مسلمان دوشیزاؤں ، خواتین اور ان کے والدین / سرپرستوں کے نام کھلا خط

اللہ کے بندے محمد بن ابراہیم __ اللہ اس پر رحم فرمائے __کی طرف سے، اپنے تمام مسلمان بھائیوں کے نام، جو اسے ملاحظہ فرمائیں ۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ایسے اعمال کی توفیق دے جو اُسے راضی کرنے والے ہوں ، اور ہمیں ایسے اعمال و اسباب سے محفوظ رکھے جو اُس کی نافرمانی اور ناراضگی کا سبب ہوسکتے ہوں ۔ اما بعد!


اس دور میں حالات بہت حد تک بدل چکے ہیں ۔ عورتوں کی بڑی تعداد نے حیا کی چادر اُتار پھینکی ہے۔ دینی احکام کی پاسداری کے سلسلے میں یہ بڑی بے پرواہ اور بے فکر ہوتی جا رہی ہیں ، اور روز بروز اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔اس بات سے شدید خوف آتا ہے کہ مسلمان قوم اپنی عریانی، بے پردگی، بے راہ روی اور آزاد روش کی بنا پر اللہ کی طرف سے کسی بدترین سزا اور سابقہ قوموں جیسے خوفناک انجام سے دوچارنہ ہوجائے۔

فی زمانہ مسلمان عورتوں نے بالعموم ایسے لباس پہننا شروع کردیئے ہیں جو ان کے جسم کے نشیب و فراز اور اَنگ انگ کوظاہر کرتے ہیں ۔ ان ملبوسات سے بازو، چھاتیاں ، کمر اور کولہے سب نمایاں ہوتے ہیں ۔ مسلمان خواتین میں جو کپڑے روز بروز مقبول ہوتے جارہے ہیں وہ اس قدر باریک اور مہین ہوتے ہیں کہ ان سے ان کے جسم کی رنگت تک جھلکتی ہے۔ بازو بہت مختصر اور تنگ اور نیچے سے پنڈلیاں تک ننگی ہوتی ہیں ۔ یقینا یہ چیزیں فرنگیوں کی تقلید اور ان کے ساتھ والہانہ وارفتگی کاخوفناک نتیجہ ہیں ۔موجودہ صورتحال انتہائی بے حیائی کی غماز ہے اور عام لوگ اس صورتِ حال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ مسلم مردوں اور ذمہ داران کا یہ طرزِعمل اللہ کی حدود میں مداہنت، اللہ کی نافرمانی میں دلچسپی اور اُخروی انجام سے بے پروا لوگوں کی اطاعت کا نتیجہ ہے۔ یہ خاموشی کسی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ اور کسی بڑے فساد کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ ایسی عادات کا غلط اور حرام ہونا واضح کیا جائے۔ اُنہیں ان کے غلط اقدامات سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی جائے ۔

اختصار کے ساتھ ذیل میں اس مسئلہ کے بعض اہم پہلو پیش کئے جاتے ہیں :
یہ (بے پردگی اور عریانی) فرنگیوں اور غیرمسلموں کی تقلید ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اور احادیث میں غیرمسلموں کی مشابہت سے منع کیا گیاہے۔ جن سے واضح ہوتا ہے کہ کفار کی پیروی اور تقلید سے روکنا صاحب ِشریعت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اپنی اہم تالیف اقتضاء الصراط المستقیم  في مخالفة أصحاب الجحیم میں ایسے تمام نقصانات کا تذکرہ کیا ہے جو عجمیوں اور کفار کی تقلید سے سامنے آتے ہیں ۔ شریعت ِمطہرہ نے کفار کے علاوہ عجمی، بدوی اور دیہاتی لوگوں کی مشابہت سے بھی منع کیا ہے اور اس ممانعت میں دورِ نبویؐ کے اعاجم و کفار کی طرح آج کے عجمی بھی شامل ہیں ، بلکہ اس میں مسلمان عجمی بھی شامل ہیں جن سے سابقین اوّلین محفوظ تھے اور ان لوگوں کے رسوم و رواج اور بہت سے معمولات اس 'جاہلیت ِاولیٰ' کے زُمرے میں آتے ہیں جن میں لوگ قبل از اسلام مبتلا تھے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اب تو عرب کی بھی ایک بڑی تعداد اپنی ان سابقہ جاہلیت والی عادات ورسوم کی طرف لوٹ رہی ہے۔

عورت سر تا پا قابل ستر ہے، اور ازروئے شریعت اس امر کی پابند ہے کہ اپنے آپ کو چھپائے، پردہ کرے اور کسی صورت بھی اپنے حسن و جمال، زیب و زینت، سنگھار اور مردوں کو فتنہ میں ڈالنے والے جسم کی نمائش نہ کرے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَ‌ٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ...﴿٥٩﴾...سورة الاحزاب
''اے نبی! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی چادریں اپنے اُوپر اوڑھے رکھا کریں ۔''

اور فرمایا:
وَلَا تَبَرَّ‌جْنَ تَبَرُّ‌جَ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰ...﴿٣٣﴾...سورہ الاحزاب
''اور سابقہ جاہلیت کی طرح اپنی زینت کا اظہار نہ کرتی پھریں ۔''

اس دور میں رواج پانے والا فرنگی لباس کفار کی مشابہت کے علاوہ عورت کے جسم کو کسی طرح بھی چھپانے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے فتنہ ہائے جسم کو از حد نمایاں کرتا ہے۔ اس لباس کی یہ خصوصیت خود عورت اور اسے تاکنے والوں کو دھوکے اور فتنے میں مبتلا کردیتی ہے۔ ایسا لباس پہننے والی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی مصداق ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(صنفان من أمتي من أھل النار لم أرھما بعد: نساء کاسیات عاریات مائلات ممیلات علی رؤوسھن کأسنمة البخت المائلة لا یدخلن الجنة ولا یجدن ریحھا ورجال معھم سیاط مثل أذناب البقر یضربون بھا الناس)1
''میری اُمت میں سے دو طرح کے لوگ دوزخی ہوں گے، میں نے ابھی تک انہیں دیکھا نہیں ہے : ایسی عورتیں جو کپڑے پہنے ہوں گی مگر (حقیقت میں ) بے لباس اور ننگی ہوں گی، (بے حیائی کی طرف) مائل اور دوسروں کومائل کرنے والی ہوں گی۔ ان کے بالوں کی وضع ایسی ہو گی جیسے کہ بختی اونٹنیوں کے ڈھلکے ہوئے کوہان ہوں ، یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی بلکہ اس کی خوشبو تک نہ پاسکیں گی اور مرد ہوں گے، ان کے ہاتھوں میں کوڑے ہوں گے جیسے کہ بیلوں کی دُمیں ہوتی ہیں ، وہ ان سے لوگوں کو مارتے پھرتے ہوں گے۔''

اس حدیث کی شرح میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان عورتوں کے لباس اس قدر باریک اور مہین ہوں گے کہ ان کے جسم کی رنگت دکھاتے ہوں گے یا اس قدر تنگ اور چست ہوں گے کہ ان کے جسم کا انگ انگ ظاہر ہوتا ہوگا۔

عورت کالباس ایساہونا چاہئے جو اس کے جسم کو پوری طرح چھپالے۔ کپڑا موٹا اور کھلا ہو جس سے اعضا کی جسامت نمایاں نہ ہو۔ مسلمان عورت کو اسلام کی ہدایت ہے کہ وہ اپنے آپ کو چھپائے اور پردہ کرے، کیونکہ وہ سراسر عَوْرَة ہے یعنی ستر اور چھپانے کی چیز۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے حکم ہے کہ اللہ کے حضور نماز پڑھتے ہوئے بھی اپناسر ڈھانپے، خواہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو، اور کوئی اجنبی اسے نہ بھی دیکھ رہا ہو، فرمانِ نبویؐ ہے :
لا یقبل اﷲ صلاة حائض إلا بخمار2
''اللہ تعالیٰ کسی جوان بالغ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں کرتا ۔''

اس فرمان کامفہوم اور تقاضا یہ ہے کہ شریعت نے جس تاکید سے عورت کوچھپنے کا حکم دیا ہے ، اس طرح مردوں کو یہ حکم نہیں دیا۔ اور یہ خالص اللہ کا حق ہے، خواہ اسے کوئی اجنبی نہ بھی دیکھ رہا ہو۔ عورة (چھپانے کی چیز اور شرمگاہ) کا چھپانا اللہ عزوجل کا حق ہے، خواہ بندہ نماز میں نہ بھی ہو، یا اندھیرے میں ہو یا اکیلا ہو تب بھی ستر عورة واجب ہے۔ اسے ایسا لباس پہننا چاہئے جو اسے کماحقہ چھپا دے، اور اس سے جلد کی رنگت ظاہر نہ ہوتی ہو۔ بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ
''میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! اپنی شرم گاہوں کو کس سے چھپائیں اور کس سے نہ چھپائیں ؟ فرمایا:

''احفظ عورتك إلا من زوجتك أو ما ملکت یمینك''
یعنی ''اپنے ستر (اور شرمگاہ) کی حفاظت کر (اور اسے چھپا) سواے اپنی بیوی یا لونڈی کے۔''

کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اگر لوگ اپنے ہی ہوں ، تو فرمایا:
''فإن استطعت أن لا یرینھا أحد فلا یرینھا''
''جہاں تک تیری طاقت ہو کہ اسے کوئی اور نہ دیکھ سکے، تو اسے کوئی اور نہ دیکھے''۔

میں نے کہا: اگر آدمی اکیلا ہو۔ تو فرمایا:

''اﷲ أحق أن یستحیٰی منه''
''اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔'' 3

بلکہ ایسا لباس بھی صریحاً منع ہے جو جسم کی نرمی ،سختی یا اس کا حجم واضح کرتا ہو۔ امام احمد رحمة اللہ علیہ نے سیدنا اسامہ بن زیدؓ کی ایک روایت نقل کی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک قبطی (مصری) کپڑا عنایت فرمایا جو معمولی موٹا تھا، یہ کپڑا آپؐ کو دحیہ کلبیؓ نے ہدیہ کیا تھا۔ میں نے وہ کپڑا اپنی بیوی کو پہننے کو دے دیا۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: ''کیا بات ہے کہ تو نے وہ قبطی کپڑا پہنا نہیں ؟'' میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ میں نے اپنی بیوی کو پہنا دیا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا: (مُرھا فلتجعل تحتھا غِلالة إني أخاف أن تصف حجم عظامھا)''اسے کہنا کہ اس کے نیچے (بنیان کی طرح کوئی) زیر جامہ بھی استعمال کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے اس کی ہڈیوں کاحجم جھلکے گا۔''4

فقہاے کرام نے لکھا ہے کہ عورت کے لئے اپناکمربند کس کر باندھنا بھی درست نہیں ہے، جیسے کہ زُنار ہوتی ہے۔ چاہے وہ عورت نماز کے اندر ہو یا عام حالت میں ، کیونکہ اس سے عورت کے اعضاے جسم اور کولہے وغیرہ بہت نمایاں ہوجاتے ہیں ۔

فقہا تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ عورت کو اُٹھتے بیٹھتے ہوئے اپنے کپڑے بھی زیادہ سمیٹنے نہیں چاہئیں کیوں کہ ا س سے اس کے جسم کے انگ نمایاں ہوجاتے ہیں ۔ شریعت اسلامیہ کی ان ہدایات کی روشنی میں آج ہم عورتوں کے اس لباس کا جائزہ لیں جو روز بروز مقبول ہوتا جارہا ہے، تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ لباس تو کمر بند باندھنے اورکپڑے سمیٹنے سے کہیں بڑھ کر ہے، لہٰذا اس کی ممانعت اور اس سے احتراز کرنے کی زیادہ تاکید ہونی چاہئے۔

عورتوں کے مقبولیت پانے والے موجودہ لباسوں میں ایک قباحت یہ ہے کہ وہ مردوں کے لباس سے مشابہت رکھتے ہیں جسیاختیار کرنا ایک کبیرہ گناہ ہے۔ حدیث میں ہے :
(لعن اﷲ المُتَشَبِّهَات من النساء بالرجال ولعن اﷲ المُتَشَبِّھِیْنَ من الرجال بالنساء) 5
''اللہ کی لعنت ہے، ایسی عورتوں پرجو مردوں کی مشابہت اختیار کریں ،اور اللہ کی لعنت ہے ایسے مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اپنائیں ۔''

دوسری روایت میں ہے :
(لعن اﷲ المُتَخَنِّثِیْنَ من الرجال والمترجلات من النساء)
'' اللہ کی لعنت ہے ایسے مردوں پر جو ہیجڑے بنتے ہیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اپنائیں ۔''6

جو عورت مردوں کی مشابہت اختیارکرتی ہے، وہ آہستہ آہستہ ان کی عادات بھی اپنانے لگتی ہے ،مثلاًکھلے عام باہر نکلنا، زینت کااظہار کرنا، مردوں کی مجلسوں میں بیٹھنا۔ ان عادات کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایسی عورت کا جسم بھی ظاہر اور نمایاں ہوگا۔ عورت میں عموماً دوسروں سے ممتاز ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے جیسا کہ یہ عادات مردوں میں بھی پائی جاتی ہیں ۔ اِن عادات کی بنا پر عورت کا ایسے اعمال میں پڑ جانے کا شدید احتمال ہوتا ہے جو حیا اور نسوانی صفات اور حدود کے بالکل خلاف ہوں ۔

بالکل اسی طرح جو مرد عورتوں کی مشابہت اور ان کی نقالی کرتے ہیں ، وہ ان کی سی عادات بھی اپنانے لگتے ہیں حتی کہ ہیجڑہ پن اور تلون مزاجی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے بلکہ بعض تو بالکل عورتوں کا سا چال چلن اختیار کرلیتے ہیں ۔ اللہ کی بے شمار رحمتیں اور سلامتی ہو اس ہستی پر جس نے اللہ کا دین ہمیں خوب واضح کرکے پہنچایا اور کامل طور پر اللہ کی امانت ادا فرما دی اور اُمت کی خیرخواہی میں قطعاً کوئی کمی نہیں چھوڑی۔

ان اسلام دشمن فرنگیوں کے نقش قدم پر چلنے کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ مردوں عورتوں کی اکثریت بے محابا اکٹھے باہر آتے جاتے اور دفتروں میں اکٹھے کام کرتے ہںم ۔ دکانوں اور بازاروں میں بھی اکٹھے کام کرتے ہیں ، عورتیں بلا محرم اور بلا جھجک دوسروں کے ساتھ سفر کرتی نظرآتی ہیں ۔ اور مردوں کا حال یہ ہے کہ عورتوں کی طرح بناؤ سنگار کرتے اور ان کی گفتگو سے نسوانیت جھلکتی ہے، مردوں کا عورتوں کے مشابہ عادات اختیار کرنا بالکل ناجائز ہے،مثلاً داڑھیاں منڈانا، سونے کی انگوٹھیاں ، سونے کی گھڑیاں ، کڑے اور چین وغیرہ استعمال کرنا، ملبوسات میں سونے کے بٹن استعمال کرنا وغیرہ اور عورتوں جیسی چال ڈھال اختیار کرنا۔ پھر یہ مرد ہوتے ہوئے عورتوں کی طرح اپنی چادریں شلواریں لٹکاتے ہیں اور دوسری طرف عورتوں کا حال یہ ہے کہ ان کا لباس مختصر ہوتے ہوئے گھٹنے یا اس سے اوپر تک آرہا ہے، جس سے ان کی رانیں بالکل نمایاں (بلکہ عریاں ) ہورہی ہوتی ہیں ۔ ہم ان کی اس بے حیائی اور اللہ کی حرمتوں کی پامالی پر اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ۔

عورتوں کے اس قسم کے لباس کو بے دین لوگ خواہ کتناہی زیب و زینت قرار دیں ، لیکن ان کا یہ خیال نرا باطل ہے، کیونکہ زینت حقیقت میں وہ ہے جس میں شرم وحیا موجود ہو، اور عورت اس میں باوقار نظر آئے۔ یقینا لباس اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جس کا اللہ نے احسان جتلایا ہے۔ فرمایا:
يَـٰبَنِىٓ ءَادَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَ‌ٰرِ‌ى سَوْءَ‌ٰتِكُمْ وَرِ‌يشًا ۖ...﴿٢٦﴾...سورة الاعراف
اے اولادِ آدم! ہم نے تم پر لباس اُتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا اور تمہارے لئے زینت ہے۔

اور یہ کوئی زینت نہیں کہ انسان بے لباس اور برہنہ ہوجائے اور بے دین فرنگیوں کی نقالی کرنے لگے۔

بالفرض اگر اسے زینت سمجھ بھی لیا جائے تو ہر عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ جو اس کے جی میں آئے، اسے زینت اور سنگار کے نام سے اپنا لے۔ زینت کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جو شریعت میں ممنوع بلکہ حرام ہیں اور ان کامرتکب لعنت کا مستحق قرار پاتاہے۔ جیسے واصلة اور مستوصلة (بال جوڑ کر لمبے کرنے اور کرانے والی مثلاً وِگوں کے ذریعے) نامصةاور مُتنمَّصة یعنی اپنے ابروؤں کو نوچ کر باریک بنانے اور بنوانے والی؛ واشرة اور مستوشرہ یعنی اپنے دانت باریک کرنے اور کروانے والی؛ واشمة اور مستوشمة جسم گودنے اور گدوانے والی، سب عورتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ
(لعن رسول اﷲ! الوَاشِمَات والمُسْتَوْشمات والمُتَنَمِّصَات والمُتَفَلِّجَات للحُسن المُغَیِّرَاتِ لِخَلق اﷲ)7
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے سنا ہے کہ آپ ایسی عورتوں پر لعنت کرتے ہیں ۔ تو اُنہوں نے کہا: میں اس پرکیوں لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہو، جبکہ وہ کام کتاب اللہ میں بھی ہو۔ وہ عورت کہنے لگی: میں نے ان دو گتوں کے درمیان سارا قرآن پڑھ ڈالا ہے، مجھے تو کہیں نہیں ملا جو آپ کہتے ہیں ۔ آپ ؓنے فرمایا: اگر تو نے توجہ سے پڑھا ہوتا تو ضرور پالیتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی:
وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا...﴿٧﴾...سورة الحشر
''جو کچھ تمہں رسول دے دیں وہ لے لو، اور جس سے منع کردیں اس سے رُک جاؤ۔'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسب اُمور سے منع فرمایا ہے۔8

عورتیں عقل ودانش اور دین کے لحاظ سے کمزور ہیں ، ایسے ہی دینی علم اور عمل میں بھی قدرے ضعیف ہیں ۔ چنانچہ ان میں فرنگیوں کی تقلید سے معاشرے میں جو شر اور فساد پھیل رہا ہے اس کی انتہا تو اللہ ہی بہتر جانتاہے۔ آج ملکوں ملکوں میں جو فتنہ فساد پنپ رہا ہے، اس میں عورتوں کی بے راہ روی کا عمل دخل واضح ہے۔ صحیحین میں اسامہ بن زید ؓ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ما ترکتُ بعدي علی أمتي فتنة أضرّ علی الرجال من النساء)9
''میں نے اپنے بعد اپنی اُمت میں مردوں کیلئے عورتوں سے بڑھ کر اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے۔''

واسی طرح حضرت ابوسعید خدریؓ کی مرفوع روایت ہے :
(إن الدنیا حلوة خضرة وإن اﷲ مستخلفکم فیھا فینظر کیف تعملون فاتقوا الدنیا واتقوا النساء فإن أول فتنة بني إسرائیل کانت في النساء)
''یہ دنیا انتہائی شیریں اور سرسبز و شاداب ہے اور اللہ نے تمہیں اس میں جانشین بنایا ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم لوگ کیسے عمل کرتے ہو۔ سو تم دنیا سے اور عورتوں سے متنبہ رہو، بلا شبہ سب سے پہلا فتنہ جو بنی اسرائیل میں ظاہر ہوا تھا، وہ عورتوں ہی میں تھا۔'' 10

واور حضرت ابوبکرؓ کی مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لن یُّفْلِحَ قوم وَلَّوْا أمرَھم امرأة)11
''وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پاسکتی جو اپنے معاملات عورتوں کے سپرد کردے۔''

واور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ
(ھلکت الرجال إذا أطاعت النساء) 12
''جب مر عورتوں کی اطاعت کرنے لگیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔''

واور ایک حدیث میں یوں ہے:
(وما رأیت من ناقصات عقل ودین أغلب للب الرجل منکن)
''میں نے تم عورتوں سے بڑھ کر کم عقل اور ناقصِ دین کسی کو نہیں دیکھا جو کسی اچھے بھلے دانا مرد کی عقل کھو دیتی ہیں ۔''13

وایک بار مشہور شاعر اعشی (عبداللہ بن اعور بازنی) نے اپنی ایک ملاقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کچھ اشعار سنائے، تو ان میں ایک مصرعہ یہ تھا:

وَھُنَّ شُرُّ غالبٍ لِمَنْ غَلَبَ
''اور یہ عورتیں جس پر غالب آجائیں تو بہت بُری ہوتی ہیں ۔''
تو آپ یہ مصرعہ بار بار دہرانے لگے۔14

الغرض ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ مردوں کو چاہئے کہ اپنی عورتوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں اور یہ جو عورتیں اسلامی حدود سے تجاوز کررہی ہیں ، ان کے ہاتھ پکڑیں ، اور اُنہیں کپڑوں کے نت نئے غیراسلامی فیشن اپنانے سے منع کریں ۔ اللہ کی حدود کے معاملے میں ان کے ساتھ ہرگز کوتاہی نہ کریں ۔ یاد رہے کہ یہ ذمہ داری مردوں پر شریعت اسلامیہ نے بھی واجب ٹھہرائی ہیں ۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا قُوٓا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارً‌ا وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَ‌ةُ عَلَيْهَا مَلَـٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ ٱللَّهَ مَآ أَمَرَ‌هُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُ‌ونَ ﴿٦...سورة التحریم
''ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچا لو، جس کا ایندھن لوگ ہوں گے اور پتھر۔ اور اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو بڑے تند خُو اور سخت ہیں ، اللہ جو انہیں حکم دے،اس کی وہ قطعاً نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں وہ حکم دے دے۔''

علماے اُمت نے صراحت سے لکھا ہے کہ عورت کے نگران اور سرپرست پر واجب ہے کہ اسے حرام اُمور کے ارتکاب سے بچائے، چاہے وہ لباس کاسلسلہ ہو یا کچھ اور۔ اگر وہ باز نہ آئے تو ولی اسے تادیبی سزا بھی دے سکتا ہے ، جیسا کہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے :
(کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیته)15
''تم میں سے ہر شخص مسئول اور ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس کی زیرتولیت (رعیت) کے متعلق پوچھا جائے گا۔''

الغرض معاشرتی تباہی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنا بہت ضروری ہے۔ اوّلاً تو حکام کو اس کا نوٹس لینا چاہیے،اور ساتھ ہی ان عورتوں کے والدین اور سرپرستوں کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہیے اور پھر بذاتِ خود عورت بھی اپنے گھر اور بہو بیٹیوں کیذمہ دار ہے، اس اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے کیونکہ اس سے روزِ قیامت ان اُمور کی پوچھ گچھ ہوگی اور اہل علم کو بھی چاہئیکہ لوگوں کو ان مسائل سے آگاہ کریں اور انہیں بُرے انجام سے ڈرائیں ۔ بالخصوص جو لوگ سعودی حکومت میں شعبہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے وابستہ ہیں ، ان کا تو فرضِ منصبی ہے کہ ان اُمور کی برائی واضح کریں ، اور ان کے خاتمہ کے لیے بھرپور محنت کریں ۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دُعاگو ہیں کہ وہ ہمیں ان ظاہر و پوشیدہ گمراہ کن فتنوں سے بچائے رکھے۔ اپنے دین کی نصرت فرمائے اور اس کا کلمہ سربلند ہو، دین کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کرے، بلا شبہ وہ بڑا ہی سخی اور مہربان ہے۔


حوالہ جات
1. مسند احمد:2؍355،صحیح مسلم:2128
2. جامع ترمذی:377
3. سنن ابوداؤد:4017
4. مسند احمد:5؍205
5. معجم کبیر از طبرانی:4150
6. مصنف ابن ابی شیبہ:6؍236
7. صحیح بخاری: 5931
8. صحیح بخاری: 4886
9. صحیح بخاری:5096،صحیح مسلم:2740
10. صحیح مسلم:2742
11. صحیح بخاری:4425
12. مسند احمد:5؍45
13. مستدرک حاکم:4؍645
14. معرفة الصحابة لأبي نعیم:3؍331
15. صحیح بخاری: 893

 


 سابق مفتی اعظم سعودی عرب... فضیلة الشیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ، ابوعبدالعزیز محمد بن ابراہیم بن عبداللطیف بن عبدالرحمن بن امام محمد بن عبدالوہاب رحمہم اللہ تعالیٰ۔ 17 محرم 1311ھ کو آنجناب کی شہر ریاض (سعودی عرب) میں ولادت ہوئی اور اپنے والد ِگرامی جناب ابراہیم عبداللطیف کی زیرنگرانی آپ نے تربیت پائی۔ 11سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا۔ 16 سال کے تھے کہ آپ کی بینائی جاتی رہی۔ مگر اس حادثے نے آپ کے عزم و ثبات کو کسی طرح متزلزل نہیں ہونے دیا بلکہ اپنے دور کے علما کے علمی دروس واسباق میں اہتمام سے حاضر ہوتے رہے۔ آپ نے اپنے والد ِگرامی کے علاوہ اپنے چچا علامۂ نجد شیخ عبداللہ بن عبداللطیف کے ہاں اپنے تعلیمی مراحل مکمل کئے، دریں اثنا مختلف علوم کے متون و مختصرات ازبر کر لئے۔ شیخ سعد بن عتیق کے ہاں سے فقہ اور مصطلح الحدیث کا درس لیا۔ شیخ حمد بن فارس سے لغت، نحو اور علومِ عربیہ کے اسباق پڑھے۔ بعد ازاں ، تدریس علوم شرعیہ، فتویٰ نویسی اور وعظ و تذکیر میں مشغول ہوگئے اور ساتھ ہی کچھ حکومتی ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برا ہوتے رہے۔ آپ سے بڑے بڑے علما نے کسب ِفیض کیا ہے جن میں فضیلة الشیخ عبداللہ بن حمید، شیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ سلیمان بن عبید وغیرہ کے نام نمایاں ہیں ۔ 20 رمضان 1389ھ کو بدھ کے روز آپ کی وفات ہوئی جبکہ آپ کی عمر 78 سال ہوچکی تھی۔ آپ نے اپنے علمی ترکہ میں فتاویٰ اور رسائل و مسائل کا ایک بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ جو بحمداللہ کئی جلدوں میں طبع ہوچکا ہے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ


i. اس کتاب کے کئی اُردو تراجم دستیاب ہیں ، مثلاً'اسلام اور غیر اسلامی تہذیب' ترجمہ : مولوی شمس تبریز خان،رفیق مجلس تحقیقات و نشریاتِ اسلام اور 'راہِ حق کے تقاضے' ناشر: مکتبہ سلفیہ لاہور، وغیرہ