اہل سنت اور اہل تشیع  کے  اصول حدیث

ابو خزیمۃ علی مرتضی طاہر

اہل سنت اور اہل تشیع  کے  اصول حدیث

 اصولِ حدیث و خبر  میں اہل سنت اور اہل تشیع کا  موازنہ

ملت اسلامیہ کے امتیازات میں فنِ اسناد بھی ہےجو شریعت اور تاریخ دونوں میں یکساں اہمیت رکھتا ہے۔  عبداللہ بن مبارک   کا مشہور قول ہے :  لو لا الإسناد لقال من شاء ما شاء فنِ اسناد کےدو پہلو ہیں: رجال اور تحمل و اداء۔ فنِ تاریخ بھی خبر کی قسم میں سے ہے اس لیے ہر خبر کے لیے ایک یا زیادہ رواۃ کی ضرورت ہوتی ہے ،اگر چہ شریعت اور عام تاریخی خبروں کے   معیارات میں فرق ہے ۔چونکہ پچھلی امتوں میں  نبی اور حکمران الگ الگ  رہے ہیں جو پہلی دفعہ حضرت داؤدؑ  میں نبوت اور بادشاہت کی صورت میں اکٹھے ہوئے ، اس لیے قرآن کریم میں :{يَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ } میں دونوں کی مشترکہ خلافت کی بات کی گئی ہے ، خاتم النبیین محمد ﷺ میں بھی دونوں حیثیتیں جمع ہوئیں لیکن آپؐ کی وفات کے  بعد حکمرانی میں ’ خلافت ‘  کا سلسلہ قائم ہوا جبکہ آپ کی نبوت بلا اختلاف کل انسانیت کے لیے تا قیامت باقی ہے ، آپ ﷺ    کے بعد امتِ مسلمہ میں پہلا اختلاف امامت و خلافت کا تھا جو بعض خوفناک تاریخی حوادث کی وجہ سے عقیدہ و مذہب کا نزاع بن گیاورنہ خلافت عہدہ سیاسی ہوتا ہے ، البتہ وہ نبوت کا لاحقہ ہونے کی بنا پر شدید تعصبات کا شکار ہوگیا ہے جسے ختم کرنے یا قربت پیدا کرنے کی اَن گنت کوششیں کی گئیں لیکن امت میں سیاسی وحدت قائم نہ ہوسکی ، تاہم امام مہدی کے دور میں نہ صرف مسلمان اکٹھے ہوجائیں گے بلکہ اہل کتاب بھی عیسیٰ   کی موت سے قبل سب ایمان لے آئیں گے ۔ چونکہ اب شیعہ سنی دونوں امتِ  اسلامیہ  کے مستقل فرقے ہیں  اس لیے شریعت جس کا ثبوت صرف روایت و درایت کی بنا  پر ہے ۔ سطور ِذیل میں ان کے فنِ روایت  و درایت کے جزوی اختلافات کا ایک علمی موازنہ    پیش کیا جارہا ہے تاکہ وہ وجوہ سامنے آجائیں جو  دونوں فرقوں کی کتاب و سنت کے مشترکہ نعرے کے باوجود اصل بنیاد اجاگر ہوجائے جو مسئلۂ  خلافت ہے، ورنہ فقہی طور پر زیدیہ اور حنفیہ کا جو تقارب ہے شائد جعفریہ اور شوافع کا  تقارب  اس سے بڑھ کر  ہے ۔ بہر صورت مسئلہ خلافت جو ایک قصہ ماضی ہے اگر اسے حال  اور مستقبل  کے تقاضوں سے دیکھا جائے تو امت محمدیہ میں اتحاد و اشتراک کی راہیں نکل سکتی ہیں ۔ اللہ ارحم ا  لراحمین مسلمانوں کو  ’رحمۃ اللعالمین‘ کے جھنڈے تلے متحد کردے ۔(محدث)

امتِ اسلامیہ جب مختلف گروہوں میں تقسیم ہوئی توہر گروہ نے اپنے  اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے  بے بنیاد باتوں کورسول اکرم کی طرف منسوب کرنا شروع کر دیا، اس طرح وضع حدیث کا فتنہ شروع ہوا۔ پھر ہر جماعت  گروہ در گروہ تقسیم ہوتی چلی گئی۔ ان میں سے کچھ تو  ختم ہو گئے اور کچھ کا وجود کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ جو فرقہ سب سے پہلے  امت سے الگ ہوا وہ اہل تشیع ہیں۔   وضع حدیث کا چلن  عام ہوا تو علماء و محدثین نے حدیث کے ذخیرے کو محفوظ رکھنے کے لیے روایت کے قبول و رد اور رواۃ کی جرح و تعدیل کے اصول و ضوابط مرتب کیےاور اس علم کو’’  فنِ حدیث یا فن ِروایت و درایت  ‘‘  کا نام دیا۔اسی فن کی بدولت  رسول اللہ ﷺ سے  منسوب کی جانے والی جھوٹی اور غیر ثابت روایات کی حقیقت واضح ہوتی  اور فِرق باطلہ کی قلعی کھلتی ہے۔ اس لحاظ سے علوم الروایۃ  کا فن امتِ مسلمہ  کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔

 شیعہ کے بھی کئی  فرقے ہیں، جنہیں مجموعی طور پر امامیہ بھی کہتے ہیں  کیونکہ ان کے ہاں دین کی اصل بنیاد امام ہیں تاہم ان میں شریعت کے قائلین اور صرف امامت کا عقیدہ کے فرق کے اعتبار سے تقسیم بھی ہے اول الذکر اسماعیلی اور علوی کہلاتے ہیں جنہیں امامیہ بھی کہا جاتا ہے یہ شریعتِ محمدیہ کو نہیں مانتے   جبکہ ثانی الذکر شریعت ِمحمدیہ کے قائل ہیں  ان میں سے   زیدیہ اور  اثنا عشریہ (جعفریہ)    ہیں ،  زیدیہ تو اہلِ سنت کے بہت قریب ہیں البتہ جعفریہ نے بھی  کسی حد تک اصول روایت کے متعلق تصنیف و تالیف کی ہیں ۔   جن میں احادیث کی تعریفات وغیرہ میں اہل سنت سے کسی قدر ہم آہنگی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے یہ اصطلاحات اہل سنت  سے لی ہیں، ان کے خاص  اصول و ضوابط  ہیں ، لیکن  ان میں اصول تاریخ کا  رنگ و ڈھنگ  پایا جاتاہے، اسی لئے اہلِ سنت انہیں ’اخباری‘ کہتے ہیں  اسی کے مطابق وہ حدیث کو قبول یا   رد کرتے ہیں، اہل تشیع نے احادیث کے موضوعات ، کتب کی ابواب بندی ،مضامین  و مفاہیم،  فنی اصطلاحات ، رواۃ  اور متن کے  قبول و  رد ّ کے اصول و ضوابط سب اپنے مطابق   ترتیب دیےہیں ۔ یہ ایک دقیق موضوع ہے ، تاہم اس مختصر مقالہ میں ہم اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین  اصطلاحاتِ حدیث کے بنیادی اصولوں    کا تقابلی جائزہ   لیں گے  ۔ یہ  ایک تاریخی فرقہ واریت کا ارتقاء ہے  ، اس لیے اسے مناظرانہ پسِ منظر کی بجائے خالص تحقیقی  نظر سے دیکھا جائے ۔   

اہل سنت کی تعریف:

علامہ ابن حزم اہل سنت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَأهل السّنة الَّذين نذكرهم أهل الْحق وَمن عداهم فَأهل الْبِدْعَة فَإِنَّهُم الصَّحَابَة رَضِي الله عَنْهُم وكل من سلك نهجهم من خِيَار التَّابِعين رَحْمَة الله عَلَيْهِم ثمَّ أَصْحَاب الحَدِيث وَمن اتبعهم من الْفُقَهَاء جيلاً فجيلاً إِلَى يَوْمنَا هَذَا أَو من اقْتدى بهم من الْعَوام فِي شَرق الأَرْض وغربها رَحْمَة الله عَلَيْهِم ۔[1]

’’اہل سنت جن کا ہم نے ذکر  کیا ہے ، وہی اہل حق ہیں ، ان کے علاوہ   سب   اہل بدعت ہیں  ۔ بلاشبہ صحابہ کرام  کے نہج پر چلنے والے تابعین عظام ، پھر محدثین اور ان کی پیروی کرنے والے فقہاکرام نسل در نسل آج تک اور ان کی اقتدا کرنے والے  مشرق و مغرب کے عوام بھی اہل سنت ہیں ۔‘‘

 حافظ ابن جوزی فرماتے ہیں:

أهل النقل والأثر المتبعين آثار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وآثار أصحابه هم أهل السنة لأنهم عَلَى تلك الطريق التي لم يحدث فيها حادث وإنما وقعت الحوادث والبدع بعد رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأصحابه.[2]

’’اہل نقل و اثر میں  احادیث رسول  ﷺ اور آثار صحابہ کرام کی اتباع کرنے والے ہی اہل سنت ہیں ، اس لیے کہ اس طریقے  پر چلنےوالوں میں کوئی بدعت اور ضلالت نہیں ہے ، کیونکہ بدعت اور گمراہی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں ۔‘‘  

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہاہل السنۃ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

لِأَنَّهُمْ مُتَمَسِّكُونَ بِكِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَمَا اتَّفَقَ عَلَيْهِ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَاَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانِ.[3]

’’اس لیےکہ وہ بلاشبہ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کو مضبوطی سے تھامنے والے ہیں ، مہاجر و انصار صحابہ میں سے سابقون اولون اور ان کی اتباع کرنے والے بھی  اسی پر متفق تھے ۔‘‘

مزید کہتے ہیں :

فَلَفْظُ’أَهْلِ السُّنَّةِ ‘ يُرَادُ بِهِ مَنْ أَثْبَتَ خِلَافَةَ الْخُلَفَاءِ الثَّلَاثَةِ، فَيَدْخُلُ  فِي ذَلِكَ جَمِيعُ الطَّوَائِفِ إِلَّا الرَّافِضَةَ.[4]

’’       ’ اہل سنت ‘  سے مراد وہ لوگ ہیں جو خلفاء ثلاثہ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں ، اس میں روافض کے علاوہ مسلمانوں کی  تمام جماعتیں شامل ہیں ۔‘‘

چنانچہ اہل سنت سے مراد وہ لوگ ہیں جو بدعات سے بچتے ہوئے ، عقائد و  اعمال  اور توحید و رسالت کے اصولوں میں اسی چیز کا تمسک کرنے والے ہوں جس پر نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام تھے ۔

اہل تشیع کی تعریف:

لغوی اعتبار سے شیعہ کسی شخص کے اعوان و انصار اور متبعین کو کہا جاتا ہے، جب کہ اصطلاحی مفہوم میں شیعہ سے مراد وہ گروہ ہے جو صلبی  آل نبیؐ کے متبعین اور محب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

امام جرجانی اپنی کتاب التعریفات میں لکھتے ہیں:

الشيعة: هم الذين شايعوا عليًّا، رضي الله عنه، قالوا: إنه الإمام بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، واعتقدوا أن الإمامة لا تخرج عنه وعن أولاده.[5]

’’شیعہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت  علی  کا ساتھ دیا ، ان کا  کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت علیؓ  ہی امام ہیں ، ان کا اعتقاد ہے کہ حضرت علیؓ اور ان کے اولاد سے کبھی امامت خارج نہیں ہوسکتی۔‘‘

علامہ ابن منظور رقمطراز ہیں: 

وأَصلُ الشِّيعة الفِرقة مِنَ النَّاسِ، وَيَقَعُ عَلَى الْوَاحِدِ وَالِاثْنَيْنِ وَالْجَمْعِ وَالْمُذَكَّرِ وَالْمُؤَنَّثِ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ وَمَعْنًى وَاحِدٍ، وَقَدْ غلَب هَذَا الِاسْمُ عَلَى مَنْ يَتَوالى عَلِيًّا وأَهلَ بَيْتِهِ، رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجمعين، حَتَّى صَارَ لَهُمُ اسْمًا خَاصًّا فإِذا قِيلَ: فُلَانٌ مِنَ الشِّيعة عُرِف أَنه مِنْهُمْ. وَفِي مَذْهَبِ الشِّيعَةِ كَذَا أَي عِنْدَهُمْ. وأَصل ذَلِكَ مِنَ المُشايَعةِ، وَهِيَ المُتابَعة والمُطاوَعة؛ قَالَ الأَزهري: والشِّيعةُ قَوْمٌ يَهْوَوْنَ هَوى عِتْرةِ النَّبِيِّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ويُوالونهم.[6]

’’  اصل میں شیعہ لوگوں کا ایک فرقہ ہے ،یہ لفظ واحد ، تثنیہ ، جمع ، مذکر ، مؤنث کے لیے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے ، اور سب کا معنی بھی ایک ہی ہے ۔ تحقیق یہ نام غالب طور پر ان لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے جو حضرت علی اور اہل بیت    سے محبت رکھتے ہیں ،  یہاں تک کہ یہ ان کا نام بن گیا ، اب جب یہ کہا جائے کہ فلاں شیعہ ہے ، تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ شخص اسی جماعت کا  ہے ۔  اور جب یہ کہا جائے یہ  شیعہ مذہب میں ایسا ہے تو اس سے  مراد ہوتا ہے کہ ان کے ہاں ایسا ہے ، شیعہ کی اصل مشایعۃ سے ہے، اور اس کا معنی متابعت  اور اطاعت کرنا ہے ۔ ازھری کہتے ہیں کہ شیعہ ایسے لوگ ہیں جنہیں نبی ﷺْ کے خاندان پر فخر کرتے اور ان سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ 

یعنی شیعہ کا اطلاق صرف اس گروہ پر ہوتا ہے جو سیدنا علی   ؓ          کا ساتھ دینے والے تھے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

وَلِهَذَا كَانَتِ الشِّيعَةُ الْمُتَقَدِّمُونَ الَّذِينَ صَحِبُوا عَلِيًّا، أَوْ كَانُوا  فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ لَمْ يَتَنَازَعُوا فِي تَفْضِيلِ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَإِنَّمَا كَانَ نِزَاعُهُمْ فِي تَفْضِيلِ عَلِيٍّ، وَعُثْمَانَ، وَهَذَا مِمَّا يَعْتَرِفُ بِهِ  عُلَمَاءُ الشِّيعَةِ الْأَكَابِرُ مِنَ الْأَوَائِلِ، وَالْأَوَاخِرِ حَتَّى ذَكَرَ مِثْلَ ذَلِكَ  أَبُو الْقَاسِمِ الْبَلْخِيُّ. قَالَ: سَأَلَ سَائِلٌ شَرِيكَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ اَبِي نَمِرٍ  ، فَقَالَ لَهُ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ أَبُو بَكْرٍ، أَوْ عَلِيٌّ؟ فَقَالَ لَه  أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ لَهُ السَّائِلُ: أَتَقُولُ هَذَا، وَأَنْتَ مِنَ الشِّيعَةِ؟  فَقَالَ: نَعَمْ إِنَّمَا الشِّيعِيُّ مَنْ قَالَ مِثْلَ هَذَا ، وَاللَّهِ لَقَدْ رَقَى عَلِيٌّ  هَذَا الْأَعْوَادَ، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ خَيْرَ  هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، أَفَكُنَّا نَرُدُّ قَوْلَهُ؟ أَكُنَّا نُكَذِّبُهُ؟ وَاللَّهِ مَا كَانَ كَذَّابًا!. [7]

’’  قدیم شیعہ تو وہ تھے جنہوں نے حضرت علیؓ  کا ساتھ دیا تھا ، یا اس زمانے کے لوگ جو  حضرت ابو بکر  ؓاور حضرت عمرؓ کی ا فضیلت کا نزاع کھڑا نہیں کرتے لیکن حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان افضلیت کا معاملہ کھڑا کرتے ہیں ، پہلے اور پچھلے اکابر شیعہ علماءنے اس کا اعتراف کیا ہے ، یہاں تک کہ اسی طرح کی ابو القاسم بلخی نے بیان کیا ہےکہ  ایک شخص نے شریک بن عبد اللہ بن ابو نمیر سے پوچھا  ابو بکر افضل ہیں یا علی افضل ہیں ، تو اس نے کہا : ابو بکر ۔ سائل نے کہا : آپ شیعہ ہو کر یہ کہہ رہے ہیں؟  اس نے کہا : ہاں ، بلکہ ہر شیعہ یہی کہتا ہے۔ اللہ کی قسم ! حضرت علی   نے چھڑی پر ٹیک لگائی اور فرمایا: خبردار ! اس امت میں نبی ﷺ کے بعد سب سے بہتر ابو بکر ، ان کے بعد عمر   ہیں ۔ تو کیا ہم ان کے قول کو رد کردیں ، کیا ہم انہیں جھٹلائیں ؟ اللہ کی قسم وہ جھوٹے نہیں ہیں ۔ ‘‘

حافظ ابن حزم نے شیعہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

وَمن وَافق الشِّيعَة فِي أَن عليا رَضِي الله عَنهُ أفضل النَّاس بعد رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وأحقهم بِالْإِمَامَةِ وَولده من بعده فَهُوَ شيعي وَإِن خالفهم فِيمَا عدا ذَلِك مِمَّا اخْتلف فِيهِ الْمُسلمُونَ فَإِن خالفهم فِيمَا ذكرنَا فَلَيْسَ شِيعِيًّا.[8]

’’جس شخص نے اس مسئلہ میں شیعہ کی موافقت کی کہ حضرت علی   رسول اللہ ﷺْ کے بعد سب سے افضل ہیں ، اور امامت کے حقدار ہیں اور ان کے بعد ان کی اولاد حقدار ہے ، وہ شیعہ ہے ، اگر چہ وہ دوسرےمعاملات میں ان کی مخالفت کرے جن کی دوسرے مسلمان مخالفت کرتے ہیں ، اگر وہ ان چیزوں میں ا ن کی مخالفت کرے جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے تووہ شیعہ نہیں ہے ۔‘‘

اہل تشیع کے تاریخی ادوار  میں کئی  فرقوں نےجنم لیا ، ان میں غیبوبت کا  بنیادی  اصول ہے جو کامل طور پر اسمعیلیوں میں پایا جاتا ہے جو شریعت محمدیہ کے ہی قائل نہیں  ،پھر  اثنا عشریہ ہیں  جو امام محمد  حسن عسکری تک تو شریعت کے قائل ہیں لیکن ان کا بارہواں امام کئی صدیوں سے غائب ہے  یہ بھی  اخباری اور اصولی  دو فرقوں میں بٹ گئے :                 1-  اثناعشریہ اخباری                       2-  اثنا عشریہ اصولی۔

’شیعہ اثناعشریہ اخباری ‘ کے نمایاں عقائد میں عصمت امام   ہے اور  وہ شیعہ کتب  اربعہ میں موجود تمام اصول و  فروع   کو من و عن تسلیم کرنا ہے جبکہ  شیعہ’ اثنا عشریہ اصولی‘ تقلید کے قائل ہیں  اور اہل سنت کی طرح احادیث کو تحقیق کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں۔ یہی دوسرا فرقہ ہماری بحث کا محور رہے گا کیونکہ  اسی فرقے  نے احادیث کی تحقیق کے لیے  کچھ خاص  اصول وضع کیے ہیں ، جنھیں  ہم اجما لاًبیان کریں گے، دونوں  فریق، مسئلہ  بداء ، رجعت، متعہ اور عام  صحابہ کرام کو غیر معتبر  سمجھنے جیسے عقائد کے حامل  ہیں۔

 اس مضمون میں پہلے حدیث و سنت کی تعریف، پھر  نقد و جرح کے ساتھ  تعد د رواۃ کے علاوہ   قبول و رد کے اعتبار سے احادیث کی  درجہ بندی   پیش کروں گا۔ ان شاء اللہ

اصطلاحات حدیث  و ان کی تعریفات و مفاہیم میں اہلسنت اور اہل تشیع کے مبادیات میں فرق :

اہل سنت اور اہل تشیع کے فن  حدیث  مع اصطلاحات و غیرہ   کا بنیادی فرق  ہے ، اسی فرق کے سبب سے فریقین کا فنِ حدیث ایک دوسرے سے  کافی حد تک   مختلف ہوجاتا ہے ، ذیل میں چند اہم  اساسی امور کے متعلق   فریقین کا نظریہ بیان کیا جاتا ہے :

1- سنت:

اہل سنت کے نزدیک سنت  کی تعریف:

اہل سنت کے ہاں حدیث و سنت نبی  علیہ الصلاۃ و السلام کا قول ،عمل اور تقریر ہے

 (یہاں سنت کا لفظ  مستقل الہامی  ماخذ کے پس منظر میں بولا جارہا ہے ، ورنہ دورِ تقلید میں   اہل سنت کے ہاں حدیث، اثر  یا سنت کا اطلاق آپ ﷺ کے خَلقی اور خُلقی اوصاف کے علاوہ   خلفائے راشدین کے منہج حکومت   پر بھی ہوتا ہے ۔لیکن یہ اطلاق خلافت  علی منہاج النبوۃ  کے  معنی میں ہے ۔)

حافظ  ابن رجب   سنت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَالسُّنَّةُ: هِيَ الطَّرِيقَةُ الْمَسْلُوكَةُ، فَيَشْمَلُ ذَلِكَ التَّمَسُّكَ بِمَا كَانَ عَلَيْهِ هُوَ وَخُلَفَاؤُهُ الرَّاشِدُونَ مِنَ الِاعْتِقَادَاتِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَقْوَالِ، وَهَذِهِ هِيَ السُّنَّةُ الْكَامِلَةُ، وَلِهَذَا كَانَ السَّلَفُ قَدِيمًا لَا يُطْلِقُونَ اسْمَ السُّنَّةِ إِلَّا عَلَى مَا يَشْمَلُ ذَلِكَ كُلَّهُ، وَرُوِيَ مَعْنَى ذَلِكَ عَنِ الْحَسَنِ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَالْفُضَيْلِ بْنِ عِيَاضٍ. [9]

’’سنت : اس راستے کو کہا جاتا ہے جس پر چلا جاتا ہے۔ یہ اس طریقے پر مشتمل ہے جس پر نبی ﷺ اور خلفاء راشدین  تھے اپنے اعتقاد ، اعمال اور اقوال کے ساتھ ۔ یہی سنت کاملہ ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے قدیم سلف ان تمام چیزوں کے مجموعے پر سنت کا اطلاق کرتے تھے  ۔ حسن بصری ، اوزاعی اور فضیل بن عیاض سے یہی معنی مروی ہے ۔‘‘

اہل تشیع کے ہاں سنت کی تعریف :

اہل تشیع کے ہاں بھی شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ حدیثِ رسول ہی ہے ،  لیکن ان کے ہاں  حدیث و سنت کا اطلاق آپ ﷺ کے اقوال ،افعال و تقریرات کے علاوہ  آئمہ معصومین کے اقوال ،افعال اور تقریرات پر بھی ہوتا ہے۔ یعنی  آئمہ معصومین کے  اقوال و احوال  بھی شریعت کا مستقل ماخذ اور حدیث و سنت  کا مصداق ہیں ، معروف شیعہ عالم حید رحب اللہ لکھتے ہیں :

و اما فی الاصطلاح الخاص بعلوم الدرایة و الحدیث  و المتعارف فی العلوم الدینیه عادة، فتعنی بالسنة قول النبی صلی الله علیه وسلم  أو المعصوم علیه السلام أو فعله أو تقریره. [10]

’’علوم درایت ، حدیث اور عام دینی علوم میں لفظ سنت جو بطور اصطلاح  استعمال ہوتی ہے ،    اس سے مراد نبی ﷺ یا امام معصوم کے قول ، فعل اور تقریر ہے ۔‘‘

یعنی  علوم دینیہ میں لفظ سنت سے مراد   فن حدیث  مع  علم درایہ اور آپﷺ یا آئمہ معصومین  کا قول، فعل اور تقریر ہے۔  شیعہ  اثنا عشریۃ  کے شیخ عبد اللہ مامقانی   لکھتے ہیں:

  عرف شرع میں حدیث اس کو کہتے ہیں جس کی اضافت نبی اکرم  ﷺ کی طرف کی گئی ہو  ،جبکہ   اثنا عشریہ    نے حدیث کی اصطلاحی تعریف یوں کی ہے: حدیث معصوم کے قول، فعل یا تقریر کی حکایت کو کہتے ہیں۔[11]

تنبیہ:      اثنا عشریہ کے نزدیک معصوم   سے مراد نبی کریم  ﷺ یا ان کے بارہ اماموں میں سے کوئی ایک ہے ۔[12]

معروف  شیعہ عالم شیخ رضا المظفر لکھتے ہیں :

و اما فقهاء الامامیة  بالخصوص فلما  ثبت لدیهم ان المعصوم من ال البیت یجری قوله مجری قول النبی من کونه حجة علی العباد واجب الاتباع ،فقد توسعوا فی اصطلاح السنة الی ما یشمل قول کل واحد  من المعصومین أو فعله أو تقریره .[13]

  شیعہ کے ہاں چونکہ ائمہ معصومین کے اقوال نبی ﷺ کے اقوال کی طرح بندوں پر حجت اور واجب الاتباع ہیں ،اس لئے فقہائے امامیہ  نے سنت کی اصطلاح میں توسیع کرتے ہوئے ائمہ معصومین کے اقوال،افعال اور تقریرات کو بھی سنت شمار کیا ہے ۔

 یہاں ایک اور بات قابل توجہ  ہے  کہ   امامیہ صرف اسی سنت کو مانتے ہیں جو اہل بیت کے طریق سے یعنی: الصادق، عن أبیه الباقر، عن أبیه زین العابدین، عن الحسن السبط، عن أبیه أمیر المؤمنین، عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم مروی ہو؛ اس لیے ہر وہ حدیث جو ان کے غیر سے مروی ہے یا اسناد میں کوئی ایسا راوی ہے جو ان کے طریقہ پر    امامی نہیں ہے؛ تو وہ ساقط الاعتبار ہے، خواہ وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو؛ اسی وجہ سے ان کے نزدیک حضرت ابوہریرہ، سمرہ بن جندب، مروان بن الحکم، عمر بن الخطاب اور عمرو بن عاص  ؓ  وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں. [14]

ملاحظہ:  سنت و حدیث کی اصطلاح کا یہ فرق بنیادی   اختلافی نکتہ ہے ،اسی نکتے پر دونوں  حدیثی ذخیرے  ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیں ، اہل سنت کے ہاں جب حدیث کا محور آپ  ؑ کی ذات ِگرامی ہے ، تو  تمام حدیثی سرگرمیاں آپ ؑ کے گرد گھومتی ہیں ،محدثین کی تالیفات کا بنیادی مقصد آپ  ؑکے فرامین کی جمع و تدوین اور فقہاء واہل اصول کے حدیثی مستدلات  کا منبع آپ ﷺ  کی ذات اقدس  ہے ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں  ائمہ معصومین   بھی   ماخذ شریعت  ہیں۔ جب  ائمہ معصومین کے اقوال و افعال  بھی ماخذ شریعت  ہیں تو وہ بھی  حفاظت و تدوین میں اسی  اہتمام کے متقاضی  ہیں  ،جو اہتمام   اقوال ِرسول ﷺ  کی حفاظت میں کیا جاتا ہے ۔

2۔عدالت ِصحابہ :

 صحابہ کرام وہ شخصیات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کے ساتھی اور معاون  بنایا ہے ، خطاب الہٰی کا اولین مخاطب اور امت تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ان کو امین قرار دیا ہے ۔ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان شریعت کے  مفاہیم و تصورات میں  دوسرا بنیادی  فرق  صحابہ کرام کی عدالت اور ان سے مروی روایات کے حکم کا ہے ۔

اہل سنت کے ہاں عدالتِ صحابہ:

اہل سنت کا متفقہ اصول ہے کہ تمام وہ حضرات جن کی صحابیت ثابت ہے ،ان کی روایت قابل ِقبول ہے، اہل سنت کے نزدیک صحابہ میں اگرچہ درجات  میں تفاضل ہے ،لیکن روایت کے اعتبار سے جملہ صحابہ عادل کے مقام پر فائز ہیں ، اس لیےصحابہ کے بعد والے  رواۃ کی جانچ پڑتال ہوگی، صحابہ کرام کی جانچ نہیں ہوگی ۔

اہل تشیع  کے ہاں عدالتِ صحابہ:

اہل تشیع   نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کو کوئی الگ مقام نہیں دیتے ، ان کے ہاں صحابہ میں بھی عادل ، فاسق ، منافق ،بدعتی اور دیگر اقسام موجود ہیں ،اس لیے  اہل تشیع  کا دعویٰ ہے کہ وہ  صرف عادل صحابہ کی روایات قبول کرتے ہیں  اور عادل صحابہ سے مراد وہ صحابہ ہیں ،جو حضرت علی  ؓ کے ساتھ کھڑے رہے ،چنانچہ معروف شیعہ عالم  احمد حسین یعقوب ’’ نظرية عدالة الصحابه ‘‘ میں لکھتے ہیں :

کل الذین وقفوا مع  علی و والوه ھم صحابة عدول .[15]

’’وہ تمام لوگ جنہوں نے  حضرت علیؓ اورا ٓپ کی اولاد کی موافقت کی وہ عادل ہیں ۔‘‘

 اب سوال یہ ہے وہ کتنے صحابہ ہیں ،جن کا حضرت علی ؓ کے ساتھ   موالات ثابت ہیں ،تو معروف شیعہ محدث  شیخ جعفر سبحانی لکھتے ہیں :

و قد قمنا بتالیف کتاب حول صحابة النبی الذین شایعوا علیا فی حیاة النبی و بعد رحلته الی ان لفظوا اخر نفس من حیاتهم فبلغ عددهم 250 شخصا. [16]

یعنی ہم نے ان صحابہ کے حالات پر ایک کتاب لکھی ہے ،جو زمانہ نبوت اور اس کے بعد آخر وقت تک حضرت علیؓ کے ساتھی رہے ،تو ان کی تعداد 250 تک ہے۔ویسے تو  صحابہ کرام کی تعداد  ایک لاکھ سے زائد کتب  تاریخ میں منقول ہے ،لیکن جن صحابہ کے احوال (خواہ قلیل ہو یا کثیر ) محفوظ ہیں،ان کی تعداد بارہ ہزار سے  اوپر ہے ،حافظ ابن حجر    کی کتاب ’الاصابة فی تمییز الصحابة‘میں 12446  صحابہ کرام کے تراجم مذکور ہیں۔

الغرض رواۃ صحابہ کی تعداد قطعی طور پر تو کسی نے استیعاب کے ساتھ بیان نہیں کی ،لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق جمیع کتب حدیث کے رواۃ صحابہ  کی تعداد دو ہزار کے قریب قریب بنتی ہے ،جبکہ  اہل تشیع کے ہاں صرف ڈھائی سو کی روایات قابل قبول ہیں، تو گویا  اہل تشیع  رواۃ صحابہ میں سے صرف  پندرہ فیصد صحابہ کی روایات لیتے ہیں ،اور پچاسی فیصد  رواۃ صحابہ کو غیر عادل قرار دے کر ان کی روایات  کو رد کرتے ہیں ،جن میں مکثرین صحابہ حضرت ابو ہریرہؓ  اور حضرت عائشہ ؓ  جیسی شخصیات بھی شامل ہیں ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت ِصحابہ کے نظریے کو نہ ماننے کی صورت میں کتنی احادیث  کو رد کرنا پڑیں گی ،یہی وجہ  ہے کہ شیعہ کتب احادیث میں مرفوع ( یعنی نبی ﷺ سے منسوب )روایات انتہائی قلیل ہیں ۔

مراتب صحابہ:

شیعہ امامیہ کے نزدیک نبی کریم ﷺ کا صحابی بننا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے ، اسی لیے  ان کے نزدیک صحابی کی توثیق کی حاجت ہوتی ہے! جیسا کہ اوپر اس کا بیان گزرا ہے ، نیز شیعہ امامیہ کے عالم مامقانی لکھتے ہیں:

 ’’عدالت کے متعلق صحابہ اور دیگر لوگوں کا حکم یکساں ہے، آدمی کا صرف صحابی ہونا اس کے عادل ہونے  پر دلالت نہیں کرتا بلکہ ان کے اندر عدالت کا پایا جانا ضروری ہے، ہاں اگر صحابی ہونا ثابت ہے تو اب ان کے اسلام کی تفتیش کی ضرورت نہیں، لیکن اگر کوئی نبی ﷺ کے بعد مرتد ہوگیا ہو تو تفتیش ضروری ہے؛ لہذا عامہ (اہل سنت و جماعت) جو یہ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے امیر المؤمنین علیہ السلام سے قتال کیا سب عادل ہیں، محض عناد ہے‘‘  [17]

اپنی اسی رائے  کی بنا پر انہوں نے صحابہ کرام ﷡کے مختلف مراتب بیان کئے ہیں :

 (۱) وہ صحابہ جن کی عدالت معلوم ہے، جیسے سلمان فارسی، ابو ذر غفاری، عمار بن یاسر، جابر بن عبد اللہ، بلال بن رباح اور وہ لوگ جنہوں نے آل بیت کی مدد اور ان کی اتباع کی۔

 (۲) وہ صحابہ جن کا فسق و جھوٹ معلوم ہے، ہر وہ صحابی جو آل بیت سے منحرف ہوااور ان کے لیے عداوت و بغض کا اظہار کیا، جیسے ابوہریرہؓ، انس بن مالکؓ اور سیدہ عائشہ  ؓ وغیرہ۔

(۳) وہ صحابہ جن کی حالت معلوم نہیں، اس باب میں شیعہ امامیہ کے علما نے کوئی مثال پیش نہیں کی۔

شیعہ امامیہ کے نزدیک صحابہ میں سے جن کی عدالت معلوم ہے ان کی روایت مقبول ، جو فسق و فجور سے متصف ہیں ان کی روایت غير مقبول  ہے ،اور جن کی حالت مجہول ہے ان کی روایت میں توقف کیا جائے گا۔[18]

صحابہ کرام ﷢ کی ایک بڑی تعداد  کو آل بیت کا دشمن سمجھنا  سوائے جہالت اور عناد کے کچھ نہیں ہے ۔  کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام صحابہ ﷢  آل بیت سے محبت کرنے والے تھے۔

عدالت صحابہ کے متعلق درست اور صواب مسلک یہی ہے کہ تمام صحابہ کرام عادل ہیں ۔جب ان کی توثیق و تعدیل اللہ تعالی اور اس کے رسول  نے فرمادی؛ تو اب ان کے بارے میں کسی کی توثیق کی حاجت نہیں، اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی توثیق و تعدیل کی بنیاد پر ہی اہل سنت و جماعت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحابی ہونا ہی اس کے عادل و ثقہ ہونے کے لیے کافی ہے، لہٰذا  تمام صحابہ عادل ہیں۔

3-اہل سنت اور اہل تشیع کےہاں حدیث پر نقد کرنے کا معیار:

اہل سنت کے ہاں نقد کا معیار:

اہلسنت کے ہاں اصطلاحات حدیث کا ایک منظم و مرتب فن موجود ہے ،جس میں  نقد حدیث کے تفصیلی قواعد مذکور ہیں ،حدیث کی اقسام ،راوی کی جرح و تعدیل کے ضوابط ، استدلال کی شرائط اور راویوں کی انواع و اقسام سے متعلق  تفصیلات ذکر ہیں ،چنانچہ  معروف محقق ڈاکٹر نور الدین عتر نے مصطلح الحدیث کے جملہ فنون کو چھ انواع میں تقسیم کیا ہے:

  • علوم رواة الحدیث: یعنی وہ اصول و ضوابط جن کا تعلق رواۃ حدیث سے ہے۔
  • علوم رواية الحدیث :یعنی وہ علوم و فنون جو حدیث کے تحمل و  ادا  وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
  • علوم الحدیث من حیث القبول  او الرد : یعنی وہ علوم و ضوابط جو حدیث کے قبول و رد سے  تعلق رکھتے ہیں۔
  • علوم المتن : وہ ضوابط جو حدیث کے متن سے متعلق ہیں۔
  • علوم السند :   فنون و ضوابط جن کا تعلق حدیث کی سند سے ہے۔
  • علوم المشترکه بین السند و المتن :یعنی وہ فنون جن کا تعلق متن و سند دونوں کے ساتھ ہے۔

تفصیل کے لیے دیکھیے :منهج النقد فی علوم الحدیث ،نور الدین عتر،دار الفکر ،دمشق

ان علوم و فنون اور قواعد و ضوابط کے انطباق میں تو علمائے اہلسنت کا اختلاف رہا ہے کہ کونسی احادیث علوم الحدیث کی رو سے کس قسم میں داخل ہیں ؟جس کی وجہ سے حدیث کے ضعف و صحت ،ارسال و اتصال ، موقوف و مرفوع ،راوی کی عدالت و جرح ،توثیق و تضعیف ،کسی کتاب یا محدث  کے معتمد و غیر معتمد ہونے کے پیمانے پر اختلاف رہا ہے ،لیکن حدیث کو جانچنے کے پیمانے کم و بیش جملہ محدثین کے ہاں  یکساں رہے ہیں ۔ ان قواعد و ضوابط پر اہلسنت کے ذخیرہ حدیث کی ایک ایک روایت  کو پرکھا جاچکا ہے ،ہزاروں رواۃ کی جرح و تعدیل کے حوالے سے ضخیم کتب لکھی جاچکی ہیں۔

اس موقع پر   وضاحت ضروری ہے کہ فقہاء  جب حدیث پر بحث کرتے ہیں ،تو اس کے قابل ِعمل ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بحث کرتے ہیں،ورنہ حدیث کے جانچنے کے معیارات فقہاء کے ہاں بھی وہی ہیں جو محدثین نے مرتب کیے ہیں ۔

اہل تشیع کے ہاں نقد کا معیار:

جب ہم اہل تشیع کے معیارات ِنقد حدیث کو دیکھتے ہیں ، تو ان پر معیار کا اطلاق مشکل ہوجاتا ہے ،حدیث  و رواۃ کو پرکھنے سے اہل تشیع  روزِاول سے آج تک دو بڑے گروہوں  میں تقسیم ہیں: (۱)  اخباری  (۲)    اصولی

نقد ِحدیث کا اخباری منہج

اس طبقہ میں اہل تشیع کے نامی گرامی اہل علم آتے ہیں ،ان کے نزدیک  حدیثی ذخیرے کو کسی بھی معیار پر پرکھنا جائز نہیں ہے ، سار ا حدیثی ذخیرہ نہ  صرف  یقینی طور پر صحیح ہے ،بلکہ بعض اخباریوں کے نزدیک  تو سارا ذخیرہ  متواتر ہے ،معروف شیعہ محقق ’حیدر حب اللہ اخباریوں کا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ذھب فریق من الاخباریین الی القول بقطعية الکتب الاربعة ،و تعدی بعضھم الی ما ھو ازید منھا . [19]

’’’اخباریوں کے ایک گروہ کا موقف ہے کہ کتب اربعہ کی جملہ احادیث قطعی ہیں ،اور ان میں سے بعض اس سے بھی آگے کی طرف گئے ہیں (یعنی  وہ تمام روایات کو متواتر سمجھتے ہیں )‘‘

 بعض غالی قسم کے اخباری کہتے ہیں کہ علوم مصطلح الحدیث  سے احادیث کی  جانچ پڑتا ل  کرنا  ہی درست نہیں ہے ،کیونکہ یہ اصلاً اہلسنت کے علوم ہیں ،شیعہ کے علوم نہیں ہیں، حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:

 رفض الإخباريون الترحيب بعلم الرجال والجرح والتعديل والحديث والدراية بحجّة أنّ ھذه العلوم علومٌ سنيّة وليست شيعيّة.[20]

اخباریوں نے علم رجال ،جرح و تعدیل  اور  حدیث کو  پرکھنے کے درایتی معیارات کو ترک کیا ہے ،کیونکہ اخباریوں کے نزدیک یہ علوم  اہلسنت سے ماخوذ علوم ہیں ،شیعی علوم نہیں ہیں۔

وہ تمام روایات کو قطعی ثقہ بلکہ متواتر سمجھتے ہیں ،اور علوم مصطلح الحدیث پر پرکھنے کے لیےاس لیے منع کرتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ شیعی روایات کو اگر  اہل سنت کے  قطعی معیار پر پرکھیں گے تو  سب کی  سب  يا اكثر احادیث ضعیف و موضوع نکلیں گی ۔

نقد احادیث کا اصولی منہج

اخباری شیعوں کے غیر  علمی ، غیر منطقی اور محض اعتقاد پر مبنی غیر عقلی موقف کےبرعکس اصولی شیعوں کے منہج پر نظر ڈالتے ہیں، تو  انہوں  نے کتب اربعہ سمیت جملہ حدیثی ذخیرے کو قواعد ِجرح و تعدیل پر پرکھنے کی روش اپنائی ہے، اور اس  کےلیے انہو ں نے رجال کے احوال اور فن  درایۃ پر مشتمل  کتب تحریر فرمائیں ۔  لیکن افسوس کہ ان کے  اصولی منہج میں بھی بعض ایسے مہیب خلا موجود ہیں ،جن کی وجہ سے یہ منہج بعض جہات سے شیعہ ذخیرہ حدیث کو پرکھنے کے حوالے سے بے فائدہ بن جاتا ہے۔

سب سے اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ حدیث کو پرکھنے کے حوالے سےاہل تشیع کے قدماء محدثین جن میں خاص طو رپر کتب اربعہ کے مصنفین شامل ہیں اور متاخرین(ساتویں صدی ہجری کے علامہ حلی و ابن طاؤوس ( کے منہج میں اصولی و بنیادی فرق ہے ،ہم پہلے اس فرق پر شیعہ محققین کی عبارات ذکر کرتے ہیں ،پھر دونوں مناہج کے درمیان اصولی فرق سے پیدا شدہ نتائج و سوالات کا ذکر کریں گے :

شیعہ محقق ومحدث جعفر سبحانی متأخرین اور  متقدمین کے منہاج  میں  اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

المعروف انه لم یکن من تلک المصطلحات اثر بین اصحابنا ،و انما حدثت فی اثناء القرن السابع ،وقد عرفت حقیقة الحال ،واللازم بیان ماهو الدافع الی اصطناعها ، فقد اشبع بهاء الدین العاملی الکلام فی ذلک فنحن ناتی به برمته ،یقول : هذا لاصطلاح لم یک معروفا بین قدمائنا قدس الله ارواحهم کما هو الظاهر لمن مارس کلامهم ،بل کان المتعارف بینهم اطلاق الصحیح علی کل حدیث اعتضد بما یقتضی اعتمادھم علیه ،او اقترن بما یوجب الوثوق به، الرکون الیه.[21]

ترجمہ :معروف یہ ہے کہ یہ اصطلاحات ہمارے متقدمین کے درمیان موجود  نہ تھیں ،بلکہ ساتویں صدی ہجری میں ظہور پذیر ہوئیں ،اس کی حقیقت حال ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں ، ضروری  ہے کہ اب ان اسباب کا ذکر کیا جائے ،جس کی وجہ سے ان اصطلاحات کے وضع کی ضرورت پیش آئی ،تو بہاء الدین عاملی نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ اصطلاح ہمارے قدماء کے درمیان معروف نہ تھی ،  قدماء کی کتب سے ممارست  رکھنے والا ہر شخص   جانتا ہے کہ ہر اس حدیث کو صحیح کہا جاتا تھا ،جس کی تائید میں ایسے اسباب ہوتے تھے ،جن پر ان علماء کا اعتماد ہوتا ،یا اس حدیث کے ساتھ ایسی مؤیدات مل جاتیں ،جن کی وجہ سے اس پر وثوق اور اس کی طرف میلان ہوجاتاہے ۔

شیعہ عالم حسن زین الدین عاملی متأخرین کے اصطلاح کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

فان القدماء لا علم لهم بهذا الاصطلاح قطعا---ولا یکاد یعلم وجود هذا الاصطلاح قبل زمان العلامة.[22]

قدماء کو متاخرین کی اصطلاح کا علم بالکل نہ تھا ۔۔۔نہ ہی علامہ (ابن حلی) کے زمانے سے پہلے اس اصطلاح کا وجود تھا۔

محمد جواد کاظم لکھتے ہیں:

اختلفت انظار المتأخرین للحدیث الصحیح عن القدماء.[23]

یعنی صحیح حدیث سے متعلق متاخرین کے نظریات قدماء سے مختلف ہیں ۔

4-علم الدرایہ اور فن  مصطلح الحدیث

اہل تشیع کے متاخرین نے اہلسنت کے  طرز پر مصطلح الحدیث کا فن ایجاد کیا ہے ،  بلکہ وہ محدثین کے مصطلح حدیث سے مأخوذ ہے ۔ پس اپنے نظریات کےمطابق اس میں انہوں نے کچھ تبدیلیاں کی ہیں ، اس کو انہوں نے  ’علم الدرایۃ ‘ کا نام دیا ہے ۔ یہ  متعدد وجوہ سے  اہلسنت کے علم مصطلح الحدیث سے فروتر اور تساہل پر مبنی  ہے۔اس بحث میں انہی تبدیلیوں کا موازنہ اہل سنت کے علم مصطلح الحدیث سے کریں گے تاکہ ہر دو علوم کے محاسن و مساوی کا تقابل سامنے آسکے ۔

1۔حدیث کے قبول و رد کے اعتبار سے  اہل سنت اور اہل تشیع کے ہاں فرق:

اہل سنت:اہل سنت و جماعت کے نزدیک قبول و رد کے اعتبار حدیث کی تین قسمیں ہیں: صحیح، حسن اور ضعیف، لیکن متقدمین صرف دو ہی قسم: صحیح اور ضعیف کی تقسیم کرتے تھے اور حسن کو بھی قابل استدلال مانتے   تھے۔

اہل تشیع:  شیعہ امامیہ کے نزدیک قبول و رد کے اعتبار سے حدیث کی چار قسمیں ہیں: صحیح، حسن، موثق اور ضعیف ، شیعہ امامیہ کے یہاں یہ تقسیم ساتویں صدی ہجری کے نصف میں وجود پذیر ہوئی، ورنہ اس سے پہلے ان کے نزدیک بھی  قبول و رد کے اعتبار سے حدیث کی صرف دو قسم صحیح اور ضعیف تھی، شیعہ امامیہ کے ایک عالم محی الدین موسوی لکھتے ہیں:

حدیث کی چار قسمیں صحیح، حسن، موثق   اور ضعیف فقہا او رمحدثین امامیہ کے نزدیک معروف نہیں تھیں؛ کیوں کہ ان کے نزدیک حدیث یا تو صحیح تھی جو قرائن سے متصف ہو اور قطع یا معصوم علیہ السلام سے صدور کے وثوق کا فائدہ دے، یا ضعیف تھی جو قرائن سے متصف نہ ہو [24] ۔

۲- حدیث صحیح:اہل  سنت کے ہاں

اہل سنت کے نزدیک  صحیح حدیث کے لیے بہت ہی کڑا معیار رکھا گیا ہے، اس سلسلے میں حافظ ابن حجر شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں:

 وخبر الاحاد بنقل عدل ،تام الضبط ،متصل السند ،غیر معلل و لاشاذ ھو الصحیح لذاته [25]

یعنی روایت کے صحیح بننے کے لئے پانچ شروط ہیں:

1۔تمام راوی عادل ہوں ۔                                           2۔ضبط میں تام ہوں ۔                                3۔سند اول تا  آخر متصل ہو ۔

4۔معلل نہ ہو ۔                                                          5۔شاذ نہ ہو ۔

اہل تشیع کے ہاں

اس کے برخلاف اگر شیعہ علم الدرایہ میں صحیح کا معیار دیکھیں ،تو اہلسنت کے معیار سے  تساہل پر مبنی نظر آئے گا ،چنانچہ معروف شیعہ محدث زین الدین عاملی المعروف بالشہید الثانی اپنی کتاب "البداية فی علم الدراية " میں صحیح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الصحیح وھو ما اتصل سندہ الی المعصوم  بنقل العدل الامامی عن مثله ،فی جمیع الطبقات  وان اعتراہ شذوذ . [26]

  ’’صحیح حدیث وہ ہے ،جس کی سند متصل ہو اور تمام رواۃ عادل اور امامی شیعہ ہوں،خواہ اس حدیث میں شذوذ ہوں ‘‘

   اہل تشیع کے معیار کے مطابق  صحیح حدیث وہ ہوگی ،جس میں یہ تین  شرائط ہوں:

1۔ تمام رواۃ عادل ہوں ۔

2۔تمام رواۃ امامی (شیعہ )ہوں ۔

3۔اس حدیث کی سند امام تک متصل ہو ۔

 حدیث کے صحیح ہونے کے لئے  اس کا شذوذ اور علت سے سالم ہونا اہل  تشیع کے نزدیک ضروری نہیں  ہے۔ چنانچہ  شہید ثانی اپنی اسی کتاب کی شرح میں لکھتے ہیں:

ونبه بقوله ’’و ان اعتراه شذوذ ‘‘علی خلاف مااصطلح علیه العامة  من تعریفه،حیث اعتبرو سلامته من الشذوذ۔۔۔و ارادو بالعلة  ما فیه من اسباب خفیة قادحة یستخرجها الماهر فی الفن، و اصحابنا لم یعتبروا فی حد  الصحیح ذلک. [27]

اور انہوں  نے’’ و ان اعتراہ شذوذ ‘‘ کے قول سے عامہ (اہلسنت ) سے اختلاف کیا ،جن کے نزدیک  صحیح کی تعریف میں سلامت  عن الشذوذ ضروری ہے ،نیز اہل سنت کے نزدیک علت  فی الحدیث سے مراد   وہ مخفی عیب ہے ،جس پر ماہر فن ہی مطلع ہوسکتا ہے ،ہمارے اصحاب(شیعی محدثین ) نے صحیح کی تعریف میں علت سے حفاظت کی شرط نہیں لگائی ہے۔

شیعہ امامیہ کے شیخ محی الدین موسوی لکھتے ہیں:

صحیح حدیث وہ ہےجس کی سند معصوم علیہ السلام تک عادل امامی، اپنے  مثل کے ذریعہ روایت کرے، اور یہ  تمام طبقات میں متصل ہو۔ [28]

 تعریف کی تشریح :

اتصال کی قید سے حدیث مقطوع، معضل اور مرسل خارج ہوگئیں، معصوم سے مراد نبی ﷺ اور ائمہ شیعہ   ہیں، عدل کی قید سے حدیثِ حسن خارج اور امامی کی قید سے حدیث موثق نکل گئی ۔[29]

ضبط: بعض لوگوں نے عدل کے ساتھ ضابط ہونے کی بھی قید لگائی ہے، مگر اس قید کو یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ عدل کی قید ضبط کی قید سے بے نیاز و مستغنی کردیتی ہے۔

 شذوذ: شیعہ امامیہ کے نزدیک عدم شذوذ کی قید معتبر نہیں۔

عدم علت: یہ قید بھی ان کے نزدیک قابل قبول نہیں؛ کیوں کہ اتصال کی قید اس سے بے نیاز کردیتی ہے ۔[30]

 اہل سنت محدثین نے مقبول حدیث کی اقسام میں سے دو اقسام (صحیح لغیرہ اور حسن لغیرہ ) کی بنیاد کثرت طرق پر رکھی ہے ،کیونکہ اہل سنت  کے حدیثی ذخیرے میں تکرار کثرت سے واقع ہوا ہے ،جیسا کہ ہم اس کی تفصیل اس سلسلے کی تعداد روایات والے عنوان کے تحت بیان کرچکے ہیں ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی چاروں  اقسام (صحیح ،حسن ،موثق ،قوی ) میں سے کوئی بھی قسم کثرت طرق و اسناد پر مبنی نہیں ہے ،اس کی وجہ  یہ ہے کہ اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے میں تکرار نہ ہونے کے برابر ہے   ، لہذا کثرت طرق و اسناد پر مقبول خبر کی کسی قسم کی بنیاد  رکھنا امر ِواقعہ کے اعتبار سے لغو اور ناممکن تھی ۔

 اہل سنت کے ہاں مقبول حدیث کی دو  پہلی اعلی اقسام (صحیح و حسن ) میں اتصال ِسند ،عدالت ِراوی ، عدم شذو،عدم ِعلت ضروری ہے ،صحیح و حسن میں فرق صرف یہ ہے کہ صحیح کے رواۃ ضبط میں اعلی مقام پر فائز ہوتے ہیں جبکہ حسن میں رواۃ نفس  ضبط  کے حامل ہوتے  ہیں جس کی وجہ سے وہ  درجہ میں صحیح رواۃ سے   ناقص ہوتے ہیں ،جبکہ اس کے برخلاف اگر ہم اہل تشیع کے ہاں مقبول خبر کی پہلی دو اعلی اقسام (صحیح و حسن ) کو دیکھیں ،تو  ان دونوں میں فرق عدالت کے ثبوت و عدمِ ثبوت پر ہے کہ صحیح حدیث کے رواۃ سارے امامی عادل ہوتے ہیں ، جبکہ حسن حدیث کے رواۃ کی عدالت ثابت نہیں ہوتی ،بلکہ وہ مستور الحال ہوتے ہیں ،صرف ان کے حق میں مدح مطلق ثابت ہوتی ہے ،چنانچہ زین الدین عاملی حسن  حدیث کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

هوما اتصل سنده بأمامی ممدوح من غیر نص علی عدالته فی جمیع مراتبه أو فی بعضها ،مع کون الباقی من رجال الصحیح.[31]

 ’’ حسن حدیث وہ ہے ،جس کی سند متصل   اور اس کے رواۃ سارے امامی ممدوحین ہوں ، جن کی عدالت پر کسی کی کوئی تصریح نہ ہو ،تمام طبقات میں یا بعض طبقات میں ،اور باقی صحیح حدیث کے رواۃ ہوں  ۔‘‘

  اہل تشیع  محدثین نے مقبول حدیث کی پہلی دو اعلی اقسام (صحیح و حسن ) کے لیے ایک بنیادی شرط "امامی " ہونا بیان کیا ہے ،لہذا شیعہ اصول ِحدیث کی رو  سے راوی خواہ کتنا ہی ضابط ،کتنا ہی عادل اور کتنا ہی ثقہ کیوں نہ ہو ، اگر وہ امامی نہیں ہے  تو اس کی حدیث صحیح   یا حسن کے درجہ میں نہیں آسکتی ، جبکہ اس کے برخلاف اہل سنت کے ہاں  سارا زور راوی کی ذاتی عدالت و ثقاہت پر ہے ، ان میں راوی کا اہل سنت میں سے ہونا شرط نہیں ہے ،امام بخاری  نے صحیح بخاری میں صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر احادیث جمع کی ہیں ، اس کے باوجود    متعدد ایسے رواۃ کی احادیث  اپنی کتاب میں درج کی ہیں  جو اہل  تشیع  یا خارجی  ہیں ،ان رواۃ کی تفصیل حافظ ابن حجر   نے فتح الباری کے مقدمے ’ہدی الساری‘ میں دی ہے ،لہٰذا اہل تشیع کی اس شرط سے  ایک  خالص علمی سرگرمی میں "مذہبی تعصب " کی واضح جھلک نظر آتی ہے ۔

دوسرا حسن حدیث میں راوی کے عادل و ضابط ہونے کی شرط سرے سے موجود ہی  نہیں ہے ۔

  اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی اقسام میں سے ایک قسم "قوی حدیث"  ہے ، شیعہ محدثین کے ہاں  اس قسم کی تعریف یوں کی گئی ہے :

الحدیث الذی یکون جمیع رواته من الامامیة و لم یرد فیهم  أو فی بعضهم مدحا کما هو الحال فی الحدیث الحسن  او ذما فرتبته بعد الحسن و قبل الموثق. [32]

یعنی وہ حدیث جس کے جملہ رواۃ امامی شیعہ ہوں اور ان میں سے سب کے یا بعض کے بارے میں مدح و ذم منقول نہ ہو ،تو اس کو قوی کہا جاتا ہے ،درجہ بندی میں یہ حسن کے بعد اور موثق سے پہلے ہے ۔

اس حدیث کے حوالے سے پہلی بات تو قابل بحث یہ ہے کہ اہل سنت محدثین ایسے  رواۃ کی حدیث کو مجہول العین (جب اس سے ایک راوی روایت کرے ) یا مجہول الحال (جب اس سے دو یا   زیادہ راوی روایت کریں) کی درجہ بندی میں لاتے ہیں اور مجہول راوی کی روایت جمہور اہل سنت کے ہاں مردود ہیں ،یا  بعض محدثین اس کے قبول و عدم قبول میں توقف کرتے ہیں [33]۔یعنی وہ بھی قبول نہیں کرتے ،اسی وجہ سے اہل سنت کی کتب مصطلح الحدیث میں مجہول حدیث  مردود حدیث کی اقسام میں شمار کی گئی ہے،جبکہ اہل تشیع محدثین ایسے راوی کی روایت کو مقبول حدیث کی تیسری قسم میں شمار کرتے ہیں ،اس سے اہل سنت اور اہل تشیع کے معیاراتِ نقد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

دوسری بات یہ قابل ذکر ہے کہ اہل تشیع محدثین نے قوی حدیث کو درجہ بندی میں موثق حدیث سے پہلے  رکھتے ہیں ،جو مذہبی تعصب(اور ساتھ غیر معقولیت ) کی ایک واضح مثال ہے ،کہ جس  حدیث کے رواۃ کی ثقاہت  خود  شیعہ  اہل علم کی زبانی ثابت ہوچکی ہو ،ان کی حدیث باوجود ثقہ ہونے کے ایسے رواۃ سے کم درجہ کی ہے ،جو امامی ہوں ،لیکن ان کی ثقاہت و عدالت کے بارے میں شیعہ تراث خاموش ہو،گویا اہل تشیع کے ہاں ایک  مجہول الحال امامی ایک ثابت شدہ ثقہ(جس کی توثیق خود شیعہ اہل علم کر چکے ہوں  ) غیرامامی سے روایت ِحدیث میں اعلی شمار ہوگا ۔

موثق حدیث :وہ حدیث جس کے  کل یا بعض رواۃ غیر امامی ہوں اور ان کی توثیق شیعہ محدثین و اہل علم کی زبانی ثابت ہوچکی ہو۔

۳- حدیث ضعیف:

اہل سنت :وہ حدیث جس میں صحیح یا حسن حدیث کی صفات میں سے کوئی ایک صفت  نہ ہو ضعیف کہلاتی ہے۔

اہل تشیع:  وہ حدیث ہے جس میں اقسام سابقہ میں سے کسی ایک کی بھی شروط موجود نہ ہوں، اس طرح کہ اس کی سند فسق وغیرہ سے مجروح شخص یا مجہول الحال یا اس کے مشابہ جیسے وضاع وغیرہ پر مشتمل ہو[34] -

  درجات ضعیف: شروط صحت کی کمی کے اعتبار سے حدیث ضعیف کے درجات مختلف ہوتے ہیں، جیسے صحیح، حسن اور موثق کے درجات اوصاف کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں، جس قدر اس کے رجال میں شروط صحت کی کمی ہوگی اسی قدر اس میں ضعف زیادہ ہوگا[35]  -

نوٹ: یہ ایک بہت ہی وسیع اور طویل موضوع ہے ، تا ہم اس مختصر مضمون میں صرف مبادیات پر ہی بات کی جا سکی ہے، اگر اللہ تعالی کو منظور ہوا تو اس پر بالتفصیل لکھا جائے گا، ان شاء اللہ

 

[1]      الفصل في الملل والأهواء والنحل لابن حزم الاندلسی : ۲/۹۰

[2]      تلبیس ابلیس لابن الجوزی: ۱۷

[3]      مجموع الفتاوٰی : ۳/۳۷۵

[4]     منهاج السنة النبویة: ۲/۲۲۱

[5]     التعریفات: ۱۲۹

[6]     لسان العرب : فی مادة ’شیع‘

[7]     منهاج السنة النبوية: ۱/۱۳-۱۴

[8]      الفصل في الملل والأهواء والنحل: ۲/ ۸۹-۹۰

[9]     جامع العلوم والحکم: ۲/۱۲۰

[10]   نظریة السنة فی الفکر الأمامی الشیعی: 24

[11]    مقباس الهدایة فی علم الدرایة؍مامقانی، ج۱ص۵۵

[12]   أصول الروایة عند الشیعة الامامیة؍عبد المنعم فرماوی، ص۱۴۵

[13]    اصول الفقی للمظفر ،55/2

[14]    أصل الشیعة و أصولها، ۷۹

[15]   نظریة عدالة الصحابة:77

[16]    کلیات فی علم الرجال ،ص494

[17]   مقباس الهداية فی علم الرواية ، مامقانی، ج۳ص۳۰۵

[18]   الخصال للصدوق؍ص۹۰، أعیان الشیعة ،ج۱ص۱۱۳

[19]   نظرية السنة فی الفکر  الامامی الشیعی،التکون و الصیرورۃ ، حیدر حب الله: 225

[20]    المدخل الی درایة الحدیث ، حیدر حب الله ،ص 470

[21]    اصول الحدیث و احکامه فی درایة الحدیث ،جعفر سبحانی : 43

[22]    زین الدین حسن عاملی ،منتقی الجمان، ج1، ص14،15

[23]    المنهج الغائی فی تصحیح الحدیث عند الامامیة ،محمد جواد کاظم :46

[24]         قواعد الحدیث ؍ موسوی، ص۱۵

[25]   نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر، ص: 58

[26]     البدایه فی  علم الدرایه ، شهيد ثانی ،انتشارات ِمحلاتی :23

[27]     شرح البدایة فی علم الدرایة،منشورات ضیاء الفیروز آبادی ،قم ،ص22

[28]     قواعد الحدیثه موسوی:۴۲

[29]     مقباس الھداية،مامقانی، ج۱ص۱۴۶

[30]     مقباس الھداية،مامقانی، ج۱ص۱۵۳

[31]     البدایة فی علم الدرایة،زین الدین عاملی ،قم المقدسة:24

[32]     دروس فی علم الدرایة،سید رضا مودب،مرکز دراسات المصطفی الدولی ،قم :57

[33]    دیکھیے :نزھة النظر،بحث الجهالة و اسبابها

[34]    مقباس الهداية ؍مامقانی، ص۱ج۱۷۷

[35]   ايضاً