہ
''ایک ضعیف حدیث، اگر کسی مضمون کے بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس کے ضعف ِسند کی بنا پر اس کا حکم بھی ضعیف ہوجاتا ہے، لیکن اگر متعدد ضعیف احادیث ایک مضمون کے بیان کرنے میں متفق ہوں تو چاہے ان میں سے ہر ایک فرداً فرداً بلحاظِ اسناد کتنی ہی ضعیف ہو، ان کا مشترک مضمون قوی ہوجاتا ہے۔'' 30

'مفکر ِقرآن' نے اگر واقعی علم حدیث کا (تحقیقی نہ سہی) سرسری مطالعہ ہی کیا ہوتا، تو اُنہیں معلوم ہوجاتا کہ ضعیف حدیث کامعنی 'غلط حدیث' نہیں ہے بلکہ وہ حدیث مراد ہے جس میں صحیح حدیث کی شرائط ِخمسہ میں سے بعض شرائط مفقود ہوں ۔ لفظ ضعیف کا سادہ مدلول ہی یہ واضح کردیتا ہے کہ اس کا مفہوم 'کمزور' ہونا ہے، نہ کہ 'غلط' ہونا۔ لیکن منکرین حدیث کا یہ 'علامہ و فہامہ مفکر قرآن' ضعیف حدیث کو غلط حدیث کا ہم معنی قرار دیتے ہوئے اپنے جاہل قارئین اور اندھے مقلدین کے سامنے مولانا مودودی کے بیان کردہ اُصولِ حدیث پر یوں تبصرہ اور نکتہ آرائی کرتا ہے :
''غور فرمایا آپ نے اس اُصول پر کہ غلط بات، اگر ایک جگہ لکھی ہوئی ملے تو وہ غلط ہوتی ہے، لیکن اگر وہ دس جگہ لکھی ہوئی ہو تو اسے صحیح سمجھنا چاہئے۔'' 31

اس 'علامہ دہر' کی فن حدیث کے بارے میں علمی بے بضاعتی کی یہی وہ حالت ہے جس کے باعث وہ احساسِ کمتری کا شکار تھے، اور جو اُنہیں اس امر پر مجبور کرتی رہی ہے کہ وہ اپنے علمی افلاس کی کسر کو پورا کرنے کے لئے اپنے مخالفین کے خلاف طعن و تشنیع اور استہزاء و تضحیک کی کثرت سے کام لیں ۔' طلوعِ اسلام' اور پرویز صاحب کی اس نفسیات کو جناب افتخار احمد بلخی مرحوم نے باٖیں الفاظ خود واضح کیا ہے :
''رہی تیسری خدمت یعنی ذوقِ دشنام طرازی کی تسکین اور اس کے مقتضیات سے عہدہ برآ ہونے اور اخلاقی بضاعت کے افلاس پر فریب و ریاء کے پردے ڈالے جانے کی خاطر جو گالیوں کو باضابطہ ایک 'فن شریف' بنا کر پیش کئے جانے کی صورت میں پوری سرگرمی کے ساتھ انجام دی جارہی ہے، وہ دراصل اس دور ترقی و تجدد کا ایک مرض ہے جس کے متواتر و پیہم دورے پڑتے رہتے ہیں ۔ اس مرض کو آپ 'مالی خولیا' کے نام سے یاد کرسکتے ہیں ۔ اس مرض کی علت وہ احساسِ کمتری ہے جو تحت الشعور میں جاگزیں ہے یا کتاب و سنت میں درک و بصیرت کے فقدان کا ایک رد عمل ہے جو اس شکل میں ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔'' 32

ذوقِ دشنام طرازی کو ایک فن بناکر طعن و تشنیع، طنز و استہزا اور تضحیک کی وہ تیسری خدمت ہے جو تقسیم کار کے اُصول سے اس ادارہ (طلوع اسلام) نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ چنانچہ کتاب کے ساتھ سنت کو بھی دینی حیثیت باور کرنے والے دین دار طبقہ اور اسلام اور شعائر اسلام کی توہین و تذلیل کی خاطر جو ایک اصطلاح 'ملا اور ملائیت' کی وضع کی گئی ہے، اس اصطلاح کی آڑ میں دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے، اس فن دشنام طرازی کی بے محابا نمائشیں کی جاتی ہیں :
''یہ تیسری خدمت اس لئے بھی پوری دلچسپی کے ساتھ ایک مہم کے انداز میں انجام دی جارہی ہے کہ اخلاقی بضاعت کے افلاس پر فریب و ریا کے پردے ڈالے جائیں ، اور احساسِ کمتری کے جو یہ حضرات شکار ہیں تو اس باب میں تسکینِ خاطر کے کچھ سامان فراہم ہوسکیں ۔

اس کے علاوہ علم و فن میں اپنی ناپختہ کاری کی پردہ پوشی بھی اس تیسری خدمت کے پس پردہ مطلوب ہے۔'' 33

اب رہا قرآن جسے پیغمبر قرآن سے منقطع کرکے ہتھیایا گیا ہے تو اس کی تشریع و توضیح اور تفسیر و تفصیل اس 'عقل عیار' کی روشنی میں کی گئی ہے جو مغربی علمیات کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی ہے، اور جسے 'مفکر قرآن' صاحب اپنی 'قرآنی بصیرت' کہا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے نام سے اُنہوں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے، وہ فرنگی معاشرت اور مارکسی اشتراکیت میں بغیر کسی قرآن کے پہلے سے ہی موجود ہے۔ ان دونوں مآخذ سے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑہ لے کر'مفکر ِقرآن' صاحب نے ، بھان متی کا وہ کنبہ جوڑا ہے جسے وہ 'قرآنی اسلام' کہا کرتے تھے۔ قرآن کے نام پر متفرق اجزاے کفر کو مشرف بالاسلام کرنا ان کی وہ 'عربی سازش ہے' ہے جسے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے کے لئے 'عجمی سازش' کے پراپیگنڈے کی دُھول اُڑائی جاتی ہے۔


 حوالہ جات

1. طلوع اسلام، ستمبر 1974ء ، صفحہ 47
2. طلوع اسلام، جنوری1974ء صفحہ 23
3. طلوع اسلام، فروری 1978ء صفحہ 56مارچ 1985ء صفحہ 60
4. طلوع اسلام، دسمبر 1967ء، صفحہ 14
5. جوئے نور ، صفحہ 89
6. طلوع اسلام، اکتوبر 1960ء صفحہ 79
7. طلوع اسلام، جولائی 1979ء ،صفحہ 39
8. طلوع اسلام، جنوری 1960ئ، صفحہ 15
9. طلوع اسلام، نومبر 1976ء، صفحہ 47
10. طلوع اسلام، مئی 1953ء، صفحہ 11
11. طلوع اسلام، دسمبر 1980ء، صفحہ 13
12. طلوع اسلام، دسمبر1980ء، صفحہ 10
13. طلوع اسلام، جون 1974ء، صفحہ 22
14. طلوع اسلام، جنوری 1984ء، صفحہ 47
15. طلوع اسلام، ستمبر 1985ء صفحہ 44
16. طلوع اسلام، ستمبر 1985ء صفحہ 54
17. طلوع اسلام، جنوری 1971ء، صفحہ 8
18. طلوع اسلام، نومبر 1981ء، صفحہ 47
19. طلوع اسلام، اگست 1981ء، صفحہ29

20. طلوع اسلام، فروری 1953ء، صفحہ 17
21. طلوع اسلام، اکتوبر 1953ء، صفحہ 36
22. خلاصۂ عبارت ماخوذ از طلوع اسلام، مئی 1952ء، صفحہ 59 اکتوبر 1953ء ،صفحہ 23
23. تاریخ الامت، ج2 ص257
24. ابن سعد، ج3، ق اوّل، صفحہ 243
25. طلوع اسلام، اکتوبر 1953ء، صفحہ 30
26. خلاصۂ عبارت، طلوع اسلام، اپریل 1959ء، صفحہ 12
27. طلوع اسلام، مارچ 1967ء، صفحہ 32
28. طلوع اسلام، اگست 1973ء، صفحہ 35
29. طلوع اسلام، اکتوبر 1953ء، صفحہ 30
30. ترجمان القرآن، جنوری 1960ء، صفحہ 24 بحوالہ طلوع اسلام، ستمبر 1960ء، صفحہ 70
31. طلوع اسلام، ستمبر 1960ء، صفحہ 70
32. فتنۂ انکار حدیث کا منظر و پس منظر، حصہ سوم، صفحہ 29
33. فتنۂ انکار حدیث کا منظر و پس منظر، حصہ سوم، صفحہ 440


 مذہبی پیشوائیت : مذہب پرویز کا ایک کھوٹا سکہ (قسط 1)

مذہبی پیشوائیت : مذہب پرویز کا ایک کھوٹا سکہ (قسط 2)

مذہبی پیشوائیت : مذہب پرویز کا ایک کھوٹا سکہ (قسط 3)