برصغیر کے عام حنفی علما کا عقیدہ

''قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کے الفاظ نہیں!''
کلام نفسی: ماتریدیہ اور اشاعرہ کی نظر میں
گذشتہ شمارۂ 'محدث'میں 'قرآن اکیڈمی' لاہور کے محقق حافظ محمد زبیر کا وفاق المدارس العربیہ، پاکستان کے صدر مولانا سلیم اللہ خاں کی طرف سے سلفی حضرات پر تنقید کے جواب میں ایک وضاحتی مقالہ بعنوان 'کیا اَئمہ اربعہ مفوضہ تھے؟' شائع ہوا ہے جس میں ایک جگہ کتابت کی غلطی سے مولانا عبد الحی لکھنوی اور مولانا سلیم اللہ خاں کا حوالہ خلط ملط ہو گیا ہے۔ اگر یہ قارئین ص ١٤، دوسری سطر میں لفظ'مولانا' کے بعد'سلیم اللہ خاں'کے الفاظ حذف کر دیں اور ص ١٤ نویں سطر میں بعنوان راجح اور محتاط مسلک سے قبل 'مولانا سلیم اللہ کے خاں کے نزدیک'الفاظ کا اضافہ کر لیں تو عبارت درست ہو جاتی ہے۔ (محدّث)
ماہنامہ محدث کے سابقہ شمارہ میں ہمارا ایک مضمون بعنوان 'کیا صفاتِ الٰہیہ میں اَئمہ اربعہ مفوضہ ہیں؟'شائع ہوا۔ جس میں ہم نے سلفی حضرات کے بارے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مولاناسلیم اللہ خاں کی منفی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے عرض کیا تھا کہ سلفی حضرات(ابن تیمیہ وغیرہ) توحید اسماء وصفات میں جس مسلک پر ہیں وہ تمام صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین (ائمہ اربعہ) اور محققین فقہاء و اُصولیین کا موقف ہے جیسا کہ بر صغیر کے نامور حنفی عالم دین مولانا عبد الحی لکھنوی نے وضاحت کرتے ہوئے اسے 'حق' قرار دیا ہے لیکن مولانا سلیم اللہ خاں کا تجزیہ مولانا عبد الحی لکھنوی سے بالکل مختلف ہے۔ ہم نے ائمہ اربعہ بالخصوص امام ابو حنیفہ کے بارے میں ان کی اپنی تصنیفات سے ثبوت پیش کر کے مولانا عبدالحی لکھنوی کی حقیقت پسندی کا اظہار کیا تھا۔ اس مضمون کے بارے میں رابطۃ المدارس الاسلامیہ لاہور کے مرکزی دارالعلوم کے اُستاذِ محترم جناب واصل واسطی صاحب کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جو ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے:
جناب واصل واسطی صاحب کا خط
محترم جناب حافظ حسن مدنی صاحب (مدیر 'محدث'لاہور)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آداب! حافظ زبیر صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ اچھا ہے،مگر اس میں ص١٢پرایک فقرہ یوں ہے''مثلا اہل تاویل کے ہاں اللہ تعالیٰ لفظی گفتگو پر قادر نہیں ہے۔''جہاں تک ہمارا علم ہے کہ یہ ماتریدیہ و اشعریہ میں سے کسی کا عقیدہ نہیں ہے، اگرچہ وہ کلام نفسی کے قائل ہیں مگر کلام لفظی پر عدم قدرت کی بات تو مشہور کتابوں مثلا شرح مواقف، شرح مقاصد،شرح عقائد جلالیہ، شرح عقائد نسفیہ اوربیاضی وغیرہ میں نہیں ہے۔
بڑی مہربانی ہو گی اگر اس کی نشاندہی کریں۔ والسلام

واصل واسطی معلّم مرکز علوم اسلامیہ(منصورہ )،لاہور

خط کا جواب
الٰہیات کے بارے میں تعبیرات مع اصطلاحات اگرچہ متکلمین کے ہاں متفقہ نہیں ہیں تاہم ایک تعبیر کے مطابق اشاعرہ اور ماتریدیہ نے صفاتِ الہیہ کو پہلے صفاتِ عقلیہ میں اور صفاتِ خبریہ میں تقسیم کیا ہے، پھر عقلیہ کی تقسیم چار ناموں سے اس طرح کی ہے:
1. نفسیہ: اس سے مراد صفت ِوجود ہے۔
2. سلبیہ: اس سے مراد قِدم ، بقا، مخالفت حوادث ِاور قیام بالنفس کی صفات ہیں۔
3. معانی: اس سے مراد ذات سے زائد سات صفات ہیں اور وہ حیات، قدرت، ارادہ، علم، سمع ، بصر اور کلام ہیں۔
4. معنویہ: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کاحی، قادر، مرید، علیم، سمیع، بصیر اور متکلم ہونا ہے۔
اسی طرح اشاعرہ اور ماتریدیہ صفات خبریہ کی تقسیم بھی کرتے ہیں جو یوں ہے:
1. اللہ کی صفاتِ ذاتیہ مثلاًصفت ید (ہاتھ)، صفت وجہ ( چہرہ) اور صفت ِعین (آنکھ) وغیرہ کا اثبات نہیں کرتے ۔
2. اسی طرح اللہ کی صفات ِفعلیہ (لازمہ با لذات) مثلاًنزول (اترنا)، استواء (برابر ہونا) اورمجيء(آنا) وغیرہ کابھی اثبات نہیں کرتے۔البتہ صفاتِ فعلیہ متعدیہ (خلق و رزق وغیرہ) کے قائل ہیں۔
3. علاوہ ازیں ان حضرات نے صفات ِمعانی کو لفظاً تسلیم کرنے کے باوجود ان کی تشریح وتوضیح میں تاویلات کا لمبا چوڑا باب کھولا ہوا ہے۔
ان تاویلات کا پس منظر یہ ہے کہ بنو عباس کے دور میں جب یونانی فلسفہ کی کتب کے عربی تراجم ہوئے تو بہت سے کمزور ایمان اہل علم نے یونانی فلسفہ کے منطقی اعتراضات کا گہرا اثر لیا اور وحی الٰہی سے جواب دینے کے بجائے یونانی فلسفہ جس کے بانی مر کھپ چکے تھے، کو زندۂ جاوید فلسفہ قرار دیتے ہوئے اس کے منطقی اُصولوں کو بے چوں وچراں تسلیم کر لیا اور اس طرح ایک مستقل علم 'علم الکلام' کی بنیاد رکھی گئی۔ یونانی منطق کے علم کلام کی بنیاد پر قائم ہونے والے کلامی فرقوں میں جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ نمایاں ہیں۔
ہم اپنے سابقہ مضمون میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ ائمہ فقہا ےاربعہ عقیدہ میں علم کلام سے متنفر ہونے کی وجہ سے سلفی تھے جبکہ برصغیر پاک وہند میں امام ابو حنیفہؒ کے اکثرمقلدین عقیدہ میں ائمہ اربعہ کی اتباع کی بجائے ابو منصور ماتریدی کے پیرو کار ہیں اور اسی نسبت سے 'ماتریدیہ' کہلاتے ہیں۔ چنانچہ اشاعرہ اور ماتریدیہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِکلام کا لفظاً اقرار کرنے کے باوجود اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اللہ کا کلام لفظی نہیں ہو سکتا بلکہ نفسی ہوتا ہے کیونکہ الفاظ و حروف حادث ہیں اور اگر اللہ کے کلام کو لفظی کلام مان لیا جائے تو اللہ کی ذات محلِّ حادث ٹھہرے گی جو ممتنع ہے۔ پس اللہ کا کلام صرف نفسی ہے یعنی اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ اس کو وہ یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کلام کرنے سے پہلے اپنے ذہن میں ان معانی کو لاتا ہے جن کو وہ الفاظ کی صورت دینا چاہ رہا ہوتا ہے۔ پس ذہن میں موجود جن معانی کو انسان الفاظ کی صورت دے کر مخاطب تک پہنچانا چاہ رہا ہوتا ہے، وہ معانی کلام نفسی کہلاتے ہیں۔ اور وہ انسان کی ذات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں جبکہ الفاظ ان معانی کو ادا کرنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہوتے ہیں، جو زبان سے نکل کر انسان سے جدا ہو جاتے ہیں۔ پس کلام نفسی وہ معانی ہیں جو متکلم کی ذات کے ساتھ قائم ہوں۔ اللہ کے یہ معانی ازلی ہیں یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا کل کلام ، کلامِ نفسی ہے اور یہ ازلی ہے ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کلام الٰہی ایک معنوی وحدت ہے جس کے اجزا نہیں کئے جا سکتے ہیں۔علامہ سعد الدین تفتازانی (متوفی ٧٩٣ھ ) لکھتے ہیں:
«فعند أهل الحق کلامه لیس من جنس الأصوات والحروف، بل صفة أزلیة قائمة بذات اﷲ تعالىٰ منافیة للسکوت، والآفة کما في الخرس والطفولة هو بها آمر ناه مخبر وغیر ذلك، یدل علیها بالعبارة أو الکتابة أو الإشارة، فإذا عبر عنها بالعربیة فقرآن، وبالسریانیة فإنجیل، بالعبرانیة فتوراة.والاختلاف علىٰ العبارات دون المسمّٰی کما إذا ذکر اﷲ تعالىٰ بألسنة متعددة ولغات مختلفة»1
'' اہل حق کے نزدیک اللہ کا کلام اصوات اور حرو ف کی جنس میں سے نہیں ہے بلکہ کلام الٰہی سے مراد وہ ازلی صفت ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔اور یہ کلام نفسی سکوت اور عیب کے منافی ہے جیسا کہ گونگے اور بچے میں یہ عیب ہوتا ہے ( کہ وہ لفظی گفتگو نہیں کر سکتا)۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس ازلی کلام نفسی کے ذریعے حکم بھی دیتے ہیں اور منع بھی کرتے ہیں اور خبر وغیرہ بھی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اس کلام نفسی پر عبارت، کتابت یا اشارہ کے ذریعہ رہنمائی فرماتے ہیں۔پس جب اس ازلی کلام نفسی کو عربی زبان میں بیان کیا جائے تو وہ قرآن بن جاتا ہے اور اگرسریانی میں بیان کیا جائے تو انجیل بن جاتی ہے اور اگر عبرانی میں بیان ہو تو تورات بن جاتی ہے۔ پس (ان کتابوں میں) اختلاف عبارات کا ہے جبکہ مسمّٰی (مفہوم) ایک ہے۔''
ان اہل تاویل کا کہنا یہ بھی ہے کہ اللہ کا کل کلام ازلی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے سب کلام ازل ہی میں فرما لیا تھا اور یہ ازل سے اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو مکالمہ قرآن میں نقل ہوا ہے وہ کسی خاص یا متعین وقت میں نہیں ہوا بلکہ وہ ازل سے ہے ۔ علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں:
«أما الکلام القدیم الذي هو صفة اﷲ تعالىٰ، فذهب الأشعري إلى أنه یجوز أن یسمع. ومنعه الأستاذ أبو إسحق الإسفرائیني وهو اختیار الشیخ أبي منصور رحمه اﷲ فمعنٰی قوله تعالىٰ ﴿حَتّىٰ يَسمَعَ كَلـٰمَ اللَّهِ﴾ یسمع یدل علیه، کما یقال:سمعت علم فلان. فموسٰی سمع صوتا دالا علىٰ کلام اﷲ تعالىٰ، لکن لما کان بلاواسطة الکتاب والملك، خص باسم الکلیم»2
'' جہاں تک قدیم کلام کا معاملہ ہے جو اللہ کی صفت ہے، تو ابو الحسن اشعری کا کہنا ہے کہ اسے (یعنی کلام الٰہی کو) سنا جا سکتا ہے جبکہ ابو اسحٰق اسفرائینی اور ابومنصور ماتریدی کا کہنا یہ ہے کہ کلام الٰہی کو سننا ممکن نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول ''یہاں تک کہ وہ کلام اللہ کو سن لے'' کا معنیٰ ان کے نزدیک یہ ہے کہ وہ اس عبارت کو سن لے جو اللہ کے کلام پر دلالت کر رہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے فلا ں کا علم سنا ہے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی(کوہِ طور پرکلام الٰہی کونہیں سنا تھابلکہ) وہ آواز سنی جو کلامِ الٰہی پر دلالت کر رہی تھی لیکن چونکہ یہ آواز کسی کتاب یا فرشتہ کے واسطہ کے بغیر تھی لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ کا خطاب دیا گیا۔''
اس موقف کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس موجود مصاحفِ قرآنیہ میں اللہ کا کلام موجود نہیں ہے بلکہ جو شخص مصحف ِقرآنی میں موجود اللہ کے کلام کی تلاوت یا کتابت کرتا ہے تو وہ اللہ کے حقیقی کلام کی تلاوت یا کتابت نہیں کرتا۔ اسی طرح جو شخص قرآن کی تلاوت سنتا ہے وہ بھی اللہ کا کلام نہیں سن رہا بلکہ ایک ایسی عربی عبارت سن رہا ہے جو اللہ کے کلام پر دلالت کر رہی ہے۔ یعنی مصاحف میں موجود الفاظ اللہ کے نہیں ہیں بلکہ ان الفاظ کا جو معنیٰ ہے وہ اللہ کا کلام ہے اور وہ معنیٰ اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔
اب اس پر سوال یہ پیدا ہوا کہ قرآن کے الفاظ اگر اللہ کے نہیں ہیں تو پھر کس کے ہیں؟ اس کا جواب بعض اہل تاویل نے یہ دیا کہ یہ الفاظ حضرت جبرئیل کے ہیں یعنی حضرت جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے کلامِ نفسی کا ادراک لیا اور اپنے الفاظ کی صورت میں ادا کر دیا۔ جبکہ بعض اہل تاویل کا کہنا یہ ہے کہ یہ الفاظ اللہ کے رسولﷺ کے ہیں یعنی حضرت جبرئیل نے کلام نفسی کا ادراک اللہ کی ذات سے حاصل کیا اور اللہ کے رسول ﷺ میں اس کو پیدا کر دیا اور اللہ کے رسول ﷺ نے اس ادراک کو اپنے الفاظ میں کلام لفظی کی صورت دے دی۔ پس قرآن کے الفاظ تو حضرت جبرئیل یا اللہ کے رسول ﷺ کے ہیں جبکہ اس کا معنیٰ اللہ کی طرف سے ہے۔
اس نکتہ نظر پر ایک اعتراض یہ پیدا ہوا کہ پھر مصاحف میں موجود قرآن یا کلام کو کلامِ الٰہی کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب اہل تاویل یہ دیتے ہیں کہ ہم تو اسے مجازاً کلام الٰہی کہتے ہیں، ورنہ یہ حقیقت کے اعتبار سے کلام الٰہی نہیں ہے بلکہ مخلوق عبارتیں ہیں۔علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں:
«فإن قیل لو کان کلام اﷲ تعالىٰ حقیقة في المعنی القدیم مجازًا في النظم المؤلف، لصح نفیه عنه بأن یقال لیس النظم المنزل المعجز المفصل إلي السور والآیات کلام اﷲ تعالىٰ، والاجماع على خلافه ... قلنا: التحقیق أن کلام اﷲ تعالىٰ اسم مشترك بین الکلام النفسي القدیم، ومعنی الإضافة کونه صفة اﷲ تعالىٰ، وبین اللفظی الحادث المؤلف من السور والآیات، ومعنى الإضافة أنه مخلوق ﷲ تعالىٰ، لیس من تألیفات المخلوقین»3
'' اگر یہ کہا جائے کہ کلام اللہ سے مراد یہ ہے کہ وہ معنیٰ قدیم کے اعتبار سے تو حقیقی کلام ہے جبکہ تالیف کیے گئے نظم کے اعتبار سے(یعنی الفاظ کے پہلو سے) مجازی کلام ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم یہ بھی مانیں کہ(قرآن کا) جو نظم (یعنی الفاظ کی ترکیب وترتیب) نازل کیا گیا ہے اور وہ معجزہ ہے اور آیات وسور میں تقسیم ہے تو یہ کلام اللہ نہیں کہلائے گا جبکہ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ نظم ،اللہ کا کلا م ہے... ہم اس اعتراض کا جواب یوں دیں گے کہ تحقیق کے مطابق کلام اللہ'اسم مشترک4 'ہے اور یہ اشتراک قدیم کلام نفسی ، اور اس کلام سے مراد حقیقی کلام ہے، اور آیات و سور سے تالیف شدہ حادث کلامِ لفظی میں ہے جبکہ یہاں کلام لفظی کو کلام الٰہی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق ہے نہ کہ مخلوقات کی تالیفات میں سے ہے(یعنی مصاحف میں موجود کلام کو کلام اللہ اس لیے کہاہے کہ یہ اللہ کی تالیفات اور مخلوق میں سے ہے نہ کہ مخلوق کی تالیفات یا تخلیق میں سے)۔
اس پر یہ اعتراض پیدا ہوا کہ آپ نے توکلام الٰہی کو مخلوق بنا دیا ۔ اب آپ میں اور معتزلہ میں فرق کیا رہا؟تو اس کا اہل تاویل نے یہ جواب دیا ہے کہ ہم کلام الٰہی کو مخلوق نہیں مانتے اور جس کلام الٰہی کو ہم مخلوق نہیں مانتے، وہ کلام نفسی ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور ازلی ہے اور جہاں تک معاملہ ہمارے پاس موجود مصاحف میں لکھے ہوئے قرآن کا ہے، تو یہ اہل تاویل کے ہاں مخلوق ہے۔ پس اہل تاویل کے نزدیک قرآن کا معنی تو کلام الٰہی ہے اور غیر مخلوق ہے جبکہ اس کے الفاظ کلام الٰہی نہیں اور مخلوق ہیں ۔ اس کے برعکس معتزلہ کے نزدیک قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں مخلوق ہیں۔علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں:
«ولما صرح بأزلیة الکلام، حاول التنبیه على أن القرآن أیضا قد یطلق على هذا الکلام النفسي القدیم، کما یطلق على النظم المتلو الحادث فقال:"والقرآن کلام اﷲ تعالىٰ غیر مخلوق" وعقب القرآن بکلام الله، لما ذکره المشایخ من أنه یقال: القرآن کلام اﷲ تعالىٰ غیر مخلوق، ولا یقال: القرآن غیر مخلوق، لئلا یسبق لي الفهم أن المؤلف من الأصوات والحروف قدیم،کما ذهب إلیه الحنابلة جهلا وعنادا»5
'' اور جب کلام الٰہی کے ازلی ہونے کی صراحت ہو چکی تو مصنف نے اس طرف متوجہ کیا ہے کہ لفظ 'قرآن' کا اطلاق بعض اوقات اس قدیم کلامِ نفسی پر بھی ہو جاتا ہے جیسا کہ اس(یعنی قرآن) کا اطلاق حادث ، تلاوت کیے جانے والے نظم پر ہوتا ہے۔پس مصنف نے کہا: قرآن ، اللہ کا کلام غیرمخلوق ہے۔ مصنف نے قرآن کے فورا بعد کلام اللہ کے الفاظ نقل کیے ہیں کیونکہ ہمارے مشائخ کا کہنا یہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے، یہ جملہ کہنا چاہیے اور یہ نہیں کہنا چاہیے کہ 'قرآن غیر مخلوق' ہے تاکہ ذہن میں یہ بات نہ آ جائے کہ اصوات و حروف سے تالیف شدہ نظم بھی قدیم ہے جیسا کہ حنابلہ نے جہالت اور عناد کی وجہ سے یہ موقف اختیار کیا ہے۔''
جب اہل تاویل پر یہ اعتراض ہوا کہ آپ اللہ کے لیے کلام نفسی ثابت کرتے ہیں اور کلامِ لفظی کا انکار کرتے ہیں تو اس سے اللہ کا ساکت یا گونگا ہونا لازم آتا ہے ۔ لفظی کلام دو قسم کے اشخاص نہیں کرتے ہیں: ایک وہ جو لفظی کلام پر قدرت تو رکھتا ہو لیکن کلام نہ کرے جیسا کہ 'ساکت' یا خاموش آدمی کی مثال ہے۔ دوسرا وہ جو لفظی کلام پر قدرت ہی نہ رکھتا ہو جیسا کہ گونگے کی مثال ہے۔ اور یہ دونوں عیب شمار ہوتے ہیں کیونکہ کلام کی قدرت کے باوجود کبھی بھی کلام نہ کرنا عیب ہے اور کلام کی قدرت ہی نہ رکھنا بھی نقص ہے۔
اس کا جواب اہل تاویل یہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ کی ذات سے سکوت اور گونگے پن کی نفی کرتے ہیں۔ اب اس پر اعتراض یہ پیدا ہوا کہ صرف کلام نفسی کے متکلم سے سکوت اور گونگے پن کی نفی کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ کلامِ نفسی کا متکلم تو لفظی کلام کرتا ہی نہیں ہے ۔ اس کی تاویل ، اہل تاویل نے یوں کی کہ سکوت اور گونگے پن سے ہماری مراد باطنی سکوت اور گونگا پن ہے۔ علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں:
«(وهو) أي الکلام (صفة) أي معنى قائم بالذات (منافیة للسکوت) الذي هو ترك التکلم مع القدرة علیه (والآفة) التي هي عدم مطاوعة الآلات ما بحسب الفطرة کما في الخرس، أو بحسب ضعفها وعدم بلوغه حد القوة، کما في الطفولیة. فإن قیل هذا الکلام إنما یصدق على الکلام اللفظي دون الکلام النفسي، إذ السکوت والخرس إنما ینافي التلفظ. قلنا: المراد السکوت والآفة الباطنیان، بأن لا یرید في نفسه التکلم، أو لا یقدر على ذٰلك، فکما أن الکلام لفظي ونفسي، فکذا ضده، أعني السکوت والخرس»6
'' کلام الٰہی اللہ کی ایسی صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور یہ (یعنی کلام نفسی) اس سکوت کے منافی ہے کہ جس سے مراد قدرت کے باوجود کلام کو ترک کر دینا ہے اور یہ(یعنی کلامِ نفسی) آفت کے بھی منافی ہے کہ جس سے مراد پیدائشی طور پر آلاتِ کلام(مثلاً زبان وغیرہ) کا اثر کو قبول نہ کرنا ہے جیسا کہ گونگے کی مثال ہے یاعہدِطفولیت میں ان آلاتِ کلام کا کمزور ہونا یاان آلات کے قوت پکڑنے سے پہلے کازمانہ مراد ہے۔ پس اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ کی یہ گفتگو تو کلامِ لفظی سے متعلق ہے نہ کہ کلام نفسی کے بارے میں کیونکہ سکوت اور گونگا پن تو کلامِ لفظی کے منافی ہیں۔ اس کا جواب ہم یہ دیں گے کہ ہماری سکوت اور گونگے پن کی آفات سے مراد باطنی سکوت اور گونگا پن ہے، یعنی اس طرح کہ وہ اپنے نفس میں کلام کا ارادہ ہی نہ کرے یا اپنے نفس میں کلام پر قدرت ہی نہ رکھتا ہو۔ پس جس طرح کلام کی دو قسمیں کلامِ لفظی اور کلامِ نفسی ہیں تو اس طرح ان دونوں کی ضد یعنی سکوت اور گونگا پن بھی ہیں۔''
اس پر ایک اعتراض یہ لازم آتا ہے کہ جب اللہ کا کلام، کلام نفسی ہے تو صفت ِکلام اور صفت ِعلم میں کیا فرق باقی رہا ؟تو اس کا جواب اہل تاویل یوں دیتے نظر آتے ہیں:
«(والکلام) هو صفة أزلیة عبر عنها بالنظم المسمى بالقرآن المرکب من الحروف.وذٰلك لأن کل من يأمر وینهی ویخبر یجد في نفسه معنى، ثم یدل علیه بالعبارة أو الکتابة أو الإشارة، وهو غیر العلم، إذ قد یخبر الإنسان عما لا یعلمه، بل یعلم خلافه، وغیر الإرادة، لأنه قد يأمر بما لا یریده، کمن أمر عبده قصدا لإظهار عصیانه،وعدم امتثاله لأوامره، ویسمى هٰذا کلاما نفسیًا»7
''اور کلام الٰہی سے مراد اَزلی صفت ہے جسے ایک نظم کے ذریعے بیان کیا گیا ہے جس نظم کا نام قرآن ہے اور یہ حروف سے مرکب ہے،کیونکہ جو شخص بھی کسی کام کا حکم دیتا ہے یا اس سے منع کرتا ہے یا اس کی خبر دیتا ہے تو پہلے اپنے جی میں اس کے بارے ایک معنیٰ پاتا ہے اور پھر اس معنی پر عبارت، کتابت یا اشارے کے ذریعے رہنمائی کرتا ہے اور یہ معنی(جو کوئی شخص اپنے جی میں پاتاہے) علم نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات انسان اس کی بھی خبر دیتا ہے جو اس کے علم میں نہ ہو بلکہ وہ اس کی بھی خبردیتا ہے جو اس کے علم کے خلاف ہوتی ہے۔اور یہ کلام نفسی ارادہ بھی نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات انسان ایک ایسے کام کا حکم جاری کرتا ہے جس کو وہ چاہتا نہیں ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے غلام کو قصداً یہ حکم جاری کرے کہ وہ اس کی نافرمانی کرے اور اس کے احکامات پر عمل نہ کرے۔اس کلام کو کلامِ نفسی کہتے ہیں۔''
ماتریدیہ اور اشاعرہ کے کلامِ نفسی کے موقف کی اس تفصیلی وضاحت کے بعد اب ہم جناب واصل واسطی صاحب کے سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں۔ ماتریدیہ اور اشاعرہ نے اللہ تعالیٰ کی ذات سے کلامِ لفظی کا انکار اس لیے کیا ہے کہ ان کے نزدیک کلامِ لفظی میں حدوث ہے اور اللہ کی ذات سے اس کا صدور ماننے کا مطلب اللہ کی ذات کو محلِّ حوادث ماننا ہے جو ممتنع ہے۔ علامہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں:
«إن معنى المتکلم من قام به الکلام، والمنتظم من الحروف حادث یمتنع قیامه بذات اﷲ تعالىٰ»8
'' متکلم کا معنی ہے جس کے ساتھ کلام قائم ہو اور جو کلام حروف سے پرو دیا گیا ہو تو وه حادث ہوتا ہے اور حادث کا اللہ کی ذات کے ساتھ قیام ممتنع ہے۔ ''
شرح عقائد ِنسفیہ میں ہے:
«(أزلیة) ضرورة امتناع قیام الحوادث بذاته»9
''(صفت ِکلام)اَزلی ہے اور اس کو ازلی اس ضرورت کے تحت کہا گیاہے کہ اللہ کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام ممتنع ہے۔''
پس کلامِ لفظی کا اللہ کی ذات کے ساتھ قیام ممتنع ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ممتنع پر قادر نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر قادر ہو تو یہ ممتنع نہ رہا۔ گویا اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کلام لفظی کے قیام کو ممتنع قرار دینا اور'اللہ کا کلامِ لفظی پرقادر نہ ہونا 'ایک ہی مفہوم رکھتا ہے۔
اس کواس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ماتریدیہ و اشاعرہ کے نزدیک اللہ کا لفظی کلام پر قادر ہونا اس کا محل حادث بننے کی قدرت رکھنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ محل حادث بننے کی قدرت (بالقوة رکھے یا بالفعل دونوں صورتوں میں) اہل تاویل کے ہاں نقص اور عیب شمار ہو گا کہ جس نقص اور عیب سے بچنے کے لیے ہی اُنہوں نے کلام نفسی کا فلسفہ تخلیق کیا ہے۔
جہاں تک سلف صالحین اور اہل سنت والجماعت کا تعلق ہے تو وہ یونانی فلسفہ کے انسانی اُصولوں سے اللہ تعالی کو بلند وبالا سمجھتے ہیں کہ انسان اللہ جل شانہٗ کی ذات و صفات کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کی کنہ کے اِدراک سے انسانی عقل کوتاہ ہے، اسی طرح ان صفات کی کیفیات سے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ سلف کا صفاتِ الٰہی کے بارے میں عرفی معنیٰ پیش کر کے اس کی کیفیت مجہول قرار دینے کا طریقۂ کار سلامتی کی راہ ہے۔ گویا اہل تاویل کی بنیادی غلطی اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کو اپنی عقل کا پابند بنانا ہے۔ اس کے بالمقابل ائمہ سلف 'الٰہیات' کی تعبیر میں نہ صرف فلسفہ کی عاجزی کا موقف رکھتے ہیں بلکہ فلسفہ سے مستعار اصطلاحات مثلاً قدیم، حادث اورممتنع وغیرہ کے استعمال سے الٰہیات کی تعبیر کرنے سے بھی اجتناب برتتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک سلامتی کا ضابطہ یہی ہے کہ اللہ کے لیے صرف اسی لفظ ومعنیٰ کا اثبات کرو جو کتاب وسنت سے ثابت ہو اور اس کی ذات سے صرف اسی اسم و وصف کی نفی کرو جس کی نفی کتاب وسنت میں موجود ہو۔ اس کے علاوہ کے بارے میں ﴿وَلِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى﴾ (النحل:60) اور ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ﴾ (الشوریٰ:11) کا اعلان کرتے ہوئے قیل وقال سے سکوت اختیار کرو۔


حوالہ جات

1شرح المقاصد:١٤٤٤، عالم الکتب، بیروت، طبع دوم،١٩٩٨ء

2شرح عقائد نسفیہ:ص ٤٥، مکتبۃ الکلیات الازہریہ، القاہرة، ١٩٨٨ء

3شرح عقائد نسفیہ: ص45،46

4اسم مشترک سے مراد وہ اسم ہے جو ایک سے زائد معانی پر دلالت کے لیے وضع کیا گیا ہو جیسا کہ لفظ 'عین' ہے جو آنکھ یاچشمہ پر دلالت کے لیے وضع کیا گیا ہے۔

5شرح عقائد نسفیہ: ص ٤٣

6شرح عقائد نسفیہ : ص٤٢

7شرح عقائد نسفیہ : ص٤١

8شرح المقاصد : ٤/147

9شرح عقائد نسفیہ: ص٤٢