پوری قوم کا ایک ہی مطالبہ:قیام عدل
'عدل و انصاف' کسی بھی مہذب معاشرے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، پاکستانی قوم بھی اس وقت عدل کے دوراہے پر کھڑی ہے، جس کے قیام کے لئے ملک کی دو بڑی تحریکیں سرگرمِ عمل ہیں۔ ہر دو تحریکوں کا پس منظر، نوعیت اور ہدف گو مختلف ہے لیکن دونوں کا اساسی نعرہ اور مطالبہ 'عدل کا قیام' ہے۔ 15؍ فروری کو سوات میں شرعی نظامِ عدل کے قیام کا معاہدہ ہو، یا 15؍ مارچ کی شب ملک میں آزاد عدلیہ کا قیام، یہ دونوں اپنی اپنی نوعیت کے اہم سنگ ہائے میل ہیں جن کے اثرات تادیر محسوس کئے جاتے رہیں گے۔
دونوں قسم ہائے عدل کے مطالبے تو ملتے جلتے ہیں لیکن ہر دو اپنی نوعیت اور نقاصد کے اعتبار سے مختلف زاویۂ نظر اور طریقۂ کار کے نمائندہ ہیں:
• جمہوریت کے علم بردار اپنے جمہوری حق کے تحت احتجاج اور دھرنے کے ساتھ لانگ مارچ کی سیاست کر کے، زور آزمائی کے نتیجے میں اپنا اساسی مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو نفاذِ اسلام کے علم بردار اَمن و صلح کے نام پر اپنا شرعی مطالبہ لے کر سامنے آئے ہیں۔ یاد رہے کہ سوات کے 'امن معاہدہ' کے دو فریق حکومت اور تحریکِ نفاذِ شریعت محمدیہ ﷺ ہے جس کا تحریکِ طالبان پاکستان کے مولانا فضل اللہ س ے کوئی باضابطہ تعلق نہیں اور نہ ہی دونوں کے طریقۂ کار اور حکمتِ عملی میں کوئی مماثلت موجود ہے۔
• ہر دو تحریکوں کی حزبِ مخالف و مقابل حکومتِ وقت ہے جس میں دونوں نے اپنے متعدد مطالبوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے محض ایک ایک اساسی ہدف کی تکمیل پر انحصار کیا ہے۔ مسلم لیگ 'ن' اور وکلا تحریک نے صرف ایک مطالبہ یعنی 3؍ نومبر والی عدلیہ کے قیام کی شرط پر پورا لانگ مارچ ملتوی کر دیا، جبکہ دوسری طرف تحریکِ نفاذِ شریعت محمدی ﷺ کی جانب سے معاشرے میں حکومت کے چھ بنیادی وظائف: نظامِ عدل، نظامِ تعلیم، نظامہائے سیاست، معاشرت و معیشت اور صحت میں سے محض ایک نظامِ عدل کی اصلاح کے وعدے پر معاہدۂ امن کی ضمانت دی گئی ہے۔
• نفاذِ شریعت محمدیہ اور تحریکِ طالبان کے مابین بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے نفاذ کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی طرح حکومت مخالف سیاسی جماعتوں میں بھی اپنے واحد مطالبہ کے حصول کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ بعد میں متعین کئے جانے والے جج حضرات کو قبول کر لینے، چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر کے بطورِ چیف جسٹس کردار اور فیصلوں کو تسلیم کر لینے سے ۳ نومبر والی عدلیہ کو بحال کرنے کا وعدہ بھی پورا نہیں ہو سکا۔ لیکن ہر دو تحریکوں نے اپنے کم از کم مطالبات ماننے پر احتجاج کا راستہ ترک کر دیا۔
• ہر دو تحریکوں میں دو نہایت مقبولِ عوام رہنماؤں نے عوام کی قیادت کی اور دونوں کی قیادت پر ان کے پیرو کاروں کو پورا اطمینان و اعتماد حاصل ہے۔ صوفی محمد کی عوام میں روحانی مقبولیت ہو یا نواز شریف کی عوامی پذیرائی، دونوں عوام کی اُمیدوں کے مرکز و محور ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر دو مراحل پر طویل عرصہ کے انتشار و اضطراب کے بعد عوام کو سکون کا سانس لینا نصیب ہوا ہے۔
• دونوں تحریکوں کو اصل مشکل وقت کے صدر سے درپیش ہے، ایک طرف تو صدر بظاہر سرنڈر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، جبکہ دوسری طرف سوات کے معاملے میں تاحال صدر نے فیصلہ کن دستخط نہیں کئے جس کے بعد ہی 'نفاذِ عدل ریگولیشن' قانونی حیثیت پا سکے گا۔
• وکلاء کی تحریکِ عدل میں فریقین (حکومت اور عوام) کی لڑائی سے فوج نے اپنے مرکز قوت کو مستحکم کر کے سب سے زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے۔ اس نے امریکہ کو محض صدر زرداری پر انحصار نہ کرنے کا واضح اشارہ دینے کے علاوہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کو مستقبل میں باہمی زور آزمائی کے لئے زیادہ سازگار فضا میسر کر دی ہے، اِس اقدام سے فوج کو اپنے اوپر حکومت وقت کی نگرانی سے بھی رعایت مل گئی ہے۔ فوج کے اس لانگ مارچ میں کامیاب سیاسی کردار کا نتیجہ ہے کہ فوج سربراہ برطانیہ کے دورے پر اپنے ہم منصب حضرات کی بجائے اعلیٰ برطانوی حکام سے ملاقاتیں کرنے کے لئے بیرونی دوسرے پر تشریف لے جا چکے ہیں۔
دوسری طرف حکومت کی رِٹ قائم کرنے والوں (سیکورٹی فورسز) اور جواباً عسکریت کا مظاہرہ کرنے والوں (تحریکِ طالبان) کی لڑائی سے تحریکِ نفاذ شریعت محمدی نے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنا اور سوات و ملحقہ علاقوں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ بلکہ شرعی حق یعنی شرعی نظامِ عدل کے قیام کی منزل حاصل کرنے کی طرف کامیاب پیش قومی کی ہے۔
• ایک نظامِ عدل کے قیام کے لئے دنیا بھر کی تائید میسر ہے، اسے بنیادی حق سمجھا جا رہا ہے اور دوسرے نظامِ عدل کے قیام کو 'مہذب' دنیا کے خلاف سنگین سازش قرار دیا جا رہا ہے، اور سوات پر عالمی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
بہرحال ہر دو مراحل غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر لانگ مارچ کے بعد افتخار چودھری کی بحالی ملکی سطح پر ایک بڑی کامیابی ہے تو شرعی نظامِ عدل کی طرف پیش قدمی اسلام کے پیغامِ امن و سلامتی کا اہم مرحلہ ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کے نظریۂ آزادی کی حقیقی منزل کی طرف پیش قدمی ہے بلکہ مسلم معاشرت کے احیاء کی جانب بھی ایک نمایاں اقدام ہے!
پاکستان کا منظر نامہ بھی بڑا عجیب ہے کہ ایک طرف ۱۵؍ مارچ کو ملک بھر کے عوام سیکولر عدل کے قیام کے لئے حالیہ قومی تاریخ کا شدید ترین احتجاج کر رہے ہیں اور دوسری طرف 15؍ فروری کو اسی ملک کے سرحدی عوام اِسی لا دین نظام عدل کے خلاف احتجاج میں پوری قوت سے متحد ہیں اور ان کی تمام اُمیدوں کا مرکز اللہ کا دیا ہوا نظامِ دل شرعی ہے جس میں نہ تو انصاف انتہائی انمول ہے اور نہ ہی ظالم کی رسی دراز ہوتی ہے!!
معاہدۂ امن کے وہ متعدد اقدامات جو صوفی محمد کی تحریکِ نفاذِ شریعت محمدیہ کی طرف سے انجام پانا تھے، ان پر باحسن طور عمل کر دیا گیا ہے اور سوات کئی ماہ کی بدترین شورش کے بعد امن و امان کی فضاؤں میں سانس لے رہا ہے۔ دوسری طرف حکومتِ وقت (صدرِ مملکت) تاحال اپنے وعدوں کو حیلے بہانوں سے ٹالنے کی روش پر عمل پیرا ہیں۔ ایک درویش منش شخص نے محض حکومت کے وعدۂ فرد اور اپنے بھرم و اعتماد کے بل بوتے پر تمام عوام کو اسلحہ پھینکنے پر آمادہ و مجبور کر دیا ہے۔ صوفی محمد نے جہاں سوات میں امن و امان کی تمام تر ذمہ داری قبول کی ہے، وہاں اس کے بالمقابل اُنہوں نے حکومت سے صرف 'فوری' اور 'شریعت کی میزان پر انصاف' کا مطالبہ پیش کیا ہے۔
• دونوں تحریکوں کی قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ ملک بھر کے باشعور اور دانشور طبقہ نے ان دونوں تحریکوں کے مطالبوں کی بھرپور حمایت کی ہے اور ان مراحل کو قومی تاریخ میں اہم سنگ میل قرار دیا ہے، اور ان سے بڑی اُمیدیں وابستہ کی ہیں۔۔۔۔ گو کہ دونوں تحریکیں اپنے مفہوم و مدعا کے لحاظ سے ایک دوسرے کے نقیض و متضاد ہیں!!
۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی معاشرے کا مرکز و محور عدل و انصاف کی ضمانت اور اس کی حقیقی میزان کا حصول ہے لیکن ہر دو تحریکوں میں لفظ 'عدل' کے علاوہ اور کوئی قدرِ مشترک ہی نہیں ہے۔ ایک عدل اللہ کی مقرر کردہ میزان پر ہے اور ایک انسانوں کی خود ساختہ میزان پر۔ ایک عدل کا نتیجہ معاشرے میں یقینی امن و امان ہے اور دوسرے عدل کا نتیجہ معاشرے میں بے چینی و بے اطمینانی کا طروغ۔۔۔۔!
ایک طرف حقیقی انصاف، تبدیلی نظام کا مطالبہ اور شریعت کے نفاذ کی طرف پیش قدمی ہے جبکہ دوسری طرف محض ایک دیدہ زیب نعرہ اور چند قدرے بہتر افراد کی بحالی ہے۔ یوں تو لوگ چیف جسٹس کی بحالی کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں، لیکن کیا اس سے ملک کے سنگین مسائل حل ہو جائیں گے، کیا موجودہ عدلیہ قرآن و سنت کی بنا پر حقیقی انصاف عام کر دے گی؟ جس کا دعویٰ یا ہدف و منزل بھی ان کے حاشیہ خیال میں نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جس چیز کو ایک عظیم کامیابی اور نوید انقلاب قرار دیا جا رہا ہے، امر واقعہ میں ایسا نہیں!
ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ کتاب و سنت کی بنا پر اپنے فیصلے کرنا کوئی ذوقی یا اختیاری مسئلہ نہیں کہ اس میں مسلمانوں کے لئے کوئی دوسری گنجائش موجود ہو بلکہ یہ اسلام کا اپنے ماننے والوں سے اساسی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے کتاب و سنت کی بنا پر کریں۔ قرآن کی نصف درجن آیات مسلمانوں کو اس کی تلقین اور ان کی اسلامیت کو اس سے مشروط ٹھہراتی ہیں، خود ساختہ قوانین کی میزان پر فیصلے کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ظالم، فاسق اور کافر قرار دیا ہے۔
شرعی نامِ عدل کو متعصّبانہ نظر سے دیکھنا اور اسے وحشت و قدامت سے مطعون کرنا اُسی انسان کا رویہ ہو سکتا ہے جو جذبہ اور غیرتِ ایمانی سے تہی دامن ہونے کے ساتھ علم و دین سے بھی نا آشنا ہے!! اسلام کا نظامِ عقوبات اس ور میں حقائق کی میزان پر کامیاب ہونے والا مثالی نظامِ عدل ہے جو شریعت کے جملہ اساسی مقاصد کا محافظ و نگہبان ہے۔ اس کو محض سزا کے نقطہ نظر سے دیکھنے والے تنگ نظر ہیں کیونکہ قرآن نے شرعی سزاؤں کو معاشروں کے لئے آبِ حیات قرار دیا ہے۔ دراصل شرعی نظام عدل پر یہ الزام دو باہم متخالف رویوں کا عکاس ہے:
ایک طرف انسانوں کا بنایا ہوا نظامِ عدل ہے جو مجرم / ظالم کو انصاف فراہم کرتا ہے اور اس کے انسانی حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے۔ اس نظام کو مظلوم کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں، جس کو ظالم نے برباد کر کے رکھ دیا، بلکہ اسے صرف مجرم کے انسانی حقوق سے غرض ہے اور وہ اس کی سزائے موت حتیٰ کہ سنگین سزا کا بھی مخالف ہے، اور وہ اسے مجرم کے اعتبار سے وحشیانہ قرار دیتا ہے لیکن وقت نے یہ بتایا ہے کہ اس طرح کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے مہذب ترین ممالک میں جرائم کی بڑھتی شرح اس کی واضح دلیل ہے، جو ظالم سے ہمدردی اور مظلوم سے بے اعتنائی کا نتیجہ ہے!
دوسری طرف اللہ کا دیا ہوا نظامِ عدل ہے جو ظالم کی بجائے مظلوم کو انصاف دیتا اور اس کے حق میں مداخلت پر سزا عائد کرتا ہے۔ اس نظامِ عدل کو ظالم کی اہانت سے کوئی سروکار نہیں بلکہ جرم کو واقع ہونے سے روکنے اور مظلوم کی جائز اورداد رسی سے مطلب ہے۔ مجرم کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام کا تصورِ جرم و سزا اس کے لئے آلۂ سزا ہے اور اگر مظلوم کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شرعی سزائیں مظلوم حتیٰ کہ باقی تمام معاشرے کے لئے آلۂ حیات ہیں جس کے نتیجے میں لازماً مزید جرائم کا ارتکاب ناممکن ہو کر رہ جائے گا، یہی زاویۂ نظر قرآن نے بیان کیا ہے اور دورِ حاضر کے مشاہدات و تجربات اسی نظریے کی حقانیت کااثبات کر رہے ہیں۔
سوات میں ہونے والے معاہدے کو 'معاہدہ امن' کا نام دیا گیا ہے۔ امن و سلامتی شریعت اسلامیہ کا ہی طرۂ امتیاز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایمان اور عمل صالح کا ثمرہ اور اپنے خصوصی انعام کے طور پر ذِکر کیا ہے۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اسلام کے بغیر حقیقی اور دیرپا امن و امان کا قیام اور اطمینان و سکون کا وجود ناممکن ہے۔ فرد کی سب سے بڑی نعمت اطمینان و سکون اور معاشرے کی سب سے بڑی خوبی امن و امان ہے۔ فرد و معاشرے کے لئے یہی دو بنیادی اور حقیقی نعمتیں ہیں جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دیئے ہوئے نظام پر چلنے والوں فرمایا 1ہے۔ ایک تازہ ترین شہادت ملاحظہ کیجئے کہ برطانوی ادارے کی حال ہی میں شائع ہونے والی سروے رپورٹ کے مطابق آج بھی سعودی عرب میں بسنے والا فرد دنیا بھر میں سب سے زیادہ مطمئن اور یہاں کا معاشرہ سب سے زیادہ پر امن تسلیم کیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں فرد و معاشرے کا یہ امن و سکون صرف اور صرف نفاذِ اسلام کی برکت کا نتیجہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آج بھی اللہ کا نظام محض ایمان و ایقان کی بنا پر ہی نہیں، حقائق و وقائع کی روشنی میں اپنی مسلمہ افادیت پوری دنیا کے سامنے بیان کر رہا ہے تاکہ لوگوں پر اللہ کی حجت قائم و برقرار رہے!!
شرعی نظامِ عدل کی ان غیر معمولی خوبیوں کے باوصف آج ہماری قوم کا سیکولر نظامِ عدل پر یہ اعتماد اور اس کے لئے والہانہ جستجو فکر مندی کا باعث ہے۔ اس نظامِ عدل کی شکایت تو کوچہ دل سے گزرنے والا ہر فرد کرتا دکھائی دیتا ہے، جہاں کمرۂ عدالت میں سب لوگ مل کر عدل و انصاف کو چکمہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، انگریزی قانون کے لئے یہ نہایت عمدہ تمثیل خود برصغیر کے انگریز حکمران مٹکاف کی بیان کردہ ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے میزانِ عدل سے انصاف پانے کے لئے لوہے کے پاؤں اور سونے کے ہاتھ ہونے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ جہاں سے عدل اتنی تاخیر سے حاصل ہوتا ہے جب انسان دنیا سے سفر کر کی منوں مٹی کے یچے سو چکا ہوتا ہے۔
لا دین نظامِ عدل کے سایہ تلے 60 برس گزارنے کا نتیجہ یہ ہے کہ مادرِ طن کا ہر دامن تار تار ہو چکا ہے اور معاشرہ خرابیوں اور برائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ انہی ظالمانہ نظاموں سے نجات کے لئے تو ہم نے شہادت سے لبریز اور قربانیوں سے بھرپور ولولہ انگیز ہجرت کی تھی۔ شریعت کے ہر میدان میں نفاذ کے وعدے کے ساتھ ہم نے ربِّ کریم سے طویل دعاؤں کے بعد وطن عزیز حاصل کیا تھا۔ افسوس کہ اسلام کو نافذ کرنے کا سنہرا خواب دکھا کر، لاکھوں قربانیوں سے حاصل کیا جانے والا وطن آج اپنی نظریاتی اَساس اور منزل کو ہی گم کر بیٹھا ہے۔ نصف صدی کے طویل عرصہ میں قومیں بدل گئیں، تہذیبیں اور اَطوار تبدیل ہو گئے ہیں، دنیا کا جغرافیہ اور سرحدیں کیا سے کیا ہو گئیں لیکن ہم اپنے وعدے کو ایفاء کرنے کی سمت معمولی پیش رفت بھی نہ کر سکے۔ ہمارا ہر قدم مزید پیچھے کی طرف ہی اُٹھتا رہا۔ ہمارے سیاسی حکمران اللہ کے دیئے نظامِ عدل اور اسلام کے وعدوں سے دل لگی کرتے کرتے قوم کو منزل سے اس قدر دور لے گئے کہ انسانوں کی وضع کردہ میزانِ دل بھی ہم سے روٹھ گی۔ یہ اللہ سے کئے وعدوں کو پس پشت ڈالنے کا نتیجہ ہے کہ اللہ کے نظام کی برکات تو ہمیں کیا حاصل ہوتیں، انسانوں کے وضع کردہ ایک کمتر نظامِ انصاف کو بھی ہم نہ نبھا سکے، دنیا بھر میں ہمارے عدل کے ایوانوں کا مذاق اُڑایا گیا اور آخر کار قوم نے لانگ مارچ کے نتیجے میں اس عدل کی ایک 'علامتِ افتخار، کو بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
آج 2009ء کا نوشہ دیوار یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو شرعی نظامِ عدل کے اساسی مقصد کو پانے کے لئے ایک بار پھر وقت کی حکومت سے بزورِ قوت مطالبہ کرنا پڑ رہا ہے۔ پہلے انگریز سامراج سے اس مقصد کے حصول لئے پوری قوم بر سر پیکار ہوئی، اور اب اسی قوم کا ایک حصہ انگریز سامراج کے ایجنٹ حکمرانوں سے اس نیک مقصد کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ فکر کا مقام ہے کہ شرعی نظامِ عدل کا مطالبہ اس قدر انمول کیوں ہو گیا کہ صرف اس ایک جائز مطالبے پر عسکریت پسند اپنے تمام ہتھیار پھینک دینے پر آمادہ ہو گئے!! ۲۰ برس کا سفر اور نشانِ منزل وہی کا وہی، پہلے انگریز سرکار سے شریعت کے نفاذ کے لئے علیحدہ وطن کا حصول اور لاکھوں کی ہجرت اور آج اس وطن میں نفاذِ اسلام کے لئے قوم کے اندر کتنی بڑی کشمکش!
ہمیں من حیث القوم سوچنا چاہئے کہ کیا وہ ہے کہ آج اسلام کا یہ بنیادی مطالبہ ان تمام عوام الناس کا مطالبہ کیوں نہیں رہا جنہوں نے اس مقصد کے لئے تاریخ کی عظیم ترین ہجرت اور لاکھوں قربانیاں دیں، آج نفاذِ شریعت کا مطالبہ صرف چند دین داروں تک ہی کیوں محدود ہو چکا ہے اور پوری قوم نہ صرف اس اس مطالبے سے عملاً دستبردار ہو چکی ہے، بلکہ صوفی محمد کی تحریکِ نفاذِ شریعت کو جن کا واحد مطالبہ شریعت کا قیام ہے اور اس کے بدلے وہ قیام امن کی ہر کوشش کرنے کو تیار ہیں، قوم سے اجنبیت کی اذیت کیوں وصول ہو رہی ہے!؟
کہا گیا کہ 15؍ مارچ کے سیاسی لانگ مارچ کا نقشہ اس دور کے جذبہ و جنوں کی یاد تازہ کر رہا تھا جب 1977ء میں نظامِ مصطفےٰ ﷺ کی تحریک چلی اور ہر پاکستانی کے دل کی آواز بن گئی۔ آج اسلام کا نعرہ تو ویسے ہی روشن خیالی کے دور سے گزرنے کے سبب قدامت کی علامت بن چکا ہے۔ اب اسلام کے لئے قوم میں یہ والہانہ جذبہ اور وابستگی کہاں!؟
ممکن ہے کہ بعض دانشور ماضی کی طرح اس فکری انحراف کو بھی دینی قیادت کے ذمے ڈال کر مطمئن ہو جائیں، لیکن ہماری نظر میں قوم کی اس حالیہ ذہن سازی کے پیچھے بے خدا ذرائع ابلاغ کا سنگین کردار ہے۔ قوم چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک میں اس طرح کبھی شریک نہ ہوتی، اگر میڈیا اس کو ایک مشن بنا کر قوم کے ذہنوں پر سوار نہ کر دیتا۔ فرمانِ نبوی ﷺ ہے: اسلام اجنبی آیا تھا اور عنقریب اجنبی ہو جائے گا اور اجنبیوں کے لئے خوشخبری ہے۔'' آپ ﷺ کی اس وعید کا مصداق اس دور کے میڈیا کو قرار دیا جا سکتا ہے جس نے معاشرے میں اسلام کو اجنبی بنا چھوڑا ہے۔ لوگوں کو اسلام سے دور کرنے کے جرم میں ہمارا میڈیا برابر کا شریک ہے جس نے لوگوں کے فکر و نظر کے زاویے، رجحانات اور پسند و ناپسند کے معیار بدل ک رکھ دیئے ہیں۔
لیکن اپنے مقصدِ زندگی اور شعورِ حیات سے بے اعتنائی کا گناہ صرف میڈیا پر ہی ڈال کر مطمئن نہیں ہوا جا سکتا جبکہ ہر مسلمان کے لئے اللہ کی کتاب میں اس کی منزل و ہدف اور فرض و منصب واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے اور کوئی مسلمان قیامت کے روز قرآنِ کریم میں اللہ کے ان واضح مطالبات کو دوسروں کے ذمے ڈال کر اپنا دامن نہیں بچا سکے گا۔ یاد رہے کہ قرآنِ کریم کا خطاب صرف علمائے دین سے نہیں بلکہ نبی اُمی کا کلمہ پڑھنے والے ہر شخص سے ہے!
صوفی محمد نے کوئی چھوٹی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ جس ملک میں پوری ریاستی قوت پولیس و سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں دل قائم نہیں کر سکی، وہاں ایک فرد محض اپنے بھرم و اعتماد کے بل بوتے پر معاشرے کا سب سے بہترین تحفہ 'امن' اپنی قوم کو پیش کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ اس کے اس عظیم ہدف کے بالمقابل امریکہ، بھارت اور افغانستان تینوں کی بھرپور کوشش ہو گی کہ عدل قائم نہ ہونے پائے اور اسلام کا پیغامِ امن دنیا کے سامنے نہ آسکے، سرحدی علاقوں میں یہ لڑائی جاری رہے تاکہ جسدِوطن مزید زخمی ہو کر دشمنوں کی آماجگاہ بن جائے۔
نہ تو مولانا صوفی محمد کا مطالبہ غلط ہے اور نہ اس کی موجودہ حکمتِ عملی؛ آئین کی رو سے بھی اس معاہدہ کی واضح گنجائش موجود ہے کیونکہ 'پاٹا' کے یہ آزاد قبائلی علاقے صوبائی حکومت کے زیر انتظام آتے ہیں، قومی اسمبلی کو ان سے کوئی سروکار نہیں بلکہ صدر براہِ راست ان کے انتظامات کی منظوری دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں دنیا بھر بالخصوص مشرقی یورپ میں بھی اس نوعیت کی جیوری کی قانونی عدالتیں موجود ہوتی ہیں، جہاں فریقین باہمی متفقہ قانون کی روشنی میں اپنے فیصلے کرواتے ہیں۔ امریکہ میں یہودی عدالتیں اسی قانون کے تحت کام کر رہی ہیں۔ لیکن اگر اس نفاذِ عدل ریگولیشن پر صدر کے دستخط اور دنیا میں اس کی پذیرائی میں کوئی تاخیر ہے تو اس کی وجہ اس کے سوا کوئی نہیں کہ اسلام کا کوئی بھی نظام دنیا کو قبول نہیں گویا اجتماعیت کے کسی بھی میدان میں مسلمانوں کا کامیاب ہونا ملتِ کفر کو پریشان کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اس سے قبل افغانستان میں طالبان کی چند سالہ حکومت کے دوران بھی شرعی نظامِ عدل کے جزوی قیام نے عسکریت کے شکار اس خطہ ارضی کو چند ماہ میں ایسا امن و سکون عطا کیا تھا جس کی نظیر بعد کے سالوں میں کبھی نہیں میسر آسکی۔
مولانا صوفی محمد کی یہ منطق بالکل درست ہے کہ نظامِ عدل سے شریعت کی طرف بڑھنے کا آغاز کیا جائے۔ اس کے بعد دیگر نظام ہائے معاشرت کی طرف لمحہ بہ لمحہ پیش قدمی کی جائے۔ ہمارا یہ ایقان ہے کہ اگر آج اُنہیں شرعی عدل کے ادارے قائم کرنے کی اجازت مل گئی تو امن و امان چند روز میں اس خطہ کا مقدر ہو گا، جیسا کہ چند روز میں اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، کیونکہ شرعی نظامِ عدل کی اصل قوت ظاہری ڈھانچے کی بجائے اس کی روحانی اور الٰہی اساس میں پوشیدہ ہے جس میں مجرم اللہ کے ڈر اور آخرت میں پکڑ کے بالمقابل دنیا میں سزا پانے کو ترجیح دیتا ہے، اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ لیکن افسوس کہ تادمِ تحریر صوفی محمد کو امن قائم کر دینے کے باوجود شرعی نظامِ عدل کا درست نفاذ نہ ہونے کی شکایت ہے، جس کے نتیجے میں اُنہوں نے 25؍ مارچ کو حکومت کو اپنے معاہدۂ امن سے دست برداری کی وارننگ بھی دے دی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نظامِ عدل ریگولیشن کی صدر سے منظوری سے قبل عبوری طور پر سوات، مینگورہ اور وزیرستان میں شرعی قاضی لوگوں کے فوجداری فیصلے نمٹا رہے ہیں، دنوں میں اُنہوں نے کئی تنازعات حل کر دیئے ہیں، جبکہ سول عدالتوں میں تاحال پرانا نظام ہی جاری ہے، جن میں شرعی قاضی ابھی تک اپنا کام شروع نہیں کر سکے۔ بہ یک دو متوازی نظاموں کا وجود اور شرعی عدالتوں کی مستند قانونی حیثیت میں تاخیر و تعطل وہ بنیادی اعتراضات ہیں جن کا خاتمہ اشد ضروری ہے۔
صوفی محمد آج اپنی نہیں بلکہ اسلام اور پاکستان کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، دوسری طرف پاکستان کے عوام عدلیہ کی ایک اور جنگ میں مگن ہیں۔ مغربی اِدارے بڑی باریک بینی سے پاکستانی قوم کے رجحانات کا جائزہ لے رہے اور اس پر اپنے تبصرے پیش کر رہے ہیں جبکہ تاریخ بڑے غور سے سب کچھ قلم بند کر رہی ہے۔۔۔۔۔!!
ایک طرف پوری قوم آزاد عدلیہ کی طرف بڑھ رہی اور اس سے اپنی اُمیدیں وابستہ کر رہی ہے اور دوسری طرف کچھ افراد اس نظامِ عدل سے اظہارِ براءت کر کے اللہ کے میزانِ عدل کو قائم کرنے میں اپنی جدوجہد صرف کر رہے ہیں۔ ایک نظامِ عدل وہ ہے جو انگریز کا ترکہ و ورثہ، جس کا بیشتر حصہ مشترکہ ہندوستان کے دور کا تدوین شدہ ہے اور دوسری طرف وہ شرعی عدل جس کے حصول اور انگریزی عدل کے زاویوں سے نجات پانے کے لئے مستقل وطن وجود میں لایا گیا۔ دیکھئے ایک مسلمان عدل کی کس میزان کو ترجیح دیتا ہے؟ اور کس عدل کا قیام ارضِ وطن میں امن کو استحکام و استقرار نصیب کرتا ہے۔۔۔۔؟
حوالہ جات
1. قرآنِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے:وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوامِنكُمْ وَعَمِلُوا ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ كَمَا ٱسْتَخْلَفَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ ٱلَّذِى ٱرْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ...﴿٥٥﴾... ''اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والوں سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اُنہیں پچھلے لوگوں کی طرح زمین میں استخلاف عطا فرمائے ا، اور اُن کے لئے پسند فرمودہ دین کو اُن میں رسوخ طا کرے گا، اور لازماً اُن کے خوف کو حالتِ امن سے تبدیل کرے گا۔''