فہم قرآن کے بنیادی اُصول
قرآنِ پاک نوع انسانی کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر دائمی معجزہ، اس نے اپنے نزول کے ساتھ تاریخ عالم کا دھارا بدل دیا اور پھر اپنی جامعیت اور گہرائی کے اعتبار سے ہر دور میں انسانی عقل و فکر کے لئے رہنما ہے۔ اس کی زبان معجزانہ ہے اور اندازِ بیان اچھوتا، اس کی تفسیر و تاویل، اِعجاز و اِعراب، تاریخ و جغرافیہ، اُسلوبِ بیان وغیرہ پر جس قدر لکھا جا چکا ہے وہ بھی معجزہ سے کم نہیں۔ ہر دور میں مفسرین نے اپنے خصوصی ذوق اور ماحول کے مطابق اس کی خدمت کی ہے جس سے تفسیر اور علومِ قرآنی کا دائرہ وسیر تع ہو گیا ہے۔ دوسری صدی کے علماء کی تفاسیر پر نظر ڈالیں تو وہ صرف صحابہ و تابعین کے اقوال پر مشتمل نظر آئیں گی مگر اس کے بعد ہر دور میں علوم تفسیر میں اضافہ ہی نظر آتا ہے حتیٰ کہ فی زمانہ یہ علوم اس قدر پھیل چکے ہیں کہ کسی ایک علم پر احاطہ بھی مشکل ہے اور علومِ تفسیر نے اس قدر ارتقائی شکل اختیار کر لی ہے کہ ان کا تاریخی جائزہ بھی بجائے خود ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ ان علوم کے ارتقاء اور ان کی تفصیل سے قطع نظر یہاں پر ہم صرف ان وسائل و عناصر کو موضوعِ سخن بناتے ہیں جو قرآن فہمی میں ممدومعاون ہو سکتے ہیں اور جن کے ملحوظ رکھنے سے قرآن فہمی مشکل ہے اور پھر ان عناصر کی تربیتی حیثیت سے صرفِ نظر کرنا بہت سے گمراہیوں اور لغزشوں کا موقجب بن سکتی ہے۔
اس باب میں تتبع اور جستجو کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ علمائے تفسیر نے قرآن فہمی اور تفسیر بالماثور کے سلسلہ میں عموما چار چیزوں سے استفادہ کیا ہے اور دورِ حاضر میں بھی ان کی اہمیت میں اضافہ ہی ہوا ہے اور ہم عجمیت زدہ لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کا مطالعہ انہی بنیادی اُصولوں کی روشنی میں کریں تاکہ قرآن فہمی کا دشوار راستہ سہل ہو جائے۔ اب ہم ان اُصول و عناصر میں سے ہر ایک کی تفصیل پیش کرتے ہیں:
قرآن کی تلاوت اور اس کے مطالعہ سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن نے بعض حقائق کو ذہن نشین کرنے کے لئے متعدد مقامات پر اُن کا اِعادہ کیا ہے لیکن ہر مقام پر اندازِ بیان جداگانہ ہے۔ ایک مقام پر اگر جمال ہے تو دوسرے مقام پر اسی کو تفصیل سے بیان فرما دیا ہے اور پھر مقصد و اِستدلال کے اعتبار سے بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ بعض آیات میں اگر اطلاق ہے تو دوسری آیت میں اسے تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک جگہ پر اگر عموم ہے تو دوسرے مقام پر اس کی تفصیل مذکور ہے پھر اسی قسم کے اندازِ بیان کے پیش نظر قرآن نے اپنے آپ کو كِتَابًا مُّتَشَابِهًا اور مَّثَانِيَ فرمایا ہے اور اسی تکرار کو تصریفِ آیات سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کے اسی پیرایہ بیان کے پیش نظر علماء نے لکھا ہے:
(1)قرآن کی تفسیر، قرآن کے ذریعے
القرآن يفسر بعضه بعضا کہ قرآن کا ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے۔ لہذا قرآن فہمی کے لئے یہ لازم ہے کہ اولا خود قرآن سے ہی رہنمائی حاصل کی جائے۔ علمائے تفسیر نے اس کو اولیٰ اور بنیادی حیثیت دی ہے، چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنے مقدمہ تفسیر میں لکھتے ہیں:
"اگر ہم سے پوچھا جائے کہ قرآن فہمی کا سب سے بہتر طریق کیا ہے تو ہمارا جواب یہ ہو گا کہ اولا قرآن کو قرآن ہی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے" (مقدمہ تفسیر، ص 3)
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد مقامات پر اسی اصل پر زور دیا ہے چنانچہ فتاویٰ، 13/363 پر رقمطراز ہیں
"اصح طریق یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے تلاش کی جائے کیونکہ قرآن میں ایک مقام پر اگر اِجمال ہے تو دوسرے مقام پر اس کی تفصیل مذکور ہے، اسی طرح ایک مقام پر اختصار ہے تو دوسرے مقام پر اسی مفہوم کو قدرے اِطناب (طوالت) سے ذکر فرمایا گیا ہ۔"
(i)مثلا سورہ مومن آیت 82 میں ہے وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ
"کہ اگر یہ سچا ہے تو تمہیں وہ کچھ پہنچ کر رہے گا جس کا تم سے وعدہ کر رہا ہے"
یہاں پر بَعْضُ الَّذِي سے مراد دنیا میں عذاب کا آنا ہے کیونکہ اسی سورہ کے آخر میں ہے:
﴿فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ ﴿٧٧﴾...غافر
"اگر ہم تمہیں وہ بعض جس کا وعدہ کرتے ہیں دنیا میں دکھلا دیں یا اس سے پہلے تمہیں فوت کر لیں تو ان لوگوں نے بہرحال ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے"
(ii) سورۃ نساء (آیت 27) میں ہے:
﴿وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَن تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا ﴿٢٧﴾...النساء
"جو لوگ اپنی شہوات کے تابع ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بری طرح گمراہ ہو جاؤ"
"جو لوگ" سے اہل کتاب مراد ہیں کیونکہ اسی سورہ (آیت: 44) میں ہے ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ ﴿٤٤﴾...النساء
"تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو کتاب سے بہرہ ور کئے گئے کہ وہ گمراہی اختیار کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی گمراہ ہو جاؤ"
(iii) سورہ بقرہ (آیت: 37) میں ہے فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ
"پس آدم (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے چند کلمات لے لئے"
سورہ اعراف (آیت: 23) میں ان کلمات کی تفصیل مذکور ہے یعنی﴿ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٢٣﴾...اعراف "اے پروردگار! ہم نے اپنے جانوں پر ظلم کیا، اگر ہمارا گناہ معاف نہ ہوا اور ہم پر رحم کی نظر نہ کی تو ہم خائب و خاسر ہو جائیں گے"
(iv) اسی طرح آیت لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ (الانعام: 103) کی وضاحت سورہ قیامہ کی آیت 23 إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴿٢٣﴾ سے اَخذ کر سکتے ہیں۔
(v) سورۃ المائدہ میں آیت أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ کی تفسیر آیت نمبر 3 حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ سے کر دی گئی ہے۔
(vi) مطلق و مقید کی مثال میں آیتِ وضو اور آیت تیمم پیش کر سکتے ہیں کہ آیتِ تیمم میں وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مطلق ہے اور آیتِ وضو میں إِلَى الْمَرَافِقِ کے ساتھ مقید ہے جیسا کہ اکثر شوافع کا مسلک ہے۔
(vii) اسی طرح بعض علماء کے نزدیک آیتِ ظہار میں فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ آیتِ قتل میں فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ کے ساتھ مقید ہے۔
(viii) سورہ بقرہ (آیت 254) میں قیامت کے دن خُلَّةٌ یعنی دوستی کی نفی مذکور ہے۔ مگر زخرف (آیت 67) الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ﴿٦٧﴾ فرما کر مومنین کو مستثنیٰ کیا ہے۔
٭ تفسیر القرآن بالقرآن کے سلسلہ میں اختلافِ قراءات کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین بعض آیات کی تفسیر میں اختلافِ قراءت سے استفادہ کرتے رہے ہیں مثلا سورۃ الاسراء (آیت: 93) أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت میں من ذهب ہے جس سے لفظ زُخْرُفٍ کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح آیت فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ میں ایک قراءت فامضوا إلى ذكر الله ہے جس سے سعى کے معنی کی وضاحت ہوتی ہے۔
علیٰ ہذا القیاس بہت سی قراءات ہیں جن سے نفس آیت کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ خصوصا حضرت عبداللہ بن مسعود اور ابی بن کعب کی قراءت تو تفسیر کے سلسلہ میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل رہی ہے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اگر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت کو اختیار کرتا تو میرے بہت سے سوالات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے استفسار کئے بغیر ہی حل ہو جاتے" (المذاہب الاسلامیہ فی التفسیر)
بلکہ بعض علماء نے تفسیری ارتقاء کے سلسلہ میں اختلافِ قراءت کو پہلا زینہ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ تدوین تفسیر میں یہ پہلی کوشش تھی جسے صحابہ و تابعین نے اختیار کیا۔ مگر اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ قراءتِ متواترہ تو نصوصِ قرآن کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن قراءتِ شاذہ کو ہم تفسیری مراجع میں شمار کر سکتے ہیں۔
تفسير القرآن بالقرآن کے طرز پر علماء نے تفاسیر بھی لکھی ہیں۔ متاخرین میں سے حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کو بطورِ مثال پیش کر سکتے ہیں جو کہ تفسیر القرآن بالقرآن کے سلسلہ میں نہایت معتمد تفسیر ہے۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذِ رشید تھے اور حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس طرزِ تفسیر کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور پھر حافظ ابن کثیر خود بھی سلفی نقاد تھے اور سلف کے طرزِ تفسیر کو ترجیح دیتے تھے۔ اس بنا پر ان کی تفسیر ایک تو سلف کے مسلک کی ترجمان نظر آتی ہے اور دوسرے، اس میں اسرائیلیات پر تنقید بھی ہے جس سے علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر معریٰ (عاری) نظر آتی ہے۔ ہندوستانی علمائے تفسیر میں شیخ الاسلام امرتسری وہ واحد عالم ہیں جنہوں نے تفسير القرآن بكلام الرحمن خالصتا اسی طرز پر لکھی ہے۔ یہ تفسیر گو مختصر ہے لیکن موصوف کی یہ کوشش (اس حوالے سے) قابل قدر ہے۔
(2) قرآن کی تفسیر، حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں
قرآن فہمی کے سلسلہ میں سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے مرجع کی حیثیت حاصل رہی ہے بلکہ آئمہ نے سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے شارح کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ آیت وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ (النحل 44) میں قرآن کی تبیین کو اہم ترین فریضہ رسالت بتلایا گیا ہے۔ اس بنا پر علمائے اسلام نے سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدوین میں بھی خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور اس کی حجیت سے انکار دراصل تفسیر بالرائے کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ محققین علماء نے ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے سنت کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور قرآن فہمی کے لئے اس کو لازم قرار دیا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ الرسالة (رقم 303) میں لکھتے ہیں:
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی فیصلہ صادر فرمایا ہے، وہ قرآن سے سمجھ کر ہی صادر فرمایا ہے"
اس بنا پر علماء نے قرآن فہمی کے سلسلہ میں قرآن کے بعد سنت کی طرف رجوع کو لازم قرار دیا ہے۔ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ قرآن فہمی پر بحث کے دوران لکھتے ہیں: (فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ج3/ص 363، 364)
"اگر قرآن کی تفسیر قرآن سے نہ ملے تو سنت کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ سنت قرآن کی شارح ہے، اس بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، يعنى السنة اور سنت بھی وحی ہے جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ائمہ نے اس پر دلائل پیش کئے ہیں۔
حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں سنت کو مرجع ثانی کی حیثیت دی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
"اگر قرآن کی تفسیر قرآن سے نہ ملے تو سنت کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ سنت قرآن کی شارح ہے" (مقدمہ تفسیر، ص 3)
خصوصا قرآن میں جس قدر آیات احکام ہیں، ان کی تفسیر و توضیح کے سلسلہ میں تو سنت سے بے اعتنائی ناممکن ہے ۔۔ ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"جہاں تک قرآن میں اَحکام کا تعلق ہے وہ سنت کی روشنی میں ہی سمجھے جا سکتے ہیں لہذا تفسیر قرآن کے اس حصہ کے لئے سنت کی طرف رجوع ناگزیر ہے" (ص 33)
دو اعتراض اور ان کے جوابات
یہاں پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے میں ضعیف روایات کا کیا کیا جائے۔ چنانچہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " ثلاثة ليس لها أصل: التفسير والملاحم والمغازي " کہ تین قسم کی کتابیں بے اصل روایات پر مشمتل ہیں۔ یعنی تفسیر ملاحم اور مغازی۔ تو پھر تفسیر بالحدیث پر کیسے اعتماد ہو سکتا ہے جبکہ ان سے اِستناد ہی جائز نہیں ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے ساری روایات مراد نہیں ہے بلکہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر خاص قسم کی کتابیں ہیں جن کی وہ تردید کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ خود ہی فرماتے ہیں: " وأما كتب التفسير فمن أشهرها كتابا الكلبي ومقاتل بن سليمان وقال قال أحمد في تفسير الكلبي من أوله إلى آخره كذب "
پھر اگر ہر قسم کی تفسیری روایات امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غیر مستند ہوتیں تو امام موصوف اس تفسیری صحیفہ کی تحسین نہ فرماتے جو کہ علی بن ابی طلحہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں بلکہ امام نے اس کے حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے (الفوز الکبیر) چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اسی صحیفہ پر اعتماد کرتے نظر آتے ہیں۔
٭ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ تفسیر مرفوع بلاشبہ حجت ہے لیکن اس کا وجود بہت کم ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: " لم يكن النبى صلى الله عليه وسلم يفسر شيئا من القران الا ايات تعد علمهن النبى صلى الله عليه وسلم اياه جبريل " یعنی "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی صرف گنتی کی چند آیات کی تفسیر کی ہے، جن کی تفسیر جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو سکھلائی تھی"
اس طرح امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس موضوع پر بحث کے دوران لکھتے ہیں:
" الذي صح من ذلك قليل جداً بل أصل المرفوع منه في غاية القلة " یعنی "حقیقتا مرفوع تفسیر تو نہ ہونے کے برابر ہے" ۔۔ اس لئے قرآن کی تفسیر میں حدیث کو مستقل رکن کی حیثیت قرار دینا اور ہر آیت کی تفسیر میں احادیث پیش کرنا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ مرفوع حدیث کی قلت کا دعویٰ صحیح نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پورے قرآن کی تلاوت فرمائی ہے، اسی طرح قرآن کے معانی و مطالب بھی بیان کئے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ سورہ نحل آیت 44 میں قرآن کی تبیین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض میں رکھا گیا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بالتبع دوسرے علماء نے دلائل سے اس کو ثابت کیا ہے جن میں سے ہم بعض کی طرف بالاختصار اشارہ کرتے ہیں:
(1)ابوعبدالرحمٰن اسلمیعبداللہ بن حبیب تابعی، 72ھ) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا بیان ہے کہ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات کی تعلیم حاصل کر لیتے تو جب تک اس کے معنی و مفہوم کو پوری طرح ذہن نشین نہ کر لیتے اور پھر عملا اپنا نہ لیتے، ان سے آگے نہ بڑھتے۔ چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بیان ہے: " فتعلمنا القرآن والعلم والعمل جميعا " ہم نے قرآن کا علم اور اس پر عمل کرنا بیک وقت سیکھا" ۔۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ہی سورہ کے حفظ میں سالہا سال لگے رہتے۔ مؤطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "انہوں نے سورہ بقرہ کے حفظ میں پورے آٹھ برس صرف کر دئیے" اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دس برس کی مدت میں یہ سورہ ختم کی اور ظاہر ہے کہ یہ محض قرآن کی قراءت یا تجوید نہ تھی بلکہ اس کے مطالب پر عبور اور عمل بھی اس میں شامل تھا۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ میں مزید وضاحت کے طور پر لکھتے ہیں:
"اور اس بات کو ہم عادتا باور کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ کوئی شخص مثلا طب یا حساب کی کوئی کتاب تو پڑھے مگر اس کی تشریح حاصل نہ کرے اور پھر قرآن جیسی عظیم الشان کتاب کا بغیر سمجھنے کے پڑھنا (آج کل کے عجمی مسلمانوں سے تو ہو سکتا ہے) مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا تصور بھی بعید ہے خصوصا جبکہ وہ تعلیم کے ساتھ اس کی عملی تطبیق حاصل کرنے پر بھی حریص رہتے تھے" (فتاویٰ، ج13، ص 331 تا 333)
بحث روایتِ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
پھر جو لوگ مرفوع تفسیر کے نہایت قلیل ہونے کے قائل ہیں، ان کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے استدلال نہایت ہی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اولا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت ہی غریب اور منکر ہے اس کی سند میں ایک راوی محمد بن جعفر زبیدی ہیں جس پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ رجال نے جرح کی ہے۔ خود امام طبری رحمۃ اللہ علیہ ان کے متعلق لکھتے ہیں: " انه ممن لا يعرف فى اهل الآثار " یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کو اہل روایت میں سے کوئی نہیں جانتا۔
اور پھر یہ روایت واقعات کے بھی خلاف ہے اور بشرطِ صحت اس میں تاویل کی گنجائش ہے۔ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان کا تعلق قرآن کی تفسیر کے اس حصہ سے ہے جو غیبی اُمور سے متعلق ہے۔ مثلا قیامت کے وقت کا علم وغیرہ جس کی تعیین کا اظہار مشیتِ الہیٰ کے خلاف تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کے جواب میں " ما المسؤول عنها بأعلم من السائل " (جس سے پوچھا جا رہا ہے، وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا) کے جملہ سے اس کی وضاحت فرما دی ہے۔
نیز امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
"تفسیر چار قسم پر ہے، ایک قسم تو وہ ہے جسے عرب اپنے محاورات کی روشنی میں سمجھ لیتے تھے۔ اس نوع کے تفسیر کے بیان کی ضرورت نہ تھی ۔۔ اور چوتھی قسم وہ جو علم الہیٰ کے ساتھ خاص ہے اور انسان اس کا ادراک نہیں کر سکتا۔ اس قسم کی تفسیر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تعرض نہ فرماتے تھے"
الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی تفسیر و تشریح فرمائی ہے جو کہ کتبِ احادیث و سنن میں محفوظ ہے۔ اسی بنا پر علماء نے قرآن و سنت کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے اور سنت کو قرآن کا شارح تسلیم کیا ہے۔ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ حسان بن عطیہ سے بیان کرتے ہیں:
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی وحی نازل ہوتی تو پھر حضرت جبریل علیہ السلام قرآن کی تفسیر کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سنت لے کر حاضر ہوتے"
یہی امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ، مکحول سے روایت کرتے ہیں کہ " القرآن إلى السنة أحوج من السنة إلى القرآن " کہ قرآن اپنی تشریحات میں جس قدر سنت کا محتاج ہے سنت کے مطالب کی وضاحت کے لئے قرآن کی اتنی ضرورت نہیں ہے۔
(3) اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم
اگر قرآنِ کریم کی کوئی مشکل خود قرآن اور حدیث سے حل نہ ہو رہی ہو تو اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنھم کی طرف رجوع لازم ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جاہلی ادب، اہل کتاب کے عادات و اَطوار اور لغت کے اَوضاع و اَسرار سے بخوبی واقف تھے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جن اَحوال و ظروف میں قرآن نازل ہو رہا تھا، وہ اُن کی نظروں کے سامنے تھے اور وہ آیات کے پس منظر سے آگاہ تھے پھر ان کے اَذہان بھی صاف ستھرے اور گردوپیش کی آلائشوں سے منزہ تھے۔ ان جملہ وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: (مقدمہ تفسیر)
"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس وقت کے قرائن و احوال سے آگاہ ہونے کی بنا پر قرآن ہم سے زیادہ سمجھتے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے عقل و فہم، علم صحیح اور عمل صالح سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا"
اس بنا پر علماء نے قرآن و سنت کے بعد اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف رجوع کو لازم قرار دیا ہے خصوصا ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے خلفاءِ اربعہ اور اصحابِ علم و فضل کے اقوال سے بے اعنائی ناممکن سی ہے۔ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بھی اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"وحينئذ، إذا لم نجد التفسير في القرآن ولا في السنة رجعنا في ذلك إلى أقوال الصحابة، فإنهم أدرى بذلك لما شاهدوه من القرآن، والأحوال التي اختصوا بها، ولما لهم من الفهم التام، والعلم الصحيح، والعمل الصالح ۔۔۔ الخ"
"جب ہمیں کسی آیت کی قرآن اور سنت میں تشریح نہ ملے تو ہم صحابہ کے اقوال کی طرف رجوع کریں گے کیونکہ وہ قرآن کو زیادہ سمجھتے تھے بایں وجہ کہ وہ نزولِ وحی کے وقت موجود تھے، اور ان حالات سے جن میں قرآن نازل ہوا، اُنہیں آگاہی تھی، علاوہ ازیں وہ مکمل فہم و فراست، صحیح علم اور نیک اعمال کی خوبیوں سے متصٖ تھے"
تتبع سے ثابت ہوتا ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصادرِ خمسہ سے استفادہ کیا ہے: قرآن و سنتِ نبوی جن کا بیان گزر چکا ہے، علاوہ ازیں تین مآخذ حسبِ ذیل ہیں جن کی حیثیت پر ہم بحث کرتے ہیں: (الف) اسبابِ نزول کی معرفت (ب) تورات و انجیل (اسرائیلیات) (ج) اَوضاعِ لغت اور ادبِ جاہلی
(الف) اَسبابِ نزول
بلاشبہ قرآن پاک تدریجا بحسبِ الحوائج نازل ہوا ہے۔ قرآن کا اکثر حصہ تو وہ ہے جو اب تداء موعظت و عبرت یا اصولِ دین اور احکامِ تشریع کے بیان میں نازل ہوا ہے لیکن قرآن کا کچھ حصہ وہ ہے جو کسی حادثہ یا سوال کے جواب میں اُترا ہے۔ علماء نے ان حوادث/سوالات کو اَسباب سے تعبیر کیا ہے (قرطبی، ص 39)
اسبابِ نزول کے علم سے چونکہ آیت کا پس منظر سمجھ آتا ہے اور آیت کے سبب سے جہالت بسا اوقات حیرت کا موجب بنتی ہے، اس لئے اسبابِ نزول کی معرفت کو علم تفسیر میں خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور علماء نے علومِ قرآن پر جو کتابیں لکھی ہیں اُن میں اسبابِ نزول کے عنوان کو مستقل طور پر ذکر کیا ہے بلکہ خالصتا اسبابِ نزول پر بھی کتابیں مرتب کی ہیں، علامہ سیوطی الاتقان میں لکھتے ہیں:
" أفرده بالتصنيف جماعة أقدمهم علي بن المديني شيخ البخاري "
"علماء نے اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی تالیف کی ہیں اور اس باب میں سب سے پہلی تصنیف علی بن مدینی کی ہے جو امام بخاری کے شیوخ سے ہیں"
اسی طرح علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ کی تالیفات کا ذکر کرتے ہوئے علامہ واحدی (ابوالحسین علی بن احمد 427ھ) کی تالیف کو مشہور ترین تالیف قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی فيه اعواز (اس میں مشکلات ہیں) کہہ کر اس پر طنز بھی کر دی ہے اور حافظ ابن حجر (852ھ) کی اسبابِ نزول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: " فات عنه مسودة فلم نقف علیه کاملا "
"ان کی کتاب کا مسودہ ضائع ہو گیا جس کی وجہ سے ہم پوری طرح اس سے فیض یاب نہیں ہو سکے"
پھر امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے خود بھی اس موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے جس کے متعلق لکھتے ہیں:
" وقد ألفت فيه كتابا حافلا موجزا محررا لم يؤلف مثله في هذا النوع، سميته "لباب النقول في أسباب النزول " "اس موضوع پر میری بھی ایک یگانہ روزگار تالیف ہے جس کا نام میں نے لباب النقول في أسباب النزول رکھا ہے"
بہرحال اسبابِ نزول کی اہمیت کے پیش نظر علماء نے اس کو مستقل فن کی حیثیت دی ہے اور اس پر کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اسباب کے بیان کا اہتمام کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اپنے رسالہ الفوز الكبير میں اس کی معرفت کو المواضع الصعبة (مشکل مقامات) سے شمار کیا ہے اور اس فن کے مباحث کو منقح (واضح/جداجدا) کرنے کی سعی مشکور فرمائی ہے لہذا جن علماء نے اس کی افادیت اور تاریخی حیثیت کو " لا طائل " (بے فائدہ) کہا ہے، ان کا موقف سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے اور دیگر بعض علماء نے اس میں غلو کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اسبابِ نزول کی معرفت کے بغیر تفسیر قرآن نہیں ہو سکتی اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس فن کی معرفت کے بغیر تفسیر قرآن پر اِقدام کو حرام قرار دیتے ہیں تاہم یہ دونوں گروہ اِفراط و تفریط میں مبتلا ہیں۔ اصل اور صحیح موقف ان کے بین بین ہے جیسا کہ ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ اور ابوالفتح قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت کی ہے کہ اس فن کی معرفت فی الجملہ معاونِ ہو سکتی ہے ورنہ تفسیر قرآن صرف اس پر موقوف نہیں ہے۔ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مقدمة التفسير میں لکھتے ہیں:
ومَعْرِفَةُ سَبَبِ النُّزولِ تُعِينُ عَلَى فَهْمِ الآيةِ ؛ فَإِنَّ العِلْمَ بِالسَّببِ يُورِثُ العِلْمَ بِالْمُسَبَّبِ
"سببِ نزول کی معرفت آیت کے سمجھنے میں معاون ہے کیونکہ سبب کی معرفت کے ذریعے مسبب تک رسائی ہو جاتی ہے"
حقیقتِ حال: صحابہ یا تابعین نے جو اَسبابِ نزول بیان فرمائے ہیں، وہ دو قسم پر ہیں: اول وہ جن کی طرف خود آیات میں اشارہ پایا جاتا ہے۔ مثلا مغازی یا دیگر واقعات کہ جب تک ان واقعات کی تفصیل سامنے نہ ہو متعلقہ آیت میں مذکورہ جزئیات ذہن نشین نہیں ہو سکتیں۔ اس قسم کے اسبابِ نزول کے متعلق تو واقعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک مفسر قرآن کے لیے اِن پر عبور لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے تاریخ جاہلیت اور مغازی کی معرفت کو قرآن فہمی کے لئے لازمی قرار دیا ہے کیونکہ متعلقہ آیات میں ان کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں۔
لیکن دوسری قسم کے اسبابِ نزول وہ ہیں جنہیں صحابہ یا تابعین کسی آیت کے تحت نزلت فى كذا يا انزل الله فى كذا کے الفاظ سے ذکر کر دیتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کو ایک طرف کی مناسبت سے تو آیت کے تحت ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ آیت کے مفہوم کو ذہن نشین کرنے کے لیے ان کی معرفت لازمی نہیں ہے (فتاویٰ، ج3، ص 338، 340) شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ الفوز الكبير میں لکھتے ہیں:
" وقد ذكر المفسرون تلك الحادثة بقصد الإحاطة بالآثار المناسبة للآية، أو بقصد بيان ما صدق عليه العموم، وليس ذكر هذا القسم من الضروريات۔۔۔ وكان غرضهم تصوير ماصدقت عليه الآيه"
"بسا اوقات مفسرین آیت کے تحت کوئی واقعہ اس مقصد سے ذکر کر دیتے ہیں کہ اس آیت سے مناسبت رکھنے والے واقعات جمع ہو جائیں یا جس امر کی عموم تصدیق کر رہا ہو اس کی وضاحت ان کا مقصود ہوتی ہے۔ یہ قسم ضروری اسبابِ نزول سے نہیں ہے۔ اس سے ان کا مقصد اس امر کی تصویر کشی کرنا ہوتا ہے جس پر آٰت صادق آ سکتی ہے"
پہلی قسم کے اسباب کے بیان میں چونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتہاد کو دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ سراسر روایت و سماع پر مبنی ہوتا ہے۔ اس بنا پر علماء نے بلااختلاف اس کو حدیثِ مسند کا درجہ دیا ہے۔ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
" وإذا ذكر سببا نزلت عقبه ، فإنهم كلهم يدخلون مثل هذا في المسند، لأن مثل ذلك لا يقال بالرأي " "صحابی جب کسی آیت کے سبب نزول میں "اس کے معابعد یہ آیت نازل ہوئی" جیسے الفاظ استعمال کرے تو اس طرح کی روایات حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہوتی ہیں کیونکہ اس طرح کی بات فقط رائے سے نہیں کہی جا سکتی"
اور دوسری قسم (یعنی جب کوئی صحابی نزلت في كذا کے الفاظ استعمال کرے) میں اختلاف ہے کہ کیا یہ بھی قسم اول کی طرح مسند حدیث کے حکم میں ہے یا اس کی بنیاد صحابی کے اجتہاد و رائے پر ہے۔ امام حاکم علوم الحديث میں لکھتے ہیں:
" وإذا أخبر الصحابي الذي شهد الوحي والتنزيل عن آية من القرآن أنها نزلت في كذا فإنه حديث مسند . ومشى على هذا ابن الصلاح وغيره "
"جب کوئی صحابی جو نزولِ وحی/آیت کے وقت موجود تھا، قرآن کی کسی آیت کے بارے میں خبر دے کہ یہ آیت فلاں واقعہ میں نازل ہوئی تو یہ بھی حدیثِ مرفوع ہے، یہی رائے ابن صلاح رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی بھی ہے"
مگر حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس میں تفصیل و توزیع کے قائل نظر آتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر ان الفاظ سے سبب نزول مراد ہے تو یہ تمام کے نزدیک حدیثِ مسند میں داخل ہے اور اگر اس سے صحابی کا مقصد یہ ہے کہ یہ واقعہ بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے (مگر اس کا سببِ نزول نہیں ہے) تو اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ کیا یہ بھی مسند حدیث کے حکم میں ہو گا یا نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تو اسے اس صحابی کی مسند میں داخل مانتے ہیں لیکن دوسرے علماء اس کا انکار کرتے ہیں اور اکثر مسانید اسی اصطلاح کے مطابق جمع کی گئی ہیں۔ جیسے مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ اور اکثر علماء کا میلان بھی امام احمد بن حنبل کی طرف ہے، چنانچہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"قد عرف من عادة الصحابة والتابعين أن أحدهم إذا قال: نزلت هذه الآية في كذا, فإنه يريد بذلك أنها تتضمن هذا الحكم, لا أن هذا كان السبب في نزولها, فهو من جنس الاستدلال على الحكم بالآية, لا من جنس النقل لما وقع"
"صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی یہ معروف عادت ہے کہ جب وہ "یہ آیت فلاں مسئلے میں نازل ہوئی" کہیں تو اس سے ان کی یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ آیت اس حکم کو شامل ہے نہ کہ فلاں واقعہ اس آیت کا سببِ نزول ہے۔ پس صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ کہنا آیت سے کسی حکم کے بارے میں استدلال کرنے کی قبیل سے ہوتا ہے نہ کہ واقعہ کی خبر نقل کرنے کی جنس سے" (ج1/ص31،32)
الغرض اسبابِ نزول کے بیان میں صحابہ کے اقوال مبنی براجتہاد بھی ہوتے اور بعض اوقات تو صحابی کو خود بھی اپنے بیان پر اعتماد نہ ہوتا اور وہ احسب هذه الآية نزلت في كذا (میرا گمان ہے کہ یہ آیت فلاں واقعے کے سلسلے میں نازل ہوئی) کے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتا لہذا اسبابِ نزول کے بیان میں احتیاط کی ضرورت ہے اور یہ علم صحابہ سے سماع و روایت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ علامہ واحدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: " لا يحل القول في أسباب النزول إلا بالرواية والسماع ممن شاهدوا التنزيل ووقفوا على الأسباب وبحثوا عن علمها "
"کتاب اللہ کے اسبابِ نزول کے بارے میں کچھ کہنا جائز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہی صحابہ کی روایت اور سماع معتبر ہے جو نزولِ قرآن کے وقت موجود تھے اور وہ اس کے اسباب سے واقف تھے اور اسی کے جاننے کے لئے بحث و کرید میں لگے رہتے تھے۔"
اس بنا پر سلف رحمہم اللہ اسبابِ نزول کے سلسلہ میں روایت قبول کرنے میں تشدد سے کام لیتے اور جب تک کسی صحابی سے صحتِ سند کے ساتھ اس کا مروی ہونا ثابت نہ ہو جاتا وہ اسے قابل التفات نہ سمجھتے۔ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبیدہ رضی اللہ عنہ سے ایک آیت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
" أتق الله وقل سدادا ذهب الذين يعلمون فيم أنزل القرآن "
"اللہ سے ڈرو اور کھری بات کہو، وہ لوگ چلے گئے جو جانتے تھے کہ قرآن کس بارے میں نازل ہوا؟"
لیکن ان کے بعد علماء نے اس سلسلہ میں تساہل سے کام لینا شروع کر دیا حتیٰ کہ کذب بیان کی بھی پرواہ نہ کی گئی۔ علامہ واحدی اسی قسم کے علماء پر اظہارِ تاسف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" واما اليوم فكل احد يخترع شيئاً ويختلق افكا وكذبا ملقياً زمامه الى ا الجهالة غير متكر في الوعيد الجاهل بسبب الآية "
"اور آج تو یہ حالت ہے کہ ہر ایک کوئی چیز گھڑ لیتا، جھوٹ بنا لیتا ہے، اپنی لگام جہالت کے سپرد کرتے ہوئے۔ وہ ذرا انہیں سوچتا کہ آیت کے سببِ نزول سے ناواقف کے لئے کیا وعید ہے؟"
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ متاخرین نے ہر آیت کے تحت شانِ نزول بیان کرنے کی کوشش کی اور اپنی تفاسیر میں رطب و یابس کو جمع کر دیا بلکہ مبالغہ آمیزی اور کذب بیانی کے علاوہ بہت سی تاریخی لغزشوں کا بھی ارتکاب کیا۔ حتیٰ کہ امام طبری رحمۃ اللہ علیہ جیسے مؤرخ اور مفسر بھی اس قسم کی غلطیوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔
لہذا اس نوع کی تفسیری روایات پر نقد و نظر کی ضرورت ہے اور جب تک کسی حادثہ کا صحتِ اسناد سے سببِ نزول ہونا ثابت نہ ہو جائے محض تفسیری روایت کی بنا پر اسے قبول کرنا جائز نہیں ہے۔
اسبابِ نزول کی حیثیت
یہاں پر یہ بھی ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ کوئی آیت اپنے نفس الامری مفہوم اور عموم کے اعتبار سے سببِ نزول کے ساتھ مقید و مختص نہیں ہوتی بلکہ معنی و مفہوم کے اعتبار سے اس آیت کو عموم پر ہی محمول کرنا ضروری ہے۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"اَصح یہ ہے کہ نظم قرآن کو اس کے عموم پر محمول کیا جائے اور اسبابِ خاصہ کا اعتبار نہ کیا جائے ۔۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیش آمدہ واقعات کی توضیح میں آیات کے عموم سے استدلال کرتے رہے ہیں گو ان کے اسبابِ نزول خاص تھے"
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں: (ج 15 ص 364 و ایضا ص 451)
" قصر عمومات القرآن على أسباب نزولها باطل فإن عامة الآيات نزلت بأسباب اقتضت ذلك وقد علم أن شيئا منها لم يقصر على سببه "
"عمومِ قرآن کو اسبابِ نزول پر محدود کر دینا باطل ہے کیونکہ اکثر آیات ایسے اسباب کے تحت نازل ہوئی ہیں جو اس کے مقتضی تھے۔ جبکہ یہ معلوم ہے کہ کوئی آیت بھی اپنے سبب نزول تک محدود نہیں ہے" (بلکہ عموم لفظ کے اعتبار سے اس میں وسعت ہے)
اور پھر آگے چل کر (ص 451 پر) لکھتے ہیں:
" ورود اللفظ العام على سبب مقارن له في الخطاب لا يوجب قصره عليه: غاية ما يقال: إِنَّهَا تَخْتَصُّ بِنَوْعِ ذَلِكَ الشَّخصِ ؛ فتَعُمُّ مَا يُشْبِهُهُ "
"کسی عام لفظ کا خطاب کے مخصوص سبب کی بنا پر آنا اس کو اس سبب سے مقید نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ الفاظ اس قسم کے لوگوں کے بارے میں آئے ہیں اور اس سے ملتے جلتے لوگوں کو یہ الفاظ شامل ہوں گے"
خلاصہ کلام: مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسبابِ نزول دو قسم پر ہیں بعض اسباب تو وہ ہیں جن سے آیت کے پس منظر پر روشنی پڑتی ہے اور جب اس واقعہ کو بیان نہ کیا جائے پورے طور پر آیت کا مفہوم ذہن نشین نہیں ہو پاتا۔ لیکن اکثر واقعات وہ ہیں جو علمائے تفسیر نے اسباب کے طور پر ذکر کر دئیے ہیں ورنہ درحقیقت نہ تو وہ اسبابِ نزول ہی ہیں اور نہ ہی ان سے صرف نظر کر لینے سے آیت کا مفہوم سمجھنے میں کسی قسم کی مشکل پیش آتی ہے۔ جیسا کہ شاہ صاحب نے "الفوزالکبیر" میں تصریح کی ہے۔ نیز یہ کہ کوئی بھی آیت اپنے سببِ نزول کے ساتھ مختص نہیں ہوتی بلکہ اسے عموم پر رکھنا ضروری ہے۔
(ب) اِسرائیلیات کی حیثیت
بلاشبہ قرآن پاک کو دوسری کتبِ سماویہ پر مُهَيْمِنً (نگہبان) کی حیثیت حاصل ہے اور اس نے بعض واقعات اور مسائل کے بیان کرنے میں تورات سے موافقت بھی کی ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت اور ان کے معجزات کے بیان میں انجیل کی تصدیق کی ہے تاہم ان واقعات کے بیان میں کتب سابقہ کے نہج و اُسلوب کی اِتباع سے گریز کیا ہے اور ان واقعات کی غیر ضروری جزئیات کو ترک کر کے صرف انہی حصص کے بیان پر اکتفا کی ہے جن کا تعلق عبرت و موعظت سے ہے یا ان واقعات کو اہل کتاب کے سامنے بطورِ استشہاد پیش کرنا مقصود ہے۔ اس بنا پر بعض مفسرین صحابہ نے ان قصص کی جزئیات معلوم کرنے کے سلسلہ میں اہل کتاب کی طرف رجوع کیا اور ان سے روایات بھی قبول کیں تاہم صحابہ کرام نے نقل و روایت میں حدِ اعتدال سے تجاوز نہیں کیا اور حدیث " حدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج " (بنی اسرائیل سے روایت کر لو، اس میں کوئی حرج نہیں!) کے پیش نظر جواز کی حد تک اِن سے استفادہ کیا ہے اور وہ بھی صرف ان روایات میں جو قرآن و حدیث اور اِسلامی عقائد سے متصادم نہ تھیں۔ (مقدمہ اصول تفسیر از ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ص 26)
اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی اسرائیلیات کی روایت تو جائز ہے لیکن بلا دلیل اس کی تصدیق یا تکذیب جائز نہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
" إذا حدثكم أهل الكتاب فلا تصدقوهم، ولا تكذبوهم، فإما أن يحدثوكم بحق فتكذبوه، وأما أن يحدثوكم بباطل فتصدقوه "
"جب تمہیں اہل کتاب کوئی واقعہ ذکر کریں تو اس کی تصدیق کرو نہ اس کو جھٹلاؤ، مبادا وہ تمہیں سچی خبر دے رہے ہوں تو تم اُن کو جھٹلا دو اور ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں غلط خبر دے رہے ہوں اور تم ان کی تصدیق کر بیٹھو"
جن صحابہ نے اہل کتاب سے روایت لی ہے ان میں سے حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس اور عبداللہ بن عمرو بن العاص خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی مرویات ملاحظہ کرنے سے ہمارے اس دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے۔ تفصیل سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ اس قسم کی روایات بطورِ استشہاد نقل ہوئی ہیں نہ کہ کلیتا انہی پر اعتماد کیا گیا ہے۔
اسرائیلیات اور تابعین
البتہ صحابہ کے بعد تابعین نے اہل کتاب سے اَخذِ روایت میں توسع سے کام لیا اور ہم سمجھتے ہیں تفسیری روایات میں اسرائیلیات کی کثرت اسی دور کی پیداوار ہے جس کی وجہ غالبا یہ تھی کہ اس دور میں بہت سے اہل کتاب مسلمان ہو گئے تھے اور لوگ قصے کہانیاں سننے کے لئے اُن کے گرد جمع ہو جاتے تھے، اِس دور میں مفسرین کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی تھی جنہوں نے روایت میں احتیاط سے کام نہ لیا اور رطب و یابس کے بیان کو اپنا مشغلہ بنا لیا، ان میں سے مقاتل بن سلیمان (150ھ) اور وہب بن منبہ (114ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
تابعین کے بعد تو اس مشغلہ نے خاصی ترقی کر لی اور ہر قسم کی خرافات کو تفسیر کے سلسلہ میں روایت کیا جانے لگا۔ حتیٰ کہ دورِ تدوین میں بعض مفسرین نے ان خرافات سے اپنی تفاسیر کو مزین کرنے کی کوشش کی۔ اہل کتاب سے اس کثرت کے ساتھ نقل و روایت دراصل دین میں ایک سازش کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بعض تحریروں میں اس کی تصریح کی ہے۔ شاہ ولی اللہ الفوز الكبير میں لکھتے ہیں: " ان النقل عن بني اسرائيل دسيسة دخلت فى ديننا "
"بنی اسرائیل سے روایت کرنا ایک پوشیدہ مکر ہے جو ہمارے دین میں داخل ہو گیا ہے"
لہذا قرآن کے ایک طالب علم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس قسم کی روایات کے ذکر میں نہایت مستعدی اور بیدار مغزی کا ثبوت دے اور غوروفکر سے ایسے نتائج اخذ کرے جو قرآن کی روح سے ہم آہنگ ہوں اور نقل و روایت میں صرف انہی حصوں پر اکتفا کرے جو قرآن کے مجمل مقامات کو سمجھنے میں ممد اور معاون ہوں اور پھر سنت سے ثابت بھی ہوں (روح المعانی، ج15 ص 93) اور اس سلسلہ میں تفسیر ابن کثیر کا توجہ سے مطالعہ بہت مفید ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی تفسیر میں متعدد مقامات پر اسرائیلیات پر تنقید کی ہے۔ البتہ اختلاف کی صورت میں ایک مؤلف ان سب کو نقل کر کے ان میں سے صحیح بات کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ پھر بہتر یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اسرائیلیات کو کلیتا ترک کر کے قرآن پر تدبر میں اپنی صلاحتیوں کو صرف کیا جائے جیسا کہ قرآن نے بعض مقامات پر اس اصول کی طرف رہنمائی کی ہے (الفوز الکبیر: ص 45، 46) خصوصا قصص کے باب میں اِجمال و تفصیل کے موقع پر خود قرآن سے تفصیلات کو اَخذ کرنے کو ایک رہنما اصول قرار دیا ہے۔
خلاصہ بحث: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسرائیلی روایات سے بےشک استفادہ کیا ہے اور ضرورت کی حد تک ان سے روایت کو جائز سمجھا ہے تاہم اس میں حزم و احتیاط کو ملحوظ رکھا ہے اور اسرائیلیات کا بیان محض ایک تفتیش علمی کی حیثیت رکھتا ہے جسے وضاحت کے سلسلہ میں قبول تو کر سکتے ہیں مگر ان کو میزانِ صحت قرار نہیں دے سکتے۔
(ج) لغت و محاورات
اگر کسی آیت کے مفہوم پر کتاب و سنت اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی روشنی نہ پڑتی ہو اور تابعین بھی اس کی تاویل میں مختلف ہوں تو پھر لغت عرب اور محاورات کی طرف رجوع ہو گا کیونکہ قرآن فہمی کے سلسلہ میں خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس اصل سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
" الشعر ديوان العرب فاذا انعاجم علينا شيئ من القران رجعنا اليه "
"شعر اہل عرب کا دیوان ہے، جب ہمیں کوئی لفظ اجنبی معلوم ہوتا تو ہم اس کی طرف رجوع کرتے" (مقدمہ اصولِ تفسیر لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ)
لیکن اس عنصر سے استفادہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں صرف وہی شخص اس عنصر کو بروئے کار لا سکتا ہے جو عربی زبان میں خصوصی ذوق رکھتا ہو۔ دوادین عرب اُسے مستحضر ہوں اور عربی زبان کے اَسالیب سے بدرجہ ا؟تم واقفیت رکھتا ہو۔ محض لغات بینی سے کام نہیں چل سکتا۔ کیونکہ معاجم و قوامیس میں علمائے لغت نے جن اقوال کو جمع کیا ہے اس میں احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا۔ اور بلا اسناد مختلف اقوال کو جمع کر دیا ہے، خصوصا ا؟شعار و ا؟مثال جن کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ دیوانُ العرب قرار دے رہے ہیں۔ علماء ادب جانتے ہیں ک اشعار کی نسبت میں اختلاط و اختلاف کو بے حد دخل ہے اور شاذونادر ہی کوئی ایسی روایت ہوتی جس پر اعتماد ہو سکے پھر محاوراتِ عرب کے بیان میں بھی باہم اختلاف ہے اور علمائے لغت نے تشریحات میں عمومی لغت و محاورہ کو سامنے رکھا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ الفاظِ قرآن کی تشریح و توضیح ان کے پیش نظر نہیں ہوتی۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لغتِ قرآن ان کے سامنے ہے اور اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہوں نے تشریحات کی ہیں تو پھر بھی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ علمائے لغت بھی مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور ہر ایک مؤلف نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق محاورات کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور عربی زبان میں یہ لچک بدرجہ اتم موجود ہے۔ لہذا لغت و محاورہ سے استفادہ کے لئے چند اُمور کا پیش نظر رہنا ضروری ہے:
(1)لغت کا تتبع کرتے وقت الفاظِ مفردہ کے صرف اُن معانی کو پیش نظر رکھا جائے جو زمانہ نزول کے وقت سمجھے جاتے تھے اور یہ جبھی ممکن ہے عام لغت سے صرفِ نظر کر کے اولا لغتِ قرآن و سنت کو سامنے رکھا جائے اور پھر عام لغت پر نظر ڈالی جائے۔ چنانچہ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
" ويرجع في ذلك إلى لغة القرآن أو السنة أو عموم لغة العرب "
"اس کے لئے سب سے پہلے لغتِ قرآن و سنت یا عام اہل عرب کی لغت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔" (فتاویٰ، ج13، ص 370) ۔۔ اور ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
"الْقُرْآنِ نَزَلَ بِلُغَةِ قُرَيْشٍ الْمَوْجُودَةِ فِي الْقُرْآنِ فَإِنَّهَا تُفَسَّرُ بِلُغَتِهِ الْمَعْرُوفَةِ فِيهِ إذَا وُجِدَتْ لَا يُعْدَلُ عَنْ لُغَتِهِ الْمَعْرُوفَةِ مَعَ وُجُودِهَا وَإِنَّمَا يُحْتَاجُ إلَى غَيْرِ لُغَتِهِ فِي لَفْظٍ لَمْ يُوجَدْ لَهُ نَظِيرٌ فِي الْقُرْآنِ"
"اور قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا جو قرآن میں موجود ہے۔ اس کی معروف لغت کے مطابق تفسیر کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی لفظ اس میں موجود پایا جائے تو اس کی معروف لغت سے انحراف کرنا درست نہیں۔ دوسری لغات کی طرف تب رجوع کیا جائے گا جب اس کی نظیر قرآن میں نہ ملتی ہو"
بایں ہمہ قواعدِ اعراب و بلاغت سے اس کے معنی ترکیبی پر غور کر لیا جائے اور سیاق و سباق پر نظر ڈال لی جائے اور پھر سیاقِ کلام سے معنی متعین کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"انصاف پسند مفسر کا فرض ہے کہ شرحِ غریب کی دو مرتبہ جانچ پڑتال کرے: اولا مواردِ استعمال پر نظر ڈالے اور ترکیبِ کلام اور سیاق و سباق کے اعتبار سے جو معنی زیادہ مناسب نظر آئیں اُنہیں اختیار کیا جائے"
اس ساری تگ و دو کے باوجود یہ معنی اجتہادی ہوں گے اور ان میں اختلاف کی گنجائش ہے کیونکہ بقول شاہ صاحب ایک ہی کلمہ لغتِ عرب میں متعدد معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
(2) مندرجہ بالا طریق سے جو بھی متعین ہو اس پر نظر ثانی کی جائے کہ کیا یہ تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی و سیرت کے بھی مطابق ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تفسیر صحابہ کے منافی تو نہیں ہے، کونی اور اجتماعی قواعد اور تاریخی حقائق سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہے۔
یہ تمام غوروفکر اور مساعی اس لئے ضروری ہیں کہ کتبِ لغت بہرحال کتبِ لغت ہیں، ان سے الفاظ کا معنوی حل ہی مل سکتا ہے۔ وہ قرآنی تصورات کی وضاحت سے بہرحال قاصر ہیں۔ مثلا کوئی شخص قرآن کے اصطلاحی الفاظ کی تشریح لغت سے تلاش کرنے کی کوشش کرے تو یہ اس کا دماغی خلل ہو گا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے محض لغت کے سہارے تفسیر کی کوشش کی ہے انہوں نے قرآن کا مفہوم متعین کرنے میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اس کا پہلا نمونہ ابوعبیدہ کی مجاز القرآن ہے۔ دراصل علماءِ بدعت نے اپنے نظریات کی ترویج کے لئے اس طریق تفسیر کو رواج دیا ہے ورنہ یہ کوئی ایسا مرجع نہیں جس کی مدد سے ہم آیت کا مفہوم متعین کر سکیں۔ ہاں صرف مفردات کی وضاحت کے سلسلہ میں کتبِ لغت کچھ نہ کچھ کام دے سکتی ہیں۔ چنانچہ علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"مفرداتِ قرآن کے معانی معلوم کرنے کے لئے تو لغت کی طرف رجوع ہو سکتا ہے مگر کسی آیت کے مفہوم کو متعین کرنے کے لئے بہرحال وحی الہیٰ اور سنت کی طرف رجوع سے چارہ کار نہیں ہے"
ان تصریحات کی روشنی میں ہم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مواردِ استعمال کا تتبع کسی حد تک مفرداتِ قرآن کے معانی حل کرنے اور سمجھنے میں تو معاون ہو سکتا ہے اور ہے، تاہم یہ ایسا ذریعہ اور عنصر نہیں ہے کہ تفسیر کے دوسرے سرچشموں سے بے نیاز کر سکے یہی وجہ ہے کہ جن علماء نے تفاسیر میں لغت و محاورات سے استفادہ کیا ہے اور لغوی تشریحات کے لئے شواہد تک کو چھان مارا ہے انہوں نے بھی اپنی تفسیروں میں سنت اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے اعتنا کیا ہے بلکہ ان کو مقدم رکھا ہے اور باوجود معتزلہ اور عقل پسند ہونے کے احادیث اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم سے مدد حاصل کی ہے۔
یہ ہیں وہ عناصر یا بنیادی اُصول جن سے قرآن فہمی کے سلسلہ میں بالترتیب اِستفادہ ضروری ہے ان کے علاوہ تاریخ جاہلیت پر عبور بھی قرآن فہمی میں معاون ہو سکتا ہے کیونکہ بعض آیات میں جاہلی تمدن اور ان کی عادات کی تردید مذکور ہے۔
٭ قرآن فہمی کے بنیادی اُصول ذہن نشین کر لینے کے بعد اب ان اُمور کا جاننا ضروری ہے جو قرآن فہمی سے مانع اور حجاب بنتے ہیں۔ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
"قرآن پاک کتابِ ہدایت ہے لہذا اسے کتابِ ہدایت سمجھ کر ہی نہایت توجہ اور تدبر سے پڑھا جائے اور زندگی کے مشکل مسائل کے حل کے لئے اسی کی طرف رجوع کیا جائے اور قاری قرآن کو چاہئے کہ دوسرے علوم سے مستغنی رہے۔"
آخر میں فرماتے ہیں: " وفى الجملة تكون همته عاكفة على مراد ربه من كلامه "
"الغرض اس کی تمام تر کوشش قرآن کریم سے اللہ کی مراد سمجھنے میں صرف ہونی چاہئے"
بعض قارئین تلاوتِ قرآن میں حسن صوت اور اَدائے مخارج میں اس قدر تصنع اور تکلف کرتے ہیں کہ اصل مقصد سے غافل ہو جاتے ہیں اور حسن قراءت کے یہ مقابلے دراصل قرآن فہمی سے حجاب بنتے ہیں۔ اس طرح اعراب، قواعدِ فصاحت و بلاغت میں استغراق بھی فہم قرآن سے مانع بن جاتا ہے۔ قرآن کے متن پر غور کی بجائے محض تفسیری مطالعہ اور اقوالِ رجال کو جمع کرنے کا مشغلہ بھی وہ حجاب ہے جو قرآن کی روح تک پہنچنے سے مانع رہتا ہے اور جو لوگ قرآن کی تلاوت ہی محض اس لئے کرتے ہیں کہ اپنے خصوصی نظریات کی تائید حاصل کریں وہ ہمیشہ قرآن فہمی سے دور رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
وكل محجوبون بما لديهم عن فهم مراد الله من كلامه فى كثير من ذلك أو أكثره
ہمارے ملک میں بھی ایک گروہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو قرآن سے عدول کر کے الہٰہات کے مسائل کا حل فلاسفہ اور متکلمین یا صوفیا کی کتابوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ قرآن کے مقابلہ میں ایسی کتابوں کو قدروقیمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس قماش کے مدہوشین کے متعلق فرماتے ہیں: " وهؤلاء أغلظ الناس حجابا عن فهم كتاب الله "
"کہ اس قسم کے لوگ قرآن فہمی سے کوسوں دور ہیں"
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن فہمی کی سعادت سے ہمکنار فرمائے اور دلوں کو اپنی رحمت سے نواز دے تاکہ دین و دنیا کی سرخروئی حاصل کر سکیں ۔۔ وما ذلك على الله بعزيز