علم اختلاف الحدیث کا روشن پہلو
السنہ والحدیث ڈاکٹر ملک کامران طاہر[1]
علم اختلاف الحدیث کا روشن پہلو
جمع متونِ حدیث کےتدوینی مراحل اور انضمام جزئیات کی صورت
حدیث خبر واحد ہو یا متواتر ، دونوں صورتوں میں نبی ؐ کے قول و فعل اور تقریر کی خبر صحابی ہی دیتا ہے ، اس لئے فنی طور پر کتب حدیث میں روایات کی گنتی یا معیار کی انتہا صحابی رسول ؐ پر مبنی ہوتی ہے۔ قرآن کریم تو کلام الہی ہے جبکہ احادیث کی اصل نسبت رسول کریم ﷺ کی طرف ہوتی ہے اگرچہ وہ نسبت کے معصوم ہونے کے ناطے مراد الہی کہلاتی ہیں ۔صحابہ کرام ؓ نے نبی کریم ؐ کے بارے میں جو خبریں دیں ، ان کا ثبوت ان طرق پر مبنی ہوتا تھا جو روایات کی صورت صحابی تک پہنچتی تھیں۔ امام شافعی کی’ کتاب اختلاف الحدیث ‘معروف ہے انہوں نے مختلف روایات حدیث کو جمع و تطبیق کے ذریعے زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے گواہان کی طرح قرار دیا ہے کہ متعدد خبر دینے والوں کے ذریعے کس طرح واقعات کی تکمیل ہوتی ہے؟ دورِ تقلید میں عام لوگوں کی تقلید کا دار ومدار عقیدتِ امام پر ہوتا ہے ،اس لئے انہیں دھڑوں میں تقسیم کرنے والوں نے انہی روایات میں سے اپنے مطلب کی روایت کو اختیار کر کے تقلید کا جواز بنا لیا ہے۔ اس لئے اب یہ موضوع ’اختلاف الحدیث‘ کہلاتا ہے حالانکہ روایات کا تعدد عوام کے لیے فرقہ پرستی کی بجائے واقعات کی تکمیل کا اہم ذریعہ ہوتا ہے اور یہ علم’اختلاف الحدیث ‘ کا روشن پہلو ہے ۔ مقالہ نگار نے اسی روشن پہلو کو اجاگر کرنے کے لئے جمع متون حدیث کے تدوینی مراحل اور انضمام جزئیات کی صورت محدثین کی کاوشوں کا احاطہ کرنے کی تحقیقی محنت کی ہے تا کہ اس خدمت ِحدیث کو فرقہ بندی کی بجائے و حدتِ ملت کا اہم ذریعہ بنایا جا سکے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے ۔ آمین ثم آمین(محدث) |
سنت رسول ﷺ کے تعین کے لیے ’محدثین‘ نے فن حدیث کا ایک خاص اسلوب اختیار کیا ہے ، یہ کہ عموماً وہ تمام احادیث اور روایاتِ حدیث اکٹھی کر لیتے ہیں جو کسی ہدایت نبویﷺیا آپ کے زمانے میں پیش آنےوالے مخصوص واقعہ سے متعلق ہوتی ہیں ۔ یہ کام بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے تفتیشی پولیس یا عدالت کسی وقوعہ جرم یا نزاع کی تصدیق یا نوعیت معلوم کرنے کے لیے متعدد گواہان کے بیان سے کام لیتی ہے -نصوص سے استدلال اور فہم کے اختلاف سے نظریات کا مختلف ہونا لازمی امر ہے مسلمانوں کے درمیان اسلامی احکام میں مختلف آراء اور رویے پائے جاتے ہیں بسا اوقات یہ نظریات ایک دوسرے کی ضد دکھائی دیتے ہیں ان اختلافات کی ایک نوعیت متون حدیث میں الفاظ کی کمی و زیادتی ہے جس کی وجہ سے استنباط مسائل میں حکم مختلف ہوجاتا ہے ۔کسی حدیث کی عبارت یا واقعہ کی پوری تصویر موازنہ کےلیے اگر سامنے نہ ہوگی اس وقت تک اخذ مسائل میں درست سمت اور نتیجہ محال ہوگا اسی ضرورت کو سمجھتے ہوئے محدثین نے متون کو ایک جگہ جمع کرنے کی مختلف ادوار میں اپنی اپنی بساط کے مطابق کوشش کی اور اہل تحقیق و علمائے امت کے لیےمکمل نصوص ترتیب دیں جس سے استخراج مسائل و احکام آسان ہوا۔لہٰذا محدثین نے مختلف ادوار میں احادیث رسولؐ کے متون کو اکٹھا کیا جس میں پہلا دور اسناد کے ساتھ متون کی کتب لکھی گئیں ، دوسرے مرحلہ میں اسناد کے بغیر متون ایک جگہ پہ جمع کئے گئے ۔ تیسرے مرحلے میں متون کی جزئیات کو محدود پیمانے پہ یکجا کیا گیا ، چوتھے اور آخری مرحلے میں ایک واقعہ یا حدیث کے تمام تر پہلؤوں کو اکٹھا کرکے واقعاتی ترتیب کو عمل میں لایا گیا۔ زیر نظر تحریر میں جمع المتون کے مذکورہ مراحل کا اختصاصی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔
جمع المتون کی اہمیت و ضرورت :
امام احمد بن حنبل (241ھ)فرماتےہیں :
الحديث إذا لم تجمع طرقه لم تفهمه والحديث يفسر بعضه بعضا [2]
’’جب تک حدیث کے تمام طرق جمع نہ ہوں اسے سمجھا نہیں جاسکتا کیونکہ حدیث کا ایک حصہ دوسرے کی تفسیر کرتا ہے ۔‘‘
امام المدینی (234ھ)فرماتےہیں :
الباب إذا لم تجمع طرقه، لم يتبين خطؤه [3]
’’ کسی موضوع کے جب تک طرق اکٹھے نہ ہوں تو اس کے پہلو و اضح نہیں ہوتے ۔ ‘‘
ابراہیم بن سعید الجوہری (244ھ) فرماتےہیں :
كل حديث لا يكون عندي من مائة وجه فانا فيه يتيم [4]
’’ جو حدیث سو وجوہ سے میرے پاس نہ ہو تو ( میں سمجھتا ہوں کہ ) میں اس میں یتیم ہوں ‘‘
ابو حاتم الرازی (277ھ) فرماتے ہیں :
لو لم يكتب الحديث من ستين وجها ما عقلناه [5]
’’جب تک کوئی حدیث ساٹھ وجوہ سے نہ لکھی جائے ہم اسے نہیں سمجھ سکتے ۔‘‘
اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
ما رأيت على وجه الأرض من يحسن صناعة السنن ويحفظ ألفاظها الصحاح ويقوم بزيادة كل لفظةزاد ها في الخبر ثقة حتى كأن السنن كلها بين عينيه إلا محمد بن إسحاق بن خزيمة فقط [6]
’’میں نے محمد بن اسحاق بن خزیمہ کے علاوہ روئے زمین پہ کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو سنن کے فن کو اچھا کرتا ہو اور صحاح کے الفاظ کو یاد رکھتا ہو ، اور ہر اس لفظ کی زیادتی جو ایک ثقہ راوی نے خبر میں کی ہے اسے اس طرح قائم کرتا ہو گویا سب کی سب سنن اس کی آنکھوں کے سامنے ہو ‘‘
ابراہیم الحربی (285ھ)کہتےہیں:
’’میں نے المسیبی سے سنا انہوں نے کہا ہم نے واقدی کو مدینہ میں مسجد نبوی میں ستون سے ٹیک لگائے درس دیتے دیکھا ۔ہم نے انہیں کہا : آپ کس چیز کا درس دے رہے ہیں ؟تو انہوں نے کہا : ’مغازی ‘کے ایک جز کا ۔ ہم نے انہیں کہا کاش ! آپ ہمیں ہر راوی کی علیحدہ حدیث بیان کریں ! تو انہوں نے کہا طویل ہو جائے گا ۔ ہم نے انہیں کہا ہم راضی ہیں ۔ وہ ہم سے ایک جمعہ غائب رہے پھر ہمارے پاس اکیس جلدیں لائے برمکی کی حدیث میں سو جلدوں کا ذکر ہے۔ تو ہم نے انہیں کہا آپ ہمیں پہلے معاملے کی طرف ہی لوٹائیں ‘‘ [7]
امام شاطبى(454ھ)کہتےہیں:
ومدار الغلط في هذا الفصل إنما هو على حرف واحد، وهو الجهل بمقاصد الشرع، وعدم ضم أطرافه بعضها ببعض، فإن مأخذ الأدلة عند الأئمة الراسخين إنما هو على أن تؤخذ الشريعة كالصورة الواحدة بحسب ما ثبت من كلياتها وجزئياتها المرتبة عليها[8]
’’اس فصل میں غلطی کا دارو مدار ایک چیز پر ہے اور وہ یہ ہے کہ مقاصد شریعہ سے جہالت اور شرع کے مختلف اطراف کو ایک دوسرے سے نہ ملانا۔ آئمہ راسخین کے ہاں ماخذ ادلہ یہ ہیں کہ شریعت کو کلیات و جزئیات کے ثبوت کے ساتھ ایک ہی صورت میں لیا جائے ‘‘
خطیب بغدادی (463ھ) فرماتےہیں :
قل ما يتمهر في علم الحديث ويقف على غوامضه ويستثير الخفي من فوائده إلا من جمع متفرقه وألف متشتته وضم بعضه إلى بعض واشتغل بتصنيف أبوابه وترتيب أصنافه[9]
’’ایسے لوگ بہت کم ہیں جو علم حدیث میں مہارت رکھتے ہوں اور اس کے غموض سے واقف ہوں اور اس کے فوائد کے مخفی پہلوؤں کو ظاہر کرسکتے ہوں مگر (یہ وہ ہی کرسکتا ہے ) جو حدیث کے متفرقات کو جمع کرلے اور مختلف حصوں کو لکھ لے اور اس کے ایک کو دوسرے میں ضم کردے اور اس کے ابواب کی تصنیف اور اصناف کی ترتیب میں مشغول ہو جائے‘‘
حافظ ابن حجر(852ھ) لکھتے ہیں :
أن بعض الرواة يختصر الحديث وأن المتعين على من يتكلم على الأحاديث أن يجمع طرقها ثم يجمع ألفاظ المتون إذا صحت الطرق ويشرحها على أنه حديث واحد فإن الحديث أولى ما فسر بالحديث[10]
’’بعض رواۃ ،حدیث کا اختصار کردیتے ہیں اوربے شک احادیث پر گفتگو کرنے والے پر متعین بات یہی ہے کہ وہ ان کے طرق جمع کرے ،متون کے الفاظ کو یکجا کرے اورجب طرق کی تصحیح ہو جائے تو اسے ایک ہی حدیث کے طور پر اسکی تشریح کرے ۔ بے شک حدیث کی بہترین تفسیر وہ ہے جو حدیث سے کی جائے ۔ ‘‘
متون الحدیث کے تدوینی مراحل
متون حدیث کی تدوین کےادوار کو چار مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
پہلا مرحلہ : مع اسناد متون کا اندراج :
ا ن کی مثال معروف کتب احادیث بخاری ، مسلم ،ابوداؤد ، ترمذی ،ابن ماجہ ، نسائی ،مسانیدو مصنفات وغیرہ ہیں جن میں محدثین نے مکررات کو الگ متن اور سند کے ساتھ اپنے اپنے مقام پر ذکر کیا ہے ۔
دوسرا مرحلہ : مختلف کتب احادیث کے متون کو ایک جگہ جمع کرنا:
دوسرا مرحلہ احادیث کےمتون کو ایک جگہ جمع کرنا تھا۔ جس میں مرتبین امہات الکتب میں وارد شدہ احادیث کے متون کوایک ہی جگہ جمع کر دیتے ہیں ان میں جمع الجوامع کی کتب شامل ہیں ۔
= جمع الجوامع :
= كتاب رزین:
رزین بن معاویہ عبدری (535ھ) کے مختلف کتب کی احادیث کو ایک جگہ جمع کرنے کی یہ ایک اہم کاوش تھی اس میں امام صاحب نے کتب ستہ: صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، جامع ترمذی، سنن نسائی اوراس کے علاوہ موطا امام مالک کی روایات کو جمع کیا اور اختصار کرتے ہوئےمکرر احادیث کو حذف کردیا، پھر انہیں فقہی ابواب میں ترتیب دیا ۔
= جامع الاصول فی احادیث الرسول:
یہ کتاب ابو سعادات مبارک بن محمد شیبانی المعروف بابن اثیر الجزری (606ھ) کی ہے، جو 15 مجلدات پر مشتمل ہے، جس میں 9523 احادیث جمع کی گئی ہیں۔ یہ کتاب در اصل ابو الحسن رزین بن معاویہ بن عمار عبدری (535ھ)کی کتاب کی تہذیب ہے ۔
= جامع السنن والمسانيد:
یہ کتاب حافظ اسمعیل بن کثیر قرشی دمشقی (م774ھ) کا مایہ ناز علمی شاہکار ہے ،اس میں حدیث کی دس بڑی کتب: مسند احمد،صحیح بخاری،صحیح مسلم،سنن ابی داود، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، معجم کبیر طبرانی، مسند بزار اور مسند ابی یعلیٰ کی احادیث کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہے، بسا اوقات ان کتب کے علاوہ دیگر کتب کی احادیث بھی وارد کردیتےہیں جن میں حلیۃ الاولیا ء لابی نعیم ،کتاب الاصول لابن ابی الدنیا،اسد الغابہ لابن الاثیر اور الاصابہ لابن حجر شامل ہیں مسند کی طرز پر جمع شدہ اس عظیم کتاب کی حافظ ابن کثیر کی تیار کردہ جلدوں کی تعداد 37 اور اضافہ شدہ جلدوں کی تعداد تین ہے، یہ کل جلدیں 40 بنتی ہیں۔
= الجامع الكبير:
یہ کتاب بھی امام سیوطی کی مرتب کردہ ہے اس کی احادیث کی تعداد46624 ہے اور اس کتاب میں انہوں نے نبی ﷺ کی قولی وفعلی احادیث کو بالاستیعاب جمع کرنےکی انتھک کوشش کی ہے۔ان کی یہ کتاب تجمیع احادیث کا ایک عظیم شاہکار ہے۔
= الجامع الصغیر :
یہ کتاب حافظ جلال الدین ابوالفضل بن ابی بکر بن محمد بن سابق سیوطی (911ھ)کا3 مجلدات اور 14662 احادیث پر مشتمل مجموعہ ہے۔ متون احادیث میں یہ ایک جامع کتاب کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
= كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال:
علامہ علی بن حسام الدین عبد الملک بن قاضی خان متقی ہندی(975ھ) نے اس کتاب کو مرتب کیا یہ 18 مجلدات پر مشتمل ہے یہ کتاب دراصل امام سیوطی کی تین کتب الجامع الکبیر، الجامع الصغیر اور زیادۃ الجامع کا مجموعہ ہے جسے مؤلف نے فقہی ترتیب پر بغیر کسی کمی بیشی کے مرتب کیا ہے۔
تیسرا مرحلہ:متون کی محدود واقعاتی ترتیب :
متون کے ایک جگہ جمع کرنے کی تیسری صورت یہ تھی کہ متون کی جزئیات و زوائد جوکہ مختلف کتب میں مختلف مقامات پر بکھرے پڑے ہیں انہیں ایک متن میں سیاق و سباق کا خیال رکھتے ہوئے جمع کر دینا ہے ۔اس کی افادیت کو سمجھا گیا اور محدثین اس صورت کو محدود صورت میں دائرہ عمل میں لائے ۔
علامہ البانی (1420ھ)ایک حدیث کے متن کو ذکر کرتے ہیں :
إن ملك الموت كان يأتي الناس عيانا، حتى أتى موسى عليه السلام، فقال له: أجب ربك، قال: فلطم موسى عليه السلام، عين ملك الموت ففقأها، فرجع الملك إلى الله تعالى، فقال: [يا رب!] إنك أرسلتني إلى عبد لك لايريد الموت، وقد فقأ عيني، [ولولا كرامته عليك لشققت عليه] . قال: فرد الله إليه عينه، وقال: ارجع إلى عبدي فقل: الحياة تريد؟ فإن كنت تريد الحياة؛ فضع يدك على متن ثور، فما توارت يدك من شعرة؛ فإنك تعيش بها سنة، قال: [أي رب!] ثم مه؟ قال: ثم تموت، قال: فالآن من قريب، رب! أمتني من الأرض المقدسة رمية بحجر! [قال: فشمه شمة فقبض روحه، قال: فجاء بعد ذلك إلى الناس خفيا] . قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:والله! لو أني عنده لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند (وفي طريق: تحت) الكثيب الأحمر)[11]
اس کے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
هذا الحديث من الأحاديث الصحيحة المشهورة التي أخرجها الشيخان من طرق عن أبي هريرة رضي الله عنه وتلقته الأمة بالقبول، وقد جمعت ألفاظها والزيادات التي وقعت فيهاوسقتها لك سياقا واحدا كما ترى؛ لتأخذالقصة كاملة بجميع فوائدها المتفرقة في بطون مصادرها، الأمر الذي يساعدك على فهمها فهما صحيحا، لا إشكال فيه ولا شبهة، فتسلم لقول رسول الله- صلى الله عليه وسلم – تسليما
والطرق عنه ثلاثة:الأولى: عن طاوس عن أبي هريرة: أخرجه الشيخان وغيرهما، وعندهما الزيادة الثالثة، وهي الطريق المشار إليهافي آخر الحديث.
الثانية: عن همام عنه. أخرجاه أيضا وغيرهما، والسياق لمسلم، وهو أتم.
الثالثة: عن عمار بن أبي عمار قال: سمعت أبا هريرة يقول... أخرجه أحمد، وابن جرير الطبري في "التاريخ "، وإسناده صحيح،وهو الطريق المشار إليه في أول الحديث، وفيه كل الزيادات إلا الثالثة [12]
’’ یہ مشہور احادیث میں سے ایک ہے جسے شیخین نے حضرت ابو ہریرؓہ کے طریق سے تخریج کیا ہے اور اسے امت کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے ۔میں نے اس کے الفاظ اور اس میں پائے جانے والی زیادات کو اکٹھا کر کے ایک ہی سیاق میں انہیں ترتیب دیدیا ہے جس طرح کہ آپ دیکھ رہے ہیں ۔ تاکہ آپ کو اپنے تمام فوائد کے ساتھ مکمل قصہ ایک مقام پرمل سکے جو مصادر میں مختلف جگہوں پربکھرا ہوا تھا ۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ جو تجھے تیری راست تفہیم میں معاون ثابت ہوگا اور کسی قسم کا اشکال و شبہہ نہیں ہوگا ۔ پس تو رسول اللہ ﷺ کی بات پہ راضی ہوجا۔
مذکورہ روایت میں تین طرق ہیں پہلا یہ کہ ابی هريرة عن طاؤس جو کہ شیخین و غیر ہما نے تخریج کی ہے اور ان کے نزدیک تیسری زیادت جس کی طرف حدیث کے آخر میں اشارہ کیا گیا ہے دوسر ا طریق عن أبي هريرة عن همامہے اسے بھی شیخین وغیرہما نے تخریج کیا ہے جبکہ سیاق مسلم کا ہے اور وہ مکمل ہے۔
اسی طرح تیسرا طریق عن عمار بن ابی عماره قال سمعت اباهریرة یقول .... سے ہے اسے احمدنے(مسند میں ) اور ابن جریر الطبری نےاپنی تاریخ میں تخریج کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ پہلی حدیث میں اسی سند کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس میں تیسر پہرے کے علاوہ سب زیادات ہیں‘‘
اس مرحلہ میں لکھی جانے والی کتب :
= الجمع بین الصحیحین:
یہ کتاب ابو عبداللہ محمد بن ابی نصر فتوح ابن عبداللہ الحمیدی کی کاوش ہے جو اندلس کے جزیرہ میوسقہ کے اندر (811ھ) میں پیدا ہوئے[13] ۔ میں امام صاحب نے محمد بن اسماعیل البخاری (256ھ) اور مسلم بن حجاج ( 261ھ) کی تالیفات کی روایات کوجمع کیا ہے امام صاحب نے اس کتاب میں صحیحین کی مشترک روایات کے متون کو متن واحد میں اختیاری ترتیب کے ساتھ جمع کر دیا ہے ۔ اس کتاب کےمنہج سے متعلق محقق علی حسین لکھتے ہیں :
ومنهاج أبى عبدالله فى جمع المتون المتقاربة يحذف كثيرا من الأحاديث المكروة أو المتقاربة الألفاظ ،التى لم ير فيها زيادة تستحق التنبيه كما جمله هذا الملك على أن يجمع أحاديث طويلة جدا فى مكان واحد: كحديث السقيفة، و حديث اعتزال النبى صلى الله عليه وسلم نساء، وحديث جابر والجمل ،وحديث عائشة في الحج والحيضة،وحديث الإفك، وحديث الهجرة وغيرها مما شغل كل حديث منها بضع صفحات.وإذا كان الغرض الرئيس للكتاب والمؤلف جمع الصحيحين و ترتيبهما، وهذا عمل ليس باليسير،وفيه جهد كبير في تجميع الروايات و ترتيبها وعرضها إلا أن للحميدى فى الكتاب عملا وجهودا كثيرة ولم يتوقف عند ما ذكرناه: فهويورد رواية للحديث ثم يقارنها بسائر الروايات وبيين ما بينها من زيادات أو اختلافات أو مشابهة فى بعض عبارات[14]
’’ابو عبداللہ کا متقارب متون کو جمع کرنے میں یہ منہج رہا ہے کہ انہوں نے احادیث کے اکثر مکررات اور متقارب الفاظ جنہیں وہ تنبیہ میں زیادت تصور نہیں کرتے انہیں حذف کردیا ہے ، جس طرح کہ انہوں نے خوبصورتی سے اس کام کو سر انجام دیا ہےکہ طویل تر احادیث کو ایک جگہ پر جمع کردیا مثلا: حدیث السقیفة ، حدیث اعتزال النبی ﷺ نساء، حدیث جابر والجمل ، حدیث عائشة فی الحج و الحیضة ، حدیث الافک اور ہجرت وغیرہ ان میں ہر حدیث چند صفحات پر مشتمل ہے ۔کتاب لکھنے کی بنیادی غرض یہی تھی جس کے لیے مولف نے صحیحین کو جمع کیا اور ترتیب دیا ۔ یہ کام آسان نہ تھا روایات کو جمع کرنا ، ترتیب دینا اور پیش کرنا ایک بڑی کاوش تھی مگر حمیدی نے یہ کام اس کتاب میں بڑی جدو جہد کے ساتھ ذرا توقف نہیں برتا ۔وہ حدیث کی روایت لاتے ہیں پھر تمام روایات کا مقارنہ کرتے ہیں اس کی بعض عبارتوں میں زیادات ، اختلافات اور مشابہات کو بیان کرتے دیتے ہیں‘‘
متون کی واقعاتی اختیاری ترتیب کی یہ پہلی کاوش تھی جوبخاری و مسلم کی احادیث کے متون كو متن واحد میں جمع کیا گیا:
مثال:
عن عبد الله بن أبي قتادة عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا أقيمت الصلاة فلا تقوموا حتى تروني[15]وأخرجه مسلم أيضا من حديث أبي سلمة عن أبي قتادة بمثله وفي رواية إسحاق بن إبراهيم:حتى تروني قدخرجت[16]وهوعند البخاري[17]في حديث شيبان وعلي بن المبارك: وعليكم السكينة [18]
’’عبداللہ بن ابی قتادہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انھوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہوا کرو جب تک مجھے نہ دیکھ لو اسی طرح کے الفاظ مسلم نے ابو سلمہ عن ابی قتادہ روایت کیے ہیں اور اسحاق بن ابراہیم کی روایت میں ہے حتی کہ مجھے نکلتا دیکھ لو۔اور بخاری میں شیبان اور علی بن مبارک کی حدیث میں ہے : اور تم سکون کو لازم پکڑو ‘‘
مذکورہ بالا کتاب میں امام صاحب نے صرف وہ احادیث نقل کی ہیں جس میں بخاری و مسلم کی روایات متفق علیہ تھیں ان کےمتون کے جمع کے وقت جزئیات کی ترتیب کا خیال رکھا ہے،لیکن متون حدیث کے جمع کے وقت ساتھ ساتھ بخار ی و مسلم کےجز کی نشاندہی بھی کر دیتے ہیں گویا یہ متن واحد میں دو کتابوں کی مشترکہ حدیث کےمجمع کاابتدائی کام تھا۔
= اقضية الرسول ﷺ:
یہ کتاب ابو عبداللہ محمد بن فرج المالکی المعروف ابن الطلاع (497ھ ) کی ہے جو محمد ضیاء الرحمان اعظمی کی تحقیق و تعلیق کے ساتھ قاہرہ سے چھپ چکی ہے۔ اس میں مرتب نے واقعہ نگاری کرتے ہوئے نبی ﷺ کے فیصلو ں کے بارے مختلف متون کو ان کی جزئیات کے ادغام کے ساتھ ایک جگہ اکٹھا کر دیا ہے اور یہ اس نوعیت کا پہلا کام تھا ،لیکن واقعات کی جزئیات مکمل نظر نہیں آتیں ۔مصنف نے اس کتاب میں ایک روایت کےمختلف کتب میں منتشر متون کو ایک ہی متن میں جمع کر دیا ہے اگرچہ اس کی ترتیب بھی واقعہ نگاری کےساتھ ہے،لیکن مصنف نےاس میں دوران ترتیب جزئیات و زوائد کی ترتیب کاری میں مظنات متون کو بھی ساتھ ساتھ ذکر کیا ہے ۔
مثال :
حكم ﷺ في الثيب کے عنوان کے تحت یہ روایت نقل کرتے ہیں :
يزوجها أبوها بغير رضاهافي الموطأ والبخاري ومسلم والنسائي ومصنف عبد الرزاق عن خنساء ابنة خذام الأنصارية: أن أباها زوجها وهي ثيب، فكرهت ذلك فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فرد نكاحه» [19]ووقع في مصنف عبد الرزاق أنها تزوجت بعده أبا لبابة الأنصاري. وكنية خِذَامٍ: أبو وريعة [20]ووقع أيضا فيه عن مهاجر بن عكرمة: أن بكرا أنكحها أبوها- وهي كارهة- فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم فرد إليها أمرها [21]. وحدثنا ابن جريج عن أيوب عن عكرمة، وعن يحيى بن أبي كثير: أن ثيبا وبكرا أنكحهما أبوهما- وهما كارهتان- فجاءتا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فرد نكاحهما[22] وعن عبد الله بن بريدة أنه قال: جاءت امرأة بكر إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن أبي زوجني ابن أخ له يرفع خسيسته بي، ولم يستأمرني فهل لي في نفسي أمر؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نعم» . فقالت له: ما كنت لأرد على أبي شيئا صنعه، ولكن أحببت أن تعلم النساء أن لهن في أنفسهن أمرا أم لا وفيه أيضا وفي الواضحة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أراد أن يزوج امرأة من بناته جاء إلى الخدر فقال: «إن فلانا يخطب فلانة» . فإن حركت الخدر لم يزوجها. وقال في الواضحة: فإن طعنت في الستر بأصبعيها لم يزوجها، وإن سكتت زوجها [23]
’’موطا ، بخاری ، مسلم ، نسائی اور مصنف عبدالرزاق میں خنساء بنت خذام انصاریہ سے روایت ہے کہ اس کے باپ نے اس کی شادی کردی اور وہ ثیبہ تھی ، اس نے اسے ناپسند کیا اور رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئی تو آپﷺ نے اس کا نکاح فسخ کردیا ۔مصنف عبدالرزاق ہی میں ہے کہ اس نے بعد میں ابو لبابہ انصاری سے شادی کرلی۔ خذام کی کنیت ابو وریعہ تھی۔ اسی طرح مہاجر بن عکرمہ سے روایت ہےکہ ایک کنواری لڑکی کے باپ نے اس کی شادی کردی اور وہ اس کو ناپسند کرتی تھی تو وہ نبیﷺ کے پاس آئی تو آپؐ نے اس معاملہ کا اختیار اس کے سپرد کر دیا۔ ہمیں ابن جریج نے ایوب سے انہوں نے عکرمہ سے ، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کی ہے کہ ایک ثیبہ اور کنواری دونوں کا نکاح ان کے باپوں نے ان کی رضامندی کے بغیر کردیا تو وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں آپ ﷺ نے ان دونوں کو نکاح میں اختیار دیدیا۔عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اس نے کہا اللہ کے رسولﷺ! میرے باپ نے میری شادی اپنے بھتیجے سے کردی ہے اور وہ میری وجہ سے عزت پانا چاہتا ہے یعنی وہ لالچی ہے ۔اور مجھ سے مشورہ بھی نہیں کیا تو کیا میرے لیے کو ئی راہ ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا :ہاں تو اس نے کہا میرے باپ نے جو کردیا میں اس کو رد نہیں کرنا چاہتی ،لیکن میں نے پسند کیا کہ عورتیں جان لیں ان کے ہاتھ میں اختیار ہے یا نہیں ( اسی طرح اور ہے کہ) بےشک رسول اللہ ﷺ جب اپنی بیٹیوں میں سے کسی کی شادی کا ارادہ کرتے تو اس کے خیمےکی طرف آتے اور فرماتے بے شک فلاں نے فلانہ کو نکاح کا پیغام بھیجا ہے پس اگر وہ خیمہ حرکت کرتا تو اس کی شادی نہ کرتے ۔(اور اسی طرح یہ بھی ہے کہ ) اگر وہ اپنی انگلیوں سے پردہ میں کچوکہ لگا دیتی تو اسکی شادی نہ کرتے اور اگر خاموش رہتی تو شادی کردیے‘‘
چوتھا مرحلہ :انضمام جزئیات اور متون کی اختیاری ترتیب
اس مرحلہ میں کسی ایک حدیث کو بنیاد بناتے ہوئے اس سے متعلق دیگر متون اور زوائد کو زمانی اور سیاق و سباق کی ترتیب سے ا پنے اپنے محل پہ ضم کرنا ہے۔ اس صورت میں متون کی جزئیات کو اجتہادی ترتیب کے ساتھ ایک متن میں جمع کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ایک واقعہ یا حدیث کی تمام جزئیات جومختلف رواۃ نے الگ الگ بیان کی ہیں اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ایک جگہ پر جمع ہو جاتی ہیں جس سے درج شدہ تمام پہلوؤں کویکجا کرکے ان سے احکام و مسائل میں درست استنباط کیا جا سکتا ہے۔
= مختصر صحیح البخاری للالبانی:
امام البانی (1420ھ)وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے واقعاتی اجتہادی ترتیب کو مشکل صورت میں اپنایا اورعملی طور پر صحیح بخاری کا اختصار کرتے ہوئے بخار ی کی مکررات کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ ایک روایت جو کہ بخاری کے مختلف ابواب میں مکرر آ چکی تھی اسے حذف کرنے کی بجائے ایک حدیث کو بنیاد بناتے ہوئے دیگر احادیث کے زوائد کو بنیادی حدیث میں درج کر دیا اور متن بناتے ہوئے اختیاری حد تک واقعاتی ترتیب کوملحوظ رکھا ۔ متن واحد میں ایک سے زیادہ جزئیات رکھنےوالی احادیث کو مکمل شکل دینا کہ اس کا سیاق و سباق اور فی نفسہ عبارت پوری طرح متشکل ہوجائے ۔ علامہ البانی اپنے اس کام کے متعلق لکھتےہیں :
حذفت أسانيد أحاديثه كلها، ولم أبق منها إلا اسم الصحابي راوي الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم - مباشرة، إلا ما لا بد منه من الرواة الذين قد تدور القصة عليهم، ولا تتم الرواية إلا بذكرهم ممن دون الصحابي. من المعلوم عند العارفين بـ صحيح البخاري
أنه يكرر الحديث في كتابه ويذكره في مواطن عديدة وكتب وأبواب مختلفة، وبروايات متعددة، ومن أكثر من طريق واحدة أحيانا، مطولا تارة، ومختصرا أخرى، وبناء عليه فإنني أختار من الروايات المكررة أتمها وأكملها، وأجعلها هي الأصل في "المختصر"، ولكنني لا أعرض عن الروايات الأخرى، بل أجري عليها دراسة خاصة، باحثا فيها عما إذا كان في شيء منها فائدة أو زيادة ما لم ترد في الرواية المختارة، فآخذها وأضمها إلى الأصل. ثم إن الضم المذكور يكون على صورة من صورتين:
الأولى: إذا كانت الزيادة تقبل الانضمام إلى مكانها اللائق بها من الأصل، وتنسجم مع السباق والسياق منه بحيث لا يشعر القارئ الأديب بأنها زيادة، وضعتها في مكانها بين قوسين معقوفين[24]
’’ میں نے اس کی احادیث کی تمام اسناد حذف کردیں صرف صحابی کا نام باقی رکھا ہے جس نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے ۔ہاں وہ رواۃ کہ جن پر قصہ کا دار ومدار تھا یا کا نام لیے بغیر محض صحابی کے نام سے روایت مکمل نہیں ہوتی تھی ان کا بھی ذکر کردیا ہے ۔
صحیح بخاری کو جاننے والوں کو معلوم ہے کہ امام بخاری اپنی صحیح میں ایک حدیث کو مکر ر بھی لاتے ہیں اور اس کا ذکر متعدد جگہوں پر مختلف روایات کے ساتھ مختلف کتب و ابواب میں کرتے ہیں اور اکثر طور پر ایک ہی سند کے ساتھ ہوتی ہیں کبھی تو مطول اور کبھی مختصر ۔ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے میں نے مکرر روایات میں سے اتم اور اکمل روایات کا انتخاب کیا ہے اور اسے میں اپنی ’مختصر‘میں بنیادی روایت بناؤں گا ۔لیکن میں دیگر روایات کو نظر انداز نہیں کروں گا بلکہ میں خاص پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے اگر اس میں کوئی مفید نکتہ ہو تو ذکر کروں گا یاپھر ایسے زائد الفاظ جو منتخب شدہ روایت میں نہ ہو ں انھیں اصلی روایت میں ضم کروں گا اور یہ انضمام دو صورتوں میں ہوگا :
پہلا یہ کہ جب زیادت کے الفاظ اصلی روایات میں مناسب جگہ پر ضم ہونے کے قابل ہوں گے تو انھیں اسکے سیاق و سباق کے ساتھ اس طرح پیوست کیا جائےگا کہ ایک ادب سے آشنا قاری اس میں زیادت محسوس نہ کرپائے اور میں یہ الفاظ قوسین میں رکھوں گا‘‘
علامہ البانی کی بخاری کے اختصار میں مکررات احادیث اور زوائد کو ایک ہی متن میں حسن ترتیب کے ساتھ جمع کرنے کی مثال پیش کی جاتی ہے:
عن عائشةرضي الله عنها أم المؤمنين أنها قالت[25]: [كان][26] أول ما بدىء به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، ثم حبب إليه الخلاء ، وكان يخلو بغار حراء، فيتحنث فيه وهو التعبد الليالي ذوات العدد قبل أن ينزع إلى أهله، ويتزود لذلك، ثم يرجع إلى خديجة، فيتزود لمثلها ، حتى جاءه [فجئه][27]الحق وهو في غار حراء، فجاءه الملك [فيه][28]فقال: اقرأ، قال: ما أنا بقارىء، قال: فأخذني، فغطني حتى بلغ مني الجهد، ثم أرسلني، فقال: اقرأ، قلت: ما أنا بقارىء، فأخذني فغطني الثانية، حتى بلغ مني الجهد، ثم أرسلني، فقال: اقرأ، فقلت: ما أنا بقارىء، فأخذني فغطني الثالثة، ثم أرسلني، فقال: {اقرأ باسم ربك الذي خلق. خلق الإنسان من علق. اقرأ وربك الأكرم. [الذي علم بالقلم.[29]علم الإنسان ما لم يعلم} الآيات]، فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده [ترجف بوادره][30] فدخل على خديجة بنت خويلد، فقال:زملوني زملوني، فزملوه حتى ذهب عنه الروع، فقال لخديجة: [ مالي؟][31]وأخبرها الخبر [وقال:][32]لقد خشيت على نفسي، فقالت [له][33] خديجة: كلا [أبشر، فـ][34] والله ما يخزيك الله أبدا[فوالله][35] إنك لتصل الرحم[وتصدق الحديث][36]وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق، فانطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل ابن أسد بن عبد العزى [بن قصي وهو][37] ابن عم خديجة [أخي أبيها][38] وكان امرأ قد تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العبراني فيكتب من الإنجيل بالعبرانية [الكتاب العربي ويكتب من الإنجيل بالعربية][39] ما شاء الله أن يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت له خديجة: يا ابن عم! اسمع من ابن أخيك، فقال له ورقة: يا ابن أخي! ماذا ترى؟ فأخبره رسول الله - صلى الله عليه وسلم - خبر ما رأى، فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزل الله على موسى، يا ليتني فيها جذعا، ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم:ومخرجي هم؟ قال: نعم، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي [أوذي][40]،وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا، ثم لم ينشب ورقة أن توفي، وفتر الوحي، [حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم فيما بلغنا حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبال، فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه؛ تبدى له جبريل فقال: يا محمد! إنك رسول الله حقا، فيسكن لذلك جأشه، وتقر نفسه، فيرجع، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك، فإذا أوفى بذروة جبل؛ تبدى له جبريل فقال له مثل ذلك [الناموس][41]:صاحب السر الذي يطلعه بما يستره عن غيره[42]
’’ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت ﷺ پر وحی کا ابتدائی دور سچے اور پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپﷺ خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر من جانب قدرت آپ تنہائی پسند ہوتے چلے گئے اور آپ ﷺ نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن رات آپ وہاں مسلسل عبادت ، یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے۔ توشہ ختم ہوتا تو اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے، یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپﷺ پر حق منکشف ہو گیا [آپ غار حرا ہی میں]قیام پذیر تھے کہ اچانک حضرت جبرئیلؑ آپ کے پاس [اس میں]حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! پڑھو آپﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو!، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا : پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے[جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ]۔
پس یہی آیتیں آپ حضرت جبرئیل ؑ سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا[ آپ حضرت خدیجہؓ کے ہاں تشریف لائے] اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ اہل خانہ نے آپ کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپﷺ کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپؐ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ[مجھے کیا ہے ؟ اور فرمایا]مجھ کو اب اپنی جان کا خوف لاحق ہے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور [ آپ سے ]کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔[میں آپ کو خوشخبری دیتی ہوں]خدا کی قسم !آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپؐ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں[سچی بات کی تصدیق کرنے والے ہیں] بےکسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مفلسوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپؐ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بےوقعت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل [بن قصی ]کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ [ انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے ،ایک روایت میں ہے عربی میں لکھتے تھے ] وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔ حضرت خدیجہ ؓ نے ان کے سامنے آپ کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے [محمد ﷺ] کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس [معزز راز دان فرشتہ ]ہے جسے اللہ نے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش !میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔[اور تکلیف دیں گے] رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا یہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ [حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں ] ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی بھر پور مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔آنحضرت ﷺکو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا،لیکن جب آپ پہا ڑ کی چوٹی پر چڑھے تا کہ اس پر سے اپنے آپ کو گرادیں تو جبریل ؑ آپ کے سامنے آگئے اور کہا کہ یا محمد ! آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ۔ اس سے آنحضرت ﷺ کو سکون ہوا اور آپ واپس آ گئے،لیکن وحی مزید کئی دنوں تک رکی رہی تو آپ نے پھر ایک مرتبہ ایسا ارادہ کیا،لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو حضرت جبریل ؑ سامنے آئے اور اسی طرح کی بات پھر کہی۔
ناموس محرم راز کو کہتے ہیں جو ایسے راز سے بھی آگاہ ہو جو آدمی دوسروں سے چھپائے ۔‘‘
= الموسوعة القضاية من موسوعه الاحکام الصادرة من المحاکم الاسلامیة :
یہ مؤسسة فلا ح، لاہور کے تحت تیار کیا گیا تھا اور اس میں بھی نبی ﷺ کے فیصلوں کی جزئیات کو ایک ایک واقعہ کی شکل میں مرتب کیا گیا ہے ۔ اس میں کل 349 فیصلے رقم ہیں اور اس کےمتون کو فاؤنڈیشن کی لجنۃ نےتیار کیا ۔ متون حدیث کی اس صورت میں مکمل طور پر واقعہ نگاری اور اختیار ی اجتہادی ترتیب کو بروئے کار لا کر متن واحد میں احادیث کی جزئیات و زوائد کو اس کے محل پر رکھا گیا ہے ۔ اور یہ ترتیب کاانداز پہلے ذکر کردہ مراحل سےجدید اور متون احادیث کے بکھرے ہوئے جزئیات کو اکٹھا کرنےکابہترین انداز تھا۔
مذکورہ موسوعہ چونکہ نبی ﷺکے بیان کردہ فیصلوں پر ہے ،لہٰذا لجنۃ نے اس موضوع کےاندر نبی ؐ کےتمام فیصلے اکٹھے کردیئے ہیں اور اس کام میں انکی واقعہ نگاری کرتے ہوئے کتب احادیث، مصنفات اور زوائد کوخاص طور پر مصدر بنایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ کتب سیر سے بھی روایات کو لیا گیا ہے ۔
مثال:
حکم رسول اللہ ﷺفی تحکیم سعد بن معاذ
حدیث عن عائشةرضى الله عنها[43]قالت اصيب سعد يوم الخندق رماه رجل من قريش يقال له حبان ابن العرقه رماه فى الأكحل [فقطوا أكحله فحسمه رسول اللهﷺبالنار فانتفخت يده فتركه فتركه فنزفه الدم فحسمه أخرى فانتخت يده فلما رأى ذلك قال اللهم لا تخرج نفسى حتي تقر عينى من بنى قريظة فاستمسك عرقه فما قطر قطرة][44]فضرب النبىﷺخيمة فى المسجد ليعود من قريب فلما رجع رسول الله من الخندق وضع السلاح واغتسل فأتاه جبريل عليه السلام وهو ينقض رأسه من الغبارفقال: قد وضعت السلام!والله ما وضعته أخرج إليهم قال النبى فأين؟فأشارإلى بنى قريضة [فلبس رسول الله لامته وأذن في الناس بالرحيل][45][قال لايصلين أحد العصر إلا في بنى قريظة][46] [فخرج رسول الله فمر على بنى غنم وهم جير ان المسجد فقال من مر بكم؟فقالوا مر بنا دحية الكلبى وكان دحية تشبه لحيتة ووجهه جبريل عليه السلام قالت][47] [فأتاهم رسول الله [فحاصرهم خمساء وعشرين ليلة.فلما اشتد حصارهم واشتد البلاء قيل لهم انزلوا على حكم رسول الله فاستشاروا أبا لبابة بن عبدالمنذر فأشاره إليهم أنه الذبح][48] فنزلوا على حكمه فرد الحكم إلى سعد[قال ألا ترضون يامعشر الأوس أن يحكم فيهم رجل منكم فقالوا :بلى قال رسول الله فذلك سعد بن معاذ][49][نزل أهل قريظة على حكم سعد بن معاذفأرسل رسول الله إلى سعد فأتاه على حمار][50][عليه إكاف من ليف قد حمل عليه وحف به قومه[51][وكان رجلا جسيما جميلا][52][قالوا له يا أبا عمروحلفاؤك ومواليك و أهل النكاية ومن قد علمت فلم يرجع إليهم شيئا ولايتفت إليهم حتى إذا دنا من دورهم إلتفت إلى قومه فقال:قد أتى لى أن لا يأخذنى فى الله لومة لائم][53] [فلما دنا من المسجد قال رسول الله قوموا إلى سيدكم أو خيركم ][54] [فأنزلوه][55] [فجاء حتى قعد إلى جنب النبى ][56] [ثم قال النبى إن هؤلاء نزلوا على حكمك][57][احكم فيهم يا سعد ،قال الله ورسوله أحق بالحكم قال قد أمرك الله أن تحكم فيهم][58] قال فإنى أحكم فيهم ان تقتل المقاتلة وأن تسبى النساء والذرية وأن تقسم أموالهم [يستعين بهن المسلمون ][59] [فقال رسول الله لقد حكمت عليهم بحكم الله من فوق سبعة أرقعة][60][فحبسهم رسول الله بالمدينة فى دار بنت الحارث إمرأة من بنى النجار،ثم خرج رسول الله إلى سوق المدينة فخندق بها خنادق ثم بعث إليهم ،فضرب أعناقهم فى تلك الخنادق يخرج بهم إليه ارسالا وفيهم عدوا الله حيى بن أخطب وكعب بن أسد رأس قوم][61] [وكانو أربعمائة][62]قال عروة عن عائشة رضى الله عنها أن سعد قال اللهم أنك تعلم أنه ليس أحد أحب إلى أن أجاهدهم فيك من قوم كذا رسولك و أخرجوه، اللهم فإنى أظن أنك قد وضعت الحرب بيننا وبينهم فإن كان بقي من حرب قريش شيء فأبقنى حتى أجاهدهم فيك وإن كنت وضعت الحرب فافجرها واجعل موتتى فيها فانفجرت من لبته فلم يرعهم وفى المسجد خيمة من بنى غفار إلا الدم يسيل إليهم فقالوا يا أهل الخيمة ما هذا الذى ياتنا من قبلكم؟فإذا سعد يغذوا جرحه دما[فما زال يسيل ][63] فمات منها رضى الله عنه[قال جابر قال رسول الله لقد اهتز عرش الرحمن لموت سعدبن معاذ][64]
’’عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: غزوہ خندق کے موقع پر سعد زخمی ہوگئے تھے ۔ قریش کے ایک کافر شخص حران بن عرفہ نے ان پر تیر چلایا جو ان کے بازو کی رگ میں لگا ۔ [ان کے بازو کی رگ کٹ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے آگ کے ساتھ داغ دیا جس سے ان کا ہاتھ پھول گیا تو آپﷺ نے اسے کھول دیا ۔ ان کا خون کافی مقدار میں بہہ گیا ۔ پھر دوسری دفعہ اسے داغا تو وہ دوبارہ پھول گیا ، جب معاذ نے یہ صورت دیکھی تو انہوں نے دعا کی:اے اللہ ! اس وقت تک میری جان نہ نکلے جب تک میں بنو قریظہ کے انجام کو نہ دیکھ لوں ، انہوں نے اپنی رگ کو پکڑ لیا پھر ایک قطرہ بھی خون نہ نکلا ] رسول اللہﷺ نے معاذ کے لیے مسجد میں خیمہ لگا دیا تا کہ قریب رہ کر ان کی عیادت کرسکیں ۔ جب رسول اللہ ﷺخندق سے واپس آئے تو ہتھیار اتار کر غسل فرما لیا تو جبریل ؑ ان کے پاس آئے وہ گردو غبار سے اپنا سر جھاڑ رہے تھے اور کہا آپ ﷺنے ہتھیار اتار دیے ہیں ، اللہ کی قسم ! میں نے ابھی نہیں اتارے ، ان کی طرف نکلیے ، نبی ﷺنے پوچھا : کہاں؟ تو انہوں نےبنوقریظہ کی طرف اشارہ کردیا ۔ [ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خود پہن لیا اور لوگوں کو کوچ کا حکم دیا ][ آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی عصر کی نماز بنی قریظہ کے محلے میں پہنچے بغیر نہ پڑھے ][رسول اللہﷺ نکلے ، جب بنو غنم کے پاس سے گزرے جو مسجد کے پڑوسی تھے ، ان سے پوچھا : تمہارے پاس سے کون گزرا ہے ؟ انہوں نے کہا: ہمارے پاس سے دحیہ کلبی گزرے ہیں ، جو داڑھی اور چہرے کے اعتبار سے جبریل ؑسے مشابہت رکھتے تھے حضرت عائشہ ؓ نے کہا ] رسول اللہ ﷺ بنو قریظہ کے پاس آئے [ ان کا پچیس راتوں تک محاصرہ کیے رکھا ۔ جب محاصرہ اور مصیبت سخت ہو گئی تو انہیں کہا گیا کہ تم رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق ہتھیار ڈال دو ، انہوں نے ابو لبابہ بن عبد المنذر سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے ذبح کرنے کا اشارہ دے دیا ] انہوں نےآپ کے فیصلہ پر ہتھیار ڈال دیے لیکن آپ ﷺ نے سعد کو حکم بنا دیا ۔[ آپﷺ نے پوچھا : اے قبیلہ اوس کے لوگو ! کیا تمہیں پسند نہیں ہے کہ تمہارا پنا آدمی ان کے بارے میں حکم بنے انہو ں نے کہا: کیوں نہیں ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ سعد بن معاذ ہیں ][ بنو قریظہ نے سعد بن معاذ کو حکم مان کر ہتھیار ڈال دیے تو وہ گدھے پر سوار ہو کر تشریف لائے ][ جس گدھے پر وہ سوار تھے اس پر کھجور کی چھال کا پالان تھا اور ان کی قوم کے لوگ ان کے اردگرد چکر لگا رہے تھے وہ بہت بھر پور جسم والے اور خوبصورت آدمی تھے ][انہیں کہا گیا اے ابوعمرو ! یہ آپ کے حلیف اور دوست ہیں یہ قاتل بھی ہیں اور انہیں آپ جانتے بھی ہیں،لیکن وہ ان کی طرف مائل نہ ہو ئے اور نہ ان کی طرف جھکاؤ کیا ، جب ان کے گھروں کے قریب گئے تو اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : مجھے اس لیے لایا گیا ہے تا کہ مجھے اللہ کے بارے میں ، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت نقصان نہ دے] [جب وہ مسجد کے قریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے سردار یا یو ں کہا کہ اپنے بہترین شخص کی طرف اٹھو ][لوگوں نے ان کو نیچے اتار دیا ][وہ آئے اور نبی کریم ﷺ کے پہلو میں بیٹھ گئے][ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انہوں نے آپ کو فیصل مان کر ہتھیار ڈالے ہیں ] [اے سعد! ان کے بارے میں فیصلہ کیجئے ، انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول ﷺ فیصلہ کرنے کے زیادہ حقدار ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے ان کے بارے میں آپ کو فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے ] تو معاذ نے کہا: ان کے بارے میں میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان کے لڑائی کے قابل مردوں کو قتل کردیا جائے ، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے مالوں کو تقسیم کرلیا جائے [ان سے مسلمان فائدہ حاصل کریں گے ][ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کے متعلق آپ کا فیصلہ سات آسمانوں کے اوپر اللہ تعالی کے فیصلے کے مطابق ہی ہے ][ رسول اللہ ﷺ نے انہیں مدینہ میں بنت حارث کے گھر میں قید فرما دیا جو بنی نجار کی ایک عورت تھی ۔ پھر آپﷺ مدینہ کے بازار کی طرف نکلے اور وہاں خندقیں کھدوائیں ، ان کو وہاں لایا جاتا اور ان خندقوں میں قتل کردیا جاتا ، ان میں اللہ تعالی کا دشمن حی بن اخطب اور سردار قوم کعب بن اسد بھی تھا ][ان کی تعداد چار سو تھی ]۔عروہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت بیان کی کہ سعد نے یہ دعا کی تھی: اے اللہ تعالی ! تو خوب جانتا ہے کہ اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز عزیز نہیں کہ میں تیرے راستے میں اس قوم سے جہاد کروں جس نے تیرے رسول ﷺ کو جھٹلایا اور انہیں ان کے وطن سے نکالا ،لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو نے انکی اور ہماری لڑائی ختم کردی ہے ۔،لیکن اگر قریش سے ہماری لڑائی کا بھی سلسلہ ابھی باقی ہو تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھیے ۔ یہاں تک کہ میں تیرے راستے میں ان سے جہاد کروں اور اگر لڑائی کے سلسلے تو نے ختم ہی کریے ہیں تو میرے زخموں کو پھر سے ہرا کردے اور اسی میں میری موت واقع کردے ۔ اس دعا کے بعد سینے پر ان کا زخم پھر سے تازہ ہوگیا ۔ مسجد میں قبیلہ بنو غفار کے صحابہ کا بھی ایک خیمہ تھا ۔خون ان کی طرف بہہ کر آیا تو وہ گھبرا گئے اور انہوں نے کہا: اے خیمہ والو! تمہاری طرف سے یہ خون ہماری طرف کیوں بہہ کر آرہا ہے ؟ دیکھا تو سعد کے زخم سے خون بہہ رہا تھا [ پھر وہ خون بہتا ہی رہا] اسی سے ان کی وفات ہوگئی [رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سعدبن معاذ کی موت سے اللہ تعالیٰ کا عرش ہل گیا ]‘‘
مذکورہ بالا تفصیلی مند رجات سے متون احادیث کی واقعاتی تدوین کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ۔ مسائل کے فقہی استنباطات کے لیے ضروری ہے کہ احادیث کے تمام تر ذخیرے کو اس ڈھب پر مدون کردیا جائے کہ ہر حدیث کےمتون و زوائد ایک ہی جگہ سے حاصل ہو سکیں جس سے متعلقہ حدیث کی نہ صرف پور ی جزئیات سامنے آجاتی ہیں بلکہ وہ فقہی اختلافات جو احادیث میں الفاظ و عبارات پر اطلاع نہ پانے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں انکی درستی ہوسکتی ہے ۔اور طالبان علم و قانون اس سے کما حقہ استفادہ کرسکیں ۔
[1] فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ اور اسسٹنٹ پروفیسر ،دی یونیورسٹی آف لاہور
[2] الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع ،( الریاض: مکتبه المعارف ، س ن) :2؍ 212
[3] مقدمة ابن الصلاح بتحقیق نورالدین عتر ،(بیروت: دار الفکر ، 1406ھ ) ،ص:91
[4] تذکرة الحفاظ ، 2؍76
[5] فتح المغیث 3؍299
[6] سیراعلام النبلاء ، 11؍229
[7] سیر اعلام النبلاء ،8؍161
[8] الاعتصام لشاطبی : 311
[9] الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع لخطیب البغدادی ،2؍ 280
[10] فتح الباری ،(بیروت :دار المعرفة ، 1379ھ) :6؍ 475
[11] سلسلة الاحادیث الصحیحة للالبانی(7؍826 )، رقم الحدیث: 3279
[12] سلسلة الاحادیث الصحیحة للالبانی(7؍826 )، رقم الحدیث: 3279
[13] معجم البلدان للحموی ،(بیروت: دار صادر،1995ء)،5؍ 246
[14] مقدمة للمحقق الدکتور علی حسین البواب :14۔15
[15] صحیح البخاری ،کتاب الاذان ، باب متی یقوم الناس اذاراوالامام عند الاقامه : 637
[16] صحیح مسلم،کتاب المساجد ، باب متی یقوم الناس للصلاۃ رقم الحدیث :604
[17] صحبح البخاری کتاب الجمعة ، باب المشی الی الجمعه ، رقم الحدیث : 909
[18] الجمع بین الصحیحین للحمیدی ،1؍454
[19] صحیح بخاری ، کتاب النکاح ، باب اذازوج ابنته وهی کارهة ، :5138۔ الموطا، کتاب النکاح باب جامع مالا یجوز النکاح : 1959۔سنن نسائی ، الثیب یزوجها ابوها وهی کارهة: 3268۔ مصنف عبدالرزاق : 10307
[20] مصنف عبدالرزاق : 10307
[21] ایضا، :10301
[22] ایضاً، :10306
[23] مصنف عبدالرزاق : 10277، حمیدی الجمع بین الصحیحین: 61
[24] مختصر صحیح البخاری للألباني:1؍7
[25] الصحیح البخاری، باب بدء الوحی ، رقم الحدیث : 3
[26] ایضا، کتاب تفسیر القرآن ، باب مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى ، رقم الحدیث : 6
[27] الصحیح البخاری ، کتاب تفسیر القرآن ، باب ما ودعک ربک وما قلی، رقم الحدیث : 6
[28] ایضا، کتاب التعبیر ، باب اول ما بدء رسول الله ﷺ، رقم الحدیث : 6982
[29] ایضا، رقم الحدیث: 4953
[30] ایضا، رقم الحدیث:6982
[31] ایضا ، رقم الحدیث:4953
[32] ایضا، رقم الحدیث:6982
[33] ایضاً
[34] ایضا، رقم الحدیث:4953
[35] ایضا، رقم الحدیث :6982
[36] ایضاً
[37] ایضاً
[38] ایضا ، کتاب التعبیر ، باب اول ما بدء به رسول الله ﷺ، رقم الحدیث:4953
[39] ایضاً
[40] ایضاً
[41] ایضا، رقم الحدیث:6982
[42] مختصر صحیح البخاری للألباني ، کتاب بدء الوحی ،باب کیف کان بدء الوحی(1؍ 16)رقم الحدیث: 3
[43] الصحیح البخاری، کتاب المغازی ، باب مرجع النبیﷺ من الاحزاب، رقم الحدیث: 4122
[44] السنن الترمذی، کتاب السیر ، باب ماجاء فی النزول علی الحکم، رقم الحدیث: 1582
[45] مجمع الزوائد للهیثمی ،(القاهرة:مکتبة القدسی، 1414ھ):6؍137
[46] الصحیح البخاری، کتاب المغازی ، باب مرجع النبیﷺ من الاحزاب، رقم الحدیث: 4119
[47] مجمع الزوائدللهیثمی :6؍138
[48] ایضا
[49] ابن هشام ، السیرة النبویة، (مصر :مکتبة مصطفی البابی، الطبعة الثانیة، 1375ھ ):2؍239
[50] الصحیح مسلم، کتاب الجهاد ، باب جواز القتال من نقض العهد،رقم الحدیث:1768
[51] مجمع الزوائد للهیثمی : 6؍138
[52] السیرۃ النبویة لابن هشام:2؍239
[53] مجمع الزوائدللهیثمی : 6؍138
[54] الصحیح مسلم،کتاب الجهاد والسیر ، باب جواز القتال من نقض العهد،رقم الحدیث:1768
[55] مجمع الزوائدللهیثمی : 6؍138
[56] سنن سعید بن منصور ، کتاب الجهاد ، باب جامع الشهادۃ ،(الهند :الدار السلفیة ،الطبعة الاولی،1982ء) 2؍396
[57] الصحیح مسلم، کتاب الجهاد ، باب جواز القتال من نقض العهد،رقم الحدیث:1768
[58] ، فتح الباری لابن حجر: 7؍412
[59] سنن الترمذی، ، کتاب السیر ، باب ماجاء فی النزول علی الحکم، رقم الحدیث: 1582
[60] دلائل النبوة للبيهفي ،( بیروت :دار الکتب العلمبة، الطبعة الاولی، 1405ھ)، 4؍18
[61] السیرة النبویة لابن هشام :2؍241
[62] سنن الترمذی، کتاب السیر ، باب ماجاء فی النزول علی الحکم، رقم الحدیث: 1582
[63] الصحیح مسلم،کتاب الجهاد والسیر ، باب جواز القتال من نقض العهد،رقم الحدیث:1769
[64] الصحیح مسلم، کتاب الفضائل ، باب من فضائل سعد بن معاذ، رقم الحدیث: 2466