مروجہ اسلامی بینکاری اور جمہور علماء کا موقف

اسلام کی طرف منسوب مروّجہ بینکاری نظام کو ملک کے جمہور اہل فتویٰ، خلافِ شریعت قرار دیتے ہیں۔ اس رائے کے متفقہ اظہار کے لئے 25؍شعبان المعظم 1429ھ بمطابق 28؍اگست2008ء کو ملک کے چاروں صوبوں کے مشہور و معروف اربابِ فقہ و فتاویٰ کاایک اجتماع شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کے زیر صدارت، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں منعقد ہوا۔ اجتماع کے شرکا، تمام اہل فتویٰ حضرات نے قرآن و سنت، فقہ و فتاویٰ اور احوالِ واقعی کی روشنی میں بغور جائزہ لینے کے بعدمروّجہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے اپنے جس موقف کا اظہار کیا، اس موقف کاخلاصہ درج ذیل ہے :1

اسلام کی طرف منسوب بینکاری نظام کو ہم خالص غیر اسلامی نظام سمجھتے ہیں، بلکہ بعض حیثیتوں سے اس نظام کو روایتی بینکاری نظام سے زیادہ خطرناک اور ناجائز سمجھتے ہیں، اس نظام کو غیر اسلامی کہنے کی دو بنیادی وجہیں ہیں:
مروّجہ اسلامی بینک مجوزہ اسلامی طریقہ کار پر کاربند نہیں۔


جو مجوزہ طریقہ کار برائے تمویل طے پایا تھا، وہ طریقہ بھی شرعی اعتبار سے کئی نقائص کا حامل ہے۔ تفصیل ملاحظہ ہو:


پہلی وجہ
مروّجہ اسلامی بینکاری کو جائز قرار دینے والوں نے جو فقہی بنیادیں، مروّجہ اسلامی بینکاری کے لئے مسلم بینکاروں کو فراہم کی تھیں اور جن شرائط کے ساتھ فراہم کی گئی تھیں، عملی طور پر مروّجہ بینکاری نظام فراہم کردہ بنیادوں پر نہیں چل رہا، بلکہ ان اسلامی بنیادوں کو ان کے مطلوبہ معیارات پر بھی استعمال نہیں کیا جارہا، جس کے نتیجہ میں مروّجہ اسلامی بینکاری، روایتی بینکاری سے اپنا جداگانہ اسلامی تشخص قائم کرنے میں شروع سے ناکام چلی آرہی ہے اور ایسے نازک طریقوں پر پیش قدمی کررہی ہے کہ جن طریقوں پر چلتے ہوئے اسلامی بینکاری روایتی بینکاری سے قطعاً ممتاز نہیں ہوسکتی ،جس کی وجہ سے آخری نتیجہ مادی طور پر سودی معاملات سے مختلف نہیں ہو رہا ،اس پر تین ناقابل تردید شہادتیں ملاحظہ ہوں:

پہلی شہادت: مروّجہ اسلامی بینکوں کے مجوزین علماے کرام اورمروّجہ اسلامی بینکاری سے وابستہ حضرات یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی بینکاری کی حقیقی اور اصلی بنیادیں شراکت اورمضاربت ہیں اورمروّجہ مرابحہ واِجارہ محض حیلے ہیں، جنہیں محدود وقت اور عبوری دور کے لئے مشروط طور پر جائز اور قابل عمل قرار دیا گیا تھا، مروّجہ مرابحہ واِجارہ بالاتفاق اسلامی بینکاری کی مستقل مثالی بنیادیں ہرگز نہیں ہیں، بلکہ اُنہیں مستقل بنیادبنانا بھی سودی حیلہ ہونے کی بنا پر ناجائز اور خلافِ شرع ہے، مگر اس کے باوجود ہمارے بینکار حضرات شراکت ومضاربت کی بجائے مروّجہ اِجارہ ومرابحہ پر جم کر بیٹھ چکے ہیں اور ان کے خطرناک ہونے اور سودی حیلہ ہونے اور روایتی معیارات کے فریم ورک میں استعمال ہونے، نیز مادی طور پر سودی معاملہ ہونے کے باوجود ان حیلوں کو ترک کرنے کے لئے آمادہ نہیں، کیونکہ مروّجہ اجارہ ومرابحہ کوروایتی معیارات کے فریم ورک میں استعمال کرنے سے بعینہٖ روایتی بینکاری کی ایسی شکل وصورت اور خاصیت وافادیت کا نتیجہ برآمد ہوتاہے جو ہر بینکار کے لئے قابل قبول ہے۔

اس کے مقابلہ میں شرکت ومضاربت کا عنصر اسلامی بینکوں میں قلیل کالمعدوم کے درجہ میں ہے اور نفع و نقصان میں شرکت کے اسلامی اُصولوں کی وجہ سے شرکت ومضاربت مروجہ بینکوں کے لئے کسی قسم کی دلچسپی کا ذریعہ نہیں ہیں، اس لئے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مروّجہ اسلامی بینکاری اپنی فراہم کردہ اصل بنیادوں سے ایسی ہٹی ہوئی ہے کہ اس کا اصل بنیادوں کی طرف بڑھنا محال کے درجہ میں صاف نظر آرہاہے۔کیونکہ اسلامی بینک کی حقیقی بنیادیں ایک طرف جب کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کا رخ مخالف سمت میں ہے۔

دوسری شہادت: یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے پشتیبان حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی جن کے فتویٰ اورشخصیت پر اس سلسلہ میں اعتماد کیا جاتا ہے، وہ اس بینکاری نظام سے سخت نالاں اور مایوس ہیں جس کا اظہار اُنہوں نے مختلف تحریروں اور بیانات میں فرمایا ہے، انہی مایوسیوں کے نتیجہ میں وہ اس نظام سے رفتہ رفتہ دورہونے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں اور برملا یہ ارشاد بھی فرماچکے ہیں کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کاپہیہ اب اُلٹا چلنے لگا ہے۔ (مولانا مد ظلہ کے اس بیان کی کیسٹ اور سی ڈی ہمارے پاس محفوظ ہے۔)

جس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں بیان کیا جاسکتا کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کو شروع سے غیر اسلامی کہنے والے حضرات کے خدشات اور اندیشے تو بالکل درست ہی ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ جو حضرات ان بینکوں کی بہتری اور اسلام سے ہم آہنگ ہونے کی توقع کررہے تھے اوراسلامی بینکاری سے نیک خواہشات وابستہ کئے ہوئے تھے، وہ بھی اس کی بہتری اور اسلام سے ہم آہنگی کا تصور اب محض ایک ادھورا خواب سمجھنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ اگر مروجہ اسلامی بینک اپنے مجوزہ مطلوبہ شرعی معیار پر کام کر رہے ہوتے تو ہمارے ان بزرگوں کو مایوسیوں کا سامنا ہوتا ،نہ ہمارے بینکار حضرات کو ان کے شکوے سننے پڑتے۔

تیسری شہادت : ان لا تعداد عوام الناس اور دانشوروں کی ہے جنہوں نے روایتی اور مروّجہ اسلامی دونوں بینکوں سے اپنے معاملات رکھے ،مگر وہ کسی بھی طور پر دونوں کے درمیان کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ فرق بھی تلاشِ بسیار کے باوجود محسوس نہیں کرپائے، حالانکہ اس طبقہ میں ایک عام اکاؤنٹ ہولڈر سے لے کر بڑے سے بڑے اقتصادی ماہرین اور نامور بینکار حضرات تک بھی شامل ہیں جن کے بارے میں بلاخوفِ تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بینکاری نظام، اس کی باریکیوں اور اکائیوں سے اتنی گہرائی اور گیرائی کا تعلق رکھتے ہیں کہ اس میدان میں ان کی معلومات کا پہلا زینہ ہمارے جدید اسلامی بینکاروں کی آخری منزل کے بعد شروع ہوتاہے۔ ان ماہرین نے بینکاری نظام، صرف رسائل وجرائد یا اسباق ودروس کے ذریعہ نہیں سیکھا، بلکہ ان کی زندگی کا کارآمد عرصہ ان بینکوں میں گذرا ہے، اس کے باوجود اُنہیں روایتی اور اسلامی بینکوں کے درمیان چند اسلامی اصطلاحوں کے علاوہ کوئی فرق محسوس نہیں ہوسکا، جو اس بات پر شہادت ہے کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کا عملی طریقہ کار فراہم کردہ اسلامی بنیادوں کی بجائے روایتی بینکوں کے سرمایہ کاری کے طریقوں پر چل رہا ہے، اس لئے روایتی اور اسلامی بینکوں میں صرف چند اصطلاحوں کا لفظی فرق ہے، عملی طریقہ کار اور اہداف واغراض میں دونوں یکساں ہیں۔

دوسری وجہ
مروجہ اسلامی بینکاری کو خلافِ اسلام کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کے لئے فراہم کردہ بنیادیں بھی بایں طور سقم سے خالی نہیں کہ ان بنیادوں کی تطبیق، تشریح ، تعبیر، استدلال اور طرزِ استدلال میں مروجہ بینکاری کے مجوزین حضرات نے شرعی اعتبار سے خطرناک قسم کی ٹھوکر یں کھائی ہیں۔مثلاً:

ان حضرات کے استدلال اور طرزِ استدلال میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ بینکاری کے لئے مفید تجارتی شکلوں کو اسلامائز کرنے کے لئے کئی فقہی اصطلاحوں میں قطع وبرید کی گئی ہے، خلافِ ضابطہ ضعیف اور مرجوح اقوال پر اعتمادد وانحصار کیا گیا ہے۔ ایک ہی معاملہ میں شرعی تقاضے پورے کئے بغیر مذہب ِغیر کی طرف جانے کی روش کو مباح سمجھا گیا جو کہ تمام مذاہب فقہ کے ہاںتلفیق محرم (مختلف اقوال کو ملانے کی حرمت) ہوکر بالاجماع باطل ہے، اسی طرح حسب ِ منشا کسی تجارتی شکل کواسلامی شکل ثابت کرنے کے لئے اور اسلامی لبادہ پہنانے کے لئے صحیح، صریح اور واضح شرعی احکام سے عمداً صرفِ نظر کرتے ہوئے، دور اَزکار تاویل در تاویل کا طریقہ کار اختیار فرمایا گیا جسے علماے شریعت نے شریعت کی توہین،تعطیل اور شرعی احکام کا مذاق قرار دیاہے، کیونکہ یہ طرزِ عمل تاویل فاسد کے زمرے میں آتا ہے۔

بینکوں میں رائج کردہ مرابحہ و اجارہ محض حیلے ہیں، یہ اسلامی تمویلی طریقے بالاتفاق نہیں اس کے باوجود ان حیلوں کو مستقل نظام بنانا ناجائز ہے۔ ایسے حیلوں کے ذریعے انجام پانے والا معاملہ بھی ناجائز ہی کہلاتا ہے۔جیسے امام محمدؒ کے ہاں بیع عینہ کا حیلہ ناجائز ہے، اسی طرح مروجہ مرابحہ و اجارہ کے حیلے اور ان کو ذریعہ تمویل بنانا بھی ناجائز ہے۔ اسلامی بینکاری کے مجوزین نے اس طرح کے واضح احکام کو تاویل در تاویل کے ذریعے نظر انداز فرمایا جبکہ دوسری طرف اسلامی بینکوں کے مالی جرمانہ کے جواز کے لئے ابن دینار مالکی ؒ کے مرجوح متروک کالمعدوم قول پر اعتمادکیا گیا حالانکہ اس قول پر عمل کرنا شرعاً و اصولاًجائز بھی نہیں تھا،مگر اسلامی بینکاری کے مجوزین نے ان شرعی اُصولی نزاکتوں سے قصداً چشم پوشی فرمائی ہے، ورنہ یہ واضح احکام ان سے ہر گز پوشیدہ نہیں تھے۔

مروّجہ اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ او رمرابحہ فقہیہ میں کوئی مماثلت نہیں۔مرابحہ فقہیہ میں ابتدا سے قیمت و ثمن کا متعین ہو کر ذمے میں آنا اور لاگت کا یقینی علم اوروجود ضروری ہے جبکہ بنکوں میں رائج مرابحہ میں بینک ثمن کی ادائیگی پہلے نہیں کرتا یا لاگت کا وجودہی نہیں ہوتا۔ اس لئے بینکی مرابحہ، اصطلاحی مرابحہ تو درکنار عام کسی بیع کے تحت بھی نہیںآ تا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے معاملہ کو مرابحہ کا نام دینا شرعاً خیانت کہلاتا ہے اور ناجائز شمار ہو تا ہے، مگر مروجہ اسلامی بینکاری میں اسی خیانت کو 'مرابحہ' کے نام سے رواج دیا گیا ہے۔

مروجہ اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ میں بینک کا کاغذی معاہد ہ جس پر پیشگی دستخط ہو چکے ہیں، وہی اصل ہے۔ اس کے بعد وکالت کے مختلف مراحل شرعی اعتبار سے وکالت ہرگز نہیں بن سکتے بلکہ لین دین کی ذمہ داری ایک شخص کے گرد گھومنے کی وجہ سے صراحتاً وکالت ِفاسدہ ہے۔ اس لئے وکالت کا یہ طریقہ کار شرعاً محض کاغذوں کی لکیریں اور لفظی ہیراپھیری ہے۔ حقیقت میں ایک ہی فرد بائع اور مشتری بن رہا ہے جو کہ صراحتاً خلافِ شرع ہے۔ اس مرابحہ کا شرعی اصطلاحی مرابحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس بینکی مرابحہ خالصتاً سودی حیلہ ہے اور ان بینکوں کا نفع ربح نہیں، ربو ٰہے۔

مروّجہ اِجارہ میں عاقدین کا بنیادی مقصد اجارہ کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ خریداری کا معاملہ کرنا مقصود ہو تا ہے۔ قاعدہ و قانون کی رو سے حکم، اصل مقصد (بیع) پر ہی لگے گا نہ کہ الفاظ(اجارہ) پر۔اس سے اس معاملہ کو اگر بیع کہا جائے تو یہ بیع مشروط بالاجارہ ہے جو خلافِ شریعت ہے۔

مروّجہ اجارہ میں اُجرت کی شرح کی تعیین اور تناسب کے لئے روایتی سود کی شرح کو معیار بنانا ہی بنیادی طور پر غلط ہے ۔ کیونکہ یہ سودی معاملات کے ساتھ اوّلاً مشابہت ،ثانیاً اشتباہ بھی ہے۔ دوسرے یہ کہ روایتی سود کی شرح مختلف اوقات میں بدلتی رہتی ہے یا افراطِ زر کی وجہ سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ایسا اجارہ جس میں اُجرت کی شرح و تناسب یقینی طور پر پیشگی معلوم نہ ہو، وہ ناجائز ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اسلامی بینکار حسب ِعادت یہاں بھی اصل احکام کو چھوڑ کر خلافِ شریعت طریقوں کو شرعی جواز فراہم کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔

اسی طرح مروّجہ اجارہ یا کسی بھی عقد میں قسطوں کی ادائیگی یا تاخیر کی صورت میں گاہک سے اِجباری صدقہ کر وانااور لینا دونوں شرعاً، عرفاً،قانوناً اور عقلاً صدقہ نہیں بلکہ جرمانہ ہے جوکہ بلاشبہ ناجائز ہے اورخالص سودی ہے، بلکہ جس فقہی عبارت سے بعض اہل علم نے اس کا جواز ثابت فرمایا ہے، خو د اسی عبارت سے اس جرمانے کا صریح سود ہو نا ثابت ہو تا ہے۔کیونکہ یہ صدقہ بینک کے مقاصد کے لئے بینک کی شرائط اور ترجیحات کی لازمی رعایت کے ساتھ اس کے مجبور کرنے پر گاہک کوبینک کے لئے ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے میں بھی مروّجہ اسلامی بینکاری کے مجوزین کو سہواً یا عمداً بہت بڑا مغالطہ لگا ہے کہ اُنہوں نے بینک کی ایک غیر شرعی ضرورت کو شرعی ثابت کرنے کے لئے بہت دور کی بات، بہت دور سے ثابت فرمانے کی کوشش فرمائی ہے جس کی بالکل گنجائش نہیں تھی، حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ جہاں جبر ہو وہ صدقہ نہیں۔ جہاں اصطلاحی صدقہ ہو ، وہاں جبر نہیں ہو سکتا ۔

اسی طرح اجارہ اورمروّجہ بینکوں کے دیگر عقود میں سکیورٹی ڈپازٹ کی قانونِ شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔اِصطلاحی شرک و مضارب ،اجارہ ، مرابحہ وغیرہ یہ سب امانات کے قبیل سے ہیں نہ کہ ضمانات کے قبیل سے،جبکہ سکیورٹی (رہن) صرف ضمانات پہ لی جاسکتی ہے، وہ بھی سیکورٹی (رہن)کے احکام کے مطابق۔ جبکہ ہمارے اسلامی بینکوں میں رائج سیکورٹی نہ رہن ہے نہ قرض ہے، نہ امانت ہے ۔بلکہ دوسرے کے مال سے فائدہ اٹھانے کے لئے خلافِ شرع حیلہ اور بہانہ اور تلفیق بھی ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے ۔

مروّجہ اسلامی بینک شرکت و مضاربت کو اصلی حقیقی بنیادیں تسلیم کرلینے کے باوجود وہ بھی ان اصلی بنیادوں پر سرمایہ کاری بھی نہیں کررہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرکت و مضاربت کا تناسب، اجارہ و مرابحہ کے مقابلے میں ایک سروے اور محتاط اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ صرف پندرہ سے بیس فیصد ہے۔ بالفرض اگر پچاس فیصد بھی مان لیا جائے تو ما اجتمع حلال وحرام إلا غلب الحرام الحلال (حلال و حرام جب بھی جمع ہوئے حرام حلال پر غالب رہا) کے پیش نظرنیز احوالِ واقعی کے مطابق سرمایہ کاری کے حلال طریقے قلیل کالمعدوم ہوں، اور غیر شرعی طریقوں کا عنصر زیادہ ہو تو ایسا ملغوبہ طریقۂ تمویل غیر شرعی ہی کہلا تا ہے۔ اس لئے مروجہ اسلامی بینکوں کے طریقۂ تمویل کو شرعاً جائز کہنے کی کوئی اُصولی گنجائش موجود نہیں اس کے باوجود اسے جائز کہا جاتا ہے اور اس کا جواز جتلایا بھی جاتا ہے۔

مروّجہ مشارکہ و مضاربہ میں خلافِ شرع معاہدات طے ہوتے ہیں ،مثلاً ایک اسلامی بینک میں اکائونٹ کھلوانے والے کو جو فارم پر کرنا پڑتا ہے، اس میں بینک کی شرائط، پالیسی اور بینک سے متعلق وہ سارے قوانین و اعلانات بلا تفصیل ماننے ہوں گے جو بینک کرے گا۔ نیز جو قواعد اور اعلانات 'بینک دو لت آف پاکستان' جاری کرے، اس کی پابندی کا عہد بھی لیا جاتاہے۔ حالانکہ اسلامی بینک کے اعلانات اور پالیسیاں بدلتے رہتے ہیں،یکساں نہیں ہوتے۔ ایسے مجہول اور غیرمعلوم اعلانات کا گاہک کو پیشگی معاہدے کے ذریعہ پابندبنانا شرعاً جائز نہیں اور مجہول و غیر معلوم شرائط اور ذمہ داریوں والا معاملہ شرعاً فاسد کہلاتا ہے نہ کہ صحیح اور جائز۔

اسی طرح مسلما ن گاہک کو بینک دولت آف پاکستان کے اعلانات اور پالیسیوں کا پابند بنانا بھی بالکل ناجائز ہے، کیونکہ اسٹیٹ بینک کا غیراسلامی مزاج اور شرعی احکام کی خلاف ورزی کا معاملہ سورج کی طرح واضح ہے۔

فائدہ:بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ بینک دولت آف پاکستان نے اسلامی بینکوں کو اپنی پالیسیاں، اسلام کے مطابق بنانے اور سرمایہ کاری کرنے کے لئے تحریری اور قانونی طور پر کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کے غیراسلامی مزاج سے قطع نظر ہم ان حضرات کی اس بات کو تسلیم کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمارے مروّجہ اسلامی بینک اپنی اصلی اور حقیقی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرنے کے لئے عملاً و قانوناً آزاد ہونے کے باوجوداسلامی بینکاری کی اصلی بنیادوں یعنی مشارکہ و مضاربہ کی بنیاد پر سرمایہ کاری کو قصداً و عمداً وسعت نہیں دے رہے۔ اگر بینک دو لت آف پاکستان کی طرف سے رکاوٹ بننے کا عذر ہو تا تو بھی کسی حد تک اسلامی بینکاروں کو مجبورتسلیم کرنے کی گنجائش ہو سکتی تھی، جیسا کہ اب تک بعض علماے اُمت اس مجبوری کے پیش نظرخاموش انتظار کرتے رہے ہیں۔

مضاربہ میں کھاتہ دار ربّ المال اور بینک مضارِب ہوتا ہے۔ مالِ مضاربت میں بینک کا حصہ شرعاً صرف اور صرف حاصل شدہ نفع کی طے شدہ شرح ہے، اس کے علاوہ بینک کے لئے شرعاًاپنے ذاتی انتظامی اخراجات کی مد میں رقم لینا، اسی طرح مختلف فیسیں لینا یاکسی قسم کا معاوضہ اور الائونس، مالِ مضاربت سے منہا کرنا ناجائز ہے۔ مگر اسلامی بینک مضاربہ فیس وغیرہ وصول کرتے ہیں۔ اس کے باوجود مروّجہ بینکوں کو اسلامی کہا جاتا ہے جو کہ خلافِ اسلام کو اسلام کہنے کے مترادف ہے۔

شرکت و مضاربت میں منافع کی تقسیم کا مجوزہ طریقہ کا ربھی، اسلامی تقاضے پورے نہیں کرتا بلکہ منافع کی حقیقی شرح کے بجائے روزانہ پیداوار کی بنیاد پر یا وزن دینے کے نام سے فرضی اور تخمینی شرح طے اور ادا کی جاتی ہے جو کہ شرکت و مضاربت کے اساسی اُصولوں کے سراسر خلاف ہے۔

'شرکت ِ متناقصہ' شرعی اعتبار سے ممنوع مکاسب اور ناجائز بیوع کے زمرے میں داخل ہے۔اس عقد میں صفق في صفقہ (معاملہ در معاملہ) بیع و شرط اور 'بیع ثنیا' جیسی متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں،اس لئے ناجائز ہے۔ مگر اس کے باوجو د ان نصوصِ شرعیہ کو بالاے طاق رکھتے ہوئے شرکت ِ متناقصہ کا جواز بیان فرمایا گیا اور اسلامی بینکوں نے اسے ذریعۂ تمویل کا اہم ستون بنایا ہواہے۔ شرکت ِ متناقصہ کو اسلامی استقرائی طریقۂ تمویل کہنے کی بجائے خلافِ اسلام کہنا علما کا فرضِ منصبی تھا ،مگر بعض لوگوں نے اپنے اس فرض سے قصداً غفلت برتی ہے۔

واضح رہے کہ شریعت ِاسلامیہ اور فقہ ِاسلامی کے ماہرین کی امانت و دیانت اور تدین وتقویٰ اس بات پر گواہ ہے کہ فقہ ِ اسلامی کے ذکر کردہ واضح احکام ایسے ہیں کہ ان کو ردّ کرنے کے لئے کو شش کرنا یا کسی قسم کی تاویل کرنا، تاویلِ فاسد کے زمرے میں آتا ہے ،بلکہ یہ نصوص شرعیہ کے ساتھ کھیل اور مذاق ہے۔

مروّجہ اسلامی بینکوں میں شخصِ قانونی(Juristic Person)اور اس کی محدود ذمہ داری کا ظالمانہ، غیرمنصفانہ، اور استحصالی تصوربھی کار فرما ہے،بلکہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ شخص قانونی اوراس کی محدود ذمہ داری کا تصور، بینک (شخص قانونی) اور اس کے اعضا و جوارح کو غیر محدود نفع پہنچانے اور نقصان کی بھاری ذمہ داریوں سے بچانے کے لئے ناروا اور خلافِ شرع تصور ہے،اس تصور میں شخصِ قانونی کے اعضا و جوارح کے لئے بہترین فائدہ اور دائنینکا بدترین استحصال پایا جاتا ہے۔کیونکہ جب تک منافع کی ریل پیل ہو،بے جان شخص قانونی حقیقی انسان سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور جب نقصان اُٹھانے کی نوبت آجائے تو شخص قانونی محدود ذمہ دار ی کا کفن پہن کر موت کے کنویں میں اُترجاتاہے۔ اس تصور کے خلافِ اسلام ہونے کے علاوہ اس میں انسانیت کی تو ہین بھی ہے۔ کیونکہ یہاں حقیقی انسان کو فرضی انسان کا نوکر چاکر بنانالازم آتا ہے۔ اس کے باوجود اس غیر اسلامی تصور کو اسلامی ثابت فرمانے کے لئے بے پناہ علمی بچتیں صرف فرمائی گئی ہیں اور اس رائے پر ایسے استدلالات کیے گئے ہیں جن کی اُصولا گنجائش ہر گز نہیں تھی۔

مروّجہ اسلامی بینکاری کے مجوزین اور وابستگان خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ مروّجہ اسلامی بینکوں کے معاملات خالص غیر سودی حلال اور جائز نہیں ہیں بلکہ بعض معاملات جائز اوربعض ناجائز بھی ہیں۔ ایسے معاملات کم از کم مشتبہ تو ضرور ہوتے ہیں۔ایسے معاملات پر اُصولِ شریعت کے مطابق بالاتفاق جواز اور حلت کے بجائے ،عدمِ جواز اور عدمِ حلت کا حکم لگایا جاتا ہے ،یعنی اگر بالفرض مروّجہ اسلامی بینکوں کے بعض معاملات کو جائز تسلیم کر لیا جائے تو بھی مطلق جواز بیان کرنے کی گنجائش نہیں نکل سکتی ،چنانچہ ایسے معاملات کے بارے میں مخدوم العلما مولانامفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ کا ایک فتویٰ بطورِ نمونہ ملاحظہ ہو جو اُنہوں نے غیر سودی کائونٹروں کے حکم کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے۔ اس تجزیے سے یہ بات واضح ہوئی کہ فی الحال ان غیر سودی کائونٹروںکا کاروبار جائز اور ناجائز معاملات سے مخلوط ہے، اور اس کا کچھ حصہ مشتبہ ہے۔ لہٰذا جب تک ان خامیوں کی اصلاح نہ ہو، اس سے حاصل ہونے والے منافع کو کلی طور پر حلال نہیں کہا جاسکتا ،اور مسلمانوں کو ایسے کا روبار میں حصہ لینا درست نہیں۔ 2

اس فتویٰ کی رو سے یہ معلوم ہوا کہ ایسے معاملات کو جواز کے محدود عنصر پر مشتمل ہونے کے باوجود جائز کہنے یا جائز بتانے اور معمول بنانے کی گنجائش شرعاً نہیں ہوا کرتی، اور مسلمانوں کے لئے ایسے معاملات میں حصہ لینا جائز نہیں ہوتا مگر مروّجہ اسلامی بینکوں کے معاملات کو اس کے باوجود جائز کہا اور جتلایا جاتا ہے۔

حاصل یہ کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کے جو تخیلاتی خاکے اسلامی بینکنگ کے مجوزین علماے کرام نے وضع کئے ہیں، وہ خاکے بھی خلافِ شرع ہیں۔ ان خاکوں میں اسلامی رنگ کی بجائے روایتی بینکاری کا رنگ ہی نمایاں ہے، اوران خاکوں میں کئی شرعی نقائص بھی پائے جاتے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے ان بینکوں کا عملی طریقہ کار ان فرضی تخیلاتی خاکوں کے مطابق بھی نہیں ہے، اس لئے ان مروّجہ اسلامی بینکوں کو 'اسلامی بینک' کہنا بھی جائز نہیں، کیونکہ زیادہ سے زیادہ مروّجہ اِجارہ و مرابحہ کے حیلوں کی وجہ سے انہیں 'حیلہ بینک' کہہ سکتے ہیں، اور حیلہ الگ چیز ہے اور حقیقت ِاسلام الگ چیز ہے۔

چنانچہ انہی وجوہات کی بنا پر مروّجہ اسلامی بینکاری کی بابت ملک کے جمہور علماے کرام اور مفتیانِ کرام کا متفقہ فتویٰ یہ ہے :
''گذشتہ چند سالوں سے بعض اسلامی شرعی اصطلاحات کے نام سے رائج ہونے والی بینکاری کے معاملات کا قرآن و سنت کی روشنی میں ایک عرصے سے جائزہ لیا جارہا تھا اور ان بینکوں کے کاغذات، فارم اور اُصولوں پر غور و خوض کے ساتھ ساتھ اکابر فقہا کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا جاتا رہا۔ بالآخر اس سلسلے میں حتمی فیصلے کے لئے چاروں صوبوں کے علماے کرام کا ایک اجلاس مؤرخہ28؍اگست2008ء بمطابق 25؍شعبان المعظم 1429ھ بروز جمعرات حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کے زیر صدارت جامعہ فاروقیہ کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں شریک مفتیانِ عظام نے متفقہ طورپر فتویٰ دیا کہ اسلام کی طرف منسوب مروّجہ بینکاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے، لہٰذا ان بینکوں کے ساتھ اسلامی یا شرعی سمجھ کر جو معاملات کئے جاتے ہیں، وہ ناجائز اور حرام ہیں اور ان کا حکم دیگر سودی بینکوں کی طرح ہے ۔

بایں معنی اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو چکی کہ مروّجہ اسلامی بینکاری درحقیقت غیر اسلامی بینکاری ہے اور لوگ اسے اسلامی بینکاری سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ معاملات کررہے ہیں، اس لئے علماے اُمت مروّجہ اسلامی بینکاری کو روایتی بینکاری کے مقابلے میں مسلمانوں کے حق میں زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ناجائز اور خلافِ شرع معاملے کو ناجائز سمجھتے ہوئے کرنا کم درجہ کا جرم ہے اور اسے جائز سمجھتے ہوئے کرنا بڑے درجے کا جرم ہے۔ روایتی بینکار، سودی معاملات کرتے ہیں مگر سودی معاملات سمجھتے ہوئے، جبکہ مروّجہ اسلامی بینکار انہی جیسے سودی معاملات اور خلافِ شرع معاملات کو غیر سودی اور شرعی سمجھتے ہوئے کررہے ہوتے ہیں،اور یہ پہلے کی بہ نسبت ایمان اور آخرت کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہے ،کیونکہ روایتی بینکار مسلمان خود کو شرعی مجرم اور گنہگار سمجھتے ہوئے اپنے ناجائز اور سودی معاملات کی معافی کے لئے تو بہ کے دروازے تک پہنچ سکتا ہے، اسے تو بہ کی توفیق مل سکتی ہے جبکہ مروّجہ اسلامی بینکاری میں اپنے خلافِ شرع معاملات پر نہ تو بہ کا داعیہ پیدا ہو گا اور نہ ہی توبہ کی توفیق میسر آسکتی ہے ،کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا،اللہ تعالیٰ توبہ اور مغفرت سے اسی کو نوازتے ہیں جو محتاج بن کر اللہ کی طرف متوجہ ہو۔

اس لئے مسلمانوں پر واجب اور لازم ہے کہ دیگر حرام اور خلافِ شرع اُمور کی طرح اسلام کی طرف منسوب مروّجہ اسلامی بینکاری سے بچنے کا بھی بھر پور اہتمام کریں اور اپنے سابقہ معاملات پر توبہ و استغفار کریں۔بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔''واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب وإلیه المرجع والمآب!

وصلی اللہ وسلم علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آ له وصحبه وأتباعه أجمعین


حوالہ جات
1. دار الإفتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی 29؍شعبان 1429ھ
2. فقہی مقالات':2؍264 طبع میمن پبلشرز