عید میلادالنبی ﷺ .... محل نزاع کیا ہے ؟
نبی مکرم ،رسول معظم ﷺسے محبت وعقیدت ، صرف جزو ایمان ہی نہیں ،کفر وایمان میں حد فاصل اور دجہ امتیاز ہے۔یہ تو سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ کوئی صاحب ایمان اس ذات با برکات فداہ ابی وأمی سے محبت نہ رکھتا ہو !!
محبت وعقیدت کے نام پر عید میلاد کے موقع پر جو جاہلانہ رسوم ورواج اور غیر شرعی افعال وحرکات گلی گلی نظر آرہے ہیں کوئی بھی صاحب علم ان کو سند جواز نہیں دے سکتا ۔اس لیے اصل وجہ نزاع یہ نہیں ہے ۔
نبی رحمت ﷺکے محض اسم گرامی کے تذکرے اور آپ پر درود شریف سے رب کریم کیا کیا انوار وبرکات سے نوازتا ہے ، کیا کیا غم کافور ہوتے ہیں اور کیسے گناہوں کی بن مانگے معافی ملتی ہے ،اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں۔
اس لیے عید میلاد کے اثبات میں سیرت کے عمومی فضائل و مناقب سے استدلال کرنا بھی در حقیقت اصل وجہ نزاع کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اصل وجہ نزاع اور محل اختلاف کیا ہے؟
اس کی تنقیح نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے احباب خلط مبحث کا شکار نظر آتے ہیں ۔
ہمارے علم کے مطابق اصل وجہ اختلاف ،اور محل نزاع point of dispute،رسول معظم ﷺ کی ولادت باسعادت کی تاریخ کو عید قرار دینا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی تاریخ پیدائش کو اصل قرار دے کر ،اس تاریخ کی مناسبت سے ایک دن مقرر کرلینا،اسے عید قرار دینا اور اسے مخصوص انداز میں منانے کی ترغیب دینا یہ اصل وجہ نزاع ہے۔
یہ وجہ نزاع کیوں ہے؟ اس کی وضاحت آپ کے سامنے پیش کیے دیتے ہیں :
مجوزین وقائلین کے نزدیک یہ آمد مصطفیٰ ﷺپر خوشی کا ایک طریقہ ہے،جس طرح ہم اپنے بچوں کی پیدائش پر اظہار مسرت کسی بھی طریقے سے کر لیتے ہیں ،یا تکمیل قرآن مجید پر کسی خاص دن میں تقریب کر لیتے ہیں یا تکمیل صحیح بخاری شریف کی تقریب کے لیے تاریخ مقرر کر لیتے ہیں اور اپنی آسانی کے لیے کسی بھی طریقے سے خوشی منا لیتے ہیں ، ان سب میں بالاتفاق کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا، انہیں عرف اور مصلحت مرسلہ کے قبیل سے ہی جانا پہچانا جاتا ہے ،اسی طرح رسول اللہ ﷺکی ولادتِ باسعادت کی مناسبت سے کوئی تاریخ مقرر کرکے خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں ،یہ تذکار حبیب ﷺکا ایک اسلوب ہے اور بس۔
ہمارے علم کے مطابق حقیقت ایسے نہیں ہے ۔ایک ایسے دن کو جس کی شرع میں کوئی متعین فضیلت وارد نہیں ہے،اسے باقی دنوں سے خاص مذہبی امتیاز دینا،پھر اس دن کو خاص افعال کے لیے نامزد کرنا، ، کسی مذہبی اجتماع کے لیے بطور عید مقرر کرنا ،احداث فی الدین ہے،اور اسلام میں ایک تیسری عید کا اضافہ ہے۔اور یہ اضافہ اسی درجے میں بدعت ہے جس درجے میں ایک نئی نماز کا اضافہ بدعت ہے۔اور اس کے لیے مخصوص طرز پر اجتماع ،اس دن کی مخصوص فضیلت کے تصور کے ساتھ ،بالکل جمعے کی اجتماع کی طرح ،ایک نئے جمعے کے اضافے کی طرح ہے۔
اس طرح کے دن پرتقریبات ،سالانہ پروگرام،یا شادی وغیرہ کے لئے دن مقرر کرنے کو قیاس کرنا ، بالکل ہی سطحی اور غیر منطقی قیاس ہے۔
ان دونوں میں فرق ہر صاحب شعور کو صاف محسوس ہوتا ہے کہ عید میلاد میں بارہ تاریخ مقصود لذاتہ ہے۔اس میں شرف وبرکت کی تعیین باقاعدہ عقیدے کا حصہ ہے۔جب کہ کسی تقریب کے لیے تاریخ یا دن کا تعین نہ فی نفسہ مقصود ہوتا ہے اور نہ ہی اس تاریخ یا دن میں کسی خاص فضیلت کا عقیدہ ہوتا ہے۔محض انتظامی سہولت مد نظر ہوتی ہے ،کوئی بھی منتظم اس خاص تاریخ کو کسی مخصوص فضیلت کے پیش نظر مقرر نہیں کرتا۔علی سبیل المثال اسبوعی درس قرآن کے لیے ہر اتوار درس کے لیے اگر طے کیا جائے تو عام تعطیل کی سہولت مد نظر ہوتی ہے نہ کہ اتوار کی کوئی خاص فضیلت ۔
اسی نوعیت کے فروق کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے کی وجہ سے ہی اکثر اشکالات نے جنم لیا ہے۔مثلاً اگر ہر نئی چیز بدعت ہے تو قرآن مجید پر اعراب کیوں لگائے گئے ، ،اسے باقاعدہ کتابی شکل میں مدون و مرتب کیوں کیا گیا ؟یہ سب کام بھی تو عہد نبوی میں نہیں تھے۔
افسوس ! کہ اتنی سادہ سی بات میں لوگ فرق کیوں نہیں کر پاتے۔کہ یہ سب کچھ عہد نبوی میں ہونے والے کاموں ہی کی تسہیل اور خدمت ہے۔ دین میں اضافہ نہیں ہے ۔ کیا نبی کریم ﷺبغیر اعراب کے پڑھتے تھے؟
کیا خود نبی مکرم ﷺنے قرآن مجید کی ترتیب اور کتابت کا اہتمام نہیں کیا ہوا تھا ؟
ہر ذی عقل یہ تسلیم کرے گا،کہ نبی کریم ﷺاعراب کے ساتھ ہی تلاوت فرماتے تھے، آپ ﷺ ہی کی زبان اقدس سے جاری ہونے والے اعراب کو متاخرین نے کتابی شکل میں محفوظ کیا ہے ،اس اعراب میں معمولی سی بھی کمی بیشی نہیں کی ۔یہ سب امور کسی بھی طرح دین میں نئی عبادت کا اضافہ نہیں ہے، جب کہ بدعت کے ذریعے دین میں خود ساختہ اضافہ ہوتا ہے ۔
ایک اور مثال سے اس فرق کو سمجھ لیجیے عیدین کے لیے عیدگاہ میں جانا اور عید گاہ میں دو رکعت نماز عید پڑھنا سنت ہے ۔لیکن عیدگاہ کی رجسٹری ،کاغذات میں باقاعدہ اس کا ذکرکرنا ،حفاظت کے لیے اس کی چار دیواری تعمیر کرنا، آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ سپیکر استعمال کرنا،نمازیوں کی سہولت کے لیے ایک وقت کا اعلان کرنا، انتظامات کی بہتری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینا،یہ سب کچھ انتظامی آسانی کے لیے ہے،اسے کوئی احمق ہی بدعت سمجھے گا ،لیکن اگر کوئی شخص ہماری چار دیواری ،رجسٹریشن کے عمل ، کمیٹی کی تشکیل،صفیں بچھانے اور سپیکر لگانے کو بنیاد بنا کر یہ کہے کہ جس طرح تمہیں ان انتظامات کا حق ہے جب کہ عیدگاہ کے اس طرز پر انتظامات عہد نبوی سے ثابت نہیں ہیں ،اسی طرح مجھے عید کی دو رکعت کی بجائے چار رکعت پڑھنے کا بھی حق حاصل ہے ۔ جس طرح نماز عید میں دو رکعت اضافے کو نماز عیدکے انتظامات پر قیاس کرنا قابل قبول نہیں ہے، اسی طرح ایک تیسری عید کے اضافے کو خدمت دین کےبعض جدید انتظامات وتسہیلات اور ارتقائی پہلؤوں پر قیاس کرنا ،ناقابل قبول ہے۔
مزید برآں خوشی منانے کاایسا طریقہ جس میں ایک تاریخ کو سالانہ بنیادوں پر ایک تہوار کے طور پر مقرر کرلیا جائے اور ہر صورت میں اسی تاریخ کو مخصوص رسومات بجا لائی جائیں ،شریعت سازی ہے۔اور ایسے اختیار کو جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکو حاصل ہے اپنے ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے ۔
تاریخ پیدائش کو بنیاد بنانا، اس تاریخ میں خصوصیت کے پیش نظر اسے مستقل طے کر لینا، ہر سال اس تاریخ کو لازما مخصوص رسومات بجا لانا شرعاً عید کہلاتا ہے ۔اور عید کی تاریخ مقرر کرنے کی اتھارٹی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے پاس ہے۔
یہی وجہ ہے ،کہ محترم مہینے ،ان کی مخصوص تاریخیں اور ان تاریخوں پر مخصوص عبادات اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے ساتھ ہی یہ سب کچھ طے کردیا تھا۔جیسا کہ سورہ توبہ کی آیت 36میں ہے کہ سال کے کل مہینوں اور اشہر حرم کی تعیین رب العالمین نے خود کر رکھی ہے۔
روزے کے مہینے کی تعیین ،ہفتہ وار مذہبی اجتماع کے لیے یوم جمعہ کی تعیین ،سالانہ تہوار کے لیے دو عیدوں کی تعیین شارع نے خود یہ سب معاملات طے کیے ہیں ۔
بلکہ ان کی تقدیم و تاخیر کو بعض صورتوں میں عین کفر قرار دیا ہوا ہے۔محولہ بالا سورہ توبہ کی آیت نمبر 37 میں النسیئ کو صریحا کفر کہا گیاہے ۔
مدینہ منورہ کے دو کلچرل فیسٹیولز کو رسول اللہ ﷺنے ختم کرکے ان کی جگہ عید الفطر اور عید الاضحی جیسے دو عظیم تہواروں سے روشناس کرایا۔
دیگر اقوام کے تہواروں سے مشابہت کو ہمارے دین میں انتہائی ناپسندیدہ اور معیوب عمل کے طور پر دیکھا گیا ہے۔حتی کہ کسی جاہلانہ تہوار کے موقع پر خاص اسلامی عبادت کی بھی رسول اللہ ﷺنے اجازت مرحمت نہیں فرمائی۔جیساکہ سنن ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص نے نذر مانی تھی کہ بوانہ مقام پر ایک جانور ذبح کروں گا، تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوکر اس کے متعلق سوال کیا ، تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا : کیا وہاں پر دور جاہلیت کا کوئی بت ہے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں ۔ پھر آپﷺ نے پوچھا اس مقام پر دور جاہلیت کا کوئی میلہ لگتا ہے ؟ لوگوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے اسے جانور ذبح کرنے کی اجازت عطا فرمادی۔[1]
کسی بڑی ہستی کی تاریخ پیدائش کو قومی تہوار قرار دینا اصلا فراعنہ کا کلچر ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے نزدیک تاریخ میں سب سے پہلے تقریبا پانچ ہزار سال قبل مسیح فراعنہ نے اپنے یوم پیدائش کو جشن کے طور پر منوایا ،اس سے دیگر اقوام نے یہ رسم لی ہے۔اس لحاظ سے اس رسم کی بنیاد اسلامی روایات پر نہیں ہے۔بلکہ اسلام کے حسین مرقع میں ایک پیوند کاری پر مبنی ہے ۔
اس حوالے سے سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ سوا لاکھ کے قریب انبیاء کرام میں کسی کے ہاں بھی ہمیں جشن میلاد کی روایت نہیں ملتی۔عیسائیوں نے غالبا دور زوال میں فراعنہ مصر سے متاثر ہو کر کرسمس کا تہوار شروع کیا۔
عموما ًہمارے ہاں نبی کریم ﷺکی پیدائش پر خوشی کے عنوان سے یہ عید منائی جاتی ہے۔ہمارے علم کے مطابق یہ تصور بھی دین کی گہرائی سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
رسول اللہ ﷺنے اپنی زندگی جس مشن کے لیے وقف کر رکھی تھی ، خود رسول اقدس ﷺکو بھی اس مشن کی تکمیل ہی عزیز ترین تھی اور اس کی کامیابی ہی آپ کے لیے حقیقی خوشی کا عنوان تھا۔
ہمارے فہم کے مطابق میلاد رسول ،بعثت رسول ،ہجرت رسول ،فتوحات رسول ،سب ہی خوشی کے مواقع ہیں،ہمارے دین میں ہر ہر موقع پر جشن کی بجائے مجموعی طور پر مقاصد دین اور اہداف بعثت کو سامنے رکھتے ہوئے دو عیدیں مقرر کی گئی ہیں ۔ان دو عیدوں میں مسلمانوں کی اجتماعی خوشی کے تہوار منحصر ہیں ۔اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں عیدیں بعثت رسول کے مقصد اور مشن رسول کی تکمیل سے جڑی ہوئی ہیں ۔تکمیل قرآن مجید کی خوشی میں عید الفطر مقرر کی گئی ہے اور یوم عرفہ میں آیت تکمیل دین کی مناسبت سے خود یوم عرفہ ،حج اور عید الاضحی مقرر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خیر القرون میں ہمیں میلاد رسول ﷺکی نسبت سے عید ،تہوار اور جشن کا دور دور تک نام ونشان نظر نہیں آتا ۔حالانکہ عہد نبوی سے قبل ہی فرعونی تہذیب میں یوم پیدائش کی تقریب معروف تھی۔
اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکی آمد پر خوشی کا تعلق دلی کیفیت کے ساتھ ہوتا ہےاوراس کا عملی اظہار سنت کے مطابق اور خیر القرون کے عمل کے موافق ہونا ضروری ہے ۔سنت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آمد رسول ﷺکی حقیقی خوشی اتباع سنت،میں ہی مضمر ہے۔
رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا
کی عظیم دعا روزانہ تین دفعہ صبح وشام پڑھنا آپ کی آمد پر خوشی کا کیا مسنون طریقہ کافی نہیں ؟
سوموار کا روزہ رکھنا خوشی منانے کا ایک ایسا طرز عمل ہے جس میں میلاد رسول ﷺ،نزول قرآن مجید اور بعثت نبوی کی تمام خوشیاں یکجا ہو جاتی ہیں ،ساتھ ہی رب کریم کے سامنے روزے کی حالت میں اعمال کی پیشی بھی ہو جاتی ہے۔ان احادیث میں غور کیجیے:
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَيْنِ؟ فَقَالَ: «فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ»[2]
’’ حضرت ابوقتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے (آپ کے )سوموار کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس دن میں پیدا ہوا اور اسی دن پر مجھ قرآن کا نزول شروع ہوا۔‘‘
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تُعْرَضُ الأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالخَمِيسِ، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ»[3]
’’ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندوں کے اعمال سوموار اور جمعرات کو اللہ کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں ، مجھے پسند یہ ہے کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔‘‘
یاد رکھیے سنت رسول اللہ ﷺاور خیر القرون کے عمل سے تجاوز کرتے ہوئے ،دیگر اقوام کی دیکھا دیکھی یوم پیدائش کو ہی بطور عید منانا ،اور اسے ہی واحد اظہار مسرت کا ذریعہ سمجھنا ، یہ عمل متعدد وجوہات کی بنا پر ناقابل قبول ہے۔
ان نتائج کے ہوتے ہوئے اس میں مصلحت راجحہ کے فقہی اصول کی بجائے سد ذریعہ کا فقہی اصول منطبق ہوتا ہے۔
جو سمجھ آیا علم وادب کے دائرے میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ دل آزاری قطعا ًمقصود نہیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں محبت رسول ﷺاور اتباع سنت کی دولت سے مالا مال فرمائے آمین ۔
[1] سنن ابی داود :3313
[2] صحيح مسلم:1162
[3] سنن ترمذی:747