مولانا عبد القادر ندوی اور مولانا محمد اعظم کا اِنتقالِ پرملال
ماہ ِمارچ پہلے ہی بڑی تلخ یادیں لے کر آتا ہے،لیکن اس بار مزید اِضافے کے ساتھ شهر الحزنبن کر بھی آیا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہےکہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ عربی کے کسی شاعر نے سچ ہی کہا ہے ؏
لوکان في الدنیا بقاء لِساکن لکان رسول الله ﷺ فیها مخلدًا
''یعنی اگر دنیا میں کسی کو ہمیشہ رہنا ہوتا تو رسول اللہﷺ ہمیشہ رہتے۔ ''
لیکن آپؐ بھی 63 سالہ زندگی گزارکر راہئ ملك ِبقا ہوئے.... رہے نام اللہ کا!
بعض اَموات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی یادیں مدتوں باقی رہتی اور بھلانے سےبھی بھلائی نہیں جاسکتیں؛ مولانا عبد القادر ندوی اور مولانا محمد اعظم بھی انہی پاکباز شخصیتوں میں سے تھے جن کا یکے بعد دیگرے انتقال پوری جماعت کو غم ناک کرگیا !!
اوّل الذکر ہمارے بزرگ دوست مولانا عبدالقادر ندوی اگرچہ 90 کے پیٹے میں تھے مگر جسمانی لحاظ سے کمزور اور روحانی لحاظ سے جواں سال لگتے تھے۔ مردِ باصفا اور ولی اللہ ہستی حضرت صوفی محمد عبداللہ کے دستِ راست اور اُن کی وفات کے بعد حقیقی جانشینی کا حق اُنہوں نے تاحین حیات اَدا کیا۔ حضرت صوفی صاحب کی ہمراہی میں اوڈانوالہ او رپھر ماموں کانجن میں دارالعلوم کی عمارات و تعلیمات اور تمام شعبوں کی ترقیات کےلیے اُنہوں نےشب و روز ایک کیے رکھا۔ برسوں کی بات ہے،حضرت صوفی صاحب کی معیت میں وہ ماہ رمضان المبارک میں مسجد رحمانیہ، مندرگلی میں ڈیرے ڈال دیتے۔ نہ کسی دکان پر جانے کی ضرورت اور نہ ہی کسی سے چندہ مانگنے کی حاجت، بس شہر اور مضافات سے لوگ کھنچے چلے آتے، صوفی صاحب کی جھولیاں نوٹوں سے بھری دیکھی جاتیں اورمولانا عبدالقادر ندوی رسیدات لکھتے لکھتے تھک جاتے۔ تین چار روز قیام رہتا، راتوں کا قیام مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف کے پاس یا حاجی غلام محمد کے مکان پر ہوتا۔ گاہے بگاہے یہ سعادت ہمارے غریب خانہ کے حصے میں بھی آجاتی۔ والد علیہ الرحمہ ان کی دل و جان سے خدمت کرتے اور دعائیں لیتے۔
صوفی صاحب کی پارسائی، زہد و تقویٰ اور ذکر و اذکار کی محفلیں جن لوگوں نے دیکھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ مستجاب الدعوات ہونے کا شرف بھی اُنہیں حاصل تھا۔ مولانا ندوی بھی اپنے آپ کو صوفی صاحب کی دعاؤں کا ثمرقرار دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں دینی و دنیوی روایتوں سے مالا مال کیا ہوا تھا۔مرکزی جمعیت اہل حدیث کے نظام سے وہ شروع روز سے وابستہ رہے اوراس کی تنظیمی وسعت کا بڑا درد رکھتے۔
مولانا عبدالقادر ندوی کی زبان میں مٹھاس و ملائمت کے ساتھ مزاج اور خوش طبعی بھی تھی۔ بےحد سادہ مناسب لباس اور تکلّف و تصنع سے کوسوں دُور تھے، علم و فضل کے بلند مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود وہ ایک کارکن او رمحنت و محبت سے بھرے صاف ستھرے انسان تھے۔ موّرخ جماعت مولانا محمد اسحٰق بھٹی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں نے پہلے پہل جب مولانا محمد حنیف ندوی سے ان کا تعارف کرایا او رکہا کہ ''یہ ہیں مولانا عبدالقادر ندوی آف ماموں کانجن'' تو مولانا محمد حنیف فرمانےلگے ''یہ ندوی کم لگتے ہیں او رعبدالقادر زیادہ''
واقعی ندویوں کا بانکپن، ان کی تہذیب و تمدن ،چہرہ مہرہ او رلباس و اَطوار کے کوئی آثار مولانا عبدالقادر میں نہ تھے۔البتہ دارالعلوم ماموں کانجن کا یہ مقام کہ مدارسِ دینیہ میں ایک امتیاز اور علمی اعتبار اُن کی بہت بڑی دینی و ملی خدمت ہے۔
چند ماہ قبل دارالعلوم کے صدر ہمارے دوست مولانا حافظ مقصود احمد مقرر کردیئے گئے ہیں۔ انجمن کے اراکین کا یہ انتخاب بلاشبہ حسنِ انتخاب ہے۔ حضرت صوفی صاحب کی دعائیں اور مولاناندوی کی شفقتیں اُنہیں کندن بناگئی ہیں۔ دارالعلوم سے اُنہیں جو والہانہ عقیدت اور مخلصانہ جذبۂ خدمت ہے، یقیناً ان کا وہ بہتر سےبہتر استعمال عمل میں لائیں گے۔ مولانا عبدالرشید حجازی او رمولاناریاض قدیر جیسےنوجوانوں کی رفاقت سے وہ جامعہ کی علمی حیثیت کودن بہ دن نکھارتے چلے جائیں گے۔ اِن شاء اللہ!
مولانا عبدالقادر ندوی چند ہفتوں سے فیصل آباد میں اپنے صالح فرزندوں اور بھتیجوں کے پاس زیادہ علالت کی وجہ سے صاحبِ فراش تھے، علاج معالجہ جاری تھا مگر اب معلوم ہوگیا تھا کہ دوراہے پہ ہے کارواں زندگی کا !!
بالآخر وقتِ معیّن پر اپنے ربّ کے حضور جا پہنچے: اللهم اغفر له وارحمه
........٭ ........٭ ........
ثانی الذکر ہمارے دیرینہ دوست مولانا محمد اعظم کی رحلت کی اچانک خبر ہم پربجلی بن کر گری۔ 15؍مارچ 2011ءکی شام لاہور میں متحدہ علما بورڈ ،پنجاب کے اجلاس کے موقع پر پروفیسرعبدالرحمٰن صاحب لدھیانوی نے بتایاکہ آج بعد نمازِ ظہر گوجرانوالہ میں مولانا محمد اعظم وفات پاگئے ہیں۔ إنا لله وإنا إليه راجعـون!
اُنھوں نے معمول کے مطابق اَسباق پڑھائے ،جن کی چند ساعتوں کے بعد دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور وہ مرکز سے لے کر گوجرانوالہ تک کو رنج و ملال میں مبتلا کرگئے۔ مولانا مرحوم لڑکپن کے زمانہ میں ہماری طرح گوجرانوالہ میں اہل حدیث نوجوانوں کی تنظیم شبان اہل حدیث کے سیکرٹری جنرل اور شیخ محمد یوسف وان سوتڑی والے صدر ہوا کرتے تھے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کی سالانہ کانفرنسوں کے موقعوں پر انتظام و انصرام کے بہت سے اُمور شبان نوجوان انجام دیتے تھے۔ مرکزی جمعیت کی سرپرستی میں اگرچہ اس تنظیم کادائرہ کار ملک بھر میں تھا، لیکن لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد کی تنظیمیں نسبتاً زیادہ فعال اور سرگرم تھیں جس کی ایک وجہ ان اَضلاع میں جماعتی افراد کی کثرت اور مالی وسائل کی فراوانی تھی۔
مولانا محمداعظم میں اپنے بلند مرتبت اَساتذہ حضرت حافظ محمد گوندلوی، حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی اور حضرت مولانا محمد عبداللہ سے شرف ِتلمّذ اور فیوض کی بیشتر علامتیں پائی جاتی تھیں۔حضرت حافظ صاحب گوندلوی کی طرح تدریسی مہارت،وسیع مطالعہ اور حضرت مولانا محمد اسماعیل کی طرح خطابت وتقریر کی جولانیاں اور بصیرت وسیاست، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ کی طرح قیادت و سیادت کی جولانیاں اپنے میں وہ لئے ہوئے تھے۔ جامعہ اِسلامیہ آبادی حاکم رائے کی مسندِ تدریس میں ان کی سج دھج اور جماعتی و مسلکی اسٹیج پر ان کی جلوہ افروزی رونقوں کو دوبالا کرتی۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث کے عاملہ وشوریٰ اور کابینہ کے اجلاسوں کے مولانا محمد اعظم روح رواں ہوتے، ان کی تجاویز و آراء اور مدلّل بحث و گفتگو کو بڑی وقعت حاصل ہوتی۔ پروفیسرساجد میرصاحب کے وہ قریبی اورمخلص رفقا میں سے تھے۔کہتے ہیں کہ؏
یادیں کبھی محو نہیں ہوتیں، بس اوجھل ہوجاتی ہیں!!
گوجرانوالہ میں سرکاری اور غیر سرکاری نیز تمام مکاتب ِفکر کے اہم مشترکہ پروگراموں میں ان کانمایاں کردار ہوتا اور اس سلسلہ میں ان میں کوئی مداہنت یا مصلحت آڑے نہ آتی۔ مسلک کی بھرپور او رکھلم کھلا نمائندگی کا کمال حق ادا کرنا ان کا فرضِ اوّلین ہوتا۔ فیصل آباد میں منٹگمری بازار کی سالانہ عظیم الشان خلافتِ راشدہ کانفرنس اور جامع اہل حدیث امین پورہ کی سالانہ سیرت کانفرنس میں کئی مرتبہ ان کی شعلہ نوا تقریروں سے سامعین محظوظ ہوئے۔ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں بحیثیت ِمرکزی ناظم تعلیمات جب بھی وہ تشریف لاتے،طلبہ کو تربیتی انداز میں خطاب فرماتے اور جماعت کے مرحوم اکابرین کے تذکرہ سے طلبہ میں ایک ولولہ پیدا کردیتے۔
مولانا محمد اعظم بلاشبہ ہمہ صفات شخصیت تھے جن کی تدریسی و تبلیغی اور مرکزی سطح کی خدماتِ جلیلہ کی تفصیلات کے لیے ایک مستقل کتاب چاہیے۔خطابت وتعلیمات کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ جماعتی رسائل میں ان کے معلوماتی مضامین اکثر شائع ہوتے رہتے جنہیں وہ افادۂ عام کے لیے پمفلٹ کی شکل دے دیتے۔ اہم اوروقت کے ضروری اَحوال و مسائل پر ان کے تحقیقی مقالے اگر یکجا کردیئے جائیں تو وہ نوجوان علما کے لیے انتہائی راہنما اور سبق آموز ثابت ہوسکتے ہیں۔ہمیں توقع ہے کہ ان کے لائق بیٹے اور شاگردوں کاوسیع حلقہ اس پہلو پر ضرور توجہ دے گا۔ تحریک ِختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیٰ ﷺ میں ان کا مقامی طور پر امتیازی رول ایک علیحدہ باب ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے مولانا محمداعظم علیہ الرحمہ فالج کے حملہ کے بعد وہ پہلی سی قوت وتوانائی تو نہ رکھتے تھےتاہم دین حق کی تبلیغ و دعوت کی والہانہ تڑپ اور اس سلسلہ کے مقامی وبیرونی پروگراموں میں شرکت کے لیے ہمہ وقت وہ تیار رہتے۔مرکزی جمعیت کے اجلاسوں میں شمولیت لازمی سمجھتے اور ان کی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیتے۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ تمام تر علمی و عملی صفاتِ حمیدہ اور مرنجان مرنج طبیعت واَخلاق و اقدار کے اعمالِ صالح کو قبول و منظور فرماکر ان کی مغفرت فرمائے اور احباب وپس ماندگان کو صبر و حوصلہ کی توفیق بخشے۔ آمین!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ! مرکزی جمعیۃ اہلحدیث کے ناظم تعلیمات مولانا محمد اعظم کی اچانک وفات پر بےحد صدمہ ہوا۔ 'انا للہ وانا إلیہ راجعون' وہ ہمارے شہر کے بزرگ علماء کرام میں سے تھے اور دینی تحریکات میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔معتدل اور متوازن مزاج کے بزرگ تھے اور اُنہیں شہر کے تمام مکاتبِ فکر میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ میرا اُن سے کم و بیش ربع صدی تک دینی تحریکات کے حوالہ سے تعلق رہا، جب بھی اُنہیں کسی اجتماعی مسئلہ کی طرف توجہ کی دعوت دی گئی ،اُنہوں نے بھرپور توجہ سے نوازا، حوصلہ افزائی کی اور تعاون فرمایا۔ وہ بھی ہر اہم موقع پر یاد کرتے تھے او رہماری حاضری اور شرکت پر خوش ہوتے تھے۔ ضلعی امن کمیٹی میں ان کے ساتھ رفاقت رہی۔ حق کے اظہار کے ساتھ ساتھ متنازعہ معاملات کو خوش اُسلوبی کے ساتھ سلجھانے کاذوق رکھتے تھے اور اس سلسلہ میں مکمل تعاون کرتے تھے۔
بیسیوں پبلک اجتماعات میں ان کے ہمراہ شرکت کا موقع ملا۔ شعلہ نوا خطیب تھے اور ان کی گفتگو جوش و جذبہ کے ساتھ دلائل سے بھی مزین ہوتی تھی، ابھی چند روز قبل 26 فروری کو ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں محکمہ اوقاف کے زیراہتمام ڈویژنل سیرت کانفرنس میں ہم اکٹھے شریک ہوئے او رکافی دیر ایک ساتھ بیٹھے رہے۔
اہلحدیث علماے کرام میں حضرت مولانا حکیم عبدالرحمن آزاد کے بعد دینی تحریکات کے بارے میں ہم زیادہ تر انہی سے رجوع کرتے تھے او راُنہوں نے ہمیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ میں ذاتی طور پر ان کی وفات پر ایک بزرگ دوست اور گرم جوش ساتھی کی جدائی کا غم محسوس کرتا ہوں اور دُعاگو ہوں کہ اللہ رب العّزت اُنہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پسماندگان،تلامذہ اور احباب کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا ربّ العالمین!
ابوعمار زاہد الراشدی خطیب مرکزی جامع مسجد،گوجرانوالہ