شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری) قسط (6)
مذکورہ بالا دلائل سے اللہ تعالیٰ کےلیے علم غیب کا اثبات اور غیر اللہ سے علم غیب کی نفی ہوجاتی ہے ،لیکن قرآن مجید نے تاکید ِ مزید کے لیے ان تمام لوگوں سے بھی علم غیب کی نفی الگ الگ اور پوری وضاحت سے کی ہے جن کے متعلق بعض لوگ علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں ، مثلاً
جنوں سےعلم غیب کی نفی
﴿فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ ٱلْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِۦٓ إِلَّا دَآبَّةُ ٱلْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُۥ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ ٱلْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ٱلْغَيْبَ مَا لَبِثُوا۟ فِى ٱلْعَذَابِ ٱلْمُهِينِ﴾ [سبأ: 14]
’’ پھر جب ہم نے سلیمان کے لئے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھُن کے کیڑے سے جو ان کے عصا کو کھاتا رہا پھر جب وہ گر پڑے تب جنوں کو معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اگر وہ (جن )غیب جانتے ہوتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے۔‘‘
انبیاء سے علم غیب کی نفی
جب دلائل سے ثابت ہوگیا کہ علم غیب کا تعلق کائنات کے نظام اور رب العالمین کی کار گزاری کے ساتھ ہے ، ا س سے خود بخود انبیاء علیہم السلام سےعلم غیب کی نفی ہوجاتی ہے، کیونکہ کائنات کے نظام سے انبیاء کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ، نبی صرف لوگوں کو علم شریعت بذریعہ وحی دینے کے لیے تشریف لاتے ہیں ۔ قرآن مجید نے الگ سے اس موضوع کو وضاحت سے بیان کیا ہے :
حضرت نوح کا اعتراف
سیدنا نوح علیہ السلام جو پہلے رسول اور اور اولو العزم رسولوں میں سے ہیں نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَلَآ أَقُولُ لَكُمْ عِندِى خَزَآئِنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ وَلَآ أَقُولُ إِنِّى مَلَكٌ وَلَآ أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِىٓ أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ ٱللَّهُ خَيْرًا ۖ ٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِىٓ أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّىٓ إِذًا لَّمِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴾ [هود: 31]
’’ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب جانتا ہوں ، نہ یہ کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ جن لوگوں کو تم حقیر سمجھتے ہو ، اللہ انہیں کبھی بھلائی سے نوازے گا ہی نہیں ۔ جو ان کے دلوں میں ہے وہ تو اللہ خوب جانتا ہے۔ (اگر میں ان سب باتوں سے کوئی بھی بات کہوں تو) یقیناً میں ظالموں سے ہوجاؤں گا ۔‘‘
محمد ﷺ سے علم غیب کی نفی
﴿قُل لَّآ أَقُولُ لَكُمْ عِندِى خَزَآئِنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ وَلَآ أَقُولُ لَكُمْ إِنِّى مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى ٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ﴾ [الأنعام: 50]
’’ (اے محمد ﷺ!) آپ ان سےکہیے کہ : میں یہ نہیں کہتا کہ میرےپاس اللہ کےخزانےہیں ، نہ ہی میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے ۔ آپ ان سےپوچھیے : کیا نابینا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں ؟ پھر تم لوگ کیوں نہیں سوچتے ہو ۔‘‘
﴿ قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَ مَا مَسَّنِيَ السُّوْٓءُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّ بَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَؒ۰۰۱۸۸﴾ [الأعراف: 188]
’’ آپ کہہ دیجئےکہ : ’’ مجھے تو خود اپنے آپ کو بھی نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں۔ مگر اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے (وہ ہوتا ہے) ۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی ۔ میں تو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ۔‘‘
﴿وَقُلِ ٱعْمَلُوا۟ فَسَيَرَى ٱللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُۥ وَٱلْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَٰلِمِ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ [التوبة: 105]
’’ اور ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ اللہ اور اس کا رسول اور مومن سب تمہارے عمل کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب و حاضر کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تم کو بتا دے گا۔‘‘
﴿وَيَقُولُونَ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ ءَايَةٌ مِّن رَّبِّهِۦ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا ٱلْغَيْبُ لِلَّهِ فَٱنتَظِرُوٓا۟ إِنِّى مَعَكُم مِّنَ ٱلْمُنتَظِرِينَ﴾ [يونس: 20]
’’ اور کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی معجزہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ آپ ان سے کہئے کہ غیب کے امور تو اللہ کے اختیار میں ہیں ، لہٰذا تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔‘‘
﴿ تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَاۤ اِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا فَاصْبِرْ اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَؒ۰۰۴۹﴾ [هود: 49]
’ ( اے نبی !) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں ۔ اس سے پیشتر انہیں نہ آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم ۔ لہٰذا آپ صبر کیجئے کیونکہ انجام ( بخیر ) پرہیزگاروں ہی کا ہوتا ہے ۔‘‘
﴿ذَٰلِكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوٓا۟ أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ﴾[يوسف: 102]
’’ (اے پیغمبر!) یہ اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور جب برادران یوسف نے اپنی بات پکی کر لی تو وہ فریب کاری کر رہے تھے جبکہ آپ ان کے پاس تو نہ تھے۔‘‘
﴿وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ عٰلِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ وَ لَاۤ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ۰۰۳ ﴾[سبأ: 3]
’’ اور کافر کہتے ہیں کہ قیامت کی گھڑی ہم پر نہیں آئے گی۔ کہہ دو کیوں نہیں آئے گی میرے پروردگار کی قسم ! وہ تم پر ضرور آ کر رہے گی ۔ وہ پروردگار ’غیب‘ کا جاننے والا ہے ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ اور کوئی چیز ذرے سے بڑی یا چھوٹی نہیں مگر کتاب روشن میں لکھی ہوئی ہے۔‘‘
بعض لوگوں کو علم غیب پر مطلع کرنا
بعض لوگ مندرجہ ذیل آیات سے غیر اللہ کے لیے علم غیب کا اثبات کرتے ہیں ؛
﴿وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى ٱلْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَجْتَبِى مِن رُّسُلِهِۦ مَن يَشَآءُ ۖ فَـَٔامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا۟ وَتَتَّقُوا۟ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴾ [آل عمران: 179]
’’ اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ تمہیں غیب پر مطلع کردے ۔ بلکہ (اس کام کے لیے ) وہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے وحی کے لیے منتخب کر لیتا ہے ۔ لہٰذا اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ ۔ اور اگرتم ایمان لے آئے اور اللہ سے ڈرتے رہے تو تمہیں بہت بڑا اجر ملے گا ۔‘‘
﴿عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِۦٓ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ٱرْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُۥ يَسْلُكُ مِنۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِۦ رَصَدًا ﴿٢٧﴾ لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا۟ رِسَٰلَٰتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَىْءٍ عَدَدَۢا﴾ [الجن: 26- 28]
’’ وہی غیب کا جاننے والا ہے سو کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا۔ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے اس کو غیب کی باتیں بتا دے تو اسکے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے۔تاکہ معلوم فرمائے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے ہیں۔ اور یوں تو اس نے ان کی سب چیزوں کا ہر طرف سے احاطہ کر رکھا ہے اور ایک ایک چیز گِن رکھی ہے۔‘‘
آیت کے انداز سے واضح ہوگیا کہ یہاں غیب سے مراد مطلق علم غیب نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد علم شریعت وغیرہ [1] ہے جو وحی کے ذریعے انبیاء تک پہنچایا جاتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو من و عن پہنچادیں ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کسی خاص مقصد سے کسی نبی کو بعض خاص چیزوں پر مطلع کردیتاہے، جیساکہ حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق آتا ہے :
﴿ وَكَذَٰلِكَ نُرِىٓ إِبْرَٰهِيمَ مَلَكُوتَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ ٱلْمُوقِنِينَ﴾ [الأنعام: 75]
’’ اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا نظام سلطنت دکھا رہے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے ۔‘‘
اسی طرح انہیں پرندوں وغیرہ کے دوبارہ احیاء کے ذریعے بعث بعد الموت کا مسئلہ سمجھایا۔ [البقرة:260]۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو اسراء و معراج میں نظام کائنات کے علاوہ لاہوتی ؍ملکوتی نظام سےمتعلق بعض چیزوں کا مشاہدہ کرایا گیا ۔
اس سےمعلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کو نہ مطلق طور پر علم غیب ہے، نہ انبیاء کا اس سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور جو چیز دکھا ئی یا بتائی جائے وہ غیب نہیں رہتی ، اسی لیے قرآن مجید کے کتنے مقامات پر انبیاء سے علم غیب کی نفی کی گئی ہے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہﷺ کے لیے علم غیب کا دعویٰ کرنے والے کو کذاب قرار دیا ہے، جیساکہ آگے حدیث آرہی ہے ۔
علم غیب کا دعوی کرنا
ہمارے ہاں عیار لوگ علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں وہ دراصل لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ، مثلاً ایک شخص کہتا تھا کہ میں اور میری ماں غیب جانتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ بارش برسے گی یا نہیں ؟ ان میں سے ایک کہتا کہ برسے گی دوسرا کہتاکہ نہیں برسے گی۔ یقینی بات ہےکہ دونوں میں سے ایک تو سچا ہو گا ۔
ہمزاد کے ذریعے غیبی باتیں جاننا
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ایک جن لگ جاتا ہے ، جسے ’ہمزاد‘ کہتے ہیں۔ بعض لوگ ان جنوں سے تعلق قائم کرلیتے ہیں ، پھر وہ ان کے ذریعے ایسی چیزیں معلوم کرتے اور لوگوں کو بتاتے ہیں جو عام لوگوں کے علم میں نہیں ہوتیں ، مثلاً وہ بتاتے ہیں کہ آپ کی والدہ کا نام فلاں تھا ، وہ فلاں وقت فوت ہوئی تھی ، آپ یہ کھا کر آئے ہیں ، آپ کے اتنے بہن بھائی ہیں ۔ ایسی باتیں سن کر ایک اچھا بھلا آدمی پریشان ہو جاتا ہے ۔لیکن جو لوگ توحید میں پکے ہوتے ہیں وہ پریشان نہیں ہوتے ۔
ہمارے تایا مرحوم حافظ عبداللہ محدث روپڑی نے اپنے مدرسہ میں نجد کے ایک عالم رکھے ہوئے تھے، تاکہ طلبہ کی عربی بول چال درست ہوسکے ۔ان کا نام شیخ عمر تھا ۔ ایک مرتبہ وہاں ایک آدمی آیا جس نے ہمزاد کا عمل کیا ہوا تھا ، لوگوں کو بتانےلگا ، کہ آپ نے فلاں چیز کھائی ہے ،آپ کے اتنے بہن بھائی ہیں ، آپ کے فلاں رشتے دار کی فلاں وقت میں وفات ہوئی تھی ، لوگ بڑے حیران ہوئے ۔ شیخ عمر صاحب کوپتہ چلا تو انہوں نے اسے پکڑ لیا اور پوچھنے لگے : کیا تم آئندہ کی باتیں جانتے ہو؟ اس نےاثبات میں جواب دیا تو انہوں نے جوتا اتار لیا اور کہنے لگے : بتاؤ میں تمہیں ماروں گا یا نہیں ؟۔ وہ پھنس گیا ، اسےمعلوم تھا کہ اگر میں نے کہاکہ آپ ماریں گے تو وہ نہیں ماریں گے اور اگر کہا کہ آپ نہیں ماریں گے، تو مارنے لگ جائیں گے ۔ وہ لا جواب ہو کر بھاگ گیا۔
[1] بعض دفعہ الہام غیر نبی کو بھی ہوتا ہے ۔ اسی طرح انبیاء کو بعض دفعہ تدبیری اور اجتہادی امور میں بھی بذریعہ الہام و وحی حق پر قائم رکھا جاتا ہے جس کےلئے ’عصمت ‘ کی اصطلاح ہے ۔ اور معصوم ہونا صرف انبیاء کے لئے مخصوص ہے بالخصوص جب نبوّت اور حکمرانی اکٹھی کر دی جائے۔ عصمت غیر انبیاء کے لئے نہیں ہوتی ۔