منصبِ امامت ؛ سیرت ِنبویؐہ کی روشنی میں
مسلمانوں کی عملی زندگی میں سب سے زیادہ اور عبادات میں سے اہم اور مسلسل ادا کی جانے والی عبادت نماز ہے۔ اس لحاظ سے مسلمانوں کو اپنی عبادات میں بہت زیادہ واسطہ ائمہ کرام سے رہتا ہے۔ کیونکہ ان کی اقتدا میں نماز پڑھی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ہم نے بچے کے کان میں اذان، پھر نکاح اور نمازِ جنازہ بھی ائمہ کے سپرد کیا ہوا ہے۔ جس قدر ائمہ کرام کی ضرورت زیادہ ہے، اسی قدر ائمہ اور ان کے نمازیوں میں فاصلے بھی زیادہ ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے سے شکایت کناں رہتے ہیں۔ نماز لمبی یا چھوٹی ہونے، نمازوں کے اوقات بدلنے ، مسجد کی صفائی اور انتظام کے معاملات اور نماز کے اندر پیش آجانے والے مسائل میں شکر رنجیاں ہو ہی جاتی ہیں۔ اور بعض اوقات یہ بہت طول پکڑ لیتی ہیں، چنانچہ ان کے تصفیے کے ساتھ ساتھ اخلاص، للہیت اور بے لوث خدمت کی بھی ضرورت ہے اور امام کے مقام ومرتبہ سے شناسائی بھی ضروری ہے۔
ایک مضمون میں تمام معاملات کے تجزیے کی تو شاید گنجائش نہیں، مگر رسولِ اکرمﷺ کی اس حیثیت کو پیش کرکے عوام اور ائمہ کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جاسکتا ہے تاکہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو کر دونوں میں فاصلے اور دوریاں کم کی جائیں۔
نبی کریمﷺکی امامت
جب سے نماز کا آغاز ہوا، نبی کریمﷺنے زندگی کے آخری لمحات تک چند نمازوں کے سوا تمام نمازوں کی امامت خود فرمائی۔ اِکّا دُکّا واقعات ہیں جس میں آپ مقتدی بنے۔ اس کے باوجود آپ جس طرح امامت کی خوبیوں سے آگاہ کرتے تھے، ویسے ہی نمازیوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھتے تھے۔ آپﷺمقتدی حضرات کی ضروریات و احساسات سے بھی آشنا تھے۔
آپﷺنے فرض نمازوں کی سفر اور حضر دونوں حالتوں میں امامت بھی کرائی، جنازے بھی پڑھائے، نمازِ تراویح بھی پڑھائی، نمازِ عید بھی پڑھاتے تھے، نمازِ استسقابھی پڑھائی اور نماِز کسوف اور خسوف یعنی سورج گرہن اور چاند گرہن کی نمازیں بھی پڑھائیں۔ اس طرح آپ نے اُمت کے ائمہ کرام کے لیے بہترین راہ نمائیاں فرمائیں اور مقتدی حضرات کو بھی ائمہ کی عزت اور وقار کا پورا دَرس دیا۔ دونوں کو ان کے حقوق وفرائض سے آشنا کرکے ایک بڑا ہی پاکیزہ اور روحانی رشتہ قائم کر دیا۔
منصبِ امامت کا تعلق چونکہ مقتدی حضرات سے ہے، یعنی مقتدی ہوں گے تو امام ہوں گے۔ اس لیے یہ منصب کسی بھی امام کی محض اپنی قابلیت کے بل بوتے پر نہیں چل سکتا۔ لہٰذا سیرتِ نبویؐہ کی روشنی میں ہم سب مل جل کر امامت اور اقتدا سے جڑے اس رشتے کو قابل رشک بنا سکتے ہیں۔ ذیل میں ایک تسلسل سے امامت کی خوبیوں اور مقتدیوں کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
نبیﷺجماعت کروانے کے لیے کب آتے تھے؟
نبی کریمﷺمسجد میں عموماً اس وقت تشریف لاتے جب نمازی نفل پڑھ کر بیٹھ جاتے۔ کیونکہ نفل پڑھے بغیر مسجد میں بیٹھنے سے آپﷺنے اُنھیں منع کیا ہوا تھا۔ فرمایا:
«إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الـْمَسْجِدَ فَلاَ یَجْلِسْ حَتَّی یُصَلِّىَ رَکْعَتَیْنِ» [1]
’’تم میں سے جب کوئی مسجد آئے تو بیٹھنے سے پہلے دور رکعات پڑھ لے۔‘‘
اسی لیے آپﷺنے ان کے لیے ایک ضابطہ مقرر فرما دیا تھا کہ
«لَا تَقُومُوا حَتّٰی تَرَوْنِي» ’’تم جب تک مجھے (مسجد آتا) دیکھ نہ لو، تب تک (صفوں کی درستگی) کے لیے کھڑے نہ ہوا کرو۔‘‘ نمازیوں سے مسجد بھری ہو اور ایک دم صف بندی کرنی پڑے تو بھگدڑ سی مچ جاتی ہے۔ اس سے بچانے کے لیے آپﷺنے ساتھ یہ بھی فرما دیا:
«وَعَلَیْکُمُ السَّکِینَةُ» ’’(مجھے دیکھ کر کھڑے ہونے پر) آہستگی اور سکون کا اہتمام کیا کرو۔‘‘ [2]
نبی کریمﷺکی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام تھے۔ نمازی مسجد میں جمع تھے۔ اس دوران سیدنا بلال نے جا کر آپﷺکو نماز کی اطلاع دی تو آپﷺنے فرمایا:
«مُرُوا أَبَابَکْرٍ فَلْیُصَلِّ» [3]’’ابوبکرسے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔‘‘ اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرامپہلے جمع ہوجاتے تھے اور آپﷺ نماز پڑھانے کے لیے بعد میں آتے تھے۔
لہٰذا مقتدی حضرات کو چاہیے کہ وہ ائمہ کا انتظار کر لیا کریں۔ اُنھیں بھی مصروفیات یا عوارضات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں نماز کے وقت سے ایک سیکنڈ بھی اوپر ہو جائے تو بے چارے امام کی خیر نہیں۔ لوگوں کی نظریں کسی اور امام کی تلاش میں لگ جاتی ہیں اور بڑے بڑے پارسا انسانوں کی زبانوں کے بندھن کھل جاتے ہیں۔عہدِ نبوی میں تو صحابہبعض اوقات جماعت کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے سو جایا کرتے تھے۔
[4]اگر کوئی شخص کہے کہ یہ آدابِ امامت نہیں بلکہ آدابِ رسالت تھے تو اپنے موقف کی دلیل اس کے ذمہ ہے۔
رسول اکرمﷺکسی سے محوِ گفتگو ہو جاتے تو؟
کبھی ایسا بھی ہوتا آپﷺتشریف لاتے تو کوئی آپ سے گفتگو کرنے لگ جاتا۔ آپ اس کی بات پوری توجہ سے سنتے، حالانکہ نماز میں تاخیر ہو رہی ہوتی۔ سیدنا انسکہتے ہیں: نماز کی اقامت ہوگئی تھی۔ ایک شخص آپ کے سامنے آگیا اور گفتگو کرنے لگا اور اس نے آپﷺکو نماز پڑھانے سے روکے رکھا۔
[5]اس کی بات لمبی ہوتی گئی حتی کہ صحابہ کرام(بیٹھے بیٹھے) سونے لگے۔
[6]
ہمارے یہاں اپنے آپ کو متبع سنت کہلوانے والوں کی عمومی صورتِ حال یہ ہے کہ اگر امام کسی کے سوال کا جواب دے رہا ہے یا صفیں سیدھی کراتے ہوئے کوئی حدیث سنا رہا ہے یا بالفرض وہ خود بھی گھڑی پر نظریں رکھے ہوئے ہے اور اس کی نظر چند لمحوں کے لیے گھڑی سے ہٹی اور ادھر سے ٹائم ہوگیا تو مسجد کے کسی کونے سے ایک زور دار اور بھدی سی آواز نمودار ہوتی ہے: ’’ٹائم ہوگیا ہے!!‘‘
اگر آپﷺکو جماعت سے پہلے کوئی ضرورت پیش آجاتی؟
سیدنا ابوہریرہروایت کرتے ہیں کہ آپﷺ(مسجد میں) تشریف لائے۔ اقامت ہوچکی تھی اور صفیں برابر ہوچکی تھیں، آپﷺمصلاے امامت پر تشریف لاچکے تھے، ہم تکبیر کے انتظار میں تھے کہ آپ یہ فرماتے ہوئے کہ ’’اپنی اپنی جگہ ٹھہرو۔‘‘ واپس تشریف لے گئے۔ اس دوران ہم اپنی اسی حالت پر رہے، پھر آپﷺہماری طرف آئے تو آپ نے غسل کیا ہوا تھا اور آپ کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
[7]
صفیں سیدھی کرانے کا اہتمام
رسول اکرمﷺصفوں کو سیدھا کرانے اور فاصلے ختم کرانے کا پورا اہتمام کرتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ فرماتے:
«سَوُّوا صُفُوفَکُمْ فَإِنَّ تَسْوِیَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ.» [8]
’’اپنی صفوں کو برابر کر لو کیونکہ صفوں کی برابری قیامِ نماز کا حصہ ہے۔ ‘‘
یہ تو فرمان ہے، صفوں کی برابری کے حوالے سے جس پر سبھی متفق ہیں مگر دوسری احادیث میں فاصلوں کو ختم کرنے کی اور آپس میں ملنے کی واضح تعلیمات ہیں، حدیث ہے:
«أَقِیمُوا صُفُوفَکُمْ وَتَرَاصُّوا.» [9]
’’ صفیں سیدھی کر لو اور آپس میں بالکل مل جاؤ۔ ‘‘
اس موضوع پر اس سے بھی زیادہ واضح فرمانِ نبوی ثابت ہے:
«حَاذُوا بَیْنَ الْـمَنَاکِبِ، وَسُدُّوا الْخَلَلَ وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتِ الشَّیْطَانِ، وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللهُ.» [10]
’’اپنے کندھوں کو ایک دوسرے کے کندھے کے برابر کرلو۔ خلا (فاصلے) ختم کرلو اور شیطان کی درزیں نہ چھوڑو۔ اور جس نے صف ملائی اللّٰہ اسے بھی ملائے گا۔ ‘‘
سیدنا انسکہتے ہیں: ’’ہم میں سے ایک اپنے کندھے کو دوسرے کے کندھے سے ملاتا تھا اور اپنے پاؤں کو دوسرے کے پاؤں کے ساتھ۔‘‘
[11]
نبی کریمﷺکی نمازوں کا اندازاً دورانیہ؟
رسول اکرمﷺکا فرمان ہے:
«إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِهِ....» [12]
’’امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے...‘‘
یہ حدیثِ مبارکہ امام کی اہمیت بتانے کو کافی ہے۔اور آپﷺ کی امامت کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
امام کی خصوصیات اور تقرر
سیرت اور سنت کے مطالعے سے ہمیں ائمہ کرام کی خصوصیات کا بھی اندازہ ہوتا ہے، ان میں سے کچھ خصوصیات یہ ہیں:
1. قرآن مجید زیادہ سے زیادہ یاد ہو: نماز میں تلاوت ہی وہ ظاہری خوبی ہے جو مقتدی حضرات سے امام کو ممتاز کرتی ہے۔ باقی رہا امام کا ورع، تقویٰ، خلوص اور تعلق باللّٰہ یہ سب معنوی خوبیاں ہیں۔ آپﷺنے اسی لیے سب سے پہلے اسی بات کا تذکرہ فرمایا کہ امامت وہ کرائے:
«أَقْرَئُهُمْ لِکِتَابِ اللهِ...» [13]
’’جو ان سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو۔اور اگر قراء ت میں برابر ہوں تو سنت کو زیادہ جاننے والا امامت کرائے، اگر اس میں بھی برابر ہوں تو ہجرت میں پہل کرنے والا اور اگر اس میں بھی برابر ہوں تو امامت وہ کرائے جوان میں سے عمر میں بڑا ہے۔‘‘
جو شخص قرآن مجید زیادہ پڑھنے والا ہوگا، اسے اسی قدر اَزبر بھی ہوگا اور وہ اس کی قراء ت میں ماہر ہوگا۔ اور سب سے پہلا حق اسی کا ہے۔فرمانِ نبوی «أَقْرَأُهُمْ» ’’ان سب سے زیادہ پڑھنے والا‘‘ سے مراد قراء ت ہی ہے، اور اس کے علوم اور تفسیر جاننا مراد نہیں کیونکہ آپﷺ نے اس حدیث میں قرآن مجید کے لیے «أَقْرَأُهُمْ» اور شرعی علم کے لیے «أَعْلَمُهُمْ» کے دو علیحدہ علیحدہ لفظ استعمال کیے ہیں اور دونوں کے معانی میں فرق موجود ہے۔
اس حدیث میں مذکور آخری نکتہ سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ امامت کے منصب میں قراءت کے ساتھ عمر میں بڑے ہونے کی بھی ایک معتبر اہمیت ہے، کیونکہ بڑی عمر کی وجہ سے ان کا احترام ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حفظِ قرآن و قراء ت میں دو ائمہ کے نام سامنے آرہے ہیں تو انھیں ترجیح دی جائے جو عمر میں بڑے ہیں۔ لیکن اگر بڑے تو موجود ہیں مگر قرآن میں مہارت تو دور کی بات، اچھے طریقے سے پڑھنا بھی نہیں جانتے تو پھر چھوٹی عمر کے قرآن مجید کے حافظ یا قاری کو ترجیح دی جائے گی۔ جیسا کہ عہدِ نبوی میں عمرو بن سلمہ چھوٹی سی عمر میں منصبِ امامت پر فائز تھے کیونکہ اُنھوں نے آنے والے مہاجرین صحابہسے سورتیں یاد کر رکھی تھیں۔
[14]
2. قراء ت سکون سے ٹھہر ٹھہر کر کرے: نبیﷺ کی زوجہ محترمہ اُمّ سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ کی قراء ت لمبی لمبی ہوتی تھی۔ ایک ایک آیت کرکے پڑھتے تھے، پھر اُنھوں نے باقاعدہ تلاوت کرکے دکھائی۔ چنانچہ ائمہ کرام کے لیے یہ سنّت ٹھہری کہ وہ ایک ایک سانس میں 5،5 آیات پڑھنے کی بجائے ایک ایک آیت کو علیحدہ علیحدہ پڑھیں۔
3. امام حوصلہ مند ہو: ایک امام کا واسطہ مختلف ذہن اور طرز و اَدا کے لوگوں سے رہتا ہے۔ کسی کے لہجے میں ترشی، کسی کے انداز میں درشتی، کوئی اعلیٰ اقدار کا حامل، کسی کو بولنے کا سلیقہ نہیں اور کوئی مسئلے پوچھ کر امام کو نیچا دکھانے کا آرزو مند۔ ان مختلف قسم کے لوگوں کو ڈیل کرنا، کڑوی کسیلی باتیں سننا یہ ائمہ کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اُنھیں چاہیے کہ اس کام کے لیے پہاڑوں جتنا حوصلہ پیدا کریں۔
ایک دیہاتی معلّم انسانیتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میں درشت لہجے میں بات کروں گا،آپﷺ محسوس نہیں فرماتے ۔اسی طرح ایک دیہاتی شخص مسجدِ نبوی میں پیشاب کرنے لگ جاتا ہے۔ صحابہ اسے روکنے کے لیے اس کی طرف بڑھتے ہیں۔ لیکن آپﷺبڑے حوصلے سے فرماتے ہیں:
«لَا تَزْرِمُوهُ، دَعُوهُ.» ’’اس کو پیشاب سے نہ روکو،کر لینے دو۔‘‘
صحابہاسے پیشاب کرنے دیتے ہیں۔ پھر آپﷺپیشاب کرنے والے دیہاتی کو پاس بلاتے ہیں اور نصیحت فرماتے ہیں:
«إِنَّ هٰذِهِ الْـمَسَاجِدَ لاَ تَصْلُحُ لِشَیْئٍ مِنْ هٰذَا الْبَوْلِ وَلاَ الْقَذَرِ، إِنَّمَا هِیَ لِذِکْرِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ وَالصَّلاَةِ وَقِرَاءةِ الْقُرْآنِ.» [15]
’’بے شک یہ مساجد ہیں۔ ان میں پیشاب یا گندگی وغیرہ درست نہیں۔ یہ تو اللّٰہ عزوجل کے ذکر، نماز اور قرآن کی تلاوت کے لیے ہیں۔‘‘
پھر آپﷺکسی شخص سے پانی منگواتے ہیں۔ وہ ڈول میں پانی لاتا ہے۔ آپﷺ پیشاب والی جگہ پر پانی بہا دیتے ہیں۔ ہمارے اس ماحول میں جہاں مقتدی حضرات خوبیوں سے محروم ہیں، وہاں ائمہ بھی بہت سی خوبیوں سے تہی دست ہیں۔ اگر کسی مقتدی سے غلطی سے بھی کچھ سرزد ہو جائے، مثلاً: وہ موبائل كو ’خاموش‘ کرنا بھول گیا ہے اور وہ نماز میں بجنے لگ گیا ہے تو ائمہ کو تمام نمازیوں کے سامنے اس کی تذلیل کا جواز مل جاتا ہے۔ اور زجر وتوبیخ حسبِ طبیعت یا حسبِ مخاطب کم زیادہ ہوسکتی ہے۔ اگرچہ سارے ائمہ ایسے نہیں ہوتے۔
4. امام جلد باز نہ ہو: اگر امام جلد بازی کرے، کسی کو فوراً جواب دے یا فوری ردّ عمل کا اظہار لے تو اس سے اس کی اپنی ساکھ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ جلد بازی کے اکثر فیصلے یا اقدامات درست نہیں ہوتے۔ نبی کریمﷺ نے نماز پڑھائی اور دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا۔ ایک صحابی جن کا لقب ذو الیدین تھا، انھوں نے آپﷺ سے عرض کی: «أَنَسِیتَ أَمْ قُصِرَتِ الصَّلَاةُ؟»
یا تو آپ بھول گئے ہیں یاپھر نماز میں کمی ہوگئی ہے؟
آپﷺنے اسے کچھ کہنے کی بجائے یہ اظہار فرمایا: «لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَر»
’’نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے۔‘‘
پھر آپﷺنے عمومی رائے لیتے ہوئے پوچھا: «أَکَمَا قَالَ ذُوالْیَدَیْنِ؟»
’’کیا بات اسی طرح ہے جس طرح ذُوالیدین کہہ رہے ہیں؟‘‘
صحابہ نے جواب دیا: جی ہاں! تو پھر آپﷺ آگے ہوئے اور جو حصہ رہ گیا تھا وہ پڑھایا، پھر سلام پھیرا۔ پھر دوسجدۂ سہو کیے اور سلام پھیر دیا۔ ‘‘
[16]
قارئین! نبیﷺ کو یہ یقین تھا کہ میں نے پوری نماز پڑھائی ہے، اسی لیے تو آپ نے فرمایا: ’’نہ تو میں بھولا ہوں، نہ نماز میں کمی ہوئی ہے۔‘‘ اس کے باوجود ذوالیدین کی یاد دہانی کے بعد اس پر کوئی حکم نہیں لگایا، بلکہ مذکورہ بات ہی کہی۔ اور پھر دیگر صحابہ سے تصدیق کرائی اور ان کی تصدیق کے بعد نماز پڑھائی۔ اس واقعے میں جلد بازی کا یا بغیر سوچے سمجھے کسی اقدام، حکم یا زجر و توبیخ کا شائبہ تک نظر نہیں آیا۔ یہی خوبی کسی امام کے وقار کی ایک بڑی وجہ بن سکتی ہے۔
e امام کاطرزِ تکلّم اچھا ہو: مقتدی حضرات کو کوئی بات سمجھانے کے لیے بہتر سے بہتر طرزِ تکلّم اور عمدہ اُسلوب اختیار کیا جائے۔ بعض اوقات انسان ضد کی وجہ سے اپنے فائدے کی بات بھی ٹھکرا دیتا ہے۔ سیدنا ابوبکرہؓ نماز کے لیے آئے۔ اس وقت آپﷺ نماز پڑھا رہے تھے اور رکوع کی حالت میں تھے۔ ابوبکرہؓ نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع کر دیا، پھر (حالت نماز ہی میں) چل کر صف میں شامل ہوئے۔ نبی کریمﷺ نے نماز مکمل کی تو فرمانے لگے:
«أَیُّکُمُ الَّذِي رَکَعَ دُونَ الصَّفِّ ثُمَّ مَشٰی إِلىٰ الصَّفِّ.»
’’آپ لوگوں میں سے کس نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع کر لیا تھا اور پھر بعد میں صف میں آملا تھا؟‘‘
ابوبکرہؓ کہنے لگے: میں نے۔ تو فرمایا:
«زَادَكَ اللهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ . »[17]
’’اللّٰہ نیکی پر تمہاری حرص میں اضافہ فرمائے ،آئندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘
غلطی ہو بھی جائے تو اس کی اصلاح کے لیے اچھا طرزِ تکلّم اپنایا جائے۔
6. امام حساس اور ہمدردی کے جذبات سے متصف ہو:امام کو دیگر اوصاف کے ساتھ ساتھ حساس اور ہمدردی سے متصف ہونا چاہیے۔ وہ امام ہی کیا جو اپنے مقتدیوں کے جذبات و احساسات ہی سے نا آشنا ہو۔ دیکھیے رسولِ اکرمﷺ سے زیادہ قراء ت میں تاثیر اور خوش الحانی کسے ودیعت ہوسکتی تھی، اس کے باوجود آپﷺ نمازیوں کا خیال رکھا کرتے تھے۔
سیدنا عثمان بن ابی العاص نے آپﷺ سے عرض کیا کہ مجھے اپنی قوم کا امام مقرر فرما دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: «أَنْتَ إِمَامُهُمْ» ’’تم ان کے امام ہو۔‘‘ اور ساتھ ہی مقتدیوں کا خیال رکھنے کی تلقین فرما دی:« وَاقْتَدِ بِأَضْعَفِهِم»
[18] ’’اور ان میں سے سب سے کمزور کی اقتدا کرنا (خیال رکھنا)۔‘‘
گویا ایک طرف امام مقتدیوں کی امامت کرا رہا ہے، دوسری طرف وہ مقتدیوں میں سے کمزور ترین مقتدی کا احساس دل میں لیے ہوئے اس کی اقتدا کر رہا ہے۔ یہ ہیں تعلیماتِ نبویہ!
نبی کریمﷺ کے عہد میں ایک واقعہ پیش آیا۔ ایک شخص اپنی پانی بھرنے والی اونٹنیاں لے کر اُس مسجد کے باہر پہنچا جہاں سیدنا معاذ بن جبلعشاء کی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ وہ جب پہنچا تو سیدنا معاذ نماز پڑھانے ہی لگے تھے۔ وہ آگے بڑھا (ان کی اقتدا میں نماز شروع کی) تو سیدنا معاذ نے سورۂ بقرہ یا نساء کی قراءت شروع کر دی۔ اس شخص نے جماعت سے علیحدہ ہو کر اپنی نماز پڑھی اور چلا آیا۔ اسے خدشہ تھا کہ سیدنا معاذ بن جبلاس سے ناراض ہوں گے کیونکہ اسے اس کی اطلاع مل چکی تھی۔ وہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سیدنا معاذ کی شکایت کرنے لگا، آپﷺ نے فرمایا:
«یَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ أَنْتَ ــ أَوْ فَاتِنٌ ثَلاَثَ مِرَارٍــ فَلَوْلاَ صَلَّیْتَ بِـ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى، وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا، وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى، فَإِنَّهُ یُصَلِّی وَرَائَكَ الْکَبِیرُ، وَالضَّعِیفُ وَذُو الْحَاجَة.»[19]
’’اے معاذ! کیا تم فتنہ پرور بننا چاہتے ہو، یا آپ نے فرمایا: فتنہ ڈالنے والے بننا چاہتے ہو۔ یہ آپﷺنے تین مرتبہ فرمایا۔ پھر فرمانے لگے: تم نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى، وَ الشَّمْسِ وَضُحٰىهَا، وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى (کی تلاوت کرکے) نماز کیوں نہ پڑھا دی؟ کیونکہ تمہارے پیچھے عمر رسیدہ، کمزور اور ضرورت مند لوگ بھی نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
یاد رہے! سیدنا معاذ بن جبل بہترین قاری تھے اور زبانِ نبوت سے یہ تلقین تھی کہ ان سے قرآن مجید کی قراء ت سیکھی جائے۔
[20]
واضح ہوا کہ مقتدیوں کا خیال رکھنا امام کی ذمہ داری ہے،لیکن یہ احتیاط فرض نمازوں میں ہے۔ نفل نماز میں، یعنی رمضان کے قیام میں آپﷺ نے طویل قراء ت بھی فرمائی۔ حتی کہ صحابہ کو سحری نکل جانے کا خدشہ لاحق ہوگیا۔
[21]
اسی طرح اپنی تہجد کی نماز میں بھی سورۂ بقرہ، آلِ عمران اور نساء بھی ایک رکعت میں پڑھ جایا کرتے تھے۔ یہ بات اُمت کو سیدنا حذیفہنے بتائی، وہ کہتے ہیں: ’’میں نے ایک رات نبیﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھی تو آپﷺنے سورۂ بقرہ شروع کر دی۔ میں نے دل میں کہا: آپﷺ سورۂ بقرہ کی 100 آیات پڑھیں گے اور رکوع کریں گے مگر آپ پڑھتے ہی گئے۔ میں نے پھر دل میں کہا: (شاید) سورۂ بقرہ پڑھ کر رکوع کریں گے، مگر آپ نے قراء ت جاری رکھی، پھر آپﷺنے سورۂ نساء کی تلاوت فرمائی پھر سورۂ آل عمران کی تلاوت کی۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھ رہے تھے، جب کسی تسبیح والی آیت کی تلاوت فرماتے تو تسبیح پڑھتے، جب کسی سوال کا ذکر آتا تو اللّٰہ سے سوال کرتے، اور پناہ مانگنے کا ذکر آتا تو پناہ مانگتے پھر آپﷺ نے رکوع کیا اور اس میں سبحٰن ربي العظیم پڑھا۔ آپ کا رکوع بھی کم و بیش قیام جتنا تھا، پھر رکوع سے اُٹھے تو خاصی دیر کھڑے رہے اور یہ قومہ بھی تقریبا رکوع کے برابر تھا، پھر سجدہ کیا اور اس میں سبحٰن ربي الأعلىٰ پڑھا اور سجدہ بھی کم و بیش قیام جتنا ہی تھا۔‘‘
[22]
لیکن نبی ﷺ فرض نماز میں دوسرے ائمہ کو مختصر نماز پڑھانے کی تلقین کرتے تھے اور خود بھی مختصر نماز ہی پڑھاتے تھے جیسا کہ سیدنا انس کہتے ہیں:
’’نبیﷺ بڑی ہلکی مگر پوری نماز پڑھایا کرتے تھے۔‘‘ [23]
نبی کریمﷺ سے زیادہ پُر اثر اور خوبصورت قراء ت کس کی ہوسکتی تھی؟ اس کے باوجود آپﷺ نے نمازیوں کا خیال رکھا تو ائمہ کو بھی ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور ہمدردی کے ان جذبات کو شب و روز کے تمام مسائل میں پھیلا دینا چاہیے۔ کیونکہ آپﷺ کا ارشاد ہے:
«إِنَّکُمْ بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِینَ .»[24]
’’تمھیں آسانیاں کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ‘‘[25]
7. امام یا خطیب داروغہ بننے کی کوشش نہ کریں: اپنی منصبی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ائمہ کرام یا خطبائے عظام داروغے نہ بنیں کہ زبردستی کسی سے نیکی کا کام کروائیں۔جمعہ پڑھانے کے بعد جب بھی نمازِ جمعہ کی پہلی رکعت میں سورۂ اعلیٰ کا یہ حصہ
﴿فَذَكِّر إِن نَفَعَتِ الذِّكرى ﴿٩﴾ سَيَذَّكَّرُ مَن يَخشى ﴿١٠﴾ وَيَتَجَنَّبُهَا الأَشقَى ﴿١١﴾ ’’نصیحت کریں اگر نصیحت فائدہ دے۔ وہ ضرور نصیحت حاصل کرے گا جس میں ڈر ہوگا اور بدبخت اس سے کنارہ کش رہے گا۔‘‘ پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورۂ غاشیہ کی آیت
﴿ لَستَ عَلَيهِم بِمُصَيطِرٍ ﴿٢٢﴾ ’’آپ ان پر داروغہ نہیں ہیں۔‘‘ پر پہنچیں تو یہ آیات حوصلے اور ہمت میں اضافے کا باعث بنیں۔ کہ زبردستی کسی سے کام نہیں کرانا، بس دعوت دینی ہے۔ نبیﷺ کی طرف سے جمعے کی نماز میں ان سورتوں کے انتخاب کی ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہفتے بعد ائمہ کو یہ بات یاد کرادی جائے کہ تم ان پر داروغے نہیں ہو۔
8. بروقت نماز کا اہتمام امام کی ذمہ داری ہے:عہدِ نبوی میں اور اس کے بعد بھی بہت لمبے عرصے تک لوگ سورج اور اس کے سایوں سے نمازوں کے اوقات کا پتہ چلاتے تھے یا مؤذن کی اذان سن کر مسجد کی طرف آتے تھے۔ اُس دور میں وقت اوپر نیچے ہوجانا بعید نہیں تھا۔ اب چونکہ باہمی مشاورت سے وقت طے ہو جاتا ہے، نیز دور بھی بڑی تیزی کا ہے۔ ہر شخص بہت سی مصروفیات میں گھرا ہوا ہے اور منٹ منٹ کا شیڈول رکھتا ہے، اس لیے ائمہ کرام کو طے شدہ اوقات میں بروقت نماز کرانی چاہیے۔ اسے کوئی پابندی یا دباؤنہ سمجھا جائے، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ اگر گھڑیاں نہ ہونے کے باوجود ہمارے سلف صالحین نماز کا بروقت اہتمام کرتے تھے تو گھڑیوں کی موجودگی میں ہم تاخیر کیوں کریں۔
رسول اکرمﷺ کے بارے میں اُمّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ
’’آپ نے وفات تک دو نمازیں بھی آخری وقت میں نہیں پڑھائیں۔ ‘‘[26]
وقت کی پابندی کی یہ ایک بہت بڑی مثال ہے، حالانکہ آپﷺ پر ایک ہی وقت میں کئی مصروفیات اور اہم ترین ذمہ داریاں تھیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جن ائمہ کرام کی 24گھنٹے میں ذمہ داری محض یہی ہے کہ وہ پانچ نمازیں پڑھا دیں تو وہ لیٹ ہو جاتے ہیں۔ پھر مقتدی حضرات خصوصاً انتظامیہ کو غصہ کیوں نہ آئے۔
9. نماز کے بعد نمازیوں سے بات چیت اور مصلاے امامت پر جاگزیں ہونا: ائمہ اور مقتدی حضرات کے درمیان فاصلوں کی وجہ ایک دوسرے کو وقت نہ دینا بھی ہے۔ بہت سے مقتدی تو اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ ہمیں علماء و ائمہ کی صحبت میں چند لمحے گزارنے چاہئیں۔ اگر کوئی اس کا آرزو مند ہو بھی تو اسے ائمہ کی صحبت میسر نہیں آتی۔ سلام پھیرا اور چند ہی لمحوں بعد امام صاحب مصلیٰ چھوڑ کر چلے گئے ۔ ائمہ کرام کی اپنی ضروریات اور مصروفیات ہوں گی۔ رسول اللّٰہﷺ کو بھی بہت سی دیگر مصروفیات تھیں اس کے باوجود آپﷺخصوصاً نمازِ فجر کے بعد طلوع آفتاب تک مصلاے امامت پر تشریف فرما رہتے اور اس دوران صحابہ کرام سے محوِ گفتگو بھی ہوتے۔ رسول اللّٰہﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے کے بڑے بڑے دعویدار امام اس اُسوۂ نبوی کو اپنانے کے لیے تیار نہیں۔
سیدنا جابر بن سمرہ نبیﷺ کے ان لمحات کو ہمارے سامنے رکھتے ہیں۔ ایک دن سیدنا سماک بن حرب نے ان سے پوچھا: کیا آپ نبی کریمﷺ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے؟ وہ کہنے لگے: بہت زیادہ۔ آپﷺ تو فجر کی نماز سے لے کر طلوعِ آفتاب تک مصلاے امامت پر تشریف فرما رہتے تھے۔ اس دوران صحابہ کرام آپﷺ سے گفت و شنید کرتے اور جاہلیت کی باتیں بھی کرتے، پھر وہ ہنستے بھی۔ اس دوران آپﷺمسکرا رہے ہوتے۔
[27] واضح ہوا کہ نبیﷺ صحابہ کرام سے صرف خطاب کے لیے تشریف فرما نہیں ہوتے تھے، اس کے علاوہ بھی ان میں گھل مل کر بیٹھتے تھے۔
10. امام مقتدی حضرات سے کچھ پوچھ اور بتا سکتاہے:امام اور مقتدی کا پاکیزہ رشتہ ہمدردی اور خلوص کے جذبات سے پروان چڑھتا ہے۔ ہمدردی اور احساس کا اظہار ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت سے ممکن ہے۔ نبی کریمﷺ اس کا خیال رکھا کرتے تھے۔
ایک دفعہ آپﷺ نے سفر میں نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر رُخِ انور پھیرا تو ایک آدمی سب سے ہٹ کر علیحدہ بیٹھا ہوا تھا، جس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا:
«مَا مَنَعَكَ یَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّىَ مَعَ الْقَوْمِ؟»
’’اے فلاں! لوگوں کے ساتھ نماز نہ پڑھنے میں کیا وجہ حائل ہوگئی؟‘‘
اس نے عرض کی: میں حالتِ جنابت میں تھا اور پانی تھا نہیں۔ فرمایا:
«عَلَیْكَ بِالصَّعِیدِ فَإِنَّهُ یَکْفِیكَ.»[28]
’’تم سطح زمین (سے) کچھ (پاک مٹی) لے لیتے۔ وہ (تیمم کی صورت میں) تمھیں کافی ہو جاتی۔ ‘‘
سیدنا سعد بن معاذجنگِ خندق میں شدید زخمی ہوئے تو آپﷺنے مسجد ہی میں ان کا خیمہ لگوا دیا تاکہ ان کی دیکھ بھال کی جاسکے۔
[29]
ایک دفعہ ایک شخص نے آپﷺ کے سامنے تین مرتبہ جلدی جلدی نماز پڑھی اور ہر بار آکر آپﷺ سے ملتا رہا اور آپ یہی فرماتے رہے کہ
«اِرْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ...» [30]
’’واپس چلے جاؤ، پھر نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘
پھر اس کے اندر نماز سیکھنے کے عندیہ پیدا ہوا اور آپﷺ نے اسے مکمل نماز پڑھنے کا طریقہ خود سکھایا۔
ائمہ کرام کے چند مزید ضروری اوصاف
· امام نرم مزاج ہونا چاہیے، اگر ایسا نہیں ہے تو نرمی کی کوشش کرنی چاہیے۔
· امام کو بلا تفریق تمام لوگوں سے خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہیے۔ اگرچہ کسی کا موقف امام سے متصادم ہی کیوں نہ ہو۔
· ہر ایک کے مسائل کو دل جمعی سے سننا اور ان کا حل بتانا چاہیے۔
· شرعی مسائل بتانے میں پوری احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
· جو مسئلہ نہیں آرہا، اس بارے میں لاعلمی کا واضح اقرار کر ناچاہیےیا تحقیق کرنے کا وقت لے لینا چاہیے۔
· مقتدی حضرات اور متعلقین سے جو وعدہ کیا ہو، اسے حتیٰ المقدور پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
· غیبت تو عام لوگوں کو بھی نہیں کرنی چاہیے مگر علما کو از حد احتیاط کی ضرورت ہے۔
ائمہ کرام کی رہائش؟
رسول اکرمﷺ نے اپنی رہائش مسجد نبوی سے متصل حجروں میں رکھی تھی، لہٰذا ائمہ کرام کو بھی مسجد سے متصل رہائش ملنی چاہیے تاکہ دینی راہ نمائی میں عوام کے لیے مشکلات نہ ہوں۔ اور تمام اُمور اچھے انداز سے بروقت انجام دیے جاسکیں۔
مسجد کی اوپر والی منزل میں رہائش بنانے کے بارے میں اگرچہ اختلاف ہے مگر جواز کا پہلو راجح ہے۔ کیونکہ جب ایک جگہ کی حد بندی دیوار یا چھت سے کر دی جائے تو دوسری جگہ کا حکم وہ نہیں رہتا۔ مثلاً: دیوار کی ایک جانب واش روم اور دوسری جانب مسجد ہو تو دونوں کا حکم علیحدہ علیحدہ ہوگا۔ اسی طرح چھت پر خواتین کے وضو اور طہارت کی جگہ بنا دی جائے تو اس سے مسجد کا تقدس پامال نہیں ہوگا، اسی طرح امام کی رہائش کا مسئلہ ہے۔ واللّٰہ اعلم
امام اور خطیب کا تقرر حکمران یا نگران کی طرف سے ہو!
سیدنا عثمان بن ابی العاص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منصبِ امامت کا سوال کرنے لگے۔ آپﷺ نے ان کا تقرر فرما دیا۔
[31] اس سے مزید دو پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ عہدے کی چاہت سے آپ نے منع فرمایا مگر’امامت‘ کے عہدے کا سوال کرنے والے کو خود فائز فرما دیا۔ اس سے واضح ہو ا کہ عہدے کی چاہت اور امامت یا خطابت کی ذمہ داری دونوں کا حکم علیحدہ علیحدہ
[32] ہے۔
دوسرے یہ کہ حکمران یا نگران کی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ مختلف علاقوں کے حساب سے امام وخطیب کا تقرر کرے۔ یہ استدلال سیدنا عثمان کے مطالبۂ تعیناتی کی بنا پر ہے۔ اگر عہدِ نبوی کا ضابطہ انھیں بذاتِ خود امامت کے منصب پر فائز ہونے کی اجازت دیتا تو انھیں آپﷺ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
سعودی عرب میں ائمہ کا تقرر حکومت کی ذمہ داری ہے جو باقاعدہ قابلیت والے ائمہ و خطبا مقرر کرتی ہے، لہٰذا وہاں افرا تفری ہے، نہ فتنہ و فساد اور وہاں ائمہ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس فرق کا مشاہدہ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہاں عام ائمہ و خطبا اور فوج واوقاف کے ائمہ و خطبا میں بہت واضح فرق ہے۔ عام سطح پر یہاں مسجد کے منتظمین میں سے ایک بڑے ’منتظم‘ کے اختیار میں سب کچھ ہوتا ہے، خواہ وہ 20،10 سال سے امامت کرانے والے امام کو بلا شرعی عذر کان سے پکڑ کر نکال دے۔ دراصل مقامی لوگوں نے مسجد کے تعاون کے سلسلے میں اپنی جان چھڑانے کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہوتا ہے جو اُن کے حصے کا بھی تعاون کرتا رہے اور مسجد کے سرخ و سفید کا مالک ہو! یا پھر کئی لوگ سیاسی چال بازیوں کے ذریعے مسجد کی حد تک اپنی چودھراہٹ کے شوق پورے کرتے ہیں۔
مسجد میں امام یا خطیب کے تقرر کی بات آئے تو ریہرسل کے طور پر نماز اور جمعے پڑھائے جاتے ہیں۔ اور چیک کرنے والے کئی دکاندار ہوتے ہیں اور کئی زمیندار، کئی بنک ملازمین اور کئی ریڑھی بان۔ دراصل امام یا خطیب کے تقرر کے لیے کسی صاحبِ علم سے اور کم از کم مسجد کے پکے نمازی سے مشاورت کرنی چاہیے۔
سیاسی حربوں کے ذریعے امامت کا حصول
مسجد میں ایک امام صاحب دیر سے چلے آرہے ہیں۔ اور یہ بہت کم ہی دیکھا گیا ہے کہ کسی امام یا خطیب کو سارے کے سارے نمازی دل و جان سے چاہتے ہوں، لہٰذا ان سے کھچے کھچے رہنے والے نمازی ایک لابی بناتے ہیں اور وہ موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ادھر امام سے کوئی غلطی سرزد ہوئی نہیں اور ادھر سے یہ لابی سرگرم ہوئی نہیں۔ اور اسی دوران وہاں کے مدرس یا حتی کہ خادم مسجد یا کسی کے ملنے ملانے والے کا نام متبادل کے طور پر پیش کر دیا گیا اور امام کو فارغ کر دیا گیا۔
جو امام نیا آتا ہے۔ سارے لوگ اس پر بھی متفق نہیں ہوتے اور مساجد مستقل طور پر ’حالتِ جنگ‘ میں رہتی ہیں۔ ایسے ائمہ جو زبردستی امام بنیں، ان کے لیے وعید ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے :
«ثَلَاثَةٌ لَا یُقْبَلُ منْهُ صَلَاةٌ وَلَا تَصْعَدُ إِلَى السَّمَاءِ وَلَا تُجَاوِزُ عَنْ رُؤُوسِهِمْ: رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ کَارِهُونَ...» [33]
’’تین لوگوں کی نماز نہ قبول ہوتی ہے اور نہ آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے سروں سے اوپر اُٹھتی ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو کسی قوم کی امامت کرائے مگر وہ اسے ناپسند کر رہے ہوں۔‘‘
یہ حدیث جہاں ایسے ائمہ کے لیے وعید ہے، وہاں ان مقتدیوں کے لیے بھی وعید ہے جو بغیر کسی شرعی اور اخلاقی وجہ کے ائمہ سے کدورت رکھتے ہیں۔ جیسے زبردستی امام بننے کا جرم ہے، ویسے ہی بلا جواز ائمہ کے بارے میں ناروا ذہن قائم کرلینا بھی ایک جرم ہے۔ حدیثِ مذکور میں اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ امام کو بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ ان کے مقتدی ان سے خوش رہیں، جب تک کوشش اللّٰہ کی ناراضی کا باعث نہ بنے۔ اسی صورت یہ رشتہ ایک مقدس رشتہ بن سکتا ہے۔
امام کی معزولی کا مسئلہ
جیسے امام کے تقرر کی کچھ ہدایات اور شرائط ہیں، اسی طرح اسے معزول کرنے کے بھی ضابطے ہیں۔ یہ نہیں کہ مسجد میں پارٹی بازی ہو رہی ہو اور سارا نزلہ بے چارے امام یاخطیب پر آگرے۔ اکثر دیکھا گیا ہے انتظامی دشواریوں اور خلفشاروں میں آخر کار امام یا خطیب ہی کو قربانی کا بکرا بننا پڑتا ہے۔ کیونکہ وہ خود بے چارہ جو قربانی دینے کا درس دیتا رہتا ہے۔
آپ پڑھ آئے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے سیدنا معاذ بن جبلکو نماز لمبی پڑھانے پر سخت ڈانٹا اور یہاں تک فرمایا کہ کیا تم فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہو؟ دراصل یہ وعید سیدنا معاذکے لیے تو تھی ہی اور ان کے توسط سے بعد والے ائمہ کو بھی مگر اشارۃً اس کا رخ ایسے نمازیوں کی طرف بھی محسوس ہوتا ہے جو اسے ’فتنہ‘ بنا لیں۔
فتنے جیسے خدشے کے باوجود آپﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل کو معزول نہیں کیا بلکہ انھیں مختصر سورتیں پڑھنے کی تلقین کی۔
لمبی نماز کیسے فتنہ بن سکتی ہے؟
وہ یوں کہ لوگ جماعت میں شامل ہونے سے کترائیں۔ اس امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے جو لمبی قراءت کرے گا اور رفتہ رفتہ لوگ منتشر ہوں گے اور علیحدہ جماعت کرائیں گے یا پھر امام کو معطل کرنے کی سوچیں گے۔ ایسی صورتحال کو فتنے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور ایسی صورتحال سے دوچار کرنے والے کوزبانِ رسالت نے فَتَّان کہا ہے۔مگر یہ ضروری بھی نہیں کہ امام کے خلاف مقتدیوں کی ہر شکایت درست ہی ہو۔ کبھی مقتدی اپنی ناراضی یا خلش دور کرنے یا حسد کی آگ بجھانے کے لیے ایسے اقدام و الزام سے بھی کام لیتے ہیں جو قطعاً ان کے لیے روا نہیں۔
سیدنا عمر کے دور میں سیدنا سعد بن ابی وقاص کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ اہل کوفہ نے سیدنا سعد کے متعلق شکایت کی اور یہاں تک کہنے لگے کہ یہ اچھے طریقے سے نماز بھی نہیں پڑھاتے۔ سیدنا عمرنے سعد کو بلوایا اور ان سے پوچھا: ابو اسحٰق! ان لوگوں کا کہنا ہے کہ تم نماز اچھے طریقے سے نہیں پڑھاتے؟ سعد عرض کرنے لگے: اللّٰہ کی قسم! میں تو انھیں رسول اللّٰہﷺ کی نماز پڑھاتا ہوں۔ میں کچھ کمی بیشی نہیں کرتا۔ میں اُنھیں عشاکی نماز پڑھاتا ہوں اور پہلی دو رکعتوں کو آخری دو رکعتوں کی نسبت لمبا کرتا ہوں۔ سیدنا عمر کہنے لگے: ابواسحٰق! تمہاری نسبت میرا یہی گمان تھا۔
بعدازاں سیدنا عمر نے سیدنا سعد کے ساتھ کچھ آدمی بھیجے۔ اُنھوں نے کوفہ کی تمام مساجد کے نمازیوں سے ان کے بارے میں رائے لی تو سبھی نے ان کی تعریف کی۔ مگر اُسامہ بن قتادہ نامی ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اگر آپ ہم سے زور دے کر پوچھ ہی رہے ہیں تو پھر سنیں: یہ خود مہم پر نہیں جاتے، نہ تقسیم کرنے میں برابری کرتے ہیں اور نہ فیصلہ کرنے میں عدل کرتے ہیں۔ سیدنا سعد کہنے لگے:
’’ میں ضرور اس کو تین بد دعائیں دیتا ہوں: اگر یہ بندہ جھوٹا ہے اور نمایاں ہونے اور شہرت کے لیے کھڑا ہوا ہے تو (1) اے اللّٰہ! اس کی عمر لمبی کر دے۔(2) اس کا فقر اور محتاجی بھی لمبی کر دے۔ (3) اور اسے فتنوں سے دوچار کر۔‘‘
اس کے بعد (اسے ان کی بد دعا لگ گئی) اس کے متعلق جب بھی اس سے پوچھا جاتا وہ یہی جواب دیتا کہ مجھے سعد کی بددعا لگ گئی ہے۔ حدیث کے راوی عبدالملک کہتے ہیں: میں نے خود دیکھا وہ بہت بوڑھا ہوچکا تھا اس کی بھنویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں کے سامنے آچکی تھیں اس کے باوجود بھی وہ راستوں میں آتی جاتی چھوٹی بچیوں سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتا تھا۔‘‘
[34]
اللّٰہ تعالیٰ ایسی صورتِ حال سے سب کو محفوظ فرمائے۔ لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ بعض اہل کوفہ نے سیدنا سعد کے متعلق بے جا شکایات لگائی تھیں۔
یہاں ان ائمہ کی معزولی کا ذکر کیا گیا جن سے لوگ کسی نہ کسی وجہ سے نالاں ہوں۔ ایسی صورتِ حال میں نگران کو اختیار حاصل ہے کہ وہ صورت حال دیکھ کر حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے فیصلہ کر دے۔
٭ اور بعض دفعہ امام کی معزولی کی وجہ شرعی ہوتی ہے۔ امام یا پیش رو ہونے کے باوجود کوئی اخلاقی یاشرعی بے ضابطگی سامنے آجائے تو ایسے امام کے متعلق کیا کیا جائے؟
اس کا جواب حدیثِ مبارکہ سے ملتا ہے۔ ایک صحابی قوم کی امامت کراتے تھے تو (ایک دن) انھوں نے قبلے کی طرف تھوک دیا۔ رسول اللّٰہﷺ انھیں دیکھ رہے تھے۔ جب وہ نماز پڑھا کر فارغ ہوئے تو آپﷺ نے نمازیوں سے فرمایا:
«لَا یُصَلِّ لَکُمْ» ’’یہ (آئندہ) تمھیں نماز نہ پڑھائے۔ ‘‘ پھر جب اس نے (اگلی) نماز پڑھانے کا ارادہ کیا تو نمازیوں نے انھیں منع کر دیا اور آپﷺ کے ارشاد کے متعلق بتایا۔ امام صاحب نے (براہِ راست) آپﷺ سے بھی اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے جواب دیا کہ ’’ہاں میں نے ہی یہ کہا تھا۔‘‘
[35]
دراصل امام تو پیشوا ہوتا ہے اگر وہ ایسے شرعی آداب کی پاسداری نہیں کرے گا تو مقتدیوں کو شرعی آداب سے کون روشناس کرائے گا؟ لہٰذا اگر امام کو معزول کرنے کا شرعی جواز موجود ہو تو ایسا بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسے امام یا خطیب کو فارغ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
مسجد جانے کے باوجود جماعت نکل جائے!
جو مقتدی حضرات اہتمام کر کے مسجد جاتے ہیں ،ان کی اگر جماعت نکل جائے تو اُنہیں بڑاغصہ آتا ہے۔اگر امام کی طرف سے نماز مختصر کرنے یا حال ہی میں وقت تبدیل کر نے کی وجہ سے رہی ہے تو پھر بے چارے امام کی خیر نہیں ۔ حالانکہ حدیث میں واضح ہے کہ ایک شخص جب نماز کے لیے مسجد پہنچتا ہے اس کے باوجود وہ جماعت کو نہیں پاسکا تو اس کا اجر لکھ دیا گیا ہے۔
[36] ایسے مقتدی کو امام کی دل آزاری کرنے کی بجائے ثواب کی اُمید کرتے ہوئے اپنی نماز ادا کرنی چا ہیے ۔
بچےمسجد کی رونق
مقتدی حضرات اور ائمہ کرام کے تعلقات میں کشیدگی کی ایک وجہ بچے بھی ہیں، خواہ وہ امام و خطیب صاحب کے ہوں یا مقتدی حضرات میں سے کسی کے۔ بچے تو سانجھے ہوتے ہیں۔ اور بچے بچے ہی ہوتے ہیں مگر مساجد میں ان کا وجود ایسے ہی ہے جیسے ایک خوبصورت پارک میں بڑے بڑے سایہ دار درختوں کے ساتھ رنگ برنگ پھولوں سے سجی کیاریاں۔ اور ان کا بولنا ایسے بھاتا ہے جیسے گھنے درختوں پر صبح و شام پرندوں کا چہچہانا۔ جب ان کی مائیں اُنھیں ٹوپی پہنا کر یا سکارف اوڑھا کر ان کا تعلق مسجد و مکتب سے جوڑنا چاہتی ہیں تو پھر ائمہ و مدرسین کو بھی اس کی لاج رکھنی چاہیے۔ اگر وہ ناظرۂ قرآن کے دوران ہنسنے، رونے یا بھاگنے لگ گئے ہیں تو اُنھوں نے کون سا جرم کر لیا ہے؟ ویسے بھی تو ہمارا طائر خیال ادھر اُدھر اڑتا ہی رہتا ہے، بچوں کی وجہ سے توجہ بھٹک گئی تو کیا ہوا؟ نبی کریمﷺ نے ائمہ کرام کے لیے روشن اور اعلیٰ مثال رکھی ہے۔
سیدنا ابوقتادہ نبیﷺ کا یہ فرمان ہمارے سامنے رکھتے ہیں:
«إِنِّي لَأَقُومُ فِى الصَّلَاةِ أُرِیدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِیهَا فَأَسْمَعَ بُکَاءَ الصَّبِیِّ فَأَتَجَوَّزُ فِى صَلاَتِي کَرَاهیَةً أَنْ أَشُقَّ عَلى أُمِّهِ.» [37]
’’بے شک میں نماز کا قیام کرتا ہوں اور ارادہ رکھتا ہوں کہ قراء ت لمبی کروں، اتنے میں کسی بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو اپنی نماز(باجماعت ) مختصر کر لیتا ہوں کہ کہیں بچے کے رونے کے باعث اس کی ماں کو مشکل میں ڈال دوں۔‘‘
ذرا غور کیجیے! رحمتِ عالمﷺ نے نماز ختم ہونے کے بعد یہ نہیں فرمایا کہ چھوٹے بچوں کو مسجد میں نہ لایا کریں۔ اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ ایسی مائیں گھر ہی نماز پڑھ لیا کریں، حالانکہ عورت کا نماز کے لیے مسجد میں آنا ضروری بھی نہیں۔ اس کے باوجود آپﷺنے قرآن پاک کی تلاوت مختصر کردی اور اس بچے کو یااس کی وساطت سے اس کے سر پرستوں کی عزت پر ذرا سا حرف بھی نہیں آنے دیا۔ تربیت کے سنہرے انداز اور الفاظ کے بہترین چناؤ کا اس کے سوا کچھ مقصد نہیں تھا کہ جو بھی عورت اپنے چھوٹے بچے کو ساتھ لانا چاہتی ہو وہ اسے رونے سے حتیٰ المقدور روکنے کی کوشش کرے۔
بچے کے رونے کی وجہ سے آپﷺ کی قراء ت میں یقیناً خلل واقع ہوتا ہوگا مگر آپﷺ نے اس کا اظہار بھی نہیں فرمایا بلکہ دوسروں کی سہولت کی خاطر اپنے ایسے جذبات کو ُامت کے سامنے رکھ دیا۔وارثانِ منبر ومحراب کے ذمے ہے کہ وہ سیرت کے ان پہلوؤں کا عملی اظہار کریں۔
کتنی عمر کے بچے کو مسجد میں لے جایا جائے؟
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنی عمر کے بچے مسجد آسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل چھوٹے بچے جو ماں کے ساتھ ہی رہتے ہیں، ان کی مائیں اگر مسجد آئیں گی تو ظاہر ہے انھیں بھی آنا پڑے گا۔ اور حدیث مذکور میں ایسے ہی بچے کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح پارہ پڑھنے کے لیے بھی عمر کی کوئی قید نہیں، چھوٹے سے چھوٹے بچے جیسے 4،3 سال یا اس سے بڑے بھی جائیں مگر جہاں تک مسجد میں جماعت کے ساتھ یا جمعے میں شریک ہونے کا تعلق ہے تو بچوں کو اس وقت لے جانا چاہیے جب انھیں کچھ نہ کچھ شعور آجائے۔ اور وہ خاموشی اختیار کر سکیں۔ بعض اوقات ایسے چھوٹے بچے نماز یا جمعے کی خرابی کا باعث بن جاتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے اس حوالے سے جو راہ نمائی فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ
«مُرُوا صِبْیَانَکُمْ بِالصَّلاَةِ إِذَا بَلَغُوا سَبْعًا.»[38]
’’ اپنے بچوں کو نماز کا کہو جب وہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں۔‘‘
آپﷺ نے سات سال سے پہلے نماز کی طرف راغب کرنے کی تلقین نہیں فرمائی۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اس میں حکمت ہے۔ آخر 5،4یا 6 سال کے بجائے 7 سال کی حد بندی کی گئی ہے تو یہ ہمیں بتا رہی ہے کہ اتنی عمر کے بچے کو کچھ نہ کچھ شعور آجاتا ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«لَوْلا مَا فِي الْبُیُوتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالذُّرِّیَّةِ أَقَمْتُ صَلاَةَ الْعِشَاءِ وَأَمَرْتُ فِتْیَانِي یُحَرِّقُونَ مَا فِي الْبُیُوتِ بِالنَّارِ.»[39]
’’ اگر گھروں میں عورتیں یا بچے نہ ہوں تو میں عشاء کی جماعت کراؤں اور نہ آنے والوں کے متعلق نوجوانوں کو حکم دوں کہ وہ اُن کو گھروں سمیت جلا دیں۔‘‘
غرضیکہ چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا بلکہ گھروں میں رہنے کا اشارہ موجود ہے۔ دراصل 7 سال سے کم عمر کے بچے عمومی طور پر مسجد میں کھیل کود حتی کہ پاکی پلیدی کا خیال بھی نہیں رکھتے اور نماز و جمعہ میں کل وقتی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ واللّٰہ اعلم!
اور بعض اوقات بچوں کی وجہ سے بڑے لڑ بھی پڑتے ہیں۔
یہاں تک بات تھی مقتدی حضرات یا محلے کے بچوں کے ساتھ ائمہ کرام اور مدرسین کے سلوک کی۔ یہاں تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے کہ بعض افراد کی طرف سے امام یا خطیب کے بچوں کے ساتھ یاان بچوں کی وجہ سے ائمہ یا خطبا سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔
کئی نمازی یا سامعین تو امام یا خطیب کے بچوں کو مسجد میں دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ اُنھیں ڈانٹتے ہیں، انھیں مرعوب رکھتے ہیں، ان سے حقارت آمیز سلوک کرتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہوتی ہے کہ محلے کے لوگ اپنے امام کو ملازم سمجھتے ہیں۔ ایسے نمازیوں کے لیے بھی آپﷺ نے روشن مثال ہمارے سامنے رکھی ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے راوی بھی سیدنا ابو قتادہؓ ہی ہیں جو مذکورہ حدیث کے راوی تھے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
«أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ کَانَ یُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتِ زَیْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِیعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا.»[40]
’’بے شک رسول اللّٰہﷺ نماز پڑھاتے اور اپنی نواسی اور ابو العاص بن ربیعہ (ربیع)ؓ کی بیٹی امامہ بنت زینبؓ کو اٹھائے ہوئے ہوتے۔ پھر جب آپ سجدہ کرتے انھیں (نیچے) رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اُٹھا لیتے۔‘‘
صحیح مسلم میں یہ وضاحت بھی ہے کہ آپﷺ نماز کروا رہے ہوتے۔
[41]
ہمارے ہاں نماز میں بچے اُٹھانے کا تصور بھی نہیں مگر امام صاحب کے بچے یا پوتے، نواسے اگر والد یا دادا جان یا نانا جان کی قراء ت سن کر یا ان سے اُنسیت کی بنا پر مسجد آہی گئے ہیں تو بعض افراد کی طرف سے یہ بہت بڑا اعتراض بن جاتا ہے۔ مذکورہ حدیث کی رُو سے ایسے مقتدی حضرات کو رویے میں نرمی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ نبی کریمﷺ سے زیادہ خشوع و خضوع کا خیال رکھنے والے نہیں ہوسکتے۔
[42]
اگر مقتدی درس یا وعظ نہ سنیں؟
راقم کے مشاہدے کے مطابق امام یا خطیب اس شخص کو اچھا نہیں سمجھتے جو ان کے وعظ یا درس نہیں سنتے۔ ان سے ایک چڑ اور خار رکھتے ہیں کہ یہ ہمیں اہمیت کیوں نہیں دیتے؟ ہماری بات کیوں نہیں سنتے؟ حالانکہ نبی کریمﷺ بھی خطبہ عید کے لیے لوگوں کو اختیار دے دیا کرتے تھے۔ سیدنا عبداللّٰہ بن سائب کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے عید کی نماز پڑھائی اور فرمایا:
«مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَّنْصَرِفَ فَلْیَنْصَرِفْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُّقِیمَ لِلْخُطْبَةِ فَلْیُقِمْ.»[43]
’’جو واپس جانا پسند کرتا ہے وہ چلا جائے اور جو خطبے کے لیے ٹھہرنا چاہتا ہے، وہ ٹھہرا رہے۔ ‘‘
اس سہولت اور اجازت کے برعکس میں نے خود کئی ائمہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جس نے خطبہ نہ سنا ،اس کی عید نہیں ہے!! کاش ائمہ و خطبا بھی قلب و نظر میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ بعض خطبا اس بات پر راضی نہیں ہوتے کہ زیادہ تر افراد تو ان کا درس سننے کے لیے تیار ہیں، بلکہ اُٹھ کر جانے والے دو تین افراد کی ٹینشن لے رہے ہوتے ہیں ...آخر کیوں؟ کیا کسی کو زبردستی کچھ سنایا جاسکتا ہے؟ یہ تو لوگوں کی اپنی خوش بختی یا بدبختی ہوتی ہے۔ ان کے حصول اور محرومی میں ائمہ کا کردار تو تذکیر اور یاد دہانی کی حد تک ہی ہوسکتا ہے۔
ایک دفعہ نبی کریمﷺ مسجد میں صحابہ کرام کے جلو میں تشریف فرما تھے۔ اس دوران تین افراد آئے۔ ان میں سے دو نبیﷺ کے پاس آگئے اور ایک (باہر ہی سے) چلا گیا۔(اندر آنے والے وہ) دو افراد رسول اللّٰہﷺ کے پاس جا کر ٹھہرے۔ پھر ان دونوں میں سے ایک نے مجلس میں خالی جگہ دیکھی اور جا کر بیٹھ گیا اور دوسرا مجلس کے آخر ہی میں بیٹھ گیا۔ رسول اللّٰہﷺ جب (وعظ) سے فارغ ہوئے تو فرمایا:
«أَلاَ أُخْبِرُکُمْ عَنِ النَّفَرِ الثَّلاَثَةِ. أَمَّا أَحَدُهُمْ: فَأَوَی إِلَى اللهِ، فَآوَاهُ اللهُ، وَأَمَّا الآخَرُ: فَاسْتَحْیَا، فَاسْتَحْیَا اللهُ مِنْهُ، وَأَمَّا الآخَرُ: فَأَعْرَضَ، فَأَعْرَضَ اللهُ عَنْهُ.» [44]
’’کیا میں ان تین لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں۔ ان میں سے ایک نے تو اللّٰہ کی طرف جگہ بنائی تو اللّٰہ نے بھی اسے اپنی طرف جگہ دی۔ اور دوسرے نے شرم محسوس کی اور (مجلس سے رخ نہ پھیرا) تو اللّٰہ تعالیٰ نے بھی اس کی حیا کی اور تیسرا شخص رخ موڑ گیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے بھی اس سے رخ موڑ لیا۔‘‘
اس حدیث میں ائمہ و خطبا کے لیے کس قدر واضح سبق ہے کہ اگر کچھ لوگ اپنی شومئ قسمت کی بنا پر نبوی مجلس سے رخ موڑ لیتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے آپ کے وعظ و دروس کیا حیثیت رکھتے ہیں؟
امام سے بھی غلطی ممکن ہے!
نماز میں بھول جانے کے واقعے والی حدیث ہمیں واضح بتا رہی ہے کہ امام سے بھول چوک یا غلطی کا ہو جانا بعید نہیں۔ اس میں ائمہ کے لیے سبق ہے اور مقتدی حضرات کے لیے بھی۔ مقتدیوں کے لیے تو یہ ہے کہ وہ ائمہ کرام کو فرشتہ نہ سمجھیں بلکہ انسان ہی گردانیں اور یہ جان لیں جیسے اُن سے اپنے اپنے میدان میں بھول چوک ہو جاتی ہے اور غلطیاں لگ جاتی ہیں، اسی طرح ائمہ بھی اپنے فرض میں غلطی و نسیان کا شکار ہوسکتے ہیں۔
اور ائمہ کے لیے سبق یہ ہے کہ وہ اسے عزتِ نفس کا مسئلہ نہ بنا لیں بلکہ اقرار کریں کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے یا میں بھول گیا ہوں۔ اس سے ان کے وقار میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا۔ نبی کریمﷺ ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کہ نماز میں (کوئی معمولی سا) فرق آیا۔ آپ سے عرض کی گئی: اللّٰہ کے رسول! نماز میں کوئی فرق آگیا ہے؟ فرمایا: ’’بات کیا ہے؟‘‘ عرض کی: آپ نے ایسے اور طرح نماز پڑھائی ہے۔ اس دوران آپ دو زانو ہو کر بیٹھے، قبلے کی طرف رخ کیا اور دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے:
«إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْئٌ لَنَبَّأتُکُمْ.»
’’حقیقت تو یہ ہے کہ اگر نماز میں کوئی نیا طریقہ آیا ہوتا تو میں تمھیں ضرور آگاہ کر دیتا۔ ‘‘
«إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ أَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِي.» [45]
’’سوائے اس کے نہیں، میں تمہاری طرح بشر ہی ہوں۔ جس طرح تم بھول جایا کرتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں، تو جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔‘‘
نبی ﷺ نے اُمت کے ائمہ کے لیے بہترین طرزِ عمل اختیار فرمایا ہے کہ اگر کسی سے نماز پڑھاتے ہوئے غلطی یا بھول چوک ہو جائے تو وہ کھلے دل سے اس کا اعتراف کرے کیونکہ آخر وہ بھی ایک انسان ہی ہے۔
صحابہ کرام نبی کریمﷺ کے ادب و احترام کا خیال رکھتے تھے۔ اوپر ذکر کی گئی دونوں احادیث میں صحابہ نے سوالیہ انداز ہی میں دریافت کیا۔ لہٰذا اگر امام صاحب بھول جائیں تو مقتدیوں کو بھی عمدہ انداز اختیار کرنا چاہیے۔ مگر بعض اوقات مقتدیوں کی طرف سے بڑے تلخ جملے سننے کو ملتے ہیں۔ مثلاً: خیر تو ہے؟ آپ کہاں پہنچے ہوئے تھے؟ اور پھر اس میں پوچھنے والے کا انداز اور اپنی اپنی بولی کی چاشنی اور اشارے اضافی ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے والوں کی اکثریت محض بزم آرائی کے لیے یا امام صاحب کا مقام کم کرنے کے لیے ایسا کرتی ہے کیونکہ نماز تو ہو چکی ہوتی ہے۔
شاید ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ائمہ کی وجہ سے ان کے ثواب میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
رسول اکرمﷺ نے اسی ضمن میں راہ نمائی کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا:
«یُصَلُّونَ لَکُمْ فَإِنْ أَصَابُوا فَلَکُمْ وَلَهُمْ، وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَکُمْ وَعَلَیْهِمْ.» [46]
’’ائمہ تمہیں نماز پڑھاتے ہیں۔ تو اگر وہ صحیح پڑھائیں تو تمہارے لیے بھی اجر ہے اور ان کے لیے بھی اور اگر ان سے غلطی سرزد ہو تو تمہارا اجر تو تمھیں ملے گا مگر غلطی کی سزا ان پر ہوگی۔ ‘‘
لہٰذا مقتدیوں کو خواہ مخواہ کڑھنے کی بجائے اس حدیث کی روشنی میں مطمئن ہو جانا چاہیے اور یہی اس حدیث کا مقصد ہے۔ اگرچہ اس حدیث کے بعض طرق میں ائمہ کی خطا سے مراد نماز کو مؤخر کرنا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں:
«فَإِنْ صَلُّوا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا فَأَتَمُّوا الرُّکُوعَ والسُّجُودَ فَهِيَ لَکُمْ وَلَهُمْ...» [47]
’’تو اگر وہ وقت پر نماز پڑھائیں اور رکوع و سجود پورے کریں تو تمہارے لیے بھی اجر ہے اور ان کے لیے بھی۔‘‘
مقتدی حضرات کی حساسیت
مقتدی حضرات کو ائمہ سے یہ گلہ بھی رہتا ہے کہ ائمہ سب کے سامنے کوئی مسئلہ سمجھانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ ایسے امام کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہوتے جو کسی کو متعین کرکے کوئی مسئلہ سمجھائے۔ بالفرض اگر امام نے صفیں درست کراتے ہوئے کسی نمازی کو مخاطب کرکے کہہ دیا کہ آپ تھوڑا سا آگے یا پیچھے ہو جائیں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو اسی بات سے امام سے کھچے کھچے رہنے لگتے ہیں۔
یہ بات تو درست ہے کہ آپﷺ کوئی غلطی دیکھتے تو عمومی طور پر اس کا تذکرہ فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ لیکن کیا کسی ایک کو خاص کرکے آپﷺنے ٹوکا نہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ آپﷺ ایسی کوئی بات دیکھتے یا محسوس کرتے تو سرعام یہ سوال بھی فرما لیتے تھے کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ اور سرِ عام پوچھنے کا مقصد یہی ہوتا تھا کہ سب کی اصلاح ہو جائے۔ جیسا کہ سیدنا ابوبکرہؓ نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع کر لیا تو آپﷺ نے نماز ختم ہوتے ہی تمام نمازیوں سے فرمایا:
«أَیّکُمُ الَّذِي رَکَعَ دُونَ الصَّفِّ ثُمَّ مَشٰی إِلَى الصَّفِّ.»[48]
’’تم میں سے کس نے صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا تھا پھر بعد میں چل کر صف میں شامل ہوا تھا؟
ابوبکرہؓ نے عرض کیا: میں نے ۔‘‘
اس حدیث میں کس قدر واضح ہے کہ کسی نے غلطی کی ہو تو اسے مخاطب کرکے سرِ عام سمجھایا جاسکتا ہے۔ مگر سمجھانے میں بہتر سے بہتر اُسلوب اختیار کرنا امام کی ذمے داری ہے۔ نبی کریمﷺ نے ان کی غلطی کو غلطی کا روپ دینے کے بجائے نیکی کی چاہت اور حرص سے تعبیر کرکے ان کے حوصلے کو بڑھا دیا۔
مسجد انتظامیہ کی ضرورت
عہد نبوت میں امام اور مؤذن کے تقرر کے دلائل تو ملتے ہیں مگر علیحدہ سے کسی انتظامیہ کا وجود نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ تو یہ ہے کہ نہ بلند و بالا فرنشڈ اور ائیر کنڈیشنڈ مساجد تھیں اور نہ لمبے چوڑے اخراجات اور نہ ہی بلوں کی ادائیگی کی ضرورت ...جہاں تک مسجد کی صفائی کا تعلق تھا تو اس دور کے لوگوں کو اس کی جزا سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ بس ان کے لیے یہی کافی تھا۔ آپﷺ نے ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:
«عُرِضَتْ عَلَيَّ أُجُورُ أُمَّتِي حَتَّی الْقَذَاةُ یُخْرِجُهَا الرَّجُلُ مِنَ الْـمَسْجِدِ» [49]
’’مجھ پر میری امت کے اجر پیش کیے گئے حتی کہ وہ تنکا بھی جسے ایک شخص (صفائی کے لیے) مسجد سے نکالتا ہے۔‘‘
ہاں! رضاکارانہ طور پر کسی نے صفائی کی ذمہ داری لے لی ہو تو یہ علیحدہ بات ہے جیسا کہ عہدِ نبوی میں ایک سیاہ فام مرد یا خاتون مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔
[50]
اصل شرعی طریقہ تو یہ ہے کہ مساجد کا قیام اور اس کے اخراجات سمیت امام ومؤذن کا تقرر مسلمان حاکم کی ذمہ داری ہے، جیسا کہ پیچھے سعودی عرب میں مروّجہ نظام مساجد کا ذکر ہوا۔ جب مسلمان حاکم اپنی ان ذمہ داریوں سے غافل ہوگئے تو مسجد کے بہت سے انتظامات، ضروریات اور تقاضوں کے لیے انتظامیہ کی ضرورت ہے جس کا مقصد مسجد کی آباد کاری اور للہیت ہونا چاہیے، نہ کہ وہ اس عظیم سعادت کو فخر و رِیا اور شہرت و سیاست کی بھینٹ چڑھا دیں۔ اس وقت تک معاملات صحیح سمت چلتے رہتے ہیں، جب انتظامیہ اور ائمہ اپنے اپنے حقوق سے عہدہ برآ ہوتے رہیں۔ اور معاملات اس وقت بگڑ جاتے ہیں جب ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کی جاتی ہے اور ایک دوسرے کی حیثیت کو قبول نہیں کیا جاتا۔
اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو مساجد آباد کرنے کی توفیق دے اور ائمہ کرام اور خطبا حضرات کو سنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق بخشے اور مقتدی حضرات کو بھی ائمہ کا مقام پہچاننے کی صلاحیت سے نوازے۔ آمین!
حوالہ جات:
[1] صحيح البخاري، كِتَابُ الصَّلاَةِ، بَابُ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ المَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ :444
[2] صحيح البخاري، كِتَابُ الجُمُعَةِ، بَابُ المَشْيِ إِلَى الجُمُعَةِ: 909
[3] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابٌ الرَّجُلُ يَأْتَمُّ بِالإِمَامِ وَيَأْتَمُّ النَّاسُ بِالْمَأْمُومِ: 713
[4] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ الإِمَامِ تَعْرِضُ لَهُ الحَاجَةُ بَعْدَ الإِقَامَةِ: 642
[5] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ الكَلاَمِ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ : 643
[6] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ الإِمَامِ تَعْرِضُ لَهُ الحَاجَةُ بَعْدَ الإِقَامَةِ: 642
[7] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابٌ هَلْ يَخْرُجُ مِنَ المَسْجِدِ لِعِلَّةٍ؟ : 639
[8] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابٌ إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلاَةِ: 723
[9] صحيح البخاري،كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ إِقْبَالِ الإِمَامِ عَلَى النَّاسِ، عِنْدَ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ : 719
[10] السلسلۃ الصحیحۃ، حدیث : 743
[11] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ إِلْزَاقِ المَنْكِبِ بِالْمَنْكِبِ وَالقَدَمِ بِالقَدَمِ فِي الصَّفِّ : 725
[12] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابٌ إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلاَةِ : 722
[13] صحيح مسلم، کِتَابُ فَضَائِلِ القُرآنِ وَمَا يُتَعَلَّقُ بِهِ، بَابُ فَضْلِ مَنْ يَقُومُ بِالْقُرْآنِ، وَيُعَلِّمُهُ، وَفَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ حِكْمَةً مِنْ فِقْهٍ، أَوْ غَيْرِهِ فَعَمِلَ بِهَا وَعَلَّمَهَا: 817 ؛صحیح ابن خزیمہ، حدیث : 1507۔ شیخ البانی نے اس اضافے کو صحیح کہا ہے۔ (صحیح سنن ابو داود :3؍ 129)
[14] صحيح البخاري، كِتَابُ المَغَازِي، بَابٌ: ﴿إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ﴾: 4302
[15] صحيح البخاري، كِتَابُ الوُضُوءِ، بَابُ تَرْكِ النَّبِيِّ ﷺ وَالنَّاسِ الأَعْرَابِيَّ حَتَّى فَرَغَ مِنْ بَوْلِهِ فِي المَسْجِدِ: 219؛ صحيح مسلم، كِتَابُ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ غُسْلِ الْبَوْلِ وَغَيْرِهِ مِنَ النَّجَاسَاتِ إِذَا حَصَلَتْ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنَّ الْأَرْضَ تَطْهُرُ بِالْمَاءِ، مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ إِلَى حَفْرِهَا: 285 اور ترجمہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ہے۔
[16] صحيح البخاري، كِتَابُ الصَّلاَةِ، بَابُ تَشْبِيكِ الأَصَابِعِ فِي المَسْجِدِ وَغَيْرِهِ : 482
[17] سنن أبي داؤد، کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الصُّفُوفِ، بَابُ الرَّجُلِ يَرْكَعُ دُونَ الصَّفِّ : 684
[18] سنن أبي داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابُ أَخْذِ الْأَجْرِ عَلَى التَّأْذِينِ : 531
[19] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ مَنْ شَكَا إِمَامَهُ إِذَا طَوَّلَ : 705؛ صحیح مسلم، حدیث : 1069 ، 1068
[20] صحيح البخاري، کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ، بَابُ مَنَاقِبِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ : 3806
[21] سنن أبي داؤد، ابواب قيام الليل، بَابٌ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ : 1375
[22] صحيح مسلم، كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا، بَابُ اسْتِحْبَابِ تَطْوِيلِ الْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ: 772
[23] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ الإِيجَازِ فِي الصَّلاَةِ وَإِكْمَالِهَا : 706
[24] صحيح البخاري:6128؛سنن ابی داؤد:380
[25] امام کو باجماعت نماز میں گرد وپیش کے حالات سے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ لمبی نماز پڑھانے کا ارادہ کرتے لیکن بچوں کے رونے کی آواز سن کر اپنی نماز کو مختصر کردیا کرتے۔ (يَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبي...صحیح بخاری: 707)
[26] جامع الترمذي، أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوَقْتِ الأَوَّلِ مِنْ الْفَضْلِ: 174
[27] صحيح مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ، بَاب تَبَسُّمِهِ ﷺ وَحُسْنِ عِشْرَتِهِ : 2322
[28] صحيح البخاري، كِتَابُ التَّيَمُّمِ، بَابُ الصَّعِيدِ الطَّيِّبِ وَضُوءُ المُسْلِمِ، يَكْفِيهِ مِنَ المَاءِ: 344
[29] صحيح البخاري، كِتَابُ الصَّلاَةِ ، بَابُ الخَيْمَةِ فِي المَسْجِدِ لِلْمَرْضَى وَغَيْرِهِمْ: 463
[30] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِي الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ: 757
[31] سنن أبي داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابُ مَتَى يُؤْمَرُ الْغُلَامُ بِالصَّلَاةِ: 497
[32] دراصل جن عہدوں کے مطالبے کی شریعت ممانعت ہے، اُن سے بالاترین حکام کے مناصب مراد ہیں جیسے خلیفہ یا قاضی، ممبر شوریٰ ،کسی علاقے کا عامل اور امیر عساکر وغیرہ۔ یہ ایسے عہدے ہیں جو اپنے اوپر خود نگران ہوتے ہیں، ان کا تقرر حاکم وقت کی طرف سے ہوتا ہے اور یہ کسی سے رخصت ورعایت لینے کے پابند نہیں ہوتے۔ عمومی ماتحت عہدوں کے لئے تو ملازمت کے اشتہارات دیے جاتے اور ان میں متعلقہ اہلیت کے لوگ اپنی درخواستیں پیش کرتے ہیں اور یہی دنیا کا معمول ہے۔ (ح۔ م)
[33] صحیح ابن خزیمۃ :1؍161؛ السلسلۃ الصحیحۃ : 2؍ 149
[34] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِي الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ: 755
[35] سنن أبي داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابُ فِي كَرَاهِيَةِ الْبُزَاقِ فِي الْمَسْجِدِ : 481
[36] سنن أبي داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابٌ فِيمَنْ خَرَجَ يُرِيدُ الصَّلَاةَ فَسُبِقَ بِهَا : 564
[37] صحيح البخاري،كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ: 707
[38] مسند احمد بن حنبل :6689
[39] مسند احمد بن حنبل :8796
[40] صحيح البخاري، كِتَابُ الصَّلاَةِ، بَابُ إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عُنُقِهِ فِي الصَّلاَةِ : 516
[41] صحيح مسلم، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ، بَابُ جَوَازِ حَمْلَ الصِّبْيَانِ فِي الصَّلَاةِ: 543
[42] مزید تفصیل کے لئے: ’مساجد میں بچوں کی آمد اور ان کی صف بندی کے احکام‘ از ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، مجلّہ الاضواء، شیخ زید اسلامک سنٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور۔ شمارہ دسمبر 2014ء اور ہفت روزہ ’الاعتصام‘ لاہور، دسمبر 2019ء
[43] سنن النسائي، كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ، بَابُ التَّخْيِيرِ بَيْنَ الْجُلُوسِ فِي الْخُطْبَةِ لِلْعِيدَيْنِ: 1571
[44] صحيح البخاري، كِتَابُ العِلْمِ، بَابُ مَنْ قَعَدَ حَيْثُ يَنْتَهِي بِهِ المَجْلِسُ، وَمَنْ رَأَى فُرْجَةً فِي الحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيهَا: 66
[45] صحيح البخاري، كِتَابُ الصَّلاَةِ، بَابُ التَّوَجُّهِ نَحْوَ القِبْلَةِ حَيْثُ كَانَ: 401
[46] صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ إِذَا لَمْ يُتِمَّ الإِمَامُ وَأَتَمَّ مَنْ خَلْفَهُ: 694
[47] مسند احمد بن حنبل:4؍ 146
[48] سنن أبي داؤد، کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الصُّفُوفِ، بَابُ الرَّجُلِ يَرْكَعُ دُونَ الصَّفِّ: 684 ؛ صحيح البخاري، كِتَابُ الأَذَانِ، بَابُ إِذَا رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ : 783
[49] سنن أبي داؤد، كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابٌ فِي كَنْسِ الْمَسْجِدِ : 461
[50] صحيح البخاري، كِتَابُ الصَّلاَةِ، بَابُ كَنْسِ المَسْجِدِ وَالتِقَاطِ الخِرَقِ وَالقَذَى وَالعِيدَانِ: 458