کیا قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت صحیح ہے؟

غامدی صاحب نے اُمت کے جن متفقہ، مُسلّمہ اور اجماعی اُمور کا انکار کیا ہے، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ قرآنِ مجید کی (سبعہ و عشرہ) قراء اتِ متواترہ کو نہیں مانتے۔ اُن کے نزدیک قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت صحیح ہے جو اُن کے بقول ' قراء تِ عامہ' ہے اور جسے علما نے غلطی سے ' قراء تِ حفص' کا نام دے رکھا ہے۔ اس ایک قراء ت کے سوا باقی سب قراء توں کو غامدی صاحب عجم کا فتنہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پوری قطعیت کے ساتھ یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ قرآن کا متن اس ایک قراء ت کے سوا کسی دوسری قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب ' میزان ' میں لکھتے ہیں کہ
''یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔ اس کے علاوہ اس کی جو قراء تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں، یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں، وہ سب اسی فتنۂ عجم کی باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ، افسوس ہے کہ محفوظ نہ رہ سکا۔ ''1

وہ مزید لکھتے ہیں کہ
'' قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر دنیا میں اُمت ِمسلمہ کی عظیم اکثریت اس وقت تلاوت کررہی ہے۔ یہ تلاوت جس قراء ت کے مطابق کی جاتی ہے، اس کے سوا کوئی دوسری قراء ت نہ قرآن ہے اور نہ اُسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ '' 2

پھر آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ
'' قرآن کا متن اس (ایک قراء ت) کے علاوہ کسی دوسری قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا۔ '' 3

مذکورہ اقتباسات کے مطابق غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ

  • قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے۔
  • باقی تمام قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں۔
  • اُمت ِمسلمہ کی عظیم اکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کر رہی ہے، صرف وہی قرآن ہے۔
  • قرآن کا متن ایک قراء ت (روایت ِحفص) کے سوا کسی دوسری قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا۔
  • اب ہم ان نکات پر بحث کرتے ہوئے غامدی صاحب کے موقف کا جائزہ لیں گے:
  •  

کیا قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے؟

غامدی صاحب کا کہناکہ قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے، صحیح نہیں ہے کیونکہ اُمت ِمسلمہ قرآنِ مجید کی سبعہ و عشرہ قراء ات کو مانتی ہے جس کے دلائل حسب ِذیل ہیں:
(1) یہ قراء تیں صحابہ و تابعین سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں اور رسم عثمانی کی حدود کے اندر ہیں اور اس کے مطابق ہیں اور یہ اجماعِ اُمت سے ثابت ہیں۔
(2) علوم القرآن کے موضوع پر لکھی جانے والی تمام اہم کتب میں یہ قراء ات بیان کی گئی ہیں جیسے امام بدر الدین زرکشی نے البرہان في علوم القرآن میں اور امام سیوطی رحمة اللہ علیہ نے الإتقان میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو درست مانا ہے۔
(3) تمام قدیم و جدید اہم تفاسیر میں ان قراء ات کو تسلیم کیا گیا ہے۔
(4) عالم اسلام کی تمام بڑی دینی جامعات مثلاً جامعہ ازہر اور جامعہ مدینہ منورہ وغیرہ کے نصاب میں یہ قراء ات شامل ہیں۔ (i)
(5) اُمت کے تمام مسلمہ مکاتب ِفکر کے دینی مدارس میں یہ قراء ات پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں۔
(6) عرب و عجم کے تمام معروف قراء حضرات کی مختلف 'قراء ات' میں تلاوتیں آڈیو اور ویڈیو کی صورت میں موجود ہیں۔
(7) عالم اسلام کے درجن بھر ممالک (جن میں مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا اور موریطانیہ وغیرہ شامل ہیں) میں روایتِ حفصکی بجائے روایت ِورش (امام ورش جو امام نافع بن عبدالرحمن کے شاگرد تھے) رائج ہے اور وہ اسی روایت ِورش کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے قرآن سمجھتے ہیں۔ کیا کروڑوں کی تعداد میں یہ مسلمان 'غیر قرآن ' کو قرآن سمجھ بیٹھے ہیں؟ کیا غیر قرآن کو قرآن سمجھ لینے کے بعد وہ مسلمان باقی رہے ہیں یا نعوذ باللہ کافرہوچکے ہیں؟ کیا اُمت ِ مسلمہ کے پاس قرآن محفوظ نہیں؟جبکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے :

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ ﴿٩...سورة الحجر
''بے شک ہم نے یہ ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ ''
(8) پھر جب خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لے رکھی ہے تو ایک ایسی چیز جو قرآن نہیں وہ اُمت ِمسلمہ میں بطورِ قرآن کیسے متعارف، مروّج اور متداول ہے؟ (ii)
جس طرح ہمارے ہاں روایت ِحفص کے مطابق مصاحف لکھے اور تلاوت کیے جاتے ہیں، اسی طرح شمالی افریقہ اور بعض دوسرے ممالک میں روایت ِورش وغیرہ کے مطابق مصاحف لکھے اور تلاوت کیے جاتے ہیں اور وہاں کی حکومتیں بھی سرکاری اہتمام میں روایت ِورش کے مطابق مصاحف شائع کرتی ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب کے مجمع الملک فہد (مدینہ منورہ) نے بھی لاکھوں کی تعداد میں روایت ِورش، روایت دُوری اور روایت ِقالون کے مطابق مصاحف متعلقہ مسلم ممالک کے لیے طبع کردیے ہیں۔
(9) اُمت ِمسلمہ کا قولی اور عملی تواتر ہی قراء اتِ متواترہ کے صحیح ہونے کا بین ثبوت ہے۔
(10) صحیح احادیث(iii) سے بھی ہمیں قرآنِ مجید کی ایک سے زیادہ قراء توں کا ثبوت مل جاتا ہے :
پہلی حدیث
''حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) میں نے حضرت ہشام بن حکیم بن حزام کو سورۂ فرقان اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے سنا جس سے میں پڑھتا تھا، حالاں کہ سورۂ فرقان مجھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی تھی۔ قریب تھا کہ میں غصے سے اُن پر جھپٹ پڑتا، مگر میں نے صبر کیا اور اُنھیں مہلت دی، یہاں تک کہ اُنہوں نے اپنی قراء ت مکمل کرلی۔ پھر میں نے اُن کی چادر پکڑی اور اُنہیں کھینچتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ان کو سورۂ فرقان اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے سنا ہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی تھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انھیں چھوڑ دو، پھر حضرت ہشام رحمة اللہ علیہ سے فرمایا کہ تم پڑھو! چنانچہ اُنھوں نے سورۂ فرقان اسی طرح پڑھی جس طرح میں نے اُن کو پہلے پڑھتے سنا تھا۔ ان کی قراء ت سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح اُتری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ تم پڑھو! چنانچہ میں نے (اپنے طریقے پر) پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح اُتری ہے۔ پھر مزید فرمایا کہ یہ قرآن سات حرفوں (سبعہ احرف) پر نازل ہوا ہے، لہٰذا جس طرح سہولت ہو، اس طرح پڑھو۔ '' 4

دوسری حدیث
'' حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے جبرائیل! مجھے ایسی اُمت کی طرف بھیجا گیا ہے جو اَن پڑھ ہے۔ پھر ان میں سے کوئی بوڑھا ہے، کوئی بہت بوڑھا، کوئی لڑکا ہے، کوئی لڑکی اور کوئی ایسا آدمی ہے جس نے کبھی کوئی تحریر (کتاب) نہیں پڑھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے جواب دیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! قرآن سات حرفوں (سبعہ احرف) پر اُترا ہے۔ '' 5

تیسری حدیث
'' حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرئیل نے پہلے مجھے قرآنِ مجید ایک حرف کے مطابق پڑھایا۔ پھر میں نے کئی بار اصرار کیا اور مطالبہ کیا کہ قرآنِ مجید کو دوسرے حروف (Versions) کے مطابق بھی پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ وہ مجھے یہ اجازت دیتے گئے یہاں تک کہ سات حرفوں (سبعہ احرف) تک پہنچے ۔

اس روایت کے راوی امام ابن شہاب زہری رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ وہ سات حروف جن کے مطابق قرآن پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، ایسے تھے کہ وہ تعداد میں سات ہونے کے باوجود گویا ایک ہی حرف تھے۔ ان کے مطابق پڑھنے سے حلال و حرام کا فرق واقع نہیں ہوتا ۔ '' 6

چوتھی حدیث
'' حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قرآن پڑھتے سنا جب کہ اس سے پہلے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے سنا تھا۔ میں اس آدمی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا اور آپ کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری بات ناگوار گزری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم دونوں ٹھیک طرح پڑھتے ہو۔ آپس میں اختلاف نہ کرو، کیونکہ تم سے پہلے جو قومیں ہلاک ہوئیں، وہ اختلاف ہی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ ''7
ان احادیث ِصحیحہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآنِ مجید کو مختلف لہجات کے مطابق پڑھنے کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی ہوئی ہے جو دراصل ایک ہی عربی زبان کے الفاظ کے مختلف تلفظات (Pronounciations) تھے جو دنیا کی ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔

کیا ایک کے سوا باقی تمام قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں؟
غامدی صاحب کے موقف کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی ایک قراء ت کے سوا باقی تمام قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں۔ غالباً یہ نکتہ (بلکہ اسے 'حربہ' کہنا زیادہ موزوں ہے) غامدی صاحب نے جناب پرویز صاحب سے سیکھا ہے جو تمام احادیث کو عمر بھر عجمی سازش کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔ اب انہی کے انداز میں غامدی صاحب نے بھی قرآن مجید کی ایک قراء ت کے سوا باقی سب قراء توں کو عجم کا فتنہ قرار دے ڈالا ہے۔

غامدی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس ' روایت ِحفص ' کو وہ ' قراء تِ عامہ ' کا جعلی نام دے کر صحیح مان رہے ہیں وہ دراصل امام عاصم بن ابی النجود رحمة اللہ علیہ کی قراء ت ہے جس کو امام ابو حفص نے اُن سے روایت کیا ہے اور خود امام عاصم بن ابی النجود عربی النسل نہیں بلکہ عجمی النسل تھے۔ چنانچہ امام بدر الدین زرکشی رحمة اللہ علیہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب البرہان في علوم القرآن میں پہلے سبعہ قراء (سات مشہور قراء حضرات) کے یہ نام لکھے ہیں:

  • عبداللہ بن عامر شامی (م 118ھ)
  • عبداللہ بن کثیر مکی(م 120ھ)
  • عاصم بن ابی نجود (م 128 ھ)
  • ابوعمرو بن علاء بصری (م 154ھ)
  • حمزہ بن حبیب الزیات (م 156ھ)
  • نافع بن عبدالرحمن (م 169ھ)
  • علی بن حمزہ کسائی اسدی (م 189ھ)

اور اس کے بعد یہ لکھا ہے کہ
ولیس في ھؤلاء السبعة من العرب إلاَّ ابن عامر و أبو عمرو
'' اور ان ساتوں میں سواے ابن عامر اور ابوعمرو کے کوئی بھی عربی النسل نہیں۔ '' 8

اب غامدی صاحب اگر عربی النسل قراء کی قراء توں کو 'عجم کا فتنہ' کہہ کر اُن کا انکار کرسکتے ہیں تو وہ ایک عجمی قاری کی قراء ت (امام عاصم رحمة اللہ علیہ کی قراء ت جس کی روایت امام حفص رحمة اللہ علیہ نے کی ہے اور جسے غامدی صاحب 'قراء تِ عامہ' کا نام دے کر صحیح مانتے ہیں) کو کس دلیل سے صحیح مانتے ہیں؟ اگر عربی قراء تیں محفوظ نہیں رہیں اور وہ عجم کے فتنے کا شکار ہوگئی ہیں تو ایک عجمی قراء ت عجم کے فتنے سے کیسے محفوظ رہ گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ متواتر قراء تیں عجم کا فتنہ نہیں ہیں بلکہ غامدی صاحب خود عجم کا فتنہ ہیں۔

اُمت ِمسلمہ کی عظیم اکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کررہی ہے، کیا صرف وہی قرآن ہے؟
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اُمت ِمسلمہ کی عظیم اکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کررہی ہے، صرف وہی قرآن ہے۔ عظیم اکثریت کی بنا پر قرآن کی ایک ہی قراء ت ہونے کا دعویٰ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ دنیاے اسلام میں چونکہ حنفی فقہ کے پیروکاروں کی اکثریت ہے، اس لیے صرف فقہ حنفی ہی صحیح فقہ ہے اور صرف یہی اسلامی فقہ ہے اور باقی تمام فقہیں فتنۂ عجم کے باقیات ہیں۔ ظاہر ہے ایسا دعویٰ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو یا تو احمق ہو، یا انتہائی درجے کا متعصب ہو یا پھر فتنہ پرور ہو۔

کیا قرآن کا متن ایک قراء ت کے سوا کسی اورقراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا؟
اب ہم غامدی صاحب کے موقف کے اس نکتے پر بحث کریں گے کہ کیا قرآن کا متن ایک قراء ت کے سوا کسی دوسری قراء ت کو قبول کرتا ہے یا نہیں؟

غامدی صاحب کا یہ موقف ہرگز صحیح نہیں ہے کہ قرآن کا متن ایک روایت ِحفص کے سوا کسی دوسری قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے متن میں تمام قراء اتِ متواترہ کی گنجائش موجود ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ موجودہ مصاحف کے قرآنی الفاظ رسم عثمانی کے مطابق لکھے گئے ہیں۔ اس رسم الخط کی خوبی اور کمال یہی ہے کہ اس میں تمام قراء اتِ متواترہ (سبعہ و عشرہ) کے پڑھنے کا امکان موجود ہے اور یہ ساری قراء ات حضرت عثمان کے اطرافِ عالم میںبھیجے ہوئے نسخوں کے رسم الخط میں سما جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر سورۂ فاتحہ کی آیت {مَـٰلِكِ يَوْمِ ٱلدِّينِ} کو لیجیے۔اسے رسم عثمانی میں (بغیر اعراب اور نقطوں کے) یوں لکھا گیا تھا: ملک یوم الدیں

اس آیت میں لفظ ملک کو مٰلِکِ اور مَلِکِ دونوں طرح سے پڑھا جاسکتا ہے اور یہ دونوں قراء تیں متواترہ ہیں۔ روایت ِحفص میں اسے مٰلِکِ (میم پر کھڑا زبر) اور روایت ِورش میں اسے مَلِکِ (میم پر زبر) کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ حجاز میں یہ دونوں الفاظ ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یعنی روزِ جزا کا مالک یا روزِ جزا کا بادشاہ۔ بادشاہ بھی اپنے علاقے کا مالک ہی ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید کے نظائر سے بھی ان دونوں مفاہیم کی تائید ملتی ہے۔ اس طرح قراء ات کا یہ اختلاف اور تنوع قرآنِ مجید کے رسم عثمانی سے ہی ثابت(iv) ہوتاہے۔

اب مذکورہ لفظ ملک کے رسم عثمانی پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ غامدی صاحب کی رائے کے برعکس اس قرآنی لفظ کا متن روایت ِورش (مَلِکِ) کو زیادہ قبول کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں روایت ِحفص کو کم قبول کرتا ہے۔ پہلی قراء ت (روایت ِورش) میں اسے بغیر تکلف کے ملك کو مَلِکِ پڑھا جاسکتا ہے۔ اور دوسری قراء ت (روایت ِحفص) میں اسے تھوڑے سے تکلف (کھڑا زبر) کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔

پہلی دلیل
اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ جب سورة الناس کی دوسری آیت میں آتا ہے تو رسم عثمانی کے مطابق اس طرح آتا ہے: {مَلِكِ ٱلنَّاسِ} اور سب اسے {مَلِكِ ٱلنَّاسِ} پڑھتے ہیں جو کہ متن کے بالکل قریب ایک صحیح قراء ت ہے اور اسے کوئی بھی مٰلِکِ (کھڑے زبر کے ساتھ) نہیں پڑھتا۔ لہٰذا سورة الفاتحہ میں بھی مٰلِکِ کو مَلِکِ پڑھنے کی پوری پوری گنجایش موجود ہے اور روایت ِ ورش کے مطابق یہ بالکل جائز اور درست ہے۔

دوسری دلیل
اس کی دوسری دلیل سورۂ ہود کی آیت نمبر ۴۱ کے لفظ مَجْرٖھَا میں ہے: {بِسْمِ ٱللَّهِ مَجْر‌ىٰهَا وَمُرْ‌سَىٰهَآ} جسے رسم عثمانی میں یوں لکھا گیا ہے: بسم اللہ محرھا و مرسھا

اس میں لفظ مجرھا کو قراء اتِ متواترہ میں تین طرح سے پڑھا جاتا ہے :
مجرھا اصل رسم عثمانی
مَجْرٰھَا ایک متواتر قراء ت کے مطابق
مُجْرِیْھَا دوسری متواتر قراء ت کے مطابق
مَجْرَ یْ ھَا تیسری متواتر قراء ت (روایت ِحفص) کے مطابق

اس سے معلوم ہوا کہ رسم عثمانی کے مطابق لکھا ہوا یہ لفظ محرھاجو کہ قرآن کا اصل متن ہے، وہ تینوں متواتر قراء توں کو قبول کرلیتا ہے اور اسے تینوں طریقوں سے پڑھنے کی گنجائش موجود ہے۔ بلکہ اہل علم جانتے ہیں کہ ان میں پہلی دو قراء تیں تیسری قراء ت (روایت ِحفص) کے مقابلے میں زیادہ متداول اور زیادہ فصیح عربی کے قریب ہیں۔ کیونکہ یہی لفظ جب مشہور جاہلی شاعر عمرو بن کلثوم کے معلّقے میں آتا ہے :
صبنت الکأس عنا أمّ عمرٍو
وکان الکأسُ مجراھا الیمینا
تو اس شعر کے لفظ مجراھا کو بھی عام طور پر مَجْرٰھَا پڑھا جاتا ہے۔ اسے روایت حفص کی طرح کوئی بھی مَجْرَ یْ ھَا نہیں پڑھتا۔

تیسری دلیل
غامدی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ خود روایت ِحفص (جسے وہ قراء تِ عامہ کا نامانوس نام دیتے ہیں) میں بھی قرآنِ مجید کے کئی الفاظ کی دو دو قراء تیں درست ہیں۔ گویا ایک ہی قراء ت (روایت ِحفص) میں بھی بعض قرآنی الفاظ کو دو دو طریقوں سے پڑھا جاسکتا(v) ہے اور پڑھا جاتا ہے۔ جیسے:
الف) سورة البقرة کی آیت نمبر 245 میں ہے :{وَٱللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ}
یہاں لفظ یَبْصُطُ کو دیگر قراء توں میں یَبْسُطُ بھی پڑھا جاتا ہے جس کے لیے ہمارے ہاں کے مصاحف میں حرف صاد کے اوپر چھوٹا 'س' ڈال دیا جاتا ہے۔

ب) سورة الروم کی آیت نمبر54 میں ہے: {ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۢ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ ۖ وَهُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْقَدِيرُ‌ ﴿٥٤} میں روایت ِحفص میں ہی ضُعْفٍ کے تینوں الفاظ کو ضَ کے زبر کے ساتھ ضَعْفٍ پڑھنا بھی جائز ہے، جیسا کہ اس کا تذکرہ ہر قرآن مجید کے حاشیہ پر موجودہوتا ہے۔

ج) سورة الطورکی آیت نمبر 37 میں ہے: {أَمْ عِندَهُمْ خَزَآئِنُ رَ‌بِّكَ أَمْ هُمُ ٱلْمُصَيْطِرُ‌ونَ ﴿٣٧}میں لفظ الْمُصَیْطِرُوْنَ کو الْمُسَیْطِرُوْنَ بھی پڑھا جاتا ہے۔ روایت حفص میں 'ص' اور 'س' دونوں طرح منقول ہے۔

اس وضاحت کے بعد کیا کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ قرآن کا متن ایک قراء ت کے سوا کسی اور قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا؟ ایسا دعویٰ صرف وہی آدمی کرسکتا ہے جو علم قرا ء ات سے نابلد اور رسم عثمانی سے بے خبر ہو اور جس نے کبھی آنکھیں کھول کر قرآن کے متن کو نہ پڑھا ہو۔

دراصل قراء اتِ متواترہ کا یہ اختلاف دنیا کی ہر زبان کی طرح تلفظ اور لہجے کا اختلاف ہے۔ ان سے قرآنِ مجید میں کوئی ایسا ردّ و بدل نہیں ہوجاتا جس سے اس کے معنی اور مفہوم تبدیل ہوجائیں یا حلال حرام ہوجائے بلکہ اس کے باوجود بھی قرآن قرآن ہی رہتا ہے اور اس کے نفس مضمون میں کسی قسم کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔

خود ہماری اُردو زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں:
1۔ '' پاکستان کے بارہ میں '' یا '' پاکستان کے بارے میں ''
2۔''ناپ تول'' یا ''ماپ تول''
3۔'' خسر'' یا ''سسر''

یہ ' بارہ ' اور ' بارے' دونوں درست ہیں۔ یہ تلفظ اور لہجے کا فرق ہے، مگر معنی کا فرق نہیں ہے۔ اسی طرح انگلش کا لفظ Schedule ہے۔ اس کے دو تلفظ ' شیڈول' اور ' سیکجوئل' ہیں اور دونوں درست ہیں، Cosntitutionکو کانسٹی ٹیوشن او رکانسٹی چوشن بھی پڑھتے ہیں اور یہ بھی محض تلفظ اور لہجے کا فرق ہے، کوئی معنوی فرق نہیں ہے۔ بالکل یہی حال قرآنِ مجید کی مختلف قراء اتِ متواترہ کا ہے۔


حوالہ جات
1. میزان:صفحہ 32، طبع دوم، اپریل 2002ء
2. میزان:صفحہ 25، 26، طبع دوم، اپریل 2002ء
3. میزان:ص 29،طبع دوم ، اپریل 2002ء
4. صحیح بخاری: رقم2419،صحیح مسلم:818
5. جامع ترمذی:2944
6. صحیح بخاری:3219، صحیح مسلم:819
7. صحیح بخاری:3476
8. البرہان : جلد اوّل، صفحہ329، طبع بیروت

 


 

i. ادارئہ محدث کے تعلیمی ادارے جامعہ لاہور الاسلامیہ میں درسِ نظامی کے 8 سالہ عرصہ میں ان قراء ات کی بھی مکمل اور اعلیٰ ترین تعلیم دی جاتی ہے۔1991ء میں جامعہ ہذا کے ذریعے دینی مدارس میں ایک روایت سازمنصوبے کی طرح ڈالی گئی جس کے بعد درجن بھر مدارس نہ صرف اسی نصابی روایت پر عمل پیرا ہوچکے ہیں بلکہ وفاق المدارس کی طرف سے اس نصاب کو منظور کرکے اس کے تحت امتحانات بھی دیے جاتے ہیں ۔
ii. سعودی حکومت کے شائع کردہ یہ مصاحف ادارئہ محدث کی لائبریری میں موجود ہیں جنہیں حرمین شریفین میں آمد کے موقع پر ان ممالک کے حجاج اور زائرین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
iii. سبعہ احرف کو ثابت کرنے والی تمام احادیث کی تخریج پر ایک مستقل تفصیلی مقالہ محدث میں شائع ہو چکا ہے جس میں ایسی احادیث کو متواتر ثابت کیا گیا ہے۔ دیکھئے 'محدث' بابت اگست 1993ء ص33 تا 64
iv. یہاں یاد رہنا چاہئے کہ قرآن کریم میں کسی بھی قراء ت کے مستند ہونے کے لئے یہ شرط بنیادی حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ قراء ات کی مشہور کتاب 'شاطبیہ 'کی شرح 'عنایاتِ رحمانی' کے مؤلف قاری فتح محمد لکھتے ہیں اوریہی بات امام القراء محی الاسلام عثمانی پانی پتی نے اپنی کتاب 'شرح سبعہ قراء ت' میں بھی لکھی ہے کہ جو قراء ت عربیت کے موافق ہو اگرچہ یہ موافقت بوجہ ٍ ہو، (2) مصاحف ِعثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو خواہ یہ مطابقت احتمالاً ہو، (3) متواتر ہو... وہ قراء تِ صحیحہ اور ان احرفِ سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا۔مسلمانوں کا اس کو قبول کرنا واجب ہے۔ (ج1ص103) اوراگر تینوں میں سے کسی شرط میں خلل آجائے تو وہ قراء ت شاذہ، ضعیف یا باطل ہوگی۔حافظ ابو عمرو عثمان دانی ، ابوالعباس احمد بن عمار مہدوی، ابو محمد مکی اور حافظ ابو شامہ وغیرہ متقدمین کا یہی موقف ہے۔(عنایاتِ رحمانی: ج1ص 16) مزید تفصیلات کیلئے المنجد المقرئین: ص 15، 16، 19،لطائف الاشارات 691، الا بانہ: ص 57تا 59، 62،100 ح م
v. روایت ِحفص میں یَبْصُطُ کو صرف س کے ساتھ ہی پڑھا جاسکتا ہے۔