فروری 2009ء

غزہ پر صہیونی جارحیت اور مسلم اُمہ

علامہ اقبالؒ نے تو کہا تھا ؎

 

اخوت اس کو کہتے ہیں چبُھے کانٹا جو کابل میں
ہندوستان کا ہرپیر و جواں بے تاب ہوجائے
 
مگر آج یہ سب کچھ ایک خواب لگتا ہے۔ آج ہم بحیثیت ِقوم کتنے بے حس ہوگئے ہیں ، اس کا اندازہ ۲۷؍دسمبر کو غزہ کے مسلمانوں پرفاشسٹ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں تین سو سے زائد شہادتوں پر ہماری اجتماعی بے حسی سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔

27؍دسمبر کو اسرائیل فضائیہ کے بمبار طیاروں نے غزہ کی گنجان آبادیوں پر بم برسا کر قیامت ِصغریٰ برپا کردی۔ پہلے حملے میں 300 سے زائد فلسطینی مسلمان جامِ شہادت نوش کرگئے۔ ایک ہزار سے زیادہ معصوم اور بے گناہ شہری شدید زخمی ہوئے۔ غزہ کی گلیاں اور بازار لاشوں سے اَٹ گئے۔ ہر طرف انسانی لاشے بکھرے ہوئے تھے۔زخمی فریاد کررہے تھے، عورتیں اور بچے چیخ و پکار کررہے تھے۔ ہسپتال زخمیوں سے بھرگئے۔ سارا دن اسرائیل طیاروں کی وحشیانہ بمباری کاسلسلہ جاری رہا۔ زندہ بچ جانے والوں پرخوف اور دہشت طاری تھی۔ ہر شخص کو جان کے لالے پڑ ے ہوئے تھے۔ فاشسٹ صہیونی حکمران میڈیا پر غزہ کو ملیامیٹ کردینے کے اعلان کررہے تھے۔

راقم نے 27؍ دسمبر کو تقریباً شام کے پانچ بجے الجزیرہ ٹی وی کاانگریزی چینل کھولا تواس پردکھائے جانے والے خون آشام مناظر کو دیکھ کر حیران وپریشان ہوگیا۔ فلسطینی مسلمانوں پر اتنی بڑی تباہی نازل ہوچکی تھی ، مگر ہمیں اس کا علم تک نہیں تھا۔

پاکستان کے سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینل اس اَلمناک سانحے کے متعلق خاموش تھے۔ ہمارے تمام ٹیلی ویژن چینل صبح سے بے نظیربھٹو کی برسی کے حوالہ سے گڑھی خدا بخش سے براہِ راست تقریبات دکھانے میں مصروف تھے۔ میں نے الجزیرہ چینل بھی اس یکسانیت کو کم کرنے کے لئے لگایا تھا۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن اس انسانیت کی ہولناک تباہی کے بارے میں مسلسل خبریں اور مناظر دکھا رہا تھا۔ مگر پاکستانی قوم سوئی ہوئی تھی، اس کا میڈیا عالم اسلام کی اتنی بڑی خبر کے بارے میں مجرمانہ خاموشی کاشکار تھا۔ نجانے 'بریکنگ نیوز' کا مقابلہ اس معاملے میں کیوں سامنے نہ آیا...؟

راقم الحروف ٹیلی ویژن کے سامنے مسلسل بیٹھا رہا۔ تقریباً دس بجے رات کو ہمارا میڈیا بھی جاگا اور اسرائیلی بمباری کے بارے میں خبریں نشر کرنا شروع کیں ۔ میرے علم اور مشاہدے کے مطابق سب سے پہلے 'وقت' ٹی وی نے یہ خبر دی۔ ایکسپریس ٹی وی جس کا ماٹو 'ہر خبر پر نظر ' ہے، نے رات کے ۳۰:۱۰ بجے اس عظیم سانحے کے متعلق ناظرین کو باخبر کرنا مناسب سمجھا۔ جیو ٹی وی اور اے آر وائی چینل نے بھی تقریباً اسی وقت اس المناک غارت گری پرتوجہ دینا شروع کی۔ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ان تمام چینلز پراس دن کی اس سب سے بڑی خبر کو محض سرسری انداز میں بیان کیاگیا۔پاکستان کے سرکاری ٹی وی کا کردار بھی افسوسناک کہا جاسکتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ 28 اور 29 دسمبر کے نیوزبلیٹن میں بھی ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے اس المیہ کو خاص کوریج نہ دی۔

ہمارے اخبارات کا رویہ بھی قابل گرفت ہے۔یہ بات درست ہے کہ تقریباً تمام اخبارات نے اس پراداریے تحریر کئے مگر کسی ایک انگریزی یا اُردو اخبار نے بھی اس دل دہلا دینے والے واقعے کو اپنی شہ سرخی (ہیڈلائن)کا مستحق نہ گردانا۔ 29، 30اور31 دسمبر کے اخبارات اُٹھا لیجئے،ایک آدھ اخبار کے علاوہ کسی بھی اخبار نے اس کا فالو اَپ صفحۂ اوّل پر نہ دیا۔ اکثر نے دو یا تین کالمی مختصر سی خبر بناکر آخری صفحہ پر شائع کی۔ ایک دو اخبارات نے تو یہ زحمت بھی گوارا نہ کی۔ ایک انگریزی اخبار 'ڈیلی ٹائمز' نے اپنے اداریے میں حتی الامکان کوشش کی کہ اسرائیل اور حماس کے جرم کو برابر کی بات بنا کر پیش کرے۔ سیکولرازم کی پالیسی اپنی جگہ مگر اس دل آزار حرکت کو کسی بھی طرح معقول اور انصاف پسند تبصرہ نہیں کہا جاسکتا۔میں ان خیالات کا اظہار ایک درجن اخبارات کی ورق گردانی کے بعد کررہاہوں ۔ ان اخبارات میں 'جنگ'، 'نوائے وقت'، 'پاکستان'، 'خبریں '، 'آج کل'، 'وقت'، 'ڈان'، 'دی نیشن'، 'ڈیلی ٹائمز' اور 'دی نیوز' شامل ہیں ۔ کیا ہمارے ذرائع ابلاغ کے اس رویے کو مشرف دور کی 'سب سے پہلے پاکستان' پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جائے...؟

قارئین کرام! ہمارے معروف کالم نگاروں کی فہرست دیکھ لیجئے،جواپنی کالم بازیوں سے نت نئی موشگافیوں میں مصروف رہتے ہیں اور شاید ہی کوئی معمولی سیاسی واقعہ ہو جو ان کے التفات کامستحق نہ سمجھا جاتا ہو۔ مگر ان کے قلم جو حق و صداقت اور عدل و انصاف اور حریت و آزادی کے 'ہمیشہ' ترانے گاتے ہیں ، نجانے غزہ کی تباہی کے متعلق ان کی سیاہی کیوں خشک ہوگئی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ امریکہ کی ناراضگی مول لینے کے متحمل نہیں ہوسکتے؟ کیا ان کے اذہان صہیونی پراپیگنڈے سے متاثر ہیں اور وہ'حماس' کو ہی قصور وار سمجھتے رہے ہیں ؟ مگر ان سینکڑوں بچوں اور عورتوں کی فریادوں اور آہوں پر ان کے قلم حرکت میں کیوں نہیں آتے؟ اس کا آخر کیا جواب ہے، ان کے پاس...؟

ہماری حکومت کی طرف سے بھی اسرائیل کے خلاف ردّعمل انتہائی سست اور کمزور تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وزارتِ اطلاعات کے کسی افسر نے معمول کے مطابق صدرِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کے یک سطری بیانات میڈیا کو ارسال کردیئے۔ 27 دسمبر کو رات گئے تک یہ بیانات سامنے نہیں آئے تھے۔ ۲۶؍ دسمبر کو ٹی وی چینلز پر Tickersچلنا شروع ہوئے جس میں احتجاج کیاگیاتھا کہ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کی ہے۔ اصل بیان قدرے تفصیلی انداز میں 30؍ دسمبر کو سامنے آیا۔ البتہ تب بھی صدرِ پاکستان اور وزیراعظم کی طرف سے اس عالمی سانحے پر رنج و غم کا اظہار کرنے کے لئے کسی پریس کانفرنس کااہتمام دیکھنے میں نہ آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت ِپاکستان نے اس معاملے میں اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی توقع عالم اسلام کے ایک باوقار ملک اور ایٹمی طاقت سے کی جاسکتی ہے۔

پاکستان کے عوام کی بے حسی بھی دل فگار اور اذیت ناک ہے۔ غزہ پر بمباری کے بعد چار دنوں میں جماعت ِاسلامی اور امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے لاہور میں جلوس نکالے مگر اس میں عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ مؤرخہ 3؍ جنوری بروز جمعة المبارک راقم مسجد ِشہداء میں نماز کی ادائیگی کے بعد چیئرنگ کراس سے گزرا۔ وہاں جماعت ِاسلامی کے کارکنوں نے احتجاجی جلوس نکالا ہوا تھا اور امیر العظیم خطاب کررہے تھے، جلوس کے شرکا کی تعداد انتہائی مایوس کن تھی۔ میرے اندازے کے مطابق چالیس پچاس افراد بھی مشکل سے ہوں گے۔ یہ نہایت افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں جو چھوٹے چھوٹے ایشوز پر بڑے بڑے جلوس نکالتی ہیں ، اُنہیں یہ توفیق ارزاں نہ ہوئی کہ وہ فلسطینی بے گناہ مسلمانوں کے اس قتل عام پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے۔

جن لوگوں نے 1967ء میں اسرائیل کی طرف سے بیت المقدس پر قبضے کی خبر کے بعد اہل پاکستان کے جذبات کے الاؤ کا مشاہدہ کیاتھا، وہ یقینا اس قومی بے حسی پرافسردگی اور ملامت میں مبتلاہوں گے۔ مجھے بھی اس معاملے میں شدید ڈپریشن اور رُوحانی کرب سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ ہمیں بحیثیت ِقوم آخر کیا ہوگیا ہے؟ ہم اتنے سنگ دل اور شقی القلب کیوں ہوگئے ہیں ؟ عالم اسلام میں ہونے والے عظیم سانحات کے متعلق ہماری لاتعلقی اوربے پروائی کے اسباب کیا ہیں ؟ ہمارے ذہن بنجر کیوں ہوگئے ہیں اور ہمارے دلوں پر خزاں کیوں طاری ہوگئی ہے؟ہم زندہ ہوتے ہوئے بھی ایک مردہ قوم کیوں بن گئے ہیں ؟

کبھی میں سوچتا ہوں ، لاہور شہر میں میراتھن دوڑ کرائی جاتی ہے تو شہر کی سڑکیں آباد ہوجاتی ہیں ۔کھیل تماشے ہوں تو جگہ نہیں ملتی، مگر جب فلسطینی بھائیوں پرصہیونی اسرائیل کی طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں ، ان کی خبریں سن کر ہم کان کیوں لپیٹ لیتے ہیں اور ٹی وی پر المناک مناظر دیکھ کربھی ہمارے دلوں پر پڑے ہوئے شقاوت اور مردہ دلی کے پردے کیوں نہیں اُترتے؟
آج ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایک 'روشن خیال' اور'ترقی پسند' قوم بن گئے ہیں ۔ میں سوچتا ہوں کہ جس زمانے میں ہمیں 'تاریک خیال' اور 'رجعت پسند' قوم سمجھا جاتا تھا، وہ دور آج کے دور سے کہیں بہتر تھا، کم از کم ان دنوں میں ہمارے اندر انسانیت تو باقی تھی۔ افسوس! مادی دولت، ترقی اور 'روشن خیالی' کے بعد ہم انسانیت کی دولت سے محروم ہوگئے ہںر ۔

کاش کہ شاہی مسجد کی سیڑھیوں میں مدفون شاعر مشرق کو کوئی بتاسکتا کہ تیری قوم کا مزاج کتنا بدل گیا ہے۔ایک وہ بھی زمانہ تھا جب آپ کا بل میں کسی کوکانٹا چبھ جانے کی خبر سن کر ہندوستان کے جوانوں اور بزرگوں کو بے تاب ہوتے دیکھا کرتے تھے، مگر آج غزہ کے مسلمانوں پر وحشت و درندگی، بہیمیت اور فاشزم، بدترین ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ، مگر افسوس ہمیں اس کی خبر ہی نہیں ہوتی!!1

غزہ کا ایک سفر
یہ ایک عجیب اتفاق تھا۔ تین دن کی جدوجہد کے بعد میں مصر کے سرحدی علاقے رفح سے غزہ میں داخل ہوا تو حماس کی بارڈر سیکورٹی اور امیگریشن کے اہلکاروں نے أهلا وسهلا في فلسطین کہتے ہوئے استقبال کیا۔ صرف چند سو گز پیچھے رفح میں مصری امیگریشن اور انٹیلی جنس کے کسی اہلکار نے تین دن میں ایک مرتبہ بھی مسکرا کر بات نہیں کی تھی، حالانکہ نہ تو مصر پربمباری ہورہی تھی اور نہ ہی مصر کو کسی اسرائیلی حملے کا خطرہ تھا۔ جہاں بمباری ہوئی، جہاں 1300سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، جہاں 41مساجد شہید کی گئیں اور جہاں اقوامِ متحدہ کے اسکولوں پر بھی راکٹ برسائے گئے، وہاں کے سرحدی محافظوں نے مسکراتے چہروں کے ساتھ صرف تین منٹ میں ہماری امیگریشن مکمل کردی اور خوشگوار اتفاق یہ ہوا کہ جیسے ہی میں نے غزہ کی سرزمین پر قدم رکھا تو عشاء کی اذان شروع ہوگئی۔

مؤذن کی آواز اتنی خوبصورت اور لطیف تھی کہ چند لمحوں کے لئے میں سب کچھ بھول کر اس آواز میں ڈوب گیا۔ اذان ختم ہوئی تو میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور الجزیرة کے کیمرہ مین ندال کے ساتھ ایک ویگن میں بیٹھ گیا جو اس بارڈر چیک پوسٹ سے چالیس کلو میٹر دور ہمیں غزہ شہر لے جانے والی تھی۔ ندال قطر سے غزہ پہنچا تھا۔ اس کے والد کا تعلق یروشلم سے تھا لیکن 1967ء میں وہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ندال اُردن میں پیدا ہوا اور اب قطر میں رہتا ہے۔ فلسطینی ہونے کے باوجود آج اس نے پہلی دفعہ فلسطینی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ اس کی زبان سے بار بار ماشاء اللہ اور الحمدللہ کے الفاظ نکل رہے تھے، لیکن جیسے ہی اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی مساجد اور عمارتیں اس کی نظروں کے سامنے سے گزرنے لگیں تو وہ خاموش ہوگیا۔ ہم دونوں ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا، اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے اور اسے سزا کون دے گا...؟

امریکی حکومت نے اسرائیل کی طرف سے غزہ پرتین ہفتے کی مسلسل بمباری کی ذمہ داری حماس پر عائد کی اور کہا کہ حماس نے اسرائیل پر راکٹ برسائے تھے اور اسرائیل نے اپنے دفاع کے لئے غزہ پر حملہ کردیا۔ میرے لئے حیرانی کی بات یہ ہے کہ مجھے غزہ میں ایک بھی فلسطینی ایسا نہیں ملا جو حماس کو اپنی تباہی کا ذمہ دار سمجھتا ہو۔ عام فلسطینی پوچھتا ہے کہ اگر اسرائیل نے حماس کو سزا دینی تھی تو پھر اقوامِ متحدہ کے زیرانتظام چلنے والے اسکولوں اور مساجد پر بم کیوں گرائے گئے؟ 24جنوری کی رات غزہ کے القدس ہوٹل کی لابی میں انڈونیشیا کے ایک فوٹو گرافر احمد نے مجھے بتایا کہ وہ جنوری 2009ء کے پہلے ہفتے میں غزہ آگیا تھا۔

اس وقت تک غزہ میں کچھ لوگ حماس پر تنقید کرتے تھے، لیکن جب اسرائیل کی بمباری میں شدت آگئی تو فلسطینیوں کو یقین ہوگیا کہ اسرائیل کی لڑائی حماس کے ساتھ نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ احمد نے مجھے یاد دلایا کہ اسرائیل نے 2006ء میں لبنان میں بھی مساجد کو خاص طور پر نشانہ بنایا تھا اور 2009ء میں اسرائیل نے غزہ کی ۴۱ مساجد کو شہید کرکے اپنے خلاف جو نفرت پیدا کی ہے، یہ اگلے41 سال تک کم نہ ہوگی۔
احمد کا خیال تھا کہ امریکا اور اسرائیل مسلمانوں میں جمہوریت کے فروغ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں کو ترقی سے محروم کرنے کے لئے امریکا اور اسرائیل کی کوشش ہوتی ہے کہ یا تو جمہوریت کے نام پر مسلمانوں کو مغرب کی ذ ہنی غلام کرپٹ لیڈر شپ کے حوالے کردیا جائے یا پھر ان سے جمہوری اقدار کو چھین لیا جائے۔ 'الفتح' سے تعلق رکھنے والے محمود عباس کی حکومت کو غزہ کے فلسطینی 'کنگ آف کرپشن' کہتے تھے اور اسی لئے 25جنوری 2006ء کو فلسطین میں الیکشن ہوا تو قانون ساز اسمبلی کی 132میں سے 74نشستیں حماس نے جیت لیں ۔

امریکا اور اسرائیل کو حماس کی جمہوری فتح ایک آنکھ نہ بھائی اور فوری طور پر حماس سے مطالبہ کیا گیاکہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے اور مسلح مزاحمت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ہتھیار پھینک دے۔ دوسری طرف امریکا اور اسرائیل نے الفتح اور حماس کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی۔ حماس کو ایک طرف سے امریکا اور اسرائیل کے ناجائز دبائو کا سامنا تھا اور دوسری طرف الفتح کی بلیک میلنگ کا سامنا تھا اور ان حالات میں جب فلسطین کے نام نہاد صدر محمود عباس نے امریکی دبائو پر حماس کی منتخب حکومت کو توڑ دیا تو حماس کے اندر شدت پسندوں نے قوت حاصل کرلی اور اُنہوں نے اسرائیل پر چند دیسی ساخت کے راکٹ مار دیئے۔ ان راکٹوں سے اسرائیل کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ان راکٹوں پر شور مچانے والے بھول جاتے ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں خود اسرائیل ایک غیرقانونی ریاست ہے !!

1917ء میں پہلی جنگ ِعظیم کے دوران جرمنی اور ترکی پر فتح حاصل کرنے کے لئے برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھربالفور نے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اس جنگ میں برطانیہ کی مالی امداد کریں گے تو اس کے عوض برطانیہ فلسطین کی سرزمین پر ایک نئی یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد دے گا۔ بالفور کے اس وعدے کو 'اعلانِ بالفور' کہا جاتا ہے اور اسی اعلان کی روشنی میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کرکے یہاں اسرائیل قائم کردیا۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1947ئمیں قرارداد 181کو اکثریت کے ساتھ منظور کیا جس میں کہا گیا تھا کہ یروشلم کو انٹرنیشنل کنٹرول میں دیا جائے گا، لیکن اسرائیل نے اس قرارداد کو تسلیم نہیں کیا اور یروشلم پر اس کا قبضہ برقرار ہے۔ کشمیر کی طرح فلسطین پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونا مسلمانوں میں بے چینی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

مسلمان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کریں تو دہشت گرد قرار پاتے ہیں اور اسرائیل و بھارت ان قراردادوں کی دھجیاں اُڑا کر بھی امریکا کے منظور نظر ہیں ۔ یہ ظلم جاری رہا تو دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے معروف اخبار ہارٹیز نے 31دسمبر 2008ء کی اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ پر حملے کا فیصلہ چھ ماہ قبل جون 2008ء میں کرلیا تھا۔ اس حملے کا تعلق حماس کے دیسی ساخت کے کریکر نما راکٹوں سے نہیں بلکہ 2006ء میں لبنان کی جنگ میں اسرائیل کی شکست سے تھا۔ اسرائیل حماس کو ختم کرکے خود کو ناقابل شکست ثابت کرنا چاہتا تھا تا کہ فروری 2009ء کے انتخابات میں حکمران اتحاد کامیابی حاصل کرسکے، لیکن اسرائیل ایک دفعہ پھر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ قطر اور موریطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردیئے ہیں ۔2

اسرائیل ایک دہشت گرد تنظیم
اسرائیل کے وجود کاکھلے ظلم اور غاصبانہ ومجرمانہ قبضے پر مبنی ہونا خود اس کے بانیوں نے تسلیم کیا ہے۔ اس ناجائز ریاست کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے ورلڈ جیوش کانگریس کے بانی ناہم گولڈن کے نام اپنے خط میں لکھا تھا:
''If I were Arab leader, I would never make terms with Israel; That is natural. We have taken their country...we come from Israel, but two thousand years ago, and what is that to them? there has been anti-semetisem, the Nazis, Hitler, Auschwitz, but was that their fault? They only see one thing: we have come here and stolen their country. Whay Should they accept that?''
''اگر میں کوئی عرب لیڈر ہوتا تو اسرائیل سے کبھی سمجھوتہ نہ کرتا۔یہ ایک فطری بات ہے، کیونکہ ہم نے ان سے ان کا ملک چھینا ہے۔ اگرچہ ہمارا تعلق اسرائیل سے تھا، لیکن یہ دو ہزار سال پہلے کی بات ہے۔فلسطینیوں کا بھلا اس سے کیا واسطہ۔ ہاں دنیا میں یہودی مخالف تحریک نازی، ہٹلر وغیرہ سب رہے ہیں ، مگر کیا اس کے ذمہ دار فلسطینی ہیں ؟ وہ صرف ایک چیز دیکھتے ہیں : ہم یہاں آئے اور ہم نے ان کا ملک چرالیا ۔ آخر وہ اس چیز کو کیوں قبول کریں ؟ ''

پروفیسر جان میئر شیمر(John Mearsheimer)اور پروفیسر اسٹیفن والٹ (Stephen Walt)کی شہرۂ آفاق تحقیقی تصنیف 'دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی' میں بھی اس خط کے مندرجات شامل کیے گئے ہیں ۔
اگر آج دنیا میں حق اور انصاف کی حکمرانی ہوتی تو ایک ایسی ریاست کوعالمی طاقتوں اوربین الاقوامی برادری کی جانب سے تسلیم ہی نہ کیا جاتا بلکہ وجود ہی میں نہ آنے دیا جاتا جو خود اپنے بانیوں کے اعتراف کے مطابق کھلے ظلم اورحق تلفی کی بنیاد پرقائم ہوئی ہے۔ لیکن جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کو دنیا میں اپنا مشن بتانے والی مغربی طاقتوں نے اسرائیل کا ناجائز وجود صرف تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ یہ ننگ ِانسانیت ریاست نتیجہ ہی ان کی منصوبہ بندی کا ہے۔ پھر ان طاقتوں نے فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی حکمرانوں کو ہر ستم توڑنے کی بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ چنانچہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کاسلسلہ آج غزہ میں ایک نئی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ مہینوں سے محصور غزہ کے لاکھوں بے بس باشندوں پربمباری اور میزائلوں کی بارش انسانیت کے خلاف جس قدر مکروہ جرم ہے، وہ محتاجِ وضاحت نہیں ۔ مگر امریکی حکمرانوں اور ان کے اتحادیوں کی ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ وہ امریکی ساختہ ایف سولہ طیاروں کی غزہ کے رہائشی علاقوں ، مسجدوں ، تعلیم گاہوں اوردفاتر پر وحشیانہ بمباری کو اسرائیل کی جانب سے اپنے دفاع کے حق کا استعمال قرار دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی مظالم کے خلاف مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے خانہ ساز راکٹوں اوربمبوں سے اپنے بچائو کے لئے اسرائیل ان کاروائیوں پر مجبور ہے۔ مگر خود اسرائیل کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو اسرائیلی حکمرانوں کو برملا انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہیں ۔ مثلا اسرائیل کے معروف روزنامے ہارنز غزہ میں آپریشن 'سررینز' کی مذمت کرتے ہوئے لکھا تھا:
''ہم غزہ پر گرما کی جو بارشیں برسارہے ہیں ، وہ اندھا دھند ہی نہیں ہیں ،سب سے پہلی اوراہم بات یہ ہے کہ وہ قطعی ناجائز ہیں ۔ ساڑھے سات لاکھ لوگوں کو بجلی سے محروم کردینا غیر قانونی ہے۔ بیس ہزار افراد کو اپنے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کردینا کسی صورت جائز نہیں ۔ ان کی بستیوں کو بھوتوں کے مسکن بنا دینا کسی قانون کی رو سے درست نہیں ۔ شام کے حدود میں مداخلت صریحاً بے جواز ہے۔ فلسطین کی آدھی حکومت اورچوتھائی پارلیمنٹ کو اغوا کرلینا انصاف کے سراسر منافی ہے۔ ایسے اقدامات کرنے والی ریاست اورکسی دہشت گرد تنظیم میں کوئی فرق نہیں ہے۔''

سچائی اپنے آپ کو منوا کر رہتی ہے۔ اسرائیل ہی کے ایک معروف روزنامے کا یہ تسلیم کرناکہ صہیونی حکمرانوں نے فلسطین کے خلاف اپنے سراسر ناجائز رویے سے ثابت کردیا ہے کہ ان کی حکومت دراصل ایک دہشت گرد تنظیم ہے ، اسی سچائی کا اظہار ہے۔ بلاشبہ اسرائیل روزِ اوّل سے ایک دہشت گرد ریاست ہے ۔اس کی بنیاد ہی ظلم اوربے انصافی پررکھی گئی ہے۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر اس کا قیام ہی انصاف کی کھلی پامالی ہے۔ پھر اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے کے لئے اس نے اپنی ابتدا ہی سے دہشت گردی کو تکنیک کے طور پر اپنا رکھا ہے۔

اس سلسلے کا آغاز1948ء میں فلسطینی بستی دیریاسین میں قتل وغارت گری سے کیا گیا۔ اس کاروائی کامقصد فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرکے ان کے گھروں سے نکال دینا تھا تاکہ ان پریہودی قابض ہوسکیں ۔ اس وحشیانہ آپریشن کے شرکا میں سے کئی بعد میں اسرائیل کی وزارتِ عظمی اوردیگر اہم مناصب پر فائز ہوئے اور اسرائیل کے بیشتر لیڈر دہشت گرد تنظیموں کی قیادت کر رہے ہیں ۔ اس لئے اسرائیل کل بھی دہشت گرد تھا اور آج بھی ہے۔ اس کے باوجود مظلوم فلسطینیوں کے مقابلے میں مغربی ملکوں کی ساری عملی حمایت جابر اور غاصب اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اسرائیل کے مظالم پر سلامتی کونسل میں کوئی مذمتی قرار داد منظور بھی ہوجائے تو وہ منافقت اوردکھاوے کے سوا کچھ نہیں ، کیونکہ اس کے پیچھے ظالم کوظلم سے روکنے کی کوئی نیت ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر کوئی موجودہ عالمی نظام سے دنیا میں حق وانصاف اور امن امان کے قیام کی توقع رکھتا ہے تواسے حماقت اور بے بنیاد خوش گمانی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن فلسطین، عراق افغانستان اورکشمیر سمیت دنیا میں ہر اس جگہ جہاں استعماری طاقتوں نے ظلم اورحق تلفی کا بازار گرم کر رکھا ہے ، برپا ہونے والی ناقابل شکست مزاحمتی تحریکوں نے ضرور اس اُمید کے چراغ روشن کر دیے ہیں کہ ظلم ودرندگی اوربے انصافی وسفاکی کا یہ عالم نظام جلد زمیں بوس ہوگا اور سچائی اورانصاف کی بالا دستی پرمبنی نظام اس کی جگہ لے گا!! 3

اسرائیلی یلغار کون روکے گا...؟
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی قرار داد سلامتی کونسل میں پیش کی گئی، لیکن اسرائیلی حکومت نے بان کی مون کی اپیل، سلامتی کونسل کی قرارداد اور دنیا کے 205 ممالک میں تشویش کی لہر کو مسترد کرتے ہوئے عالمی برادری کے منہ پر طمانچہ رسید کردیا ہے۔ دہشت گرد اور معصوم بچوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے اسرائیلی وزیر دفاع نے سلامتی کونسل کی قرار داد کو پاے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جنگ جاری رہے گی اور ملٹری پریشن میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں کوئی ہے جو اسرائیل کو روک سکے ؟

اطلاعات کے مطابق غزہ میں شہید بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی تعداد نو سوتیس ہے ، زخمیوں کی تعداد430سے متجاوز ہے، املاک کے نقصان کا اندازہ اربوں روپے ہے، آگ اور خون کا یہ کھیل بند نہ ہوا تو تل ابیب بھی محفوظ نہ رہے گا۔ تل ابیب کے بعد کسی اور دارالحکومت کی سلامتی کی ضمانت کون دے گا؟ بان کی مون غزہ کے معصوم شہریوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ ہاویر سولانہ ، برطانیہ کے وزیراعظم گورڈن برائون ، اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ یہ ضمانت فراہم نہیں کرسکتے پھر امن کیسے قائم ہوگا؟

27؍دسمبر کے بعد دنیا کے سینکڑوں شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے اقوامِ متحدہ کی جانبداری پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرچکے ہیں ۔ اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں بیٹھے ہوئے عالمی نمائندے اور سفارتکار اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں کہ ممبئی کے بم دھماکوں پر عالمی برادری میں جو اِضطراب وتشویش پائی جاتی تھی، غزہ کے حوالے سے یہ تشویش کیوں نظرنہیں آتی ہے۔ مظاہرین پوچھتے ہیں کیا امریکیوں کا خون زیادہ مقدس ہے؟ کیا اسرائیلیوں کی جان زیادہ قیمتی ہے ؟کیا کشمیر،فلسطین،عراق اورافغانستان میں بہنے والا خون اس لیے بے وزن اور بے وقعت ہے کہ یہ کمزورمسلمانوں کا خون ہے۔ حالانکہ یہ خون خود بتا رہاہے کہ مسلمانوں کا لہو بہا کر کوئی امن قائم نہیں کیاجا سکتا۔

فلسطینی جو غزہ کی پٹی میں گزشتہ سوا دوسال سے محاصرے کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، موت اور ہلاکت ان کے لئے اجنبی چیزنہیں ہے۔اسرائیل یہ جانتا ہے کہ یہودیوں ، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں قابل احترام 'سرزمین قدس' سے اسرائیل مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام 'بیت المقدس' کو زمین بوس کرکے یہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتاہے۔ اس علاقے میں ہیکل کی تعمیر کا خواب یہودی ڈھائی ہزاربرس سے دیکھ رہے ہیں لیکن ان کا یہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا...!!

1948ء میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز وجود کے قیام،
چھ لاکھ فلسطینیوں کو دنیا بھر میں منتشر کرنے،
1967ء میں شام سے گولان کی پہاڑیاں ،
مصر سے صحراے سینا ،
اُردن سے مغربی کنارہ اور بیت المقدس چھیننے کے،
1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے ،
1993ء کے اوسلو معاہدے کے ،
یاسرعرفات کے ظالمانہ قتل کے بعد حماس کے بانی شیخ احمد یاسین
اور ان کے بعد ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی کی مظلومانہ شہادت،
حماس کی منتخب حکومت کے خاتمے،
پندرہ ہزار فلسطینیوں اور چوالیس اراکین پارلیمان کو قید کی سلاخوں میں ٹھونسنے

اور 27دسمبر2008ء کو فضائی حملے کرنے کے باوجود فلسطینی، فلسطین میں موجود ہیں اور ببانگ ِدہل اعلان کررہے ہیں کہ اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکہ ہمارے جسموں سے ہماری گردنیں جدا کرسکتاہے، ہمارے ہسپتالوں ،سکولوں ، کاروباری مراکز اور بازاروں کو خاک و خون میں نہلا سکتاہے، ایک ایک قصبے اور ایک ایک دیہات کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرسکتاہے۔ عالمی مبصرین اور صحافیوں کے غزہ کی پٹی میں داخلے کو روک سکتا ہے۔ رفح راہداری کو بند رکھ سکتاہے، ماں کی کوکھ اُجاڑ سکتاہے لیکن فلسطینی قوم سے آزاد فلسطینی ریاست کا خواب نہیں چھین سکتا۔
 
وہ تو پتھر ہیں جو گرجاتے ہیں ٹکڑے ہوکر
حوصلے بھی کبھی مسمار ہوا کرتے ہیں !4
 

دنیا کی سب سے بڑی جیل
ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی سبق ہوتا ہے جو اس سبق کو پالے وہ دانا کہلاتا ہے اور جو سبق نہ پاسکے، اسے بے وقوف کہنا چاہئے۔ دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ساتھ کم از کم ایک سو سال سے ایک ہی کہانی بار بار دہرائی جارہی ہے۔ پچھلے پانچ دنوں سے میں غزہ کے مختلف علاقوں رفح، خان یونس اور بیت ِحنون میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں ، وہ میرے لئے نیا نہیں ہے۔
غزہ کی مسجدیں ، ہسپتال، اسکول، پولیس اسٹیشن، سرکاری دفاتر، صنعتی ادارے، ہوٹل اور کئی مارکیٹیں اسرائیلی بمباری سے تباہ کی جاچکی ہیں ۔ اس تباہی کو دیکھ کر مجھے 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران بیروت سے لے کر قانا تک ہونے والی تباہی یاد آرہی ہے۔ آج دوپہر غزہ کی طاحد مسجد کے تباہ شدہ مینار دیکھ کر مجھے جنوبی لبنان کے شہر قانا کی وہ مسجد یاد آئی جس کی چھت گر گئی تھی، لیکن اس کے ایک مینار کا نیلا گنبد سلامت تھا۔ غزہ کا ایک تباہ شدہ اسپتال دیکھ کر مجھے 2003ء میں عراق کے شہر تکریت کا وہ اسپتال یاد آ رہا تھا جس کو میری آنکھوں کے سامنے امریکی ٹینکوں نے ملبے کا ڈھیر بنادیا تھا اور اس ڈھیر کی فلم بنانے کے لئے بھی مجھے امریکی فوج کے ایک کرنل سے اجازت لینی پڑی تھی۔

غزہ کے انٹرنیشنل امریکن اسکول کے ملبے میں طلبا و طالبات کی کتابیں اور کاپیاں بکھری دیکھ کر مجھے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اقوامِ متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول کا ملبہ یاد آگیا جو نومبر 2001ء میں امریکی طیاروں کی بمباری کے دوران کئی گھنٹوں تک میری پناہ گاہ تھا۔ اس ملبے میں پناہ کے دوران میں افغان بچوں کی کاپیوں میں موجود ان کا ہوم ورک پڑھ کر وقت گزارتا رہا۔
غزہ کی تباہی دیکھ کر مجھے لبنان، عراق اور افغانستان کی تباہی یاد آرہی ہے۔ غزہ کے اسپتالوں میں پڑے زخمی بچے دیکھ کر مجھے بیروت، بغداد اور کابل کے ہسپتالوں میں پڑے زخمی بچے یاد آ رہے ہیں ۔ ان سب کی ایک ہی کہانی ہے اور ان سب کا ایک ہی جرم ہے، ان کا جرم یہ ہے کہ یہ سب مسلمان ہیں ۔

غزہ میں میرے ٹیکسی ڈرائیور کا نام مروان ہے۔ وہ دو سال اسرائیل کی جیل میں گزار چکا ہے۔ بیروت میں میرے ٹیکسی ڈرائیور کا نام ابو جعفر تھا اور وہ چار سال اسرائیلی قید میں گزار چکا تھا۔ آج شام جب مروان مجھے اپنی قید کی کہانی سنا رہا تھا تو مجھے ایسے لگا کہ میں یہ کہانی پہلے بھی سن چکا ہوں ۔ ایسی ہی کہانی مجھے بیروت میں ابوجعفر نے سنائی تھی۔ مروان کی کہانی سن کر میں ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ شاید یہ ایک ارب مسلمانوں کی قید کی کہانی ہے۔ غزہ میں آکر میں خود کو بھی ایک قیدی محسوس کرتا ہوں ۔ غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔ 41کلو میٹر لمبی اور چھ کلو میٹر چوڑی اس جیل کو ایک طرف سے اسرائیلی ٹینکوں نے اور دو اطراف سے سمندر میں اسرائیل کے بحری جنگی جہازوں نے گھیر رکھا ہے۔

چوتھی طرف مصر کی سرحد ہے جہاں سے فلسطینیوں کی آمد و رفت کافی مشکل ہے۔ غزہ کی فضائوں میں ہر وقت اسرائیل کے جنگی جہاز پرواز کرتے نظر آتے ہیں ۔ غزہ سے فلسطین کے علاقے رام اللہ میں جانا ہوتو اسرائیل کی فوجی چوکی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل کے ٹینک ہر وقت فلسطینیوں کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں ۔ پرسوں خان یونس کے علاقے میں مجھے سڑک پر ایک لڑکے کی لاش پڑی نظر آئی۔ مروان نے ٹیکسی روک کر آس پاس دیکھا تو قریبی کھیتوں میں چھپے لوگوں نے اشارہ کیا کہ یہاں سے ہٹ جائو۔ ہم فورا کچھ آگے چلے گئے اور رک کر صورتحال کا جائزہ لینے لگے۔ پتہ چلا کہ یہ لڑکا اپنی گدھا گاڑی پر سبزی لے کر جارہا تھا کہ اسے اپنے کھیتوں کے پاس ایک اسرائیلی ٹینک نظر آیا۔ فلسطینی لڑکے نے گدھا گاڑی روکی اور نیچے اُتر کر ایک پتھر اٹھالیا۔ پتھر لے کر وہ ٹینک کے قریب گیا اور ایک اسرائیلی فوجی کو دے مارا۔ جواب میں اسرائیلی فوجی نے اپنی گولی سے فلسطینی لڑکے کا سینہ چھلنی کردیا اور پھر جو کوئی بھی لاش اٹھانے کے لئے آگے گیا، اس پر گولی چلائی گئی۔

مروان نے بڑے فخر سے کہا کہ ہمارے بچے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ پتھروں سے کرتے ہیں اور موت کو ایسے گلے لگاتے ہیں جیسے ماں اپنے بچے کو گلے سے لگا لیتی ہے۔ یہ سن کر میں خاموش رہا۔ کچھ دیر مروان بھی خاموش رہا، کافی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے پوچھا کہ کیا آپ کے خیال میں اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ پتھروں سے کرنے والے فلسطینی بہادر نہیں ، ہیں ؟ میں نے اسے جواب میں کہا کہ ٹینکوں کا مقابلہ پتھروں سے کرنے والے یقینا بہادر ہیں ، لیکن بہادری اور بے وقوفی میں فرق ہونا چاہئے۔ ٹینک کا مقابلہ اگر ٹینک سے نہیں ہوسکتا تو کم از کم رائفل سے کرنا چاہئے، لیکن ہم مسلمان شوقِ شہادت میں ٹینکوں پر پتھر برسانے لگتے ہیں اور دشمن کی بجائے صرف اپنا نقصان کرلیتے ہیں ۔ ہمیں جس قسم کے حالات کا قیدی بنادیا گیا ہے ان حالات سے نکلنے کے لئے ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو علم کے ہتھیار سے مسلح کرنا ہوگا۔ اگر علم کا ہتھیار ہمارے پاس موجود ہو اور ہم آپس میں لڑنا بند کردیں تو پھر ہماری بہادری ہمیں اس مقام تک لے جاسکتی ہے جہاں صلاح الدین ایوبی نے پہنچ کر بیت المقدس کو آزاد کروا لیا تھا۔ یہ سن کر مروان نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ1967ء میں اسرائیل نے غزہ سے لے کر صحراے سینا تک قبضہ کرلیا تھا۔ اسرائیلی فوج قاہرہ کے دروازے تک پہنچ گئی تھی، لہٰذا 1973ء میں مصر اور شام نے مل کر اسرائیل پر حملہ کیا، سعودی عرب اور پاکستان نے بھی عربوں کی مدد کی یہاں تک کہ پاکستان ائیرفورس نے اسرائیلی طیارے مار گرائے۔ امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی مدد سے جنگ بندی کروا کر اسرائیل کو بچالیا اور پھر اسرائیل نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے مصر کا مقبوضہ علاقہ چھوڑ دیا، لیکن غزہ پر قبضہ برقرار رکھا۔ 2005ء میں غزہ کا قبضہ چھوڑ کر اسے ایک انسانی جیل میں تبدیل کردیا گیا اوریہاں حماس کو الفتح سے لڑا دیا گیا۔ مروان کو سمجھ آچکی تھی کہ علم اور اتحاد کے بغیر مسلمانوں کی بہادری کسی کام کی نہیں !

ہم متحد نہ ہوئے تو ہمارے دشمن ہمیں دہشت گرد قرار دے کر اسی طرح مارتے رہیں گے جیسے غزہ میں مار رہے ہیں ۔ مغرب کی جن فیکٹریوں کے میزائل غزہ پر برسائے گئے، انہی فیکٹریوں کے میزائل امریکی جاسوس طیارے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر بھی برساتے ہیں ۔ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے انجام سے سبق سیکھنا چاہئے۔ پاکستانی معاشرے کو روشن خیالوں اور بنیاد پرستوں کی تقسیم سے بچنا چاہئے اور اندرونی استحکام پیدا کرنا چاہئے۔ اپنوں کے ساتھ بندوق کی زبان میں نہیں بلکہ اس زبان میں بات کی جائے جو ہمارے حکمران امریکہ اور بھارت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ۔ اسرائیل نے مغرب کی مدد سے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنادیا ہے۔ اس جیل کو توڑنے کے لئے ہمیں متحد ہونا ہوگا ورنہ دشمن گھیرا ڈال کر ہمیں بھی ہمارے اپنے ہی وطن میں قیدی بنا سکتا ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ کے نمائندے غزہ میں ہونے والے ظلم و ستم کو بے نقاب کرکے اسرائیل کے لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں ۔ غزہ میں آباد 15؍لاکھ فلسطینی پہلے سے زیادہ متحد ہیں اور پہلے سے زیادہ قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں ۔ غزہ کے دو اطراف میں اسرائیل، تیسری طرف سمندر اور چوتھی طرف مصر ہے۔ مجھے اپنے ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی میں سے سمندر میں موجود اسرائیلی بحری کشتیوں کی روشنیاں نظر آرہی ہیں ۔ غزہ تین طرف سے دشمن کے گھیرے میں ہے، اس کے باوجود فلسطینی بچے گلی کوچوں میں یہ گیت گاتے نظر آتے ہیں کہ ہم سب حماس کے ساتھی ہیں ۔ کوئی ان بچوں کو بھلے ناسمجھ کہتا رہے، لیکن فلسطینی بچوں کا یہ گیت اسرائیل کی ایک اور شکست کا اعلان ہے۔ 5

المیہ غزہ پر اقوام متحدہ کی قرارداد کی حقیقت
غزہ پر اَقوام متحدہ کی تازہ ترین قرارداد نمبر1860مسلم دنیا کے حکمرانوں کی غیرت و حمیت اور سفارتی دانش پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے ان حکمرانوں نے غزہ سے دستبرداری پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے یہودیوں کومنہ مانگا تحفظ بھی فراہم کردیا...!!
9؍جنوری 2009ء کواقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے غزہ پریہودی ریاست کے وحشیانہ حملے کے متعلق قرارداد نمبر1860 منظور کی۔اس قرارداد کے متن میں اسی طرح سیاسی مکاری برتی گئی ہے جس طرح اس سے قبل ۱۹۶۷ء کے اسرائیلی حملے کے بعد منظور کی جانے والی قرارداد نمبر242 میں برتی گئی تھی۔ قرارداد 1860کے متن میں فوجی انخلا کا ذکر کرتے ہوئے 'مخصوص سرزمین' (The land)کی بجائے 'کوئی بھی سرزمین' (A land)کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، تاکہ یہودیوں کے لئے ان علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنے کی گنجائش موجود ہو جسے اُنہوں نے غصب کر رکھا ہے۔

اس طرح اس قرار داد میں غزہ سے انخلا کا مطالبہ نہیں کیا گیابلکہ جنگ بندی کی بات کی گئی ہے جو کہ 'انخلا کا باعث' ہوگی،لیکن یہ جنگ بندی کس طرح اور کیونکر انخلا کاباعث بنے گی ؟اس سے قبل کئی واضح قراردادیں بھی یہودیوں کی جارحیت کو نہیں روک سکیں تو پھر کس طرح یہ قرارداد یہودیوں کی جارحیت کو روکنے کا باعث ہوگی،جسے جان بوجھ کر مبہم رکھا گیا ہے؟!
اَقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی یہ قراردادیں کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں اور یہودی ریاست ان قراردادوں پر عمل در آمد کرنا گوار ا نہیں کرتی اور یہ قراردادیں محض اقوامِ متحدہ کی ردی کی ٹوکری کو بھرنے کا کام کرتی ہیں ۔ تاہم اس تمام ترکے باوجود بھی امریکہ اور اس کے حواریوں نے سیکورٹی کونسل کی جانب سے اس قرارداد کو منظور کرنے کی مخالفت میں بیان دیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ یہودی ریاست کو غزہ پر وحشیانہ حملے کے دوران مسلمانوں کا مزید خون بہانے کی مہلت مل جائے اور صہیونیت اپنے مزید اہداف کوحاصل کر لے۔

مسلم دنیا کے حکمرانوں نے امریکہ کی پیروی میں اس کے ' مقصد' کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے اس پر رضامندی کا اظہار کیا۔ چنانچہ اُنہوں نے اس قرارداد کے متعلق آپس میں اختلاف کیا اور وہ اس قرارداد پر متفق نہ ہوئے تاکہ یہودی ریاست کو مزید مہلت ملے جائے...! جب یہودی ریاست نے دیکھا کہ اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس نے جان لیا کہ وہ اپنے اہداف کو عسکری کاروائی سے حاصل نہیں کرسکتی اور اس نے دیکھا کہ یہ معاملہ طول پکڑے گا،جبکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ آنے والے انتخابات کے دوران اسے ' فتح'کا تاثر ہرصورت حاصل ہو، خواہ یہ فتح جنگ کے ذریعے ہو یا امن کے ذریعے، امریکہ اس کے لئے سرگرم ہوگیا تاکہ اس ہدف کو سکیورٹی کونسل کے ذریعے حاصل کیا جائے ۔چنانچہ امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزارائس مختلف ملاقاتوں اورمیٹنگز میں بنیادی کردار ادا کر رہی تھی اور اس نے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو حرکت میں لانا شروع کیا، اور وہ سب سکیورٹی کونسل کی طرف تکنے لگے جبکہ یہ وہی حکمران ہیں جو غزہ میں مسلمانوں کی مدد کے لئے خود کوئی ٹھوس اقدام کرنے سے اس طرح بدکتے ہیں جیسے یہ کوئی سیدھا موت کا راستہ ہو!

مسلم دنیا کے حکمران اس قرارداد کے ضامن ہیں ،اگرچہ یہ قرارداد یہودی ریاست کو وہ کچھ عطا کر رہی ہے جو وہ حملوں کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتی، یعنی اسرائیل کی افواج غزہ میں موجود رہیں گی اور غزہ پر اسلحہ اور قوت حاصل کرنے پرپابندی برقرار رہے گی۔ نیز اس قرارداد میں غذائی امداد کا ذکر اسلحہ اور قوت حاصل کرنے پرعائد اس پابندی کوتبدیل نہیں کرے گا!

اس قرارداد کو وزن دینے کے لئے امریکہ نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ ڈالا تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ گویا امریکہ اس قرارداد کے پس پردہ نہیں ہے۔ اور تاکہ مسلم دنیا کے حکمران یہ تاثر دینے کے قابل ہوسکیں کہ وہ امریکہ کی مدد کے بغیربھی ایک بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ، لیکن درحقیقت مسلم حکمران ایک بار پھر دھوکہ کھا گئے اور کوئی بھی ایسا شخص جو عقل رکھتا ہے اس بات کااِدراک کر سکتا ہے کہ اگر امریکہ اس قرارداد کی پشت پر نہ ہوتا تو وہ اس قرارداد کو منظور ہی نہ ہونے دیتا۔

اللہ ہمیں ایسے قائد دے جو مسلم اُمہ کے مفاد کے محافظ، دشمن کی چالبازیوں کو سمجھنے والے، ملت کا شعور اور دکھ درد رکھنے والے اور دین کی عظمت کے رکھوالے ہوں !!
[المیہ غزہ پر نامور صحافیوں کی تحریروں کا ایک انتخاب]

حوالہ جات
1. محمد عطاء اللہ صدیقی: 2؍جنوری 2009
2. حامد میر: 26؍جنوری 2009
3. ثروت جمال اصمعی:14؍جنوری 2009
4. خالد امائرے؍ ترجمہ:محمد ایوب منیر: 13؍جنوری 2009
5. حامد میر: 29؍جنوری