اپریل 2009ء

پروفیسر خورشید عالم،علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اور چہرے کا پردہ

ماہنامہ 'اشراق' مارچ 2009ء کے شمارے میں پروفیسر خورشید صاحب کا مضمون'چہرے کا پردہ احادیث و آثار کی روشنی میں ' میں شائع ہوا۔ ایک زمانے میں جبکہ پروفیسر صاحب چہرے کے پردے کے موضوع پر ماہنامہ 'اشراق' میں لکھ رہے تھے، ہم نے اُنہیں یہ مشور ہ دیا تھاکہ اگر واقعتا وہ اس موضوع پر کوئی سنجیدہ اور علمی کام کرناچاہتے ہیں تو وہ علامہ البانی رحم اللہ علیہ کی کتابوں : جلباب المرأة المسلمة اور الردّ المفحم کا ترجمہ کر دیں ۔ بہر حال اس موضوع پر ایک کتاب لکھنے کے بعد پروفیسر صاحب کو اس کا احساس پیدا ہو ہی گیاہے تویہ ایک خوش آئند بات ہے۔پروفیسر صاحب کے 'اشراق' میں شائع شدہ حالیہ مضمون میں علامہ البانی کی ان دوکتابوں میں بیان شدہ احادیث اور آثار کا ترجمہ اور تشریح شائع کی گئی ہے۔

پروفیسر صاحب حقیقت چھپانے میں ید ِطولیٰ رکھتے ہیں اور اپنے حالیہ مضمون میں اُنہوں نے علامہ البانی رحم اللہ علیہ کے صحیح موقف پر پردہ ڈالنے کے لیے زبان و بیان کی تمام صلاحیتیں کھپا دی ہیں ۔ پروفیسر صاحب جب ماہنامہ' اشراق' میں چہرے کے پردے پر مضامین لکھ رہے تھے یا بعد میں اُنہوں نے ان مضامین کو ایک کتابی شکل میں شائع کیا یا حال ہی میں اُ نہوں نے ایک نیا مضمون اس موضوع پر لکھا، ان کی اس ساری تحقیق کا مرکزو محور علامہ البانیرحم اللہ علیہ اور ان کے دلائل ہیں ، لیکن مجال ہے کہ اپنے سلسلۂ مضامین یا کتاب یا اپنے حالیہ مضمون میں اُنہوں نے علامہ البانیرحم اللہ علیہ کے موقف کو صحیح طور پر نقل کیا ہو۔

پروفیسر صاحب خود بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اس مسئلے میں علامہ البانیرحم اللہ علیہ سے بہت زیادہ استفادہ کیاہے، لیکن علامہ البانیرحم اللہ علیہ کے وہ دلائل تو دھڑا دھڑ نقل کر دیتے ہیں جو چہرے کے پردے کے عدم وجوب کے بارے میں ہیں جبکہ چہرے کے پردے کے استحباب کے بارے میں علامہ البانی رحم اللہ علیہ کے بیان کردہ دلائل یا موقف کو وہ ہمیشہ چھپانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔

ہم نے پروفیسر صاحب کو اپنی تحریروں میں بعض دفعہ متوجہ بھی کیا، لیکن اُنہوں نے اس کے باوجود کتمانِ حقیقت کے اپنے اس مشن کو جاری رکھا۔ ذیل میں ہم پروفیسر صاحب کے حالیہ مضمون کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں جس میں اُنہوں نے علامہ البانیرحم اللہ علیہ کا ایسا موقف بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کادرحقیقت نہیں ہے۔پروفیسر صاحب اپنے حالیہ مضمون کا خلاصہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں :
''علامہ البانی رحم اللہ علیہ کی رائے کے مطابق چہرے اور ہاتھوں کو نہ عادتاً چھپایا جا سکتا ہے، نہ عبادتاً۔''1

اب علامہ البانی رحم اللہ علیہ کی اس مسئلے پر عبارتیں ملحوظ فرمائیں :
علامہ البانی رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں :
نلفّتُ نظر النساء المؤمنات إلی أن کشف الوجه وإن کان جائزًا،فسترہ أفضل2
''ہم عورتوں کو اس بات کی توجہ دلاتے ہیں کہ چہرہ کھلا رکھنے کا اگرچہ جواز ہے، لیکن اس کا ڈھانپنا افضل ہے ''۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
فمن حجب ذلك (أي الوجه والکفین) أیضًا منھن فذلك ما نستحبه لهن وندعو إلیه 3
''جس نے ان دونوں (یعنی چہرے اور ہاتھوں ) کو ڈھانپا تواسی بات کو ہم مستحب سمجھتے ہیں اور اسی کی دعوت دیتے ہیں ۔''

ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
ویقابل هؤلاء طائف أخرٰی یرون أن سترہ بدع وتنطع في الدین،کما قد بلغنا عن بعض من یتمسك بما ثبت في السن في بعض البلاد اللبناني، فإِلی هؤلاء الإخوان وغیرھم نسوق الکلم التالي لیعلم أن ستر الوجه والکفین له أصل في السن، وقد کان ذلك معھودًا في زمنه ﷺ ۔۔۔۔4
''اور اس کے بالمقابل ایک دوسرا گروہ ہے جن کا خیال یہ ہے کہ چہرے کا پردہ بدعت ہے اور دین میں ایک نئی ایجاد ہے ۔جیساکہ ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ لبنان کے بعض علاقوں کے رہنے والے حاملینِ سنت نے بھی ایسی بات کہی ہے ۔ ہم اپنے ان بھائیوں اور ان کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی ذیل میں چند دلائل بیان کرتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ چہرے اور دونوں ہاتھوں کے ڈھانپنے کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے اور اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ ڈھانپتی تھیں ...''

اس کے بعد علامہ البانی رحم اللہ علیہ نے گیارہ کے قریب احادیث اور آثارِ صحابہؓ سے استدلال کرتے ہوئے اپنی اس بحث کو واضح فرمایا جن کی اسناد اور ان کی تحقیق حجاب المرأة المسلمة کے صفحات ۴۷ تا ۵۳پر دیکھی جاسکتی ہیں ۔
علامہ البانی رحم اللہ علیہ کی جو آخری کتاب حجاب کے موضوع پر شائع ہوئی اس کا عنوان یہ ہے :
الرد المفحم علیٰ من خالف العلماء وتشدَّد وتعصَّب، وألزم المرأة بستر وجھھا وکفیھا وأوجب ولم یقتنع بقولھم: إنه سنة ومستحب
''اس شخص کا منہ توڑ جواب کہ جس نے تشدد اور تعصب سے کام لیتے ہوئے علماء کی مخالفت کی اور عورت کے لیے اس کے چہرے اور ہاتھوں کا ڈھانپنا واجب قرار دیا اور اس نے علما کے اس قول پر اکتفا نہ کیا کہ عورت کے لیے اپنے چہرے کو ڈھانپنا سنت اور مستحب ہے ۔ ''

پس معلوم ہوا کہ علامہ البانیرحم اللہ علیہ کا آخری موقف بھی یہ تھا کہ چہرے کا پردہ مستحب ہے نہ کہ واجب، جبکہ پروفیسر صاحب کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے تو مسلمان عورتوں کے چہروں کے پردے اُتروانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ جیسا کہ پروفیسر صاحب اس موضوع پر اپنی حالیہ کتاب کا انتساب اپنی والدہ کی طرف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''انتساب اپنی والدہ مرحومہ کے نام جنھوں نے گاؤں میں اور پھر شہر میں کھلے چہرے کے ساتھ انتہائی پاکیزہ زندگی گزاری۔''5

دوسری طرف علامہ البانی رحم اللہ علیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :
فبینا ما یجب علی المرأة وما یحسن بها، من التزم الواجب فبھا ونعمت، ومن أخذ بالأحسن فھو أفضل وھٰذا ھو الذي التزمتُه عملیا مع زوجي وأرجو اﷲ تعالی أن یوفقني لمثله مع بناتي حین یبلغن 6
''پس ہم نے اچھی طرح سے واضح کر دیا ہے کہ عورت کے لیے کیا واجب ہے اور کیا مستحسن؟ جس نے واجب کو مضبوطی سے پکڑا تو وہ اس کو کفایت کرے گااور وہ بہتر ہے۔ اور جس نے احسن(یعنی چہرے کے پردہ) کو پکڑا تو وہ افضل ہے۔ اور یہ (چہرے کا پردہ) وہی ہے جس کاالتزام میں نے ازدواجی زندگی میں اپنی بیوی کے ساتھ کیا ہے اور میں اللہ سے اُمید کرتاہوں کہ وہ مجھے اسی بات ( چہرے کے پردے) کی اپنی بیٹیوں کے بارے میں بھی توفیق دے جب وہ جوان ہو جائیں ۔ ''

کیا اس تقابلی مطالعے کے بعد بھی کوئی پروفیسر صاحب کے اس دعوے پر یقین رکھ سکتا ہے کہ چہرے کے پردے کے بارے میں ان کا موقف بھی وہی ہے جو علامہ البانی کا ہے۔ علامہ البانیرحم اللہ علیہ تو مسلمان عورت کے لیے چہرہ ڈھانپنے کے داعی ہیں جبکہ پروفیسر صاحب مسلمان عورتوں کے نقاب اُتروانے کے ٹھیکے دار بنے ہوئے ہیں ۔

پروفیسر صاحب کو ابھی تک ہمت نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہو گی کہ وہ اپنے کسی مضمون میں یہ لکھ سکیں کہ و ہ چہرے کے پردے کو مستحب سمجھتے ہیں ۔پروفیسر صاحب اپنے ہر مضمون میں بار بار کہتے ہیں کہ چہرے کا پردہ غیر واجب ہے۔غیر واجب کا مطلب کیا ہے؟ غیر واجب یا تومستحب ہو گا یا مباح ہو گا یا مکرو ہ ہو گا یا حرام بھی ہو سکتا ہے۔ اگرپروفیسر صاحب کی غیر واجب سے مراد مستحب ہے تواس کو اپنے کسی مضمون میں لکھ کیوں نہیں دیتے!؟ اپنی کتاب کا عنوان یہ کیوں نہیں رکھتے:'چہرے کا پردہ واجب یا مستحب'؟ پروفیسر صاحب در حقیقت علامہ البانی رحم اللہ علیہ جیسے سلف کے موقف کواپنے بدعتی موقف کے ساتھ خلط ملط کرناچاہتے ہیں ۔اس مقصود کے حصول کے لیے وہ غیر واجب جیسی مبہم اصطلاحات کا سہارا تلاش کرتے ہیں ۔

علامہ البانی رحم اللہ علیہ چہرے کے پردے کو مستحب سمجھتے ہیں اورکسی عمل کے مستحب کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کو نہ کیا جائے یا اس کے نہ کرنے کی لوگوں کو دعوت دی جائے مثلاً پانچ نمازوں کی سنن ہیں ، اب سنن کے مستحب ہونے کا یہ مفہوم قطعاً نہیں ہے کہ کوئی شخص ان کے چھوڑنے کو افضل سمجھے اور ان کی ادائیگی کو مشقت قرار دیتے ہوئے اُمت ِمسلمہ کو ان کے چھوڑنے کی تلقین کرے۔

پروفیسر صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ زبانی کلامی اس بات کا اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا موقف علامہ البانی رحم اللہ علیہ والا ہی ہے، لیکن وہ اس موقف کے داعی نہیں بنتے جب بھی وہ اس موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں توایک تو وہ چہرے کے پردے کے قائلین پر تنقید کرتے ہیں ، دوسرا وہ چہرے کا پردہ نہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور اسے مشقت قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ پروفیسر صاحب اپنی تحقیقات میں جن بعض سلف صالحین کے اقوال کے حوالے دیتے ہیں ، وہ چہرے کے پردے کے داعی ہیں اور عورت کے لیے چہرہ ڈھانپنے کو، نہ ڈھانپنے سے افضل سمجھتے ہیں ۔ افسوس کہ یہ منکرین حجاب مستحب کی اصطلاحی تعریف سے بھی واقف نہیں ہیں ۔اُصولیین نے مستحب یا سنت کی جو تعریف کی ہے، وہ یہ ہے :
ھو ما طلب الشارع فعله من المکلف طلبًا غیر حتم 7
''(مندوب یا مستحب سے مراد) وہ فعل ہے کہ جس کا شارع نے مکلف سے مطالبہ کیا ہو،لیکن اسے لازم قرار نہ دیا ۔''

گویا کہ مستحب وہ ہوتا ہے کہ جس کے کرنے کا شارع نے مطالبہ کیاہو، لیکن اس کے کرنے کو لازم قرار نہ دیا ہو یعنی اگراسے کرے گا تو ثواب ملے گا اور نہ کرے گا تو گنہگار نہیں ہو گا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سلف میں چہرے کے پردے کے بارے میں تین موقف موجود ہیں ، بعض سلف صالحین کے نزدیک یہ شرعاً واجب ہے جبکہ بعض فقہا اس کو شرعاًمستحب قرار دیتے ہیں اور سدذریعہ کے طورپر واجب قرار دیتے ہیں ، جبکہ بہت ہی کم تعداد ایسے علما کی ہے جو اس کو نہ تو شرعاً واجب سمجھتے ہیں اور نہ ہی سد ذریعہ کے طورپر،بلکہ ہر حال میں مستحب قرار دیتے ہیں ۔ہمارے نزدیک پہلا موقف دلائل کی روشنی میں قوی اور راجح ہے اور ہم دوسرا موقف رکھنے والے علماء و فقہاء کوبھی 'عند اللہ مأجور'سمجھتے ہیں ، کیونکہ اُنہوں نے اپنی بساط میں اجتہاد کر کے قرآ ن و سنت سے اللہ کے حکم کو معلوم کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس کے اہل بھی تھے اور مخلص بھی تھے ۔ لیکن سلف میں سے کسی عالم کابھی ایسا قول موجود نہیں ہے کہ جس میں چہرے کے پردے کو بدعت یا ایک تہذیبی روایت کہا گیا ہواور جو نا م نہاد سکالر ز چہرے کے پردے کو بدعت یا ایک تہذیبی روایت یا دین میں مشقت کہتے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن نے فرمایا ہے: {أَضَلَّهُ ٱللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ} اللہ تعالی نے ان کو علم کے باوجود گمراہ کر دیا ہے۔

علماے اہل سنت میں سے کسی کا بھی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ عورت کے لیے اپنا چہرہ کھلارکھنا واجب یا افضل ہے۔علما کی بحث اس مسئلے میں صرف اس بات تک محدود ہے کہ عورت کا چہرہ ستر میں داخل ہے یا نہیں ؟ یعنی عورت اپنا چہرہ کھلا رکھنے کی وجہ سے گنہگار ہو گی یا نہیں ؟ جہاں تک چہرے کے پردے کے مستحب ہونے کا تعلق ہے تو تمام علما اس بات کے قائل ہیں کہ کم از کم چہرے کا پردہ مستحب ہے،ماسواے عصر حاضر کے بعض متجددین کے جو چہرے کے پردے کو اپنی کم علمی کی و جہ سے بدعت قرار دینے کی طرف مائل ہیں ۔

مذاہب ِاربعہ کے متبعین، جمہور علماے متا خرین کا مذہب یہ ہے کہ چہرے کا پردہ کرنا شرعاً واجب ہے۔عصر حاضر میں علامہ البانی رحم اللہ علیہ نے چہرے کے پردے کے بارے میں استحباب کا موقف پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا۔اور حقیقت یہ ہے کہ علامہ البانی رحم اللہ علیہ کے دَور اور مابعد کے تمام نام نہاد محققین حضرات نے علامہ البانی رحم اللہ علیہ کے ہی بیان کردہ دلائل اور تحقیق کا خلاصہ پیش کیاہے ۔جہاں تک علامہ البانی رحم اللہ علیہ کی بات ہے تو ہم ان کو اس حدیث (إذا حکم الحاکم ثم أصاب فله أجران وإذا حکم فاجتھد ثم أخطأ فله أجر)کے مصداق کے طورپر معذور اور عند اللہ ماجور سمجھتے ہیں ،لیکن منکرین حجاب سے ہم یہ گزارش کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ اس موضوع پر قلم اُٹھاتے وقت اپنے بدعی موقف کے ساتھ علامہ البانیرحم اللہ علیہ یا دیگر علماے سلف کے موقف کو خلط ملط نہ کریں ۔دراصل یہ حضرات مغرب کی اندھی تقلید میں پردے کو روایت پسندی قرار دیتے ہیں جبکہ بعض علماے سلف اور علامہ البانی رحم اللہ علیہ کے نزدیک چہرے کا پردہ مستحب ہے ۔

یہاں ہم اس بات کا تذکرہ کرنابھی مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اس موقف پر ایک کتاب ترتیب دی ہے جو زیر طباعت ہے او ر اس میں منکرین حجاب اور مستحبین نقاب کے تمام ان دلائل کا ایک علمی محاکمہ پیش کیا گیا ہے کہ جو وہ چہرے کے پردے کے عدمِ وجوب کے بارے میں پیش کرتے ہیں ۔خصوصا علامہ البانی رحم اللہ علیہ کے دلائل کا بصد احترام ایک علمی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔

جبکہ حال ہی میں 'چہرے کا پردہ:واجب یا غیر واجب؟ ' کے نام سے لاہور کے ایک مکتبہ 'دار التذکیر' نے ایک کتاب شائع کی ہے۔اس کتاب کے ٹائٹل پر مصنف کا نام 'پروفیسر خورشید عالم' لکھا ہے ۔یہ وہی خورشید صاحب ہیں کہ جن ذکر ِخیر ہم اوپر کررہے تھے۔ اس کتاب میں راقم الحروف کے کچھ مضامین بھی شامل تھے جس پر مجھے حیرانگی ہوئی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میری ہی تحریریں میری کسی اجازت کے بغیر کسی مکتبے نے شائع کر دی ہوں ۔ بلاشبہ' دار التذکیر' کی میرے ان مضامین کی میری اجازت کے بغیر اشاعت ایک غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکت تھی۔ جب میں نے اس بارے میں 'دار التذکیر' کے مالک احسن تہامی صاحب سے رابطہ کیا کہ میرے کچھ مضامین آپ کے ادارے کی شائع شدہ کتاب میں میری اجازت کے بغیر کس طرح شائع ہو گئے تو اُنہوں نے کہا : ان سے غلطی ہو گئی ہے اور اُنہوں نے اس معاملے میں اصل اعتماد پروفیسر خورشید صاحب پر کیا تھا۔

دوسرے دن میری پروفیسر صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے بھی کہا کہ مجھے کسی ایسے قانون کا علم نہ تھا۔ میں تو آپ کے ان مضامین کو پبلک پرا پرٹی سمجھتا تھا ، لہٰذا آپ مجھے عدالت کے جس کٹہرے میں کھڑا کر نا چاہیں ، میں کھڑا ہونے کو تیار ہوں ۔جواباً میں نے اُنہیں عرض کیا:میں نے اپنے ان مضامین کو تصحیح و تہذیب، حک و اضافہ،تنقیح و تخریج اور اسلوبِ بیان کی کئی ایک بنیادی تبدیلیوں سے گزارنے کے بعد ایک کتابی شکل دے دی ہے اور وہ قرآن اکیڈمی کے مکتبہ میں زیر طبع ہے اور ہر مصنف ایسا کرتا ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے۔

اس پر پروفیسر صاحب نے حیرانی کا اظہار فرمایا اور مجھے کہنے لگے: آئندہ اس کتاب کی اشاعت نہیں ہو گی اور اب بھی جو اشاعت ہو گئی ہے تواس کتاب کو کس نے پڑھنا ہے؟ لہٰذا آپ زیادہ پریشان نہ ہوں ۔لیکن پروفیسر صاحب کی اس معذرت کے باوجود اسی کتاب پر کسی صاحب نے ماہنامہ'الشریعہ'گوجرانوالہ میں تبصرہ فرمایا ہے۔

اس پر میں یہی کہنا چاہوں گاکہ پروفیسر صاحب نے میری اجازت کے بغیرمیری کچھ تحریریں اپنی کتاب میں شامل کی ہیں اوراس کتاب کو وہ ایک علمی مکالمے کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے، یہ ان کی طرف سے ایک غیر اخلاقی ' غیر شرعی اور غیر قانونی حرکت ہے۔ اس طرح تو جو شخص چاہے ، کسی دوسرے عالم دین' محقق یا طالب ِعلم کی تحریر پر تعلیق و حواشی رقم کرتے ہوئے اس کو شائع کر دے یاصدرِ مجلس بنتے ہوئے اس نام نہاد علمی مکالمے کے آخر میں اپنا تبصرہ شائع کردے تو کیا یہ ایک مناسب حرکت ہو گی؟ پروفیسر صاحب نے یہی حرکت کی ہے۔کچھ میری تحریریں لے لیں ، کچھ اپنی لے لیں اور آخر میں صدرِ مجلس کا فریضہ از خود سر انجام دیتے ہوئے اپنا ایک جامع تبصرہ بیان کیا اور اسے علمی مکالمے کے نام سے کتابی شکل میں شائع فرمادیا۔ بہر حال پروفیسر صاحب عمر کے جس حصے میں ہیں ، ان کو عدالت کے کسی کٹہرے میں کھڑا کرنا ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ اللہ ان کو اور ہم سب کو ہدایت دے اور حقیقت اور حق کو بیان کرنے کی توفیق دے۔


حوالہ جات
1. ماہنامہ اشراق: مارچ 2009ء، ص 67
2. حجاب المرأة المسلمة از علامہ البانی رحم اللہ علیہ : ص 5
3. حجاب المرأة المسلمة: ص 8
4. حجاب المرأة المسلمة: ص 27
5. چہرے کا پردہ واجب یا غیر واجب': از پروفیسر خورشید عالم، طبع دار التذکیر
6. حجاب المرأة المسلمة:ص 7
7. أصول الفقه الإسلامي للدکتور وھب الزحیلي:1؍76، طبع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ