اکتوبر 2024ء

کیا بدعتی  شخص کے لیے ﷫کہنا جائز ہے ؟

کیا بدعتی  شخص کے لیے ﷫کہنا جائز ہے ؟

(علامہ البانی  رحمہ اللہ سے سوالات اور ان کے  جوابات)

علامہ محمد ناصر الدین     البانی﷫بیسویں  صدی کے بڑے علماء میں سے ایک تھے ، حدیث کے میدان کے تو وہ شاہ سوار تھے ہی ، محدثین کے دور کے بعد شائد اس میدان میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ ہو ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے  فقہ اور عقیدے کے مسائل میں بھی آپ کو وسعت علم اور   بصیرت عطا فرمائی تھی ۔ منہج سلف پر آپ کی بڑی گہری نظر تھی ۔ مسائل میں منہج سلف کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ علامہ الالبانی﷫ کی آڈیوز میں اس موضوع پر بہت تفصیلی کلام موجود ہے۔ ان آڈیو کیسٹس کو بعض طلبۃ العلم تحریری شکل میں لے آئے ہیں جو تقریباً سترہ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔  اور یہ تفریغ (Transcription)انٹرنیٹ پر آسانی کے ساتھ   دستیاب ہے۔اہل علم  کی مجالس میں غیر اہل حدیث جماعتوں اور اشخاص کے ساتھ  تعامل کے حوالے سے  گفتگو ہوتی رہتی ہے اور علماء کرام میں دونوں موقف رکھنے والے لوگ موجود ہیں، بعض مصالح اور فوائد کی بنیاد پر اس کے حق میں ہیں اور بعض احباب  قدیم فتاویٰ کی بنیاد پر سخت موقف کے حامل ہیں ۔ پچھلے دنوں  فضیلۃ الشیخ محمد رمضان سلفی﷾ سے ایک پروگرام میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ﷫کی کتب خصوصاً تفہیم القرآن کے مطالعہ کے حوالے سے سوال پوچھا گیا ، شیخ محترم نے ان کی تحسین فرمائی ، تو دوسرا گروہ لٹھ لے کر چڑھ دوڑا کہ یہ منہج سلف کے خلاف ہے  کہ ایک بدعتی یا غیر سلفی منہج رکھنے والے عالم کی  تعریف کی جائے یا اس کی کتب کے مطالعہ کی اجازت دی جائے ۔

منہج سلف سخت مزاجی کا نام نہیں ہے بلکہ تحمل و برداشت  اور خصوصاً اجتماعی اور ملی معاملات میں تمام مسلمان گروہوں کو ساتھ لے کر چلنا منہج سلف ہے۔ اسی حوالے سےعلامہ البانی سے بعض مواقع پر طلبۃ العلم نے معاصر  اہل علم ۔ جن کا منہج غیر سلفی ہے یا جن پر بدعات کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔  سے تعامل رکھنے ، ان کی کتاب کامطالعہ کرنے اور ان کے لیے دعا مغفرت کرنے کے  متعلق سوالات پوچھے گئے تھے ۔ شیخ البانی ﷫ نے قرآن وسنت اور منہج سلف کی روشنی میں جو جوابات دیئے ہیں ان سے نہ صرف مسئلہ واضح ہوجاتا ہے ، بلکہ منہج سلف کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے۔عزیز

سوال:

شیخ محترم !  آپ اس شخص کے متعلق  کیا کہیں گے جو غیر سلفی عقیدہ رکھنے والے علماء پر ﷫کا لفظ نہیں بولتا جیسے نووی، ابن حجر، ابن حزم، ابن الجوزی وغیرہ اور معاصرین میں سے سید قطب اور حسن البنا ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ حسن البنا کی کتاب’’ مذکرات الدعوۃ والداعیۃ‘‘ اور سید قطب کی ’’ظلال القرآن‘‘ میں کیا کچھ ہے۔

علامہ البانی:

ہمارا عقیدہ ہے کہ رحمت کی دعا ہر مسلمان کے لیے جائز اور ہر کافر کے لیے حرام ہے۔ اگرکوئی انسان ان لوگوں کو مسلمان سمجھتا ہے تو ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے۔ اگر وہ ان کو مسلمان نہیں سمجھتا تو پھر رحمت کی دعا جائز نہیں۔

سوال:

 وہ لوگ کہتے ہیں کہ سلف کا منہج یہ تھا کہ وہ اہل بدعت پر رحمت کی دعا نہیں کرتے تھے۔ اس لیےہم بھی ایسے لوگوں پر  رحمت کی دعا نہیں کرتے۔

علامہ البانی:

  کیا ان لوگوں پر جنازہ نہیں پڑھا گیا جن کو لوگ اہل بدعت میں شمار کرتے ہیں۔ سلف کے عقائد میں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ ہر نیک اور برے کے پیچھے نماز پڑھی جائے گی، ہاں کافر کا جنازہ نہیں پڑھا جاتا۔

سوال:

 سلف سے منقول ہے کہ وہ اہل بدعت کے ساتھ نماز نہ پڑھتے تھے اورنہ ان کی مجلس نشینی اختیار کرتے تھے، نہ ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور نہ پانی پیتے تھے۔

علامہ البانی:  

جب سلف کسی شخص کے گناہ یا بدعت کی وجہ سے اس سے قطع تعلقی کرتے تھے، تو کیا اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ وہ اس کی تکفیر کرتے تھے۔ میرے بھائی !یہ محض ایک دعویٰ ہے کہ سلف عام بدعتیوں یا ہر بدعتی پر نماز نہیں  پڑھتے تھے۔ لوگوں نے محض جذبات اور علم سے عاری جوش کی  بنیاد پر یہ  مسئلہ بنا لیا ہے۔ مسلمان جیسا بھی ہو، اس کی نماز  جنازہ، وراثت، غسل، کفن اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کا معاملہ ہوگا۔ ہاں کافر کو گٹھلی اور چھلکے کی طرح پھینک دیا جائے گا اور اسے کافروں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

جب کوئی عالم کسی حکمت کی وجہ سے کسی پر جنازہ نہیں پڑھتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پر نمازجنازہ جائز نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص پر نماز  جنازہ نہ پڑھی لیکن صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم اپنے ساتھی پر  نمازجنازہ پڑھ لو۔ تو جس شخص پر کسی عالم کی طرف سے جنازہ نہ پڑھا گیا ہو، کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس پر جنازہ جائز ہی نہیں۔ جب تک ہم کسی کو مسلمان قرار دیتے رہیں گے، اس کے  لیے دعائے رحمت و مغفرت کرتے رہیں گے۔ لوگوں پر رحمت کی دعا کرنے کے دو سبب ہیں:

پہلا سبب یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ اگر وہ بدعتی ہیں تو کیا ان پر حجت قائم کی گئی ہے اور پھر بھی وہ اپنی بدعت اور ضلالت پر اصرار کر رہے ہیں۔

یہ جدید دور کی فحش غلطی ہے کہ کتاب وسنت کو لازم پکڑنے والے نوجوان جہالت کے سبب کتاب و سنت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ نتیجتاً حق تو یہ ہے کہ انہیں بدعتی کا لقب دیا جائے کیونکہ وہ کتاب وسنت کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور ان کا قصد بدعت اختیار کرنے کا نہیں۔ ہم فقط یہی کہیں گے کہ ان سے غلطی ہو رہی ہے اور وہ صواب کی کوشش کر رہے ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ محدثین کا مذہب کتاب و سنت کے سب سے زیادہ قریب ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ محدثین بدعتیوں کی روایت کو قبول کرتے تھے جب وہ ثقہ، صادق اور حافظ ہوں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ کافروں کے زمرے میں نہیں۔

آج کوئی شخص نووی اور ابن حجر جیسا کوئی عالم سامنے لا کر دکھائے۔ اور سید قطب کی ہم عزت کرتے ہیں کیونکہ اس نے جہاد کیا۔ لیکن وہ ایک ادیب کے سوا کچھ نہ تھا، وہ عالم نہیں تھا، اس لیے اس سے کئی باتیں منہج صحیح کے خلاف صادر ہوئیں۔ البتہ نووی اور ابن حجر اور ان جیسے دیگر علماء کو اہل بدعت کہنا ظلم ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اشعری تھے، لیکن انھوں نے کتاب وسنت کی مخالفت کا قصد نہیں کیا، البتہ ان سے غلطی واقع ہوئی ۔

سلف کا یقینی منہج تھا کہ وہ محض معصیت یا بدعت کی وجہ سے کسی شخص کو دائرہ اسلام سے خارج نہ کرتے تھے۔ اوراگر کسی سے کوئی ایسی بات منقول ہے جو اس قاعدے کے مخالف ہے تو وہ قابل تاویل ہے، یعنی ہم اسے تعزیر اور تادیب کے باب سے شمار کریں گے، عقیدے کے باب سے شمار نہ کریں گے۔

بعض اوقات بدعتی سے قطع تعلقی فائدہ کے بجائے زیادہ نقصان کا باعث ہوتی ہے، وہ اپنی بدعت میں زیادہ آگے نکل جاتا ہے۔ اگر ہم اس کے ساتھ تعلق قائم رکھ  کر اس کی اصلاح کریں گے تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ آج اہل سنت کی قوت کا زمانہ نہیں ہے، اگر آج ہم قطع، ہجر اور لوگوں کو بدعتی قرار دینے کا رویہ اختیار کریں گے تو ہمیں پہاڑوں میں جا کر زندگی گزارنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکمت کے ساتھ دعوت دینے کا حکم دیا ہے[1]۔

سید قطب کا حکم

سوال:

 تفسیر ’’ظلال القرآن‘‘  میں سید قطب کہتے ہیں کہ قرآن اسی طرح کا ایک تکوینی مظہر ہے جیسے زمین و آسمان ایک مظہر ہے۔ یہ سورۃ طہ کے شروع میں مذکور ہے۔ شیخ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

علامہ البانی:

  میرے بھائی!  ہم یہ بات کئی دفعہ کر چکے ہیں کہ سید قطب ﷫عالم نہیں تھا۔ وہ محض ایک ادیب اور قلم کار  تھا۔ وہ اسلامی شرعی عقائد کی اچھی تعبیر نہیں کر سکتا تھا، خاص طور پر سلفی عقائد کی۔ اس لیے ہمیں ان معاملات کو زیادہ اچھالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عالم نہیں تھا یعنی کتاب وسنت اور منہج سلف کو زیادہ نہیں جانتا تھا۔ اس کی اکثر تحریریں انشائی بلاغی ہیں نہ کہ علمی، بلکہ سلفی تعبیریں تو بالکل نہیں ہیں۔

جب سید قطب کہتا ہے کہ قرآن ایک کونی مظہر ہے تو گویا وہ قرآن کو اللہ کی حقیقی کلام قرار نہیں دیتا یا اسے اللہ کا مجازی کلام سمجھتا ہے۔ یہ شرعی لحاظ سے غیر سائغ کلام ہے۔ لیکن یہ کاتب کی قرآن کے  متعلق عقیدے کی تعبیر نہیں۔ یعنی کاتب نے جو بات کی ہے، وہ بطور عقیدہ کے نہیں کی بلکہ وہ اپنے بیان میں خطیبانہ یا شاعرانہ اسلوب اختیار کر رہا ہوتا ہے[2]۔

سوال:

کیا سید قطب کی سنت مخالف آرا کا رد کیا جائے گا؟

علامہ البانی:

 ہاں ضرور رد کیا جائے گا لیکن نرمی کے ساتھ نہ کہ غیر ضروری جذباتیت کے ساتھ ۔  رد تو ہر خطا کار شخص کا واجب ہے۔ جو بھی اسلام کی توجیہات میں بدعتی مفاہیم شامل کرے اس کا رد واجب ہے ،لیکن رد کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس سے دشمنی اختیار کریں اور ہم اس کی حسنات بھول جائیں۔ یہ بات کافی ہے کہ وہ مسلمان انسان تھا، اسلامی لکھاری تھا اور وہ اسلام کی دعوت کی راہ میں قتل کیا گیا، قتل کرنے والے اسلام کے دشمن تھے۔ وہ اسلام سے تھوڑا منحرف تھا یا زیادہ ، اس بارے میں میرا اعتقاد یہ ہے کہ وہ مسلمان تھا، اسلام اور مسلمانوں کے متعلق نہایت غیرت مند تھا، وہ اسلام کی اقامت اور دولۃ اسلامیہ  کی اقامت کا خواہش مند تھا۔

 سب سے پہلے میں نے ہی یہ بات کی تھی کہ وہ اپنی تفسیر میں بعض جگہوں پر وحدت الوجود کا قائل نظر آتا ہے۔ اور جب میں نے یہ بات کہی تھی  اس وقت بھی   میں اُسے مسلمان ہی سمجھتا تھا۔ میں اس کی تکفیر کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

سوال:

 کیا لوگوں کو سید قطب کی کتابوں سے اجتناب کی تلقین کی جائے؟۔

علامہ البانی:

 ضرور، جو کتابیں صحیح اسلامی علم و ادب پر مشتمل نہیں ہیں، ان سے ضرور روکا جائے۔[3]

سوال:

بعض نوجوان ان لوگوں کو بدعتی قرار دیتے ہیں جو سیاسی عمل میں مشغولیت اختیار کرتے ہیں۔ کیا کسی ایسے داعی کو بدعتی کہنا جائز ہے جو سیاسی عمل میں مصروف ہو ؟۔مزید  لوگوں کو بدعتی قرار دینے کا شرعی ضابطہ کیا ہے؟۔ بارک الله فیک

علامہ البانی:

 سیاسی عمل میں حصہ لینا مطلق طور پر بدعت نہیں اور نہ ایسا کرنے والے کو بدعتی قرار دیا جائے گا۔ جو وقت سے پہلے سیاسی عمل میں مشغولیت اختیار کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اپنے اجتہاد کے سبب دعوت الی اللہ کے اصول وقواعد کی مخالفت کی ہے۔

دین میں بدعت یہ ہے کہ کوئی مسلمان ایسی عبادت کے ذریعے الله كا  تقرب تلاش کرے جس کی کوئی اصل نہ ہو۔ بدعتی صرف اس لیے بدعت اختیار کرتا ہے، کیونکہ وہ اس کے ذریعے اپنے گمان کے مطابق اللہ کے تقرب میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ بدعتی کی حقیقت ہے۔

جو لوگ آج کل سیاست میں حصہ لیتے ہیں، انھیں بدعتی اس لیے نہیں کہا جائے گا کیونکہ اسلام میں سیاست مطلق طور پر ممنوع نہیں بلکہ یہ تو مامور بہ ہے۔ اور اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا رسالہ السیاسۃ الشرعیۃ كا مطالعہ کافی ہے۔

اصل قضیہ اسلوبِ دعوت کا ہے، ہمارے اعتقاد کے مطابق موجودہ زمانے میں کوئی ایسا اسلامی مقام نہیں جو اپنے فہم میں صحیح سلفی عقیدے اور اولین اسلامی معاشرے کے مشابہ ہو۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی دعاۃ کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح کریں۔ سیاسی عمل میں شرکت اپنے صحیح وقت سے پہلے درست نہیں۔

سیاست میں جو چیز سب سے پہلے ضروری ہے، وہ ایک مسلم خلیفہ کا وجود ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ  کا فرمان ہے کہ جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ اس کی گردن میں بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اس خلیفے کو وجود میں لانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسلامی معاشرہ وجود میں نہ آ جائے۔ اور اسلامی معاشرہ اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتا جب تک ایک سچی پکی مسلمان جماعت وجود میں نہ آ جائے۔ تو یہ ایک زنجیر کی مسلسل کڑیاں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ جو شخص شروع کی کڑیاں چھوڑ کر آخری کڑی تک پہنچنا چاہتا ہے، یعنی خلیفہ وجود میں لانا چاہتا ہے، وہ ایسے ہے جیسے کوئی مینار بنانا چاہتا ہو، لیکن نہ وہ کوئی مضبوط بنیاد تشکیل دیتا ہے اور نہ ہی کوئی مضبوط اساسی تیاری کرتا ہے۔ ایسے کیسے بلند وبالا مینار تعمیر ہو گا۔[4]

سوال:  

 کیا بہت ساری جماعتوں  کا وجود ہی اسلام کی شان و شوکت واپس لانے کا واحد راستہ ہے۔ جماعتوں سے مراد جیسے تبلیغی جماعت، اخوان المسلمون وغیرہ ہیں۔

شیخ البانی:

  بہت ساری جماعتیں جیسے اخوان  صرف سروں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں، ان کا مقصد عقیدہ کی اصلاح نہیں۔ اخوان خوب سمجھتے ہیں کہ سلفی دعوت ہی بلا شک و شبہ برحق دعوت ہے لیکن ان کے خیال میں اس طریقے پر چلنا ایک طویل مشق ہے  جبکہ وہ شارٹ کٹ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔

 رسول اللہ ﷺ  نے ایک خط کھینچا اور اس کے ارد گرد مزید خط کھینچے ، پھرفرمایا کہ یہ درمیان والا خط  مستقیم ہے اور یہ چھوٹے خط گمراہی کے راستے ہیں جو تمھیں اصل راستے سے بھٹکا دیں گے۔ تو خط مستقیم لمبا ہوتا ہے لیکن وہی اللہ کا راستہ ہے اور جنت تک پہنچانے والا واحد راستہ۔ باقی ہر راستے پر شیطان بیٹھا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہا ہے۔

 تو جو جماعتیں سلف صالحین کا طریقہ نہیں اپناتیں، یعنی تصفیہ و تربیہ کو بنیاد نہیں بناتیں، وہ خط مستقیم سے نکل جاتی ہیں۔[5] 

سوال:

 لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ تمام اسلامی جماعتوں کے ساتھ تعاون سے انکار کرتے ہیں ، آپ چاہتے  ہیں  کہ جب تک کلامی اور فقہی  مسائل میں مکمل اتفاق رائے طے نہ پا جائے کوئی تعلق ممکن نہیں۔

شیخ البانی: 

میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ یہ کلام جھوٹ اور بہتان ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ اسلامی جماعتوں کا قیام درست ہے، ہر جماعت کسی نہ کسی سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی میدان میں تخصص رکھتی ہے اور یہ تخصص درست ہے۔ لیکن میں نے ہمیشہ یہ شرط  لگائی کہ کوئی نہ کوئی دائرہ ہو جو ان تمام جماعتوں کو اکٹھا کرے، اور وہ دائرہ سلف صالحین کا طریقہ کار ہے۔  یہی ان کا بنیادی منہج ہونا چاہیے۔ 

آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے کہا تھا ہم سلفی لوگ ہیں، ہم سب سے اہم راستے  پر محنت کریں گے،ہماری محنت ایک خاص مسئلہ پر ہے۔اور   یہ وہ مسئلہ ہے جو قرآن لے کر آیا اور جس کے لیے  تمام رسول مبعوث کیے گئے۔ یہ توحید کا مسئلہ ہے۔ ہم لوگوں کے سامنے مسئلہ توحید کو واضح کرتے رہیں گے حتی کہ یہ تمام انسانوں کے لیے ہر قسم کے شرک سے اور ہر قسم کے بتوں کی پرستش سے  پاک ہو جائے۔

میں نے دعوت دی تھی کہ تمام اسلامی جماعتیں اپنے تمام جھگڑوں اور اختلافات کو قرآن اور سنت کی روشنی میں حل کریں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 

[ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ] [النساء: 59]

’’اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے  اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ۔‘‘

ہم یہ نہیں چاہتے کہ تمام جماعتیں ہماری آرا اور ہمارے اجتہادات کی پابندی کریں، اجتہادی مسائل میں ایک سے زیادہ آرا ممکن ہیں۔ لیکن ہم توحید کی طرف بلاتے ہیں جس میں کوئی دو مسلمان آپس میں اختلاف نہیں کر سکتے، تو جماعتیں کیسے اختلاف کر سکتی ہیں۔

ہم تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے صحیح دین کی طرف لوٹ آئیں اور وہ کتاب وسنت پر کلی اعتماد ہے۔ میں اپنی اس دعوت پر ڈٹا رہوں گا، چاہیے مجھ پر کتنے ہی الزامات اور بہتان لگائے جائیں۔

بہت عرصہ پہلے میں شام میں رہتا تھا، میرے درس میں اخوان، حزب التحریر اور جماعت تبلیغ  کے ارکان  شریک ہوتے تھے، ان میں کئی ایسے ہیں جو میری شاگردی کی تصریح کرتے ہیں اور کئی میرے فضل کا اقرار کرتے ہیں، اس خوب صورت تعلق  کے باوجود یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ہم اسلامی جماعتوں کے دشمن ہیں۔

ہم  جس چیز کی مخالفت کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ کتاب وسنت سے خروج اختیار نہ کیا جائے اور جماعتیں اپنے ارکان کی صحیح تربیت کریں۔  جن مسائل میں قدیم دور سے اختلاف چلا آ رہا ہے ، ان میں ہم اختلاف نہیں کرتے اور نہ کوئی تنقید کرتے ہیں، وہ سائغ اختلافی مسائل میں آزاد ہیں۔ [6]

میری زندگی کتاب وسنت کے علم میں گزری ہے اور اس پر آدھی صدی گزر چکی ہے۔ میں طویل دور سے اسلامی جماعتوں کے ساتھ رہا ہوں۔ میں بہت سارے اخوانی لوگوں کو جانتا ہوں جو عقیدہ اور فکر میں خالص سلفی منہج کے حامل ہیں لیکن شدید افسوس ہے کہ وہ اسے اپنی جماعت میں عملی طور پر منطبق نہیں کرتے اور نہ اس کی اعلانیہ دعوت دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی جماعت اپنے اجتماعی منہج میں انحراف کی حامل بن چکی ہے۔ ان کی ساری محنت اس بات پر ہے کہ لوگوں کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ جمع کیا جائے، پھر انہیں اپنی مخصوص تنظیمی ثقافت سے آگاہ کیا جائے۔ نصف صدی تک ان کا یہی طریقہ کار رائج رہا اور ان کی یہی آواز ہر طرف گونجتی رہی۔ اخوان میں جو لوگ  سلفی ہیں، وہ اپنی ذات کی حد تک سلفی ہیں، وہ جماعتی سطح پر لوگوں کو اس کی دعوت نہیں دیتے۔

اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ اسلامی ریاست قائم ہونی چاہیے لیکن ضروری ہے کہ اس کے وسائل و اسباب بھی شرعی ہوں۔ ہمارے نزدیک پہلے قلوب و اذہان میں علم، عقیدہ، عمل اور اخلاق کی اصلاح قائم ہو گی تو پھر زمین پر ریاست بھی قائم ہو گی ۔[7]

سوال:

  کیا موجودہ اسلامی جماعتیں ایک دوسری کی تکمیل کرتی ہیں، کیا ان کا وجود خیر ہے اور ان کا مابین تعاون ہونا چاہیے اور کیا ان کا باہمی اختلاف ویسا ہی ہے جیسا مذاہب اربعہ کے مابین ہے۔

شیخ البانی:

  اسلامی جماعتیں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں، لیکن یہ اس وقت ہے جب ان کا منہج ایک ہو، عقیدہ ایک ہو اور مرجع کتاب و سنت ہو۔ ہاں اگر ان میں شرک کی خرابیاں ہوں تو پھر وہ ایک دوسرے کی تکمیل نہیں کرتیں۔ اگر ہمارے مسلمان بھائی کلمہ لا اله الا الله  کا معنی نہ سمجھیں اور توحید کو صرف ربوبیت میں محصور قرار دیں اور انھیں الوہیت اور اسماء وصفات کا کچھ  پتہ نہ ہو تو ہم اپنے بھائیوں کو اندھی گمراہی میں چھوڑ کر سوشلسٹوں، کمیونسٹوں اور دہریوں کے خلاف جنگ میں کود جائیں۔ ملحدوں سے جنگ کرنا درست ہے لیکن ہم کن لوگوں کے بل بوتے پر یہ جنگ لڑیں، کیا ان لوگوں کو ساتھ لے کر جنگ لڑیں جو حقیقت میں مشرک ہیں اور نام کے مسلمان ہیں اور ابھی تک ایمان کی حقیقت ان کے دل میں داخل نہیں ہوئی۔ یہ جنگ کیسے جیتی جاسکے گی!!

 جب ہم کہتے ہیں کہ اسلامی جماعتیں ایک دوسری کی تکمیل کرتی ہیں تو یہ بات درست ہے لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا منہج، ان کی دعوت، ان کا عقیدہ اور ان کا مرجع ایک ہو۔ جب اسلامی جماعتوں کو صحیح اور ضعیف حدیث کا علم ہی نہ ہو گا تو انہیں سنت اور بدعت کا علم کیسے ہو گا۔ ایسی صورت حال میں دولت اسلام کیسے قائم ہو گی، کیا دولت اسلام علم پر قائم ہو گی یا جہالت پر۔ یہ عجیب تناقض ہے، کبھی دگرگوں حالات دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ شاید اسلامی پارٹیاں اسلام کی دعوت میں مخلص ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ اسلام کے فہم کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتیں۔ اللہ نے تو ہمارے لیے اسلام کے فہم کو آسان کیا ہے، لیکن وہ سمجھنے سے انکار کرتی ہیں۔

دمشق میں ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میرے بعض دوستوں نے میرا نام اخوان کے سامنے پیش کیا کہ اس شخص کو اخوان میں شامل کر لیا جائے۔ انہوں نے انکار کر دیا، کہنے لگے کہ یہ شخص وہابی ہے اور یہ قرآن وسنت کی دعوت دینے لگ جائے گا۔

میں اخوان کے بعض ایسے رہنمائوں کو بھی جانتا ہوں جو بذات خود سلفی عقیدے کے ہیں، لیکن جب کسی صوفی شیخ سے ملتے ہیں تو اس کے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہیں، یہ ان کی سیاست ہے جو انہیں یہ سب کچھ سکھاتی ہے۔ ہم اس قسم کی عاجزی کو روا نہیں سمجھتے۔ ابن عبد البر نے کتنی پیاری بات کی ہے کہ کسی کے ہاتھ چومنا ایک قسم کا چھوٹا سجدہ ہے۔

آپ کو اخوان کے اندر باقاعدہ مضبوط شرعی عالم نہیں ملیں گے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر جماعت میں علوم شرعیہ کا ماہر عالم ہو گا تو وہ حق کی دعوت دے گا اور حق کی دعوت ان کو نقصان دے گی۔ حق کی دعوت  ان کی مصلحت اندیش سیاسی صف کو توڑے گی اور وہ چاہتے ہیں کہ افراد سیاست کے نام پر زیادہ سے زیادہ اکٹھے ہوں۔

 ہماری دعوت اور اخوانی دعوت میں فرق یہ ہے کہ ہم پہلے تعلیم دیتے ہیں اور پھر اپنے ساتھ جوڑتے ہیں جبکہ اخوانی پہلے اپنے ساتھ جوڑتے ہیں پھر اپنی مخصوص تعلیم دیتے ہیں (جو ہمہ گیر اور جامع نہیں ہوتی)۔

یہ لوگ عقیدہ توحید، سنت،  عبادت اور اخلاق پر تو محنت کرتے نہیں، البتہ  سیاست پر خوب محنت کرتے ہیں۔ صحیح لفظ بولیں تو یہ صرف اقتدار چاہتے ہیں۔ یہ کرسی پر بیٹھ کر کیسے حکومت کریں گے۔ کیا یہ اسلام کے ساتھ حکومت کریں گے جس کی مکمل حقیقت کو یہ خود نہیں سمجھتے۔ [8]

 

[1]     استفادہ و تلخیص از جامع تراث العلامۃ الالبانی فی المنہج: 6؍ 154 تا 169

[2]     استفادہ از جامع تراث العلامۃ الالبانی فی المنہج: 3؍ 358

[3]              استفادہ از حوالہ مذکور:   358 تا 362

[4]     استفادہ از جامع تراث العلامۃ الالبانی فی المنہج :3؍ 14

[5]              جامع تراث الالبانی فی المنہج: 2؍ 425 تا 426

[6]              استفادہ ازجامع تراث الالبانی فی المنہج  : 2  ؍480 تا 481

[7]              تلخیص از جامع تراث الالبانی فی المنہج۔2   ؍ 434 تا 436

[8]              تلخیص از جامع تراث الالبانی فی المنہج: 2 ؍ 461 تا 465