ریمنڈ کی باعزت رہائی ؛غیرتِ ملّی پر ایک تازیانہ !

ریمنڈ ڈیوس کے کیس نے دو ماہ تک پاکستانی میڈیا اورسیاستدانوں کو اپنی گرفت میں لئے رکھا، قوم کا قیمتی وقت اور صلاحیتیں ضائع ہوئیں اور آخر کار ریمنڈ ڈیوس خیر وعافیت کے ساتھ اسی طرح آزاد ہوکر امریکہ کی آغوش میں پہنچ گیا جس طرح دنیا بھر میں توقع کی جارہی تھی۔ ریمنڈ کا واقعہ امریکی جارحیت ومداخلت کے جس پس منظر اورتکبر و رعونت کے ساتھ وقوع پذیر ہوا تھا، اس نے اس معاملے کو ایک عام وقوعہ قتل کی بجائے قومی سطح کا معاملہ بنا دیااور اس کی آزادی بھی ایک عام مجرم کی آزادی کی بجائے پوری قوم کے تحفظ اور غیرت وحمیت کے لئے سوالیہ نشان بن کر رہ گئی۔ ایسے واقعات سے قومی وقار اور اعتماد کی گہری جڑیں منسلک ہوتی ہیں اور اسے اسی پہلوسے لیا جانا ضروری تھا، تاہم ہمارے صاحبانِ اقتدار نے اپنی قوم کی خودمختاری بیچنے میں جلدی دکھاتے ہوئے پوری قوم کو ملول ومحزون کردیا۔اس واقعہ پر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ قومی وقار کی پامالی کے اس عظیم سانحہ کے حوالے سے کسی سوال وجواب میں نہ پڑا جائے تاکہ میڈیا اور لوگ از خود اس کی تفصیلات بھول جائیں۔ آج قومی غیرت پر پڑنے والے اس کڑے تازیانے کو ایک ماہ بھی نہیں گزرا کہ اخبارات وجرائد میں اس سانحہ کی کوئی خبر بھی نظر نہیں آتی۔ اس واقعے کے تمام کردار اور تفصیلات تاحال مخفی ہیں اور ان پر گہرے سوالات واعتراضات موجود ہیں لیکن حکومت وقت اپنی ذمہ داریوں سے انحراف بلکہ غداری کرکے چین کی بانسری بجا رہی ہے۔اس حکومتی حکمت ِعملی کا یہ نتیجہ تو ہوگا کہ لوگ وقتی طورپراس ذلت کو بھول جائیں گے لیکن اس واقعہ کی تلخ یادیں عوام کے ذہنوں میں اپنے حکمرانوں کی مکروہ صورت گری کرتی رہیں گی ۔
اس واقعہ سے حاصل ہونے والے سبق اگر ہمیں یاد رہ جائیں اور اپنی اوپر مسلط اہل اقتدار کی روش سے ہماری آنکھیں کھل جائیں تو اصلاح احوال کی کچھ اُمید کی جاسکتی ہے:
1. اس واقعہ سے عالمی سطح پر پاکستانی حکمرانوں اور پاکستانی عوام کے بارے میں یہ تاثر مزید پختہ ہوا کہ اُن کو پیسے دے کر سب کچھ کرایا جاسکتا ہے۔اس سرزمین میں اقدار اور غیرت نام کی چیز ناپید ہے، اگر کوئی قدر پوجی جاتی ہے تو وہ روپیہ بلکہ ڈالر ہے۔ ماضی میں بھی نواز شریف نے ایمل کانسی، بے نظیر بھٹونے یوسف رمزی اور پرویز مشرف نے سینکڑوں مجاہدین امریکہ کے ہاتھوں فروخت کرکے، پاکستان کا جو مکروہ امیج دنیا میں تشکیل دیا تھا، ریمنڈ کی رہائی کے واقعے نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔آج اگر پاکستانی دنیا بھر میں ذلت یا نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں تو اس میں غیروں کو دوش دینے کی بجائے ہماری حکومتوں اور عوام کا باقاعدہ کردارموجود ہے۔
2. ریمنڈ کی اس آزادی سے معلوم ہوا کہ عالمی طاقتوں کی کاسہ لیسی اور خوشامد کے حمام میں پاکستان کے تمام سیاسی کردار ننگے ہیں۔ امریکہ بہادر کے کاز کو پورا کرنے کے معاملے میں ان تمام کرداروں میں بے انتہا اشتراکِ عمل اور کمال کی منصوبہ بندی پائی جاتی ہے۔ اس اشتراکِ عمل کا تادمِ تحریریوں اظہار ہورہا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں،انتظامیہ، عدالت، سیاسی جماعتوں،فوج اور وفاقی وصوبائی حکمرانوں میں سے کسی نے اصل صورتحال سے پردہ سرکانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔بڑی سیاسی جماعتیں اگر اس میں شریک نہیں تھیں تو کم ازکم عوام کو ان حقائق تک رسائی میسر کرانےکے لئے مطالبہ اور دباؤ ڈال سکتی تھیں لیکن اس واقعہ پر پورے تین ہفتے گزر جانے کے باوجود اس کے کرداروں اور اصل منصوبہ سازوں پر تاحال اِخفا کی گھمبیر چادر تنی ہوئی ہے۔کاش پاکستان کے یہ مقتدر عناصر اپنے ملک وملت اور دین ونظریات کے تحفظ کے لئے بھی کسی درجہ میں ایسی مشترکہ کاوش کریں تو پوری قوم اُن کے ہمراہ کھڑی نظر آئے!
3. امریکہ نوازی کے لئے اس قدر پرزور سازشی تدبیر اور پاکستانی عوام کو ناراض کرنے کے بعد بھی ہماری مقتدرہ کی قابل رحم صورتحال یہ ہے کہ یہ جس محبوب امریکہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں، اس کی ناراضگی اس کمینہ صفت کی طرح بڑھتی جاتی ہے جس کی جتنی خاطرمدارات کی جائے، وہ اس قدر سر چڑھتا اور مزید مطالبے کرتا جاتاہے۔ ستم یہ کہ پاکستانی حکمرانوں نے خون بہا کی رقوم بھی عوامی خزانہ سے ادا کیں تاکہ امریکہ کو اپنی وفا کیشی کا یقین دلا کر ریمنڈ کا تحفہ ان کی بارگاہ میں پیش کیا جائے۔ اس کے فوراً بعد ڈرون حملوں میں معصوم81؍ افراد کے ناحق قتل کی سلامی دے کر اور اہل اسلام کی کتابِ مقدس کی توہین کر کے امریکہ نے اپنی رعونت اور پاکستانی حکمرانوں کی کسمپرسی کو پوری طرح آشکارا کردیا۔آج تین ہفتے گزرتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے خوشامدی حکمرانوں کے اس ڈرون قتل عام کے استفسار پر نظر التفات ڈالنے کا بھی روا دار نہیں۔ باخبر لوگ تو کہتے ہیں کہ آج تک پاکستان نے باضابطہ طور پر امریکہ سے معذرت کا مطالبہ ہی نہیں کیا۔ اس کے باوجود ریمنڈ کا تحفہ پیش کرنے والے امریکہ یاترا کر کےحق خدمت وصول کرنے کو بے چین ہیں اور جنابِِ صدر عنقریب امریکی دورے پر روانہ ہورہے ہیں۔ ہمارے بے حمیت حکمرانوں کے یہ لچھن او رعالمی غنڈوں کی اس بے التفاتی میں اہل نظر کے لئے عبرت کی کئی نشانیاں ہیں۔
4. ریمنڈ کی جارحانہ فائرنگ اورمعصوم لوگوں پر ڈرون حملوں کے بعد یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ امریکہ خود سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور ہماری حکومت اس کی دہشت گردی کی معاون ہے۔ ریمنڈ کو رہا کرکے پاکستانی حکومت نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کر نے والوں کو حکومتی تحفظ حاصل ہو گا اورپاکستان میں جاسوسی ، حساس مقامات کی تصویریں، مشتبہ افراد سے رابطے کرنے والا حکومت کی بھرپور تدبیر و تائید کے ساتھ آزاد کردیا جائے گا۔ اس کے خلاف حکومت نہ صرف کوئی ایکشن نہیں لے گی بلکہ اس کی رہائی میں مؤثر کردار بھی ادا کرے گی۔اس کے بعد حکومت ِپاکستان کا دہشت گردی کی مذمت میں بیان جاری کرنے کا کوئی تک نہیں بنتا۔ پاکستان میں ہونے والے آئے روز کے دھماکوں کے ایک اہم سراغ کو یوں آسانی سے جانے دینا دہشت گردی کے فروغ کا اہم سبب ہے جو حکومتی ایوانوں سے سرزد ہوا ہے۔پاکستان میں پانی کی طرح بہائے جانے والے خون کے تدارک کی بجائے اس قتل وغارت کے فروغ میں حکومت خود شامل ہے۔ پاکستانی عوام یہی سمجھتے ہیں کہ روحانی مراکز اور عوامی مقامات پر ہونے والے یہ حملے امریکی منصوبہ بندی کے ساتھ ریمنڈ ڈیوس کے باقی ساتھی کروا رہے ہیں جن کو حکمران پکڑنے کی بجائے اعزاز وافتخارکے ساتھ امریکہ کو واپس تحفہ میں دے کر اپنے شخصی مفادات کے دام کھرے کر لیتے ہیں۔
5. ریمنڈ کی رہائی کے واقعہ سے ہماری مقتدرہ کے چہرے پر پڑی منافقت اور عیاری سے بھی پردہ اُٹھتا ہے۔ یہی ہماری حکومتیں ہیں جو کئی برسوں سے امریکہ کے مطالبے پر اسلام کے خلاف محاذ کھولے بیٹھی ہیں۔ امریکہ کی 'نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ' میں ان کی شرکت، امریکہ سے اربوں ڈالروں کے قرضے اور اس طرح امریکہ کی کاسہ لیسی کے اصل مقاصد بالکل واضح ہوچکے ہیں، لیکن ہمارے حکمران میڈیا کے ذریعے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اس جنگ کو پاکستان کی جنگ بنائے بیٹھے ہیں۔ اہل دین کو پاکستان دشمن اور امن دشمن نجانے کیا کیا باور کراتے ہیں، درحقیقت یہ خود امریکہ اور اپنے مالی مفادات کے غلام ہیں۔آج پاکستانی بخوبی جانتے ہیں کہ ریمنڈ کی رہائی کے نتیجے میں عوامی جذبات کی تائید کون کررہا ہے؟ جماعت اسلامی یا جماعۃ الدعوۃ او رتحریک انصاف ہی اس موقع پر میدانِ عمل میں آنے والی جماعتیں ہیں۔ یہی وہ جماعتیں ہیں جو سوات اورطالبان و وزیرستان کے مسئلے پرسختی اور جارحیت کی بجائے مفاہمت سے مسائل کو حل کرنے کی داعی رہی ہیں۔ جبکہ پاکستانی مقتدرہ امریکی مطالبے پر پاکستانی قوم کو آپس میں برسر پیکار کرنے کے ایجنڈے پر کاربند ہے۔ریمنڈ کا واقعہ ایسا واضح معاملہ ہے جس میں ہماری مقتدرہ کے لئے عوام اور میڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ممکن نہیں ہوا، وگرنہ آج تک عوام کو بدھو بنا کر ہمارے حکمران قوم کو آپس میں نظریاتی طورپر لڑاتے اور اپنے مفادات حاصل کرتے رہے ہیں۔28 مارچ 2011ء کےنوائے وقت میں طالبان کے قائد ملا عمر کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ ''سکولوں، ہسپتالوں او رعوامی مقامات پر حملے کرنے والے طالبا ن نہیں ہوسکتے۔'' اس سے اہل اسلام کاایسی کاروائیوں کے بارے میں واضح موقف سامنے آجاتا ہے، لیکن ہماری مقتدرہ کو آپس میں مفادات کی کھینچا تانی سے فرصت ہی نہیں، اسی صورتحال میں بیرونِ ملک سے دشمن عناصر ملک میں گھسے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے وزیر داخلہ اصل ذمہ دار کی طرف توجہ کرنے کی بجائے امریکی ایجنڈے کو تائید دینے والا بیان دیکر پوری قوم کو نظریاتی جنگ میں اُلجھائے رکھتے ہیں۔
6. پاکستان کے حکمرانوں کو اپنے مفاد کے لئے قوم اور وطن سے بڑھ کر اپنے مذہب کو بھی رسوا کرنا پڑے تو اِس سے بھی نہیں چوکتے۔ اپنے چند روزہ مفاد کے لئے مجاہدین اور نظریۂ اسلام کی قربانی تو برسہا برس سے پاکستان میں جاری ہی ہے،اگر اپنے مقاصد کے لئے اسلام کا استحصال بھی کرنا پڑے تو انھیں کوئی پروا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ریمنڈ کے معاملے پر جب عالمی قوانین سے کوئی حل نہ نکلا تو قصاص ودیت کے ان اسلامی قوانین کا استحصال کیا گیا جن کی تشریح پر آئے روز پاکستان میں میڈیا پر سوالیہ نشان پیدا کئے جاتے ہیں۔اسلام میں دیت تو ظالم فریق ادا کرتا ہے لیکن اس واقعے میں حکومت نے درست ہی کیا کہ خود دیت دے کر یہ ثابت کیا کہ چونکہ پاکستان میں دہشت گردی کی یہ فضا قائم کرنے ، امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بننے اور امریکی غنڈوں کے کھلے عام پھرنے کی اصل مجرم حکومت ہے، اسی لئے حکومت کو ہی ظالم فریق ہونے کے ناطے یہ خون بہا دینا چاہئے۔گویا ریمنڈ کے کیس میں امریکی قاتل اور پاکستانی عوام وحکومت دو فریق نہیں ہیں بلکہ مقتولین کے ورثا اور پاکستانی مقتدرہ دو فریق بن کرسامنے آئے۔حالانکہ درحقیقت یہ کھلم کھلا فساد فی الارض اور دہشت گردی کا واقعہ تھا۔ ایسا قطعاً نہیں ہوا کہ کسی امریکی نے دو پاکستانیوں کو ذاتی دشمنی کی بنا پر خاموشی کے ساتھ قتل کردیا ہو، بلکہ رعونت اور تکبر کے ساتھ کھلم کھلا دہشت گردی کا علانیہ ارتکاب کیا گیا۔حکومت کی طرف سے ریمنڈ کی معافی کے بعد اب ہر پاکستانی کسی غیر ملکی سے رعب و دہشت محسوس کرنے لگا ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ پاکستانی حکومت اس غیر ملکی کو قتل کرنے پر خون بہا اداکرکےقانونی تقاضےپورا کردے۔ یہ وہ بدترین رویہ اور سوچ ہے جس کے بعد بہت سے لوگوں کو اپنے ملکی تشخص سے نفرت محسوس ہونا شروع ہوچکی ہے۔ہم نے کبھی امریکہ کو منانے، کبھی عوام کو بہلانے اور کبھی خود کو منوانے کے لئے ہمیشہ اسلام کی ہی قربانی دی ہے۔حکمرانوں کے اس اقدام کا یہ نتیجہ نکلا کہ دنیا بھر میں پاکستان کے ساتھ اسلامی قوانین پر بھی طنزیہ تبصرے کئے گئے۔ اسلام کو اس مقام پر لا کھڑے کرنے والے ہمارے حکمران ہیں!
7. اُمت ِمسلمہ اس دور میں جس عظیم المیہ کا شکار ہے، وہ مسلمانوں کی عملی کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کا فقدان ہے۔اکثر ممالک میں تو مسلمانوں پر ایسے حکمران مسلط ہیں جو دراصل مسلم رعایا کے مفاد کی بجائے ان کو غلامی کی زنجیروں میں کسنے کےلئے قابض بنے بیٹھے ہیں اور چند ایک ایسے ممالک جہاں مسلمانوں کو اپنا حکمران منتخب کرنے کا بظاہر جھانسہ دیا جاتا ہے، جب گرد چھٹتی ہے اور چند ماہ بعد آنکھیں کھلتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم عوام ایک بارپھر دھوکہ کھا گئے۔ ان ممالک میں جمہوریت کے نام پر موروثی گدیاں چل رہی ہیں جو عالمی طاقتوں کے ساتھ ساز باز کے نتیجے میں اقتدار پر جلوہ گر ہوتی ہیں۔ دو تین صدیاں قبل جب مسلمان ابھی سیاسی طورپر غیر قوموں کے محکوم نہیں ہوئے تھے اور ان کے فکرو نظر کے زاویے بھی مغربی تہذیب کی چمک دمک سے خیرہ نہیں ہوئے تھے،بڑی حیرانگی ہوتی تھی کہ کس طرح عظیم الشان اسلامی خلافت کو سامراج نے ایک ایک کرکے بانٹ لیا اوران پر ذلت و اِدبار مسلط کردیا اور ایک ایسا وقت کیوں کر آیا کہ موجودہ اسلامی ممالک میں سے دو تین کے ماسوا تمام اسلامی سرزمینیں استعمار کے پنجے میں جکڑتی چلی گئیں۔یقین نہ آتا تھا کہ اس وقت کی مسلم قیادت کیوں کر اتنی بے پرواہ او رکمزور ہوگئی تھی کہ ایک ایک کرکے تمام خطوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ لیکن آج پاکستان کے حکمران دیکھ کر یہ تعجب اور حیرانگی کافور ہوجاتی ہے کہ اگرحکمران ہی اپنی قوم کے ساتھ مخلص نہ ہوں تو وہ قوم کس طرح مقابل ومخالف کا سامنا کرسکتی ہے؟غیروں کی تائید سے ہم پر مسلط ایسے حکمران ملت ِاسلامیہ کا سب سے سنگین مسئلہ ہیں، جن کے نزدیک اپنا چند ٹکے کا مالی مفاداور چند دنوں کی حکومت پوری ملت کے زوال سے کہیں زیادہ اہم ہے۔یہ اپنے چند ڈالروں کے لئے پوری ملت کو بیچ کر اہل کفر کی لونڈی بنا کر رکھنے پر قانع ہیں۔
8. پاکستان کے مقتدر عناصر کی اس سازش میں ملی بھگت کے شواہد تو بڑے واضح ہیں۔ جہاں تک پنجاب حکومت ہے تو اس کا موقف دوغلا ہے۔ بظاہر وہ عوام کے ساتھ اپنے آپ کو دکھانا چاہتی ہے لیکن داخلی طورپر وہ بھی رہائی کی اس سازش میں پوری طرح ملوث ہے۔ ریمنڈ کے واقعے کے پہلے روز ہی اس کی ایف آئی آر کو کمزور تحریر کرکےچھوٹے اور قابلِ ضمانت جرائم کا مجرم ٹھہرانا اور اس کو دہشت گردی کےجرم و عدالت میں پیش نہ کرنا حکومتی رجحان کو بخوبی ظاہرکرتا ہے۔ بعد ازاں اس کا نام جیل ریکارڈ میں نہ تو درج کرنا اور نہ ہی اس کی رہائی کے موقع پر اس نام کا اخراج کرنا، جیل میں اس کو وی آئی پی پروٹوکول مہیا کرنا، عدالت میں اس کی بریت سے قبل ہی لاہور ائرپورٹ پر امریکی چارٹرڈ طیارے کو بروقت لینڈ ہونے کی اجازت دینا، وزیر اعلیٰ کا حساس دنوں میں ملک سے باہر رہنا اور ایک صوبائی وزیر کا رہائی کے دن عدالت میں تمام معاملات کو انجام دلوانا اور میڈیا کو اس وقت باخبر کرنا جبکہ ریمنڈ امریکی آغوش میں جا چکا تھا، یہ تما م کام صوبائی انتظامیہ کی ایما اور تائید کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے۔اسکے بعد پاکستانیوں کو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہئے!
پنجاب حکومت اگر چاہتی تو تیسرے مقتول عباد الرحمن کو زندہ کچلنے کے معاملے کو اُٹھاکر، ہاتھ آئے مجرم سے مزید سانحوں تک رسائی حاصل کرتی، کیونکہ عباد الرحمن کا واقعہ پہلے ہونے والے دونوں قتلوں سے ہی منسلک تھا ۔ اور اس کے قتل پر امریکی سفارتخانہ تکبر ونخوت اور بے پروائی پر آخر وقت تک مصر رہا اور اس نے آخر تک اس کو جرم ہی تسلیم نہ کیا۔حکومتیں اپنے سخت اقدام کے ذریعے اپنے وقار کو بلند کرتی اور اپنی عوامی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوتی ہیں۔ ایک طرف پاکستان کی عدلیہ کی تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ اس نے ریمنڈ کی 45 یوم کی تفتیش کوبھی قیدشمار کیا اورریاست کے خلاف جرم پر محض 20ہزار روپے جرمانہ پراکتفا کیا تو دوسری طرف عافیہ صدیقی کے کیس میں امریکی جج نے رحم کی ہر اپیل مسترد کرتے ہوئے عافیہ کےلئے سزا کے ایسے ایسے ہتھکنڈے اختیارکئے کہ زیادہ سے زیادہ ہرممکن سزا اس کو مل کر رہے ۔ امریکہ کے شدید متعصب جج نے یہ قرار دیا کہ ''عدالتوں کا مقصد امریکی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور ملکی وقار کو بلند کرنا ہوتا ہے اور اگر عافیہ صدیقی کو معمولی رعایت دی جاتی ہے تو گویا عدالت اپنے فرائض سے کما حقہ سبک دوش نہیں ہورہی اور امریکی عوام کی حفاظت نہیں کررہی۔''اس بنا پر عافیہ کیس میں ہرہرجرم کی علیحدہ علیحدہ مستقل سزا مقرر کی گئی حتیٰ کہ تفتیش کے چار سالوں کو بھی تما م جرائم کی مستقل سزاؤں سے بالا تر رکھا گیا۔اور یہ سب ایسی صورتحال میں کیا گیا جب کہ عافیہ صدیقی پر جرم ہی قانونی طورپر ثابت شدہ نہیں ، وہ گولی چلانے سے منکر ہے اور اس کی گولی سے کسی کو نقصان تک نہیں پہنچا۔
زندہ قومیں اپنے قومی وقار واعتماد اور اپنے باشندوں کے تحفظ کے لئے آخری دم تک اپنی ذمہ داری نبھاتی ہیں، تب اُن کے شہری قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ آج پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں کس اخلاقی معیارکی بنا پر دیگر مجرموں کے خلاف قانونی اقدام کرسکتی ہیں، جبکہ یہی پاکستانی قانون امریکی ایجنٹوں اور طاقتوروں کے لئے موم کی ناک اورکھیل تماشا ہے اور غریب اگر شکنجے میں آجائے تو اس کے لئے طوفان اور لوہے کی گرفت ہے!
اس کے بعد بھی اہل پاکستان ، اپنے اوپر مسلط حکمرانوں اور ان کے اہداف کو جاننے میں غلطی کرتے ہیں اور اُنہیں اپنا محافظ اور خیرخواہ خیال کرتے ہیں تو ان کی معصومیت قربان جانے کے لائق ہے۔ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور ہمیں دھوکے سے باہر آجانا چاہئے ، بالخصوص میڈیا کے ان دانشوروں سے بھی جو قوم کو مغالطہ آرائی کی نذر کرنے اور غلامی کی زندگی بتانے پر مصر نظر آتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو اسلام دشمنوں کی نازبرداریاں مبارک اور عوام کو اُن کی معصومیت!.... پھر شکوہ کس سے اور اِلتجا کس کے پاس!!
جو انسان ایسے دانش بازوں سے عبرت حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اسی موضوع پر نذیر ناجی کے ہر دو اتواروں:20 اور 27 مارچ 2011ء کو'جنگ' میں سب سے اوپر شائع ہونے والے کالم پڑھ لے۔