اکتوبر 2022ء

محدث کی نصف صدی اور نیا دور

فکرو نظر                                                                    بسم اللہ الرحمن الرحیم                               

محدث کی نصف صدی اور نیا دور  

رسول اللہ ﷺ نے   اپنے  حج کے موقع پر الوداعی خطبہ دیا ، جس میں پورے اسلام کا خلاصہ بیان کیا ، آپ ﷺ نے خطبہ کے آغاز میں فرمایا:

’’اے لوگو! میں جو کچھ کہوں اسےغور سےسنو ، شائد  اس کے بعد پھر کبھی یہاں ملاقات نہ ہوسکے ۔‘‘

اور خطبہ کے آخر پر فرمایا:

 فَلْيُبْلِغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ . [صحيح البخاري :1739]

’’ ہر موجود شخص کو چاہیے کہ (یہ باتیں ) غیر حاضر تک پہنچادے ۔‘‘

یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کی دنیا سے رخصتی  کی خبر ، ختم نبوت کا اعلان اور  امت محمد ﷺ کی ذمہ داری کی وضاحت کرتے ہیں  ۔

امتِ   مسلمہ  نے اس ذمہ داری کو حرز جاں بنایا ، جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیت دی تھی اسے بروئے کار لاتے ہوئے مختلف میدانوں  میں اسلام کی اشاعت کےلیے نکل کھڑا ہوا ۔ مجاہدین نے سیف و سنان کے ذریعے اشاعت اسلام کے رستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کیا ، تجار نے اسلام کے نظام تجارت کا عملی  نمونہ  پیش کیاکہ  مسلمان تاجروں کے حسن معاملہ  کو دیکھ کر  کئی علاقے اور ملک مسلمان ہو  گئے ۔ علماء کرام نے کافروں تک اسلام کا پیغام پہنچانے اور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے دن رات ان تھک محنتیں کیں ۔ دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تعلم کے لیے ہر طریقہ اختیار کیا ، بعض نے وعظ و ارشاد کے حلقے قائم کیے ، بعض نے درس و تدریس کے مکاتب بنائے ، بعض نے تحریرا ور تصنیف و تالیف  کا میدان سنبھالا اور شریعت اسلامیہ  کی ایک ایک جزئی کو نکھیڑ کر امت کے سامنے پیش کیا۔ آج کوئی مسئلہ نہیں جس کے متعلق اسلاف کی کتابوں میں رہنمائی نہ ملتی ہو ۔  بعد کے ادوار میں اسلاف کی  کتب کی تنقیح ، ترتیب ، تبویب اور اختصار کرنے کے علاوہ ان کی محنتوں کو مختلف انداز میں پیش کرنےکی سعی کی جاتی رہی ۔

پریس کا دور آیا تو علم کی نشر و اشاعت کے کئی جدید طریقے دریافت ہوئے اور پیغام رسانی کے کئی نئے در وا  ہوئے ۔ ان میں سے ایک طریقہ رسائل و جرائد کا تھا ، جس کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک جلد از جلد  پہنچانے کا انتظام کیا جانے لگا ۔جن میں ماہنامہ ،   پندرہ روزہ ، ہفت وار  اور یومیہ بھی تھے ۔ ہر تنظیم اور ہر  ادارہ  ا پنے افکار و نظریات  رسائل کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے لگے ۔  آج  کوئی   تنظیم  ایسی نہیں جس کا نشرو اشاعت کا شعبہ نہ ہو یا   اس  کا کوئی آرگن نہ ہو ۔ برصغیر  پاک و ہند   کی تاریخ پر رسائل کے بڑے گہرے اثرات ہیں ، انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کو فکری غذا مہیا کرنے والے  البلاغ اور الہلال جیسے رسائل  ہی تھے ۔تحریک پاکستان میں زمیندار اور نوائے وقت کے کردار سے کون واقف نہیں ؟  

صرف مثبت سوچ رکھنے والوں کی ترجمانی جرائد کے ذریعے نہیں ہورہی تھی بلکہ منفی اور سلبی   سوچ رکھنے والے افراد اور جماعتوں کی پیغام رسانی  کا ذریعہ بھی جرائد و  وسائل  ہی تھے  ۔

ہر رسالہ اپنےمالکان یا مدیران کی فکر و نظر کا ترجمان ہوتا ہے ۔ لہذا  بعض  رسائل  اخباری  طرز کے عوامی مسائل کےمتعلق مضامین شائع کرتے ہیں اور بعض خالص علمی ذوق کے حامل ہوتے ہیں ، اور یہی لوگوں  کے اصل رہنما ہیں ۔ ایسے ہی رسائل میں ایک اہم  ترین نام ’محدث‘ ہے ۔ جو ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کی گہری علمی سوچ اور بلندپایہ  فکر کا حامل  ہے ۔ محدث کا پہلا شمارہ   دسمبر 1970ء کو شائع ہوا   جو اب اپنی عمر کی نصف صدی پوری کرچکا ہے ۔اس کی پیشانی پر اس کا   مشن  ان الفاظ میں درج  ہوتا ہے :

’’ ملت اسلامیہ کا علمی اور اصلاحی مجلہ ۔‘‘

یعنی مسلمانوں میں اصولی یا فروعی مسائل کی  بنیادوں پر کھڑے ہونے والے مختلف فرقوں میں سے  کسی فرقے کی ترجمانی کرنے کی  بجائے بنیادی اور سلفی فکر کا ترجمان اور  ملت اسلامیہ کی اجتماعیات  کا آرگن ہے۔   ادارہ ’محدث‘  کی نظر میں عناد اور تعصب قوم کے لیے زہر ہلاہل کی حیثیت رکھتے ہیں ،لیکن تعصبات سے بالا تر رہ کر افہام و تفہیم امت کے لیے رحمت کا باعث ہے ،اس کا متوازن منہاج فکر ہر آخری ٹائیٹل پر طبع ہوتا ہے ۔

’محدث‘ نے نہ صرف اپنےمقاصد اور منہاج کا پورا خیال رکھا بلکہ پاکستان کی علمی فضا پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ علماء کرام محدث کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور اس میں شائع شدہ  آراء کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محدث انتظامیہ نے کبھی اپنےمقاصد سے روگردانی کی اور  نہ  ہی اپنے منہاج سے پہلو تہی اختیار کی ۔

محترم ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کی ادارہ جاتی مصروفیات ، عالمی  اسفار  اور دوسری کئی وجوہات    کےباعث  اس کی اشاعت میں کئی  نشیب و فراز آئے  ، لیکن قاری کی امید کبھی نہیں ٹوٹی ،البتہ پچھلے   دو سال سے رسالے کے ذمہ داران کی طرف سے اس کی اشاعت میں  کچھ  تعطل پیدا ہوا ۔

ادارہ محدث کے سر پرست مولانا ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی ہیں جن کی مجلسِ مشاورت ان کبار علماء پر مشتمل ہے جو عموماً وٹس ایپ گروپوں میں نہیں آتے ،     ان کےسامنے دور جدید (سیکولر معاشرہ) کے بہت  اہم  چیلنج  ہیں کہ   امت ِمسلمہ کے تمام شعبہ ہائے حیات   میں ملت اسلامیہ کی مثبت  دعوت بھی ملحوظ رہے اور قدیم و جدید فتنوں کی نشاندھی بھی ان کا امتیاز  ہے ۔ اس سلسلے میں مولانا مدنی کی مساعی دینی علمی صحافت کے علاوہ   ا متزاجی  علومِ شریعت اور عصری علوم   کی حامل ایک ’مثالی یونیورسٹی‘     کا قیام بھی ہے ، تاکہ  رجال کار بھی تیار ہوتے رہیں ، انہوں نے اس سلسلے میں نہ صرف اپنے مال و آل  کو اس مشن پر گامزن رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے ۔بلکہ دامے درمے سخنے  ہر قسم کے وسائل اسی مشن کے لیے وقف  کر رکھے  ہیں ۔ ان کے ساتھیوں کی ایک  انجمن تھی جو اللہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے گزر چکی ہے۔ ان سب کے بوجھ وہ اپنے کندھوں پر محسوس کرتے ہیں۔ یہ دنیا فانی ایک امتحان گاہ ہے ، جتنا بڑا مشن ہوگا اسی قدر سختیوں سے گزرنا پڑے گا۔ مولانا مدنی پر  بیسیوں آزمائشیں آئیں اور وہ ان سے گزر کر عزیمت  کے  حامل رہے تاہم ایک آزمائش ایسی حائل رہی  جو نشیب و فراز کے متنوع مراحل سے برسر پیکار رہی اور اس کے ساتھ اب بڑھاپا بھی شامل ہوگیا ہے۔ یہ آزمائش ان کی جسمانی صحت ہے جو جواں  جذبوں کے با وصف  مختلف عوارض کا شکار رہی ہے ،  وہ تقریبا پچاس سال  سے  متنوع اعصابی امراض کا شکار ہیں جسے  طبی اصطلاح میں ڈپریشن کہتے ہیں۔  اس کی شدید صورت Nervous Breakdown  کے دوروں کی ہوتی ہے ۔مولانا مدنی کی ساری سرگرمیوں پر یہ برابر اثر انداز ہوتی رہی لیکن نفع بخشی کا   پُر عزم  جذبہ متزلزل نہ  ہوسکا  ، جسے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل  ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ علمی دینی صحافت کو جاری و ساری رکھنے کےلیے  اب انہوں نے  محدث کے لیے ایک  نئی ٹیم تشکیل دی ہے جن میں زیادہ تر ان کے شاگردانِ رشید شامل ہیں ۔  محدث کےلیے ایک    مجلس تحریر    بنائی گئی  ہےان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :

ڈاکٹر محمد اسلم صدیق                                            ڈاکٹر کامران طاہر                      ڈاکٹر آصف جاوید                                       قاری فہد اللہ مراد                                      ڈاکٹر جواد حیدر

جبکہ   ادارتی ذمہ داریاں  ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی   کی نگرانی میں ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی  اور راقم الحروف  کے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں ۔

ہماری کوشش رہے گی کہ  اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اب محدث    پابندی سے طبع ہو کر قارئین  کی خدمت میں پہنچتا رہے، اس میں تعطل پیدا نہ ہو  ۔ علماء کرام اور قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ محدث کے پلیٹ فارم سے حقیقی اسلام کا  پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہمارے ساتھ  علمی قلمی تعاون فرمائیں ۔

والسلام

عبدالرحمن عزیز