اکتوبر 2022ء

 قرآن کریم کا رسم الخط نبوی ہے یا عثمانی؟

رپورتاژ مجلس مذکراہ                                                                           ترتیب: حافظ فہداللہ مراد

 

 قرآن کریم کا رسم الخط نبوی ہے یا عثمانی؟

قرآن کریم کی جمع صوتی رسول اللہؐ کے عہد سے ثابت ہے اور اس کی حفاظت متواترہ کا بنیادی طریقہ قرآن کریم کی ’نص‘  بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَا تٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ   [العنكبوت: 49]

’’بلکہ وہ(قرآن)  تو واضح آيات  ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں  جنہیں  علم دیا گیا  ‘‘ ۔سے ثابت  ہے جبکہ جمع کتابی ’مصلحت مرسلہ[1] ‘ کے اصول کی بنیاد پر  مشہور ہے  ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ،حضرت عمرؓ اور زید بن ثابت انصاری ؓ کا تفصیلی مکالمہ روایات حدیث موجود ہے ۔ موجودہ قرآن کا تحریری نقش اول جامع قرآن خلیفۂ  راشد حضرت عثمان بن عفان  ؓ  کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ  ہے جس کا رسم الخط مع ترتیب سور ان کی  سرپرستی میں حضرت زید بن ثابت انصاری ؓ کی سربراہی میں اجل صحابہ کی کمیٹی کا تیار کردہ ہے ۔ نماز کی امامت  میں تو صرف وہی  قراءات پڑھی جا سکتی ہیں جو رسم عثمانی کے مطابق ہوں  البتہ دیگر اجل صحابہ ’سبعہ احرف ‘ کی تلاوت کا بھی اہتمام کرتے رہے جو نبی ؑ کی اجازت پر مبنی رہی لیکن وہ غیر سرکاری ہونے کی بناء  پر  تواتر سے ثابت نہیں ۔ چونکہ  تحقیق کا میدان محدثین اور فقہاء کا ہے اس لئے مذکورہ بالا نکات انہی سے لیے گئے جبکہ قاری حضرات کا زیادہ زور تلاوت و ادا پر ہوتا ہے جو تجوید وقراءت کا فن کہلاتا ہے ۔سطور ذیل  میں مجلس التحقیق الاسلامی کے ایک علمی مذاکرے کی روئیداد  دی جا رہی ہے جس کے انعقاد سے قبل رسم عثمانی کو رسم نبوی قرار دینے والی جملہ روایات کی تخریج شرکاء کو مہیا کر دی گئی تھی کہ رسم نبوی کے بارے میں کوئی بھی معتبر روایت موجود نہیں ہے۔  یہی  وجہ ہے کہ اس کا نام ہی رسم عثمانی ہے ۔ قارئین شرکائے مذاکرہ کے دلائل پر غور کریں جو اس روئیداد میں پیش کیے گئے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تجوید و قرآن کے ساتھ ساتھ تحقیق کا ذوق بھی عطافرمائیں ۔

مجلس التحقیق الاسلامی ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی﷾ کے زیر ِسر پرستی گذشتہ پچاس برس سے علمی اور تحقیقی منصوبوں پر کام کر رہی ہے، ماہنامہ محدث جو پاکستان بھر میں اپنا خاص علمی اور فکری تعارف رکھتا ہے اسی مجلس  کا آرگن ہے اسی طرح سہ ماہی رشد بھی   کلیۃ القرآن الکریم والعلوم العربیۃ کا  عصری تقاضوں کے مطابق علمی  پرچہ ہے جو  اپنے چھ  قراءات نمبرز کی بدولت عالمی سطح پر تعارف حاصل کر چکا ہے اور علم قراءت کے مباحث کے لیے ایک مرجع کی حیثیت رکھتا ہے  ۔ کلیہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کے  علمی منصوبہ جات میں پاکستان کے علاوہ مصر، شام، کویت، قطر اور دیگر بلاد کے اہل علم   اور ماہرین قراءات بھی شامل ہیں۔

مئی 2022ء میں  کلیہ سے مستقل منسلک محققین کے علاوہ بہت ساری عالمی شخصیات بھی مجلس   میں تشریف لائیں اور  مجلس کے مختلف علمی منصوبہ جات کے حوالے سے پروگرامز اور علمی   اجتماعات  کا اہتمام کیا گیا   جس میں علم قراءات کے بہت سارے  گوشوں پر بھی عالمانہ گفتگوئیں ہوئیں  اور کچھ نئے علمی سوالات فکر ونظر کے سامنے آئے جس پر  مجلس نے یہ طے کیا کہ ان علمی مسائل پر علماء کرام اجتماعی طور پر غوروفکر کریں، تاکہ مباحث کو مزید نکھار کر پیش کیا جائے۔ اس سلسلے میں پہلا علمی مذکراہ ’قرآن کریم کا رسم  الخط  نبویؑ  ہے یا عثمانیؓ‘ کے عنوان سےطے پایا ۔   کبار اہل علم کی طرف ایک خط مع تخریج ِروایات  ارسال کرکے مذکورہ  موضوع  پر علمی گفتگو کے لیے مدعو کیا گیا ، بحمد اللہ 26جون 2022ء کو  تقریبا پچاس علمائے کرام   نے شرکت کی اور اس موضوع پر جو گفتگو کی گئی اس کے اہم نکات پیش خدمت ہیں:

مجلس مذاکرہ کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلامِ حمید سے کیا گیا ہے جو جامعہ لاہور الاسلامیہ کے شعبہ قراءات کے معلم جناب قاری محمد اکمل شاہین صاحب  نے کی ۔ اس کے بعد مذاکرے کے عنوان کا تعارف اور مقاصد پر  راقم الحروف  نے روشنی ڈالی ،  عرض کیا گیا کہ رسم قرآنی کے حوالے سے عام قاری حضرات اور فقہائے محدثین کی دو مختلف آراء ہیں : ایک یہ کہ   قرآن کریم کا  موجودہ رسم نبی اکرمﷺ کا   تیار کردہ  ہے،  اس کے دلائل کے طور پر قاری حضرات   ایک روایت پیش کرتے ہیں ، جس کا ذکر ڈاکٹر حافظ انس نضر کے حوالہ سے آگے آ رہا ہے اس روایت کا غلط  مفہوم یہ پیش کیا جاتا ہے    کہ نبی ﷺ اپنے کاتبین کو لکھنے  کی باقاعدہ ہدایات کے علاوہ ان کی کتابت کو درست بھی کرتے تھے   ۔دوسری رائے کے مطابق قرآن مجید کا یہ رسم  اس کمیٹی کا طے کردہ ہے جنہیں حضرت عثمانؓ نے مصحف تیار کرنے کے لیے مقرر کیا تھا ، اور اسی نسبت سے  اس کو رسم عثمانی کہا جاتا ہے ۔

اس  علمی اختلاف کی  دو بنیاد ی  توجیہات ملاحظہ فرمائیں  :

ایک ،  قرآن کریم میں بہت سارے الفاظ کے  لکھنے کا طریق    تحریر کے    مسلمہ قیاسی اصولوں  کے خلاف ہے،  اور   امت نے آج تک ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ،  ۔ ’ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘  کے مصنف     ڈاکٹر جواد علی نےلکھا ہے  کہ عربی خط آغاز میں ایسا نہیں تھا جیسا  کہ اب د کھائی  دیتا ہے، بلکہ  حالات کے ساتھ ساتھ اس میں کئی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ،بہتر سے بہتر  تلفظ(جس طرح ہم بولتے ہیں) کے قریب تر کتابت  کرنے کی  کوشش کی جاتی رہی ہے ، اس کے برعکس  قرآن کریم کے خط کو بالکل بھی نہیں چھیڑا  گیا ، وہ جیساتھا ویسے ہی رہنے دیا  گیا۔

    پہلی رائے کے حاملین کے بقول اس کی  ایک ہی وجہ  سمجھ میں آتی  ہے کہ یہ   خط رسول اللہﷺ سے مروی  اور توقیفی ہے۔   اگر  رسم قرآنی حضرت عثمانؓ غنی کی کمیٹی کا  جاری کردہ ہوتا   توعام عربی   خط   کے ساتھ ساتھ اس   میں بھی تبدیلیاں آتیں ۔

دوسرا ، مصاحف عثمانیہ کے مابین بھی  بعض کلمات کے رسم میں اختلاف تھا، جو اس کے مرفوع اور توقیفی ہونے کی طرف اشارہ ہے ، جبکہ فقہائے محدثین کا مؤقف ہے کہ    متعدد مصاحف میں جو کلمات مختلف انداز سے لکھے ہوئے  ہیں وہ  دراصل سبعۃ احرف کا   تنوع  ہے جسے  سمونے کے لیے حضرت عثمانؓ نے  پانچ مصاحف  تیار کروا کے مرکزی شہروں میں قراء سمیت بھیجے تھے  ۔    صحابہ کرام کے اختلافات سبعۃ احرف کا تنوع تھا جس کی اجازت نبی ﷺ دیتے رہے  لہذا   درست بات یہی    ہے کہ یہ رسم جناب عثمان غنیؓ       کی سرپرستی میں اختیار کیا گیا ۔ 

قاری خالد فاروق صاحب:

‏ ہم سب جانتے ہیں  کہ قرآن کریم  عہد نبوی میں لکھوا دیا گیا تھا ۔ اگرچہ ایک جگہ جمع نہیں تھا بلکہ  مختلف چیزوں پر   لکھا  ہوا تھا ، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے زمانے میں مکمل  قرآن کریم کو مختلف  صفحات کی شکل میں جمع کر لیا گیا۔ البتہ اکابر  صحابہ کرام کے پاس جو  ذاتی طور پر کچھ آیات، سورتیں  یا ذاتی مصحف موجود تھے  انہیں  ختم  نہیں کیا گیا تھا ۔ حضرت عثمانؓ  نے  اپنے  دور میں صحابہ کرام  پر مشتمل ایک  کمیٹی تشکیل دی جس نے پورے  اہتمام کے ساتھ قرآن کریم کو جمع کیا اور آخر میں  جناب صدیق اکبرؓ کے لکھوائے گئے  صحیفوں  سے مقابلہ بھی کیاگیا ۔ جو حضرت حفصہ ؓ کے پاس محفوظ تھے  ، انفرادی حیثیت میں  عام صحابہ  کے پاس    جو  آیات ، سورتیں یا مصاحف لکھے ہوئے موجود تھے انہیں جلا   دیا گیا۔اس وقت  قریش  میں جو رسم چل رہا تھا اس کے مطابق  مصاحف لکھے گئے ،  اس حوالے سے  کمیٹی میں  کوئی اختلاف نہیں  ہوا سوائے ایک کلمے ’التَّابُوت  ‘  کے ،اس میں اختلاف ہوا کہ کتابت گول ’ۃ‘ کے  ساتھ کی جائے  یالمبی ’ت‘ کے ساتھ۔ حضرت عثمانؓ نے اس اختلاف کو یوں  حل کیا کہ اسے لغت قریش کے مطابق لکھوا دیا کیونکہ  پہلا حرفِ قرآن لغت قریش میں نازل ہوا  تھا  ، لہٰذا ’ التابوت ‘ کو لمبی ’ت‘ کے ساتھ لکھ دیا  گیا۔ رسم قرآن کریم کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے چند باتیں بطور اصول سمجھنا ضروری ہیں :

علمائے رسم کے ہاں رسم کی دو قسمیں ہیں: قیاسی اور  اصطلاحی ۔رسم قیاسی یہ ہے کہ عربی خط وکتابت کے معروف اصولوں پر   لفظ کو لکھ  دیا جائے۔ جبکہ رسم اصطلاحی سے مراد رسم عثمانیؓ ہے، اس کے بہت سارے کلمات رسم قیاسی کے اصولوں کے مطابق نہیں ۔ رسم عثمانیؓ کے امتیازات  کو پانچ انواع  میں تقسیم کیا جاتا ہے :

  • کسی حرف کی کمی کے ساتھ کلمات کو لکھا جائے،  یعنی تلفظ میں حرف موجود ہو لیکن رسم میں اسے حذف کر دیا جائے  ، یہ  عام طور پر  الف، واؤ  اور  یا   میں ہوتا ہے ۔جیسے ’وَاعَدْنَا‘  کو حذف الف کے ساتھ لکھا گیاہے،  قراء  کرام نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ اس میں دو قراءات ہیں واعدنا اور وعدنا ۔بغیر الف کے لکھنے سے دونوں قراءات کا امکان ہےجبکہ بالالف لکھنےسے دوسری قراء  ت نہیں ہوسکتی جیسے جمع مذکر سالم کے کلمات’ العلمین ‘ وغیرہ  ہیں ،اسی طرح جمع  مؤنث سالم کے کچھ کلمات  بھی  بغیر الف کے  مکتوب ہیں جیسے’ ذرّیتھم‘  وغیرہ ۔  ایسے ہی بعض  کلمات   حذف واؤ اور حذف یاء کے ساتھ  لکھے گئے ہیں ۔

 اسی طرح  ہمزہ وصلی کے بارے میں  اصول  یہ  ہے  کہ اسے  الف کی شکل میں لکھا جائے لیکن قرآن کریم میں  جب امر کے صیغوں میں واؤ اور فا کے بعد ہمزہ وصلی آتا ہے تو اس کو حذف کر دیا جاتا ہے، جیسے ’فسئلوا‘  میں ف کے بعد الف نہیں لکھا گیا ۔

  • کسی حرف کی زیادتی کے ساتھ مثلاً الف، واؤ، یاء کو زیادہ کر دینا جسے  اُولئك۔
  • ایک حرف کی دوسرے حرف سے تبدیلی ، بدل یا عوض میں  ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف  لکھ دیا گیا۔
  • مقطوع اور موصول کا مسئلہ، یعنی بعض کلمات    کو  کچھ مقامات  پر  ملا کر لکھا گیا ہے اور  بعض  جگہ  پر     الگ الگ کرکے،  مثلاً’ أن اور لاء‘ہیں بعض جگہوں پر انہیں مقطوع  (یعنی الگ الگ کر کے)  لکھا گیا ہے اور بعض مقامات  پر موصول (یعنی  ملا کر ) لکھا گیا ہے ، جیسے أنْ لَا اور ألَّا، پہلے میں نون رسم میں موجود ہے جبکہ دوسرے میں حذف ہے۔  اس کا اثر وقف اضطراری میں ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی مثال میں أن پر  وقف ہو سکتا ہے جبکہ دوسری میں الف پر ۔

اسی طرح لام جارہ ہے یہ پورے قرآن مجید میں چار جگہوں پر مقطوع  یعنی   اسم مجرور سے کاٹ کر لکھا گیا ہے:جیسے ’مَالِ هَٰذَا الْكِتَابِ‘،’ مَالِ هَٰذَا الرَّسُولِ‘’ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ ‘ ، ’ فَمَالِ الَّذِينَ‘۔اسی  طرح ’بِئْسَمَا‘ کو  عام طور موصول لکھا جاتا ہے لیکن بعض کلمات  میں یہ کاٹ كر  لکھا گیا ہے ، اسی طرح ’حَيْثُمَا‘ بھی کہیں  ملا کے لکھا ہوتا ہے اور کہیں ’حیث‘ اور ’ما‘   جدا جدا مکتوب ہے۔

  • تائے تانیث یہ گول ’ۃ‘ کی شکل میں لکھی جاتی ہے لیکن کچھ کلمات  لمبی ’ت‘ کے ساتھ لکھے گئے ہیں ، مثلاً ’رحمت، جنت،لعنت اور شجرت‘ ہے۔

اب  سوال یہ ہے کہ یہ  لمبی ’ت‘ کے ساتھ کیوں لکھے گئے اور گول ’ۃ‘ کے ساتھ کیوں  نہیں لکھے گئے یا موجودہ شکل میں  کس نے لکھوائے ہیں۔  حضرت عثمانؓ کے زمانے میں جب قرآن مجید لکھا گیا تو تب کوئی اختلاف نہیں تھا ،اختلاف تو صرف ایک    کلمہ’ التابوت‘ میں ہوا  تھا وہ بھی  حضرت عثمانؓ نے لغت قریش کے مطابق لکھنے کا  حکم دے کر اختلاف  ختم کرا   دیا۔

  • بعض کلمات ایک حرف کے ساتھ لکھے گئے ہیں لیکن اس میں دو قراءآت ہیں ، جیسے کلمہ بِمُصَيْطِرٍ صاد کے ساتھ لکھا گیا ہے  لیکن اس کے اوپر’  س ‘   لکھ دیا گیا ہے جو  دوسری قراءۃ کی طرف اشارہ ہے ۔

ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾

 اس کے بعد مدنی صاحب نے اس سلسلے میں اپنے موقف کا اظہار کرتے  ہوئے فرمایا فن  روایت  پر جو کام ہوا ہے اس میں یہ بات  بڑی واضح ہے کہ جب کسی چیز کی نسبت کسی شخص  کی طرف کی جاتی ہے تو واضح کیا جاتا ہے کہ  اسے بیان کرنے والے نے کس طرح بیان کیا،  اور لینے والے نے کیسے لیا، اس کو فنِ  ’تحمل و اداء ‘کہتے ہیں۔ اگرچہ قرآن مجید کی اصطلاح میں تھوڑا سا فرق ہے اس میں تحمل واداء کی بجائے ’تلقی   و  اداء ‘کی اصطلاح  استعمال ہوتی ہے۔ جب تک  یہ بات ثابت نہ ہو کہ نبی اکرمﷺ نے یہ بات کہی ہے یا آپ نےیہ  کام کیا ہے یا آپ کے سامنے یہ کام ہوا   اور آپ نے اس کو برقرار رکھا ہےتب تک  کسی روایت  کو مرفوع نہیں کہا جا سکتا۔

فن روایت و  حدیث میں  مفروضہ کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ کوئی اعلیٰ قسم کی بات بنا دیں اور کہیں  کہ اللہ کے رسول ﷺ سے ہی ایسی   حدیث  ہو سکتی ہے، یہ ممکن نہیں ہے ،  لہٰذا یہ کہنا کہ  کسی نے اس خط کو  بدلا نہیں   چنانچہ وجہ یہی ہے کہ نبی اکرمﷺ کا لکھا ہوا    رسم الخط  تھا ۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بالاتفاق  صحابہ نے شروع کیں لیکن آج تک انہیں تبدیل نہیں  کیا گیا ۔ مثال کے طور پر جمعہ کی دو اذانیں ،  یہ حضرت عثمانؓ نے شروع کیں ،  اس کے متعلق  صحیح بخاری کے الفاظ ہیں:    وثبت الأمر علی ذالک  ( اس کے بعد اسی پر اذان کے معمولات جاری وساری  رہے  ) یعنی  لوگوں نے جمعہ کی دو اذانیں کہنا  شروع کر دیں  ۔ لہٰذا تبدیلی نہ کرنے کو بنیاد بنا کر   یہ  نہیں کہہ سکتے کہ  یہ رسم الخط   نبی اکرمﷺ کا  مقرر کردہ ہے ۔

علاوہ ازیں  قرآن مجید میں یہ صراحت موجود  ہے:

{وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ . بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ} [العنكبوت: 48، 49]

’’نبی اکرمﷺ اس قرآن کے اترنے  سے پہلے نہ تو تلاوت کر سکتے تھے اور نہ ہی آپ لکھ سکتے تھے اور نبی اکرمﷺ کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت اختیار کی ہے کہ آپ کو نہ پڑھنا سکھایا ہے اور نہ لکھنا   ۔اس کی وجہ  یہ تھی کہ کہیں لوگ اس شک میں مبتلا نہ ہو جائیں  کہ آپ کہیں سے لکھ کر لے  آتے ہیں ، تاریخ میں پہلی دفعہ ابو لولید باجی  نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ  نبی اکرمﷺ قرآن اترنے سے پہلے نہیں لکھ سکتے تھے لیکن بعد میں آپ پڑھنے اور لکھنے لگے تھے ۔ اس کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ  بعثت کے  انیس  سال بعد  صلح حدیبیہ کے موقع پر کاتب  حضرت علیؓ  تھے جنہوں نے   معاہدے میں محمد  ’’رسول اللہ‘‘ لکھ دیا ، تو قریش کے سفیر سہیل بن عمر و نے کہا کہ اگر ہم آپ  کو اللہ کا رسول مان لیں تو ہمارا   جھگڑا  ہی ختم ہو جاتا ہے ، ہم اسے نہیں مانتے اس لیے  ان الفاظ  کو کاٹیے۔  نبی اکرمﷺ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ ان کو کاٹ دو ، انہوں نے  عرض  کیا  کہ میں یہ جسارت نہیں کر سکتا ۔  صحیح بخاری کے الفاظ ہیں کہ جب حضرت  علیؓ  نے ’’رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کاٹنے سے انکار کیا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا : اے علی !  مجھے دکھاؤ    کہ’’ رسول اللہ ‘‘کے الفاظ  کہاں  لکھے ہیں؟جب حضرت علیؓ نے  آپ کو دکھایا  تو آپ نے ان الفاظ کو  اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ۔اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ     سنہ 6 ہجری صلح حدیبیہ تک  عبارت دیکھ  کر یہ  بھی نہیں جان سکتے  تھے کہ’’ رسول اللہ‘‘  کہاں لکھا ہوا ہے۔

اس کے برعکس جب ابو الولید باجی نے یہ بات کہی  کہ نبوت کے بعد آپ لکھنا پڑھنا جانتے تھے تو علمائے اندلس نے ان پر مرتد اور  زندیق  ہونے کا فتویٰ لگا دیا کہ قرآن مجید کی نص کی  مخالفت کر رہا ہے۔جب یہ معاملہ وقت کے امیر کے پاس  گیا تو اس نے  ابوالولید باجی  کو بلا کر پوچھا تو انہوں نے  جواب دیا کہ قرآن کریم   کے الفاظ’من قبله ‘   کا مفہوم مخالف یہ بنتا ہے کہ آپ قرآن مجید کے اترنے سے پہلے نہیں لکھ سکتے تھے لیکن  بعد میں آپؐ لکھنے پڑھنے  لگ گئے تھے ۔ اس  تاویل کی بنا پر  امیر نے ان کو قتل تو  نہیں کیا لیکن ان کی  تاویل   غلط تھی کیونکہ اصول یہ ہے کہ جس دلیل اور  وجہ کی بنیاد پر کوئی چیز رکھی گئی ہو اگر وہ وجہ باقی رہے تو وہ حکم بھی باقی رہتا ہے ۔ اگر نبی اکرمﷺ کو وحی آنے  یا قرآن مجید اترنے کے بعد   لکھنا پڑھنا آ گیا تھا تو پھر وہ وجہ تو موجود تھی قرآن تو زندگی کے آخری دموں تك  اترتا رہا ہے لہذا وہ وجہ زندگی کے آخری دموں تک موجود تھی: إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ  ،(تو باطل پرست اس  کو قرآن کریم میں شک کا ذریعہ بنا لیتے)دوسری بات یہ ہے  کہ آپؐ کی صفت اُمیت قرآن کریم نے  سورۃ  الأعراف   وغيرہ میں بیان کی ہے ، ان کے  موقف کے مطابق وحی اول کے وقت آپ کی یہ  صفت اُمیت ختم ہو چکی تھی او رآپؐ خواندہ ہو گئے تھے۔ پھر قرآن  کریم کا  ایک عرصہ  کے  بعد اس کو آپ ﷺکے وصف کے  طور پر ذکر کرنا خلاف واقعہ بات ہے۔

 قرآن مجید کے محفوظ ہونے کی مضبوط بنیاد ایک ہی ہے کہ   وہ سینوں میں محفوظ  تھا اور انہی  میں  محفوظ رہے گا : (بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ)

مزید یہ کہ  قرآن مجید کی تلاوت کی  جتنی بھی باریکیاں ہیں ان   کو تحریر  میں نہیں لایا جا سکتا،اس کا واحد ذریعہ تلاوت ہی  ہے اگر آپ تلاوت کے ماہر نہ ہوں  تو اشمام کیسےلکھیں  گے۔

  عہد نبوت میں قرآن اترتا تو آپ ؐبولتے جاتے  اور    مقرر کردہ  کاتبین وہ لکھ لیتے تھے۔ قرآن مجید اس وقت ٹھکریوں ، کھجوروں کے چھالوں  ، اور پتھروں پر لکھا جاتا تھا ، جن  پرلکھنا  بڑا ہی مشکل کام تھا۔

نبی اکرمﷺ کے بارے میں کوئی چیز ایسی موجود نہیں ہے کہ آپ نے قرآن مجید لکھواتے ہوئے کاتب  کو  کسی  لفظ  کی کتابت خود  صحیح کرائی ہو ،   اگر ایسی کوئی حدیث  بیان کی جاتی ہے تو وہ شدید ضعیف  بلکہ موضوع ہے۔

حضرت عثمانؓ نے مصحف تیار کرنے کے لیے جو کمیٹی مقرر کی تھی ان کے لیے جو ہدایات تھیں،  اس کی  تمام   مثالیں جو پیش کی جاتی  ہیں یہ بتا رہی ہیں کہ لکھنے کے لیے کچھ خاص انداز اختیار کیے گئے  تھے  جیسے کہ ’ت‘ کو کہیں لمبا لکھا گیا ہے اور کہیں گول’ۃ‘   ۔ ابراہیم کا لفظ کہیں ’ی‘ کے ساتھ لکھا گیا ہے اور کہیں بغیر ’ی‘ کے ۔ ان  ساری چیزوں سےمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے قریش کے  رسم الخط کو ترجیح  دی ہے ۔بلکہ ’التابوت ‘کی ’ۃ‘  کو گول لکھنے سے متعلق  حضرت عثمانؓ نے جو ہدایت دی ہے وہ اختلاف کے وقت دی ہے کہ  تمہارے اور  زید کے مابین   کسی کلمہ کی کتابت میں اختلاف ہو تو قریش کی لغت کو  ترجیح دو  ، بعض لوگوں نے ا س کا یہ  مفہوم بیان کیا ہے کہ اصل قریش کی لغت ہونی چاہیے، کیونکہ  حضرت عثمان ؓنے ایسا  رسم الخط تیار کیا کہ اس  میں  سبعۃ احرف کی گنجائش موجود رہے۔ اگر کوئی ایسی تبدیلی تھی جو رسم الخط میں سما نہیں سکتی تھی یعنی الفاظ کی کمی بیشی کو   تو قرآن مجید کے مختلف نسخوں میں سمو دیا  گیا ،کسی نسخے میں  ایک لفظ  کا اضافہ ہے جبکہ دوسرے میں کمی ہے ۔ یہ  نسخے اسی  غرض سے الگ الگ  لکھے گئے تھے حالانکہ نبی اکرمﷺ نے پانچ نسخے نہیں لکھوائے ۔  نبی اکرمﷺکے لکھنے والوں نے کوئی مخصوص رسم الخط  اختیار نہیں کیا ، چونکہ  وہ سب لوگ ایک ہی خاندان ، ایک ہی علاقے یا ایک ہی طرز کی کتابت سیکھے ہوئے نہیں تھے  کہ وہ کسی مخصوص رسم خط کو اختیار کرتے  بلکہ کاتبین میں  انصاری بھی شامل تھے اور مہاجر بھی ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ  نے یا حضرت عثمانؓ نے  اپنے دور میں جو کمیٹی بنائی تھی  ان کے ہیڈزید بن ثابت تھے  جو انصاری  ہیں ۔ جبکہ  قرآن لکھنے کے لئے  کوفی رسم الخط اختیار کیا گیا   شاید اس دور میں کوفی رسم الخط ہی قریش کا اصل رسم الخط ہو گا  ۔

 جب نبی اکرمﷺ کا  پڑھنا لکھنا ثابت نہیں ہے ،تو  اس کا ثبوت کیسے ممکن ہے کہ آپ ﷺ باقاعدہ   الفاظ کی  کتابت صحیح کرواتے تھے کہ یہاں لمبا کیا جائے، یہاں  شوشاہو، یہاں گول تا  اور یہاں لمبی تا   ہو وغیرہ وغیرہ۔

یہاں دو باتیں بہت اہم ہیں جس سے اس مسئلہ کی حقیقت واضح ہو تی ہے : ایک یہ کہ   نبی اکرمﷺ  واقعی لکھنا پڑھنانہیں  جانتے تھے، دوسرا یہ کہ ، کو ئی ایک صحیح   مستند روایت   مل جائے کہ نبی اکرمﷺ نے کہیں کہا ہو کہ اس  لفظ کو یوں درست کرو  ، اگر یہ ثابت نہیں ہوتا تو   رسم نبوی   ایک مفروضہ سے زیاداہمیت نہیں رکھتا ۔

ڈاکٹر حافظ انس  نضر مدنی

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ} [العنكبوت: 48]  یہ بات درست ہے کہ  نبی کریمﷺ قرآن کریم نازل ہونے سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے  تو چونکہ  قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ سابقہ اقوام کے واقعات پر مشتمل ہے ، اس سے معترض  لوگ کہہ سکتے تھے کہ  آپ نے تورات اورانجیل سے ا خذ کر  لیا  ہے۔  اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک معجزاتی انداز میں ذکر کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کا بہت  بڑا معجزہ ہے کہ آپ لکھنا پڑھنا  نہیں جانتے تھے اس کے باوجود آپ نے وہ چیزیں پیش کی ہیں جس میں پرانے قصے بھی ہیں ، آئندہ کی پیشگوئیاں بھی ہیں اور ہدایات بھی ہیں ، جس طرح یہ معجزہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے  لکھنا پڑھنا نہ جانتے ہوئے بھی   لوگوں  کے سامنے قرآن کریم پیش کیا ہے اسی طرح  یہ بھی ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے لکھنا پڑھنا نہ جانتے ہوئے کتابت ِ قرآن کریم کی تصحیح کی  ۔ جن  صحابہ کرام نے لکھا ہے اور یہ نبی کریمﷺ کے سامنے لکھا گیا ہے یہ ایک  بھی بہت بڑا معجزہ ہے۔ جو قراء رسم عثمانی  کے نبوی اور مرفوع  ہونے کے قائل ہیں ان میں سے کسی کا یہ موقف نہیں ہے کہ نبی کریمﷺ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اگر کسی کا موقف یہ ہے تو   ا س كی  دلیل  قرآن کریم کی وہ آیت ہے جس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ قرآن اترنے سے پہلے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔  اب اگر آپ لکھنا پڑھنا شروع ہوئے تو وہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو سال بعد سکھایا ، پانچ سال بعد سکھایا ، دس سال بعد سکھایا ،یا  بیس سال بعد سکھایا جب بھی سکھایا تو قرآن مجید جیسے ہی نازل ہوا تو نبی کریم ﷺ نے قرآن مجید لکھوانا شروع کر دیا تھا۔

کتاب النبیﷺ  کے موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ  میں   آپﷺ کے کاتبین  چھیالیس کے قریب بتائے گئے  ہیں جن سے آپ نے قرآن کریم لکھوایا ہے۔  کیا ہم تصور کر سکتے ہیں کہ نبی کریمﷺ قرآن کریم لکھوا رہے ہوں  اور وہ اپنی مرضی سے لکھ رہے ہوں  ، یہ تصور کر لینا کہ  صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد[2]سے لکھ دیا پھر تو یہ بھی تصور کر لیں کہ صحابہ کرام نے غلط لکھ دیا ہو گا،  کسی نے آیت ہی غلط لکھ دی ہو گی یا کسی نے لفظ غلط لکھ دیا ہو گا ، لہٰذا  جو کچھ نبی کریمﷺ نے لکھوایا ہے وہ اللہ رب العالمین کی نگر انی میں تھا اور یہ نبی کریمﷺ کا معجزہ ہے کہ   لکھنا پڑھنا نہ جانتے ہوئے بھی   اتنا اہتمام فرمایا کہ شروع میں آپ ﷺ نے  احادیث مبارکہ لکھنے سے منع کر دیا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جس نے کوئی حدیث لکھی ہے وہ حدیث کو مٹا دے ،بعد میں  جب صحابہ کرام میں  یہ امتیاز پیدا ہوگیا تو  آپ ﷺنے قرآن کے علاوہ حدیث  لکھنے کی بھی اجازت دے دی ۔

رسم  قرآن کریم کو  صحابہ کرام کا اجتہاد بنا نا عجیب موقف ہےجس کا مطلب یہ ہےکہ  صحابہ کرام نے اپنی مرضی سے قرآن کریم کو جیسے چاہا لکھ دیا ۔ صحابہ کرام نے قرآن کریم نبی اکرمﷺ کے حکم سے اور آپ  کے سامنے لکھا ہے بلکہ احادیث میں تو یہاں تک  موجود ہے کہ نبی اکرمﷺ اس میں تصحیح بھی کروایا کرتے تھے ۔

عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: «كُنْتُ أَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  وَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ أَخَذَتْهُ بُرَحَاءُ شَدِيدَةٌ، وَعَرِقَ عَرَقًا شَدِيدًا مِثْلَ الْجُمَّانِ، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَكُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهِ بِقِطْعَةِ الْكَتِفِ أَوْ كَسْرَةٍ، فَأَكْتُبُ وَهُوَ يُمْلِي عَلَيَّ، فَمَا أَفْرَغُ حَتَّى تَكَادَ رِجْلِي تَنْكَسِرُ مِنْ ثِقْلِ الْقُرْآنِ حَتَّى أَقُولَ: لَا أَمْشِي عَلَى رِجْلِي أَبَدًا، فَإِذَا فَرَغْتُ قَالَ:"اقْرَأْ "، فَأَقْرَأَهُ، فَإِنْ كَانَ فِيهِ سَقْطٌ أَقَامَهُ، ثُمَّ أَخْرُجُ بِهِ إِلَى النَّاسِ».مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (1/ 152) :684 -

سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے دور میں یہ اہم  مسئلہ پیدا ہوا  کہ جنگ یمامہ میں بہت سارے قرآن کے حافظ  شہید ہوگئے، جس سے  حضرت عمرؓ کے دل میں قرآن کی ایک ماسٹر کاپی تیار کرنے کا جذبہ پیدا  ہوا ،  حضرت ابو بکر صدیقؓ  کے سامنے انہوں نے  اپنی  تجویز پیش کی تو اوّل اوّل وہ تیار نہیں ہو ئے کہ نبی اکرمﷺ نے یہ کام نہیں کیا توہم کیوں کریں؟  حضرت عمرؓ  مسلسل توجہ دلا رہے تھے کہ نبی اکرمﷺ نے قرآن کریم کو   تلاوت کی صورت میں  جمع کیا ہے اگرچہ کتابی صورت میں نہیں کیا     ۔ اہل قرآن صحابہ کی شہادت کی وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ اسے لکھ بھی لیا جائے،  بار بار افہام و تفہیم کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اطمینان قلب حاصل ہو گیا تو انہوں نے  حضرت زید بن ثابت ؓ کو اس مقصد کے لیے  تیار کیا ۔  لہٰذا  جمع صدیقی  اسی رسم الخط کے مطابق تھی جس پر نبی اکرمﷺ نے صحابہ کو کتابت کروائی تھی اور جمع عثمانیؓ بھی اسی نبوی رسم الخط پر تھی کوئی نئی نہیں تھی۔ حالانکہ جمع قرآن تو اللہ کی ذمہ داری ہے، جیساکہ ارشاد ربانی ہے :

{إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ  فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ}[القيامة:17، 18]

نبی کریمﷺ کے دور میں ہونے والے کام کو  جمع نبوی کہہ دیتے ہیں، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے  اگلا قدم اٹھایا   تو  اسے    جمع صدیقیؓ  کہنے لگے۔ جب حضرت عثمان نے تحقیق مزید کے طور پر یہ کام تیسری بار کیا تو اسی نسبت سے اس کو جمع عثمانی کہا گیا۔آج ہم  دیکھتے ہیں کہ رسم کے سینکڑوں ہزاروں اختلافات ہیں ان  کلمات کی تطبیق کو چھوڑ کر ہم ایک نظریاتی بحث کر رہے ہیں حالانکہ اس کا اثر سینکڑوں ہزاروں کلمات کے وقف اور ابتداء پر پڑتا ہے۔ اگر ہم یہ موقف اختیار کرلیں کہ رسم عثمانی اجتہادی ہے تو  قرآن کریم کے کلمات کے ابتدا ء اور وقف میں  بے حد پیچیدہ مسائل سامنے آتے ہیں ۔مثلاً’فمال ھولاء القوم‘میں ابتداء ’ھولاء ‘ سے کریں گے یا   ’ ل  ‘ سے ، ایسے ہی’فمال‘ میں لام پر وقف درست قرار پائے گا یا نہیں۔ہم یہاں  ان تطبیقی بحثوں سے قطع نظر ایک نظریاتی بحث کر رہے ہیں۔

رسم عثمانی کے توقیفی ہونے کے قائلین  اس موضوع کو اس انداز سے نہیں لیتے کہ نبی اکرمﷺ لکھنا پڑھنا جانتے تھےیا نہیں؟  یا شروع میں لکھنا پڑھنا نہیں جانتے لیکن بعد میں جان گئے تھے ۔ اگر ایسا ہے تو  آپ خود ہی قرآن  لکھ لیتے ، نبی اکرم ﷺْ  کا یہ معجزہ در معجزہ ہے کہ آپ  ﷺ نے  لکھنا پڑھنا نہ جاننے کے باوجود خود لکھوایا ہے ، اور  صحابہ کرام نے آپ کے سامنے لکھا ہے ۔ قرآن مجید کا لکھنا نبی اکرم ﷺ کی’’ تقریر‘‘ ہے اور’’تقریر‘‘ بھی  نبی اکرمﷺ کی سنت ہوتی ہے ۔

ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی﷾

ڈاکٹر مدنی صاحب کا تبصرہ لمبا تھا جو نکات  بعد میں بولنے والوں کی گفتگو میں   آ چکے ہیں لہذا انہیں چھوڑ کر ہم حدیث مذکورہ بالا میں الفاظ (فَإِنْ كَانَ فِيهِ سَقْطٌ أَقَامَهُ، )کا درست مفہوم ذکر کر رہے ہیں ۔ مدنی صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر حافظ انس نضر کو ان الفاظ کے سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہے ۔ مدنی صاحب  نے اس کی مثال کے لیے نابینا علماء شیخ ابن باز  وغیرہ  کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا  کہ وہ اپنی  املاء کردہ  عبارتیں دوبارہ سنتے تو  لکھنے والے کی غلطی درست کروا دیتے  ۔ ان الفاظ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ آپؐ قرآن کریم املاء کروانے کے بعد کاتب سے سنتے اور اگر کوئی چیز  چھوٹ گئی ہو تو اسے درست کروا  دیتے   بلکہ   أَقَامَهُ     کا لفظ بتا رہا ہے کہ نبی اکرمﷺ کاتب سے تصحیح کرواتے خود صحیح نہیں کرتے تھے ،   گویا اس سے  آپؐ کا لکھنا پڑھنا ثابت نہیں ہوتا۔

حافظ فہد اللہ مراد  (مدیر  التعلیم جامعہ عزیزیہ ):

 ڈاکٹر حافظ انس نضر کی  گفتگو میں دو امور واضح کیے گئے ہیں :ایک یہ کہ  نبی اکرمﷺ لکھواتے تھے ،  اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ   نبی اکرمﷺ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ،علماء کے ما بین اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اب ان دونوں   کو جمع  کیسے کیا جائے ؟ ۔ اس پر ڈاکٹر  انس  نضر  نے فرمایا ہے کہ آپ کتابت کی درستگی معجزانہ طور پر کرواتے تھے جبکہ  حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی اکرمﷺ لکھوانے کے بعد کاتب کو لکھے ہوئے کو پڑھنے کا حکم دیتے اور اس کی  سماعت فرماتے  ، اس میں کوئی کمی پیش رہ جاتی تو  اسے پورا  کروا دیتے۔   کسی بھی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپؐ نے کاتبین وحی کے لکھے ہوئے کو دیکھ کر پڑھا ہو اور پھر نشان دہی کی ہو کہ  یہ غلطی ہے اسے درست کر  دو   ۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ آپ معجزانہ طور پر کتابت درست کرواتے تھے تو اسے درست کروانے کی کوئی عملی مثال  نہیں ملتی۔اس سے معلوم   ہوتا ہے  کہ  کتابت میں اعتماد کاتبین پر تھا چونکہ وہ کتابت کے ماہر تھے جبکہ  اس کے  تلفظ میں  اعتماد رسول اللہﷺ پر تھا ۔

ڈاکٹر حافظ انس  نضر مدنی  

’اقامه‘ سے پہلے لکھوانا  نبی اکرمﷺ کی  تقریر ہے، جبکہ  دوسرے موقف کا نتیجہ یہ ہے  کہ صحابہ کرام کا لکھنا  اجتہادی امر تھا۔ میں کہتا ہوں  کہ نبی اکرمﷺ کا لکھوانا نبی ﷺ کی تقریر تھی جو   اللہ کی نگرانی میں ہوتی تھی  ، ’ اقامه‘   کا لفظ  اس کی تائید  کررہا ہے ۔

(تبصرہ :  اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے نیز اسے اجتہادی کہنا بھی غلط ہے )

حافظ  فہد اللہ مراد   

اصل  مسئلہ  یہ ہے کہ یہاں دو باتیں ہیں  : رسول اللہﷺ کا لکھوانا تقریر ی تھا یا صحابی کی کتابت تقریر ی تھی ۔ نبی اکرمﷺ کا معجزاتی طور پر لکھنا ، یا  رسول اللہﷺکا  معجزاتی طور پر قرآن کا لکھوانا اور  کاتبوں سے ہونے والی غلطیاں  معجزاتی طور پر سمجھ جانا  اور ان کی تصحیح کرانا ، اس کی  کوئی دلیل ہونی  چاہیے۔  یہ تو ثابت ہو گیا  ہے کہ املاء کرواتے تھے اور اسے دوبارہ پڑھا کر سنتے تھے ۔ ذخیرہ حدیث میں   کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ   نبی اکرمﷺ نے فلاں موقعہ پر قرآن کا کوئی لفظ لکھا، یا آپ نے فلاں  لفظ دیکھ کر  ٹھیک کرایا ۔

نبی اکرمﷺ کا بول کر  کتابت کروانا ، املاء تقریری نہیں بلکہ قولی  حدیث  ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے دور میں جس صحابی نے کتابت کی تھی وہ درست تھی کہ نہیں ؟  یہی کافی ہے کہ صحابہ ماہرین تھے لہذا ان کی    کتابت درست ہوتی تھی ۔ نیز صحابہ عدول تھے اس لیے ان کی کتابت بھی درست تھی ۔  

ڈاکٹر حافظ انس  نضر مدنی  

آپ ﷺ نے اجتہاد کیا کہ نہیں ۔  جہاں اللہ کی طرف سے اصلاح نہیں آئی وہاں آپ کا اجتہاد وحی بن گیا اور جہاں اللہ کی طرف سے اصلاح آ گئی  وہاں اصلاح کے بعد وحی بن گیا۔ اب نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام کو لکھوایا جہاں نبی اکرمﷺ نے اصلاح فرما دی وہ  تقریری وحی بن گئی اور جہاں آپ نے اصلاح نہیں فرمائی   وہاں آپ کا  اصلاح نہ فرمانا وحی ہے ۔

قاری فہد اللہ مراد   

شیخ محترم ! یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ صحابہ کرام  میں  سے کاتبین وحی تقریباً چھیالیس ہیں اور بعض نے ساٹھ بھی لکھے ہیں، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور میں لکھنے والے ایک آدمی  زید بن ثابتؓ ہیں اور حضرت عثمانؓ کے دور میں زیادہ سے زیادہ  گیارہ لوگ ثابت ہو تے ہیں۔اگر چھیالیس کاتبین  وحی کی کتابت   تقریر نبوی تھی تو  حضرت زید بن ثابتؓ  کو کیسے پتہ چل گیا کہ اس میں تقریری  کیا ہے ؟

مولانا علی مرتضی طاہر    (شیخ الحدیث جامعہ ام حبیبہ ،لاہور):

اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ رسم قرآنی کے بارے میں جو اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ آیا یہ رسم قرآنی ہے یا رسم نبوی ہے اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ جناب نبی اکرمﷺ نے درست قراءت سکھائی ہے اور لکھنے کے بارے میں وسعت رکھی گئی ہے، ا س  بارے میں کاتبین وحی پر پورا  اعتماد کیا گیا ہے وہ اپنی مہارتِ کتابت کے ساتھ لکھتے تھے اور نبی اکرمﷺ کو پڑھ کر سناتے تھے جب صحابی کی قراءۃ رسول اللہ ﷺکی قراءۃ کے موافق ہوتی تو یہ عمل مکمل ہو جاتا ہے اورجہاں کوئی لفظ چھوٹ جاتا  آپ اس کو درست کروا  دیتے۔

اس وسعت کی مثال یہ ہے کہ لفظ ’ابراہیم ‘ سورۃ بقرہ میں بغیر یاء کے مکتوب ہے اور بقیہ مقامات پر یاء کے ساتھ مکتوب ہے جبکہ یہ  رسم  دو قراءتوں کو شامل ہے  کیونکہ وہاں نقطے موجود نہ تھے زیادہ سے زیادہ شوشے کا فرق تھا اور نبی اکرمﷺ کے حکم پر ان شوشوں  کے فرق کو ثابت کرنا ممکن نہیں ہے ایسے  ہی  جو یہ  کہا جا رہا ہے کہ ’تابوت ‘ کی تاء کو گول تاء سے لکھنا ہے یا لمبی سے وہاں گول اور لمبی تاء کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہاں لفظ ہیں ’فاکتبوہ بالتاء‘ اب یہاں سے کیسے متعین ہوا کہ لمبی تاء سے لکھنا ہے اس کا مطلب ہے اختلاف ھا اور تاء کے لکھنے کا تھا اس لیے حضرت عثمانؓ  نے لمبی  تا متعین کر دی ۔   لہذا  موجودہ رسم الخط رسم عثمانی ہے  جو کاتبین  صحابہ کے فہم اور مہارت پر منحصر  تھا ۔علاوہ ازیں  حضرت عثمان ؓ سے پہلے کاتبین وحی مختلف قبائل سے تھے  تو کتابت کا اسٹائل بھی مختلف تھا ۔ رسم عثمانی پر صحابہ کے درمیان کوئی گفتگو   یا   اختلاف نہیں ہوا جو بتا رہا ہے کہ اس معاملے میں خاصی وسعت تھی۔

ڈاکٹر حافظ حمزہ  مدنی    

آپ کہہ رہے تھے کہ لغت قریش کے مطابق لکھا، ایک کلمہ ’العُلمٰؤُا ‘ ہے جو سورۃ فاطر میں واؤ کے ساتھ اور باقی پورے قرآن میں الف کے ساتھ’ العلماء‘ لکھا ہوا ہے۔ اس پر قراءتوں کے      متعدد  مسائل ہیں ، قراءۃ حمزہ متواتر ہے اس میں اس واؤ کی رسم کی وجہ سے بارہ قراءتیں  جائز  ہیں ۔  اگر واؤ کے ساتھ نہیں لکھا گیا  تو  اس میں پانچ وجہیں ہیں۔     مثلاً سورت فاطر والے ’العُلمٰؤُا ‘میں صرف ایک قول ہے کہ  یہ واؤ کے ساتھ ہے اور سورت شعراء کے کلمے میں علمائے رسم کے دو قول ہیں  :  واؤ کے ساتھ لکھا جائے یا واؤ کے بغیر ۔

نبی اکرمﷺ کے ذمہ  پڑھنا اورپڑھانا دونوں چیزیں تھیں  جس میں وصل اور وقف کی کیفیت کا فرق بتانا بھی شامل تھا  ۔ فَمَالِ میں لام کاٹ کر وقف کرنا ہے یا ملاکر حدیث کے الفاظ ہیں ’کنت أکتب الوحی‘اور آگے جا کر لفظ ہیں ’فاقرأه‘کہ پڑھ کر سناؤ ، آپ کا  اقرأ   وصل، وقف، ابتداء ان تینوں شکلوں  پر تھا   ۔

ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی    ﷾

 اس بحث میں جب ہم یہ بات کہہ رہے ہیں کہ یہ رسم نبوی نہیں ہے تو یہ  رسم قرآنی کے بارے میں کوئی انتہائی موقف نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ صحابہ کرام  بڑے عالم تھے اور انہوں نے بہت اہتمام کیا ہے  جبکہ  رسم الخط میں بہت ساری حکمتوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ یقیناً صحابہ کرام بہت بڑے ماہرین قرآن اور قراءات تھے انہوں نے ایک ایک بات کو ملحوظ رکھا ہے مثال کے طور پر لفظ’ ابراہیم‘ میں جہاں یاء کے شوشے کے بغیر کتابت ہے  وہ بلا سبب نہیں بلکہ اس امر  کی طرف اشارہ کرنا مطلوب ہے کہ   ’ابراہیم‘  کا اصل  نام  ’ابراھام‘  تھا کیونکہ  آپ ﷣   اصلاً عبرانی  تھے ، لہذا ہمیں صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی  رسم عثمانی میں موجود حکمتوں پر غور کرنا چاہیے نہ کہ بغیر کسی  ثبوت  کے اسے رسم  نبوی بنا دیں ۔

ڈاکٹر حافظ انس نضر  مدنی اور والد گرامی ڈاکٹر حافظ  عبدالرحمن مدنی﷾

آپ نے مدنی صاحب کی گفتگو پر یہ اعتراض کیا کہ صحابہ نے اپنی مرضی سے کر لیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے جس پر جناب ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی صاحب نے جواب دیا کہ صحابہ کرام  کی تلاوت  اپنی   مرضی نہیں تھی البتہ  رسم عثمانی کا تبین صحابہ  کا اتفاقی عمل تھا گویا قرآن کریم کی تدوین بھی صحابہ کرام کے اتفاق کی مرہون احسان ہے۔ مزید یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا کہ اگر آپ رسم قرآنی کے نبوی ہونے پر اصرار کرتے ہیں  تو یہ بھی بتایا جائے کہ لفظ ’ التابوت‘ میں رسم نبوی  کیا تھا ؟ جو ثابت نہیں ،  لہذا رسم عثمانی کے توقیفی ہونے  کا یہی مفہوم کہ ان کی ذات تک توقیفی  ہے  اور یہ متفق علیہ ہے۔

ڈاکٹر حمزہ  مدنی

ڈاکٹر حمزہ صاحب نے بحث کو نتیجہ خیز بناتے ہوئے   یہ موقف پیش کیا کہ  یہ  موقف  درست ثابت ہو چکا  کہ کتابت ( رسم)  صحابہ  کا عمل تھا    البتہ صحابہ لکھتے ہوئے آپؐ کی قراءات کو مکمل طور پر ابتداء وقف، وصل وغیرہ کے ساتھ کتابت میں سمونے کی کوشش کرتے تھے ،  ہم سب    اس سے زیادہ پر     اصرار مناسب نہیں   سمجھتے۔

شیخ الحدیث مولانا محمد شفیق مدنی﷾  

فضیلۃ الشیخ مولانا شفیق مدنی﷾ نے یہاں یہ ایک خوب صورت اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس سے پھر یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ قراءت میں اصل تلفظ ہے رسم نہیں ہے اور رسم کو ممکنہ حد تک تلفظ کے محفوظ کرنے کا متبادل  ذریعہ بنایا  گیا ہے یعنی وقف وصل ابتداء وغیرہ کی ساری گفتگو تو قراءۃ اور تلفظ کی ہے لہذا اصل تلفظ اور قراءۃ ہے ،اصل رسم الخط  نہیں ہے۔

حاصلِ  گفتگو

آخر میں اس پوری  مبحث کا ایک اتفاقی خلاصہ یوں نکالا گیا  کہ کتابتِ مصحف  رسم نبوی نہیں ہے بلکہ  اہل  قرآن صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تیار کردہ ہے البتہ اس میں اس بات کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے کہ نبی گرامی قدر ﷺ کی تلاوت کے  وقف، وصل اور ابتداء کو حتی المقدور  اس کتابت میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے ۔

(نماز عصر  کے بعد  باہر سے آنے والے مہمان گرامی کو پرتکلف کھانا کھلایا گیا )

 

[1]     علم استدلال میں مصلحت مرسلہ سے مراد وہ علم و عمل ہوتا ہے جو کتاب و سنت سے تو ثابت نہ ہو لیکن مصلحت انفرادی یا اجتماعی کا تقاضا ہو اور مقاصدِ شریعت کے تحت ہو ۔

[2]     اجتہاد کی اصطلاح فن فقہ کی ہے جبکہ نبی ﷺ کا صحابہ کو لکھوانا اجتہاد نہیں کہلاتا ۔