حضرت مولانا ابو ابراہیم آرویؒ

حضرت مولانا ابو ابراہیم آرویؒ
1264ھ/1319ھ۔۔۔۔1848ء/1902ء

متحد ہ ہندو ستان میں تیموری سلطنت کے آخری دور میں دہلی میں خاندان ولی اللہ نے رُشد و ہدایت کی مشعل کو روشن تر کردیا ۔شاہ عبد العزیز صاحب (المتوفی1239ھ)ان کے بزروگ برادر اور عزیزوں نے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تدریس میں نمایاں کردار ادا کیا شاہ عبد العزیز کے بعد محمد اسحاق صاحب( المتوفی1262ھ)نواسہ شاہ عبد العزیزنے اپنے نامور تلامذہ کے ذریعہ اس کے حلقہ اثر کو بہت وسیع کردیا بعد ازاں شاہ اسحاق صاحب کے نامور تلامذہ میں دو گروپ پیدا ہو گئے اور ایک گروپ کے سرخیل مولانا شاہ عبد الغنی صاحب مجددی اور مولانا احمد علی صاحب سہارنیوی تھے جن میں رد بد عت اور توحیدخالص کے جذبہ کے ساتھ تقید کا رنگ نمایاں رہا اور دوسرے گروہ کے قائدسید نذیر حسین صاحب دہلوی تھے جنہوں نے توحید خالص اور رد بدعت کے ساتھ فقہ حنفی کے ساتھ تقلید کی بجائے براہ راست کتب حدیث بقدر فہم استفادہ کا طریق اپنایا اور اس کے مطابق عمل کو اپنا شعار بنایا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں ۔ ان دونوں کے بالمقابل ایک تیسرا گروہ وہ تھا جو شدت کے ساتھ اپنی قدیم روش پر قائم     رہااوراپنے کو اہل سنت کہتا رہا اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے ۔
(1)بریلی میں احمد رضاخاں اپنی پرانی (ممتاز مسائل اہل سنت )کو فروغ دیا اور بدایوں نے بھی اپنے عقائد کو فروغ دینے میں کمی نہیں ۔
دوسری طرف سید نذیر حسین کے سلسلہ سے تحریک اہلحدیث کو بہت ترقی ہوئی اور آج پاک و ہند میں یہ پودا ایک تنا و ر درخت بن کر سایہ فگن ہے اور موصوف کے تلامذہ در تلامذہ کا حلقہ بہت وسیع ہو چکا ہے اور وہ ملک کے گوشہ گو شہ میں پھیل کر کتاب و سنت کی اشعت اور بڑے بڑے شہروں سے نکل کر دیہات میں بھی اپنے مکاتب فکر قائم کر چکے ہیں ۔ان میں صوبہ بہار میں مولانا حافظ ابراہیم صاحب آروی نہایت ممتازشخصیت تھے جنہوں نے مذہبی سیاسی اور اصلاحی خدمات سر انجام دیں ۔زندگی بھر تحریک جہاد میں نمایاں کردار اداکیا بلکہ ان کا شمار اُن اساطین میں تھا جو اندرون ہند خفیہ تحریک جہاد کو چلاتے رہے آئندہ اوراق میں اسی عنوان کے تحت فاضل مضمون نگار نے ان کے سیاسی اور اصلاحی کارناموں کو مختصراًقارئین کے سامنے پیش کیا ہے ۔حافظ صاحب نے تعلیم کے میدان میں "مدرسہ احمدیہ "آرہ قائم کیا جو جدید تقاضوں کے مطابق تعلیمی خدمات سرانجام دیتا رہا بلکہ ہندوستان بھر میں یہ پہلی اسلامی درسگاہ تھی جس کے نصاب تعلیم میں جدید علوم و فنون کو بھی سمودیا گیا تھا اس مختصر تمہید کے بعد اب حافظ ابراہیم کی مساعی صالحہ و خدمات جلیلہ کو ان کی زند گی کے مختلف مراحل کے مطابق ضبط تحریر میں لا یا جا تا ہے واللہ الموفق ۔
ولادت ونشاۃ:
حضرت مولانا ابو محمد ابراہیم صاحب شاہ آباد (ملکی محلہ )آرہ کے ایک معزز گھرانے کے چشم و چراغ تھے آپ کے والد ماجد جناب ناظر عبد العلی بن رحیم بخش آروی بہت بڑے طبیب اور خطاط تھے آپ کے بڑے بھائی حکیم ظہور الحسن صاحب بھی مشہور طبیب اور ماہر خوش نویس ہو گزرے ہیں حضرت مولانا موصوف 1264ھ میں پیدا ہوئے   ۔
(2)ابتدائی کتابیں مولوی حکیم ناصر علی صاحب مرحوم و قاضی مولوی محمد کریم مرحوم و مولوی نورالحسن (آروی )اور مولانا الٰہی بخش خان صاحب بہاری سے اخذ کیں
(3)اس کے بعد متوسطات اور اکثر معقولات کی بڑی کتابیں مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے پڑھیں ۔
(4)اور تکمیل مولانا سعادت حسین بہاری سے کی اور انہی سے سند فراغت حاصل کی (5)حضرت حافظ صاحب نے دیوبند اور علی گڑھ میں بھی تعلیم حاصل کی اس کے بعد حضرت میاں صاحب کے حلقہ میں شامل ہو گئے اور سند حدیث حاصل کی فراغت کے بعد آپ نے آرہ میں عمل بالحدیث کو رواج دیا اور وہاں پر ایک جامع مسجد اور بہت بڑے پیمانے پر "مدرسہ احمدیہ" کے نام سے ایک جا معہ دینیہ کا سنگ بنیاد رکھا اور "مطبع خلیلی" کے نام سے ایک چھاپہ خانہ قائم کیا اس مدرسہ میں "مذاکرہ علمیہ "کے نام سے سالانہ اجتماعات منعقد ہو تے اور دور دور سے مشاہیر تشریف  لا تے ۔جن میں سید نذیرحسین دہلوی ،محسن الملک، علامہ شبلی ،مولانا ذکاءاللہ ۔ذپٹی نذیر احمد اور دوسرے چند اکابر  خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔
صفات :
مولانا مرحوم نہایت حسین اور وجیہ شخصیت رکھتے تھے ۔ضاعی میں یگانہ موسیقی کے ماہر ایک شعلہ بیان خطیب ایک فصیح و بلیغ شاعر ایک کہنہ مشق انشاء پر داز اور پختہ کار خطاط تھے فن  خطاطی  اپنے  والد ماجد  سے  حاصل کی تھی عربی فارسی اور اردو زبانوں میں پوری قدرت رکھتے تھے پاکبازی کا پیکر اور تقدس و روحانیات کا مجسمہ تھے ان کے کار نامے آئندہ نسلوں کے لیے مشعل ہدایت ہیں ۔
دارُالکتب اور کتابی ذوق :
        مولانا مرحوم نے کتابوں کا وسیع ذخیرہ جمع کر لیا تھا ۔
مولانا عبد الملک آروی بہاری لکھتے ہیں ۔(6)"مولانا کی وسیع لائبریری سے علامہ شبلی اورمولانا ذکاء اللہ جیسے اُدباء ردزگار مہینوں آکر استفادہ کرتے تھے ۔مہمان نوازی اور سادگی:مولانا آسودہ خاندان کے چشم و چراغ تھے اور گھر میں باپ کی دولت موجود تھی لیکن اپنے کسب ید کھاتے اور بزرگان سلف اور آئمہ کرام کے نقش قدم پر چلتے تھے مہمان نوازی کا فریضہ سرگرمی کے ساتھ ادا کرتے مہمانوں کے لیے انواع و اقسام کے کھانے تیار ہو تے لیکن مرحوم نفس کشی پر عمل کرتے اور معمولی سی دال چپاتی پر گزارا کر لیتے
مدرسہ احمدیہ ۔آرہ  :
      مولانا عبد الملک آروی لکھتے ہیں  :
"اس مدرسہ سے بڑے بڑے علماء فارغ التحصیل ہو کر نکلے ان میں اتباع سنت کا بڑاخیال ہوتا تھا اس مدرسہ میں ہندوستان کے منتخب علماء درس دیتے استاذ الاساتذہ حضرت  حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری حضرت مولانا عبد العزیز صاحب رحیم آبادی  اور شاہ عین الحق صاحب پھلواروی اسی جامعہ دینیہ میں علوم و فنون کے چشمے بہا چکے ہیں ۔"
عمومی خدمات :یوں تو حافظ صاحب کی زندگی کے سارے کار نامے درس عبرت ہیں لیکن آپ نے اشاعت دین مخالفت رسوم ۔اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ قوم کی جو خدمت سرانجام دی ہے اس کا اعتراف  آپ کے مذہبی مخالفوں نے بھی کیا ہے ۔
عقد بیوگان :
مولانا مرحوم کا سب سے بڑا حوصلہ آزما اور ہمت طلب کا م اس رسم کی ترویج تھا اس دور میں شریف گھرانوں میں نکاح بیوگان بڑاعیب سمجھا جاتا تھا مالانا مرحوم نے جرات کر کے اپنی بڑی ہمشیرہ کا عقد ثانی کردیا اسی طرح اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کو ایک آدمی سے بیاہ دیا چنانچہ اس طرح اس رسم خیر کو اپنے گھر سے ہی شروع کیا اور پھر آپ نے یہ مسئلہ قوم کے سامنے پیش کیا اور یہ مبارک رسم "بہاری سوسائٹی "میں داخل ہو گئی جس نے نہ صرف بہاری اخلاقیات پر اچھا اثر ڈالا بلکہ بہت سی مظلوم خواتین کو بھی دوبارہ زندگی مل گئی۔
تالیفات:      
آپ نے عربی فارسی ادبیات پر بہت سی کتابیں لکھیں  ۔عربی صرف و نحوچاررسالے تالیف کئے حدیث میں امام بخاری کی کتاب "الادب المفرد "کا مولانا عبد الغفار مہدانوی سے"سلیقہ "کے نام سے ترجمہ کروا کر اپنے "مطبع خلیلی"سے شائع کیا ۔
(2)مشکوۃ شریف کے ہر باب کی فصل اول (جوکہ صحیحین کی احادیث پر مشتمل ہے) کا ترجمہ کر کے اسے بہت عمدہ طریق سے شائع کیا اور اس کا نام "طریق النجاۃ "رکھا ۔
(3)"تفسیر خلیلی "کے نام سے چند پاروں کی تفسیر لکھی۔اردو میں یہ کتابیں شائع کرنا بذات خود اُردو زبان کی بہت بڑی خدمت تھی اور یہ خدمت اس وقت سر انجام دی جبکہ مولانا وحید الزمان خان صاحب (نواب وقار نواز جنگ بہادر)مہاجر مکی اور آپ کے بڑے بھائی مولانا بدیع الزمان نے صحاح ستہ کے اردو تراجم شائع نہیں کئے تھے ۔(7)اس لیے سب سے پہلے یہ شرف بہار اور بہار میں آرہ کو حاصل ہے کہ اس نے صحیح حدیث کو بامحاورہ اُردو میں پیش کیا ۔مولانا نے حدیث تفسیر معاشرت صرف نحواور تعلیم پر تقریباً بیس کتابیں لکھیں جو حسب ذیل ہیں ۔(3)تلقین التصریف
(1)طریق النجاۃ (2)تفسیر خلیلی(الم سیقول ،تبارک الزی ،عم پارہ کی تفسیر سل اردو  میں محد ثانہ نقطہ نظر سے) (3)تلقین التصریف (4) اتہذیب التصریف (5)ارشاد الطلب الی علم الادب(6)ارشاد الطلاب الی علم الاعراب (نحوا)(7)ترجمہ تفسیر ابن کثیر پارہ اول برحاشیہ نزہۃ القلوب پارہ اول (8)تسہیل التعلیم (9)طرز معاشرت (10)یتامی(11)خیر الوظائف (12)صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم  (13)صلاح وتقوی (14)سلیمان و بلقیس (15)اتفاق (16)بادشاہ حقیقی ومجازی (17)غنچہ مراد (18)قول میسور(19)فارسی کی پہلی کتاب (20)دوسری کتاب القول امزید ۔
خدمات دینیہ :
سید سلیمان ندوی مولانا ابراہیم آروی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔(8)"مولوی نذیر حسین کے شاگردوں میں مولوی ابراہیم آروی خاصی حیثیت رکھتے تھے وہ نہایت خوشگواراور پُر زوروعظ کہتے تو خود روتے اور دوسروں کو بھی رُلاتے نئی باتوں میں سے اچھی باتو ں کو پہلے قبول کرتے چنانچہ نئے طرز پر انجمن علماء اور عربی مدرسہ اور  اس میں دار الاقامہ کی بنیاد کا خیال انہی کے دل میں آیا اور انہی نے 1890ء(1298ھ)میں مدرسہ احمد یہ کے نام سے آرہ میں ایک مدرسہ قائم کیا اور اس کے لیے "جلسہ مذاکرہ علمیہ "کے نام سے ایک مجلس بنائی جس کا سال بسال جلسہ آرہ میں ہو تا اس مدرسہ میں انگریزی بھی پڑھائی جا تی تھی ندوہ کے قیام کے بعد 1313ھ مطابق 1896ءمیں اس کا سب سے پہلا جلسہ آرہ در بھنگہ میں ہوا ۔۔۔بہر حال وہ مدرسہ قائم رہا اور مدتوں خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہا ۔"
یہ مدرسہ اب بھی "مدرسہ احمدیہ سلفیہ "کے نام سے در بھنگہ میں قائم ہے اور اسے جماعت اہلحدیث کے مرکزیمدرسہ کی حیثیت حاصل ہے اور ڈاکٹر محمد فرید مرحوم کے بعد ان کے خلف الرشید ڈاکٹر عبد الحفیظ اس کے مہتمم رہے مولانا حافظ عبد اللہ صاحب  غاز یپوری (1337ھ) سالہا سال تک اس مدرسہ میں پڑھاتے رہے مولانا عبد السلام صاحب مبارکپوری مولانا عبد الرحمٰن صاحب مبارکپوری  اور مولانا ابو بکر محمد شعیب صاحب جو نپوری اور بہت سے علماء یہاں کے شاگرد  ہیں (9)
اہل حدیث و بدعت حسنہ :
سید سلیمان ندوی "حیات شبلی "میں مدرسہ آرہ کا ذکر کرتے ہوئے علامہ شبلی کے حوالہ سے لکھتے ہیں
"ایک دفعہ مولوی ابراہیم صاحب نے اپنا مدرسہ اور خاص طور پر اپنا دارالاقامہ دکھا یا ۔۔۔بہر حال عربی مدرسوں میں یہ نئی بد عت انہی اہل حدیث سے شروع ہوئی ۔
درس نظامی اور علوم جد یدہ  :
جب ندوہ کا دوسرا  اجلاس 1312ھ مطابق 1895ءمیں لکھنؤ میں ہوا تو اس میں خاص طور پر یہ تجویز زیر بحث آئی کہ آیا درس نظامی پر کسی اور علم کے اضافہ کے بھی ضرورت ہے یا نہیں ؟اس ضرورت کو سب نے تسلیم  کیا مولوی منصور علی صاحب  مراد آبادی (م1337ھ)(10)نے جب تجویز پیش کی تو دوسرے علماء کے ساتھ مولانا ابراہیم صاحب آروی نے بھی اس تجویز کی پر زور تائید کی جو مولانا کی روشن خیالی کی بہت بڑی دلیل ہے لیکن یہ روشن خیالی سر سید احمد یا ان کے مصاحسین جیسی  نہ تھی بلکہ اس کی بنیاد "(عربی)پرتھی ۔
جب 1310ھ کو حضور شاہجہان بیگم صاحبہ  نے نواب سید علی حسن خاں صاحب ابن النواب صدیق حسن خاں بھوپالی کو ریاست بھوپال کے تعلیمات کا ڈائریکٹر (افسر علی )مقر ر کیا تو انھوںنے عربی تعلیم کی طرف توجہ دی اس وقت عربی کے پانچ مدرسے شہر بھوپال میں قائم تھے مگر نتیجہ کچھ نہ تھا اور طلبہ صرف وظائف کے لیے پڑھتے جیسا کہ اس وقت ہندو ستان کے عام  مدارس کی حالت بھی یہی تھی جن کو دوسرے اصحاب خیر نے جاری کیا تھا نواب صاحب نے یہ کیفیت دیکھ کر 1317ھ کو نظارۃ المعارف "کے نام سے ایک تعلیمی مجلس شوریٰ قائم کی جس میں بھوپال کے علاوہ دوعالموں کو جو عربی مدارس کی اصلاح و تنظیم کے لیے کو شاں تھے باہر سے بلوایا ان میں ایک مولانا ابراہیم صاحب آروی اور دوسرے علامہ شبلی نعمانی تھے کیونکہ مولانا ابراہیم خود نئے انداز پر آرہ میں ایک عربی درسگاہ مدرسہ احمد یہ کے نام سے قائم کر چکے تھے (11)
مولانا صاحب اور تحریک آزادی :
شاہ اسما عیل شہید کی تحریک :عمل بالسنہ "نے صوبہ بہار پر گہرا اثر ڈالا اس تحریک کے مرکزی مقامات "صادق پور "پٹنہ اور "ملکی محلہ "آرہ تھے حضرت مولانا ابراہیم کی زندگی کا نصب و العین ترویج سنت استیصال بدعت۔اشاعت  دین اور نشر علم و ادب تھا آپ نے مذہب اور معاشرت کے متعلق جو کوششیں کیں ہیں وہ ہماری تاریخ اجتماعی کے اہم باب ہیں ۔
(الف)مولانا مرحومکا خاندان شروع ہی سے تحریک جہاد سے وابستہ چلا آیا ہے آپ کے بڑے بھا ئی علی نے 1857ھ کی تحریک حریت وطن میں نمایاں حصہ لیا بعد میں وہ گرفتار ہو ئے اور انہیں موت کی سزا دی گئی جس پرحکیم عبد العلی صاحب نے جو ناظر تھے سر کاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا چنانچہ تحریک  وہابیت میں مولانا ابراہیم کے متعلق ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ضلع شاہ آباد میں " آرہ "ایک اہم مرکز رہا ہے اور مولانا محمد ابرا ہیم صاحب ضلع شاہ آباد کے قائد کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں چنانچہ 1882ء کی رپورٹ میں ہے ۔
"1881ءمیں بہار کا ضلع شاہ آباد وہابی اثر کے ایک اہم مرکز کی حیثیت سے بہت نمایا ں ہوا وہاں کے سربراہ ابراہیم ولد حکیم عبد العلی تھے ۔جو غدر کے زمانے میں آرہکی عدالت میں ناظر فوجدار ی تھے ابرا ہیم کے بڑے بھائی علی نے 1857ءکی شورش میں نمایاں حصہ لیا تھا بعد میں وہ گرفتا ہو ئے اور موت کی سزا کا فیصلہ ہوا ناظر کی حیثیت سے باپ پر فرض عائد ہو تا تھا کہ بیٹے کی پھانسی کے انتظامات کرے اس لیے انھوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد کچھ جائیداد وغیرہ منقولہ (جس کی آمدنی سالانہ تین ہزار تھی )چھوڑ کر انتقال کیا ۔"(12)
پھر کلکتہ پولیس کی رپورٹوں سے (81۔1880ء)سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا ابراہیم صاحب کی "تحریک مجاہدین" سے وفاداری شک و شبہ سے بلا تھی چنانچہ ڈاکٹر قیام الدین احمد لکھتے ہیں ۔
"کلکتہ پولیس کی رپورٹوں سے( 81۔1880ء)میں ابراہیم کی جدو جہد کا حال معلوم ہو تا ہے ۔(13)
۔۔۔چنانچہ 1880ءمیں ڈھاکہ کے ایک شخص بدیع الزمان نے ممتاز وہابیوں کا ایک جلسہ کرنے کی کو شش کی تھی جس میں نذیر حسین دہلوی بھی شامل کئے گئے تھے ۔
۔۔۔ابراہیم نے مشورہ دیا کہ یہ جلسہ مظفر پور کے قریب ایک گاؤں تاجپورہمیں منعقد کیاجا ئے جلسے میں کو ئی تیس ہزار وہابی مولوی جمع ہو ئے جلسے کا اصل مقصد یہ تھا کہ بغاوت پھیلانے کے لیے حکمت عملی تیار کی جا ئے یہ بھی طے پایا کہ مختلف فرقہ وار انہ اغراض کے لیے چندے فراہم  کئے جا ئیں دہلی پٹنہ اور آرہ میں مدرسے میں کھولے جا ئیں جہاں وہابی عقائد کی تعلیم دی جا ئے تقسیم کے لیے کتابیں اور رسالے چھاپے جا ئیں ۔۔۔کئی مولویوں کو جو حاضر تھے رسالے دئیے گئے اور ان سے تبلیغی دوروں کے لیے نکلنے کو کہا گیا ابراہیم نے کلکتہ  دہلی لکھنؤ غازی پوری بنارس وغیرہ کے دورے کئے اور  ان جگہوں پر تقریریں کیں ۔
اجلاس پر پولیس کا چھاپہ :
اس کے بعد کی ایک پولیس رپورٹ میں درج ہے کمشزپٹنہ کو اطلاع دی گئی کہ ممتاز وہابیوں کا ایک جلسہ "سراج گنج "میں منعقد ہوا ۔سربر آور حاضرین میں نذیر حسین محمد حسین لاہوری اور مولانا ابراہیم آروی تھے جلسہ کے مہتمم و بانی ابراہیم  تھے اور مقصدیہ تھا کہ ان کا تعاون حاصل کیا جا ئے اور اس ملک کے دار الحراب "ہونے کا اعلان کردیا جا ئے ۔۔خفیہ اجلاس کی ر پورٹ حکام کو ملی اور مجسٹریٹ مولویوں کو اچانک جا لینے کے لیے جھپٹے لیکن اس جگہ کو ئی قابل مؤاخذہ چیز دستیاب ہوئی نہ کو ئی گرفتار کیا جا سکا ۔
مولانا کی تبلیغی مہم:
جولائی 1881ءمیں پی نولن سپر نٹنڈنٹ پولیس پٹنہ نے کمشز کو رپورٹ کی کہ ابراہیم (مولانا ابراہیم )نے اپنے کلکتہ کے دورہ میں تبلیغ کی ہے کہ ہر مسلما ن پر واجب ہے کہ سر کاری ملازمت سے مستعفیہو جا ئے اور یہ کہ کسی غیر سر کاری شغل میں آدھے معاوضے پر کام کرنا حکومت کے ماتحت اس قسم کے کام کے لیے دوگنے معاوضے پر کام کرنے سے بہتر ہے نولن نےمولاناابراہیم کی تقر یر کے بعض خطرناک پہلوؤں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ابراہیم
نے احتجاج ،شورش ،مقدمہ بازی، فراہمی چندہ،اور سرکاری ملازمین کو استعفیٰ کی ترغیب و اغوا ،اس طور کہ فوجی سپاہیوں پر اثر انداز ہوں کے تمام طریقے استعمال کئے نولن نے مزید اظہار رائے کیا کہ ابراہیم یقیناً ایسا آدمی معلوم ہوتا ہے جس پر نگرانی رکھنا چاہیے
  اس نے یہ رپورٹ بھی کی کہ ابراہیم اپنے طور پر شخصی آمدنی میں روپے پیسہ لگا چندہ جمع کر رہا ہے بیگم بھوپال اس فنڈ کے چند و ہندگان میں نمایاں حصہ لیتی تھیں جو بظاہر تو چندہ جمع کیا جا تا تھا ایک دیوانی مقدمہ میں مالی اعانت کے لیے جس میں ضلع آرہ کے وہابی اُلجھے ہوئے تھے مگر دراصل یہ ستھانہ کے مذہبی دیوانوں کے لیے مخصوص تھا(14)
اس رپورٹسے ظاہر ہے کہ 1881ءتک مجاہدین کی اعانت کا وہی طریق کار جاری رہا جو علی برادران یاان سے بھی پہلے شروع کیا گیا تھا اور اس مہم کو اہلحدیث چلا رہے تھے جن میں ممتاز تر تین آدمی نظر آرہے ہیں یعنی مولانا ابراہیم آروی مولانا محمد حسین بٹالوی (م1338ھ)اور مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (م1330ھ)اور یہ تمام کا م دہلی میں حجرت میاں صاحب کی زیر نگرانی جاری تھے ۔
مولانا ابراہیم آروی کے خلاف تحقیقات :
صا حب تحریک وہابیت لکھتے ہیں ۔
دوسرے سال بھی مولانا ابراہیم کے خلاف تحقیقات جاری تھیں پولیس انسپکٹروں نے سپر نٹنڈنٹ  پولیس شاہ آباد کوان کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ بھیجی جس میں خبر دی کہ "محمد عمر" کی طرح ابراہیم کے تعلقات بھی اعلیٰ درجے کے ہیں اور طاقتور اور ذی اثر رشتہ داروں سے مربوط ہیں شادیوں کے ذریعہ سے ان کا رابطہ خاندان صادق پور سے بھی ہے وہ عبد العزیز  ساکن رحیم آباد ضلع در بھنگہ عظمت حسین مختار عبد الرحیم (کے بھائی) عبد الرؤف لطیف حسین اور ان کے بھائی عبد الغفار ساکن مہداواں کی شمولیت سے روپے کی تحصیل میں مشغول ہیں اس سال جو روپے جمع ہو ئے ان کی میزان دس ہزار سے زائد ہے اس کی تقسیم  ابراہیم نے کی مگر معلوم نہ ہوا کہ انھوں نے اس کو جمع کہاں سے کیا ۔
ان تحصیل کردہ قوم میں سے بہت قلیل حصہ مدرسہ اور دوسرے ظاہر کردہ مدات پر صرف ہوا باقی رقم غیر محسوب اور نامندرجرہی کیونکہ غالباً سرحد کو بھیج دی گئی (15)
ان جملہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا حافظ محمد ابراہیم آروی حضرت سید نزیر حسین دہلوی کے جرنیل کی حیثیت سے ان کے تجویز کردہ مشن کو چلاتے رہے ایک طرف تو اصلاح معاشرہ کے لیے ترویج سنت اور بدعات کے لیے سر گرم عمل رہے اور دوسری طرف نجاہدین کے ساتھ مربوط ہو کر جہاد آزادی کے میدان میں اپنے آپ کو وقف اور سرگرم رکھا اور اس وقت جو بھی سر کردہ علماء اہلحدیث تھے تمام ہی اس مشن کو چلا رہے تھے اور تمام مال جو جمع ہو تا وہ یا تعلیمی اداروں پر صرف ہوتا اور یا مجاہدین کے اعانت فنڈ میں جمع کروا دیا جا تا ۔
حاشیہ جات :
(1)حیا ۃشبی ص46۔۔۔(2)نزہۃ الخواطر۔ج8ص5مولانا عبد المالک آروی نے سنہ ولادت1268ھ لکھا ہے دیکھئے ہفت روزہ "الاعتصام "لاہور مجریہ25دسمبر 1970ء۔۔(3)اہلحدیث امرتسر 24اکتوبر 1919ءعبد المالک آروی نے لکھا ہے :"غالباً 1267ھ میں پیدا ہو ئے "اور باون برس کی عمر پاکر 6ذوالحجہ 1319ھ میں مکہ مکرمہ میں وفات ہو ئی حکیم ناصر علی المتوفی1305ھ نزہۃ الخوطر ج8ص19۔390۔قاضی مولوی محمد کریم ۔۔۔(4)مولانا مفتی لطف اللہ الکوئلی مفتی عنایت احمد کا کوروی کے تلامذہ سے تھے اور حدیث کا اجازہ و اسناد قاری عبد الرحمٰن پانی پتی سے حاصل تھا ابتدا میں مدرسہ فیض عام کانپوری درس دیتے رہے اور پھر کوئل (علی گڑھ )میں سکونت پذیر ہو گئے سید حسنی نزہۃ الخوطر میں لکھتے ہیں۔(ج8رقم405)
کہ آپ فراغت کے بعد درس و تدریس میں مشغول ہو گئے اور ہزاروں ہندی اور خراسانی تلامذہ نے آپ سے فیض حاصل کیا اور وہ ملک کے اطراف میں پھیل گئے اور مدارس قائم کر لیے بالآخر1312ھ کو نواب وقار الامراء وزیر الدولہ الاصفیہ آپ کو حیدر آباد  دکن لے گئے اور وہاں دار العلوم میں صدر اور محکمہ اوقاف  اس میں مفتی مقرر کر دیا اور آخر عمر میں ریٹائر ہو کر واپس وطن چلے آئے نہایت پاکیزہ اخلاق تھے اور ندوۃ العلماء کے معاونین میں شامل تھے اور جب کانپور میں 1311ھ کو ندوہ کی سالانہ کانفرنس ہو ئی تو انہی کے زیر صدارت منعقد ہو ئی ۔1334ھ کو اپنے شہر علی گڑھ میں ہی 90سال کی عمر میں وفات پائی مفتی صاحب کے تلامذہ کی تعدادشمار سے باہر ہے ۔۔۔(5)مولانا سعادت حسین بہاری سید نذیر حسین دہلوی کے تلامذہ سے تھے اور آرہ میں مدرس رہے اثناء تدریس میں مولانا احمد علی سہانپوری سے بھی اجازہ حدیث حاصل کیا ۔1360ھ کو فوت ہو ئے (نزہۃ الخوطر ج8رقم 154)۔۔۔۔(6)الاعتصام:علماء اہلحدیث بہار (ہند) 25دسمبر 1970ھ)۔۔۔(7)مولانا وحید الزمان بن مسیح الزمان الحید آبادی الملقب بنواب وقار نواز جنگ بہادر۔۔۔(8)حیات شبلی ص308۔۔(9)تراجم
علمائے اہل حدیث ازامام خان نو شہری میں حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری کے تلامذہ کی تعداد بکثرت ملتی دیکھئے حافظ عبد اللہ غازی پوری۔۔(10)یہ وہی مولانا منصور علی مراد آبادی ہیں جنہوں نے "الظفرالمبین "کے جواب میں فتح المبین لکھی ہے تفصیل کے لیے دیکھئے :مقدمہ "الظفر المبین "از راقم الحروف ۔۔۔(11)حیات شبلی ص324۔۔۔(12)تحریک وہابیت 333۔334
(13)یہ پورا بیان کلکتہ پولیس کی خفیہ اطلاعات سے مملخص ہے جو ڈپٹی کمشز پولیس کلکتہ لیمبرٹ نے کمشز پٹنہ کو بھیجی تھیں دیکھئے  میمو نمبر653۔مورخہ :
23فروری 1881ء۔۔۔(14)تحریک وہابیت ص333۔334۔۔۔(15)تحریک
وہابی 336۔337۔