اسلامی عقیدے کا اہم پہلو الولاء والبراء

وَلاء کے معنی بیان کرتے ہوئے امام راغب رحمة اللہ علیہ نے فرمایاہے کہ 'ولاء' کے اصل معنی

''دو یا دو سے زیادہ چیزوں کااس طرح یکے بعد دیگرے آنا کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ آئے جو ان میں سے نہ ہو۔ پھر یہ لفظ استعارہ کے طور پر قرب کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے، خواہ وہ قرب بلحاظ مکان ہو یا بلحاظِ نسب، یا بلحاظِ دین اور دوستی و نصرت کے ہو، یا بلحاظِ اعتقاد کے۔ ''1


اسی سے لفظ 'ولی' ہے جس کی ضد 'عدوّ' (دشمن) ہے اور اسی سے 'الموالات' اور 'المواسات' ہے جس کے معنی میں تقرب، دوستی، تعاون، مدد، صلح، اور غم خواری کا مفہوم پایا جاتاہے۔
وَلاء کے مقابلے میں بَراء ہے جس کے اصل معنی:کسی ناپسندیدہ اور مکروہ امر سے نجات حاصل کرنا کے ہیں ۔ اسی لئے کہا جاتاہے:براء تُ من المرض''میں تندرست ہوگیا، میں نے بیماری سے نجات پائی۔'' اوریوں بھی کہا جاتا ہے: براء تُ من فلان یعنی ''میں فلاں سے بیزارہوں ۔'' گویا'ولائ' میں موالات ہے اور 'برائ' میں انقطاع اور بیزاری مراد ہے اور یہ دونوں حقیقةً 'محبت' اور'بُغض'کے تابع ہیں اور یہی دونوں ایمان کی بنیادی صفات ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :
(من أحبّ ﷲ وأبغض ﷲ وأعطٰی ﷲ ومنع ﷲ فقد استکمل الإیمان)
'' جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے دشمنی ،اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے نہ دیا تحقیق اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔''2


حضرت عبد اللہ بن عبا سؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أوثق عری الإیمان،الموالاة في اﷲ والمعاداة في اﷲ والحب في اﷲ والبغض في اﷲ)3
'' ایمان کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے لیے دوستی ہو،اللہ کے لیے دشمنی ہو، اللہ کے لیے محبت ہو اور اللہ کے لیے بغض ہو۔''


اللہ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ کے انبیاے کرام اوران کے اطاعت گزاروں سے محبت کی جائے اسی طرح اللہ اور اس کے انبیاے کرام کے دشمنوں سے دشمنی اورعداوت رکھی جائے اور ان کے نافرمانوں سے علیٰ حسب الدرجات بغض رکھاجائے۔


شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے:
''علی المؤمن أن یعادي في اﷲ ویوالي في اﷲ فإن کان ھناك مؤمن فعلیه أن یوالیه، وإن ظلمه، فإن الظلم لایقطع الموالاة الإیمانیة وإذا اجتمع في الرجل الواحد خیر وشر وفجور، وطاعة ومعصیة، وسنة وبدعة استحق من الموالاة والثواب بقدر ما فیه من الخیر، واستحق من المعاداة والعقاب بحسب ما فیه من الشر''4


اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر مؤمنوں اور کافروں کے مابین موالات کی نفی کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا لَا تَتَّخِذُوا ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَـٰرَ‌ىٰٓ أَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ ...﴿٥١﴾...سورة المائدہ
''اے ایمان والو! یہود اور نصاری کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہو گا۔''


يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا لَا تَتَّخِذُوا ٱلْكَـٰفِرِ‌ينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۚ ...﴿١٤٤﴾...سورة النساٰء
'' اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ۔''


يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا لَا تَتَّخِذُواعَدُوِّى وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَآءَ
''مؤمنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لیے نکلے ہو تومیرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔''...﴿١﴾...سورة الممتحنہ


يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوالَا تَتَّخِذُوٓاءَابَآءَكُمْ وَإِخْوَ‌ٰنَكُمْ أَوْلِيَآءَ إِنِ ٱسْتَحَبُّوا ٱلْكُفْرَ‌ عَلَى ٱلْإِيمَـٰنِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ ...﴿٢٣﴾...سورة التوبہ
''اے اہل ایمان! اگر تمہارے ماں باپ اور بہن بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھواور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں ۔''


يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا لَا تَتَّخِذُوا ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَٱلْكُفَّارَ‌ أَوْلِيَآءَ ۚ وَٱتَّقُواٱللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ...﴿٥٧﴾...سورة المائدہ
اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو۔''


اس موضوع کی اور بھی آیاتِ مبارکہ ہیں مگر یہاں استیعاب مقصود نہیں ۔ اس اہم حکم نافرمانی کے نتیجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ
وَٱلَّذِينَ كَفَرُ‌وا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِى ٱلْأَرْ‌ضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ‌...﴿٧٣﴾...سورة الانفال
''اور جو لوگ کافر ہیں (وہ بھی( ایک دوسرے کے رفیق ہیں تو )مومنو!( اگر تم یہ(کام( نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ برپا ہو جائے گا اور بڑا فساد برپا ہو گا۔''


اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو'اُسوۂ حسنہ' قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِىٓ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُوالِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَ‌ءَ‌ٰٓؤُا۟ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْ‌نَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَ‌ٰوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِٱللَّهِ وَحْدَهُۥٓ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَ‌نَّ لَكَ وَمَآ أَمْلِكُ لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍ ۖ ...﴿٤﴾...سورة المتحنہ
''تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں ) سے جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو بے تعلق ہیں ۔تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہو سکتے)اور جب تک خدائے واحد پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلی عداوت اور دشمنی رہے گی۔ہاں ابراہیم نے اپنے باپ سے یہ (ضرور) کہا کہ میں آپ کے لیے مغفرت مانگوں گا اور میں خدا کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔''


مگر ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعابھی باپ کی صرف زندگی میں کی کہ اسے ہدایت مل جائے:
وَمَا كَانَ ٱسْتِغْفَارُ‌ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَآ إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُۥٓ أَنَّهُۥ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّ‌أَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ لَأَوَّ‌ٰهٌ حَلِيمٌ ...﴿١١٤﴾...سورة التوبہ
''اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کے سبب تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے،لیکن جب ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے بے شک ابراہیم بڑے نرم دل اور متحمل مزاج تھے۔''


اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تمام ایمانداروں کو مشرکین کے لئے بخشش و مغفرت کی دعا سے روک دیا۔فرمایا:
مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَن يَسْتَغْفِرُ‌وا لِلْمُشْرِ‌كِينَ وَلَوْ كَانُوٓاأُولِى قُرْ‌بَىٰ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَحِيمِ ...﴿١١٣﴾...سورة التوبہ
''نبی اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں ، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں ۔''


کافر اور مسلم کے بارے میں نبی ؐ نے فرمایا:
(لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم)5
''مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔''


علی بن حسین کہتے ہیں کہ ''حضرت علیؓ اور جعفر طیارؓ نے اسی لئے عم رسول ابوطالب کی وراثت وصول کرنے سے انکار کردیا اور ابوطالب کے وارث عقیل اور طالب ہی بنے تھے۔ '' (موطأ:۱۴۷۰) کفارومشرکین سے براء ت کی بنا پر ہی ابو طالب کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا گیا۔
بدر کے قیدیوں میں جن میں حضرت ابوبکرصدیق کا بیٹا عبدالرحمن بھی تھا، حضرت عمرؓ نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: یا رسول اﷲ ﷺ! کذّبوك وأخرجوك، قاتلوك فاضرب أعناقھم.6
'' یا رسول اللہ! اُنہوں نے آپ کو جھٹلایا،مکہ سے نکال دیا، آپ سے لڑائی کی، آپ انکی گردنیں اڑا دیں ۔''
معصب بن عمیرؓ کا بھائی عبید بن عمیر قیدی ہوا تو انہوں نے کہا:اسے ذرا مضبوطی سے باندھو اس کی ماں بہت مالدار ہے۔7


قرآن کریم نے صحابہ کرام کے بارے میں {اَشِدَّائُ عَلَى الكُفَّارِ رُحَمَائُ بَينَهُمْ} فرما کر ان کے اس ولاء وبراء کے عملی کردار کی تحسین فرمائی۔
جہاد بھی کفار سے براء ت ہی کااظہار ہے کہ جواللہ اور اس کے رسولؐ کا دشمن ہے، ہمارااس کے خلاف علیٰ اعلانِ جنگ ہے :
قال معاویة: واﷲ لئن لم تنـته وترجع إلی بلادك یا لعین لأصطلحن أنا وابن عمي علیك ولأخرجنك من جمیع بلادك
'' سیدنا معاویہ ؓنے (رومی بادشاہ کو جواب دیتے ہوئے) کہا: اے لعین! اگر تو باز نہ آیا اور اپنے ملک واپس نہ لوٹ گیا تو میں اور میرے چچاکا بیٹا (علیؓ)تیرے خلاف صلح کر لیں گے اور تجھے تیری ساری حکومت سے نکال دیں گے۔''8


یہاں یہ بات پیش نگاہ رہے کہ ایک تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں اور وہ غیر مسلم اور کافر ہیں ۔ ان کے ساتھ موالات اور مواسات کی صراحتاً ممانعت ہے اور دوسرے وہ ہیں جنہیں ان کی کوتاہیوں کی بنا پر کافر قرار دیاجاتا ہے۔ یا ان کی بدعات وخرافات کی بنا پر اُنہیں کافر یا بدعتی کہاجاتا ہے اور پھر ان سے اسی اصول کے مطابق معاملہ کیاجاتاہے۔
اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج کل فتنۂ تکفیر کی جو لہر چل نکلی ہے اور اس کے جو برگ و بار ہیں ، وہ انتہائی خطرناک ہیں ۔مثلاً {مَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أنْزَلَ اهُ فَاُوْلٰئِكَ هُمُ الْكفِرُوْنَ}کی وجہ سے مسلم حکمرانوں کے بارے میں فتویٰ کفراور اسی بنا پر ان کے خلاف خروج اور فساد کااِقدام۔حالانکہ اس آیت کے بارے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :
"من جَحَد ما أنزل اﷲ فقد کفر ومن أقرَّ به ولم یحکم به فھو ظالم فاسق''
''جس شخض نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کا انکار کر دیا تحقیق اس نے کفر کیا اور جس نے اقرار کیا اور اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا وہ ظالم فاسق ہے۔''9


امام طاؤس، عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ
''لیس کفر ینقل عن الملة، لیس کمن یکفر باﷲ والملائکة وکتبه ورسله''
'' یہ ایسا کفر نہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دے اور نہ ہی اس شخص کے کفر کی طرح ہے جس نے اللہ،اس کے فرشتوں ،کتابوں اور رسولوں کاانکار کیا۔''10
اسی طرح حضرت ابن عباسؓ ہی سے ہے: ''لیس بالکفر الذي تذهبون إلیه''
'' یہ وہ کفر نہیں ہے جس کی طرف تم چل نکلے ہو۔''11


اسی طرح کسی بدعت اور اس کے مرتکب پرکفر کا اطلاق بڑی احتیاط کا متقاضی ہے۔ اس کی کچھ شرائط اور ضوابط ہیں جو اپنی جگہ ایک مستقل عنوان ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ان مبتدعین کے بارے میں بلکہ سنت کااستخفاف کرنے والوں کے بارے میں سلف کا موقف کیا ہے اور ان پر موالات کا حکم کیا ہے؟اس ضمن میں علامہ بغوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
قد أخبر النبي ! عن افتراق ھذہ الأمة، وظھور الأھواء والبدع فیھم وحکم بالنجاة لمن اتبع سنته، وسنة أصحابه رضي اﷲ عنھم، فعلی المرء المسلم إذا رأیٰ رجلاً یتعاطی شیئًا من الأھواء والبدع معتقدًا، أو یتھاون بشيء من السنن، أن یھجرہ ویتبرأ منه ویترکه حیًّا ومیتًا، فلا یسلم علیه إذا لقیه، ولایجیبه إذا ابتدأ، إلی أن یترك بدعته ویراجع الحق''12
بلکہ چند سطور بعد فرماتے ہیں :
''قد مضت الصحابة والتابعون وأتباعھم وعلماء السنة علی ھذا مجمعین متفقین علی معاداة أھل البدعة ومھاجرتھم''13


اس کے بعد اُنہوں نے صحابہ کرامؓ، تابعین عظامرحمة اللہ علیھم اورائمہ کرامرحمة اللہ علیھم کے اس حوالے سے متعدد اَقوال ذکر کئے ہیں ۔ علامہ ابن جوزی رحمة اللہ علیہ نے بھی' تلبیس ابلیس' (ص 18،21) میں ، امام لالکائی رحمة اللہ علیہ نے 'شرح اُصول اعتقاد اہل السنہ' میں ، امام ابن بطہ نے 'الابانہ' میں بھی اس حوالے متعدد اقوال درج کئے ہیں ، جن کی تفصیل محولہ بالا مقامات پر دیکھی جاسکتی ہے۔اگر ایک ایک قول کو ذکر کیا جائے تو بحث طویل ہوجائے گی۔


صحابہ کرام سے تو صرف ایک حدیث کی مخالفت اور معارضت پر انکار اور ترکِ موالات معروف ہے۔ علامہ ابن قتیبہرحمة اللہ علیہ نے 'المعارف' ص550 میں اس کے متعلق متعدد واقعات ذکر کئے ہیں ۔ علامہ بغویرحمة اللہ علیہ کے علاوہ یہی بات علامہ ابن عبدالبر، علامہ نووی، علامہ شاطبی، اور حافظ ابن تیمیہ رحمہم اللہ نے کہی ہے۔
البتہ یہاں یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہئے کہ تمام بدعات یکساں اور ان کے مرتکبین ایک جیسے نہیں ۔ جو بدعات حد ِکفر تک پہنچتی ہیں ، ان سے بہرنوع براء ت کا اظہار ایمان کا تقاضا ہے۔البتہ جو بدعات اس سے کم تر ہیں ، ان سے معاملہ بقدرِ بدعت ہونا چاہئے۔جیساکہ پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے گزرا ہے کہ ایک آدمی میں جب خیر و شر، طاعت ومعصیت اور سنت و بدعت دونوں جمع ہوں تو اس سے بقدرِ خیر موالات اور بقدرِشر ہی معادات اختیار کرنی چاہئے۔14
علامہ ابن ابی العز رحمة اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے:
''الحب والبغض بحسب ما فیھم من خصال الخیر والشر فإن العبد یجتمع فیه سبب الموالاة و سبب العداوة والحب والبغض فیکون محبوبًا من وجه ومبغوضًا من وجه والحکم للغالب''15
یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام بدعتی اور داعی الی البدعہ کی روایت میں بھی فرق کرتے ہیں ۔ بدعتی کی روایت تو قبول کرتے ہیں مگر داعی الی البدعت کی روایت کو قبول نہیں کرتے۔ حافظ ابن حجررحمة اللہ علیہ نے 'نخبة الفکر' میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:
''والثاني یقبل من لم یکن داعیة علی الأصح إلا أن روٰی ما یقوي بدعته فیردّ علی المختار''16


بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اس حوالے سے بڑی جامع بات فرمائی ہے:
''والتعزیر لمن ظھر منه ترك الواجبات وفعل المحرمات کتارك الصلاة والتظاھر بالمظالم والفواحش، والداعي إلی البدع المخالفة للکتاب والسنة وإجماع سلف الأمة التي ظھر أنھا بدع وھذا حقیقة قول السلف والأئمة أن الدعاة إلی البدع لاتقبل شھادتھم ولا یصلي خلفھم ولایؤخذ عنھم العلم ولا یناکحون فھذہ عقوبة لھم حتی ینتھوا ولھذا فرقوا بین الداعیة وغیر الداعیة، لأن الداعیة أظھر المنکرات فاستحق العقوبة، بخلاف الکاتم، فإنه لیس شرًا من المنافقین الذین کان النبي ! یقبل علانیتھم ویکل سرائرھم إلی اﷲ''17
یہاں دو باتیں مزید غور طلب ہیں : ایک یہ کہ اگر مطلقاً بدعتی مردود ہوتا اور اس سے موالات کلیة ناجائز ہوتے تو داعی اور غیر داعی کے مابین یہ فرق بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ شیخ الاسلام نے جو فرمایا ہے کہ داعی الی البدعت کے پیچھے نمازنہ پڑھی جائے، اس میں بھی قدرے تفصیل ہے۔ مامون، معتصم وغیرہ اُمراء جوصرف جہمی عقائد ہی نہیں رکھتے تھے بلکہجہمیت کے داعی بھی تھے اور اسی سبب سے اُنہوں نے امام احمد اور دیگر بہت سے محدثین کواپنے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنا رکھا تھا، انہی کے بارے میں خود شیخ الاسلام نے فرمایا ہے:
''یہ جہمی حکام جو اپنی بدعت کے داعی اورعلمبردار تھے اور اپنے مخالفوں کو قید و بند کی سزائیں دیتے اور اسے تب تک نہ چھوڑتے جب تک وہ یہ اقرار نہ کرلیتا کہ قرآن مخلوق ہے۔مگر اس کے باوجود امام احمدرحمة اللہ علیہ ان پر ترس کھاتے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ایسے ہیں جن کے لئے یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ رسولؐ کی تکذیب کرنے والے ہیں اور یہ کہ وہ اس کے لائے ہوئے دین سے انکاری ہیں بلکہ اُنہوں نے تاویل کی اوراس میں خطا کے مرتکب ہوئے اور جنہوں نے اُنہیں یہ کہا کہ ان کے مقلد ہوگئے۔ ایسے حکام اُمرا یاان کے مقرر کردہ اماموں کے پیچھے نماز بالخصوص نمازِ جمعہ، عیدین اور حج کے دوران کی نمازیں درست ہیں ۔''18


حافظ ابن حزم رحمة اللہ علیہ اس بارے فرماتے ہیں :
''وذھبت طائفة الصحابة کلھم دون خلاف من أحد منھم وجمیع فقھاء التابعین کلھم دون خلاف من أحد منھم وأکثر من بعدھم وجمهور أصحاب الحدیث وھو قول أحمد والشافعي وأبي حنیفة وداود وغیرھم إلی جواز الصلاة خلف الفاسق الجمعة وغیرھا، وبھذا نقول وخلاف ھذا القول بدعة محدثة فما تأخر قط أحد من الصحابة الذین أدرکو المختار بن أبی عبید والحجاج وعبید اﷲ بن زیاد وجیش بن دلجة وغیرھم عن الصلاة خلفھم وھؤلاء أفسق الفساق وأما المختار فکان متھما في دینه مظنونا به الکفر''19
اور تقریباً یہی بات اُنہوں نے المحلی:3؍ 213،214 میں بھی کہی ہے۔


ہم یہاں مزید تفصیل میں جانانہیں چاہتے، تاہم یہ بات بہرحال ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ بدعتی کے پیچھے نماز کاجائز ہونا اور بات ہے مگر اُنہیں امام بنانا امر دیگر ہے۔امربالمعروف ونہی عن المنکر کا تقاضا ہے کہ اس کی بدعت پرانکار کیاجائے اور اس کی تعظیم و تکریم سے مقدور بھر اجتناب کیا جائے۔ لیکن اگر انکارِ منکر میں فتنہ کا خوف ہو یا دوسری جماعت کی کوئی سبیل نہ ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے۔ اسی تناظر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے:
''ولھذا کان الصحابة یصلون خلف الحجاج والمختار بن أبي عبید الثقفي وغیرھما الجمعة والجماعة فإن تفویت الجمعة والجماعة أعظم فسادًا من الإقتداء فیھما بـإمام فاجر''20
''یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام حجاج اور مختار بن ابو عبید ثقفی کے پیچھے نماز اور جمعہ پڑھ لیا کرتے تھے کیونکہ نماز اور جمعہ کافوت ہو جانا فاجر امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے زیادہ فساد کا کام ہے۔''
امام ابوالحسن اشعری فرماتے ہیں :
''وعن دیننا أن نصلي الجمعة والأعیاد وسائر الصلوات والجماعات خلف کل بر وفاجر لما روی عن ابن عمر أنه کان یصلي خلف الحجاج''21
'' ہمارے مذہب میں یہی ہے کہ ہم جمعہ،عیدین اور سب نماز میں ہر نیک وفاجر کے پیچھے پڑھ لیں ، کیونکہ سیدنا ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ وہ حجاج کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔''


عموماً یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ بدعتی کی تو اپنی نماز قبول نہیں ، اس کے پیچھے نماز کیونکر جائز ہوسکتی ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قبولیت کے کئی مدارج ہیں ، جن میں سب سے کم تر یہ کہ اس کی ادائیگی سے فرض ساقط ہوجاتاہے اور وہ فی نفسہٖ صحیح ہوتا ہے۔
علامہ ابن ابی العزرحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ
''والفاسق والمبتدع صلاته في نفسھا صحیحة فإذا صلی المأموم خلفه لم تبطل صلاته''22
'' فاسق اور بدعتی کی نماز فی نفسہا صحیح ہے اور اگر کوئی شخص ان کی اقتداء میں نماز پڑھ لیتا ہے تو اس کی نماز بھی باطل نہیں ہو گی۔''


یاد رہے کہ بدعتی بدعت مکفرہ کا مرتکب ہو تو اس کا کوئی عمل قطعاً مقبول نہیں ہے۔ البتہ بدعت ِمکفرہ نہ ہو تو بدعتی کا عمل بدعت مردود ہے جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے کہ (مَن أحدث في أمرنا ما لیس منه فھو ردّ)  (i) رہ گئے بدعتی کے دوسرے اَعمال تو اس کی قبولیت کے جو شرائط ہیں کہ وہ سنت کے مطابق ہوں اور اخلاص پر مبنی ہوں تو وہ اعمال مقبول ہیں ۔


خلاصۂ کلام یہ کہ کوئی بدعتی ہو یا فسق کامرتکب ہو تو اس سے براء ت بقدرِ فسق و بدعت ہونی چاہیے۔ان سے سلام و کلام، بیمار پرسی، میل ملاقات کاعلیٰ الاطلاق ترک سلف کے موقف و منہج کے موافق نہیں ۔بدعت اگر حد کفر تک نہیں ہے تو وہ بدعتی مسلمان ہے اور سلام مسلمان کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔


امام احمدرحمة اللہ علیہ سے امام ابوداؤدرحمة اللہ علیہ نے پوچھا کہ خراسان میں ہمارے مرجئ عزیزو اقارب ہیں ، ہم انہیں خط لکھتے تو اُنہیں سلام لکھیں ؟انہوں نے فرمایا: ''سبحان اﷲ لم لا تقرئھم''(ii)  البتہ اگر زجراً و توبیخاً اور تادیباً انہیں سلام نہ کہا جائے تو اس کی بھی ائمہ کرام نے اجازت دی ہے۔بالخصوص جب کہ وہ بدعت کے مرتکب ہوں یافاسق مسلمان فسق و فجور میں مبتلا ہوں ۔ علامہ شاطبی رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں :
''الھجران و ترك الکلام والسلام حسبما تقدم عن جملة من السلف في ھجرانھم لمن تلبس ببدعة''23
یہاں یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ بدعتی ہو یا فاسق، ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی جو بعض اَسلاف سے ممانعت منقول ہے یا ان سے ترکِ سلام یا ترکِ عیادت کا ذکر آیاہے تو یہ سب ان کے لئے زجر و توبیخ کے لئے ہے۔ یوں نہیں کہ ان کے پیچھے نماز ناجائز ہے یا سلام کہنا اور عیادت کرنا جائز نہیں ۔ جب بدعتی مسلمان ہے اور اسلام سے خارج نہیں تو وہ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مستحق ہے:
(حق المسلم علی المسلم خمس: ردّ السلام وعیادة المریض واتباع الجنائز وإجابة الدعوة وتشمیت العاطس)24
'' مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں ،سلام کا جواب دینا،مریض کی عیادت کرنا،دعوت قبول کرنا،جنازے میں جانا اور چھینک کا جواب دینا۔''


اور علامہ شاطبی رحمة اللہ علیہ نے یہ صراحت کی ہے کہ بدعتی کی ترک ِعیادت زجر و توبیخ کے لئے ہی ہے، ان کے الفاظ ہیں :
''الثالث عشر ترك عیادة مرضاھم وھو من باب الزجر والعقوبة''25
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اس حوالے سے 'منہاج السنہ' میں بڑی طویل اور نفیس بحث کی ہے، فرماتے ہیں :
''اہل بدعت اوراہل فسق کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں فقہا کا اختلاف ہے۔بعض مطلقاً اس کی اجازت دیتے ہیں اور بعض بالکل منع کرتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں تحقیقی بات یہ ہے کہ ان کے پیچھے نماز کی ممانعت اس لئے نہیں کہ خود ان کی نماز باطل ہے بلکہ اس لئے کہ وہ بدعت کو ہوادیتے ہیں ،اس لئے وہ اس لائق ہیں کہ ان سے تعلق نہ رکھاجائے اور اُنہیں مسلمانوں کا امام نہ بنایا جائے۔ ان کی عیادت نہ کرنا اور جنازے کے ساتھ نہ جانا بھی اسی انکارِ منکر کے باب سے ہے۔ اور جب یہ عقوباتِ شرعیہ میں سے ہے تو معلوم ہوا کہ بدعت کی قلت و کثرت اور سنت کے اظہار و اخفا کے لحاظ سے مختلف اَحوال کی بنا پر اس کا حکم مختلف ہے۔ اسی لئے کبھی تألیف ِقلب مشروع ہے اور کبھی ہجران و براء ة مشروع ہے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نئے مسلمان ہونے والوں اور جن کے بارے میں فتنہ کااندیشہ ہوتا تھا، ان سے تالیف و تعلق کا مظاہرہ فرماتے اورکبھی بعض ایمانداروں کی غلطی پر ان سے قطع تعلقی کا اظہار فرماتے، جیسا کہ تبوک سے پیچھے رہنے والے صحابہ کرامؓ سے کیاتھا۔کیونکہ مقصد تو صحیح اُسلوب میں مخلوق کواطاعت ِ الٰہی کی دعوت ہے۔ اس لیے جہاں رغبت اصلاح کاذریعہ ہے وہاں رغبت کا رویہ اور جہاں ڈرانا اور دھمکانا بہتر ہے، وہاں ڈرانا اور ہجر ہی بہتر ہے۔''26


یہی بات اُنہوں نے ایک اور مقام پر فرمائی ہے۔چنانچہ ان کے فتاویٰ میں ہے:
''یہ ہجر و ترک ہاجرین کی قوت و ضعف اور قلت و کثرت کے لحاظ سے مختلف ہے۔ کیونکہ مقصد تو مہجورین کی تادیب ہے اور عوام الناس کو اس سے بچانا ہے۔ لہٰذا مصلحت اسی میں ہے کہ اگر ہجر و ترک شرو فساد کے ضعف کاباعث ہے تو وہاں ہجر مشروع ہے، لیکن ہاجر کمزور ہے اور ہجر و ترک شر کے اضافے کا باعث ہے تو مصلحت یہی ہے کہ وہاں ہجر مشروع نہیں ۔ بلکہ بعض لوگوں کیلئے تألیف ہی ہجر سے زیادہ سودمند ثابت ہوتی ہے اور بعض کیلئے ہجر تألیف سے زیادہ نفع بخش ہوتا ہے۔یہ اسی طرح ہے جیسے کبھی دشمن سے قتال بہتر ہے اور کبھی جزیہ لینا بہتر ہوتا ہے۔ یہ سب مختلف احوال اور مصالح کے اعتبار سے ہے۔''27


اس لئے اہل بدعت ہوں یا اہل فسق ان سے ولاء و براء کا معاملہ انہی دینی مصالح کی اعتبار سے ہونا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ انکارِ منکر میں کوئی اور منکر یا فتنہ و فساد کھڑا ہوجائے۔
ہمارا یہ مقصد قطعاً نہیں کہ ولاء و براء کے اس اُصولی اوردینی پہلو میں سرد مہری کامظاہرہ کیا جائے بلکہ عامة الناس جو اس کی نزاکت سے بے خبر ہیں ، اُنہیں بہرنوع اس سے خبردار کرنا چاہئے کہ وہ مبتدع کی مجلس کی زینت نہ بنیں اور ''من کثر سواد قوم فھو منھم'' کا مصداق نہ بنیں ۔امام سفیان ثوری نے اس بارے میں بڑی معنی خیز بات فرمائی ہے جو عوام کے لئے نہیں ، خواص کے لئے بھی ہے:
''من جالس صاحب بدعة لم یسلم من إحدٰی ثلاث: إما ان یکون فتنة لغیرہ وإما أن یقع في قلبه شيء فیزل به فیدخله اﷲ النار، وإما أن یقول واﷲ ما أبالي ما تکلموا وإني واثق بنفسي فمَن أمن اﷲ علی دینه طرفة عین سلبه إیاہ''28


جو شخص کسی بدعتی کے پاس بیٹھتا رہا، تین صورتوں سے وہ بچ نہیں سکتا: یا تو وہ دوسروں کے لئے باعث ِآزمائش بنے گا(کہ لوگ خیال کریں گے کہ فلاں بدعتی تو اچھا شخص ہے، یا وہ شخص خود اپنے دل میں شک وشبہ کا شکار ہوکر گمراہ ہوجائے گا اور آگ کا ایندھن بنے گا۔ یا وہ یوں کہے گا کہ میں بدعتی کی باتوں کی پروا نہیں کرتا، مجھے تو اپنے ایقان پر اعتماد ہے۔''
البتہ وہ متبحر اہل علم ان مبتدعین کے پاس بیٹھ سکتے ہیں جو اُنہیں صراطِ مستقیم کی دعوت دیں اور ان کے شبہات کا اِزالہ کرسکیں یا ان کے ماننے میں کوئی اور مصلحت سمجھیں ۔ ظاہرہے کہ اگر وہ بھی بالکلیہ ان سے اپنا ناطہ توڑ لیتے ہیں تو اُنہیں صراطِ مستقیم کی رہنمائی کون کرے گا۔


مسلمانوں سے محبت وقربت : الولاء
کفار، مبتدعین اور فساق کے مقابلے میں مسلمانوں کے ساتھ محبت و اُلفت کااظہار بھی ایمان کی علامت ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ ...﴿٧١﴾...سورة التوبہ
'' مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔''


إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ...﴿١٠﴾...سورة الحجرات
'' تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔''


اسی طرح ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں :
لا تدخلون الجنة حتی تؤمنوا ولاتؤمنوا حتی تحابوا۔29
'' تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔''


لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیه ما یحب لنفسه۔30
''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جووہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔''


 عرشِ الٰہی کے سائے تلے ۷ افراد میں سے وہ دو آدمی بھی ہیں :
رجلان تحابّا في اﷲ اجتمعا علیه وتفرّقا علیه۔31
''جو اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں اور اسی پر اکٹھے ہوتے ہیں اور اس پر جدا ہوتے ہیں ۔''


قال اﷲ أین المتحابّون فی جلالي لهم منابرمن نور يغبھم النبیون والشھداء۔32
''(قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔میرے لیے محبت کرنے والے کہاں ہیں ؟ آج ان کے لیے نور کے منبر ہیں ، انبیاء کرام اور شہداء عظام بھی ان کی شان پر رشک کریں گے۔''


لا تقاطعوا ولا تدابروا ولاتباغضوا ولاتحاسدوا وکونوا عباداﷲ إخوانا۔33
''آپس میں قطع تعلقی نہ کرو اور نہ دشمنی رکھو اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے حسد کرو اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔''


ولا یحل لمسلم أن یھجر أخاہ فوق ثلاث۔34
''کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے۔''


فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار۔35
''جس نے تین دن سے زیادہ چھوڑ دیا اور وہ اسی دوران مر گیا تو آگ میں داخل ہو گا۔''


المسلم أخوالمسلم لا یظلمه ولا یسلمه [إلی عدوّہ] ولا یحقرہ ولا یخذله۔36
''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے دشمن کے سپرد کرتا ہے نہ اس کو حقیر جانتا ہے اور نہ ہی اسے ذلیل کرتا ہے۔''


لاتحاسدوا ولا تناجشوا ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا یبع بعضکم علی بیع بعض وکونوا عباداﷲ إخوانًا۔37
'' آپس میں حسد نہ کرو،بولی پہ بولی نہ لگاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھو، اور نہ ہی کوئی شخص کسی شخص کی بیع پر بیع کرے۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔''


 حوالہ جات

1.  المفردات،ص555

2.  السلسلة الصحیحة:38۰

3. الطبراني؛ السلسلة الصحیحة : 1728

4. مجموع الفتاویٰ:2؍208، 209

5. سنن ابوداؤد:2909 اور شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے اس کو صحیح کہا ہے

6.  مختصر ابن کثیر،ص429

7.  قرطبی:8؍48

8.  البدایة والنهایة:8؍514

9.  تفسیرابن کثیر:2؍85

10.  فتح القدیر:58

11.  فتح القدیر:58

12.  شرح السنہ:1؍224

13.  ایضاً :1؍227

14.  مجموع فتاویٰ :ج28؍ ص209،210

15.  شرح الصغیر الطحاویة ص434

16.  شرح نخبة الفکر: ص137

17.  مجموع الفتاویٰ: ج28؍ ص205

18.  مجموع الفتاویٰ:23 ؍349

19.  الفصل في الملل والأھواء والنحل :ج4؍ ص176

20.  مجموع الفتاویٰ: ج23؍ ص343

21.  الابانہ: ص61

22.  شرح عقیدہ طحاویہ:ص375

23.  الاعتصام:ج1؍ ص175

24.  صحیح بخاری:1240

25.  الاعتصام:ج1؍ ص177

26.  منہاج السنہ: 1؍63،65

27.  مجموع الفتاویٰ: 28؍207

28.  البدع والنھي عنھا لابن وضاح:ص47

29.  صحیح مسلم:194

30.  صحیح بخاری:14

31.  صحیح بخاری:660،صحیح مسلم:2380

32.  سنن ترمذی:2390،البانی اس کو صحیح کہا ہے

33.  صحیح بخاری:6064

34.  ایضا:6064

35.   ابوداؤد:4914

36.  صحیح مسلم:6541

37.  صحیح مسلم:6541

 


 

i. بخاری مع الفتح: 5؍ 301، 2697

ii. مسائل احمد بروایة ابی داؤد:ص276