سوانح حیات مولانا احسان اللہ فاروقی
مولانا احسان اللہ فاروقی 8 ؍اگست 1975 ءکو بستی گٹ تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد گرامی ’’اللہ داد گٹ ‘‘کھیتی باڑ ی کے پیشے سے منسلک تھے۔ آپ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
ابتدائی تعلیم و گھریلو ذمہ داری :
شیخ محترم نے 1981ء میں تعلیم کی ابتدا ء اپنے آبائی علاقے بستی بلوانی تونسہ شریف سے کی اور گورنمنٹ ہائی سکول کوہر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں آپ اپنے والد گرامی کے ساتھ کھیتی باڑی کے کام میں ہاتھ بٹاتے تھے۔کچھ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ والد گرامی کا انتقال ہوگیا، گھر کے حالات کمزور پڑے تو والدہ نے مرغیاں اور بکریاں پال لیں، انڈے بیچ کربچوں کے اخراجات پورے کرتیں ۔
جامعہ رحمانیہ لاہور میں آمد:
آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1991ء میں قاری امیرغفاری صاحب(ان کے رشتہ دار)کے ترغیب دلانے پر دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ رحمانیہ لاہور میں داخلہ لیا ان کی تعلیم سے محبت اور اخلاق و کردار کے حوالے سے ان کے کلاس فیلو محترم ڈاکٹر محمد اسلم صدیق صاحب کی زبانی سنیے :
’’جامعہ رحمانیہ میں 1992 میں ثانیہ ثانوی میں داخلہ ہوا،کافی بڑی کلاس تھی ۔ محترم احسان اللہ فاروقی صاحب سے پہلی شناسائی ہوئی ، نام بہت خوبصورت ہے ، شرافت چہرے مہرے سے عیاں تھی ، گفتگو میں نرمی اور رویہ بہت شگفتہ اور پیار پھرا تھا۔ لہٰذا ان سے ایک طرح کی انسیت پیدا ہوئی اور پھر یہ تعلق مخلصانہ دوستی میں بدلا۔ کلاس میں عموماً اکٹھے بیٹھتے اور عشاء کے بعد کا مطالعہ بھی اکثر اکٹھے ہوتا۔ دینی تعلیم کے حصول کاجذبہ اور شوق فراواں تھا ۔ جامعہ میں عصری تعلیم کا اہتمام تھا،لیکن کہتے کہ میں یہاں سکول نہیں دین پڑھنے آیا ہوں ، صرف دین پڑھنا اور پڑھانا چاہتا ہوں ، بہت محنتی اور مثالی طالب علم تھے ۔ خصوصاً امتحانات کے دنوں میں رات گئے تک پڑھتے ، کلاس میں ہر سال پہلی تین پوزیشن میں سے ایک ضرور لیتے ۔ میں بلاخوف تردید یہ کہ سکتا ہوں امتحانات کے دنوں میں چند طلباء جو رات کو سب سے آخر میں سوتے ،ان میں ایک نام مکرم احسان اللہ فاروقی بھائی کا بھی تھا۔ میں نے کئی دفعہ یہ عزم کیا کہ آج میں نے ان سے پہلے نہیں سونا ، لیکن کبھی اس عزم میں کامیاب نہ ہو سکا۔مطالعہ کتب کے سوا اور کوئی شغل نہیں تھا۔ کھیلوں میں کبھی دلچسپی نہیں لی ۔
طبیعت سادہ اور قدرے ظریفانہ تھی ،لیکن ظرافت میں کبھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے۔اصلاح کے جذبے سے سر شار رہتے ۔ کلاس میں کوئی غلط حرکت دیکھتے تو ضرور نکیر کرتے۔ جامعہ میں نماز باجماعت میں تاخیر پرسرزنش ہوتی تھی ،لیکن مجھے نہیں یاد کہ کبھی ان کی تکبیر اولیٰ فوت ہوئی ہو۔ صورت وسیرت نمونہ سلف تھی۔1991 یا 1992ءمیں جامعہ میں داخل ہوئے اور پھر مسلسل سات یا آٹھ سال کے بعد یہیں سے 1998 میں فارغ ہوئے۔‘‘
ان کے ایک اور ہم جماعت قاری امجد مسعود میرمحمدی﷾ لکھتے ہیں:
’’محترم احسان اللہ فاروقی صاحب کے ساتھ تقریبا 7 سال گزارنے کا موقعہ ملا ،کلاس میں اساتذہ کرام کے اسباق انتہائی توجہ کے ساتھ سنتے اور سمجھتے ، مناسب موقعہ پر سوالات بھی کرتے تھے، کلاس کے علاوہ بھی زیادہ تر وقت کتب میں مگن نظر آتے،کلاس میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرتے ،اساتذہ کرام کے ساتھ نہایت ادب و احترام سے پیش آتے ، ادبی و اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے ساتھیوں سے ہنسی مزاح بھی کرتے تھے، اگر کوئی ہنسی مذاق کرتا تو جواباً مسکرا دیتے تھے، انتہائی متقی اور نیکی پسند تھے ،قیام اللیل کا اہتمام فرمانے والے تھے۔ کریم النفس اور سلیم القلب تھے۔ انہی اچھی صفات کی وجہ سے انہیں جامعہ میں بطور مدرس منتخب کیا گیا تھا۔
یہ زمانہ طالب علمی کی باتیں ہیں۔ بعد میں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں علمی و عملی میدان میں بہت عزت سے نوازا تھا۔ جب بھی البیت العتیق میں جانا ہوتا تو بہت محبت و اخلاق صرف استقبال کرتے اور مہمان نوازی بھی کرتے تھے۔ دوران علالت بھی جانا ہوتا تو انتہائی پیار فرماتے ۔‘‘
اساتذہ:
مولانا سلطان محمود جلال پوری ،حافظ ثناءاللہ مدنی ، مولانا عبد الرشید خلیق ، مولانا عبدالسلام فتح پوری ، مولانا رحمت اللہ ،مولانا عبد الرشیدراشد ، مولانا رمضان سلفی ، مولانا شفیق مدنی اور مولانا رانا طاہر محمود۔
مادر علمی میں تدریس:
1998 ءمیں مدرسہ رحمانیہ سے سندفراغت حاصل کرنے کے کچھ عرصہ بعد تک لاہور کی ایک مسجدمیں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے ۔ پھر ابو الجامعہ ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی﷾ ورعاہ نے جامعہ کے لئے ان کی خدمات حاصل کرلیں ۔ یوں اللہ نے ان کادین پڑھنے اور پھر پڑھانے کا خواب پورا کر دیا ۔اور کسی بھی انسان کے لیے بہت بڑی سعادت ہے۔ آپ نے جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) سے تدریس کا آغاز کیا تو پھر یہیں کے ہو کے رہ گئے ۔پلٹ کر نہیں دیکھا ۔
انداز تدریس:
آپ کا انداز تدریس انتہائی نرالا تھا ، آپ سرائیکی لہجے میں اردو بولتے تو طلبہ اس سے بے حد محظوظ ہوتے۔ راقم الحروف جب’’البیت العتیق ‘‘میں داخل ہوا چند ایام تو ان کے خوبصورت لہجے سے لطف اندوز ہوتا رہا۔
جب بھی آتا ہے تیرے حسن تکلّم کا خیال لطف دیتا ہے تیری بات کا ہر ہر پہلو
آپ کا پڑھانے اورسمجھانے کا انداز انتہائی سادہ اور آسان فہم تھا ، کوئی یہ نہ کہہ پاتا کہ مجھے سمجھ نہیں آئی ، عربی گرائمر ان کا محبوب ترین مضمون تھا۔ مشکل ترین بحثیں چند منٹوں میں سمجھا دیا کرتے ۔ آپ کا ایک خاص انداز تھا کہ سبق پڑھانے کے بعد سبق کے اہم نکات دو تین مرتبہ انگلیوں پر گنوا دیا کرتے۔اسی طرح اگلے دن سبق پڑھانے آتے تو پچھلا سبق ویسے ہی انگلیوں پر دہراتے ۔ اس طرح سبق طلبہ کے ذہن میں راسخ ہو جاتا۔
دوران سبق ہر طالب علم پر آپ کی نظر ہوتی ، کبھی اچانک کسی لڑکے سے کوئی سوال پوچھ لیتے ، یوں طلبہ ان کے سبق میں چوکنے رہتے تھے ، کوئی لا پرواہی نہیں کرتا تھا۔کلاس میں اتنی بلند آواز سے بولتے کہ پوری کلاس میں ان کی آواز گونجتی تھی، کوئی طالب علم یہ بہانہ نہ بناسکتا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آئی ۔اسی مناسبت سے ایک لطیفہ پیش خدمت ہے:
’’ آپ ہمیں مشکوةشریف پڑھا رہے تھے ایک لڑکا کسی سے بات کررہا تھا، استاد جی نے پوچھا کیا بات ہے ؟؟اچانک سوال ہونے پر وہ بوکھلاگیا ، کہنا لگا :استاد جی آپ کی آواز نہیں آ رہی۔ آپ مسکرائے اور فرمانے لگے او نامرادا ! تو نے میرا 15 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ مجھے آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپ کی آواز نہیں آ رہی ۔‘‘
انتظامی امور میں آپ کی خدمات:
شیخ فاروقی صاحب شروع سے ہی جامعہ میں تدریسی امور کےعلاوہ کئی انتظامی امور سے منسلک رہے اور انہیں خوب ذمہ داری ودیانتداری سے انجام دیا ۔
بحیثیت مدیر تعلیم:
شیخ فاروقی رحمہ اللہ مرکز البیت العتیق کے مدیر التعلیم مقرر ہوئے تو آ پ نے اس ذمہ داری کا حق ادا کردیا۔ اساتذہ کے ساتھ آپ کا رویہ انتہائی مشفقانہ ، دوستانہ اور محبت بھرا ہوتا تھا ۔ چھوٹے اوربڑے اساتذہ میں فرق نہیں رکھتے تھے، چھوٹے اساتذہ کو بھی اپنے برابر ہی سمجھتے ۔اگر کبھی کوئی استاد تاخیر سے آتا تو اپنے خاص انداز میں پوچھ گچھ بھی کرلیا کرتے ، اساتذہ کو محسوس بھی نہ ہوتا کہ ہم سے پوچھ گچھ کی گئی ہے، شیخ فاروقی صاحب اپنے سے بڑی عمر کے اساتذہ ، سفید ریش شیوخ الحدیث اور حتیٰ کہ اپنے اساتذہ سے بھی پوچھ گچھ کرنے میں ذرا نہیں گھبراتے تھے ،ان کے سامنے اپنی ذمہ داری مقدم تھی۔
آہ! جس کی حکمت پر ہر اہل وطن کو ناز تھا بجھ گئی وہ شمع جس پر انجمن کو ناز تھا
طلبہ کے ساتھ بھی ان کا رویہ بےحد مشفقانہ اور محبت بھرا تھا،اس کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت میں عجیب قسم کا رعب بھی تھا، کوئی طالب علم اگر کسی کوتاہی کا شکار ہوتا تو اپنے خاص انداز سے اس کی سرزنش بھی کرتے ، مار پیٹ سے بہت حد تک پرہیز کرتے، کبھی کبھار مارنا پڑ جاتا تو اپنے ہاتھ سے جسم پر ہلکا ہلکا مارتے کہ طالب علم کو احساس ہو جاتا ۔یہی وجہ ہے کہ طلبہ آپ سے شدید محبت کرتے ہیں ۔
کوئی طالب علم پڑھائی میں کمزور ہوتا تو نہ صرف اسے برداشت کرتے بلکہ اسے طریقے بتا تے کہ طالب علم اپنی کمزوری پر قابو پا لیتا، البتہ غیر حاضری کرنے والے طلبہ کو کبھی برداشت نہیں کرتے تھے انہیں سزا دیتے۔اگر کوئی طالب علم زیادہ غیر حاضری کرتا تو اس کے گھروالوں سے رابطہ کرتے اور انہیں آگاہ کرتے، اس طرح باقی طلبا کے بھی کان کھڑے ہو جاتے ۔
جب امتحانات قریب آتے تو ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ہی طلبہ کو جمع کر کے وعظ و نصیحت کرتے، اسلاف کے واقعات سناتے ،اس طرح محنت کرنے کی ترغیب دیتے ،مزید 90فیصد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے ماہانہ 500 روپے وظیفہ کا اعلان کرتے ، جس سے طلبہ میں شوق کی بجائے جنون پیدا ہوجاتا۔
جب تک شیخ فاروقی صاحب مدیر التعلیم رہے 90 فیصد نمبر لینے والے ہر طالب علم کو ماہانہ 500 سو روپیہ وظیفہ دیا جاتا تھا ۔ میری اطلاع کے مطابق یہ وظیفہ (فنڈ) جامعہ کی طرف سے جاری نہیں ہوتا تھا بلکہ فاروقی صاحب اپنی کوشش و کاوش سے طلبہ کے لیے وظیفہ کا انتظام کیا کرتے تھے۔
گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر آتے ہوئے کسی طالب علم کو پکڑ لیتے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ لیتے اس سے چند سوالات پوچھتے اگر کوئی طالب علم کمزور ہوتا تو اسے انتہائی دردمندی کے ساتھ احساس دلاتے ۔ان کے اس عمل سے پتہ نہیں کتنے ہی طلبہ کی زندگیاں بدل گئیں۔
اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
بحیثیت مدیرمطعم:
شیخ فاروقی صاحب طلبہ کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتے تھےاور ان کے لیے بہترین سے بہترین کھانے کا انتظام کرتے تھے۔آپ کے دور انتظام میں بہت کم ایسا ہوا کہ کھانا کم پڑگیا ہو اور طلبہ نے پیٹ بھر کھانا نہ کھایا ہو، اگر طلبہ کی تعداد بڑھنے کے سبب کبھی ایسے ہو جاتا تو اگلے ہی دن کچن میں کھانا زیادہ پکانے کا آڈر کر دیتے۔انہوں نے پورے ہفتے کے لیے ٹائم ٹیبل طے کیا ہوا تھا کہ فلاں دن فلاں ڈش پکے گی ،یوں طلبہ کو اپنی پسندیدہ ڈش پکنے کا انتظار رہتا ، خاص طور پر بریانی طلبہ کی محبوب ترین ڈش تھی اور اس کا اہتمام بھی اتنی ہی توجہ اور فکرمندی سے کیا جاتا۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ بریانی کا یہ انتظام جامعہ کی طرف سے نہیں ہوتا تھا بلکہ شیخ کی خصوصی کاوش تھی ، وہ ہر ہفتے کسی صاحب ثروت سے رابطہ کرتے اور انہیں اس طرف توجہ دلاتے کہ مدرسے میں اللہ کے مہمان ہیں ان کی ضیافت کے لیے بریانی کا اہتمام کردیجیے، تو یوں یہ سلسلہ لمبا عرصہ چلتا رہا۔
اگر کسی طالب علم کو کھانا نہ ملا ہوتا یا کوئی اور مسئلہ ہوتا تو وہ شیخ فاروقی صاحب کا دروازہ کھٹکھٹاتا تو اسے اپنی مراد مل جاتی، انہوں نے چیز کے ہوتے ہوئے کبھی انکار نہیں کیا اور اولاد کی تربیت بھی ایسے ہی کی۔
شیخ محترم بحیثیت باپ:
ہر باپ کو ہمیشہ یہی فکر ہوتی ہے کہ میری اولاد کا مستقبل سنور جائے ،وہ اولاد کے روشن مستقبل کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کر دیتا ہے ۔ شیخ محترم نے اپنی ساری اولاد کو دین کی طرف ہی لگایا تھا۔ دونوں بڑے بیٹوں اور بیٹی کو درس نظامی مکمل کروایا،قراءات پڑھائیں ، عصری تعلیم بھی دلوائی ۔ بڑے بیٹے حافظ عبداللہ فاروقی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان بھی اچھے نمبروں سے پاس کیا اور ساتھ ساتھ مشہور مصری استاذ قراء سے قراءات و تجوید کی تعلیم بھی لیتے رہے۔دوسرے بیٹےحافظ ثناءاللہ فاروقی صاحب مرکز البیت العتیق میں درس نظامی کی تکمیل کے بعد اپنے والد ماجد کی طرح اپنی مادر علمی میں ہی تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
شیخ محترم کوہر باپ کی طرح اپنے بچوں سے بے انتہا محبت تھی ، لیکن پڑھائی کے معاملے میں بالکل بھی نرمی نہیں کرتے تھے۔ اگر ان سے کبھی کوئی کوتاہی ہوتی تو عام طلبہ کی نسبت اپنے بچوں کی زیادہ سرزنش کرتے۔ روزانہ کی بنیادپر ان کو مطالعہ کرواتے، دن میں پڑھے ہوئے سارے اسباق اچھی طرح حل کرواتے۔ کلاس سے ہٹ کر انفرادا ی تعلیم بھی دلواتے رہے تاکہ اپنی اولاد کی علمی بنیادوں کو مضبوط کر سکیں کیونکہ وہ جانتے تھے یہی اولاد تو ان کا سرمایہ ہے۔
غیر نصابی کتابوں کے مطالعے کے لیے اپنے بیٹوں کو الگ الگ پیسے دیتے کہ اردو بازار سے اپنی اپنی پسند کی کتابیں خرید لاؤ ۔ ایک دن کلاس میں بتانے لگے کہ میں ان کو کتابیں لینے کے لیے اردو بازار بھیجتا ہوں تو عبداللہ نحو و صرف کی کتابیں خریدتا ہے اور یہ ثناءاللہ ناول خرید لاتا ہے، کیا نرالے انداز تھے میرے شیخ کے!
شیخ محترم کے بڑے بیٹے حافظ عبداللہ فاروقی جو اب مدینہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں ، پچھلے دنوں سالانہ چھٹیوں پر گھر آئے تو اگلے ہی دن ابو جان سے پڑھنا شروع کردیا۔وہ لکھتے ہیں:
’’مدینہ یونیورسٹی سے چھٹی پر گھر آیا تو اگلے ہی دن جامعہ فاروقیہ میں (یعنی والد گرامی مولانا احسان اللہ فاروقی﷾ کے پاس ) داخلہ لے لیا۔شامل نصاب کتب درج ذیل تھیں:
تفسير سعدی،مشکوۃ المصابیح،شرح صحیح البخاری ،کافیہ لابن حاجب، شذ العرف فی فن الصرف ،علم العقيدة اور علم الفقہ سے متعلق بعض کتب ۔
ابو جی سبق سناؤں
یہ وہ سوال تھا جو پچھلے نو سال میں جب بھی میں نے یہ سوال کیا تو اس کا جواب کچھ یوں ہوتا: جی کیوں نہیں! یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔میں بیٹھا ہی اس لیے ہوں۔سو کے اٹھے ہوں، سفر سے واپس آئے ہوں، گھنٹوں میٹنگ سے اٹھ کر آئے ہوں یا بیماری کے ایام ہوں ہر حال میں یہی جواب ہوتا۔
جب میں نے درس نظامی کا آغاز کیا تو والد صاحب نے حکم دیا آپ مطالعہ گھر کیا کریں گے، لہذا میں نے مطالعہ کے انچارج سے اجازت لی اور روزانہ مطالعہ والد صاحب کے پہلو میں بیٹھ کر کرنے لگا۔ مطالعہ شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ یہ سوال کرتے کہ آج کتنے اسباق ہوئے ہیں اور ہر کتاب کے بارے میں پوچھتے کہ کتنا سبق پڑھا ہے؟ پھر ترتیب سے ہر ایک کتاب کا سبق سنتے جاتے حتی کہ تجوید و قراءت کے سبق بھی سنتے۔
تیسری کلاس میں پہلی مرتبہ والد صاحب کا ہدایۃ النحو کا پیریڈ ہمارے حصے میں آیا ۔فرمانے لگے یہ کتاب میں سولہویں دفعہ آپ کو پڑھا رہا ہوں۔ سال کے شروع میں مجھے حکم دیا کہ اگر ہدایۃ النحو سمجھنا چاہتے ہو تو اس کی شرح ’’ارشاد النحو ‘‘ کا مطالعہ کر کے آیا کرو۔ ایک دن میں نے کہا آپ نے مجھے ارشاد النحو پڑھنے کا حکم دیا ہے مگر آپ کو کبھی پڑھتے نہیں دیکھا، فرمانے لگے: مجھے یہ کتاب زبانی یاد ہے۔
جامعہ سے آٹھ سال کا نصاب مکمل کرکے فارغ ہوئے اور اگلے سال تدریس شروع کی تو پھر وہی روٹین کہ جو اسباق پڑھانے ہیں وہ پہلے والد صاحب کو ہر حال میں سنانے ہیں۔
ابھی ایک سال مکمل ہوا تھا کہ مدینہ یونیورسٹی داخلہ ہوگیا۔ جب بھی گھر فون کیا تو یہ سوال ضرور ہوتا کہ آج کونسی کتاب پڑھی ہے؟ استاذ کا سبق یاد کر کے گئے تھے؟ کلاس میں ٹائم پر پہنچے تھے؟۔
خیر سمیسٹر مکمل ہونے پر چھٹیوں میں گھر آیا تو ادارے میں جامع ترمذی پڑھانے کا موقع ملا تو پھر وہی روٹین۔دوسری کلاس کے آغاز ہی سے یہ عادت ڈال دی کہ اپنے سے جونیئرز کو پڑھایا کرو اور جو پڑھانا ہے وہ پہلے مجھے سنا کر جانا ہے۔یہ فقط میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ میرے دوسرے بہن بھائیوں سے بھی یہی طریقہ تھا۔
آج ان کی قبر کی پر آیا تو کتاب بھی ساتھ لے آیا، مگر دل بوجھل ہونے کی وجہ سے یہ نہ کہہ سکا۔۔۔
’’ابو جی سبق سناؤں ؟۔‘‘
اخلاق وعادات وخصال:
شیخ فاروقی رحمہ اللہ خوش اخلاق ، ملنسار، خیر خواہ، صلہ رحمی کرنے والے ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے اپنے خاندان کے کئی عزیز واقارب کو مدرسہ رحمانیہ میں داخل کروایا اوران کی تعلیم وتربیت کی نگرانی کےساتھ ساتھ ان کی ضروریات کوبھی پورا کرتے رہے ۔جن میں قاری عمر وزیرفاروقی (ریسرچ سکالر پیغام ٹی وی) قاری عصمت اللہ فاروقی ، قاری عارف فاروقی وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں ۔
توکل علی اللہ
شیخ رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کے آخری پانچ سال جس کرب میں گزارے ہیں اسے تصور میں نہیں لایا جا سکتا ،لیکن اس مرد مجاہد کے ہمت و حوصلے پر آفرین ہے کہ کبھی زبان سے اپنی بیماری کا شکوہ نہ کیا، ہمیشہ ان کی زبان سے یہی الفاظ سنے : ’’ میرا اللہ مجھے ضرور شفا دے گا ۔ آخری دم تک اسی یقین اور امید پر مستقیم رہے اور بالاخر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
طلبۃ العلم سے محبت:
اساتذہ کی اپنے طلبہ سے محبت کی ریت تو صدیوں پرانی ہے لیکن شیخ کی محبت کا الگ ہی انداز تھا، اپنی جان سے زیادہ اپنے طلبہ سے محبت فرماتے تھے۔ دوران علالت کبھی دل بے چین ہوتا تو اپنے بیٹوں سے کہتے مجھے جامعہ میں لے چلو۔ جامعہ میں تشریف لاتے اور طلبہ کو اپنے گرد جمع کر لیتے، دیر تک ان سے باتیں کرتے، پڑھائی کے حوالے سے قیمتی نصیحتیں کرتے۔
برادر مکرم حافظ شہریار الحذیفی لکھتے ہیں :
آپ طلباء سے بہت شفقت کرتے تھے، ہر وقت طلباء سے تعاون اور ان کی مدد کے لیے فکر مند رہتے۔ بیماری کے ایام میں بھی پروگراموں میں تشریف لاتے حتیٰ کہ جب چلنے سے قاصر ہوگئے تو فرماتے کہ مجھے چارپائی سمیت اٹھا کر مسجد میں لے جاؤ، میں آپ کا پروگرام دیکھنا چاہتا ہوں۔ لیٹ کر سارا پروگرام دیکھتے۔
کتاب دوستی:
کتاب بینی شیخ کا پسندیدہ مشغلہ تھا چاہے آپ کا زمانہ طالبعلمی ہو یا زمانہ تدریس۔ آپ کے ہم جماعت دوستوں کی گواہی ہے کہ آپ روزانہ رات گئے تک کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ زمانہ تدریس میں بھی اپنے طلبہ کو کتابوں کے مطالعے کی ترغیب دلاتے ۔عربی گرائمر استاد گرامی کا محبوب ترین مضمون تھا۔ کہا کرتے تھے کہ میرے پاس نحو و صرف کی 100 سے زائد کتابیں ہیں ۔ جب کسی کلاس میں کوئی گرائمر کی کتاب پڑھاتے تو طلبہ کو بھی مقرر شدہ کتاب کی شروحات خرید لانے کا کہتے اور پھر فرماتے کہ روزانہ اضافی طور پر اس کو پڑھیں اس سے فوائد اکٹھے کریں۔
آپ کے شاگرد حافظ شہریار الحذیفی لکھتے ہیں:
’’ شیخ محترم ہمیں نحو و صرف کا اجراء کرواتے تھے۔ اس ایک پیریڈ کی تیاری کے لیے استاد جی نے پوری کلاس کو ایک نحوی صرفی تھیلا بنانے پر مجبور کر دیا،جس میں اعراب القرآن، الیاقوت والمرجان، القاموس، مختار النحو، علم النحو، قواعد النحو، تسہیل النحو، ارشاد النحو، کتاب النحو، ھدایۃ النحو اسی طرح صرف و نحو کی بہت سی اور بھی کتابیں اکٹھی کروائیں اس سلسلے میں کئی اسلامی مکتبوں کا تعارف ہو گیا۔‘‘
مادر علمی سے بے مثال محبت:
دنیا میں بہت کم ایسے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کسی ادارے کے نام کردی ہو ۔ آپ 1991 میں جامعہ لاہور الاسلامیہ میں پڑھنے آئے ،سنہ 1998 میں فراغت کے بعد یہیں تدریس کا آغاز کیا اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا ، اپنے شب و روز بھر پور محنت و مشقت کے ساتھ جامعہ کے نام کردیے۔سنہ 2024ء میں اپنی زندگی کے 34 سال ادارے کے نام کرتے ہوئے داغ مفارقت دے گئے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
استاذی المکرم مولاناعبدالرشید تونسوی ﷾ (شیخ الحدیث جامعہ البیت العتیق ) شیخ فاروقی کی جامعہ سےمحبت ،وابستگی اور خلوص کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ مجھے فاروقی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ ایک پارٹی میرے پاس آئی کہ ہمارے پاس چار کنال میں بلڈنگ بنی ہوئی ہے، آپ اس کااس کاانتظام وانصرام سنبھالیں اور وہاں مدرسہ کی آبادکاری کریں ۔ میں نےانہیں کہا کہ آپ وہ پلاٹ البیت العتیق کے نام کردیں تو پھر ہم اس کا ا نتظام سبنھال لیں گے۔
ان کے لخت جگر قاری ثناءاللہ فاروقی صاحب کا بیان ہے کہ
’’ والد محترم جب بیمار ہوئے تب سے حکماً کہا کرتے تھے کہ بیٹا! میرا جنازہ بیت العتیق سے ہی اٹھنا چاہیے، یہاں میری تیاری اور جنازہ کا اہتمام کرنا میں یہ بات تقریبا تین سال سے سنتا آ رہا تھا۔ بلکہ کئی ایک مرتبہ میں نے ان کی دعا میں بھی سنا:یااللہ! مجھے اسی مرکز میں موت دینا۔‘‘
اہل وعیال:
آپ کی اہلیہ محترمہ حافظ قرآن، صابرہ ،شاکرہ ، وفاشعار صالحہ خاتون ہیں، جس سے اللہ تعالیٰ آپ کو تین بیٹوں اور ایک بیٹی سےنوازا ہے ، حافظ عبداللہ فاروقی ، حافظ ثناء اللہ فاروقی ، حسین فاروقی اور مریم فاروقی۔
دونوں بڑے بیٹے اور بیٹی حفظ قرآن ، قراءات عشرہ کبریٰ اور درس نظامی مکمل کر چکے ہیں اور بڑے بیٹے حافظ عبداللہ فاروقی یہاں سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، دوسرے نمبر کے بیٹے حافظ ثناء اللہ فاروقی جامعہ سے پڑھ کر یہیں تدریس کررہے ہیں۔
دونوں بیٹوں اور اہلیہ محترمہ نے جس قدر ان کی خدمت کی ہے قابل تحسین ہے، شیخ رحمہ اللہ کے ہفتے میں تین دفعہ گردے واش ہوتے تھے طبیعت میں اتنی نقاہت ہوچکی تھی کہ خود چلنا تو دور کی بات اٹھ کے بیٹھ بھی نہیں سکتے تھے ۔بیٹے حافظ ثناء اللہ اور اہلیہ محترمہ ہی ان کو ہسپتال لے کے جاتے واپس لاتے اور باقی خدمات بھی انجام دیتے تھے ۔اللہ تعالیٰ ان کی سعی کو قبول فرمائے ۔
ایام بیماری اور جامعہ کا حسن سلوک:
شیخ صاحب کے آخری پانچ سال بستر ِعلالت پر گزرے ،یہ کوئی تھوڑا عرصہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے جامعہ البیت العتیق کی انتظامیہ بالخصوص استاد گرامی ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی﷾ (مدیر الجامعہ )کو جنہوں نے شیخ کے علاج معالجہ ا ور گھریلو ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی ۔ (جزاهم الله خيرا )
وفات ،نمازجنازہ اور تدفین:
4ستمبر 2024ء بروزبدھ روٹین کے مطابق شیخ فاروقی صاحب کو گردے واش کروانےکے لیے ہسپتال لےجایا گیا لیکن طبیعت کی خرابی کے باعث اس دن ڈیلسز کاعمل مکمل نہ ہوسکا اور گھر واپس آگئے۔ رات 11؍بجے کے بعد طبیعت مزید بگڑ گئی پھر سنبھل نہ سکی اور پیغام أجل آپہنچا۔رات بارہ بجےکے قریب اپنے خالق حقیقی جاملے ۔إنا لله وإنا إليه راجعون
شیخ کی وصیت کے مطابق ان کے استاد محترم شیخ الحدیث مولانا محمد رمضان سلفی﷾ نے ان کی پہلی نماز جنازہ 5؍ستمبر بروز جمعرات صبح 8بجے جامعہ البیت العتیق میں پڑھائی۔ نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں علماء ومشائخ اور مرحوم کے تلامذہ نے شرکت کی ۔بعد ازاں ان کے جسد خاکی کو جامعہ کی انتظامیہ اور اساتذہ کی معیت میں ان کے آبائی علاقہ بستی گٹ، تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان لے جایا گیا وہاں نماز مغرب کےبعد ان کے فرزند عزیز قاری ثناء اللہ صاحب کی امامت میں ان کی دوسری نماز جنازہ ادا کی گئی اور وہیں ان کو سپرد خاک کردیاگیا ۔
زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو تیرا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو تیرا
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے