اجتہاد یا الحاد

'اجتہاد' اور' جہاد' عصر حاضر کی دو مظلوم اصطلاحیں ہیں ۔ معاصراسلامی معاشروں میں جس قدرذہنی انتشار و فکری بگاڑ بڑھ رہا ہے، اس کی بڑی وجہ متجددین کاتصورِ اجتہاد ہے جبکہ دوسری طرف جتنی بھی منہج و عمل کی کج روی ہے، وہ متشددین کے نظریہ'جہاد'سے پھوٹتی ہے۔


ویسے تو دنیا بھر میں ہی آئے روز نت نئے عجوبے پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن برصغیر پاک وہند اور مصر کوعالم اسلام میں اس لحاظ سے خصوصی امتیاز حاصل رہا ہے کہ دین حنیف سے منحرف ہونے والے اکثر و بیشترگمراہ فرقوں کے سربراہان اور اسلامی اساسات و عقائد میں بگاڑ پیداکرنے والے متجددین کا تعلق زیادہ ترانہی قطعہ ہائے زمین سے رہا ہے۔خصوصاً برصغیر پاک وہند ابتدا سے ہی گمراہ فرقوں ،متجددین، مفکرین اورنام نہاد مجتہدین کے لحاظ سے بہت زرخیز رہا ہے۔ہند وپاک میں اس وقت اس قدرکثیر تعداد میں نام نہاد مفکرین پائے جاتے ہیں کہ اگر ان کی برآمد (export) کا کاروبار شروع کیا جائے، تو شایدعصر حاضر کا سب سے نفع بخش کاروبار یہی شمار ہو۔ زیر نظر مضمون میں ہم ایسے مفکرین کے تصور'اجتہاد' کاایک تجزیاتی مطالعہ پیش کریں گے ۔إن شاء اللہ !


پاکستان کی 'اسلامی نظریاتی کونسل' ایک حکومتی ادارہ ہے اور آئین پاکستان کے مطابق اس کا کام پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو قانون سازی کے لیے ایسی سفارشات پیش کرنا ہے، جن کی روشنی میں عوام پاکستان دین اسلام کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں ۔اس کونسل کی پہلی بنیاد 1962ء کے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت رکھی گئی تھی۔اُمت ِمسلمہ میں پیدا شدہ فکری انحراف کوہوادینے کے لیے حال ہی میں 'اسلامی نظریاتی کونسل' سے منسلک سرکاری و غیر سرکاری متجددین نے'اجتہاد' کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا ہے۔ اس رسالے کے تاحال تین شمارے شائع ہو چکے ہیں جن میں فکر ِاسلامی کے منحرفین، فقہ اسلامی کے متجددین اور 'پڑھے کم، لکھے زیادہ'دانشوران نمایاں ہیں ۔ علاوہ ازیں شریعت سے ناواقف ان معاصر مجتہدین کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لیے ننگے سرو نیم عریاں بدن کے ساتھ خواتین کی تصاویر بھی جا بجا رسالہ اجتہاد میں موجود ہیں ۔ ممکن ہے کہ ان کی نظر میں کم فہم مولویوں کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہ آ رہی ہو کہ 'اجتہاد' کے موضوع کاعورتوں کی ننگی تصاویر چھاپنے سے کیا تعلق ہے، لیکن ہمیں اُمید ہے کہ مولویوں کا منہ بند کروانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے محققین سہ ماہی 'اجتہاد' کے آزادیٔ نسواں کے کسی شمارے میں اس تعلق کے اثبات میں ضرورحکمت کے موتی بکھیریں گے۔ یہ عورت ذات بھی عجب شے ہے۔زندگی کے ہر شعبے کی رونق اپنے بغیر ادھوری سمجھتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے، اب کے تو یہ عورتیں جمالیاتی حس کی بیداری کو ہمارے ان مجتہدین سے اجتہاد کی بنیادی شرائط و اہلیت میں شامل کروا کے ہی دم لیں گی۔


خیر اس موضوع پر تبصرے کے لیے ابھی ہم سہ ماہی 'اجتہاد'کے مزیدشماروں کا انتظار کرتے ہیں ۔اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔سہ ماہی 'اجتہاد'کے پہلے شمارے کا موضوع 'اقبال اور اجتہاد '، دوسرے کا 'اسلام اور مغرب' اور تیسرے کا 'جدید علم الکلام ' تھا۔ پرویز مشرف کی تشکیل کردہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اوررسالہ'اجتہاد' کے مدیر مسئول جناب ڈاکٹر خالد مسعود اس رسالے کے اجرا کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''رسالہ 'اجتہاد' کا مقصد اجتہاد پیش کرنا نہیں بلکہ اسلامی دنیا میں جاری فکری عمل کا جائزہ پیش کر کے دعوتِ فکر و عمل دینا ہے۔''1


ڈاکٹرخالد مسعود کی اس بات پر ہم دو پہلوؤں سے گفتگو کریں گے۔ پہلی بات جس کا تذکرہ خالدمسعود صاحب نے کیا ہے کہ''رسالہ اجتہاد کا مقصد اجتہاد پیش کرنا نہیں ہے۔'' تو اس رسالہ اجتہاد کودیکھنے کے بعد یہ دعویٰ محل نظرہے۔مسعود صاحب کے اس دعوے کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو خود کو شادی کے لیے نااہل بتاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس نے چار شادیاں رچا رکھی ہوں اور لوگوں کو بے وقوف بناتے ہوئے زبان سے ہر کسی کو یہی باور کراتا ہے کہ میں ''ساری زندگی شادی نہیں کروں گا۔'' رسالہ اجتہاد کے ہر دوسرے مقالے میں کوئی نہ کوئی مجتہد صاحب نت نئی تحقیقات پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال، راشد شاز، خورشید احمدندیم، الطا ف احمد اعظمی اور خود ڈاکٹر خالد مسعود وغیرہ کی تحریریں اجتہادات نہیں تو کیا تقلید ِجامد کو پیش کر رہی ہیں ۔


ان تحریروں میں ان حضرات کے اپنے اجتہادات بھی شامل ہیں اور دوسرے روشن خیال دانشوروں کی تحقیقات بھی۔مسعود صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان کے اس رسالے کا مقصد اسلامی دنیا میں پیش آنے والے فکری عمل کا تعارف ہے۔رسالہ اجتہاد کے اجرا کے اس عظیم مقصد کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ دنیاے اسلام میں جہاں جہاں نظریاتی بگاڑ، عقیدے کی کجی اور ذہنی انتشاروغیرہ موجود تھا، رسالہ اجتہاد نے اس سارے 'گند' کو اکٹھا پیش کرنے کے منصوبے کا آغاز کیاہے۔ مثال کے طور پر خورشیداحمد ندیم صاحب کو لیں ۔ وہ سہ ماہی 'اجتہاد' ستمبر 2008ء میں مصر کے حوالے سے متجددین کی ایک علمی تحریک کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں :
''بیسیویں صدی عیسوی کے مصر میں ایک جدید فکری تحریک نمودار ہوئی جو 'وسطانیہ' کے نام سے منسوب ہے۔اس تحریک کے نمائندہ حضرات خود کو 'جدید اسلامی رجحان' کا نمائندہ قرار دیتے ہیں ۔ اپنے خیالات کے اعتبار سے یہ گروہ روایت پسند اور سیکولر دونوں طرح کے طبقات سے مختلف ہے اور گویا دونوں کے وسط میں ہے۔''2


دوسری طرف عالم اسلام کی دو معروف اسلامی تحریکوں 'جماعت اسلامی' اور 'الاخوان المسلمون' کے بارے میں اپنے دل ودماغ میں بھرے ہوئے زہر، اور بغض کا اس پیرائے میں اظہار کرتے ہیں :
''مصر ایک ایسا ملک ہے جس کو اسلام کے نام پر ہونے والی پرتشدد سرگرمیوں کا سامناہے وہاں جہاد، اسلامک گروپ اور التکفیر والهجرة جیسے گروہ سر گرم ہیں ۔ ولیم بیکر نے اپنی کتاب میں مصری اخبارات کے حوالے سے ایک 33 سالہ نوجوان عادل عبد الباقی کی کہانی بیان کی ہے۔ یہ نوجوان سولہ برس تک مختلف انتہا پسند گروہوں سے وابستہ رہا۔جب وہ گرفتار ہوا تو اس نے اپنے ذہنی سفر کی کہانی سنائی۔اس کاکہنا تھا کہ اس میں انتہا پسند خیالات پیدا کرنے میں مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی کتاب' قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ' اور سید قطب کی معالم في الطریق نے اہم کردار ادا کیا۔ عبد الباقی نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ان متشدد جماعتوں میں تکفیر اور استحلال کے تصورات کو فروغ ملا۔''3


یعنی متجددین تو اُمت ِوسط ٹھہرے اور اسلامی تحریکیں متشددین قرار پائیں ۔ آج کل ہر کوئی جماعت اپنے آپ کو معتدل و متوازن فکر کا حامل قرار دینے کی دعویدار ہے، لیکن اصل مسئلہ تویہ ہے کہ اس کافیصلہ کیسے ہو گا کہ مصر کی 'وسطانیہ' تحریک کے رہنما شیخ محمد الغزالی، طارق بشری اور فہمی ہویدی وغیرہ تومعتدل جبکہ مولانا مودودی اور سید قطب شہید 'انتہا پسند'مولوی' ہیں ؟ مولانامودودی یا سید قطب شہید اس جرم کی پاداش میں انتہا پسند ٹھہرے کہ وہ صرف اللہ ہی کی حاکمیت کا نعرہ لگاتے ہیں یا وہ عورتوں کے لیے نقاب کو لازم قرار دیتے ہیں ، جس کی تردید کو خورشید ندیم صاحب نے اُمت ِوسط ہونے کا معیار ٹھہرا لیا ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر رسالہ اجتہاد کے 'مدیر مسئول ' یا 'مہمان مدیر'یا 'مجلس ادارت' راسخ فکر علماء پر مشتمل ہوتی اور اس رسالے میں عالم اسلام میں ہونے والے اجتہادات کو اگر پیش کیا جاتا تو اس رسالے کی شکل و صورت، ہیئت و ترکیب، ترتیب وتنظیم اور جمع و تدوین یکسر مختلف ہوتی۔ مثال کے طور پر مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب 'اسلام اور مغربیت کی کشمکش' میں جب طالبینِ حق مصر کی مختلف اسلامی تحریکوں ،علمی حلقوں اور مذہبی جماعتوں کے تاریخی پس منظر میں پیش کی جانے والی معتدل تحقیق کا مطالعہ کرتے ہیں تو موضوع ایک ہونے کے باوجود خورشد احمد ندیم اور علی میاں کے مضامین، نتائج اور اُسلوبِ تحریر میں زمین وآسمان کا فرق پاتے ہیں ۔ہمیں تو یہی نظر آتا ہے کہ کچھ نااہل و متعصب دانشور اجتہاد کے نام پر اکٹھے ہو گئے ہیں اور ساری دنیا میں اپنے جیسوں کو تلاش کر کے رسالہ اجتہاد کے ذریعے حکومتی خرچے پران کے کام کا تعارف کروانا چاہتے ہیں ۔ ذیل میں ہم رسالہ اجتہاد میں 'اجتہاد' کے نام سے پیش کیے جانے والے فکری انتشار پر کچھ روشنی ڈال رہے ہیں :


جناب الطاف احمد اعظمی کا نظریۂ اجتہاد
رسالہ 'اجتہاد' نے جامعہ ہمدرد، بھارت کے شعبہ علومِ اسلامیہ کے ڈین جناب الطاف احمد اعظمی کا ایک مضمون 'خطبہ اجتہاد پر ایک نظر' کے عنوان سے شائع کیا ہے۔اس مضمون کی آخری سطور میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ مضمون جناب مصنف کی ایک کتاب' خطباتِ اقبال؛ ایک مطالعہ' کے ایک باب کی تلخیص ہے۔اب یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ تلخیص کس نے کی؟ اس مضمون کو رسالہ اجتہاد میں شائع کرنے کی خواہش خود مصنف کی طرف سے تھی یا رسالہ اجتہاد کے مدیران کو مصنف کے فکری انتشار نے گرویدہ بنا لیااور اُنہوں نے اس تحریر کو شائع کر دیا۔ جو بھی صورت ہو، الطاف صاحب لکھتے ہیں :
''اس گفتگو سے ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ قرآنِ مجید میں جن معاملاتِ زندگی سے متعلق تفصیلی احکام دیے گئے ہیں ، وہ ناقابل تغیر ہیں اور جہاں یہ تفصیل نہیں ہے، وہاں بالقصد تفصیل سے گریز کیا گیا ہے تاکہ ان اُمور میں حالات و مقتضیاتِ زمانہ کے لحاظ سے تفصیلی احکام بنائے جائیں ،اسی کانام 'اجتہاد' ہے، اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات کی حیثیت [محض] نظائر کی ہے۔ یہاں ایک اہم سوال اُٹھتا ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحاتِ نصوص یعنی اجتہادات کی حیثیت دائمی ہے یعنی ناقابل تغیر اور ہر دور کے حالات میں خواہ وہ عہد ِنبویؐ کے حالات سے یکسر مختلف ہوں ، کسی ردّ و بدل کے بغیر واجب التعمیل ہیں ؟کم نظر علما کاخیال ہے کہ اجتہاداتِ نبوی دائمی ہیں اور ان میں کوئی ترمیم و اضافہ جائز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں قولِ حق یہ ہے کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعمال جو عبادات اوراخلاق سے تعلق رکھتے ہیں ،ناقابل تغیر ہیں ، لیکن معاملات سے متعلق احکام کی حیثیت دائمی نہیں ہے بلکہ حالات و ظروف زمانہ کے لحاظ سے ان میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔۔۔ اسلامی قانون کے ماخذ کی نسبت اس تفصیلی گفتگو سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ مستقل بالذات ماخذ ِقانون کی حیثیت صرف قرآنِ مجید کو حاصل ہے اور وہ دائمی یعنی ناقابل تغیر ہے۔ دیگر مآخذ ِقانون کی یہ حیثیت نہیں ہے، وہ احوال و ظروفِ زمانہ کے تابع ہیں یعنی قابل تغیر جیسا کہ بیان ہوا ۔''4


الطاف صاحب کا خیال ہے کہ جن معاملات میں قرآن کے احکامات مجمل ہیں ، ان مجمل احکامات کی تشریح میں وارد آپؐ کی احادیث کی حیثیت دائمی نہیں ہے بلکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی احادیث آپؐ کے اجتہادات ہیں اور یہ احادیث صرف آپؐ ہی کے زمانے کے تہذیب و تمدن کے مسائل کے حل کے لیے ہی تھیں ۔گویا شریعت ِمحمدیؐ کی حیثیت ایک نظیر کی ہے جس طرح بعد کے خلفا یا مجتہدین کی فقہ بھی ایک نظیرکی حیثیت کی حامل ہے۔یہ غلام احمد پرویز کے نظریۂ 'مرکز ملت' ہی کی بازگشت یا اس کاجدید ایڈیشن ہے۔اسی بنا پرپروفیسر الطاف صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ ان کی قبیل کے مجتہدین کو قرآن کی مجمل نصوص کی تشریحات آج کے احوال وظروف کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے کرنی چاہئیں ۔


حقیقت یہ ہے کہ علماے حق کے نزدیک اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی سنن اور احادیث چاہے ان کا تعلق قرآن کے کسی مجمل حکم کی شرح سے ہو یا وہ قرآن کے علاوہ کسی نئے حکم کا ماخذ ہوں ، ہر دوصورتوں میں دائمی اور ناقابل تغیر حیثیت کی حامل ہیں ۔ ان احادیث کا مقام اُمتی مجتہدین وفقہا کی آرا کی طرح محض ایک نظیر کا نہیں ہے۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مقام ومرتبہ متعین کرنا پروفیسر الطاف صاحب کا کام نہیں ہے بلکہ یا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَطِيعُوا ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا ٱلرَّ‌سُولَ وَأُولِى ٱلْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَـٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ ۚ ...﴿٥٩﴾...سورة النساء
''اسے اہل ایمان!اللہ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروا ور اولی الامر کی بات مانو۔ پس اگر کسی بھی مسئلے میں تمہارا (اولی الامر سے)جھگڑا ہو جائے تو تم اس مسئلے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم(یعنی قرآن و سنت) کی طرف لوٹا دو' اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتے ہو۔''


اس قرآنی ہدایت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو مستقل ہے جب کہ اولی الامر کی اطاعت مشروط ہے،بلکہ اگر اُولی الامر کا باہمی یا کسی دوسرے کا ان سے اختلاف ونزاع ہو جائے تو اس کا حل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کتاب وسنت) کی طرف رجوع کرنا ہی ہوگا۔ ان اختلافات کے بارے میں واضح رہے کہ یہ اختلافات نصوص کی تعبیر و تشریح اور ان کے اطلاقات سمیت جملہ انسانی معاملات میں ہو سکتے ہیں ۔ ان تمام کے بارے میں ربانی ہدایت یہی ہے کہ ان معاملات میں کتاب وسنت کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا اور اس وقت اُولی الامر کی عوام پر اتھارٹی ختم ہو جائے گی۔


ملاحظہ فرمائیے کہ اس آیت ِمبارکہ کے دوسرے جزء {فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيئٍ}میں شيئ نکرہ وارد ہو اہے اور لغت ِعرب کایہ معروف قاعدہ ہے کہ جب نفی، نہی یا کسی استفہام وشرط کے سیاق میں نکرہ ہو تو وہ اپنے عموم میں نص بن جاتا ہے یعنی پھر اس سے عموم بیان کرنا متکلم کا منشا ہوتا ہے۔ (i) لہٰذا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی قسم کے مسئلے میں بھی اگر شرعی حکم کے حوالے سے بحث ہو جائے تو اس مسئلے کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے قرآن وسنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔


اَب ذرا اعظمی صاحب کے نظریے کا جائزہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی روشنی میں لیجئے:
(یوشك الرجل متکئًا علی أریکته یحدث بحدیث من حدیثي فیقول بیننا وبینکم کتاب اﷲ ما وجدنا فیه من حلال استحللناہ وما وجدنا فیه من حرام حرّمناہ وإن ما حرم رسول اﷲ ﷺ مثل ما حرم اﷲ)5
''(وہ زمانہ)قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے پاس میری احادیث میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے گی تو وہ شخص کہے گا: ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے پس جس کو اللہ کی کتاب نے حلال ٹھہرا دیا تو ہم بھی اس کو حلال سمجھیں گے اور جس کو ہم نے اللہ کی کتاب میں حرام پایا تو ہم بھی اسے حرام قرار دیں گے(اور یہی ہمارے لیے کافی ہے)۔ (خبردار!) بے شک جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہے، وہ اسی طرح حرام ہے جیسے کسی شے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہو۔ ''


اس حدیث ِمبارکہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت میں بیان شدہ کسی بھی حلال یا حرام شے کی حلت یا حرمت کے منکر کو ایک فتنہ پرور شخص قرار دیاہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی اس اعتبار سے سچ ثابت ہوئی ہے کہ تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں نام نہاد مفکرین اور عقلیت پسند احادیث ِرسولؐ کا کسی نہ کسی انداز سے انکار کرتے ہی رہے ہیں ۔ بعض نے اپنے نظریات کے منافی سنن واحادیث کو نظائر تاریخی قرار دے کر ان کی شرعی حیثیت کا اِنکار کردیا جیسا کہ غلام احمد پرویز کا موقف تھا جبکہ بعض نے اپنے موقف کے خلاف حدیث کے انکار کے لیے حیلوں بہانوں سے کام لیا جیسا کہ الطاف اعظمی کا خیال ہے کہ اخلاق وعبادات سے متعلق احادیث تو قابل قبول ہیں ، لیکن ان کے علاوہ معاشیات، سیاسیات، معاشرت، جہاد و قتال ، حدود و جنایات، قضا، طعام و قیام، لباس وزینت اوردیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مروی احادیث قرآن کی ایسی تشریح تھیں جو صرف آپؐ کے زمانے کے لیے واجب العمل تھی۔یہ نکتہ نظر پبلک لاء کی حدتک ہوبہو غلام احمد پرویز کا ہے۔ الطاف صاحب کا یہ نظریہ ان کی ایک ذاتی رائے ہے جس کی کوئی شرعی دلیل تاحال ان کو نہ مل سکی،بلکہ دلیل تو ان کے اس نظریے کے خلاف قائم ہے جیسا کہ مذکورہ بالاحدیث پروفیسر صاحب کے نکتہ نظر کاپرزورردّکر رہی ہے۔ اس طرح ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ جب اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا:
''فقال کیف تقضي فقال أقضي بما في کتاب اﷲ قال فإن لم یکن في کتاب اﷲ قال فبسنَّة رسول اﷲ۔ قال فإن لم یکن في سنة رسول اﷲ۔ قال اجتھد رأیـي''6
''آپؐ نے پوچھا کہ تم کیسے فیصلہ کرو گے تو حضرت معاذؓنے کہا : جو کتاب اللہ میں ہے، میں اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگروہ (مسئلہ صریحاًو تفصیلاً) کتاب اللہ میں نہ ہو توحضرت معاذ ؓ نے کہا: میں سنت رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کروں گا(کیونکہ اس میں صراحت اور تفصیل قرآن کی نسبت زیادہ ہے)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:اگر وہ(مسئلہ صریحاً و تفصیلاً) سنت ِرسولصلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ہو۔حضرت معاذؓنے جواب دیا: میں اپنی رائے (بنانے) میں اجتہاد (یعنی قرآن و سنت میں پوری کوشش و طاقت صرف کرکے استنباط) کروں گا۔''


یہ روایت ثبوت کے اعتبار سے اگرچہ مختلف فیہ ہے۔جلیل القدر محدثین تو فن حدیث کی رو سے اسے ضعیف قرار دیتے ہںپ ،لیکن مسلم قرونِ وسطیٰ کے بہت سے اُصولی علما اسے معرضِ استدلال میں پیش کرتے ہیں ۔معتدل مزاج متاخرین نے یوں تطبیق دی ہے کہ(لا تجتمع أمتي علی الضلالة) (اجماع کی دلیل والی روایت) کی طرح اس کا متن تو معیاری نہیں ،لیکن کتاب وسنت کے بعد درجہ اجتہاد کی حد تک اس کامفہوم درست ہے،اسی لیے اُصول کی کتابوں میں متذکرہ بالا دونوں روایتیں اجماع اور اجتہاد کی دلیل کے طور پر اکثر پیش کی جاتی ہیں ۔


اس روایت کا حاصل مفہوم یہ ہے کہ جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا جا رہا تھا تو اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ سوال کہ'' تم کیسے فیصلہ کرو گے ؟'' صرف عقیدے یا اخلاقیات کے جھگڑے کے بارے میں نہ تھا بلکہ ہر قسم کے اختلاف کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا کہ اس کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکمران یا گورنرکی طرف اکثر وبیشترانسانوں کے باہمی معاملات Public Lawsسے متعلقہ تنازعات کے حل کے لیے ہی لوگ رجوع کرتے ہیں ۔


الطاف صاحب نے جن معروف علماے کرام کو 'کم نظر' ہونے کا طعنہ دیا ہے اس پر ہمیں کوئی گلہ نہیں ہے، کیونکہ صائب فکر علما کتاب وسنت سے آگے بڑھ کر تیز نظر نہیں ہوتے،کیونکہ شریعت کی پابندی ہی سلامتی کی ضامن ہے اور بدعت واضافہ گمراہی! متجددین کو یہ 'تیز نظر' مبارک ہو۔ ایسی تیز نظری اگر واقعتاً کوئی اعلیٰ صفت ہوتی تو 'اُلو' میں یہ صفت نہ پائی جاتی،جو اہل علم ودانش کے ہاں کم از کم قابل ستائش پرندہ نہیں ہے۔


جناب ڈاکٹر جاوید اقبال کا نظریۂ اجتہاد
الطاف صاحب سے زیادہ بے باکانہ نکتہ نظرڈاکٹر جاوید اقبال کا ہے کہ مجمل توکیا قرآن کے مفصل احکامات میں بھی تغیر وتبدل ہو سکتاہے ۔ وہ فرماتے ہیں :
''قرآنِ پاک میں اللہ پاک نے عدل کے ساتھ احسان کی بھی ترغیب دے رکھی ہے، لہٰذا وہاں احسان کے معنی برابری کے لیے گئے۔یعنی بعض حالات میں قرآن پاک میں مقرر کیے گئے وراثت کے حصص میں ردّو بدل ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر میں چاہتا ہوں کہ میری جائیداد ساری کی ساری میری بیٹی کو ملے تو میں کیوں ایسا نہیں کر سکتا۔ بیٹی یا بہن سارا گھر چلاتی ہے لیکن جائیداد کی تقسیم کے وقت اسے آدھا حصہ ملتا ہے۔۔۔میرا موقف یہ ہے کہ ایک نئی فقہ پارلیمنٹ کے ذریعے بنائی جائے جس میں امامیہ ، حنفی ، مالکی وغیرہ سب مکاتب ِفکر شامل ہوں جس میں ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق اپنے مسئلے کاحل نکال لے۔''7


ڈاکٹر اعظمی کے بقول ڈاکٹر اقبال بھی اسی نظریہ کے حامل ہیں ، گویا اُنہوں نے اپنی کتاب'تشکیلِ جدید' میں یہی بیان کیا ہے۔الطاف احمد اعظمی صاحب اس نکتہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''گزشتہ صفحات میں ہم نے اسلامی قانون کے مآخذ کے بارے میں اقبال کے خیالات کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، اس سے بالکل واضح ہو گیا کہ وہ ان مآخذکے بارے میں ایک واضح تصور رکھتے تھے۔لیکن اسلامی قانون کے اولین ماخذ یعنی قرآنِ مجید کے متعلق ان کے خیالات بہت واضح نہیں تھے۔مثلاً ان کا خیال ہے کہ قرآن مجید کے بعض احکام مقامی نوعیت کے ہیں اور ان کا اطلاق بعد کے زمانوں میں نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے جرائم کی ان سزاؤں کا ذکر کیا ہے جو قرآنِ مجید میں بیان ہوئی ہیں ۔اُنہوں نے لکھا ہے کہ یہ سزائیں عربوں کے مزاج اور ان کے مخصوص تمدنی حالات کے تحت مقرر کی گئی تھیں ، اس لیے مستقبل کی مسلم اقوام پر ان کو جوں کا توں نافذ کرنا صحیح نہ ہوگا۔''8


اللہ ہمارے ان معاصر دانشوروں کو ہدایت دے، یہ اس مسئلے میں اجتہاد کیوں نہیں کرتے کہ یہ سب اجتہاد کی تعریف یا اس کے اطلاق وانطباق پر ہی کم ازکم متفق ہو جائیں ۔ الطاف صاحب، ڈاکٹر اقبال مرحوم کے نقطہ نظر کا ردّ تو کررہے ہیں ، لیکن ان کے پاس نہ تو اقبال مرحوم کے تصورِ اجتہاد کی تردید میں کوئی دلیل ہے اور نہ ہی اپنے مزعومہ نظریۂ اجتہاد کی تائید میں کوئی استدلال۔بھلا جب بات دلیل کے بغیر ہی کرنی ہو توغلام احمد پرویز کی طرح کوئی سر پھرا یہ تصورِ اجتہاد بھی پیش کر سکتا ہے کہ قرآن کے سارے ہی احکامات اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی تہذیب و تمدن کے ساتھ خاص تھے۔یعنی نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری!


ڈاکٹر جاوید اقبال نے یہ بھی کہاہے کہ ایک ایسی نئی فقہ بنانی چاہیے کہ جس میں ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق مسئلے کا حل نکالے۔ جب اپنی ذاتی پسند ہی معیارِ اجتہاد ٹھہرا تو ایسی نئی فقہ(ii) کی ترتیب و تدوین کے لیے ماشاء اللہ ڈاکٹر صاحب موصوف مناسب ترین آدمی ہیں ، علماء کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے؟زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر صاحب کویہ اجتہاد(کوشش) کرنا ہو گا کہ دل سے پوچھنا پڑے گا کہ تجھے شراب پینا پسند ہے یا نہ پینا؟ نفس سے یہ سوال کرنا ہو گا کہ اسے نماز پڑھنا پسند ہے یا نہ پڑھنا؟بلکہ دل و دماغ سے یہ بھی رائے لی جا سکتی ہے کہ اسے کسی خدا کے وجود کوماننا پسند ہے یا نہ ماننا؟ باقی رہے اس پسند و ناپسند کے دلائل ، تو عقل خدا نے کس لیے دی ہے؟آخر وہ کس کام آئے گی؟آخر اسی عقل ہی نے تو بعضوں کو سمجھایا کہ اتنی پی لینے میں کوئی حرج نہیں ہے جس سے دماغ خراب نہ ہو۔ہمیں اُمید ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس نئی فقہ کی تدوین کے ذریعے نفس پرستوں کے ایک ایسے فرقے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ، جن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
أَرَ‌ءَيْتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَـٰهَهُۥ هَوَىٰهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا ...﴿٤٣﴾...سورة الفرقان
''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپؐ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی خواہشِ نفس (پسند) کو اپنا معبود بنا لیا ہے(یعنی ہر مسئلے میں اپنی پسند کو ترجیح دیتاہے) کیا آپؐ ایسے شخص کی ذمہ داری اُٹھائیں گے؟۔''


جناب ڈاکٹر صاحب نے ایک اور نیا شوشہ یہ بھی چھوڑا ہے کہ اجتہاد علما کی بجائے وکلا کو کرنا چاہیے۔ چونکہ علما جدید قانون سے واقف نہیں ہیں ، لہٰذا وکلا کو اسلامی فقہ اور اُصولِ فقہ سے متعلق ایک دو اضافی مضامین پڑھا کر مجتہد کی سند جاری کر دینی چاہیے۔ رسالہ 'اجتہاد' میں ہے:
''جناب جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ اجتہاد کا تعلق بہت حد تک قانون کی تعلیم سے ہے۔ پاکستان میں بہت شروع سے اس بات پر زور دیاگیا تھا کہ ملک کے قانونی تعلیم کے اداروں میں 'جیورس پروڈنس' یا فلسفہ قانون کی تعلیم دی جائے اور جدید قانون کے ساتھ اسلامی قانون کا تقابلی مطالعہ بھی تعلیم میں شامل ہو۔اس طرح جو قانون کے اداروں سے فارغ التحصیل قانون دان ہوں ، وہ علما کی جگہ لے سکیں گے کیونکہ وہ جدید قانون کے ساتھ فقہ سے بھی شناسا ہوں گے، اس طرح قانونی تعلیم میں اصلاح کا آغاز ہو گا۔''9


ویسے ڈاکٹر جاوید اقبال جس قسم کا اجتہاد کرنا چاہتے ہیں (یعنی ذاتی پسند کے مسئلے نکالنا) اس کے لیے واقعتا ڈاکٹر صاحب جیسے ججوں اور وکلا ہی کی جماعت زیادہ مناسب رہے گی۔


جناب راشد شاز کا نظریۂ اجتہاد
ویسے تو رسالہ اجتہاد کے تقریباً تمام دانشوروں کی شان ہی نرالی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر دانش ور کچھ ایسے اوصاف و نظریات کا حامل و مبلغ ہوتا ہے جو دوسرے کسی دانش ور میں موجود نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال قرآن کے مفصل احکامات میں اجتہاد ـ(ردّ و بدل) کے داعی و مبلغ ہیں تو پروفیسر الطاف صاحب قرآن کے مجمل احکامات کی تفسیر میں مروی احادیث کا انکار کرتے ہوئے اجتہاد کرنے کے پرجوش حامی ہیں ۔ راشد شاذصاحب کا خصوصی ذوق و شوق یہ ہے کہ تمام قدیم فقہی مذاہب و آرا کو آنِ واحد میں یکسر مسترد کرتے ہوئے نئے سرے سے قرآن کی شرح و تفسیر کی جائے اور جدید حالات اور تہذیب و تمدن کے مطابق سارے دین کی ایک ایسی تشکیل نو کی جائے، جس میں کسی سابقہ عالم دین کا تذکرہ یاحوالہ تو کیا نام تک بھی موجود نہ ہو۔جناب راشد شاز صاحب لکھتے ہیں :
''جدید مصلحین کو ابتدا ہی سے اس بات کا التزام کرنا ہو گا کہ وہ تاریخی اسلام اور نظری اسلام میں نہ صرف یہ کہ امتیاز کریں بلکہ مطالعہ قرآنی میں ایک ایسے منہج کی داغ بیل ڈالیں جس کے ذریعے انسانی تعبیرات اور التباسات کے پردوں کا چاک کیا جانا ممکن ہو۔ اور یہ جب ہی ممکن ہے جب ہر مسئلہ کو از سر نو تحقیق و تجربہ کا موضوع بنایا جائے اور ہر مسئلہ پر قرآنی دائرئہ فکر میں از سر نو گفتگو کا آغاز ہو۔یقین جانئے، اگر ہم قرآنِ مجید کو حَکَم مانتے ہوئے اپنے تہذیبی اور علمی ورثے کا ناقدانہ جائزہ لینے کی جرات پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم خود کو فکری طور پر نزولِ وحی کے ان ایام میں پائیں گے جب وحی کی ضیا پاشیاں ہمارے قلب و نظر کو منور اور ہمارے ملی وجود کو طمانیت سے سرشار رکھتی تھیں ۔''10


جناب راشد شاذ اپنے جیسے نام نہاد مصلحین کو بڑا اچھا مشورہ فراہم کر رہے ہیں ، کیونکہ ان لوگوں نے بھی تو دنیا میں کچھ کرنا ہے لیکن سوال تویہ ہے کہ جتنا عرصہ ان مصلحین کو دین کی نئی تعبیر یا تشکیل میں لگے گا تو اس وقت تک یا تو یہ مصلحین اس دنیا سے رخصت ہو کر قدما میں شامل ہو چکے ہوں گے یا پھر دنیا بہت ترقی کر چکی ہو گی لہٰذا آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ان مفکرین کی نئی تعبیر وتشکیل قدیم بن جائے گی اور اگر آئندہ آنے والی نسل جناب راشد شاز کے اس نظریہ کوتسلیم کر لیں کہ ہر قدیم تعبیرکو ردّ کردو تو وہ راشد شاذ کی تشکیل نوکو دیوار سے مارتے ہوئے یہ نعرہ لگائیں گے کہ اس تعبیر دین کو بھی کسی کوڑے کرکٹ کے ڈرم میں پھینک کر دین کی جدید ترین تعبیر کی تلاش میں سرگرم ہو جاؤ اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔اس طرح چودہ صدیوں میں اگر چھ سات فقہیں سامنے آئی ہیں تواب ایک صدی میں چھ یا سات سو نئی تعبیریں وجود میں آ جائیں گی،کیونکہ ان کی نظر میں پرانے زمانوں میں مجتہد کم ہوتے تھے اب تو ماشاء اللہ ہر دوسرا دانش ور مجتہد ہونے کا دعویدار ہے۔اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب یہ متجددین اپنے بچوں کے نام کے ساتھ بھی مجتہد کا سابقہ یا لاحقہ لگانے کے لیے کوئی 'مجتہد ماڈل پبلک سکول ' بھی کھول لیں ۔ ایک اور جگہ راشد شاز صاحب لکھتے ہیں :
''نئے مصلحین کو اس بات کا التزام بھی کرنا ہو گاکہ وہ وحی ربانی کے مقابلہ میں صدیوں کے متوارث عمل کو، خواہ اس پر مفروضہ اجماع کی مہر ہی کیوں نہ لگ گئی ہو، از سر نو تحلیل و تجزیے کا موضوع بنائیں ۔اب یہ کہنے سے کام نہیں چلے گاکہ کسی مخصوص مسئلے پر فلاں فلاں فقہاء اور ائمہ کی کتابوں میں یوں لکھا ہے یا یہ کہ فلاں مسئلہ پر اُمت کا اجماع ہو چکا ہے جسے از سر نو بحث کی میزپر نہیں لایا جا سکتا۔ خدا کے علاوہ انسانوں کے کسی گروہ کو اس بات کااختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اجماع کی دھونس دے کر یااہل حل و عقد کے حوالے سے ہمیں کسی مسئلہ پر تحلیل وتجزیے سے باز رکھے۔''11


راشد صاحب کو پتہ نہیں کس نے 'اجماع' کی دھونس لگادی، جو وہ اس قدر سیخ پا ہو رہے ہیں ۔ ویسے راشد صاحب کو اس غم میں دبلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی ان کو اجماع کے خلاف رائے اختیار کرنے پر جبر و تشدد کا نشانہ بنائے گا۔ یہاں تو لوگ سنت، سنت کیا قرآن کا انکار کر دیتے ہیں لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ہندو،سکھ،عیسائی، قادیانی، اہل تشیع، منکرینِ حدیث وغیرہ اسی ہند و پاک کے معاشرے میں رہتے ہیں ۔ آج تک اُنہیں توکسی نے اجما ع کی دھونس نہیں لگائی۔ اگر تو راشد شاز صاحب کا اجماع کی دھونس سے مراد کسی عالم دین کا اِجماع کی پابندی کرنے پر زور دینااور اس سے متعلقہ علمی دلائل کو بیان کرنا ہے تو پھر یہ دھونس تو راشد شاز بھی یہ کہہ کر علماء کو لگا رہے ہیں کہ' اجماع کی پابندی نہ کرو'۔اگر اپنی رائے کے حق میں دلائل بیان کرنا اور اس پر اِصرار کرنا دھونس ہے توہماری نظر میں سب سے زیادہ دھونس لگانے والے تو رسالہ' اجتہاد' کے نام نہاد مجتہدین ہیں جو بغیر دلیل کے معتدل فکر اور راسخ العلم علما کو متشدد،متعصب،کم نظر وغیرہ جیسے سابقوں اور لاحقوں سے نوازتے رہتے ہیں ۔


راشد صاحب کو اصل بے چینی یہ ہے کہ ان کے اس قدر چیخنے و چلانے کے باوجود بھی لوگ قدیم فقہی اجتہادی آرا پر اعتماد کیوں کرتے ہیں ؟ ہمارا خیال یہ ہے کہ راشد صاحب کی اس بے چینی کا علاج سوائے نیند کی گولیوں کے اور کچھ نہیں ہے،کیونکہ جو قوم چودہ سو سال تک ائمہ سلف سے اپنا رشتہ جوڑنے پر مصر رہی ہو، وہ جناب راشد شاز کے عظیم مشوروں کی بدولت اپنے صالح آباؤو اجداد اور ان کی علمی میراث سے قطع تعلقی پرکیسے آمادہ ہو جائے گی؟ لوگ صدیوں سے قرآن وسنت کی تفہیم میں ائمہ سلف کو اہمیت دیتے رہے ہیں اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا، اِلا یہ کہ سابقہ متجددین کے زندگی بھر کے حاصل کی طرح کوئی چالیس،پچاس آدمی راشد شاز صاحب کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان کے فکری جہاد کی تحریک میں شامل ہو کر 'ثوا ب دارین' حاصل کریں ۔


جناب جاوید احمد غامدی کا تصورِ اجتہاد
جناب جاوید احمد غامدی بھی پرویز مشرف کی روشن خیال اسلامی نظریاتی کونسل کے کلیدی رکن اور رسالہ 'اجتہاد' کی مجلس ادارت کے ممبرہیں ۔کونسل کے ممبران کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کے رکن بننے سے قبل تبصرہ یہ تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے مجتہدین اجتہاد کے اہل نہیں ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں :
''اسلام کے بارے میں جو شکوک و شبہات یا سوالات اس وقت دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں ، ان میں سے بیشتر کا تعلق فقہ و شریعت ہی سے ہے۔ جہاد و قتال کی حدود و شرائط ، نظم سیاست اور اس میں شوریٰ کی نوعیت، نظم معیشت اور سودی نظام کے مسائل ، خواتین کے حوالے سے پردہ ، تعددِ ازواج اور طلاق وغیرہ کے احکام، شہادت اور دیت کے بارے میں قوانین، قتل، زنا، چوری اور ارتدادجیسے جرائم کی سزائیں ، موسیقی، مصوری اور دیگر فنونِ لطیفہ کی شرعی حیثیت اور اس نوعیت کے متعدد موضوعات ہیں ، جن کے بارے میں سوالات زبان زد عام ہیں ۔ ہمارے علماء کے پاس چونکہ ان سوالا ت کے تسلی بخش جواب نہیں ہیں ، اس لیے یہ تصور قائم کیا جارہا ہے کہ اسلامی شریعت عہد ِرفتہ کی یادگار ہے۔۔۔اس تناظر میں اسلامی نظریاتی کونسل سے مقصود اصل میں یہی ہے کہ اوّلاً: اسلامی شریعت کے بارے میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کورفع کرے۔ثانیاً:اجتہادی معاملات کو متعین کرے اور ان میں اپنی اجتہادی آرا سے قوم وملت کو آگاہ کرے۔ ثالثا:ً پارلیمنٹ کی رہنمائی کے لیے انفرادی اور اجتماعی معاملات کے بارے میں قوانین کو مرتب کرے۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی نظریاتی کونسل ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ تو میرے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم ایسے جید علما تیار کرنے سے قاصر ہے جو دورِ جدید کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے اہل ہوں ۔یہ نظامِ تعلیم تقلید ِجامد کے اُصول پر قائم ہے، اس کا اصرار ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے قدیم علما کاکام ہر لحاظ سے مکمل ہے، ان کے کام کی تفہیم اور شرح و وضاحت تو ہو سکتی ہے مگر اس پر نظر ثانی کی کوئی گنجائش نہیں ۔دورِ اوّل کے فقہا نے جو اُصول و قوانین مرتب کیے ہیں ، وہ تغیراتِ زمانہ کے باوجود قابل عمل ہیں ، اس ضمن میں تحقیق واجتہاد کی نہ ضرورت ہے کہ نہ اس بات کااَب کوئی امکان کہ کوئی شخص مجتہدکے منصب پر فائز ہو سکے۔ ہمارے علما اسی نظامِ تعلیم کی پیداوار ہیں ، چناچہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں ہوں یا کسی ادارے کی صورت میں مجتمع ہو کراپنے فرائض انجام دے رہے ہوں ، وہ اس کی اہلیت ہی سے محروم ہیں کہ اسلامی شریعت کی شرح و وضاحت کر سکیں یا جن معاملات میں شریعت خاموش ہے، ان کے بارے میں اپنی آرا پیش کر سکیں ۔ یہی علما اسلامی نظریاتی کونسل کا حصہ ہیں ، لہٰذا اس ادارے سے اس کی توقع رکھنا عبث ہے کہ اسلامی شریعت کے بارے میں ان سوالات کا جواب دے سکیں ، جو ذہین مسلمان عناصر کی جانب سے اُٹھائے جا رہے ہیں اور ان شکوک وشبہات کو رفع کر سکیں ، جن کا اسلام کو عالمی سطح پر سامنا ہے۔''12


جناب جاوید احمد غامدی کا اسلامی نظریاتی کونسل کے مجتہدین کے بارے میں یہ تبصرہ دسمبر 2005 ء کے روزنامہ 'جنگ' میں شائع ہوا ہے۔اور صرف ایک ماہ بعد جنوری 2006ء میں غامدی صاحب کو کونسل کا رکن منتخب کر لیا گیا۔غامدی صاحب کے علماء کے ساتھ تعصب کو داد دیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین میں اجتہاد کی صلاحیت نہ ہونے کا سبب ان کے علماء ہونے کو ٹھہرا رہے ہیں حالانکہ جب غامدی صاحب نے یہ بیان دیا تورسالہ 'اجتہاد' کے مطابق اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے اکثر اراکین وہ تھے جن کا علما سے کوئی دور پار کا بھی رشتہ نہ تھا۔ مثال کے طور پر
1۔ جناب ڈاکٹر محمد خالد مسعود، پی ایچ ڈی اسلامیات، میک گل یونیورسٹی، کینیڈا
2۔جناب ڈاکٹر منظور احمد، پی ایچ ڈی، لندن یونیورسٹی
3۔جناب جسٹس(ر) ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ، پی ایچ ڈی ، کیمبرج یونیورسٹی
4۔جناب جسٹس(ر) ڈاکٹر منیر احمد مغل، سابق جج لاہور ہائی کورٹ
5۔جناب جسٹس(ر)حاذق الخیری 6۔جناب پروفیسر مظہر سعید کاظمی
7۔محترمہ ڈاکٹر پروفیسر سید بی بی 8۔جناب حاجی محمد حنیف طیب
9۔جناب مولانا عبد اللہ خلجی 10۔جناب پیر سید دامن علی


کیا ان اراکین کی اکثریت مدارسِ دینیہ کے نظام تعلیم سے ہی گزری ہے۔یایہ حضرات عوام کے ہاں معتمد علماے دین شمار ہوتے ہیں ؟ ہمارا خیال یہ ہے کہ غامدی صاحب نے، علماء کے نام سے جو تین،چار افراد سیاسی بنیادو ں پر کونسل کے رکن بنائے گئے تھے، کودھکے سے طبقہ علماء کے قائد و رہنماباور کراتے ہوئے علما پر نقد کے اس موقع کو غنیمت سمجھا تھا۔ حالانکہ ان دوچارعلما میں سے کسی کی اگر کوئی اہمیت ہے بھی تو یہی کہ وہ صاحب اقتدار کی خوشامد وچاپلوسی کے ماہر ہیں ۔مولانا عبد اللہ خلجی صاحب دامت برکاتہ کے بارے میں پرویز مشرف کی بلائی گئی ایک مجلس کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں بتایا گیا کہ اس مجلس کے دوران خوشامدی حضرات کا مقابلہ ہو رہا تھا جس میں جناب عبد اللہ خلجی کافی نمایاں تھے، لیکن جب وہاں سے نکل کر سرکاری گاڑی میں بیٹھے تو پرویز مشرف کی برائیاں شروع کر دیں ، اُنہیں جب یاد کرایا گیا کہ آپ وہی عبد اللہ خلجی ہیں جو مجلس میں خوشامد کرنے میں سب سے پیش پیش تھے توکہنے لگے کہ ہم یہاں اپنے کاموں کے لیے آتے ہیں ، ہم کوئی مخلصانہ مشورہ دینے تونہیں آتے۔خوشامد ہماری ضرورت ہے۔


غامدی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن وسنت جن مسائل میں خاموش ہیں ، علما ان مسائل میں اجتہاد کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں ۔ہم غامدی صاحب کی اس بات سے یک گونہ متفق ہیں ، کیونکہ ثقہ علماء کے تصورِ اجتہاد کے مطابق قرآن وسنت کسی بھی مسئلے میں کبھی خاموش نہیں ہوتے، لہٰذا علما کو قرآن و سنت کو خاموش کرانے اور نئی شریعت وضع کرنے کے لیے غامدی صاحب جتنی عقل واہلیت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
غامدی صاحب نے کچھ مسائل کا تذکرہ بھی کیا کہ ان مسائل کے بارے میں جدید ذہن کے شبہات و سوالات کاجوابات دینے سے علما قاصر ہیں ۔اگر تو جواب سے مراد جدید ذہن کی خواہشِ نفس کے مطابق جواب ہے تو واقعتاً علما اس قابل نہیں ہیں کہ جدید ذہن کو ان کے شبہات کا جواب ان کے من چاہے تصورِ دین کی صورت میں دیں ۔اور اگر جوابات سے مراد ان شبہات و سوالات کے بارے میں قرآن وسنت کی رہنمائی کو پیش کرنا ہے تو شاید غامدی صاحب کے تحقیقی ادارہ' المورد' کی لائبریری میں اتنی کتابیں نہ ہوں گی،جتنے ایم اے، ایم فل اورپی ایچ ڈی کی سطح کے مقالہ جات کے علاوہ تحقیقی کتب ان سوالات کے جوابات میں عالم عرب میں بالخصوص اور عالم اسلام میں بالعموم لکھی جا چکی ہیں ۔


بہرحال غامدی صاحب نے رسالہ 'اجتہاد' کے بجائے اپنے رسالے'اشراق' میں ایک جگہ اپنے تصورِ اجتہاد کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
''اجتہاد کا لغوی مفہوم کسی کام کو پوری سعی و جہد کے ساتھ انجام دینا ہے۔ اس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ جس معاملے میں قرآن وسنت خاموش ہیں ، اس میں نہایت غور و خوض کر کے دین کی منشا کو پانے کی جدوجہد کی جائے۔۔۔اس اصطلاح کو اگر مذکورہ روایت کی روشنی میں سمجھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجتہاد سے مراد اپنی عقل و بصیرت سے ان اُمور کے بارے میں رائے قائم کرنا ہے جن میں قرآن وسنت خاموش ہیں یا اُنہوں نے کوئی متعین ضابطہ بیان نہیں کیا۔''13


غامدی صاحب کو بس یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ کسی طرح قرآن و سنت کو خاموش کروا دیں ۔ بس جب ایک دفعہ ثابت ہو جائے گا کہ قرآن و سنت تو ان مسائل میں خاموش ہیں ۔اب چاہے حکم شرعی معلوم کرنے کے لیے عقل عام (Common Sense)کے فلسفہ سے رہنمائی حاصل کر لیں یانام نہاد فطرتِ انسانی کے نظریے کے تحت شریعت کا ڈھانچہ تشکیل دینا شروع کر دیں ۔ غامدی صاحب اس لحاظ سے تمام دانشوروں میں عقل مند ثابت ہوئے ہیں کہ اُنہوں نے اس نکتے تک رسائی حاصل کر لی ہے کہ جب تک یہ فکر عام ہے کہ قرآن و سنت میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے، اس وقت تک ان جیسوں کے اجتہادی فکر کو قبولِ عام حاصل نہ ہوگا۔لہٰذا اُٹھتے بیٹھے یہ شور مچاؤ کہ قرآن و سنت جامع نہیں ہیں ۔ قرآن وسنت میں ہر مسئلے کا حل موجود نہیں اور دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے۔


حاصل کلام: مشہور مقولہ'الکفر ملة واحدة' کی طرح گمراہ فرقے اور افراد بھی یکساں بنیادوں کے حامل ہوتے ہیں ۔ البتہ ان کی گمراہی گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کی کوشش ہوتی ہے۔ غور فرمائیے کہ ہم نے مذکورہ بالا جن نام نہاد دانشوروں کا نظریۂ اجتہاد پیش کیا، ان سب کا مرکزی خیال غلام احمد پرویز کے مرکز ِ ملت کا پرتو یا اس کے مختلف پہلو ہیں ،جس کی رو سے شریعت محمدیہ قیامت تک تشکیل پانے والی نظائر میں سے ایک نظیر کی حیثیت بن جائے گی، گویا اجتہاد شریعت ِمحمدیؐ میں اضافے یا تغیر وتبدل کا ہی دوسرا نام ہے۔ یعنی بعد رسالت تمام خلفا اور مسلمان حکمران جو اجتہاد کرتے یا کراتے رہے،ان کی حیثیت بھی اجتہاد رسالت کی طرح نظائر کی ہے۔ لہٰذا راشد شاز صاحب نے ان نظائر کو تاریخی اسلام قرار دے کر نظریاتی اسلام اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔اگر مذکورہ بالا بقیہ نظریات کا مرکزی خیال متعین کرنے کی کوشش کی جائے تو ان سب کا حاصل غلام احمد پرویز والا شریعت کا دائمی تغیر وتبدل والا نظریۂ تسلسل ہے۔دوسری طرف بعض متجددین آخر الزمان نبی محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقصد یہ نظریہ قرار دینے میں کوشاں ہیں کہ انسانی عقل بلوغت حاصل کرنے کے بعد حجاز میں اتنی مکمل ہو گئی تھی کہ شریعت محمدیؐ کی تشکیل کی صورت میں سامنے آئی۔ اب اس کے بعد اجتہاد کے نام پر سارا کام اسی بالغ عقل کا ہے، اس لیے اس بالغ عقل کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے،حالانکہ یہ عقائد ملحدانہ ہیں ۔عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے اس لیے وہ وحی ربانی کے تابع رہ کر تومفید ہو سکتی ہے،لیکن شریعت کی تشکیل ناقص طور پر یا کامل طور پر کرنے لگے تو ترقی کی بجائے اتھاہ گہرائیوں میں گرانے والی ثابت ہوتی ہے۔


اسی لیے کسی گفتگو سے قبل یہ عقیدہ پختہ کرنے کی ضرورت ہے کہ شریعت ِمحمدیہ کامل واکمل ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تکمیلِ رسالت کے بعد نظریۂ مرکز ِ ملت یا نام نہاد بلوغت ِعقل کا نظریہ یا شریعت کی تکمیل اور اس میں اضافے کا نکتہ نظرختم نبوت ورسالت کے عقیدہ کے منافی ہے۔ اس موضوع پر مزید بحث ہم ان شاء اللہ 'محدث' کے قریبی شمارے میں کریں گے۔


 حوالہ جات

1. سہ ماہی 'اجتہاد'، جون2007ء، ص2

2. سہ ماہی 'اجتہاد' :ستمبر 2008ء:ص 117

3. سہ ماہی 'اجتہاد':ستمبر 2008ء،ص 118

4. ص 30، 31،35

5. سنن ابن ماجه، کتاب المقدمة، باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

6. سنن الترمذي، کتاب الأحکام عن رسول اﷲ ، باب ما جاء في القاضي کیف تقضي

7. سہ ماہی 'اجتہاد': جون 2007ء، ص 85

8. سہ ماہی 'اجتہاد': جون 2007ء، ص 35

9. سہ ماہی 'اجتہاد': جون 2007ء، ص3

10. سہ ماہی 'اجتہاد':ستمبر 2008ء،ص74

11. سہ ماہی 'اجتہاد':ستمبر 2008ء،ص78

12. ص 142، 143

13. ماہنامہ' اشراق': جون 2001،ص 27 ، 28

 


 

i. الوجیز: ص 308

ii. قرآن کریم تو وراثت میں حصص مقرر کرکے واضح اعلان کرتا ہے : (فَرِ‌يضَةً مِّنَ ٱللَّهِ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١١...سورۃ النساء) یعنی یہ تعیین حصص اللہ کی مقرر کردہ تقسیم ہے اور اللہ ہی دائمی علم وحکمت والا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی حکمت و دانش سے یہ شگوفہ چھوڑ رہے ہیں کہ تمام فقہاجس اصول پر متفق ہیں ، وہاں بھی ان دانس و بینش سے تبدیلی کر دی جائے۔