تعلیم میں حب وطن کا مقام
برٹرینڈ رسل برطانیہ کا عظیم مفکر اورفلسفی گزرا ہے، اس کے زیر نظر مضمون میں مشہور فلسفہ 'حب ِوطن' کا ناقدانہ جائزہ لیاگیا ہے جو جہاں حقیقت شناسی کی عمدہ مثال ہے ، وہاں مغربی اقوام کے مذموم ریاستی مقاصد پر بھی اچھے انداز میں روشنی ڈالتا ہے۔ جدید ریاست ابھی تک حب ِوطن کی یہی تعلیم دینے پر مصر ہے، جس سے انسانیت میں سرزمین وطن سے محبت کے نام پر نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔ ح م
ہر آدمی بہت سے مقاصد اور خواہشات رکھتا ہے جن میں سے بعض تو خالص ذاتی ہوتی ہیں اور بعض ایسی جن کے بارے میں وہ دوسرے بہت سے لوگوں سے اشتراک کرسکتاہے؛ مثلاً بہت سے لوگ روپیہ چاہتے ہیں اور دولت کمانے کے اکثر طریقے کسی نہ کسی گروہ کا تعاون چاہتے ہیں اور متعلقہ گروہ کا انحصار امیر ہونے کے مخصوص طریقے پر ہوگا۔ ایک ہی صنعت کے دو مختلف کارخانے اکثر معاملات میں ایک دوسرے کے رقیب ہوتے ہیں لیکن سیکورٹی ٹیکسوں کے بارے میں وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ۔
بلا شبہ روپیہ ہی ایک ایسی چیز نہیں جس کی خاطر لوگ سیاسی قسم کے گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں ؛مثلاً وہ مختلف مذہبی فرقوں ، برادریوں ،علمی سوسائٹیوں اور فری میسن گروہوں اور نہ معلوم کن کن جماعتوں میں بٹ جاتے ہیں ۔ انسانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنے والے محرکات متعدد ہیں ، مثلاً مقاصد کی ہم آہنگی ان میں سے ایک ہے، خیالات کی یکسانی دوسرا اور خونی رشتے تیسرا۔ راسچائلڈ (Rothachild) خاندان کے لوگوں نے خونی رشتے کی وجہ سے ایک دوسرے سے تعاون کیا۔ اُنہیں اس ہیئت ِاجتماعی کے لیے رسمی قوانین کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ ایک دوسرے پر اعتبار کرسکتے تھے۔ ان کی کامیابی کی ایک وجہ یہ تھی کہ یورپ کے ہر اہم تجارتی مرکز میں ایک راسچائلڈ موجود تھا۔ باہمی تعاون کی ایسی مثال جس کا مدار خیالات کی ہم آہنگی پر ہو، زمانۂ ما بعد جنگ میں کوئیکر(Quaker) جماعت کے انسانیت نواز کارنامے ہیں ۔ چونکہ ان کا نظریۂ حیات ایک تھا، اس لیے وہ آسانی سے تعاون کرسکے۔ مشترک سرمائے کی کمپنیاں اور مزدوروں کی انجمنیں ایسے ادارے ہیں جن کی بنیاد ذاتی مفاد کی ہم آہنگی پر ہے۔
انسانوں کی جس جماعت کو کسی خاص مقصد کے لیے منظم کیاجائے، اس کا مقصد اجتماعی اعتبار سے وہی ہوتاہے جس کے لیے اس کی تنظیم کی جاتی ہے۔ اس لیے اس کی ذہنیت ایک فرد کے مقابلے میں زیادہ سادہ اور زیادہ ناتمام ہوتی ہے؛ مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ نفسیاتی تحقیقات کی انجمن صرف نفسیاتی تحقیق ہی سے سروکار رکھتی ہے، گو اس کے رکن کے پیش نظر اور بھی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں ۔ برطانوی صنعتوں کی وفاقی انجمن صرف برطانوی صنعت وحرفت کاخیال رکھتی ہے، اگرچہ اس کے اَراکین تماشوں اور کرکٹ کے میچ سے بھی لطف اُٹھا سکتے ہیں ۔ مجموعی طور پر ایک خاندان صرف خاندانی جائیداد کاخیال رکھتا ہے اور اکثر اپنے کسی ایک فرد کو اس مقصد پر قربان کردینے کے لیے تیار رہتا ہے۔
ایسے ولولے جو سیاسی طور پر منظم کرلیے جائیں ، غیر منظم جذبات کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور ہوتے ہیں ؛ جو لوگ اتوار کو سینما دیکھنا چاہتے ہیں ، وہ بالکل ایک غیر منظم بھیڑ ہوتی ہے اور سیاسی لحاظ سے بالکل بے وقعت۔ وہ اہل 'سبت' (Sabattarians) جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ لوگ نہ جائیں ، منظم ہوتے ہیں اور سیاسی اثرو نفوذ رکھتے ہیں ۔ سینما کے مالک بھی منظم ہوتے ہیں ، اس لیے سیاسی نقطہ نگاہ سے اتوار کے دن سینما کھلا رکھنے کا سوال سینما کے مالکوں اور سبتیوں کے درمیان مابہ النزاع ہے جس میں عوام کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ۔
ایک خاص آدمی مختلف جماعتوں کا رُکن ہوسکتا ہے جن میں سے بعض مفید، بعض مضر اور بعض بے ضرر قسم کی ہوں گی۔ فرض کیجیے، ایک آدمی برطانوی فاشی جماعت، گاؤں کی فٹ بال ٹیم اور تحقیق انسانیت کی مجلس کا رکن ہے؛ وہ تیسری حیثیت سے قابل تعریف، دوسری حیثیت سے معصوم اور پہلی حیثیت سے قابل نفرت ہے۔ وہ خود نیکی اور برائی کا مجموعہ ہے۔ لیکن ان اداروں کا اخلاقی کردار اچھا یا برا، جو کچھ بھی ہے، غیر مخلوط ہے جو ان اراکین میں نہیں پایاجاتا۔
اس امر کاانحصار کہ آیا کون انجمن اچھی ہے یا بری؟ انجمن میں شامل ہونے والے لوگوں کے کردار پر نہیں ہوتا بلکہ اُس مقصد پر ہوا کرتا ہے جس کی خاطر لوگوں کی تنظیم کی جاتی ہے۔
مذکورہ بالا دور دراز خیالات کے اظہار کامقصد ان عجیب نتائج تک پہنچنا ہے جو انسانوں کی اُس تنظیم سے صادر ہوتے ہیں جسے 'ریاست'کہتے ہیں ۔ تقریباً تمام مہذب ممالک میں ریاست ان تمام تنظیموں سے زیادہ طاقتور ہے جن کے ساتھ انسان کاتعلق ہوتاہے، اس لیے حکومت کا رکن ہونے کی حیثیت سے اس کے مقاصد سیاسی لحاظ سے دوسرے تمام مقاصد کے مقابلے میں بہت زیادہ مؤثر ہوتے ہیں ، اس لیے اس مسئلے پر غور کرنا اہم ہوجاتا ہے کہ زمانۂ حاضر کی ریاست کے مقاصد کیا ہیں ؟
ریاست کے فرائض کچھ تو داخلی ہوتے ہیں اور کچھ خارجی، اس لیے میں مقامی حکومت کو بھی ریاست کے فرائض میں شامل کرتاہوں ؛ مجملاً یوں کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کے داخلی فرائض تو اچھے ہیں لیکن خارجی برے۔ یہ بیان بلا شبہ اتنا سادہ ہے کہ حرف بہ حرف درست نہیں ہوسکتا لیکن یہ اوّلین مفید تخمینے کا قائم مقام ہے۔ حکومت کے داخلی فرائض میں سڑکیں ، روشنی، تعلیم، پولیس، قانون اور ڈاک خانہ وغیرہ شامل ہیں ۔ ملکی انتظام کی تفصیلات کے بارے میں تو کسی کو اختلاف ہوسکتاہے لیکن صرف ایک نراجی ہی یہ کہے گاکہ یہ مقاصد بہ ذاتِ خود غیر پسندیدہ ہیں ۔ جہاں تک ریاست کی داخلی سرگرمیوں کا تعلق ہے، وہ مجموعی طور پر باشندگانِ ملک کی وفاداری اور اِمداد کی مستحق ہے !
جب ہم اس کے خارجی مقاصد کی طرف آتے ہیں تو معاملہ مختلف ہوجاتا ہے۔باقی دنیا کے معاملے میں ایک بڑی ریاست کے مقاصد دو ہوتے ہیں ۔ جارحانہ حملوں کا دفاع اور غیر ملکی وسائل کے استعمال میں باشندگانِ ملک کی امداد۔ جارحانہ حملوں کا دفاع، جب خطرہ واقعی ہو اور حملے کو روکنے کے لیے ضروری نظر آئے تو ظاہر ہے کہ اسے مفید قرار دیا جاسکتاہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جو ذرائع حملوں کی روک تھام کے لیے درکار ہیں ، وہی دوسرے ممالک کے استحصال میں کارآمد ہوتے ہیں ۔
دنیا کی طاقتور ریاستوں کا مقصد کمزور ملکوں کی محنت اور ان کی معدنی دولت سے اقتصادی خراج وصول کرنا ہے اور اس خراج کی وصولی کے لیے مسلح افواج کو جن کا براے نام مقصد دفاع ہوتا ہے، استعمال کیا جاتا ہے؛ مثلاً جب یہ معلوم ہوا کہ ٹرانسوال میں سونا موجود ہے تو حکومت ِبرطانیہ نے اس پر حملہ کردیا، اور لارڈ سالسبری نے قوم کو یقین دلایا کہ ہمارا مقصد سونے کی کانیں حاصل کرنا نہ تھا، لیکن ہم کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ ہی گئے جہاں سونے کی کانیں موجود تھںل اور جب لڑائی ختم ہوئی تو ہم نے اپنے آپ کو ان کا مالک پایا۔
ایک اور مثال لیجیے؛ ہرشخص جانتا ہے کہ انگریز جنوبی ایران میں وہاں کی باشندوں کی بھلائی کے لیے گئے تھے، لیکن یہ امر مشکوک ہے کہ اگر ایرانی اس علاقے کے باشندے نہ ہوتے جہاں تیل کا بے اندازہ ذخیرہ موجود ہے تو آیا ہم ان کی بہتری میں اتنی دلچسپی لیتے؟ وسطی امریکہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بعض کارناموں کے متعلق بھی اس طرح کی باتیں کہی جاسکتی ہیں ۔اسی طرح منچوریامیں جاپان کے جانے کا محرک بھی شریف ترین جذبہ تھا لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ وہ جاپانیوں کے مقاصد سے ہم آہنگ واقع ہوا ہے۔
یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ اکثر طاقتور ریاستوں کی حالیہ غیر ملکی سرگرمیوں کامقصد یہ ہے کہ مسلح افواج کی امداد یا ان کی دہشت سے کام لے کر کمزور حکومتوں سے وہ دولت ہتھیالی جائے جو قانونی طور پر ان کی اپنی ملکیت ہے۔ اس قسم کی سرگرمیاں اگر اَفراد سے نجی طور پرسرزد ہوں تو جرم میں شمار ہوتی ہیں اور اگر بہت وسیع پیمانے پرنہ ہوں تو ان کے لیے سزا بھی دی جاتی ہے، لیکن اگر یہ قوموں سے صادر ہوں تواہل ملک اُنہیں قابل ستائش سمجھتے ہیں ۔
اس فکر و نظر سے میں اپنے اصل موضوعیعنی مدرسوں میں حب ِ وطن کی تعلیم پر پہنچ گیا ہوں ۔ اس تعلیم پر تنقید سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اس کے منشا بلکہ اس کے حقیقی اثرات کے متعلق بھی وضاحت سے کام لیں ۔ حب ِ وطن کا منشا اس کے حامیوں کے خیال کے مطابق ایک ایسی چیز ہے جو بڑی حد تک اچھی ہے۔ گھر کی محبت اور اپنے وطن کی محبت بلکہ ایک خاص حد تک اس کے کارناموں پر فخر کرنا جہاں تک وہ فخر کے مستحق ہیں ، یہ چیزیں مذموم نہیں ۔ یہ ایک مختلف الاجزا جذبہ ہے جو کچھ تو وطن کی محبت اور اس کے مانوس قرب و جوار سے متعلق ہے اور کچھ اس جذبے سے وسیع تر خاندانی محبت سے مماثل ہے۔
اس جذبے کی اساس کچھ تو جغرافیائی اورکچھ حیاتیاتی ہے لیکن یہ ابتدائی جذبہ بذاتِ خود نہ تو سیاسی ہے اور نہ اقتصادی۔ یہ ایک آدمی کا احساس ہے اپنے وطن کے حق میں نہ کہ دوسرے ملکوں کے خلاف۔ یہ جذبہ اپنی ابتدائی صورت میں اُن دیہاتیوں کے سوا، جنہیں سیر و سیاحت کا بہت کم اتفاق ہوا، دوسرے لوگوں میں بمشکل پایا جاتا ہے۔ جو شہری ہمیشہ اپنی سکونت کوبدلتا رہے اور جس کے پاس زمین کاکوئی ایسا ٹکڑا نہ ہو جسے وہ اپنا کہہ سکے، اس میں یہ ابتدائی جذبہ جس سے حب ِوطن کااحساس پیدا ہوا ہے، دیہاتی مالکان زمین یاکسانوں کے مقابلے میں بہت کم ہوگا۔ اس کے بجائے شہری میں ایک اور احساس ہوگاجو زیادہ تر مصنوعی اور اس کی تعلیم اور اخبارات کی پیداوار ہوگااور تقریباً مکمل طور پر ضرر رساں ہوگا۔ اس جذبے کی اساس وطن اور اہل وطن کی محبت پر اس قدر نہیں ہوتی جتنی دوسرے ممالک کی نفرت اور ان پر قبضہ کرنے کی خواہش پر ہوا کرتی ہے۔ تمام بُرے جذبات کی طرح یہ جذبہ بھی وفاداری کے بھیس میں جلوہ گر ہوتاہے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی انسان ایک ایسے قابل نفرت جرم کا مرتکب ہو جس کے نام سے بھی وہ ڈر کر پیچھے ہٹ جائے تو پہلے اس کے دل میں مہا بدمعاشوں سے وفاداری کا جذبہ پیدا کیجیے، پھر اس جرم کو وصف ِ وفاداری کے بھیس میں اس کے سامنے لائیے، حب ِ وطن اس طریق عمل کی بہترین مثال ہے؛ مثلاً قومی جھنڈے کے احترام کا سوال ہی لیجیے، جھنڈا جنگجو قوم کا نشان ہوتاہے۔ یہ دل میں لڑائی، جنگ، فتح اور بہادری کے کارناموں کے خیالات پیدا کرتا ہے۔ برطانوی جھنڈا ایک انگریز کو نیلسن اور ٹریفالگر(Trafalgar) کی یاد دلائے گا، نہ کہ شیکسپیئر، نیوٹن اور ڈارون کی۔
جوکام انسانی تہذیب کی ترقی کے سلسلے میں انگریزوں نے کیے ہیں وہ قومی جھنڈے تلے نہیں کیے گئے اور جب اس جھنڈے کی تعظیم کی جاتی ہے تو یہ چیزیں ذہن میں نہیں آتیں ۔ انگریزوں نے اپنے بہترین کارنامے انگریزوں کی حیثیت میں نہیں بلکہ افراد کی حیثیت میں انجام دیے ہیں ۔جو کارنامے انگریزوں نے انگریز ہونے کی حیثیت میں یا اس احساس کے ماتحت کہ وہ انگریز ہیں ، انجام دیے ہیں ، کم قابل تعریف قسم کے ہیں ، اور یہی وہ کارنامے ہیں جن کی تعریف قومی جھنڈا ہم سے کراناچاہتاہے۔ جو بات انگریزی قومی جھنڈے کے بارے میں درست ہے ، وہی ستاروں اور دھاریوں والے یا کسی دوسری طاقتور قوم کے جھنڈے کے بارے میں بھی صحیح ہے۔
تمام مغربی ممالک میں لڑکے لڑکیوں کو سکھایا جاتاہے کہ ان کی نہایت اہم سماجی وفاداری اس ریاست کے ساتھ ہے جس کے وہ شہری ہیں اور ان کے ذمے ریاست کی طرف سے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جس طرح اُنہیں حکومت کہے، وہ ویسا ہی کریں ۔اس خیال سے کہ مبادا وہ اس نظریے پراعتراض کر بیٹھیں ، اُنہیں غلط تاریخ،غلط سیاسیات اور غلط اقتصادیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔اُنہیں غیر ممالک کی بداعمالیوں کی روداد سنائی جاتی ہے، لیکن اپنی حکومت کی بداعمالیوں کی نہیں ۔ اُنہیں یہ بتایا جاتاہے کہ تمام وہ جنگیں جن میں ان کے ممالک نے حصہ لیا ہے، دفاعی جنںی ہیں لیکن دوسرے ممالک کی جنگیں جارحانہ ہیں ۔اُنہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جب ان کا ملک خلافِ توقع کسی دوسرے ملک کو فتح کرلیتا ہے تو اس کا مقصد تمدن، انجیل کی روشنی، اخلاقِ حسنہ، امتناعِ مسکرات یااسی طرح کے اور ایسے ہی بلند مقاصد کی اشاعت ہوتی ہے؛ نیز اُنہیں بتایاجاتا ہے کہ دوسرے ممالک کا کوئی معیارِ اخلاق نہیں اور جیسا کہ انگریزوں کا قومی ترانہ کہتاہے: ''قدرت کا یہ فرض ہے کہ دشمنوں کے بدمعاشانہ مکروفریب کو تہس نہس کردے۔'' قدرت کا یہ فرض ایسا ہے جس کی بجا آوری کے لیے وہ ہمیں آلۂ کار بنانے میں تامل نہیں کرے گی۔ حق یہ ہے کہ جب کسی قوم کو دوسری قوم سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ اس قدر جرائم کاارتکاب کرتی ہے جتنے اس کی مسلح افواج سے بن پڑتے ہیں ۔ عام شہری بلکہ مہذب شہری بھی اُن سرگرمیوں کو سراہتے ہیں جن کی وجہ سے یہ جرائم واقع ہوتے ہیں کیونکہ نہ تو اُنہیں یہ علم ہوتا ہے کہ کیا کچھ ہورہا ہے اور نہ وہ واقعات کو صحیح پس منظر میں دیکھتے ہیں ۔
ایک عام شہری نادانستہ طور پر استحصال کی خاطر قتل و خون میں شریک ہونے پر رضا مندی ہوجاتا ہے۔ اس رضامندی کی ذمہ داری زیادہ تر تعلیم پر ہے۔ بعض لوگ اخبارات کوبُرا بھلا کہتے ہیں لیکن میرے رائے میں وہ اس معاملے میں غلطی پر ہیں ۔ اخبارات ویسے ہی ہوں گے جیسے عوام چاہیں گے اور عوام بُرے اخبارات پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کی تعلیم برے طریقے پر ہوتی ہے۔ قوم پرستانہ جذبۂ حب ِ وطن مدرسے میں سکھائے جانے کے بجائے ایسا اجتماعی مرض ہے جس کی زد میں بدقسمتی سے لوگ آجاتے ہیں اور جس سے بچاؤ کے لیے اُنہیں ذہنی اور اخلاقی طور پر مستحکم بنایا جاناچاہیے۔
بلاشبہ جذبۂ قومیت ہمارے عہد کی سب سے زیادہ خطرناک بُرائی ہے جو شراب نوشی، مسکرات، کاروباری بددیانتی اور اس طرح کی دیگر برائیوں سے بھی خطرناک ہے جن سے بچائو رسمی اخلاقی تعلیم کا منشا ہے۔ تمام وہ لوگ جو دنیاے جدید کا جائزہ لینے کی اہلیت رکھتے ہیں ، جانتے ہیں کہ جذبۂ قومیت کی وجہ سے ہماری تہذیب کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس حقیقت سے تقریباً تمام وہ لوگ آشنا ہیں جو بین الاقوامی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود قومی دولت کو ہر جگہ اس تباہ کن بُرائی کی اشاعت اور تقویت پر صرف کیاجارہا ہے۔ جو لوگ اس خیال کے ہیں کہ بچوں کو یہ نہ سکھایاجائے کہ وہ لوگوں کے قتل عام کو انسان کا بہترین عمل خیال کریں ، اُنہیں غدار اور اپنے ملک کے سوا باقی تمام ملکوں کادوست بنا کر بُرا بھلا کہا جاتا ہے۔یہ خیال ہوسکتا تھا کہ چونکہ والدین کو بچوں سے قدرتی لگاؤ ہوتاہے، اس لیے اُنہیں یہ خیال دکھ دے گا کہ ان کے بچے عذاب میں مبتلا ہوکر مریں ، لیکن صورتِ حال یہ نہںا ہے۔ اگرچہ خطرہ یقینی ہے لیکن اکثر ممالک میں اقتدار کے مالک ان تمام کوششوں کو جو اس خطرے کی روک تھام کے لیے کی جارہی ہیں ، ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ فوجی ملازمت کو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے 'شریف ترین اہتمام' کہا جاتاہے اور نوجوانوں کو اس امر سے آگاہ کرنے کے لیے ایک لفظ نہیں کہا جاتا کہ اگر ان کا ملک طاقتور ہے تو فوجی اقدامات دفاعِ ملک کے بجائے زیادہ تر دوسرے ممالک کے خلاف جارحانہ اقدامات پر ہی مشتمل ہوں گے۔
حب ِ وطن کی تعلیم کے خلاف کئی اعتراض ہیں ؛ پہلا اعتراض تو وہی ہے جس پر ہم ابھی بحث کرچکے ہیں ، یعنی جب تک جذبۂ قومیت کازہر کم نہ ہوگا، اُس وقت تک تمدن کی بقا کی کوئی صورت نہیں ۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جس ادارے میں لوگوں کو انسانوں کے قتل کی تعلیم دی جارہی ہو، وہاں اُنہیں مہذب انسانی نصب العین کی تعلیم دینا بے حد دشوار ہے۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ نفرت کی تعلیم جو جذبۂ قومیت کاایک ضروری حصہ ہے، بذاتِ خود ایک بُری چیز ہے۔
لیکن ان اعتراضات کے علاوہ اس تعلیم کے خلاف ایک خالص عقلی اعتراض بھی ہے، یعنی قومیت کی تعلیم کئی بے سروپا باتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں بچوں کو پڑھایا جاتاہے کہ ان کا ملک بہترین ملک ہے، اور سوائے ایک ملک کے باقی ممالک میں یہ بات غلط ہے۔ چونکہ مختلف اقوام اس امر پر متفق نہیں ہوسکتیں کہ وہ کون سا ملک ہے جس کے متعلق یہ بات درست ہے، اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ دوسری اقوام کی تذلیل کرکے اپنی قوم کی خوبیوں پر زور دینے کی عادت کو چھوڑ دیاجائے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ خیال سرے سے مفسدانہ اوربعض صورتوں میں خلافِ قانون سمجھا جاتا ہے کہ بچوں کو جو کچھ پڑھایا جائے، وہ امکانی حد تک درست ہونا چاہئے، لیکن پھر بھی میرا عقیدہ یہی ہے کہ جھوٹ سکھانے سے سچ سکھانا بہتر ہے۔
تاریخ تمام ممالک میں ایک ہی طرح پڑھائی جانی چاہیے اور نصاب کی تاریخی کتابیں 'مجلس اقوام' کی نگرانی میں لکھوائی جانی چاہئیں جس کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور روس سے ایک ایک معاون کی خدمات حاصل کی جائیں ۔ تاریخ کو عالمی تاریخ ہوناچاہیے ،نہ کہ قومی تاریخ اور اسے جنگوں کے بجائے ثقافتی اہمیت کے معاملات پر زور دینا چاہیے۔ جس حد تک لڑائیوں کاپڑھانا ضروری ہو، وہ صرف فاتحانہ اور دلیرانہ کارناموں کے زاویۂ نگاہ سے نہ پڑھائی جائیں ۔ طالب ِعلم میدانِ جنگ میں زخمی سپاہیوں کے درمیان ٹھہریں اور اُنہیں غیر آباد علاقوں میں بے گھر لوگوں کی حالت ِزار کا احساس دلایا جائے اور نیز اُنہیں ان تمام مظالم اور بے انصافیوں سے آگاہ کیاجاناچاہیے جن کے مناظر لڑائی میں نظر آتے ہیں ۔
موجودہ حالت میں تقریباً تمام تعلیم جنگ کی عظمت نمایاں کرنے والی ہے۔ مدارس کی تعلیم کے مقابلے میں صلح کل کی داعی جماعت کی تمام مساعی بے اثر ہیں ۔ یہ حالت بالخصوص ان مدارس کی ہے جو اُمرا کے بچوں کے لیے مخصوص ہیں اور جو ہر جگہ ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے غربا کے مدارس کے مقابلے میں پست تر ہیں ۔ بچوں کو مدارس میں دوسری اقوام کے نقائص تو بتا دیے جاتے ہیں لیکن اپنی قوم کے نقائص نہیں بتائے جاتے۔ دوسری اقوام کے نقائص جاننے سے انسان میں اپنے آپ کو حق پر سمجھنے اور جنگجو بننے کے جذبات پیداہوتے ہیں ، حالانکہ اپنے عیوب سے باخبر رہنا مفید ہوتا ہے۔
کون سے انگریز بچوں کو مدارس میں آئرلینڈ کے بلیک اینڈٹینز(Black and Tans) کے واقعات کے متعلق سچ بتایا جاتا ہے؟ کون سے فرانسیسی بچوں کو سیاہ افواج کے قبضۂ روہر کے بارے میں سچائی بتائی جاتی ہے؟ کون سے امریکی لڑکے کو ساکو (Sacco) اور ونزٹی (Vanzetti) کے متعلق یا مونی(Mooney) اور بلنگز(Billings)کے بارے میں صحیح واقعات بتائے جاتے ہیں ؟ انہی نظر اندازیوں کی وجہ سے ہر مہذب ملک کا ایک عام شہری خود فریبی میں پھنسا رہتا ہے، وہ باقی اقوام کے متعلق ان تمام اُمور سے باخبر ہوتاہے جو خود اُنہیں معلوم نہیں ہوتے اور اسے ان باتوں کی خبر نہیں ہوتی جو دوسری قومیں اپنے ملک کے متعلق جانتی ہیں ۔
حب ِ وطن کی تعلیم کااکثر حصہ توعقلی طور پر غلط ہے، تاہم اخلاقی لحاظ سے اس کی حیثیت بے ضرر ہے۔ جولوگ پڑھاتے ہیں خود اُنہیں غلط طریقے پر تعلیم دی گئی تھی؟ چنانچہ وہ یہ محسوس کرنا سیکھ گئے ہیں کہ جس دنیا میں دوسرے ممالک کے لوگ ایسے برے ہیں ، وہاں عظیم فوجی مساعی ہی ان کے ملک کو تباہی سے بچا سکتی ہیں ۔ بہرحال حب ِ وطن کے اس پروپیگنڈے کاایک اور کم بے ضرر پہلو بھی ہے۔ کچھ مفاد ایسے ہیں جو اس پروپیگنڈے سے زر اندوزی کا کام لیتے ہیں ۔ صرف اسلحہ سازی کے مفاد ہی نہیں بلکہ وہ مفاد بھی جنہوں نے پس ماندہ ملکوں میں روپیہ لگا رکھا ہے؛ مثلاً اگر تم کسی غیر منظم ملک میں تیل کے مالک ہو تو تیل نکالنے کے اخراجات کے دو حصے ہوں گے: اوّل فنی یعنی تیل نکالنے کے سیدھے سادے مصارف، دوم سیاسی یا فوجی۔ یعنی باشندگانِ ملک کو قابو میں رکھنے کے اخراجات۔ تمہیں ان اخراجات کاصرف پہلا حصہ ہی برداشت کرنا ہوگا، اخراجات کا دوسرا حصہ جو ممکن ہے، بہت زیادہ ہو، ٹیکس اداکرنے والوں پر پڑے گا جنہیں حب ِوطن کے پروپیگنڈے کے زور سے یہ بوجھ اُٹھانے پر آمادہ کیاجائے گا۔ اس طریقے سے حب ِ وطن اور مالیات میں ایک نہایت نامناسب رابطہ قائم ہوجاتاہے۔ یہ ایک مزید حقیقت ہے جس کو نوجوانوں سے نہایت احتیاط کے ساتھ چھپایا جاتا ہے۔
حب ِ وطن کا جذبہ اپنی تمام جنگجویانہ شکلوں میں روپے پیسے کے ساتھ نہایت گہرے روابط رکھتا ہے۔ حکومت کی مسلح افواج اہلِ ملک کو دولت مند بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں یا کی جاسکتی ہیں ۔اس چیزکی تکمیل کچھ تو خراج اور تاوان کی وصولی سے کی جاتی ہے، کچھ ان قرضوں کی ادائیگی پر اِصرار کرنے سے جو ردّ کیے جاسکتے تھے، کچھ اجناسِ خام پر قبضہ کرنے سے اور کچھ جبری تجارتی معاہدوں سے۔ اگر اس تمام طریق کار کو جذبۂ قومیت کے نظر فریب حسن نے چھپا نہ دیا ہوتا تو تمام معقول انسانوں پر اس کی بے ہودگی اور بُرائی واضح ہوجاتی۔
اگر آپ چاہیں توتعلیم آسانی سے لوگوں میں انسانی نسل کے استحکام اور بین الاقوامی تعاون کا احساس پیدا کرسکتی ہے۔ ایک ہی نسل کے اندر اندر اس تیز و تند جذبۂ قومیت کی آگ کوبجھایا جاسکتا ہے جس سے دنیا تکلیف میں مبتلا ہے، ایک ہی نسل کے اندر اندر اس جذبے کی دیواروں کو جو ہمیں روز بروز مفلس بنا رہی ہیں ، پست کیا جاسکتا ہے۔ جنگی تیاریاں جن سے ہم اپنے آپ کو موت کے خطرے میں مبتلا کررہے ہیں ، ختم کی جاسکتی ہیں اور وہ خبث ِ باطن جس سے ہم خود اپنی ناک آپ کاٹ رہے ہیں ، جذبات ِ خیر سگالی میں بدل سکتاہے۔ جذبۂ قومیت جو اس وقت ہر طرف چھایا ہواہے، زیادہ تر سکولوں کی پیداوار ہے اور اگر اس کو ختم کرنا ہے تو ہمیں تعلیم میں نئی روح پھونکا ہوگی۔
یہ معاملہ بھی تخفیف ِاسلحہ کی طرح بین الاقوامی سمجھوتے سے طے کرناپڑے گا۔ مجلس اقوام کو اگرکبھی چیرہ دست اقوام کے اعمال کی لیپ پوت سے فراغت مل گئی تو شاید وہ جلد یا بدیر معاملے کی اہمیت سے آگاہ ہوجائے۔ ممکن ہے حکومتیں تاریخ کی ایک سی تعلیم پر راضی ہوجائیں ، ممکن ہے اگلی جنگ عظیم کے ہلاکت سے بچے کچھے لوگ، بشرطیکہ کوئی زندہ بچ سکا، جمع ہوکر فیصلہ کریں کہ متعدد قومی جھنڈوں کی جگہ بین الاقوامی جھنڈے کو دے دی جائے، لیکن بلا شبہ یہ باتیں شیخ چلّی کے خواب ہیں ۔
یہ اُستادوں کی فطرت ہے کہ جو کچھ وہ جانتے ہیں ، وہی سکھاتے ہیں ، خواہ یہ علم کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو۔فرض کیجیے کہ تاریخ کے انگریز اُستادوں کوایک ایسے بین الاقوامی معاہدے کاخطرہ درپیش ہے جس کے ماتحت عالمی تاریخ کا پڑھانا ضروری ہوگا۔ ایسی حالت میں اُنہیں سن ہجری اور فتح قسطنطنیہ کی تاریخ بھی معلوم کرنی ہوگی۔ اسی طرح چنگیز خاں اور آئیوان مہیب (Terrible Ivan the)کے حالات جاننا پڑیں گے اور یہ بھی کہ جہازرانوں کا قطب نما چین سے نکل کر عرب ملاحوں کے پاس کیوں کر پہنچا اور یہ کہ سب سے پہلے یونانیوں نے مہاتما بُدھ کے مجسّمے بنائے۔ جب ان کے اوقات سے ایسے تقاضے کیے جائیں گے تو ان کی برہمی کی کوئی حد نہیں رہے گی اور وہ ایک ایسی نئی حکومت کے لیے جدوجہد شروع کردیں گے جو مجلس اقوام کے اَحکام کی خلاف ورزی کا حلف اُٹھالے۔
ہمارے عہد میں تمام مغربی دنیا کا سارا عملی زور سرمایہ دارانہ مہموں پر صرف ہورہا ہے اور مجموعی طور پر یہ ایسی طاقت ہے جو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ انسانوں کی وہ جماعتیں جو اچھے کام کرسکتی ہیں ، مثلاً سکولوں کے اساتذہ ان کی ایک معتدبہ تعداد حالت ِموجودہ پر قائع ہے۔ اگر سماج میں کوئی اصلاح کی جائے گی تو اس سے ان کے اسباق میں بھی تبدیلی لازمی ہوجائے گی، اس لیے جہاں تک ممکن ہو، وہ اس سے بچنا ضروری سمجھیں گے۔ جس کوشش سے وہ بچنا چاہتے ہیں ، اس کی حیثیت صرف عقلی نہیں بلکہ جذباتی بھی ہے۔ جانے پہچانے جذبات آسانی سے پیدا ہوجاتے ہیں اور ایک جانے پہچانے موقع پر (مثلاً قومی ترانے کے گائے جانے کے وقت) اپنے آپ کو نئے قسم کے جذبات پیدا کرنے کا ڈھب سکھانا مشکل ہے۔ اس طور پر ہماری موجودہ دنیا جہاں نیک آدمی کاہل ہیں اور صرف بُرے لوگ سرگرمِ عمل، بدقسمتی کے عالم میں چکر کھاتی ہوئی تباہی کی طرف جارہی ہے۔ بعض اوقات لوگ تباہی کے غار کو دیکھ لیتے ہیں ، لیکن غیرحقیقی جذبات کانشہ جلد ان کی آنکھوں کو بند کردیتا ہے۔ جو لوگ نشے کی حالت میں نہیں ہیں ، ان کے لیے خطرہ بالکل واضح ہے۔جذبۂ قومیت ہی وہ بڑی طاقت ہے جو ہماری تہذیب کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
نوٹ: انگلستان کے سرکاری سکولوں میں جذبۂ قومیت کا اندازہ مس بیرل ایلوارڈ (Miss Beryl Aylward) کی مثال سے لگایا جاسکتاہے جسے کوونٹری(Coventry) کے سکول سے اس لیے موقوف کردیا گیا کہ اس نے امپائر ڈے کے موقع پر قومی جھنڈے کو سلامی دینے سے انکار کردیاتھا۔ اس نے یہ کہا تھا کہ چونکہ وہ کوئیکر جماعت سے ہے، اس لیے وہ خود اپنے ملک کی قصیدہ خوانی کو بین الاقوامی جذبۂ خیرسگالی کا ممد نہیں خیال کرتی؛ لہٰذا ظاہر ہے کہ کوئی باضمیر کوئیکر یا صلح کل انسانی انگلستان کے کسی سرکاری سکول میں اُستاد کی اسامی پر نہیں رہ سکتا۔