تعامل بین المسالک اور سلفی علماء کا منہج
جب بھی ہمارے سامنے سلفی فکر کا نام آتا ہے تو فورا ًشیخ الاسلام ابن تیمیہ نظروں میں گھوم جاتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سلفیت اور ابن تیمیہ کو جدا کرنا مشکل ہے کہ سلفیت کے مفہوم میں ابن تیمیہ اس طرح سے رچ بس گئے ہیں کہ اس کے معانی کا ایک لازم حصہ بن گئے ہیں۔ بس سلفی نکتہ نظر کیا ہے، اس بارے امام ابن تیمیہ کا بیان ایک اسٹینڈرڈ ورژن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر آپ کو ثابت کرنا ہے کہ یہ سلفی نکتہ نظر ہے تو آپ ابن تیمیہ سے ثابت کر دیں، اس کے بعد کسی سند کی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر آپ کو ثابت کرنا ہے کہ یہ سلفی نکتہ نظر نہیں ہے تو بھی آپ ابن تیمیہ سے ثابت کر دیں کہ یہ سلفیت نہیں ہے تو آپ کو اس کے بعد مزید کوئی دلیل نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح جب ہم معاصر سلفیت کی بات کرتے ہیں تو شیخ بن باز، شیخ محمد بن صالح العثیمین اور علامہ البانی اس فکر کے نمائندے اور ترجمان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کسی بات پر ان تینوں اہل علم کا اتفاق ہو جائے تو اسے سلفی فکر کہنے میں کوئی اشکال باقی نہیں رہ جاتا ۔
تعامل بین المسالک اور امام ابن تیمیہ کا موقف
جس طرح کتاب وسنت کی نصوص کی شرح و وضاحت میں اختلاف ہو جاتا ہے بلکہ ہوتا رہا ہے تو ایسے میں امام ابن تیمیہ نے یہ تحریک برپا کی کہ آیات صفات کی تفسیر میں سلف کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اسی طرح اگر سلف کے اقوال کی تعبیر وتشریح میں اختلاف ہو جائے کہ کوئی عالم کہے کہ سلف کے ان اقوال کا یہ معنی ہے اور دوسرا یہ کہے کہ یہ معنی ہے تو ایسے میں سلفیت کے مکتب فکر میں قولِ فیصل امام ابن تیمیہ کا قول بنتا ہے کیونکہ سلفیت کی اسٹینڈرڈ تعبیر وہی ہے جو وہ کر گئے ہیں اور اس پر تقریباً اتفاق ہو گیا ہے سوائے ان چند ایک مسائل کے کہ جنہیں روایتی سلفیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ وہ خود میں ایک جدید سلفیت ہیں۔
پہلا اصول
امام ابن تیمیہ a کا کہنا یہ ہے کہ جس بندے میں خیر وشر اور سنت وبدعت جمع ہو جائیں تو اس سے دونوں طرح کا معاملہ کیا جائے گا، ثواب کا بھی اور سزا کا بھی، جس قدر اس کا خیر اور سنت پر عمل ہے، اس قدر اسے ثواب ملے گا اور اسی قدر اس سے دوستی ہو گی، اور جس قدر اس کے کام میں شر اور بدعت ہے، اس قدر سزا کا وہ مستحق ہو گا، اور اسی قدر اس سے دوری بھی ہو گی۔ اور امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ اہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے کہ اس میں ان سے خوارج اور معتزلہ وغیرہ جیسے بدعتی فرقوں نے اختلاف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
وَإِذَا اجْتَمَعَ فِي الرَّجُلِ الْوَاحِدِ خَيْرٌ وَشَرٌّ وَفُجُورٌ وَطَاعَةٌ وَمَعْصِيَةٌ وَسُنَّةٌ وَبِدْعَةٌ: اسْتَحَقَّ مِنْ الْمُوَالَاةِ وَالثَّوَابِ بِقَدْرِ مَا فِيهِ مِنْ الْخَيْرِ وَاسْتَحَقَّ مِنْ الْمُعَادَاتِ وَالْعِقَابِ بِحَسَبِ مَا فِيهِ مِنْ الشَّرِّ فَيَجْتَمِعُ فِي الشَّخْصِ الْوَاحِدِ مُوجِبَاتُ الْإِكْرَامِ وَالْإِهَانَةِ فَيَجْتَمِعُ لَهُ مِنْ هَذَا وَهَذَا كَاللِّصِّ الْفَقِيرِ تُقْطَعُ يَدُهُ لِسَرِقَتِهِ وَيُعْطَى مِنْ بَيْتِ الْمَالِ مَا يَكْفِيهِ لِحَاجَتِهِ. هَذَا هُوَ الْأَصْلُ الَّذِي اتَّفَقَ عَلَيْهِ أَهْلُ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ وَخَالَفَهُمْ الْخَوَارِجُ وَالْمُعْتَزِلَةُ وَمَنْ وَافَقَهُمْ عَلَيْهِ. [1]
’’جب ایک ہی بندے میں خیر و شر، اطاعت ومعصیت، نیکی وبدی اور سنت وبدعت دونوں جمع ہو جائیں تو وہ اپنے خیر کے بقدر ثواب کا بھی مستحق ہے اور دوستی کا بھی۔ اور جس قدر اس میں اللہ کی نافرمانی ہو گی تو اس شر کے حساب سے وہ سزا کا بھی مستحق ہے اور دشمنی کا بھی۔ پس ایک ہی شخص میں بعض ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو اس کے اکرام اور عزت کو واجب کرتی ہیں اور کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اس کی توہین کا موجب ہوتی ہیں۔ پس ایک ہی شخص میں دونوں جمع ہو جاتی ہیں جیسا کہ فقیر چور کی مثال ہے کہ اس کا ہاتھ چوری کی وجہ سے کاٹا جائے گا لیکن فقیر ہونے کے سبب اسے بیت المال میں سے اتنا دیا جائے گا کہ کفایت کر جائے۔ یہ وہ اصول ہے کہ جس پر اہل سنت کا اتفاق ہے اور اس میں معتزلہ اور خوارج وغیرہ نے ہی ان سے اختلاف کیا ہے۔‘‘
پس پہلا اصول تو یہ ہے کہ جب کسی شخص میں سنت اور بدعت جمع ہوں تو اس کے ساتھ سنت کے بقدر حسن سلوک اور اس کا اکرام واجب ہے۔ اور اس میں جو بدعت ہے، اس کے بقدر اس پرسختی اور تنقید لازم ہے۔ تو ایک ہی شخص کا آپ اکرام بھی کریں گے، اس وجہ سے کہ وہ بعض معاملات میں سنت کا پیرو ہے۔ اور اسی شخص پر آپ رد بھی کریں گے کہ بعض جگہ وہ بدعت کا مرتکب ہے۔ یہ توازن اور اعتدال ہے۔
دوسرا اصول
دوسرا اصول یہ ہے کہ اہل بدعت کی اقسام ہیں اور سب اہل بدعت کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا درست نہیں کہ ان میں سے کچھ کی بدعت ایسی ہے کہ وہ کفر تک پہنچانے والی ہے، جبکہ کچھ کی بدعت ایسی ہے کہ وہ گناہ کے درجے کی ہے، اور کچھ کی بدعت ایسی ہے کہ وہ اجتہادی خطا کی قبیل سے ہے کہ جس پر ثواب کی امید ہو سکتی ہے۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فَأَهْلُ الْبِدَعِ فِيهِمْ الْمُنَافِقُ الزِّنْدِيقُ فَهَذَا كَافِرٌ وَيَكْثُرُ مِثْلُ هَذَا فِي الرَّافِضَةِ وَالْجَهْمِيَّة فَإِنَّ رُؤَسَاءَهُمْ كَانُوا مُنَافِقِينَ زَنَادِقَةً. وَأَوَّلُ مَنْ ابْتَدَعَ الرَّفْضَ كَانَ مُنَافِقًا. وَكَذَلِكَ التَّجَهُّمُ فَإِنَّ أَصْلَهُ زَنْدَقَةٌ وَنِفَاقٌ. وَلِهَذَا كَانَ الزَّنَادِقَةُ الْمُنَافِقُونَ مِنْ الْقَرَامِطَةِ الْبَاطِنِيَّةِ الْمُتَفَلْسِفَةِ وَأَمْثَالِهِمْ يَمِيلُونَ إلَى الرَّافِضَةِ وَالْجَهْمِيَّة لِقُرْبِهِمْ مِنْهُمْ. وَمِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ مَنْ يَكُونُ فِيهِ إيمَانٌ بَاطِنًا وَظَاهِرًا لٰكِنْ فِيهِ جَهْلٌ وَظُلْمٌ حَتَّى أَخْطَأَ مَا أَخْطَأَ مِنْ السُّنَّةِ؛ فَهَذَا لَيْسَ بِكَافِرِ وَلَا مُنَافِقٍ ثُمَّ قَدْ يَكُونُ مِنْهُ عُدْوَانٌ وَظُلْمٌ يَكُونُ بِهِ فَاسِقًا أَوْ عَاصِيًا؛ وَقَدْ يَكُونُ مُخْطِئًا مُتَأَوِّلًا مَغْفُورًا لَهُ خَطَؤُهُ؛ وَقَدْ يَكُونُ مَعَ ذَلِكَ مَعَهُ مِنْ الْإِيمَانِ وَالتَّقْوَى مَا يَكُونُ مَعَهُ مِنْ وِلَايَةِ اللَّهِ بِقَدْرِ إيمَانِهِ وَتَقْوَاهُ.[2]
’’اہل بدعت میں منافق اور زندیق بھی ہیں۔ تو یہ کافر ہیں۔ ان کی مثالیں اکثر طور روافض اور جہمیہ میں مل جائیں گی کہ ان کے عمائدین منافق اور زندیق ہیں۔ جس نے رافضیت کی ابتداء کی تو وہ منافق تھا۔ اسی طرح جہمیت کی اصل بھی زندقہ اور نفاق ہے۔ اسی لیے باطنی اور فلسفی قرامطہ میں سے زندیق منافقوں کی جماعت روافض اور جہمیہ کی طرف قلبی میلان اور رجحان رکھتی ہے کیونکہ وہ نظریاتی طور ان سے قریب ہیں۔ اور اہل بدعت کی دوسری قسم وہ ہیں کہ جن میں ظاہر اور باطن دونوں میں ایمان موجود ہے لیکن ان میں جہالت اور ظلم ہے کہ جس کے سبب سے وہ سنت کے معاملے میں خطا کھا گئے۔ اہل بدعت کا یہ گروہ نہ تو کافر ہے اور نہ ہی منافق ہے۔ پھر ان میں سے تیسری قسم بعض ایسے ہیں کہ جن کا ظلم و عدوان ایسا ہوتا ہے کہ وہ انہیں نافرمان اور فاسق وفاجربنا دیتا ہے اور بعض اوقات ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی بدعت ان کی خطائے اجتہادی اور تاویل ہوتی ہے کہ جو اللہ کے ہاں معاف ہے۔ اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ خطائے اجتہادی اور تاویل کے ساتھ ان میں ایمان اور تقوی بھی موجود ہوتا ہے اور وہ اللہ پر اپنے اس ایمان اور تقوی کی بدولت اللہ کی ولایت کے ایک درجے پر ہوتا ہے۔‘‘
اہل بدعت میں فرق کیا جائے گا۔ اب اشاعرہ کو بھی سلفیہ اہل بدعت شمار کرتے ہیں کیونکہ اشاعرہ صفات باری تعالی میں تاویل کے قائل ہیں۔ اب جن اشاعرہ نے بعض صفات میں تاویل کی ہے یا بعض دوسرے معاملات میں اشعریت، ماتریدیت یا غیر سلفیت کی طرف مائل ہیں، ان میں بڑے بڑے نام مل جاتے ہیں جیسا کہ امام دار قطنی، امام بیہقی، علامہ خطیب بغدادی، امام ابن حزم، امام الحرمین جوینی، امام حاکم، امام غزالی، قاضی ابن رشد، قاضی ابن العربی، قاضی عیاض، علامہ ابن عساکر، امام ابن صلاح، امام رازی، علامہ آمدی، امام عز بن عبد السلام، امام نووی، امام بیضاوی، امام قرطبی، علامہ تفتازانی، علامہ ابن خلدون، علامہ ابن حجر عسقلانی، امام سخاوی، امام سیوطی، علامہ ابن حجر ہیثمی، علامہ ابن عاشور وغیرہ۔ اب ان ائمہ میں سے بعض وہ ہیں کہ جن کی کتابیں سلفی مدارس میں درسی کتب کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مجھے ایک سلفی کا مکالمہ یاد آ رہا ہے جو ایک اشعری کے ساتھ ہوا کہ دونوں ایک کتب خانے پر کھڑے تھے تو سلفی نے اشعری سے کہا ہے کہ اشعریت گمراہی اور بدعت ہے اور ان کی کتابوں کا بالکل بھی مطالعہ نہیں کرنا چاہیے۔ اشعری نے جواب میں پوچھا کہ امام نووی اور علامہ ابن حجر عسقلانی کا کیا حکم ہے کہ کیا وہ دونوں بھی بدعتی اور گمراہ ہیں؟ سلفی نے جواب دیا کہ ان کے افکار اور نظریات میں بدعت اور گمراہی ہے۔ اس پر اشعری نے کہا کہ آپ"فتح الباری" اور "شرح نووی" کیوں خرید رہے ہو جبکہ ان میں بدعت اور گمراہی موجود ہے۔ کیا آپ اپنی لائبریری کی زینت ایسی کتابوں کو بنا ؤ گے اور لوگوں کو ایسی کتابوں کے مطالعہ کی ترغیب دلاؤ گے کہ جن میں بدعت اور گمراہی ہے تو اس پر سلفی خاموش ہو گیا۔ بڑے بڑے محدثین، فقہاء اور کبار علماء ایسے ہیں کہ جن پر گمراہ اور بدعتی ہونے کے فتوے لگے ہیں۔ اگر ان سب کو پڑھنے سے روک دیا جائے گا تو پھر بہتر ہے کہ آپ اپنی لائبریری کہیں دریا برد کر دیں کہ ہر فن میں کہ وہ تفسیر ہو یا حدیث، اصول فقہ ہو یا اصول حدیث، عقیدہ ہو یا اصول تفسیر، فقہ ہو یا کلام، لغت ہو یا بلاغت، ہر طبقے اور گروہ کے اہل علم نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور یہ سب ہمارا علمی ورثہ ہے۔ اس سے ہم کیسے جان چھڑا سکتے ہیں۔ جن کتب میں خیر اور شر ہے تو آپ خیر کا علم لے لیں اور شر کو چھوڑ دیں۔ یہی وہ علمی منہاج ہے کہ جس پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہو چکا ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ کا قول اوپر گزر چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اہل بدعت کی تعریف بھی ہے جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے۔ خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ اہل بدعت یعنی اہل تشیع، مرجئہ، قدریہ، معتزلہ اور خوارج وغیرہ سے روایت لینا جائز ہے ،جب اہل بدعت سے روایت لینا جائز ہے تو ایسا کرنا ان کے ساتھ بیٹھنے، ان کی شاگردی اختیار کرنے اور ان کی تعظیم کیے بغیر کیسے ممکن ہے! کیا ایک شاگرد اپنے استاذ کی تعظیم نہیں کرے گا! خطیب بغدادی لکھتے ہیں:
وَقَدِ احْتَجَّ مَنْ ذَهَبَ إِلَى قَبُولِ أَخْبَارِهِمْ بِأَنَّ مُوقِعَ الْفِسْقِ مُعْتَمِدًا وَالْكَافِرَ الْأَصْلِيَّ مُعَانِدَانِ وَأَهْلُ الْأَهْوَاءِ مُتَأَوِّلُونَ غَيْرُ مُعَانِدِينَ وَبِأَنَّ الْفَاسِقَ الْمُعْتَمِدَ أَوْقَعَ الْفِسْقَ مَجَانَةً وَأَهْلُ الْأَهْوَاءِ اعْتَقَدُوا مَا اعْتَقَدُوهُ دِيَانَةً وَيَلْزَمُهُمْ عَلَى هَذَا الْفَرْقِ أَنْ يَقْبَلُوا خَبَرَ الْكَافِرِ الْأَصْلِيِّ فَإِنَّهُ يَعْتَقِدُ الْكُفْرَ دِيَانَةً فَإِنْ قَالُوا: قَدْ مَنَعَ السَّمْعُ مِنْ قَبُولِ خَبَرِ الْكَافِرِ الْأَصْلِيِّ فَلَمْ يَجُزْ ذَلِكَ لِمَنْعِ السَّمْعِ مِنْهُ قِيلَ: فَالسَّمْعُ إِذًا قَدْ أَبْطَلَ فَرْقَكُمْ بَيْنَ الْمُتَأَوِّلِ وَالْمُعْتَمِدِ وَصَحَّحَ إِلْحَاقَ أَحَدِهِمَا بِالْآخَرِفَصَارَ الْحُكْمُ فِيهِمَا سَوَاءً. وَالَّذِي نَعْتَمِدُ عَلَيْهِ فِي تَجْوِيزِ الِاحْتِجَاجِ بِأَخْبَارِهِمُ مَا اشْتُهِرَ مِنْ قَبُولِ الصَّحَابَةِ أَخْبَارَ الْخَوَارِجِ وَشَهَادَاتِهِمْ وَمَنْ جَرَى مَجْرَاهُمْ مِنَ الْفُسَّاقِ بِالتَّأْوِيلِ ثُمَّ اسْتِمْرارِ عَمَلِ التَّابِعِينَ وَالْخَالِفِينَ بَعْدَهُمْ عَلَى ذَلِكَ لِمَا رَأَوْا مِنْ تَحَرِّيهِمِ الصِّدْقَ وَتَعْظِيمِهِمِ الْكَذِبَ وَحِفْظِهِمْ أَنْفُسَهُمْ عَنِ الْمَحْظُورَاتِ مِنَ الْأَفْعَالِ وَإِنْكَارِهِمْ عَلَى أَهْلِ الرِّيَبِ وَالطَّرَائِقِ الْمَذْمُومَةِ وَرِوَايَاتِهِمُ الْأَحَادِيثَ الَّتِي تُخَالِفُ آرَاءَهُمْ وَيَتَعَلَّقُ بِهَا مُخَالِفُوهُمْ فِي الِاحْتِجَاجِ عَلَيْهِمْ فَاحْتَجُّوا بِرِوَايَةِ عِمْرَانَ بْنِ حِطَّانَ وَهُوَ مِنَ الْخَوَارِجِ وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ وَكَانَ مِمَّنْ يَذْهَبُ إِلَى الْقَدَرِ وَالتَّشَيُّعِ وَكَانَ عِكْرِمَةُ إِبَاضِيًّا وَابْنُ أَبِي نَجِيحٍ وَكَانَ مُعْتَزِلِيًّا وَعَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ وَشِبْلُ بْنُ عَبَّادٍ وَسَيْفُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَهِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ وَسَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ وَكَانُوا قَدَرِيَّةً وَعَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ وَمِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ وَكَانُوا مُرْجِئَة وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى وَخَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ وَكَانُوا يَذْهَبُونَ إِلَى التَّشَيُّعِ فِي خَلْقٍ كَثِيرٍ يَتَّسِعُ ذِكْرُهُمْ دَوَّنَ أَهْلُ الْعِلْمِ قَدِيمًا وَحَدِيثًا رِوَايَاتِهِمْ وَاحْتَجُّوا بِأَخْبَارِهِمْ فَصَارَ ذَلِكَ كَالْإِجْمَاعِ مِنْهُمْ وَهُوَ أَكْبَرُ الْحُجَجِ فِي هَذَا الْبَابِ. [3]
’’جو اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اہل بدعت سے روایت لینا جائز ہے لیکن کافر اور فاسق سے نہیں تو ان کی دلیل یہ ہے کہ جو تو حقیقی کافر ہے یا جانتے بوجھتے فسق وفجور کا ارتکاب کرنے والا ہے، وہ سرکش ہے۔ اس کے برعکس اہل بدعت تاویل کرنے والے ہیں اور سرکش نہیں ہیں۔ پھر جانتے بوجھتے فسق وفجور کا ارتکاب کرنے والا غیر سنجیدہ دین کا حامل ہے جبکہ اہل بدعت جس کا اعتقاد رکھتے ہیں، وہ اسے سنجیدہ دین سمجھتے ہوئے اس کے معتقد ہوتے ہیں۔ اس جواب سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ حقیقی کافر کی بھی روایت قبول کریں کیونکہ وہ بھی تو اپنے کفر کا دل سے اعتقاد رکھتا ہے۔ اس کا جواب وہ اگر یہ دیں کہ خبر نے حقیقی کافر کی روایت قبول کرنے سے منع کر دیا ہے تو خبر کے منع کرنے کی وجہ سے یہ جائز نہیں ۔ تو ایسے شخص کو یہ جواب دیا جائے گا کہ خود خبر نے ہی واضح کر دیا ہے کہ متعمد یعنی جانتے بوجھتے کوئی کام کرنے والے اور متاول یعنی تاویل کرنے والے کے مابین جو فرق تم نے کیا ہے، شرع نے اس کی رعایت نہیں کی ہے۔ لہٰذا ایک کا حکم دوسرے پر جاری کرنا جائز ہے اور دونوں یعنی کافر اور بدعتی کا حکم ایک ہی ہے۔ ہم اہل بدعت کی روایت قبول کرنے میں جس دلیل پراعتماد کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام سے مشہور ہے کہ وہ خوارج کی روایت اور گواہی دونوں قبول کر لیتے تھے۔ اور اسی طرح ان فساق وفجار کی خبر اور گواہی بھی قبول کر لیتے تھے جو تاویل کرنے والے تھے۔ اس کے بعد تابعین اور تبع تابعین کا عمل بھی یہی رہا ہے کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ وہ سچائی کی تلاش میں رہتے ہیں اور جھوٹ کو بڑا گناہ سمجھتے ہیں، اپنے آپ کو کبیرہ گناہوں سے بچاتے ہیں، شک پھیلانے والوں اور مذموم طریقوں کا انکار کرتے ہیں، اور ایسی روایات بھی بیان کر جاتے ہیں جو ان کے نظریات کے خلاف ہوتی ہیں اور ان کے مخالفین انہی کی روایات کو ان کے خلاف حجت بنا لیتے ہیں۔ پس اہل الحدیث نے عمران بن حِطان کی روایات قبول کیں جو کہ خوارج میں سے ہے۔ اور عمرو بن دینار کی روایات قبول کیں جو کہ قدریہ اور تشیع کی طرف مائل تھے۔ اسی طرح عکرمہ کی روایات قبول کیں جو اباضی تھے۔ اور ابن ابی نجیح کی روایات قبول کیں جو معتزلی تھے۔ اور عبد الوارث بن سعید، شبل بن عباد، سیف بن سلیمان، ہشام دستوائی، سعید بن ابی عروبہ اور سلام بن مسکین قدریہ تھے۔ اور علقمہ بن مرثد، عمرو بن مرۃ، مسعر بن کدام مرجئہ تھے۔ عبد اللہ بن موسی، خالد بن مخلد اور عبد الرزاق بن ہمام میں شیعیت تھی۔ پھر ایک خلق کثیر ہے کہ اہل علم میں اگلوں پچھلوں نے ان کی روایات کو اپنی کتابوں میں مدون کیا، ان کی احادیث کو دلیل بنایا، اس طرح اس مسئلے میں اجماع منعقد ہو گیا جو اس باب میں سب سے بڑی دلیل ہے۔‘‘
اب یہ دعوی کرنا کہ اہل بدعت کی تعریف کرنا جائز نہیں اور یہ سلف کا موقف ہے، درست نہیں کیونکہ یہ لوگ سلف کے اقوال کا صحیح معنی ومفہوم ہی سمجھ نہیں پائے۔ اگر بفرض محال سلف نے ایسی کوئی بات کی ہے تو یہ خود قرآن مجید کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے کہ قرآن نے تو اہل کفر کی تعریف کی ہے جیسا کہ یہود ونصاری کی[4]۔ متشددین اور غالین کا مسئلہ ہے کہ قرآن ہو یا حدیث، آثار ہوں یا سلف کی آراء، اس میں تناقض زیادہ پیدا کرتے ہیں اور تطبیق پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور یہ کام امام ابن تیمیہ نے کیا ہے لیکن عام طور اہل حدیث انہیں پڑھتے نہیں، پڑھتے ہیں تو سمجھتے نہیں، سمجھتے ہیں تو عمل نہیں کرتے۔ امام ابن تیمیہ نے سلف کے دونوں طرح کے اقوال میں جو تطبیق پیدا کی ہے، وہ ہم تیسرے اصول میں ذکر کریں گے۔ امام ذہبی، قتادہ بن دعامہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
"وَهُوَ حُجّةٌ بِالإِجْمَاعِ إِذَا بَيَّنَ السَّمَاعَ، فَإِنَّهُ مُدَلِّسٌ مَعْرُوْفٌ بِذَلِكَ، وَكَانَ يَرَى القَدَرَ - نَسْأَلُ اللهَ العَفْوَ -. وَمعَ هَذَا، فَمَا تَوقَّفَ أَحَدٌ فِي صِدقِه، وَعَدَالَتِه، وَحِفظِه، وَلَعَلَّ اللهَ يَعْذُرُ أَمْثَالَه مِمَّنْ تَلبَّسَ بِبدعَةٍ يُرِيْدُ بِهَا تَعْظِيْمَ البَارِي وَتَنزِيهَه، وَبَذَلَ وُسْعَهُ، وَاللهُ حَكَمٌ عَدلٌ لَطِيْفٌ بِعِبَادِه، وَلاَ يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ. ثُمَّ إِنَّ الكَبِيْرَ مِنْ أَئِمَّةِ العِلْمِ إِذَا كَثُرَ صَوَابُه، وَعُلِمَ تَحَرِّيهِ لِلْحقِّ، وَاتَّسَعَ عِلْمُه، وَظَهَرَ ذَكَاؤُهُ، وَعُرِفَ صَلاَحُه وَوَرَعُه وَاتِّبَاعُه، يُغْفَرُ لَهُ زَلَلُهُ، وَلاَ نُضِلِّلْهُ وَنَطرْحُهُ وَنَنسَى مَحَاسِنَه. نَعَم، وَلاَ نَقتَدِي بِهِ فِي بِدعَتِه وَخَطَئِه، وَنَرجُو لَهُ التَّوبَةَ مِنْ ذَلِكَ." [5]
’’قتادہ معروف مدلس ہیں لیکن جب سماع کی وضاحت کر دیں تو بالاجماع حجت ہیں اور وہ قدریہ میں سے تھے اور ہم ان کے نظریات سے اللہ کی عافیت چاہتے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی ایک نے بھی ان کے صدق، عدالت اور حافظے میں توقف نہیں کیا۔ اللہ عزوجل سے پوری امید ہے کہ ان جیسے اہل بدعت کا عذر قبول فرمائیں گے کیونکہ وہ اپنی بدعت کے ذریعے اپنے رب کی تعظیم ، تنزیہ اور قدرت کی بڑائی چاہتے تھے۔ اور اللہ عزوجل حاکم، عادل اور اپنے بندوں سے باخبر ہے۔ اور اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے[یہ آخری جملہ بہت اہم ہے اور کمال ہے اور خاص طور اس سیاق وسباق میں تو غضب ہے]۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبار اہل علم کہ جن کی اکثر باتیں صحیح ہوں، وہ حق کے شیدائی ہوں، ان کا علم وسیع ہو، ان کی ذہانت ظاہر ہو، ان کی صالحیت، خشیت اور اتباع سنت معروف ہو، اللہ عزوجل ان کی لغزشوں سے درگزر فرما دیں گے۔ اور ہم انہیں نہ تو گمراہ قرار دیں گے اور نہ ہی ان کو ایک طرف پھینک دیں گے کہ ان سے استفادہ نہ کریں اور نہ ہی ان کے محاسن کو بھولیں گے۔ البتہ ہم ان کی خطا اور بدعت میں ان کی اتباع نہیں کریں گے لیکن اس میں بھی اللہ عزوجل سے ان کے لیے معافی کے طلبگار رہیں گے۔‘‘
یہ ہے وہ سلف کا منہج کہ جسے کبار ائمہ سلف نے نقل کیا ہے اور برصغیر پاک وہند کے اکابر اہل حدیث علماء نے اس کے مطابق مسلک کی نشر واشاعت کا کام کیا ۔ امام عقیلی لکھتے ہیں:
سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ: أَسْمَعُكَ تُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ، مِنْ أَصْحَابِنَا هُمْ يَكْرَهُونَ الْحَدِيثَ عَنْهُ، قَالَ: مَنْ هُوَ؟ قُلْتُ: مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَ: وَلِمَ ؟قُلْتُ كَانَ قَدَرِيًّا. فَغَضِبَ، وَقَالَ: فَمَا يَضُرُّهُ أَنْ يَكُونَ قَدَرِيًّا![6]
’’سلیمان بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے عبد الرحمن بن مہدی سے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ ایک ایسے شخص سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ ہمارے بعض اصحاب اس کی روایت کو ناپسند کرتے ہیں۔ عبد الرحمن بن مہدی نے کہا کہ وہ شخص کون ہے؟ میں نے کہا: محمد بن راشد الدمشقی۔ انہوں نے کہا: کیوں؟ میں نے کہا: کہ وہ قدریہ میں سے ہے۔ اس پر عبد الرحمن بن مہدی غصے ہو گئے اور کہا: کیا اب قدریہ میں سے ہونا (روایت لینے میں )اس کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے؟‘‘
یہ وہی بات ہے کہ جس بندے میں خیر غالب ہو تو اس کی بدعت اس کے لیے نقصان دہ نہ ہو گی، ان شاء اللہ عزوجل، کہ اس کا خیر کا پلڑا بھاری ہے۔ آخرت میں بھی فوز وفلاح کا یہی اصول ہے کہ انسان کا خیر کا پلڑا بھاری ہو جائے، یہ نہیں کہ اس کے نامہ اعمال میں کوئی شرموجود ہی نہ ہو۔ اسی طرح دنیا میں بھی یہی اصول لاگو ہو گا کہ جس عالم کا خیر کا پلڑا بھاری ہو گا تو اس کے شر پر اللہ عزوجل سے معافی کی امید رکھی جائے گی۔ اس بابت سلف کے بے شمار اقوال ہیں لیکن ابھی ہم مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتے کہ ان کو جمع کرنے کے لیے ایک مفصل کتاب درکار ہے ۔
تیسرا اصول
تیسرا اصول یہ ہے کہ اہل بدعت سے ترکِ تعلق، نص کا صریح حکم نہیں ہے بلکہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کہ جس کی بنیاد مصلحت کا اصول ہے۔ لہٰذا مصلحت کی بنیاد پر اہل بدعت سے تعلق رکھنے اور نہ رکھنے کا حکم حالات وواقعات اور زمان ومکان کے اعتبار سے تبدیل ہوتا رہے گا۔ کس وقت کس بدعتی سے ملنا ہے اور کس وقت کس سے نہیں ملنا، اس کا فیصلہ ایک عالم دین مصلحت کے اصول کی روشنی میں اپنے اجتہاد سے کرے گا۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
وَهَذَا الْهَجْرُ يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْهَاجِرِينَ فِي قُوَّتِهِمْ وَضَعْفِهِمْ وَقِلَّتِهِمْ وَكَثْرَتِهِمْ فَإِنَّ الْمَقْصُودَ بِهِ زَجْرُ الْمَهْجُورِ وَتَأْدِيبُهُ وَرُجُوعُ الْعَامَّةِ عَنْ مِثْلِ حَالِهِ. فَإِنْ كَانَتْ الْمَصْلَحَةُ فِي ذَلِكَ رَاجِحَةً بِحَيْثُ يُفْضِي هَجْرُهُ إلَى ضَعْفِ الشَّرِّ وَخِفْيَتِهِ كَانَ مَشْرُوعًا.وَإِنْ كَانَ لَا الْمَهْجُورُ وَلَا غَيْرُهُ يَرْتَدِعُ بِذَلِكَ بَلْ يُزِيدُ الشَّرَّ وَالْهَاجِرُ ضَعِيفٌ بِحَيْثُ يَكُونُ مَفْسَدَةُ ذَلِكَ رَاجِحَةً عَلَى مَصْلَحَتِهِ لَمْ يَشْرَعْ الْهَجْرُ؛ بَلْ يَكُونُ التَّأْلِيفُ لِبَعْضِ النَّاسِ أَنْفَعَ مِنْ الْهَجْرِ.وَالْهَجْرُ لِبَعْضِ النَّاسِ أَنْفَعُ مِنْ التَّأْلِيفِ؛ وَلِهَذَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَأَلَّفُ قَوْمًا وَيَهْجُرُ آخَرِينَ. كَمَا أَنَّ الثَّلَاثَةَ الَّذِينَ خُلِّفُوا كَانُوا خَيْرًا مِنْ أَكْثَرِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ لَمَّا كَانَ أُولَئِكَ كَانُوا سَادَةً مُطَاعِينَ فِي عَشَائِرِهِمْ فَكَانَتْ الْمَصْلَحَةُ الدِّينِيَّةُ فِي تَأْلِيفِ قُلُوبِهِمْ وَهَؤُلَاءِ كَانُوا مُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنُونَ سِوَاهُمْ كَثِيرٌ فَكَانَ فِي هَجْرِهِمْ عِزُّ الدِّينِ وَتَطْهِيرُهُمْ مِنْ ذُنُوبِهِمْ وَهَذَا كَمَا أَنَّ الْمَشْرُوعَ فِي الْعَدُوِّ الْقِتَالُ تَارَةً وَالْمُهَادَنَةُ تَارَةً وَأَخْذُ الْجِزْيَةِ تَارَةً كُلُّ ذَلِكَ بِحَسَبِ الْأَحْوَالِ وَالْمَصَالِحِ. وَجَوَابُ الْأَئِمَّةِ كَأَحْمَدَ وَغَيْرِهِ فِي هَذَا الْبَابِ مَبْنِيٌّ عَلَى هَذَا الْأَصْلِ وَلِهَذَا كَانَ يُفَرِّقُ بَيْنَ الْأَمَاكِنِ الَّتِي كَثُرَتْ فِيهَا الْبِدَعُ كَمَا كَثُرَ الْقَدَرُ فِي الْبَصْرَةِ وَالتَّنْجِيمُ بِخُرَاسَانَ وَالتَّشَيُّعُ بِالْكُوفَةِ وَبَيَّنَ مَا لَيْسَ كَذَلِكَ وَيُفَرِّقُ بَيْنَ الْأَئِمَّةِ الْمُطَاعِينَ وَغَيْرِهِمْ وَإِذَا عَرَفَ مَقْصُودَ الشَّرِيعَةِ سَلَكَ فِي حُصُولِهِ أَوْصَلَ الطُّرُقِ إلَيْهِ. [7]
’’اور اس ترکِ تعلق کا حکم ، ترکِ تعلق کرنے والوں کی قوت وضعف اور قلت وکثرت کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے کیونکہ ترکِ تعلق کا مقصد جس سے ترکِ تعلق کیا جا رہا ہے، اس کی زجر وتوبیخ یا اسے ادب سکھلانا ہے یا عامۃ الناس کو اس سے روکنا ہے۔ پس اگر مصلحت اس میں ہو کہ اس ترکِ تعلق کے نتیجے میں شر کمزور پڑ جائے گا اور دب جائے گا تو پھر ترکِ تعلق کر لینا چاہیے اور یہ مشروع ہے۔ اور اگر ترکِ تعلق کے نتیجے میں نہ تو اس شخص کو کوئی فرق پڑتا ہو کہ جس سے ترکِ تعلق کیا جا رہا ہو اور نہ ہی دوسروں کو بلکہ شر مزید بڑھنے کا امکان ہو اور ترکِ تعلق کرنے والے کمزور ہوں اور ترکِ تعلق میں فائدے کی بجائے نقصان زیادہ نظر آ رہا ہو تو پھر ایسا ترکِ تعلق مشروع نہیں ہے[8]۔ بلکہ بعض لوگوں کے ساتھ تالیفِ قلب ان سے ترکِ تعلق کی نسبت زیادہ مفيد ہوتا ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ کا معمول تھا کہ کسی قوم سے تالیفِ قلب کر لیتے تھے اور کسی سے ترکِ تعلق کر لیتے تھے جیسا کہ آپ ﷺ نے غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے جن تین صحابہ سے ترکِ تعلق کیا تو وہ ان لوگوں سے بہتر تھے کہ جن سے آپ ﷺ نے تالیف قلب کی کیونکہ وہ اپنی قوم کے سردار تھے۔ لہٰذا دینی مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ سرداروں کے ساتھ تالیفِ قلب کی جاتی۔ دوسری طرف یہ تینوں اصحاب محض مومن تھے اور ان کے سوا اور مومن بہت تھے لہذا ان کے ترکِ تعلق میں دین کا غلبہ اور ان کی گناہوں سے تطہیر تھی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دشمن سے بعض اوقات قتال مشروع ہے اور بعض اوقات صلح اور بعض اوقات جزیہ لینا۔ اور یہ سب حالات ووقائع کی رعایت کے اعتبار سے ہے۔ امام احمد بن حنبل وغیرہ نے اہل بدعت سے ترک ِ تعلق کے بارے جو جوابات دیے ہیں، وہ اسی اصول پر مبنی ہیں۔ اسی وجہ سے امام احمد بن حنبل اپنے جواب میں اس فرق کا لحاظ کرتے تھے کہ جن جگہوں میں بدعات پھیل گئی ہوں جیسا کہ بصرہ میں تقدیر کا انکار اور خراسان میں ستارہ شناشی اور کوفہ میں شیعیت اور جن جگہوں میں یہ بدعات نہیں پھیلی تھیں، تو دونوں کا فرق کیا ہے۔ اسی طرح وہ جو کہ ائمہ دین ہیں کہ جن کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ جو کہ عامۃ الناس ہیں، ان دونوں میں بھی فرق کیا ہے۔ پس جب انہوں نے شریعت کا مقصود پہچان لیا کہ ترکِ تعلق سے مقصود کیا ہے تو پھر انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے جس طریقے کو بہتر سمجھا، اسے اختیار کیا۔ ‘‘
امام ذہبی لکھتے ہیں:
رَأَيْتُ لِلأَشعرِيّ كلمَة أَعجبتْنِي وَهِيَ ثَابِتَة رَوَاهَا البَيْهَقِيّ، سَمِعْتُ أَبَا حَازِم العَبْدَوِيَّ، سَمِعْتُ زَاهِر بن أَحْمَدَ السَّرَخْسِيّ يَقُوْلُ: لَمَّا قَرُبَ حُضُوْرُ أَجل أَبِي الحَسَنِ الأَشْعَرِيِّ فِي دَارِي بِبَغْدَادَ، دعَانِي فَأَتَيْتُه، فَقَالَ: اشهدْ عليَّ أَنِّي لاَ أَكفِّر أَحَداً مِنْ أَهْلِ القِبْلَة، لأَنَّ الكلَّ يُشِيْرُوْنَ إِلَى معبودٍ وَاحِد، وَإِنَّمَا هَذَا كُلُّه اخْتِلاَف العِبَارَات. قُلْتُ: وَبنحو هَذَا أَدين، وَكَذَا كَانَ شَيْخُنَا ابْنُ تيمِيَّة فِي أَوَاخِرِ أَيَّامه يَقُوْلُ: أَنَا لاَ أَكفر أَحَداً مِنَ الأُمَّة، وَيَقُوْلُ: قَالَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: لاَ يُحَافِظُ عَلى الْوضُوء إِلاَّ مُؤْمِنٌ فَمَنْ لاَزَمَ الصَّلَوَاتِ بوضوءٍ فَهُوَ مُسْلِم. [9]
’’میں نے ابو الحسن اشعری کا ایک جملہ پڑھا جو مجھے بہت اچھا لگا اور وہ ان سے ثابت بھی ہے جیسا کہ امام بیہقی نے نقل کیا ہے کہ میں نے ابو حازم العبدوی سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے زاہر بن احمد السرخسی سے سنا کہ جب ابو الحسن الاشعری کا آخری وقت قریب آیا اور وہ میرے گھر میں بغداد میں تھے تو مجھے بلوایا ، میں حاضرِخدمت حاضر ہوا۔ وہ کہنے لگے کہ گواہ رہنا کہ میں اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتا کیونکہ سب اہل قبلہ ایک ہی معبود کی طرف اشارہ کرتے ہیں [یعنی مشار الیہ ایک ہی ہے] اور ان کا باہمی اختلاف عبارتوں کا اختلاف ہے ۔ امام ذہبی کہتے ہیں کہ میرا بھی یہی مسلک ہے اور یہی بات ہمارے شیخ اور استاذ امام ابن تیمیہ نے اپنے آخری ایام میں کہی تھی کہ میں اس امت میں سے کسی ایک کو کافر قرار نہیں دیتا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرے گا ۔ پس جو وضو کے ساتھ نمازوں کا پابند ہے تو وہ مسلمان ہے۔‘‘
امام ابن تیمیہ کا اہل بدعت کے ساتھ کیسا حسن سلوک تھا، اس بابت امام ابن قیم اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَجِئْتُ يَوْمًا مُبَشِّرًا لَهُ بِمَوْتِ أَكْبَرِ أَعْدَائِهِ، وَأَشَدِّهِمْ عَدَاوَةً وَأَذًى لَهُ. فَنَهَرَنِي وَتَنَكَّرَ لِي وَاسْتَرْجَعَ. ثُمَّ قَامَ مِنْ فَوْرِهِ إِلَى بَيْتِ أَهْلِهِ فَعَزَّاهُمْ، وَقَالَ: إِنِّي لَكُمْ مَكَانَهُ، وَلَا يَكُونُ لَكُمْ أَمْرٌ تَحْتَاجُونَ فِيهِ إِلَى مُسَاعَدَةٍ إِلَّا وَسَاعَدْتُكُمْ فِيهِ. وَنَحْوَ هَذَا مِنَ الْكَلَامِ. فَسُّرُوا بِهِ وَدَعَوْا لَهُ. وَعَظَّمُوا هَذِهِ الْحَالَ مِنْهُ.[10]
” ایک دن میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے پاس آیا اور اُن کو اُن کے ایک بہت بڑے دشمن کہ جو ان سے سخت عداوت رکھتا تھا اور انہیں بہت اذیت پہنچاتا تھا، کے بارے کہا کہ خوش خبری ہو کہ اس کی وفات ہو گئی ہے۔ تو شیخ نے مجھے ڈانٹ دیا، اور میری بات کو ناپسند جانا اور انا للہ وانا الیہ راجعون کہا۔ فوراً اپنی جگہ سے اٹھے اور مرحوم کے گھر جا کر ان کےاہل خانہ سے تعزیت کی اور انہیں کہا کہ مرحوم کی جو حیثیت آپ کے گھر میں تھی، آج سے میری وہی حیثیت سمجھیں ،لہٰذا آپ لوگوں کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو گی تو میں پوری کروں گا۔ اور اس قسم کی باتیں کہیں کہ جنہیں سن کے وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے شیخ کو دعائیں دیں۔ اور ان کے اس رویے سے بہت متاثر ہوئے۔“
امام ابن تیمیہ کے اس تعامل سے یہ واضح ہو گیا کہ اگر اہل حق تعداد میں کم ہیں اور مغلوب ہیں تو پھر ترکِ تعلق کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے۔ اور اگر اہل حق کثرت میں ہیں اور غالب ہیں تو اس صورت میں ترکِ تعلق کا فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جس سے ترکِ تعلق کیا جا رہا ہے، اگر وہ عمائدین میں سے ہو یعنی خود ان کے مقلدین لاکھوں میں ہوں تو پھر اس ترکِ تعلق کا فائدہ نہیں ہے کہ اس سے اسلام کمزور ہو گا ۔
ہمارا کہنا بھی یہی ہے کہ فی زمانہ اہل حدیث کمزور اور تعداد میں کم ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے یہ ملک حنفیوں کا ہے کہ انہی کی اکثریت ہے۔ ایسے میں اس ترکِ تعلق کا فائدہ نہیں بلکہ اپنی جماعت ہی کا نقصان ہے۔ دوسرا مذہبی طبقے کے مد مقابل لبرل اور سیکولر طبقہ بھی میدان عمل میں بر سر پیکار ہے۔ اس طبقے کا مقابلہ کرنے کے لیے مثلاً الحاد، سود، عریانی وفحاشی، منشیات اور ختم نبوت وغیرہ کے مقاصد کی خاطر تنہا اہل حدیث کچھ بھی نہیں کرسکتے ، بلکہ وہ دوسری مذہبی جماعتوں اور مسالک کے علماء کے ساتھ مل کر ہی ایسی قوت بن سکتے ہیں کہ جس سے ان برائیوں کا سد باب ممکن ہو سکے۔ پس ملی وقومی مسائل میں اجتماعی جدوجہد تو سب کو تسلیم ہے کہ ہونی چاہیے۔ پس جب آپ نے ملی وقومی مسائل میں اجتماعی جدوجہد کے لیے ساتھ بیٹھنے اور مل کر جدوجہد کرنے کا رستہ کھول دیا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے نزدیک بھی یہ نص کا حکم نہیں بلکہ مصلحت پر مبنی اجتہاد ہے لہٰذا آپ ایک جگہ یہ رستہ کھول رہے ہیں، دوسری جگہ یہ رستہ کھول رہا ہے، تو اس میں آپ کو مسئلہ کیا ہے۔ جو دلیل آپ کے پاس ایک جگہ رستہ کھولنے کی ہے، وہی اس کے پاس دو جگہ رستہ کھولنے کی ہے یعنی مصلحت عامہ۔
شیخ ابن باز، شیخ محمد بن صالح العثیمین اور علامہ البانی وغیرہ کا موقف
ان شیوخ کے مطابق تعامل بین المسالک کا مسئلہ نصی یا ثوابت دین میں سے نہیں بلکہ مصلحت مرسلہ کے باب سے ہے، یہی فتوی کبار معاصر سلفی علماء نے بھی دیا ہے۔ شیخ ابن باز سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
س: بم تنصحوننا في كيفية التعامل مع المبتدعة الذين نراهم ونتكلم معهم، ونتعامل معهم كل يوم؟
ج: الواجب هجرهم على بدعتهم، إذا أظهروا البدعة فالواجب هجرهم بعد النصيحة والتوجيه، فإن المسلم ينصح أخاه، ويحذرهم مما حرم الله عليهم من البدع والمعاصي الظاهرة فإن تاب وإلا استحق أن يهجر ولا يعامل لعله يتوب لعله يندم لعله يرجع إلى الصواب، إلا إذا كان الهجر يترتب عليه ما لا تحمد عقباه فإنه يتركه إذا كان تركه أصلح في الدين، وأكثر للخير وأقرب إلى النجاح، فإنه لا يهجره بل يداوم على نصحه وتحذيره من الباطل ولا يهجره قد يهديه الله بسبب ذلك، فالمؤمن كالطبيب إذا رأى العلاج نافعا فعله، وإذا رآه ليس بنافع تركه، فالهجر من باب العلاج، فإن كان الهجر يؤثر خيرا وينفع هجر، وكان ذلك من باب العلاج، لعله يتوب ولعله يرجع عن الخطأ، إذا رأى من إخوانه أنهم يهجرونه، أما إن كان الهجر يسبب مزيدا من الشر، وكثرة أهل الشر وتعاونهم، فإنه لا يهجر ولكن يديم النصح له، والتوجيه وإظهار الكراهة لما عمل، ويبين له عدم موافقته على باطله، ولكن يستمر في النصيحة والتوجيه." [11]
’’سوال: آپ ہمیں ان اہل بدعت کے ساتھ تعامل کے بارے کیا نصیحت کرتے ہیں کہ جن سے ہماری روز مرہ زندگی میں میل ملاقات اور گفت وشنید رہتی ہے؟
جواب: اہل بدعت کی بدعت کے سبب ان سے ترکِ تعلق لازم ہے لیکن یہ ترکِ تعلق ایک تو ان کی طرف سے اظہار کے بعد ہو اور دوسرا ان کو وعظ ونصیحت کے بعد ہو۔ مسلمان اپنے بھائی کا خیر خواہ ہوتا ہے اور اللہ عزوجل نے مسلمانوں پر جن بدعات اور گناہوں کو حرام قرار دیا ہے ، تو ان کے ظاہر کرنے پر ایک مسلمان اپنے بھائی کو اللہ سے ڈراتا ہے۔ پس اگر وہ توبہ کر لے تو بہت اچھا ہے ورنہ اس سے ترکِ تعلق کر لینا چاہیے اور اس سے تعامل نہیں رکھنا چاہیے۔ شاید کہ وہ اس ترکِ تعلق کے سبب ہی توبہ کر لے اور نادم ہو جائے اور صحیح بات کی طرف لوٹ آئے۔ لیکن اگر ترکِ تعلق کا نتیجہ برا ہو تو پھر اُس سے تعلق رکھے کہ ایسا کرنے میں ہی اس کے دین کی خیر خواہی ، اس کی بھلائی اور نجات کے لیے آسانی ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ ترکِ تعلق کا فائدہ نہ ہو تو پھر اپنے بھائی کو نصیحت اور باطل سے انذار ہی کو اپنا منہج بنائیں گے۔ اور اس سے ترکِ تعلق نہیں کریں گے کہ شاید اس کو کوئی فائدہ ہو جائے۔ مومن ایک طبیب کی مانند ہوتا ہے۔ جب اسے نظر آتا ہے کہ علاج میں فائدہ ہے تو علاج کرتا ہے۔ اور جب یہ دیکھتا ہے کہ علاج کا فائدہ نہیں تو اس کو چھوڑ دیتا ہے۔ اور ترکِ تعلق بھی علاج ہی کی ایک قسم ہے۔ پس اگر ترکِ تعلق سے اگلے میں خیر بڑھنے کی امید ہو اور ترکِ تعلق میں اگلے کا دینی فائدہ ہو تو ترکِ تعلق کر لیں کہ ترکِ تعلق ایک قسم کا علاج ہے اور شاید کہ اس سے وہ مومن بھائی توبہ کر لے اور اپنی خطا سے رجوع کر لے۔ اور اگر یہ دیکھے کہ دیگر بھائی تو اس سے ترکِ تعلق کر رہے ہیں لیکن اس ترکِ تعلق کے نتیجے میں اس بھائی کا شر مزید بڑھ رہا ہے بلکہ اہل شر اس کے گرد جمع ہو گئے ہیں اور اس سے تعاون شروع کر دیا ہے تو ایسی صورت میں اپنے بھائی سے ترکِ تعلق نہ کرے بلکہ اس کو وعظ ونصیحت کرتا رہے، اس کی رہنمائی کرتا رہے۔ اور جو کچھ وہ کر رہا ہے اس باطل فعل سے اپنی کراہت اور عدم موافقت کا اظہار کرتا رہے لیکن اس کو نصیحت اور اس کی رہنمائی جاری رکھے۔‘‘
یہ ہے علم، اس کی وسعت اور گہرائی۔ منہج صرف بزرگوں کے چند گنے چنے اقوال وافعال کا نام نہیں ہے بلکہ حضرات انبیاء کرام کی جماعت کہ جن کے قصص سے قرآن مجید بھرا پڑا ہے، منہج ان کے طرق دعوت وتبلیغ کی اتباع اور پیروی کا نام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آپ ﷺ کو بھی یہی حکم دیا گیا:
[ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ] [الأنعام: 90]
’’ان انبیائے کرام کی جماعت کو اللہ عزوجل نے ہدایت دی اور رہنمائی کی۔ پس ان کو دی گئی ہدایت اور رہنمائی کی آپ بھی پیروی کریں۔‘‘
پس حضرات انبیائے کرام کی زندگی سے دعوت اور منہج لینے کی بجائے بزرگوں کے چند اقوال وافعال کو ہی دین اسلام کا کل منہج بنا لینا جبکہ ان اقوال وافعال کی بنیاد بھی کوئی نص صریح نہ ہو بلکہ مصلحت وسد الذرائع کے ابواب ہوں، ان حضرات انبیاء کی ناقدری بھی ہے۔ تمام انبیاء کا دین اور منہج ایک ہی رہا ہے جبکہ شریعت اور منہاج فرق رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو ارشاد ہے:
[ ثُمَّ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۰۰۱۲۳][النحل: 123، 124]
’’پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ آپ ابراہیمکے طریقےکی پیروی کریں جو کہ یکسو تھے اور شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔‘‘
قرآن مجید میں انبیائے کرام کے اسوہ اورسیرت رسول ﷺ کی روشنی میں دین اسلام کے منہج کے اصول وضوابط اور اس کی ابحاث میں تنقیح ونکھار پر کوئی مقالہ ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ اگر کسی مسلک اور جماعت کے بہترین محققین بھی دس بارہ مسلکی مسائل میں ہی پی ایچ ڈی ہوں تو ایسے رویوں کے ساتھ کبھی جماعتیں اور مسالک علمی طور پروان نہیں چڑھتے بلکہ فرقہ بن کر اور ایک کونے میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اہل حدیث ایک تحریک تھی، فرقہ نہیں تھا۔ اور تحریک کا مزاج دعوتی ہوتا ہے جبکہ فرقے کا جدلی یعنی ہر چیز میں بس جھگڑا ڈال دو۔ جماعت جڑنے سے ہے لہذا جماعت کا مزاج جوڑنے والا ہوتا ہے جبکہ فرقہ تفرقے سے ہیں تو فرقے کا مزاج توڑنے والا ہوتا ہے۔ لہذا آپ کے منہج سے اگر مسلمانوں میں جوڑ پیدا ہو رہا ہے تو آپ ایک جماعت ہیں لیکن آپ کے منہج سے اگر مسلمانوں میں توڑ اور تفرقہ پیدا ہو رہا ہے تو آپ ایک فرقہ میں مسلک اور جماعت اس وقت پھیلتی ہے جبکہ وہ تحریک ہو لیکن جب فرقہ بن جائے تو پھر مزید چھوٹے چھوٹے فرقوں میں تقسیم ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔ اکابر اہل حدیث علماء کے ہاں اہل حدیث ایک تحریک تھے لہذا خوب پھلے پھولے۔
فرقہ واریت اصل میں ایک مزاج ہے۔ مولانا حنیف ندوی اور مولانا اسماعیل سلفی کو آخر عمر میں احساس ہو گیا تھا کہ تحریک اہل حدیث میں یہ مزاج آنا شروع ہو گیا ہے، انہوں نے پوری جماعت اہل حدیث کی تربیت نئے انداز وخطوط پر اٹھانے کی باتیں بھی کیں، جو ان کی تحریروں میں مل جائیں گی لیکن بہت سی آرزوئیں بس خواہشات ہی رہ جاتی ہیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جماعت میں معقول ومطلوب تربیتی نظام نہیں ہے۔
شیخ محمد بن صالح العثیمین لکھتے ہیں:
أما هجرهم فهذا يترتب على البدعة؛ فإذا كانت البدعة مكفرة وجب هجرهم، وإذا كانت دون ذلك فإننا ننظر إلى الأمر، فإن كان في هجرهم مصلحة فعلناه، وإن لم يكن فيه مصلحة اجتنبناه، وذلك أن الأصل في المؤمن تحريم هجره لقول النبي صلي الله عليه وسلم: «لا يحل لرجل مؤمن أن يهجر أخاه فوق ثلاث» فكل مؤمن وإن كان فاسقًا فإنه يحرم هجره ما لم يكن في الهجر مصلحة، فإذا كان في الهجر مصلحة هجرناه؛ لأن الهجر دواء، أما إذا لم يكن فيه مصلحة، أو كان فيه زيادة في المعصية والعتو فإن ما لا مصلحة فيه تركه هو المصلحة. [12]
’’اہل بدعت سے ترکِ تعلق کا انحصار ان کی بدعت کی نوعیت پر ہے۔ اگر تو بدعت مکفرہ ( یعنی کافر بنانے والی بدعت )ہے تو ان سے ترکِ تعلق لازم ہے۔ اور اگر بدعت مکفرہ نہیں ہے بلکہ اس سے کم درجے کی ہے تو پھر ہم اس معاملے میں غور کریں گے۔ اگر تو ترکِ تعلق میں مصلحت ہے توہم ترکِ تعلق کر لیں گے۔ اور اگر ترکِ تعلق میں مصلحت نہیں ہے تو ہم اس سے اجتناب کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن سے ترکِ تعلق اصلاً حرام ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ کسی بندہ مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔ ہر مومن چاہے وہ فاسق وفاجر ہی ہو، اس سے ترکِ تعلق حرام ہے الا یہ کہ اس میں کوئی مصلحت ہو۔ پس اگر مصلحت کا تقاضا ہوا تو ہم ترکِ تعلق کریں گے کیونکہ ترکِ تعلق تو ایک دواء ہے۔ اور اگر ترکِ تعلق میں مصلحت نہ ہو یا اس کے سبب جس سے ترکِ تعلق کیا جا رہا ہے، اس کی معصیت اور نافرمانی کے بڑھنے کا اندیشہ ہو تو جس میں مصلحت نہ ہو تو اس سے ترک تعلق نہ کرنا ہی مصلحت ہے۔‘‘
اگر یہ فتویٰ لگائیں کہ پاکستان میں سارے بدعتی کافر ہیں یا ان کی بدعت، بدعت مکفرہ ہے یعنی دائرہ اسلام سے خارج کرنے والی ہے تو پھر مسلمان چند ایک ہی رہ جائیں گے کہ سواد اعظم تو پھر وہی ہیں[13]، اس میں کیا شک ہے۔ یا تو کھل کر تکفیر کریں اور سب کو کافر بنا دیں اور پھر ترکِ تعلق کر لیں کہ ترکِ تعلق کی کوئی وجہ جواز آجائے گی ۔ لیکن اس صورت میں سوال یہ ہے کہ کافر بنانے کے بعد اب ہماری ذمہ داری بطور مسلمان کیا ہے؟ داعی مزاج تو یہی سوچے گا کہ کافروں کو مسلمان بنانا۔ جب کافر بنانے کے بعد بھی مسلمان بنانے کی محنت کرنا ہماری ہی دینی ذمہ داری ٹھہری تو وہی محنت پہلے کر لیں۔ لیکن یہ سوچ اس میں پیدا ہو گی جو دنیا کو مسلمان بنانے آیا ہے۔ جو مزاج مسلمانوں کو کافر بنانے پر تُلا ہوا ہو، اسے یہ سوچ پیدا نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح کسی کو بدعتی بنانے کے بعد ہمارا کام کیا ہے؟ اس کو سنت کے راہ راست پر لانا۔ پس سنت پر لانے کی محنت کرنا زیادہ مفید ہے بنسبت بدعتی بنانے کے۔ اور سلف میں جوان کو بدعتی قرار دیتے ہیں، ان کا بھی موقف یہی ہے کہ اسی وقت اس کو بدعتی قرار دیں گے جبکہ اس پر حجت تمام کر دی ہو یعنی اس تک حق بات بذریعہ دعوت وتبلیغ پہنچا دی ہو اور اس کی نصح وخیر خواہی کا حق ادا کر دیا ہو کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی اور خیر خواہ ہوتا ہے۔
ایک داعی دین کا کام لوگوں کو اللہ کے دین پر لانا ہے نہ کہ دین سے نکالنا۔ جنہوں نے کبھی جاہلی معاشروں میں گلی محلوں میں نکل کر انفرادی سطح پر دعوت کا کام کرنے کے لیے دھکے کھائے ہوں، لوگوں کی باتیں سنی ہوں، تو انہیں احساس ہو سکتا ہے کہ دعوت کے کام میں کیا کیا رکاوٹیں اور مشکلات در پیش ہیں لیکن جنہوں نے مسجد ومدرسہ سے نکل کر گلی محلے کی سطح پر تبلیغ نہ کی ہو، انہیں کیا معلوم کہ ان کی اپنی مسجد اور مدرسے کی گلی محلے میں موجود مسلمان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر یا دکان کا چکر لگا کر اسے نماز کی دعوت دینے اور اسے مسجد میں لانے میں کیا مسائل ہیں۔ جب ہمارے لوگ منبر ومحراب سے اتر کر دعوت کے میدان میں رُلیں گے جیسا کہ انبیاء ورسل دعوت کے لیے محنت کرتے تھے تو پھر ہی ان کا مزاج، دعوت کا مزاج بنے گا اور انہیں ا ن مسائل کا ادراک ہو گا کہ جن پر ہم گفتگو کر رہے ہیں۔
علامہ البانی کا اس موضوع پر بہت مفصل کلام موجود ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مصلحی حکم ہے نہ کہ نصی حکم جیسا کہ حضرات شیخین کا موقف اوپر گزر چکا۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
في العصر الحاضر ليس من الحكمة أبدا أن نقاطع الناس بسبب انحرافهم سواء كان هذا الانحراف فكريا عقيدة أو كان انحرافا سلوكيا وإنما علينا أن نصبر في مصاحبتنالهؤلاء وأن لا نضلل ولا نكفر لأن هذا التضليل وهذا التكفير لا يفيدنا شيئا وإنما علينا بالتذكير كما قال عزوجل(وذكر فإن الذكرى تنفع المؤمنين)[14]
’’عصر حاضر میں یہ بالکل بھی حکمت پر مبنی طرز عمل نہیں ہے کہ ہم لوگوں سے ان کے عقیدے و عمل کے انحراف کے سبب قطع تعلقی کر لیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ان کی صحبت میں صبر کریں اور ان میں سے کسی پر کفر اور گمراہی کے فتوے نہ لگائیں کیونکہ اس تکفیر وتضلیل کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ہمارا کام تذکیر ہے جیسا کہ قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ کو حکم ہے کہ:’’ آپ نصیحت کرتے رہیں کہ نصیحت اہل ایمان کو فائدہ دیتی ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر علامہ البانی فرماتے ہیں:
الذي أراه والله أعلم أن كلام السلف يرد في الجو السلفي يعني في الجو العامر بالإيمان القوي والإتباع الصحيح للنبي صلى الله عليه وسلم والصحابة هو تماما كالمقاطعة، مقاطعة المسلم للمسلم تربية وتأديبا له هذه سنة معروفة لكن في اعتقادي وكثيرا ما سئلت أقول زمننا لا يصلح للمقاطعة زمننا إذا لا يصلح لمقاطعة المبتدعة لأن معنى ذلك أن تعيش على رأس الجبل أن تنزوي عن الناس وأن تعتزلهم ذلك لأنك حينما تقاطع الناس إما لفسقهم أو لبدعتهم فلا يكون لك ذلك الأثر الذي كان يكون له يوم كان أولئك السلف الذين تكلموا بتلك الكلمات وحضُ الناس على مجانبة أهل البدع.[15]
’’میری رائے یہ ہے ، اور اللہ بہتر جانتا ہے، کہ سلف کا اہل بدعت کے بارے یہ کلام سلفی فضا میں تھا یعنی ایک ایسی فضا جو مضبوط ایمان اور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی صحیح معنوں میں اتباع سے آباد تھی لہذا اس میں قطع تعلقی کا فائدہ بھی تھا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے اس کی تربیت اور تادیب کے لئے قطع تعلقی کرتا تھا اور یہ اس دور میں معروف سنت تھی۔ لیکن میرا اعتقاد یہ ہے جیسا کہ مجھ سے اکثر اوقات یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے میں قطع تعلقی درست نہیں ۔ فی زمانہ اہل بدعت سے قطع تعلقی کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں سے کنارہ کش اور الگ تھلگ ہو کر پہاڑ کی چوٹی پر جا کر رہنا شروع کر دیں کیونکہ جب آپ لوگوں سے ان کے فسق وفجور یا بدعت کے سبب قطع تعلقی کریں گے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا جیسا کہ سلف کے زمانے میں اس کا اثر ہوتا تھا تو ہی انہوں نے اہل بدعت کے بارے وہ باتیں کیں تا کہ لوگ ان سے دور رہیں۔‘‘
یہ اقتباسات علامہ البانی کی کیسٹس سے لیے گئے ہیں۔ علامہ البانی کی آڈیوز میں اس موضوع پر بہت تفصیلی کلام موجود ہے۔ ان آڈیو کیسٹس کو بعض طلبۃ العلم تحریری شکل میں لے آئے ہیں اور یہ تفریغ (transcription)انٹرنیٹ پر آسانی سے دستیاب ہے۔ راقم نے علامہ البانی کی کیسٹ براہ راست نہیں سنی ہے البتہ سترہ ہزار صفحات پر مشتمل ان کی آڈیو کیسٹس کی تفریغ(transcription) راقم کے پاس موجود ہے۔ یہ حوالہ جات اس تفریغ سے دیے گئے ہیں۔جامعہ ام القری مکہ المکرمہ کے استاذ الشیخ الدکتور الشریف حاتم العونی لکھتے ہیں:
يا معشر أتباع السلف: ليس من منهج السلف تقديمُ ناشرٍ للخنا والزنا والربا؛ لأنه غير متلبسٍ ببدعة، على عالم فاضل عابد مجاهد؛ لأنه تلبّس ببدعة ؛ لأنّ شرّ الثاني ليس مطلقاً أعظمُ من شرّ الأول، بل بما لم يكن بينهما تقارب. وإلا فهل يستطيع أحدٌ أن يقدّم بعض من أقام بيوت الخنا والربا من كبار الفُسّاق في زماننا على العز ابن عبد السلام أو تقي الدين السبكي أو الباقلاني أو الأشعري لمذهبهم العقدي؟ !!! إن كنّا لا نُحسن استخدام تقسيم الناس إلى سُنّي وبدعي، إلا على ذلك الوجه الظالم الجائر، الذي ليس من منهج السلف، فخيرٌ لنا أن لا نستخدمه. وقد بيّنتُ آنفًا أن استخدامه المصلحي مبنيٌ على أمرين: التشديد في التنفير من البدعة نفسها، وأن لا يُتشدّ مع صاحبها إلا بقد ما يدفع إفساده، مع حفظ ما لا يُهدر من حقوقه، وأن لا يقودنا هذا التقسيمُ إلى تقديم صاحب الشرّ الأعظم كمردةِ الفسّاق على صاحب الشر الأخف كالعالم الصالح المبتدع، وكما لم يُلغ فسقُ الفاسق حقهُ الإسلاميّ العام إلغاءً مطلقاً، فكذلك لا يُلغي الابتداعُ حقّ المبتدعِ المسلم في الحق الإسلامي العام الإلغاء المطلق. وأرجَو أن يقرأ المسلمون علماء و دعاةً وعمو م المسلمين هذا النداء بعمق وتعقّل، وأن يعلموا أنه نداء محبّ شفيق، ومن عاش مع السنّة حتى جاوز الأربَعين.[16]
’’اے سلف صالحین کی اتباع کرنے والو! یہ سلف کا منہج نہیں ہے کہ تم فحاشی، زنا اور سود کو عام کرنے والوں کو اس بنیاد پر کہ ان میں بدعت نہیں ہے کسی ایسے عالم فاضل عابد اور مجاہد پر فضیلت دو کہ جس میں کوئی بدعت ہے کیونکہ دوسرے کا شر پہلے سے کسی طور بڑا نہیں ہے بلکہ دونوں میں کوئی جوڑ ہی نہیں ہے۔ کیا تم میں سے کسی میں یہ جرات ہے کہ وہ سینما گھر اور بینک جیسے ادارے بنانے والے فساق وفجار کو عز بن عبد السلام، تقی الدین سبکی، علامہ باقلانی اور ابوالحسن اشعری وغیرہ پر ان کے بدعی نظریات کی وجہ سے ترجیح دے۔ اگر ہم سنی اور بدعتی کی اصطلاحوں کو ان ظالمانہ معانی میں ہی استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ ہم اس تقسیم کو ختم کر دیں کیونکہ اس معنی میں یہ تقسیم سلف سے ثابت نہیں ہے۔ میں ابھی واضح کر چکا ہوں کہ سنی اور بدعتی کی تقسیم مصلحت کی بنیاد پر دو وجوہات سے جائز ہے؛ اور وہ یہ ہے کہ خود بدعت سے دور رکھنے میں تو پورا زور لگایا جائے لیکن صاحب بدعت کے معاملے میں اتنی ہی سختی روا رکھی جائے کہ جس سے اس کا فساد دور ہو جائے اور ساتھ میں اس کے بحیثیت مسلمان حقوق کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ سنی اور بدعتی کی یہ تقسیم ہمیں بڑے شر کے حاملین فساق وفجار کو چھوٹے شر کے حاملین صالح لیکن بدعتی عالم پر ترجیح دینے پر مائل نہ کرے۔ جس طرح کسی فاسق وفاجر کا فسق وفجور اس کے اسلامی حقوق کو معطل نہیں کرتا تو اسی طرح کسی مسلمان کی بدعت بھی اس کے بطور مسلمان حقوق کو معطل نہیں کرتی۔ میں یہ امید کرتا ہوں کہ علماء، داعیان دین اور عام مسلمان ہماری اس دعوت پر گہرائی سے غور وفکر کریں گے اور اسے ایک ایسے محب اور شفیق کی دعوت سمجھ کر پڑھیں گے کہ جس نے سنت وحدیث کی صحبت میں چالیس سال گزارے ہیں۔‘‘
تعامل بین المسالک اور اکابر اہل حدیث علماء کا منہج
تعامل بین المسالک کے حوالے سے اہل حدیث کا منہج کیا ہے، وہ اکابر اہل حدیث علماء نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے۔ اس منہج کو اگر ایک جملے میں ہم بیان کرنا چاہیں تو وہ ] تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى [ کا قرآنی اصول ہے[17] یعنی نیکی اور تقوی کے کاموں میں اپنے مسلک اور جماعت سے بالاتر ہو کر دوسروں کے ساتھ تعاون کرو۔ اب جو تو خود کو اپنے اکابر اہل حدیث علماء کی تحریک کا ایک تسلسل سمجھتے ہیں وہ تو اپنے اکابر کے ان اقوال کو خوشی خوشی قبول کریں گے۔
تعامل کے باب میں مولانا حنیف ندوی اور مولانا اسماعیل سلفی کے اقوال زریں
مولانا حنیف ندوی لکھتے ہیں:
”دوسری جماعتوں سے ہمارے تعلقات: ہم اس کے مخالف نہیں ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اہل حدیث تعلیمی یا سیاسی یا معاشرتی کاموں میں حصہ لیں، کیوں کہ ایسا نہ کرنا نہ صرف ان [اہل حدیث ] کے لیے بمنزلہ پیغام موت ہے، بلکہ اہل حدیث کے اس تصور کے منافی ہے جس پر ان کی تمام مساعی کی بنیاد رہی ہے، کیونکہ یہی تو وہ جماعت ہے جو مسلمانوں میں اخوت ویگانگت کی صحیح فضا پیدا کرنا چاہتی ہے۔“[18]
مولانا حنیف ندوی یک اور جگہ لکھتے ہیں:
”تنگ نظری اور تعصب سے بھی ہمیں کوئی نسبت نہیں۔ ہمارا معاملہ تمام اسلامی جماعتوں کے ساتھ ہمیشہ اس انداز کا رہا ہے اور رہے گا کہ معروف کی حد تک ہم سب کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اور یہ کسی مصلحت کی بنا پر نہیں، کیونکہ ہمارا مسلک ہی یہی ہے کہ جہاں سچائی پاؤ، اس کی تائید کرو، اسے اپناؤ اور اس کی حمایت کرو۔“ [19]
ایک اور قرآنی اصول کہ جسے تعامل بین المسالک کے حوالے سے مولانا داود غزنوی نے نقل کیا کہ جس مسلک اور جماعت میں بھی آپ کو کچھ بھی خیر اور بھلائی نظر آئے تو آپ اس کی تحسین کریں۔[20] مولانا حنیف ندوی ، مولانا داود غزنوی کے بارے لکھتے ہیں:
”مجھے یاد ہے جب عائلی قوانین پر جمعیت اہل حدیث کی ایک مقرر کردہ سب کمیٹی میں بحث وتمحیص ہوئی، تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارا نقطہ نظر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت کی طرف سے اصلاحات کے نام پر جو قدم بھی اٹھایا جاتا ہے وہ سر تا پا غلط ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس میں سے کون سے اقدامات صحیح ہیں اور کون سے غلط۔ مولانا مرحوم کا موقف اس سلسلہ میں یہ تھا کہ ہمیں ان مسائل پر سیاسی اور گروہی تعصبات سے بالا ہو کر خالص کتاب وسنت کی روشنی میں غور کرنا چاہیے۔ چنانچہ ان اصلاحات میں اگر دس فیصد بھی ہمارے نقطہ نظر کے مطابق صحیح چیزیں پائی جائیں تو ہمیں چاہیئے کہ بلا لومۃ لائم ہم جہاں نوے فیصد مسائل میں حکومت کی مخالفت کریں وہاں دس فیصد صحیح اقدامات پر اس کی تعریف بھی کریں۔“[21]
مولانا اسماعیل سلفی اتحاد امت کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں، جس میں اجتماعیت کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ وقت ایسا ہے کہ مسلمان سر جوڑ کر مل بیٹھیں اور اپنی اجتماعی، قومی، وطنی اور ملی ضرورتوں کو سوچیں۔ اختلاف دنیا میں رہا ہے، رہے گا، اس کا کلی طور پر اٹھ جانا بظاہر مشکل ہے۔ ان حالات میں مختلف گروہ اور جماعتیں ان اختلاف کی موجودگی میں بھی اپنے مشترک اور اجتماعی مسئلوں پر سوچنے کے لیے ملیں تو ملک کی خوش قسمتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مذہب کا بھی اس میں فائدہ ہے… اگر آنحضرت ﷺ یہ دعوت دے سکتے ہیں اور اس دعوت کے مخاطب یہود اور نصاری کو بنا سکتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے اختلافات تو اس سے بہت کم ہیں۔ میں اور لاہور کے بعض دوست اتنے دور نہیں ہیں، جتنے کہ یہودی اور عیسائی… آپ کو معلوم ہے کہ ہم مختلف مسلمان گروہ بڑے عرصے سے آپس میں جھگڑ رہے ہیں، لیکن ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اب تک مٹا نہیں سکا، بلکہ جتنی کسی کی زیادہ نمایاں مخالفت کی گئی، وہ اتنا بڑھا ہے۔ اس لیے محض یہ ہنگامہ آرائی اور اختلاف نوازی، یہ کوئی مشغلہ ہے؟… میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ذہن اچھا نہیں۔ ہمیں اکفار وتکفیر کو کسی وقت کے لیے رکھنا چاہیے، لیکن ایک دوسرے کو قریب سے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ اس ضرورت کے باوجود اس وقت تک ملک میں کوئی ایسا ذہن نہیں پیدا ہو سکا۔ اس کا ایک سبب تو یہ بھی تھا کہ آج سے کچھ وقت پہلے اس ملک میں ایک اجنبی حکومت بر سر اقتدار تھی۔ ان کا ایک مقصد یہ تھا کہ ملک میں مختلف فرقے آپس میں جھگڑیں اور ان کا وقت، ان کی طاقتیں باہم جھگڑوں میں ختم ہوں اور ہم آرام سے حکومت کریں۔ اب انھوں نے ہم لوگوں کو عادی بنا دیا ہے کہ ہم باہم لڑتے رہیں، لیکن آپ یقین کریں کہ اب وہ وقت گزر چکا۔“[22]
مولانا محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں کہ دیوبند کے مولانا احمد علی لاہوری تمام عمر عیدین کی نماز مولانا داود غزنوی کے پیچھے پڑھتے رہے۔ مولانا احمد علی لاہوری کی جب وفات ہوئی تو مولانا داود غزنوی نے فرمایا کہ آج دین کا ایک ستون گر گیا اور میرے دوستوں میں ایسا خلا پیدا ہو گیا کہ جو کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔[23] بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مولانا سید ابو الحسنات تحریک ختم نبوت کے زمانے میں مولانا داود غزنوی کو نماز میں امامت کے لیے اصرار کرتے جبکہ مولانا ان سے اصرار کرتے۔
مولانا داود غزنویمولانا مودودی کا نہ صرف احترام کرتے بلکہ ان سے مشترکہ اسلامی معاملات میں مشورہ بھی کرتے تھے اور ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے[24] ۔تحریک عدم تعاون کے زمانے میں مولانا داود غزنوی مولانا ظفر علی خان کو اصرار کر کے پیر جماعت علی شاہ سے ملوانے لے گئے حالانکہ وہ ان کے شدید سیاسی مخالف تھے۔ پیر جماعت علی شاہ نے مولانا داود غزنوی کے لیے اپنی مسند خالی کر دی اور کہا کہ آپ سید ہیں اور بہت بڑے علمی اور مجاہد خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ خود بھی عالم ہیں اور نیک کام کے لیے نکلے ہیں۔ ہمارے معزز مہمان ہیں اور اس مسند پر آپ ہی تشریف رکھیں، ۔ [25] مولانا داود غزنوی کی وفات پر مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے بذریعہ تعزیتی خط بتلایا کہ ایک مرتبہ مولانا نے ان سے کہا تھا کہ امام ابن تیمیہ کا یہ معمول تھا کہ فجر کی نماز کے بعد چالیس مرتبہ یہ دعا "يا حي يا قيوم لا إله إلا أنت أصلح لي شأني كله ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين"پڑھتے تھے اور خود مولانا کا بھی یہی معمول ہے۔ مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں کہ اس دن سے میں نے بھی اسے اپنا معمول بنا لیا۔[26]
مولانا ثناء اللہ امرتسری کا بریلوی اور دیوبندی علماء سے تعامل
مؤرخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھٹی ، مولانا ثنا اللہ امرتسری کے تذکرے میں لکھتے ہیں:
’’مولانا کے جود وسخا کا ایک واقعہ مولانا محمد بخش مسلم مرحوم نے سنایا، جو احناف کے بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ سید حبیب بیمار ہو گئے اور کئی دن صاحب فراش رہے، وہ مسلکاً بریلوی تھے اور روز نامہ سیاست کے مالک اور ایڈیٹر تھے جو لاہور سے شائع ہوتا تھا اور اپنے زمانے کا مشہور اخبار تھا۔ خود سید صاحب کی ملک کے سیاسی ومذہبی حلقوں میں بڑی شہرت تھی۔ سید حبیب فقہی مسلک کے اعتبار سے مولانا ثناء اللہ کے مخالف تھے اور اخبار میں سلسلہ بحث جاری رہتا تھا۔ مولانا کو ان کی بیماری کا پتہ چلا تو عیادت کے لیے لاہور تشریف لائے اور ان کے مکان پر پہنچے۔ مولانا محمد بخش مسلم نے بتایا کہ اس وقت وہ بھی سید حبیب کے پاس موجود تھے۔ مولانا ثناء اللہ صاحب نے مزاج پرسی کی، چند منٹ ان کے پاس بیٹھے اور پھر بقول مولانا محمد بخش مسلم کے ان دونوں سے نظر بچا کر چپکے سے ایک لفافہ سید حبیب کے تکیے کے نیچے رکھ دیا۔ لیکن سید صاحب کو اس کا پتہ چل گیا اور بات ظاہر ہو گئی۔ سید صاحب نے شکریہ ادا کیا اور لفافہ واپس کرنے کی کوشش کی، ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مولانا نے ان کے لیے دعا کی، انہیں تسلی دی اور اصرار کیا کہ وہ لفافہ رکھ لیں۔ سید صاحب نے وہ لفافہ کھولا تو اس میں سو روپے کے نوٹ تھے ۔ یہ 1930ء یا اس کے لگ بھگ کی بات ہے اور سو روپے کی رقم اس دور میں بہت بڑی رقم تھی۔ بلکہ سو روپے والے بعض ایسے لوگ بھی تھے جو عام آدمیوں سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے۔‘‘ [27]
آگے چل کر مولانا اسحاق بھٹی لکھتے ہیں:
’’بارہا ایسا ہوا کہ کسی جگہ کی انجمن یا کسی دینی جماعت کو، وہ ان کے مسلک کے حاملین کی ہو یا کسی دوسرے مسلک کی، اشتہارات یا تبلیغی رسائل چھپوانے کی ضرورت پڑی اور بات مولانا کے علم میں لائی گئی، انھوں نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا، کتابت کرائی۔ کاغذ خریدا، اسے اپنے پریس سے چھپوایا اور کام مکمل کر کے متعلقہ پارٹی کے حوالے کیا۔ کسی سے ایک پیسہ وصول نہ کیا۔‘‘ [28]
یہ تھے ہمارے اہل حدیث علماء کے اخلاق اور ان کا دوسرے مسالک ومکاتب فکر سے تعامل کہ ان کی فکر بغیر پیسے لیے چھاپ رہے ہیں۔ یہ ہیں اصل میں امت کے علماء کہ جن کو انبیاء کا وارث کہا گیا ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امت کے اکابر علمائے اہل حدیث کے ایسے ہی جود وسخا پر مبنی تعامل سے مسلک اہل حدیث بر صغیر پاک وہند میں پھیلا ہے۔ مدخلی سلفیوں کے بعض گروپس سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں کوئی ایک بھی اہل حدیث عالم دین ایسا نہیں ہے کہ جس کا منہج صحیح ہو۔ سب علماء کا منہج غلط ہے اور بدعتی منہج ہے۔ پوچھنے پر وہ صرف دو طلباء کا نام لیتے ہیں کہ پورے پاکستان میں صرف ان دو ہی کا منہج درست ہے اور صرف یہی دو صحیح سلفی منہج پر ہیں؛ ایک طارق بروہی اور دوسرا زبیر عباسی۔
مولانا اسماعیل سلفی اور مولانا داود غزنوی کے مفتی محمد حسن سے تعلقات
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کبار اہل حدیث علماء دوسرے مسلک کے علماء سے بھی مالی تعاون کا معاملہ کر لیتے تھے یا بعض اوقات ان کی کتابیں اور لٹریچر پبلش کرنے میں بھی ان سے مالی تعاون کر دیتے تھے لیکن یہ کیسے ثابت ہو گا کہ ہمارے کبار علماء دوسرے مسلک کے علماء سے ملنے کے لیے جاتے تھے، ان کا احترام کرتے تھے، اور ان کی تعریف بھی کرتے تھے کیونکہ اہل بدعت سے ملاقات، ان کے احترام اور ان کی تعریف سے تو بندہ خود بدعتی ہو جاتا ہے ؟
یہ دین علم سے زیادہ اخلاق سے پھیلا ہے، اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ اسی کو سمجھ آ سکتا ہے کہ جس نے معاشرے میں نکل کر کام کرنا ہو۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی مفتی محمد حسن جو کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مجاز بھی تھے، کے ساتھ کبار اہل حدیث علماء کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ مفتی محمد حسن، مولانا اسماعیل سلفی کے استاذ اور مولانا داود غزنوی کے شاگرد تھے۔ اس سے آپ دونوں مکاتب فکر کے چوٹی کے علماء میں باہمی تعامل کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم یہ بھی بتلا دیں کہ مولانا داود غزنوی مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے پہلے امیر تھے اور ان کی وفات کے بعد مولانا سلفی اس کے امیر مقرر ہوئے۔ یہ اس وقت کی ٹاپ کی اہل حدیث اور حنفی علماء کی قیادت کی بات ہو رہی ہے، کسی عام مولوی کی نہیں۔
مولانا اسماعیل سلفی، مولانا حنیف ندوی اور مولانا اسحاق بھٹی کے ساتھ مفتی محمد حسن صاحب کی عیادت کرنے گئے اور مولانا اسحاق بھٹی کے بیان کے مطابق مولانا اسماعیل سلفی بہت احترام سے نظریں نیچی کر کے مفتی صاحب کے ارشادات سنتے رہے[29] ۔مولانا اسحاق بھٹی لکھتے ہیں کہ مفتی محمد حسن بہت اچھے واعظ، خوش بیان خطیب، اونچے پائے کے مبلغ، منجھے ہوئے مدرس، رواداری، متانت، خلوص اور حلم وبردباری کے اوصاف حسنہ کے جامع تھے، [30]۔
ایک مرتبہ کسی اختلافی مسئلے کے اندازِ بیان میں مفتی محمد حسن ناراض ہو گئے تھے تو مولانا داود غزنوی نے مولانا اسماعیل سلفی کو کہا کہ مفتی محمد حسن ہم تک اپنا شکوہ پہنچا رہے ہیں اور اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ تو اس پر مولانا اسماعیل سلفی نے مولانا داود غزنوی کو خط لکھ کر کہا کہ انہیں مفتی محمد حسن کی ناراضی پر تکلیف ہوئی ہے اور علمائے دیوبند میں سے وہی ہیں کہ جن کے علم، خلوص، تقوی اور زہد پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ وہ میرے محسن ہیں اور میرے دل میں ان کا احترام ہمیشہ رہے گا [31]۔ اور مفتی محمد حسن بھی اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ جن سے میں نے فیض حاصل کیا ہے، ان میں دو بڑی ہستیاں ہیں؛ ایک مولانا عبد الجبار غزنوی جو کہ مولانا داود غزنوی کے والد محترم تھے اور دوسرا مولانا اشرف علی تھانوی۔[32]
مولانا محمد حسین ہزاروی جو کہ مفتی محمد حسن کے دوست اور ہم وطن تھے، پہلے حنفی تھے لیکن مدرسہ غزنویہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اہل حدیث ہو گئے اور وہاں مدرس بھی مقرر ہوئے۔ یہ اس کے بعد بھی مفتی محمد حسن کے ساتھ مولانا اشرف علی تھانوی کو ملنے تھانہ بھون جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مولانا تھانوی نے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ پیچھے نماز میں مولانا ہزاروی کی آمین کی اونچی آواز نہیں آتی؟ مفتی محمد حسن نے کہا کہ شاید آپ کے احترام میں آہستہ آمین کہتے ہیں۔ تو مولانا تھانوی نے کہا کہ انہیں کہیں کہ مجھ پر اس سنت کے ترک کا بوجھ نہ ڈالیں۔ اور انہیں کہیں کہ یہاں اونچی آواز سے آمین کہیں، کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔ [33]
ہم اہل حدیث نوجوانوں کو یہ ضرور کہیں گے کہ وہ دو لوگوں کو ضرور پڑھیں؛ مولانا اسماعیل سلفی کہ جنہوں نے بر صغیر پاک وہند کی تحریک اہل حدیث کی صحیح فکر اور سوچ کو ایسے بیان کیا ہے کہ بندہ داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اور دوسرا مورخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھٹی کہ جنہوں نے تقریباً ایک صدی پر محیط اپنے معاصر اہل حدیث علماء کی تاریخ کو مدون کر کے ہمارے اکابر علماء کے دعوتی وتبلیغی منہج کا ایک عظیم اسوہ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔
اب تو واقعہ یہ ہے کہ مولانا اسماعیل سلفی اور مولانا اسحاق بھٹی کی کتابیں چھاپنے والوں کو معلوم نہ ہو گا کہ وہ کیا خزانہ چھاپ گئے ہیں۔ معذرت کے ساتھ، جو سلفیت آپ کو اپنے ارد گرد نظر آ رہی ہے اور جو اہل حدیثیت آپ کے اکابر اہل حدیث علماء کی ہے، اس میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ہم ان شاء اللہ! مولانا اسماعیل سلفی کی کتاب "تحریک آزادی فکر" اور مولانا اسحاق بھٹی کی کتاب "بزم ارجمنداں" کی اہل حدیث نوجوانوں کے لیے مسلسل کلاسز اور لیکچرز کا اہتمام شروع کرنے والے ہیں تا کہ ہمارے نوجوان اپنے اکابر کی اصل فکر اور منہج سے جڑیں، اپنے ان اسلاف کو پڑھیں، سمجھیں اور ان کے اسوہ پر عمل کریں تا کہ اہل حدیث فکر ایک تحریک کے طور اپنے تسلسل کو جاری رکھ سکے۔
حلفاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ کبھی تنہائی میں اپنے اکابر علماء مولانا عبد اللہ غزنوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا داود غزنوی کا تذکرہ ایک آدھ گھنٹہ بھی مولانا اسحاق بھٹی کی کتابوں میں پڑھتا ہوں تو ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ ان کے خط پڑھ کر بھی آپ اللہ کا جو قرب محسوس کریں گے، وہ ان مدخلی ومنہجی مجالس کی تفسیر سن کر بھی حاصل نہ ہو گا کیونکہ خط میں محبت کی تعلیم ہے اوران کے ہاں تفسیر کے نام پر نفرت سکھلائی جا رہی ہے۔ اور انسانی طبیعت ہے کہ محبت کی بات سے دل نرم ہوتا ہے اور نفرت سن کر سخت ہو جاتا ہے۔ تو دل نرم ہو گا تو کوئی کیفیت طاری ہو گی، سخت دلوں پر کیا کیفیت طاری ہونی ہے۔ میری تو سب سے بڑی حسرت یہی رہی ہے کہ کاش کہ ان علماء کی صحبت نصیب ہو جاتی۔ لیکن نہیں ہو سکی، اللہ کا حکم۔ چلیں آئیں، آج کتابوں کے ذریعے ہی ان کی صحبت میں کچھ بیٹھ جائیں۔ اور یقین مانیں، کتابوں کے ذریعے ان اکابر علماء کی صحبت سے جو آپ کو فکری اور روحانی فائدہ حاصل ہو گا، اور جو آپ اللہ کا قرب محسوس کریں گے، وہ سالہا سال کی منہجی صحبتوں سے بھی حاصل نہ ہو پائے گا۔ یہ سب کر کے دیکھ لیں۔
مولانا داود غزنوی اور ڈاکٹر اسرار احمد کے باہمی روابط وتعلقات
ڈاکٹر اسرار احمد کا کہنا ہے کہ انہیں پہلی مرتبہ ساہیوال میں اہل الحدیث کی ایک کانفرنس میں مولانا داود غزنوی a کا خطبہ جمعہ سننے کا موقع ملا کہ جس میں بلا کا سوز اور انتہا کا درد تھا اور دوران تقریر مولانا کی آنکھوں میں نمی از ابتدا تا انتہا رہی اور اس حدیث کے بیان پر تو مولانا نے زار وقطار رونا شروع کر دیا کہ جس میں ایک صحابی نے آپ ﷺ سے پوچھا تھا کہ میں جنت میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے انہیں جواب میں فرمایا تھا کہ انسان جنت میں اس کے ساتھ ہو گا کہ جس سے اسے محبت ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد لکھتے ہیں کہ مولانا کا خطبہ سن کر سب اہل حدیث علماء کے سخت ہونے کا جو میرا تاثر تھا، وہ جاتا رہا [34]۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ رقت اور سوز مولانا کی طبیعت کا مستقل جزو تھے اگرچہ وہ اپنے مسلک میں ادنی درجے کی بھی مداہنت برداشت نہیں کرتے تھے۔ ان کا دل بہت کھلا تھا اور جس میں بھی کوئی خوبی نظر آتی تو اس خوبی کا کھلے دل سے اعتراف کرتے تھے، بھلے وہ ان سے چھوٹا ہوتا یا بڑا ہوتا [35] ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا داود غزنوی نے اپنے خطبہ جمعہ میں یہ کہا کہ ہم ائمہ اربعہ سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن خدا شاہد ہے کہ ہمارے دلوں میں ائمہ اربعہ کا اتنا ہی احترام موجود ہے جس قدر ان کے مقلدین کے دلوں میں ہے لیکن حدیث رسولﷺکی قدرو منزلت بہر حال ہمارے دلوں میں ان ائمہ کے اقوال سے زیادہ ہے۔ [36]
مولانا داود غزنوی نے اس خطبے میں یہ بھی کہا کہ شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت وجود پر سب سے سخت تنقید مجدد الف ثانی نے کی ہے لیکن اس کے باوجود حضرت مجدد نے شیخ ابن عربی کا نام بہت ادب اور احترام سے لیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں کہ شیخ ابن عربی کے بارے میں ان کے اس انداز میں تذکرے سے میں بڑا حیران ہوا اور میں نے خطبہ جمعہ کے بعد کھانے میں ملاقات پر مولانا سے پوچھا کہ امام ابن تیمیہ تو شیخ ابن عربی کا ایسے ذکر نہیں کرتے جیسے آپ نے کیا ہے؟ مولانا داود غزنوی نے جواب دیا کہ امام ابن تیمیہ اور شیخ ابن عربی دونوں ہی ہمارے بزرگ ہیں۔ اپنے آپس کے اختلافات کو وہ جانیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ جواب دیتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے[37]۔
ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں کہ مولانا داود غزنوی کی اس ملاقات نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ پھر جب بھی لاہور آنا ہوا تو مولانا کی خدمت میں حاضری ضرور دی اور خود مولانا داود غزنوی کو بھی ڈاکٹر اسرار احمد سے خصوصی تعلق ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے مولانا داود غزنوی سے حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی پہلی جلد ادھار مانگی تو کہنے لگے کہ یہ کتاب میں کسی کو ادھار نہ دیتا لیکن آپ سے خصوصی محبت ہے لہذا انکار نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر صاحب نے وہ کتاب ایک ماہ بعد نئی جلد بندھوا کر واپس لوٹائی تو مولانا بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ کتاب کے واقعی قدر دان ہیں [38]۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ 1962ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی تو مولانا بھی اس وقت رابطہ عالم اسلامی کے تاسیسی اجلاس میں شرکت کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے ہوئے تھے اور مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مولانا نے مجھے کہا کہ تم رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں میرے سیکرٹری کے فرائض سرانجام دو اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ منی ٰمیں قیام کے دوران مولانا کی بڑی صاحبزادی پر ٹائیفائیڈ کا حملہ ہوا تو میں نے علاج بھی کیا اور سرکاری ہسپتال سے دوائی بھی ہی لا کر دیتا رہا کہ جس پر مولانا بہت شفقت کا اظہار فرماتے رہے۔ عرفات سے واپسی پر مولانا کی جب اپنی طبیعت ناساز ہو گئی تو ان کی طرف سے قربانی بھی ڈاکٹر اسرار نے ہی کی[39] ۔
ڈاکٹر صاحب ایک اور واقعے کے بارے بتلاتے ہیں کہ میرے ایک اہل حدیث عزیز کو مولانا داود غزنوی سے رنجش تھی اور وہ مجھے حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کی مجلس میں لے گئے جو ان دنوں مکہ مکرمہ میں ہی تھے۔ حافظ روپڑی صاحب کی مجلس میں بعض لوگ مولانا داود غزنوی کے بارے شکایات کر رہے تھے تو مجھ سے وہ سنی نہ گئیں اور میں نے قدرے سختی سے کہا کہ آپ لوگ پاکستان سے دو اڑھائی ہزار میل کا سفر کر کے یہاں ارض مقدس میں آئے ہیں، یہاں تو اپنے اختلافات بھلا کر اتحاد اور اعتماد کی فضا قائم کریں۔ تو سارا مجمع سناٹے میں آ گیا اور حافظ روپڑی صاحب کی طرف دیکھنے لگا۔ تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی بات کی مکمل تائید کی اور گفتگو کا رخ موڑ دیا [40] ۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ مولانا کے ساتھ مسجد نبوی میں کندھے سے کندھا ملا کر نماز کے لیے کھڑا ہوا تو تکبیر تحریمہ سے قبل ہی یہ دعا پڑھنی شروع کی: «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ…»تو مولانا نے تصحیح کی کہ تکبیر تحریمہ کے بعد یہ دعا پڑھا کریں[41] ۔
بھلا کوئی مدخلی ومنہجی فکر سے پوچھ کر بتلائے کہ مولانا داود غزنوی کی یہ قربانی ہو گئی تھی یا دوبارہ دینے کی ضرورت ہے؟ لگے ہاتھوں یہ بھی پوچھ لیں کہ ڈاکٹر اسرار احمد کو سیکرٹری بنانے کے بعد مولانا داود غزنوی پر کیا حکم لگے گا؟ اور شیخ ابن عربی کے بارے فتوی نہ لگا کر جو تساہل مولانا داود غزنوی نے برتا ہے، اس تساہل کی بنیاد پر ان کے منہج کے بارے کیا حکم ہے کہ کیا وہ سلفی منہج پر تھے یا بدعتی منہج پر؟ اور ڈاکٹر اسرار احمد سے جو مولانا نے محبت کا اظہار کیا تو اس میں عقیدہ الولاء والبراء کی مخالفت ہوئی یا نہیں؟
یہ واضح رہے کہ مولانا داود غزنوی وحدت الوجود کے قائل نہیں تھے لیکن وہ شیخ ابن عربی کے احترام کے ساتھ تذکرہ کے قائل تھے۔ یہ اصل میں اکابر علمائے اہل حدیث کا منہج تھا کہ اپنی فکر میں دو ٹوک، واضح اور کھرے تھے لیکن اپنے رویوں اور میل جول میں بہترین اخلاق، اور دوسروں سے اختلاف اور ان پر نقد میں تہذیب وشائستگی کا دامن تھامے ہوئے تھے!
ہم یہ بھی نہیں کہہ رہے کہ آپ ہمارے منہج کے مطابق کام کریں۔ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ہمارے منہج کے مطابق کام کرنے دیں۔ اگر ہمارے بارے سوشل میڈیا پر کوئی مہم جوئی کریں گے تو پھر ہم آپ کو اپنے اکابر اہل حدیث علماء کی تاریخ سے آئینہ دکھا دیں گے کہ یہ اصل میں اہل حدیثیت ہے۔ اس لیے خاموشی سے اپنا کام کرتے رہیں، اسی میں آپ کا بھلا ہے۔ اللہ عزوجل نے ہر شخص کو اس کی اپنے ہاں حیثیت کے مطابق کام پر لگایا ہوا ہے۔ اللہ عزوجل ہم سے واقعی دین کی کوئی بڑی خدمت لے لے کہ ہم اپنے اکابر اہل حدیث علماء کی طرح امت کے علماء بنیں نہ کہ فرقوں کے علماء۔ اور امت میں بریلوی دیوبندی بھی شامل ہیں، حنفی مالکی بھی شامل ہیں، اور ماتریدی اشعری بھی شامل ہیں۔ اگر اپنے علاوہ کو امت سے نکالیں گے تو تکفیری کہلائیں گے۔
اکابر اہل حدیث علماء کے شیعہ علماء سے روابط وتعلقات
اکابر اہل حدیث علماء میں اس قدر وسعت فکر تھی کہ وہ ملی اور اجتماعی مسائل میں اور دین کے غلبے کی جدوجہد میں اہل تشیع کے علماء کو بھی ساتھ شامل کر لیتے تھے تا کہ اسلامی ریاست کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ اسلامی ریاست کی بنیاد کے طور بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور اہل تشیع کے چوٹی کے علماء نے جو اجتماعی بائیس نکات دیے تھے، ان کے پیچھے مولانا داود غزنوی کی بہت سی کاوشیں کارفرما تھیں کہ انہوں نے مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ اس وقت کے معروف شیعہ عالم دین مفتی جعفر حسین کو بھی اپنے گھر پر بلوایا تھا۔ مولانا اسحاق بھٹی صاحب نے اس کی تفصیل اپنی کتاب میں بیان کی ہے، [42]۔
سب کو معلوم ہے کہ یہ کوئی اہل تشیع کے ساتھ نظریاتی اتحاد نہیں تھا بلکہ اجتماعی اور ملی مسائل میں مل جل کر کاوش کرنے کی جدوجہد تھی تا کہ مملکت پاکستان میں تمام مذہبی طبقات کی مشترکہ جدوجہد سے خیر کا پلڑا مجموعی طور بھاری رہے کیونکہ مد مقابل شر اور لا دینیت کی ساری قوتیں اور طاقتیں جمع ہو چکیں تھیں۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اجتماعی امور مثلاً الحاد، مذہب بیزاری، لبرل ازم، سیکولر ازم، بے حیائی، منشیات اور بیرونی فکری اغوا کاروں کے خلاف مختلف مکاتب فکر کی طرف سے مشترکہ جدوجہد وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء اپنی شناخت باقی رکھتے ہوئے بھی مل جل کر کام کر سکتے ہیں۔ اور اسی ضرورت کو اکابر اہل حدیث علماء محسوس کرتے تھے۔
اسی طرح آپ کے اکابر علماء میں کچھ تو تھا کہ اہل تشیع میں درجہ اجتہاد پر فائز مفتی جعفر حسین جیسے شیعہ عالم دین، مولانا اسماعیل سلفی جیسے اہل حدیث عالم دین کے شاگرد رہے بلکہ مولانا حنیف ندوی کے کلاس فیلو بھی رہے۔[43] مفتی جعفر حسین دیوبند کے عالم دین مولانا محمد چراغ سے بھی پڑھتے رہے۔ آج اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے کہ کوئی شیعہ عالم دین کسی اہل حدیث عالم دین کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرے۔ تو آپ کے بڑوں نے اپنے مدرسوں اور مساجد کے دروازے تعلیم وتعلم اور میل ملاقات کے لیے کھلے رکھے تھے، بند نہیں کیے تھے۔ اور پھر امت کے اجماعی اور ملی مسائل میں اس سے فائدہ بھی اٹھایا، ۔
مولانا اسحاق بھٹی کے بقول مفتی جعفر حسین کی مولانا اسماعیل سلفی اور مولانا حنیف ندوی سے میل ملاقات رہتی تھی اور آنا جانا لگا رہتا تھا بلکہ اکثر مفتی صاحب تشریف لاتے تھے[44] ۔اب مولانا اسماعیل سلفی اور مولانا حنیف ندوی نے تو یہ نہیں کہا کہ مفتی جعفر حسین بدعتی ہے لہذا ہم نے اس سے ملاقات نہیں کرنی یا رابطہ نہیں رکھنا ہے۔ بلکہ مولانا اسحاق بھٹی نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ مجلہ "المعارف" میں چھاپنے کے لیے جس کے وہ ایڈیٹر تھے، اہل تشیع کے علماء سے بھی مختلف موضوعات پر مضامین وہ مانگ لیا کرتے تھے۔ بس اتنا کہتے تھے کہ صرف شیعہ موقف بیان کریں، بے جا تنقید نہ کریں، ۔ [45]
مسئلے کا حل یہی ہے کہ جو منہج آپ کوسمجھ آیا ہوا ہے، اسے اپنی اجتہادی رائے سمجھیں اور اسے کتاب سنت قرار دے کر اس کے مخالف رائے رکھنے والوں پر فتوے نہ لگائیں ورنہ تو سب سے پہلے آپ کے اکابر علماء کی طرف فتوے لوٹ کر آئیں گے بلکہ معاصر علماء کی بھی ایک بڑی جماعت پر۔ جو کچھ بولا اور لکھا جا رہا ہے، ایک تاریخ بن رہا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ مستقبل کا مورخ لکھے کہ مسلمانوں کے اجتماعی اور سیاسی زوال کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ شام، عراق، یمن، لیبیا، کشمیر، فلسطین اور غزہ تباہ ہو رہے تھے ، نوجوان نسل میں الحاد، مذہب بیزاری، سیکولر ازم، لبرل ازم، بے حیائی ، منشیات، سود، شراب نوشی، ایل جی بی ٹی یعنی ہم جنس پرستی کے بازار گرم تھے اور ایک مسلک کے ایک عالم دین اپنے ہی مسلک کے ایک دوسرے عالم دین سے نہ ملنے کے یہ اسباب بیان کر رہے تھے کہ وہ دوسرے مسلک کے علماء سے ملاقات کر آئے ہیں یا ایک مسلک کے نوجوان علماء اپنے مسلک کے کسی بزرگ شیخ الحدیث کو سوشل میڈیا پر اس بنیاد پر رگید رہے تھے کہ انہوں نے مولانا مودودی کی کتابیں پڑھنے کو حرج قرار نہیں دیا تھا۔ ہمیں اچھا لگے یا برا لیکن اب تو یہ تاریخ بن چکا ہے اور تاریخ کے صفحات میں رقم ہو چکا ہے۔ ہمیں اپنی اگلی نسل کی سوچ کی اصلاح کرنی ہے اور یہ ذمہ داری اصلاً بڑے علماء کی ہے۔
(ڈاکٹر حافظ محمد زبیر )
[1] مجموع الفتاوى: 28/ 209
[2] مجموع الفتاوى: 3/ 353-354
[3] الخطيب البغدادي، أحمد بن علي، الكفاية في علم الرواية: 125
[4] ] و وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِيْنَارٍ لَّا يُؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآىِٕمًا [ [آل عمران: 75]
’’ اور اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ ان کے پاس اگر آپ خزانہ بطور امانت رکھ دیں تووہ آپ کو واپس کردیں گے، اور ان میں ایسے بھی ہیں جن کوایک دینار بھی دے دیں تو واپس کرنے کو تیار نہ ہوں گے ، الا یکہ آپ اس پر مسلط ہوجائیں ۔‘‘
مزید فرمایا: ] لَيْسُوْا سَوَآءً مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ..... [[آل عمران: 113]’’ سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ، ان میں ایک جماعت ایسی بھی ہے ...‘‘
[5] سير أعلام النبلاء: 5/ 271
[6] العقيلي، محمد بن عمرو، الضعفاء الكبير: 4/ 66
[7] مجموع الفتاوى: 28/ 206-207
[8] اس اصول پر خود رسول اللہ ﷺ کے عمل سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ ﷺ نے بعض گناہ گاروں کی نماز جنازہ خود نہیں پڑھائی لیکن صحابہ کرام کو پڑھنے کا حکم دیا ، حالانکہ نبی کریم ﷺْ اور صحابہ کرامؓ دونوں پر شریعت کا یکساں حکم لاگو ہوتا تھا۔
[9] سير أعلام النبلاء: 15/ 88
[10] ابن قيم الجوزية، محمد بن أبي بكر، مدارج السالكين : 2/329
[11] بن باز، الشيخ عبد العزيز بن عبد الله، فتاوى نور على الدرب: 3/39
[12] العثيمين، الشيخ محمد بن صالح، الاعتدال في الدعوة، نسخة المكتبة الشاملة: 24
[13] اس موقع پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ ایک جگہ پر جلسہ تھا ، کوئی سخت مزاج مولوی صاحب تقریر فرما رہے تھے ، سب کو کافر اور جہنمی قرار دے رہے تھے ، ایک شخص نے کھڑے ہو کر سوال کرنےکی اجازت چاہی ، اجازت ملنے کے بعد مولوی صاحب سے پوچھا : جنت کتنی بڑی ہے ؟ مولوی صاحب نے قرآن سنت کے حوالے سے جنت کی وسعت پر روشنی ڈالی تو سوالی کہنے لگا : کیا اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی جنت آپ اکیلے کے لیے بنائی ہے ؟!!!
[14] محمد ناصر الدين الألباني، سلسلة الهدى والنور، رقم الشريط: 80
[15] محمد ناصر الدين الألباني، سلسلة الهدى والنور، رقم الشريط: 511
[16] الشريف حاتم العوني، الدكتور، التعامل مع أهل البدع، إصدار الموقع الرسمي للشيخ:49
[17] ]وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ[ [المائدة: 2]
[18] مولانا حنیف ندوی، اہل حدیث کا دینی تصور اور ان کے خلاف ہمہ گیر برہمی کے أسباب :69
[19] اہل حدیث کا دینی تصور، : 155
[20] ] وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ[[آل عمران75]؛ ] وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ۰۰۸۲ [[المائدة: 82]
[21] أبو بکر غزنوی، سید، حضرت مولانا داود غزنوی : 41-42
[22] مقالات وفتاوی شیخ الحدیث مولانا اسماعیل سلفی : 828، 829، 830
[23] مولانا داود غزنوی : 144
[24] مولانا داود غزنوی: 145
[25] مولانا داود غزنوی: 161
[26] مولانا داود غزنوی: 209-210
[27] إسحاق بھٹی، مولانا محمد، بزم ارجمنداں:178-179
[28] ایضا: 179
[29] بزم ارجمنداں: 290
[30] بزم ارجمنداں: 292
[31] بزم ارجمنداں: 296
[32] ایضا: 299
[33] بزم ارجمنداں: 303
[34] أبو بکر غزنوی، سید، حضرت مولانا داود غزنوی: 86
[35] ایضا
[36] مولانا داود غزنوی: 87
[37] مولانا داود غزنوی: 88
[38] ایضا: 89
[39] ایضا: 90
[40] ایضا: 91
[41] ایضا
[42] بزم ارجمنداں: 519
[43] بزم ارجمنداں: 521
[44] بزم ارجمنداں: 524
[45] بزم ارجمنداں: 525