جدید طریقہ تصویر سازی کا حکم

دورِجدید میں 'ڈیجیٹل سسٹم' کے نام سے ایک نیانظام متعارف ہواہے۔ یہ نظام اپنی فنی تکنیک میں سابقہ تصویر ی نظام سے قدرے مختلف ہے،کیونکہ پرانے نظام میں پہلے کیمرے کے ذریعے کسی منظرکاعکس لے کرریل پر محفوظ کیاجاتاتھااورپھراسے کیمیائی عمل سے گذاراجاتا اور پھر کسی پردے یاکاغذوغیرہ پرتصویر کوحاصل کیا جاتاتھا۔ جب کہ اس نئے نظام میں کسی منظرکی روشنیوں کو ہندسوں کی صورت میں محفوظ کرلیاجاتاہے اورپھراس محفوظ شدہ معلومات کی مدد سے نئی روشنیاں پیداکرکے اصل جیسامنظرپیداکیاجاتاہے ۔

قدیم اور جدید نظام کا فرق
کوئی بھی کیمرہ ہو، خواہ ڈیجیٹل ہو یا نان ڈیجیٹل؛ تصویرکشی کرتے وقت پہلے مرحلے میں شبیہ حاصل کی جاتی ہے، جب کہ دوسرے مرحلے میں محفوظ کی جاتی ہے اورتیسرے مرحلے میں اسکرین یاپردے پرظاہرکی جاتی ہے ۔گویا حصولِ شبیہ ،حفظ ِشبیہ اور اظہارِ شبیہ ان تین مراحل سے گذر کر تصویر مکمل ہو تی ہے۔

ڈیجیٹل کیمرہ ہویاروایتی کیمرہ، شبیہ حاصل ہونے کابنیادی سائنسی اُصول آج بھی وہی ہے جواوّلین کیمرے کی ایجاد کے وقت تھا،اس میں سرمو فرق نہیں آیا۔ البتہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ طریقۂ حفاظت میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ پرانے طریقہ تصویر سازی میں عکس لے کر اسے فیتے پرنقش کرکے محفوظ کیاجاتاتھا،جب کہ ڈیجیٹل سسٹم میں کیمرے میں داخل ہونے والی روشنیوں کاعلم اعداد کی صورت میں محفوظ کرلیاجاتاہے اورپھرجس طرح کی روشنیوں کو بصورتِ اعداد محفوظ کرلیا گیا ہو، اسی طرح کی نئی روشنیاں پیداکی جاتی ہیں۔ یہ روشنیاں جب اسکرین پر جمع ہو تی ہیں تو ان کے اجتماع سے اسکرین پرتصویرنظر آتی ہے ۔

اب تک جوکچھ بیان ہوا،اس کاخلاصہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل تکنیک کے ذریعے پہلے ہندسوں کی صورت میں ڈیٹا (معلومات) محفوظ کی جاتی ہیں اورپھران معلومات کی مددسے اصل کے مشابہ شکل وجود میں لائی جاتی ہے ۔

حکم: ٭ ہماری تحقیق کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تحت بنائے گئے مناظرکو 'تصاویر' کہاجائے گا،جس کی وجوہات درج ذیل ہیں :
شریعت کا منشا جاندار کی شبیہ محفوظ کرنے سے روکنا ہے، یہی 'مناط' اور علت ہے۔کیونکہ طویل انسانی تاریخ بتلاتی ہے کہ یہی چیز فتنے کا باعث بنتی ہے۔ ڈیجیٹل سسٹم میں بھی شبیہ کو محفوظ کرنے کی قباحت پائی جاتی ہے۔


تصویر سازی کی روح اصل کی نقل و حکایت اور اصل جیسا منظر پیش کرنا ہے، انسانی تاریخ میں اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے گئے، ان طریقوں میں سے ڈیجیٹل سسٹم اب تک کی سب سے ترقی یافتہ اور اعلیٰ شکل ہے۔ گو یا نظام نے ترقی کی ہے، آلات کی شکلیں بدلی ہیں ، طریقہ کار مختلف ہو اہے، لیکن بنیادی حقیقت اور مرکزی نقطہ اب بھی و ہی ہے کہ اصل کی مانند منظر پیش کیا جائے ۔


نئے اور پرانے نظام میں فرق صرف طریقۂ حفاظت کا ہے، تصویر سازی کی روح اور حقیقت دونوں میں مشترک ہے۔ جب پرانے نظام کے تحت بنائے گئے مناظر کو اکابر نے تصویر قرار دیا تو جدید نظام کے تحت بنائے گئے مناظر کو بھی 'تصویر' کہا جائے گا، کیونکہ جب حقیقت میں دونوں مشترک ہیں تو حکم میں بھی دونوں کومشترک ہو نا چاہیے۔


ڈیجیٹل مناظرکے پس پشت بھی تصویرسازی کے جذبات اورمحرکات ہیں اورنتائج ومقاصد کے حصول میں بھی ڈیجیٹل نظام پرانے طریقہ کار کے برابرہے بلکہ اس سے کہیں بڑھ کرہے۔ اس لئے دونوں نظاموں کے تحت بنائے گئے مناظر کو تصویر کہا جائے گا۔

عرف ایک دلیل شرعی ہے، کیونکہ اجماعِ عملی کی ایک قسم ہے۔ عام لوگ اپنی بول چال میں کمپیوٹر،ٹی وی اورموبائل پر ظاہر ہونے والی شکلوں کو تصویرکہتے اور سمجھتے ہیں۔شریعت نے عرفِ متفاہم کو حجت قراردیا ہے، اس لئے عام عرف کو دیکھتے ہوئے یہ مناظر بھی 'تصویر' کہلائیں گے ۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے اور اس کاانکاربداہت کاانکارہے !

عرف کی طرف رجوع کی ضرورت اس بنا پر ہے کہ جاندارکی تصویرکی حرمت تو ہے، مگرتصویر ہے کیا؟... شریعت نے تصویرکی کوئی نپی تلی تعریف نہیں کی ہے ۔ایسے اُمورجن کی شریعت نے تحدید و تعیین نہ کی ہو،ان میں عرف کو دیکھاجاتاہے اورعرف میں ٹی وی؍ مانیٹروغیرہ پر ظاہر ہونے والی شبیہ کو 'تصویر' ہی کہا جاتا ہے اور عوام و خواص دونوں ہی اسے تصویرہی سمجھتے ہیں۔

کتب ِلغت کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ تصویرکی حقیقت اصل کے مشابہ ہیئت اورشبیہ بناناہے ۔تصویر کی یہ حقیقت جدید ڈیجیٹل سسٹم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ تصویر پر حقیقت کا اور نقل پر اصل کا گمان ہو تا ہے۔

اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ لغت کی رو سے ڈیجیٹل تصویر، تصویر ہی ہے۔ اگر کسی صاحب علم کو اسے لغت کی رو سے تصویر کہنے میں تامل ہو تو کوئی حرج نہیں، ہمارا استدلال پھر بھی قائم رہتا ہے ۔پہلے گذر چکا کہ عرف میں ٹی وی، مانیٹر اور موبائل پر ظاہر ہونے والی شکلوں کو تصویر سمجھا جاتا ہے اور جب لغت اور عرف میں ٹکرائو ہو تو پلہ عرف کا بھاری رہتا ہے ۔عرف کو لغت پر فوقیت حاصل ہے ۔ اُصولِ فقہ کے علما نے تو یہ بھی صراحت کی ہے کہ قیاس کے ذریعے تو لغت کا اثبات جائز نہیں، مگر عرف کے ذریعے جائز ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ از روے لغت بھی ڈیجیٹل طریقے کے مطابق بنایا گیا منظر' تصویر' ہے ۔

امریکہ میں ایک شخص پر اس بنا پر فردِ جرم عائد کی گئی کہ اس نے بچوں کی کچھ فحش ڈیجیٹل تصاویرمحفو ظ کر رکھی تھیں ،اورکچھ کو بذریعہ کمپیوٹر نشرکر دیا تھا۔ ملز م نے ا علیٰ عدالت میں اپیل کی اور یہ عذر پیش کیا کہ ایسی تصاویرقانون کی رو سے ممنوع تصاویر نہیں، لیکن عدالت ِاپیل نے اس کا یہ موقف مسترد کیا اور اپنے فیصلے میں 'کمپیوٹر تصاویر' کو تصویرہی قرار دیا۔

٭ علاوہ ازیں اسکرین پر جو صورت نمودار ہو تی ہے وہ یاتو عکس ہے یا تصویر ہے،لیکن اسے عکس کہنا درست نہیں کیونکہ:
الف) عکس صاحب ِ عکس کے تابع ہو تا ہے۔جب کہ ڈیجیٹل تصویر ایک مرتبہ بننے کے بعد اصل کے تابع نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ جو لوگ مر کھپ گئے ہیں، ان کی تصویر یں دیکھنا آج بھی ممکن ہے ۔جب کہ عکس صاحب ِ عکس کے ہٹتے ہی غائب ہو جاتا ہے۔

ب)عکس کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز پر جو روشنی پڑتی ہے، وہی روشنی اپنی حالت کو برقرار رکھتے ہوئے ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے۔ جب کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت تصویر سازی کرتے وقت روشنیوں کو برقی لہروں میں بدل دیا جاتا ہے، یہ لہریں رموز کی صورت میں پوشیدہ رہتی ہیں اور جب منظر کے اِظہار کا وقت آتا ہے تو انہی رموز کی مدد سے کم و بیش قوت کی نئی برقی لہریں پیدا کی جاتی ہیں اور اصل منظر کے مشابہ منظر وجود میں لایاجاتاہے۔

اس تجزیئے سے واضح ہوا کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت جو روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے، وہ روشنی اصل منظر پر پڑ کر منعکس ہونے والی روشنی نہیں ہو تی اور نہ ہی وہ روشنی اپنی حالت پر برقرار رہتی ہے۔اس لئے ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائے گئے مناظر میں اور عکس میں فنی وجوہ سے فرق ہے، ایسے مناظر کو عکس کہنا درست نہیں۔

ج) جس طرح کی تصویر سازی جس زمانے میں رائج تھی، فقہا نے اسی کے مطابق تصویر کی تعریف کی ہے۔فقہا کی تعریفات کا قدرِ مشترک یہی ہے کہ اصل منظر جیسی شبیہ بنانا تاکہ اصل کا تصور حاصل ہو جائے۔ لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جو بھی طریقہ کاراختیار کیا جائے گا یا جو بھی آلات استعمال کئے جائیں گے، اس سے حکم شرعی میںکوئی فرق نہیں پڑے گا،کیونکہ آلات اور ذرائع غیر مقصود ہوتے ہیں۔

٭ کمپیوٹر پہلے پہل صرف حساب و کتاب کے لئے ڈیزائن کیا گیاتھا، خود کمپیوٹر کا مطلب بھی حساب کتاب یا گننا و شمار کرنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کا فی عرصے تک کمپیوٹر کا ماحول تحریر Text رہا یعنی ہم کمپیوٹر پر صرف اَعداد و حروف ہی دیکھ سکتے تھے ۔مگر جب سے Windows کے پروگرام آئے ہیں، کمپیوٹر، آواز اور تصویر کی رنگ برنگی دنیا میں پہنچ گیا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کمپیوٹر پر تحریر ہو یا تصویر، دونوں روشنی کے چھوٹے چھوٹے نکات کا مجموعہ ہیں ۔ او ر دونوں کی پائیداری اورنا پائیداری یکساں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ کمپیوٹر اور موبائل پر لکھی جانی والی تحریر تو تحریر ہے، مگر ٹی وی اور موبائل پربنائی جانے والی تصویر، تصویر نہیں!

ایک شخص اپنی بیوی کو بذریعہ'ایس ایم ایس' یا 'ای میل' طلاق بھیجتا ہے تو کوئی بھی فقیہ اس کی تحریر کو پانی یا ہوا پر لکھی جانے والی تحریر قرار دیکر غیر مؤثر نہیں کہتا ۔

اس مثال سے یہ نقطہ بھی خوب واضح ہوگیا کہ جس طرح پرانے زمانے میں کتابت کے لئے کاغذ، لکڑی،چمڑا، اور ہڈی وغیرہ ٹھوس اشیا استعمال ہو تی تھیں اور آج کمپیوٹر اور موبائل پر بھی تحریر لکھی جاتی ہے، اسی طرح زمانۂ قدیم میں کاغذ، دیوار یا کپڑے وغیر ہ ٹھوس اشیا پر تصویر بنائی جاتی تھی اور آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تحت ٹی وی اور موبائل پر بھی بنائی جاتی ہے۔

خلاصۂ بحث یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائی گئی شبیہ بھی تصویر ہے اور اس پر تصویر کے احکام جاری ہوں گے ۔تفصیلی دلائل، ماہرین کی آرا اور کتب کے حوالہ جات کے لئے دار الافتا جامعہ علوم اسلامیہ ، بنوری ٹائون کراچی کا رسالہ(زیر طبع) ' ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائے گئے مناظر کا شرعی حکم' ملاحظہ کیجئے۔

مروجہ اسلامی بینکاری اور تصویرکے بارے میں ملک بھر کے جیدعلما کرام اور مفتیانِ عظام کا متفقہ فتوی
گزشتہ چند سالوں سے اسلامی شرعی اصطلاحات کے حوالے سے رائج ہونے والی بینکاری کے معاملات کا قرآن وسنت کی روشنی میں ایک عرصے سے جائزہ لیا جارہا تھا اور ان بینکوں کے کاغذات فارم اور اُصولوں پر غوروخوض کے ساتھ ساتھ اکابر فقہا کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا جاتا رہا تھا۔

بالآخر اس سلسلے میں حتمی فیصلے کے لئے ملک کے چاروں صوبوں کے اہل فتویٰ علماے کرام کا ایک اجلاس مورخہ28؍اگست2008ء مطابق۲۵؍شعبان المعظم 1429ھ بروز جمعرات حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کی زیر صدارت جامعہ فاروقیہ کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں شریک مفتیانِ عظام نے متفقہ طور پر یہ فتویٰ دیا کہ اسلام کی طرف منسوب مروّجہ بینکاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔ لہٰذا ان بینکوں کے ساتھ اسلامی یا شرعی سمجھ کر جو معاملات کئے جاتے ہیں، وہ ناجائز اور حرام ہیں اور ان کا حکم دیگر سودی بینکوں کی طرح ہے۔

اس اجلاس کے شرکا نے اس بات پر بھی اتفاق کا اظہار کیا کہ جدیدیت کی رو میں بہہ کر تصویر کی حرمت کا حکم نہیں بدلا جاسکتا ہے۔ جان دار کی تصویر کی جتنی اور جو شکلیں اب تک متعارف ہوئی ہیں، عرف وعادت، لغت اور شرعی نصوص کی رو سے وہ سب تصویر کے حکم میں ہیں۔ آلاتِ صنعت وحرفت کے بدلنے سے تصویر کے شرعی احکام نہیں بدلتے۔ اس لئے جو حکم شریعت میں تصویر کا منقول ہے، تصویر کی تمام شکلیں اس حکم کے تحت داخل ہیں۔ اس لئے تصویر کی اباحت اور جواز کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کسی قسم کے ٹی وی چینل کا اِجرا یا علماے کرام کا ٹی وی پر آنا اور اسے تبلیغ دین کی ضرورت کہنا اورسمجھنا شریعت کی خلاف ورزی ہے اور جدیدیت واباحیت کی ناجائز پیروی ہے۔

مسلمانوں پر واجب اور لازم ہے کہ دیگر حرام اور خلافِ شرع اُمور کی طرح ان سے بھی بچنے کا بھر پور اہتمام فرمائیں۔

دستخط کرنے والے مفتیانِ عظام

  • حضرت شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان صاحب، جامعہ فاروقیہ، کراچی
  • حضرت مولانا مفتی غلام قادر صاحب ،دار العلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک ،سرحد
  • حضرت مفتی حمید اللہ جان صاحب، جامعہ اشرفیہ لاہور،پنجاب
  • مولانا مفتی احتشام اللہ آسیا آبادی ، جامعہ رشیدیہ آسیا آباد ،تربت مکران بلوچستان
  • حضرت مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری صاحب، جامعہ علومِ اسلامیہ ، بنوری ٹاون کراچی
  • حضرت مولانا مفتی سعد الدین صاحب،جامعہ حلیمہ لکی مروت ،سرحد
  • حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب، جامعہ خیر المدارس ملتان ،پنجاب
  • حضرت مولانا گل حسن بولانی صاحب، جامعہ رحیمیہ سر کی روڈ کوئٹہ ،بلوچستان
  • حضرت مولانا مفتی زرولی خان صاحب، جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال ،کراچی
  • حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ،کراچی
  • حضرت مولانا مفتی حامد حسن صاحب، دار العلوم کبیر والا،پنجاب
  • حضرت مولانا مفتی روزی خان صاحب، دار الافتاء ربانیہ کوئٹہ ، بلوچستان
  • حضرت مفتی حبیب اللہ شیخ صاحب، جامعہ اسلامیہ کلفٹن ،کراچی
  • مولانا مفتی عبدالقیوم دین پوری صاحب، دار الافتائ، مجلس تحفظ ختم نبوت،کراچی
  • حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب ، جامعہ خلفاے راشدین کراچی
  • مفتی ڈاکٹر عبدالواحد صاحب، جامعہ مدنیہ لاہور،پنچاب و دیگران