جاوید غامدی کی کتاب "میزان" پر تبصرہ

زیرنظر کتاب دین اسلام سے متعلق ہے۔ خود مصنف اس کے 'دیباچہ' میں جو 10؍اپریل 1990ء کا لکھا ہوا ہے، تحریرفرماتے ہیں کہ
''اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ کم و بیش ربع صدی کے مطالعہ و تحقیق سے میں نے اس دین کو جو کچھ سمجھا ہے، وہ اپنی اس کتاب میں بیان کردیاہے۔''1

پھرآخر میں کتاب کے 'خاتمہ' کے عنوان سے جو ۲۷؍اپریل 2007ء کا تحریر شدہ ہے، مصنف موصوف لکھتے ہیں :
''اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کا جوکام میں نے1990ء بمطابق 1410ھ میں کسی وقت شروع کیاتھا، وہ آج سترہ سال بعد پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ یہ اُس پورے دین کا بیان ہے جو خدا کے آخری پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے انسانیت کو دیاگیا۔''2

اِس طرح بقول مصنف یہ کتاب سترہ برس (1990ء تا 2007U) میں لکھی گئی ہے۔ یہ اوسطاً ۴۰ صفحات سالانہ کی شرح بنتی ہے۔ اِس سے قبل اُنہوں نے ربع صدی یعنی 25 سال کا عرصہ دین اسلام کے مطالعہ و تحقیق میں گزارا۔ مصنف موصوف 1953ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے ہیں ۔ اِس حساب سے دیکھا جائے تو اگر کتاب کی ابتدا کے سال (1990UU) سے پہلے دین اسلام کا مطالعہ و تحقیق کی مدت ربع صدی یعنی 25 سال نکالے جائیں تو یہ 1965ء کا سال بنتا ہے اور جب سنِ پیدائش 1953ء ہے تو پھر مصنف کی عمر صرف بارہ سال باقی بچتی ہے۔ گویا مصنف موصوف نے دین اسلام کے مطالعہ و تحقیق کا کام 12سال ہی کی عمر میں شروع کردیاتھا۔ اب یہ اہل نظر کے سوچنے کاکام ہے کہ ۱۲سال کا ایک مکتبی بچہ (School Going Child) دین اسلام کے مطالعہ و تحقیق کا کتنا اہل ہو سکتا ہے؟ ویسے مصنف موصوف سے تو یہ بھی بعید نہ تھا اگر وہ یہ دعویٰ کردیتے کہ حالت ِجنینی میں بھی اُن کا زیادہ وقت دین اسلام ہی کے مطالعہ و تحقیق میں بسر ہوتا تھا، کیونکہ اگر دنیا میں کوئی مادر زاد ولی اللہ ہوسکتا ہے تو کیا مادر زاد عالم دین نہیں ہوسکتا۔ فاعتبروا یاأولی الأبصار !

کتاب کے مندرجات
سب سے پہلے ایک مختصر 'دیباچہ' ہے۔ پھر 'اُصول و مبادی' کا عنوان ہے جس کے تحت تین مضامین: مبادئ تدبر ِقرآن، مبادئ تدبر ِسنت اور مبادئ تدبر ِحدیث لکھے گئے ہیں ۔اس کے بعد کتاب کے پہلے حصے کا آغاز الحکمۃ کے عنوان سے ہوتا ہے اور اس میں 'ایمانیات' اور 'اخلاقیات' پر الگ الگ بحث کی گئی ہے۔کتاب کا دوسرا حصہالکتاب کہلاتا ہے اور اس کے تحت قانونِ عبادات، قانونِ معاشرت، قانونِ سیاست، قانونِ معیشت، قانونِ دعوت، قانونِ جہاد، حدود وتعزیرات، خورد و نوش، رسوم و آداب اور قسم اور کفارۂ قسم پر تفصیلی بحثیں موجود ہیں ۔ آخر میں 'خاتمہ' کے عنوان سے دو صفحے لکھے گئے ہیں اور 'کتابیات' کی فہرست دی گئی ہے۔

مصنف موصوف کاتصورِ دین
مصنف نے اپنے تصورِ دین کی وضاحت میں قرآنِ مجیدکی آیات سے استشہاد کیا ہے۔ بائبل اور قدیم صحائف کے حوالے دیے ہیں ، احادیث اوربعض تاریخی شواہد پیش کیے ہیں ۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے اپنے موقف کے حق میں اپنے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر 'تدبر قرآن' سے سینکڑوں کی تعداد میں حوالہ جات درج کیے ہیں ۔

لیکن اس کتاب کے مشمولات کی ترتیب کے حوالے سے بعض چیزیں کھٹکتی ہیں ۔
مثال کے طور پر:
'ایمانیات' سے بھی پہلے قرآن و سنت اور حدیث پر غوروتدبر کرنے اور اُن کو سمجھنے کے اُصول و مبادی دیے گئے ہیں حالانکہ ایمان لانے سے قبل کسی شخص کے لیے ایسے فنی اور مشکل اُمور سے واقف ہونا ضروری نہیں ۔

'اخلاقیات' کے باب میں سورۂ احزاب کی آیات 33تا35 کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن میں صرف یہی دس اعلیٰ انسانی اوصاف یعنی اسلام، ایمان، قنوت، صدق، صبر، خشوع، روزہ، حفظ ِفروج اور ذکر ِکثیر بیان ہوئے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں ان اوصاف کے علاوہ اور بھی بہت سے اعلیٰ اوصاف مذکور ہوئے ہیں جیسے تقویٰ، توکل، احسان اور عدل و انصاف (القِسط) وغیرہ۔

قانون عبادات میں جہاں طہارت سے متعلق مسائل مثلاً جنابت، حیض و نفاس اور وضو وغسل کا ذکر ملتا ہے وہاں پاک اورناپاک پانی کے مسائل بیان نہیں کیے گئے۔

ایمانیات کے بعد عبادات کا ذکر مناسب تھا، کیونکہ دین اسلام میں ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا حکم نماز ہی کا ہے جیساکہ خود اس کتاب کے صفحہ 489 پر لکھا ہے مگر اسی کتاب میں ایمانیات کے بعد اخلاقیات کاذکر ملتا ہے اور اس کے بعد عبادات کی باری آئی ہے۔

قانونِ معاشرت میں جہاں طلاق اور اس کی بعض اقسام جیسے اِیلاء اور ظہار کو بیان کیا گیا ہے، وہاں خلع کاذکر نہیں ہے۔

'خورد و نوش' کی چیزوں کے عنوان کو قانونِ معیشت میں ذکر کرنے کی بجائے اسے آخر میں نجانے الگ کیوں بیان کیا گیاہے۔ جب کہ ہبہ اور وقف کے مسائل نہ تو قانونِ معیشت میں بیان ہوئے ہیں اورنہ الگ کہیں ان کا ذکر ملتا ہے۔

کتاب میں اسلامی احکامات و تعلیمات کو جابجا 'قوانین' کے نام سے پیش کیاگیا ہے جیسے قانونِ عبادات وغیرہ۔ حالانکہ قانون اسے کہتے ہیں جس میں جرم اورسزا کا ذکر ہو۔ لیکن قریباً 150صفحات پر پھیلے ہوئے 'قانونِ عبادات' کے باب میں کہیں بھی جرم و سزا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ ویسے بھی 'عبادت'کا حکم تو سمجھ میں آتاہے مگر 'عبادت کا قانون' ناقابل فہم چیز ہے۔ شاید مصنف موصوف کے ذہن میں یہ بات ہو کہ جس طرح دنیامیں قوانین آئے دن بدلتے رہتے ہیں ، اسی طرح اسلام کے بنیادی احکام بھی موم کی ناک ہے جسے کسی وقت بھی کسی طرف موڑا اوربدلا جاسکتا ہے۔

دین کی غلط تعبیر
اس کتاب میں جو دین پیش کیاگیا ہے اور جو شریعت متعارف کرائی گئی ہے، وہ حقیقی دین اسلام اور اسلامی شریعت کے بالکل خلاف ہے۔اس میں دوسرے متجددین کی طرح اسلام کی ایسی تشکیل نو (Reconstruction) کی گئی ہے کہ وہ فی الواقع مغربی تہذیب کاچربہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک نئی جعلی شریعت گھڑ لی گئی ہے اور اسلام کا ایک لبرل اور روشن خیالی ایڈیشن تیار کرلیاگیا ہے جو مغرب کے لیے بھی قابل قبول ہے اور ہمارے مغرب نواز حکمرانوں کے دل کی آواز ہے۔ اب اس نئے اسلام اور نئی شریعت کی چند جھلکیاں دیکھئے:

کتاب و سنت (اور اجماع و قیاس) کو شریعت کے ماخذ و مصادر ماننے کی بجائے منسوخ اور تحریف شدہ بائبل، قدیم صحائف اور فطرت (Nature) کوبھی شریعت کے ماخذ و مصادر قرار دیا گیا ہے ۔3

مسلمہ دینی اصطلاحات کا مفہوم بدل دیا گیا ہے۔کتاب سے مراد قرآنِ مجید ہی نہیں بلکہ اس سے توریت، زبور، انجیل اور تمام قدیم الہامی کتب وصحائف کا سلسلہ مراد ہے۔4

سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال یا تقریرات نہیں ہے بلکہ اس سے مراد دین ابراہیمی کی روایت ہے ۔5

قرآنِ مجید کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے، باقی سب قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں ۔ 6

سنت قرآن سے مقدم ہے۔ 7

سنت صرف ستائیس (۲۷) اعمال کا نام ہے۔ 8

قرآن کی طرح سنت کے ثبوت کیلئے بھی اجماع اور عملی تواتر کا ہونا شرط ہے۔ 9

حدیث سے کوئی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔10

معروف اور منکر کا تعین اسلامی شریعت نہیں کرتی بلکہ انسانی فطرت کرتی ہے۔ 11

مرتد کی سزا قتل نہیں ہے۔ 12

شادی شدہ زانی کے لیے بھی کنوارے زانی کی طرح صرف ۱۰۰ کوڑوں کی سزا ہے۔ اس کے لیے رجم یاسنگساری کی حد نہیں ہے۔ 13

آخرت میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شفاعت ِکبریٰ ثابت نہیں ہے۔ 14

حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں وہ قرب ِ قیامت میں دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے۔ 15

کئی نبیوں کو قتل کردیاگیا تھا، مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا۔ 16

کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث ہوسکتا ہے۔ 17

'مشرکین' صرف عرب کے بُت پرست لوگ تھے، ان کے بعد دنیا میں کوئی مشرک نہیں ۔ 18

شریعت میں کھانے کی صرف چار چیزیں حرام ہیں ۔ 19

کافروں کے خلاف جہاد و قتال کا شرعی حکم اب باقی نہیں ہے۔ 20

باجماعت نماز میں امام کی غلطی پر عورتیں بھی بلند آواز سے 'سبحان اللہ' کہہ سکتی ہیں ۔ 21

نماز کی حالت میں عربی دعاؤں کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی تسبیح اور دُعا کی جاسکتی ہے۔ 22

حج اور عیدالاضحی کے موقع پر کی جانے والی قربانی نفلی عبادت ہے۔ یہ فرض یا واجب نہیں ہے۔ 23

ان مثالوں سے واضح ہوجاتاہے کہ مذکورہ کتاب میں دین اسلام اور اسلامی شریعت کی غلط تعبیر کی گئی ہے۔ مصنف موصوف نے دین، کتاب، قرآن، حدیث، سنت اور شریعت کے نام سے غیر اسلامی عقائد و نظریات پیش کیے ہیں ۔ اُنہوں نے بہت سے اسلامی مسلمات اور قطعی اجمالی اُمور کاانکار کرڈالا ہے۔ اس طرح اُنہوں نے درج ذیل آیت کی رُو سے 'غیر سبیل المؤمنین' کا راستہ اختیار کرلیا ہے :

وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّ‌سُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ‌ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرً‌ا ...﴿١١٥﴾...سورۃ النساء
''جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے پر چلے تو ایسے شخص کو ہم اُسی طرف پھیر دیں گے، جدھر وہ خود پھر گیا اور پھر اسے جہنم میں داخل کریں گے جو بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔''

عربیت کا رُعب جمانا
مصنف موصوف نے اس کتاب کے ذریعے اپنی 'عربی دانی' کا بھی خوب مظاہرہ کیا ہے۔
چنانچہ وہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ
سورئہ انعام (6) میں ایک آیت اس طرح آئی ہے:
وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِى ٱلْأَرْ‌ضِ وَلَا طَـٰٓئِرٍ‌ۢ يَطِيرُ‌ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّآ أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ...﴿٣٨﴾...سورۃ الانعام
''اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر اپنے پاؤں سے چلتا ہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازوؤں سے اُڑتا ہو، مگر یہ سب تمہاری ہی طرح اُمتیں ہیں ۔''

اس میں دیکھ لیجیے، مقابل کے بعض الفاظ حذف ہوگئے ہیں ۔ مثلاً جملے کے پہلے حصے میں فی الارض ہے تو دوسرے حصے میں فی السماء کالفظ نہیں آیا۔ اسی طرح دوسرے حصے میں یطیر بجناحیہ کے الفاظ ہیں تو پہلے حصے میں تدب علی رجلیھا یا ارجلھا کے الفاظ حذف ہوگئے ہیں ۔''

یہاں پر مصنف موصوف نے جو تدبّ علی رجلیھا یا ارجلھا حذف مانا ہے تو ان کو قرآن مجید کی درج ذیل آیت پیش نظر رکھ کر محذوفات نکالنے چاہئے تھے:
وَٱللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّن مَّآءٍ ۖ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰ بَطْنِهِۦ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰ رِ‌جْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰٓ أَرْ‌بَعٍ ۚ يَخْلُقُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ‌ ...﴿٤٥﴾...سورۃ النور
''اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر ان میں سے کوئی پیٹ کے بل چلتاہے، کوئی دوپاؤں پر چلتا ہے اور کوئی چار پیروں پرچلتا ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے ۔ بے شک اللہ ہر چیز پرقادر ہے۔''

عربیت کی دھونس جمانے سے پہلے کتاب کے مصنف کو آیت کے فقرے فمنھم من یمشی علی بطنہ پر غور کرلینا چاہیے تھا۔ ویسے مذکورہ آیت میں دآبۃ کے آگے محذوف ماننے کی ضرورت نہیں ہے، کسی معروف مفسر نے یہاں محذوف نہیں مانا۔

کتاب میں تضادات
اس کتاب کے مطالعہ سے اس کے بعض تضادات بھی سامنے آئے ہیں ، مثال کے طور پر:

1۔ قربانی کو ص405 پر قانون، ص404 پر نفل اور ص649 پر سنت قرار دیا گیا ہے۔
2۔ امام ابن شہاب زہریرحمۃ اللہ علیہ کو پہلے غیرثقہ اور ناقابل اعتبار راوی ٹھہرایاگیا ہے۔ (ص31) اور پھر آگے چل کر اُن کی روایت کردہ احادیث پر اعتماد کیاگیاہے۔24
3۔ ص 23 پر ہے کہ قرآن ہر چیز پرمقدم ہے اور ص47 پر سنت قرآن سے مقدم ہوگئی ہے۔
4۔ ص33 پر ہے کہ یہ غلط ہے کہ ہم متشابہات کامفہوم سمجھنے سے قاصر ہیں اور پھر ص180 پر ہے کہ متشابہات اُمور کے بارے میں ہم اصل حقیقت کو نہیں جان سکتے۔

کتاب کا اندازِ بیان
زیر نظر کتاب 'میزان' میں اگرچہ بہت ڈنڈی ماری گئی ہے تاہم یہ عام اُردو زبان میں نہیں لکھی گئی بلکہ اُردوئے مُعلّٰی میں لکھی گئی ہے۔ ہمارے علماے کرام کو بھی ایسی ہی اُردو زبان سیکھنی چاہیے۔


اس کتاب کا مصنف بہت ذہین، شاطر اور وسیع المطالعہ آدمی ہے۔ اس کی قادر الکلامی، زبان دانی، بیان کی روانی اور الفاظ کی میناکاری و گُل کاری (Flowery)کی داد دینی پڑتی ہے۔ چند ایک اقتباسات ملاحظہ ہوں :

ایک مقام پرلکھا ہے:
'' حقیقت یہ ہے کہ اپنے اُسلوب کے لحاظ سے قرآن ایک بالکل ہی منفرد کتاب ہے۔ اس میں دریاؤں کی روانی ہے، سمندروں کا زور ہے، حسنِ استدلال کی ندرتیں ہیں ، ربط ِمعنی کی ادائیں ہیں ، مثالیں ہیں ، قصے ہیں ۔ کلام میں اپنے مرکز کی طرف باربار کا رجوع ہے، تہدید و زجر اور عتاب کے گونا گوں اسالیب ہیں ، افسوس ہے ، حسرت ہے، شدت ِیقین ہے، گریز کی مختلف صورتیں اور اعراض کے مختلف انداز ہیں ۔ اس میں محبت و التفات کے موقعوں پر، ایں چیست کہ چوں شبنم برسینۂ من ریزیکی کیفیت ہے اور غضب کے موقعوں پر، دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں ، وہ طوفان کا سمان ہے۔ خطاب کے وہ عجائب تصرفات ہیں کہ آدمی اُن میں بالکل کھو کر رہ جاتا ہے۔''25

ایک اور جگہ ہے کہ
''اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں ، اُن میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں ۔ یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پرپڑتا ہے، اس لیے ان سے اِبا اُس کی فطرت میں داخل ہے۔ انسان کی یہ فطرت بالعموم اُس کی صحیح رہنمائی کرتی اور وہ بغیر کسی تردّد کے فیصلہ کرلیتا ہے کہ اُسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔ اُسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، کوے، گدھ، عقاب، سانپ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے، دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں ، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ان جانوروں کے بول و براز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اُس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہوجاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اُن کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔''26

مصنف موصوف حق و باطل میں تلبیس و آمیزش کا اور ایک ہی بات کی کئی تاویلیں کرلینے کا اتنا ماہر ہے کہ اچھے بھلے معقول لوگ بھی اس کے اس ہنر کے آگے پانی بھرتے اور دھوکا کھا جاتے ہیں ۔اس کا ثبوت آپ کو 'غامدی صاحب،علماء کے نظر میں ' نامی کتاب کے مطالعے سے مل سکتا ہے۔جس میں موصوف نے تین نو آموز مفتیانِ کرام کو خوب بیوقوف بنایاہے۔ اس کے علاوہ آپ اُوپر کے دوسرے اقتباس کا بغور مطالعہ کرکے دیکھیں جس میں اُس نے 'اونٹ' کو کس خوبصورتی سے سیاقِ کلام سے نکال کر اور اپنی خطابت کا جوہر دکھا کر ایک غلط بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ

''وہ جانتاہے کہ گھوڑے ، گدھے، دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں ، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔''
حالانکہ اونٹ سواری کا جانور بھی ہے، حلال بھی ہے اور اس کا گوشت بھی کھایا جاتاہے اور وہ انسانی فطرت کے خلاف بھی نہیں ہے۔

کتاب کا باتصویر ٹائٹل
اس معرکۃ الآرا دینی کتاب کے ٹائٹل پرمصنف موصوف کی نہایت خوبصورت تصویر بھی چھپی ہے جو اِس کے حسن کو دوبالا کردیتی ہے۔ اس طرح یہ کتاب اپنی صوری اور معنوی اعتبار سے ایک لاجواب شاہکار بن گئی ہے۔ البتہ مذکورہ بالا تصویر ایسی ہے جو زبانِ حال سے کہہ رہی ہے ۔ ع

صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں !


کیونکہ یہ فقط اُن کے سر، چہرے اورگردن پرمشتمل ہے اور ان کی گردن کے عین نیچے کی طرف، صرف ایک انچ کے فاصلے پر 'صلیب' (Cross) کا نشان بھی بالکل نمایاں طور پر نظر آتاہے جواصل میں شاید خطاط صاحب کے فن کا کمال ہے مگر وہ ایسا منظر پیش کرتا ہے کہ ع


مقام، فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوے یار سے نکلے تو سوے دار چلے



اس کے علاوہ صلیب کی یہ علامت اسلام اور مغربی تہذیب کے اس ملغوبے کو بھی ظاہر کرتی ہے جو اس کتاب کا طرۂ امتیاز اور اس کی اصل روح ہے اور یہ کہ اس کتاب میں پیش کیا ہوا دینِ اسلام اندر سے عیسائیت ہے۔

بہرحال اتنے اچھے کاغذ پراس قدر ضخیم اور مجلد کتاب کی قیمت انتہائی مناسب ہے۔ اہل علم کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

سانحہ ارتحال:

مولانا محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہآف سرگودھا کے فرزند اور جانشین مفتی عبید السلام صاحب گذشتہ دنوں مختصر علالت کے بعد رات گئے شیخ زید ہسپتال لاہور میں رحلت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! ان کی نمازِ جنازہ بڑی عید گاہ سرگودھا میں ادا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی حسنات ا ور دینی خدمات کو قبول ومنظور فرما کر فردوسِ بریں میں مقام عطا فرمائیں ۔ آمین!


 حوالہ جات
1. ص:11
2. ص:653
3. ص45،47
4. ص 43،44،45،151،152،153
5. ص14،46
6. ص29،32
7. ص47
8. ص14
9. ص14
10. 51،61
11. ص45،202،203
12. ص611
13. ص624
14. ص146تا149
15. ص178
16. ص48، 535،545
17. ص39
18. ص601
19. ص36،633
20. ص493، 579، 580،597،601
21. ص325
22. ص293
23. ص204
24. ص525 پر صحیح بخاری کی حدیث6764، پھر ص651 پر سنن ابوداؤد کی حدیث 3290
25. ص22
26. ص38