مُسلم حکومت میں غیرمسلموں پرعائد شرائط

قادیانیت کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ 2018ء میں پیش کردہ اہم شرعی استدلال کی تفصیل
الشروط العمريّة ؛ شریعت اور تاریخ کے آئینے میں
اسلام کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم دونوں عبادات کی طرح سماجی اطوار میں بھی ایک دوسرے کی مشابہت سے گریز کریں ۔ اسلام اپنی مرضی سے کوئی بھی عقیدہ اختیار کرنے پر جبر کا توقائل نہیں، لیکن کسی شخص کو غیر عقیدہ کے اپنے اوپر اظہار سے منع کرتا ہے کیونکہ یہ مغالطہ آرائی ہے جو دوسروں کو اُلجھن میں ڈالتی ہے۔ جو شخص جس عقیدہ کا حامل ہو، اس کی زبان کے ساتھ وجود اور عادات سے بھی واضح ہونا چاہیے کہ وہ کس مذہب یا کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے۔مسلمانوں کے لئے غیرمسلموں کی مشابہت کا ممنوع ہونا تو ایک معروف دینی مسئلہ ہے، جس کے بہت سے دلائل ہیں، لیکن غیرمسلموں کے لئے مسلم معاشروں میں اسلامی علامات اور مشابہت سے گریزکرنا بھی شریعت کا تقاضا ہے۔ اس سلسلے کی اہم ترین شرعی اور تاریخی دستاویز خلافتِ راشدہ میں اجماع صحابہ سے طے پانے والی ’شروط عمریہ‘ ہیں ، جن کی بنیاد دراصل بہت سی احادیث نبویہ اور شرعی احکام ہیں۔ ان شرائط میں غیرمسلموں کو دو درجن کے قریب مشابہتوں سے روکا گیا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں اس دستاویز کے کتبِ حدیث وفقہ سے متون، اس کی روایات کی تحقیق وتخریج   اوراسلامی ادوار میں ان کے نفاذ کی تفصیلات کو پیش کیا گیا ہے۔
خلافتِ راشدہ کے آغاز میں جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا تو سیدنا عمر بن خطاب ﷜کے زیر نگرانی بہت سے نئے مفتوحہ علاقوں میں نئے معاہدے کئے گئے۔ ان پر صحابہ کرام ﷢سے رہنمائی حاصل کرکے ان کی مشاورت سے اسلامی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، شرعی مصالح کے پیش نظر بہت سے قوانین متعین کئے گئے۔ چنانچہ 16 ھ میں اہل شام پر اسلامی افواج جب غالب آئیں تو وہاں کے باشندوں نے اپنے طور پر بعض شرائط کی پابندی کی پیش کش کی، جس کو عساکر کے سالار سیدنا عبد الرحمن بن غنم ﷜[1] نے سیدنا عمر کے پاس منظوری کے لئے بھیجا۔ سیدنا عمر نے ان شرائط پر صحابہ کرام سے مشورہ کیا اور بعض شرائط میں ترمیم کے ساتھ ، ان کو دوبارہ اہل شام میں بھیجا، جن ترامیم کو اُنہوں نے منظور کرلیا۔ ان شرائط کی منظوری میں صحابہ کرام سے پوری طرح مشاورت ہوئی اور آخر یہ شرائط اجماعِ صحابہ سے منظور ہوگئیں۔ جن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمان اور غیرمسلم دونوں ملتیں اپنی عادات اور شعائر میں باہمی امتیاز کو قائم کریں اور ایک دوسرے سے سماجی اختلاط سے بچنے کی کوشش کریں۔
شروطِ عمریہ اور عہدِ عمریہ
انہی سالوں میں جنگِ یرموک (15ھ) کے بعد سیدنا عمر بن خطاب﷜ بیت المقدس بھی تشریف لے گئے ، جہاں اُنہوں نے بیت المقدس (ایلیا) کے باشندوں سے بھی معاہدہ کیا، جو عہدِ عمریہ (العهدة العمرية / العهد العمري) کہلاتا ہے[2] ۔ یہ عہد عمریہ نہ صرف بیت المقدس میں جبل زیتون کی قریبی مسجد عمرؓ (کنیسة القیامة کے قریب)کے باہر آج بھی کنندہ ہے، بلکہ تاریخ کی مستند کتابوں مثلاً تاریخ طبری اور تاریخ یعقوبی [3] اور البدایہ والنہایہ از حافظ ابن کثیر میں اس کا تذکرہ ملتاہے۔ اس کا متن ابن بطریق اور ابن الجوزی نے بیان کیا ہے۔
عہد عمریہ اور شروطِ عمریہ میں فرق ہے، اوّل الذکر بیت المقدس کے باشندوں سے ہوا، جبکہ شروطِ عمریہ اہل شام کے باقی علاقوں سے ہوئیں۔
عہدِ عمریہ اور شروط عمریہ میں کوئی ٹکڑاؤ نہیں بلکہ عہد عمریہ میں اجمال واختصار ہے، جبکہ شروطِ عمریہ دو درجن کے قریب شرائط پر مشتمل ہیں، اور ان میں کافی تفصیل ہے۔
عہدِعمریہ سیدنا عمر نے خود 15 ھ میں کیا ہے،جب بطریرک صفری نیوس نے اُنہیں چابیاں دینے کے لئے بلایا تھا۔ جبکہ شروطِ عمریہ کی پیش کش اہل شام نے سیدنا عبد الرحمٰن بن غنم کے توسط سے 16 ھ میں کی ہے اور مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے سیدنا عمر نے صحابہ کرام کی مشاورت سے اس میں بعض اصلاحات کرکےان کو اہل شام کو منظوری کے لئے بھیجا ہے ۔
دونوں کی اسانید اور خصوصیات میں مزید فرق بھی ہیں۔ بعض لوگ عہد عمریہ کو تو مستند مانتے ہیں، لیکن شروط عمریہ کے ثبوت پر شبہات پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ شروط عمریہ کا متن کتبِ حدیث میں آتا ہے، اور سب سے پہلا متن مسند احمد اور اس کے بعد سنن بیہقی میں موجود ہے۔ چونکہ اردو زبان میں اس بارے میں کوئی مضمون یا کتاب راقم کی نظر سے نہیں گزری، جبکہ یہ خیر القرون اور اسلامی ادوار کی ایک مستند ومسلّمہ اور اہم دستاویز ہے، اس بنا پر اولین مرحلہ میں اس کے عربی متن، اس کی سند ی و شرعی حیثیت ، اور تاریخ اسلامی میں اس کے وجود کو متعدد عربی مستند کتب سے تفصیلاً پیش کیا جارہا ہے۔
شروطِ عمریہ کی موجودہ دور میں سیاسی اہمیت ومعنویت
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں عام طور پرمیثاقِ مدینہ کو بنیادی دستاویز بلکہ قومی اور دائمی دستور کے طور پربھی پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہود کے ساتھ ’معاہدہ مدینہ ‘ کی مستند حیثیت پر اُٹھائے جانے والے اہم اعتراضات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دورِ نبوی 5 ھ میں ہی یہودِ مدینہ کو خیبر کی طرف جلا وطن کردینے کے بعد یہ معاہدہ ختم ہوگیا تھا ۔ اس کے بعد دورِ نبوی، دورِ خلافت راشدہ ، اور چودہ صدیوں کی مسلم خلافتوں میں اس میثاق کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا، جسے مسلم دستور کا عنوان دیا گیا ہے۔
سیاسہ شرعیہ کا بنیادی سوال یہ ہے کہ اس غیر مستند اور منسوخ شدہ ’معاہدہ مدینہ‘ کو غیرمسلموں کے حقوق کے سلسلے میں بنیاد کی حیثیت دی جائے، یا ’شروطِ عمریہ‘ کے نام سے اس دستاویز کو غیرمسلموں کے حقوق کے سلسلے میں اصل اہمیت دی جائے جو 16ھ میں صحابہ کرام﷢ کے اجماع کے ساتھ نہ صرف نافذ ہوئیں، بلکہ اسی مضمون میں تاریخی شواہد سے ثابت کیا گیا ہے کہ 13 صدیوں میں ہر دور کی مسلم حکومت نے غیرمسلموں کے ساتھ انہی شرائط کو برقرار رکھا ہے۔
٭ مقالے کے آخری حصّے میں مسلمانوں اور غیرمسلموں ، دونوں کے مابین امتیاز وتشخص قائم رہنے کی حکمتوں پر بھی مفصل بات کی گئی ہے، تاہم مسلم معاشرے میں دونوں کے مابین شرعی احکام میں فرق ہونے کی بنا پر بھی شروطِ عمریہ کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔دیگر غیرمسلموں سے قطع نظر ، ہمارے دور میں قادیانیت کے نمودار ہونے کے بعدان امتیازا ت کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ باقی غیرمسلم تو اسلام کا دعویٰ نہیں کرتے، اور اسلامی شعائر وعلامات کو استعمال نہیں کرتے جبکہ قادیانی نہ صرف اسلام کا نام، کلمہ، نبی اسلام محمد ﷺ کے نام، صحابہ وازواج مطہرات کے القاب، بلکہ جملہ اسلامی شعائر کو اپنے مذہب کے لئے استعمال کرتے ہیں، جبکہ سید المرسلینﷺ کے اسم گرامی ’محمد‘ کو بول کر اس سے مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت مراد لیتے ہیں۔ اس طرح وہ اسلام اور مسلمانوں میں ناجائز طور پر شامل ہونا چاہتے ہیں۔ جبکہ اُنہوں نے ختم نبوت کا انکار کردیا تو ان کا دین اسلام کی بجائے ایک مستقل دین بن گیاہے۔قادیانی مسلمانوں کو کافر اور اسلام کی تمام عظمتیں ہتھیا کراپنے آپ کو مسلمان باور کراتے ہیں۔ جب ان کے بارے میں دستور وقانون کو بھی منظور کیا جاتا ہے ، اور اجماع اُمتِ سے انہیں کافر قرار دیا جاتا ہے ، تب بھی اس کو تسلیم کرنے کی بجائے دھوکہ دہی سے مسلمانوں میں گھسے رہنا ہی چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں شروطِ عمریہ جیسی شرائط وہ شرعی بنیاد فراہم کرتی ہے، کہ قادیانی جیسے غیرمسلموں کو اسلامی شعائر استعمال کرنے سے ہر حال میں روکنا شریعت کا تقاضا ہے، جس پر صحابہ کرام کے اجماع کی بناپر ، ٹھوس شرعی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں مسلم اور غیر مسلم کے مابین اسی فرق وامتیاز کو قائم کرنے کے لئے قادیانیوں کے لئے درج ذیل اسلامی اصطلاحات کا استعمال ممنوع اور باعثِ سزا قرار پایا، چنانچہ 1984ء میں قانون امتناع آرڈیننس کے ذریعے مجموعہ تعزیرات پاکستان میں درج ذیل جرائم اور ان کی سزاؤں کا اضافہ کیا گیا:
’’298بی: بعض مقدس شخصیات یا مقامات کے لئے مخصوص القاب، اوصاف یا خطابات وغیرہ کا ناجائز استعمال :
(١) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو ’احمدی‘ یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے
(الف) محمد ﷺکے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی شخص کو امیرالمومنین، خلیفۃ المومنین، خلیفۃالمسلمین، صحابی یا ﷜کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے۔
(ب) حضرت محمد ﷺکی کسی زوجہ مطہرہ کے علاوہ کسی ذات کو اُمّ المومنین کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے۔
(ج) حضرت محمد ﷺ کے خاندان (اہل بیت) کے کسی فرد کے علاوہ کسی شخص کو اہل بیت کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے یا۔
(د) اپنی عبادت گاہ کو ‘مسجد‘ کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے۔
تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔
(٢) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو’احمدی‘ یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری، یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب میں عبادت کے لئے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں تو اسے کسی قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو تین سال ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب بھی ہو گا۔
298سی:قادیانی گروپ وغیرہ کا شخص جو خود کو مسلمان کہے: قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو ’احمدی‘ یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو بلاواسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم کرے یا منسوب کرے یا الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔‘‘[4]
اس دھوکہ دہی اور اسلام میں مداخلت کو روکنے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلہ میں یہ قرار دیا کہ
’’قادیانی حکمتِ عملی اس سوداگر کے فراڈ سے گہری مماثلت رکھتی ہے جو اپنے گھٹیا سامان کو ایک شہرت یافتہ فرم کا اعلیٰ قسم کا معروف سامان ظاہر کرکے چلتا کرتا ہے۔ قادیانی یہ تسلیم کرلیں کہ ان کی تبلیغ اسلا م کے لئے نہیں بلکہ کسی اور مذہب کی طرف ہے تو بے خبر مسلمان بھی اپنے ایمان کو چھوڑ کر کفر قبول کرنے سے نفرت کریں گے، بلکہ اُلٹا قادیانیوں کے دلوں سے احمدیت کا طلسم ٹوٹ جائے گا۔ اگر قادیانی آئینی دفعات کی پابندی کرتے تو اس (امتناع قادیانیت) آرڈیننس کے نفاذ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔‘‘[5]
اور اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ بھی اپنے فیصلے میں ایسے ہی ریمارکس دے چکا ہے۔ [6]
بعد ازاں جولائی 2018ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے محترم جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی اپنے تاریخی فیصلہ میں امتناع قادیانیت کے قانون کی مزید وضاحت کرتے ہوئے، درج ذیل اقدامات لازمی قرار[7] دیے ہیں:
’’اہم سرکاری ؍شناختی دستاویزات، اور تمام سرکاری محکموں میں تقرری سے قبل ختم نبوت کا حلف نامہ ضروری ہے۔ نیزقومی ادارہ شناخت ’نادرا‘ میں مذہبی کوائف میں ترمیم کو محدود کیا جائے۔ اور ریاست شہریوں کو اپنی شناخت چھپانے سے روکتے ہوئے، ایسا قانون لائے جس میں ان کا مذہبی تشخص متعین ہوسکے، کیونکہ پاکستان کے بہت سے قوانین مذہبی تشخص کی بناپر شہری حقوق وفرائض میں امتیاز کرتے ہیں۔‘‘ مختصراً[8]
٭ پاکستان جیسے ملک میں یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے اس طرح کے امتیاز کی ضرورت شاید قدرے کم ہو، جتنی یہ ضرورت قادیانیوں کے بارے میں ہے کیونکہ عیسائی یہودی نہ تو اسلام کا نام استعمال کرکے مسلمانوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے اور نہ ان کے سماجی وشہری حقوق میں دخل اندازی کرتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کو سنگین گالیاں دے کر ان کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ مسلمانوں کے شعائر وعلامات پر قبضہ جماکر ان کو منسوخ دین بتاکر اپنی مذہبی دکان چمکانا چاہتے ہیں ۔اس لئے قادیانیوں کے مغالطوں سے بچنے کے لئے یہ شروط عمریہ انتہائی اہمیت رکھتی ہیں۔
٭ شروطِ عمریہ کی مثال فی زمانہ یورپ کے اکثر ممالک میں حجاب اورمساجد کے میناروں پر لگائی جانے والی پابندی سے دی جاسکتی ہے۔تاہم اسلام نے زیادہ متوازن اور معتدل بنیاد پر غیرمسلموں پر شرائط لاگو کی ہیں کہ غیرمسلموں کے لئے اپنے شعائر وعلامات پر عمل کرنا جائز تو ہے، لیکن مسلمانوں کے علاقے، بازار اور ایسے مقامات جہاں مغالطے کا خوف ہو، تو وہاں اس دھوکے کے احتمال کا سد باب کیا جائے۔ جب کہ اہل یورپ اس کی وجہ یوں پیش کرتے ہیں:
’’ہم لوگوں کو اسکی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ کھلم کھلا اپنے ہدایت یافتہ ہونے کا اظہار کریں۔ ‘‘
’’مساجد کے لمبے لمبے مینار یورپ میں اسلام کی مذہبی اور سیاسی طاقت کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔‘‘[9]
تو اہل مغرب کی یہ توجیہ ، دراصل دھوکہ دہی سے بڑھ کر ان کے داخلی خوف کی غماز ہے، جو انہیں ایک ہدایت یافتہ اور کامل نظام حیات ’اسلام‘ سے ہمہ وقت لاحق ہے۔ نیز شروطِ عمریہ جیسے مذہبی ضوابط کا مسلمانوں کے ہاں تو جواز اور ضرورت سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اسلام   سمیت تمام مذاہب نے مذہب کی بنا پر ہی معاشرے کی اجتماعیت کو قائم کیا اور اسی بنا پر سیاسی نظام بھی پیش کیا ہے۔ اسلام ایک نظریاتی حکومت اور معاشرت کا داعی ہے جیساکہ دارالاسلام اور دار الحرب یا دار الکفر کی اصطلاحات اس کی غمازی کرتی ہیں۔
جبکہ اہل یورپ مذہب کو سیاست واجتماعیت میں نظرانداز کرکے ، کثیر المذہبی معاشرے کے داعی ہیں۔ اہل مغرب کا سیاسی نظریہ مذہب کی بجائے وطن اورعلاقہ ، یعنی وطنیت کی بنا پر قائم ہوتا ہے۔ وہ معاشرے میں مذہب کی بناپر کسی امتیاز کے قائل نہیں ،بلکہ اس کے مخالف ہیں، اور تمام شہریوں ؍ ایک وطن کے باسیوں کے برابر حقوق کے داعی ہیں۔ پھر بھی اگر وہ مذہبی امتیاز قائم کریں تو گویا اپنے سیکولرزم پر قائم نظریۂ ریاست کے برخلاف ان کا یہ اقدام ، ان کی فکری اساسات سے متصادم ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر یورپی معاشروں میں مسلمانوں کے شعائر پر پابندی بلاجواز اور درحقیقت مغربی نظریات کی اپنے گھر سے شکست وریخت کے مترادف ہے۔
فہم شریعت میں سیدنا عمر بن خطابؓ کا مقام
اس موضوع پر آگے بڑھنے سے قبل یہ واضح کرنا مناسب ہے کہ سیدنا عمر فاروق کا صحابہ کرام﷢ میں کیا مقام تھا، ان کی سیاسی اصلاحات کی دین میں کیا حیثیت ہے اور نبی کریم ﷺنے ان کے بارے میں امت کو کیا ہدایت دی ہے۔
1.  سیدنا عبد اللّٰہ بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :
«اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي مِنْ أَصْحَابِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ»[10] 
’’تم ان دونوں کی پیروی کروجو میرے اصحاب میں سے میرے بعد ہوں گے یعنی ابوبکر وعمر کی ...‘‘
امام ابن ابی العز الحنفی لکھتے ہیں:
وَتَرْتِيبُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ فِي الْفَضْلِ، كَتَرْتِيبِهِمْ فِي الْخِلَافَةِ، وَلِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مِنَ الْمَزِيَّةِ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَنَا بِاتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، وَلَمْ يَأْمُرْنَا بالاقْتِدَاءِ فِي الْأَفْعَالِ إِلَّا بِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَقَالَ: «اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي: أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ»، وَفَرْقٌ بَيْنَ اتِّبَاعِ سُنَّتِهِمُ وَالِاقْتِدَاءِ بِهِم ، فَحَالُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَوْقَ حَالِ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ ...[11]
’’خلفاے راشدین کی فضیلت میں بھی وہی ترتیب ہے جو ان کی خلافت کی ترتیبِ (زمانی) ہے۔ اور سیدنا ابو بکر وعمر کو کچھ مزید امتیاز بھی حاصل ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے ہمیں خلفاے راشدین کی سنت کی اتباع کا حکم دیا ہے، لیکن سیدنا ابوبکر وعمر کے افعال کی اقتدا کا بھی پابند کیا ہے۔ تو فرمایا: میرے بعد آنے والے دو صحابہ کی اقتدا کرو: ابوبکر وعمر۔ اور ان کی سنت کی اتباع اور اقتدا میں فرق ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر وعمر کا سیدنا عثمان وعلی سے (اقتدا وفضیلت) میں مقام بلند ہے۔ ‘‘
2.  سیدنا عرباض بن ساریہ ﷜سے مروی ہےکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ»[12]
’’اور تم میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو اختیار کرنا، اسے ڈاڑھوں سے پکڑ کر رکھنا، (اس پر مضبوطی سے قائم رہنا)۔‘‘
جب نبی مکرمﷺ نے خلفاے راشدین ﷢کی اتباع کا لفظ بولا تو اس سے خلافت یعنی سیاسہ شرعیہ( اجتماعی مصالح) پر مبنی اقدامات میں ان کی اتباع مراد ہے، کیونکہ اس باب میں ہی خلفاے راشد ین کو باقی صحابہ پر امتیاز حاصل ہے۔ اور جن احادیث میں نبی کریمﷺ نے اس فرقہ ناجیہ کے طور پر اپنے اور صحابہ کرام کے منہاج کی بات کی ہے تو اس سے بھی صحابہ کرام کا اسلام پر عمل کرنے کا اجتماعی رویہ مراد ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ انفرادی و اجتماعی ہدایات دیا کرتے اور صحابہ اس پر ہر طرح سے عمل پیرا ہوتے۔ تو اس لحاظ سے صحابہ کرام کے معاشرے یعنی خیر القرون کو باقی معاشروں پر فوقیت حاصل ہے کہ ان میں جاری ہونے والے اجتماعی رویے   اسلام کی درست ترجمانی کرتے ہیں۔
3.  سیدنا عبد اللّٰہ بن عمر ﷜سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :
«إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ». وقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ فَقَالُوا فِيهِ وَقَالَ فِيهِ عُمَرُ ــ أَوْ قَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ، فِيهِ شَكَّ خَارِجَةُ ــ إِلَّا نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلَى نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ[13]
’’اللّٰہ تعالیٰ نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری فرمادیا ہے۔عبداللّٰہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں لوگوں نے اپنی رائیں پیش کیں ہوں اور عمر بن خطاب نے (راوی خارجہ کو شک ہوگیا ہے )بھی رائے دی ہو۔مگر قرآن اس واقعہ سے متعلق عمر ؓ کی اپنی رائے کے موافق نہ اُترا ہو۔‘‘
نبی کریمﷺ کے اسی فرمان کی بنا پر سیدنا عمر بن عبد العزیز نے مالِ فے کے انہی مصارف کو اختیار کیا جو سیدنا عمر نے اپنے عہد میں طے کردیے تھے، اور مسلمانوں نے بھی اس کو ہی عدل پر مبنی پایا تھا۔اور وہ یہ تھے کہ مالِ فے صرف مسلمانوں کو ملے گا، اہل ذمّہ کو نہیں ، جن کا خمس یا غنیمت میں بھی کوئی حصہ نہیں [14]۔اسی طرح سیدنا عمر بن عبد العزیز نے شروطِ عمریہ کے بارے میں بھی وہی موقف اختیار کیا ہے جو سیدنا عمر بن خطاب نے صحابہ کرام کے اجماع سے طے کردیا تھا، تفصیل آگے آرہی ہے۔
شروطِ عمریہ اور احادیث وآثار
شروط ِ عمریہ کی تفصیلات مختلف ذرائع سے ملتی ہیں۔ خیرالقرون کی ایک اہم دستاویز ہونے کے ناطے یہ شرائط کتبِ حدیث میں بھی ہیں ، اور کتب تاریخ میں بھی۔ اور اہم فقہی احکام کی حامل ہونے کی بناپر فقہی کتب میں بھی ان کا تذکرہ ملتاہے، جیسا کہ اس کی تفصیلات آرہی ہیں۔
شروطِ عمریہ کتبِ حدیث میں مختلف اسناد کے ساتھ ملتی ہیں، جن میں بعض مجمل ہیں اور بعض مفصل، بعض کی اسناد میں کوئی علت اور بعض صحیح السند۔ بعض روایات میں شروطِ عمریہ سیدنا عمر سے ثابت ہوتی ہیں اور بعض میں سیدنا عمربن عبد العزیز اور دیگر خلفاے اسلام سے۔ ملاحظہ فرمائیں:
1.     عبد اللّٰہ بن امام احمد بن حنبل (م 290ھ) فرماتے ہیں کہ بلا د شام کے گورنر، صحابی عبد الرحمٰن بن غنم ﷜سے مروی ہے کہ
كَتَبَ أَهْلُ الْجَزِيرَةِ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ: إِنَّا حِينَ قَدِمْتَ بِلادَنَا طَلَبْنَا إِلَيْكَ الْأَمَانَ لِأَنْفُسِنَا وَأَهْلِ مِلَّتِنَا، عَلَى أَنَّا شَرَطْنَا لَكَ عَلَى أَنْفُسِنَا (1) أَنْ لا نُحْدِثَ فِي مَدِينَتِنَا كَنِيسَةً ولا فيما حولها ديرًا، ولا قلاية (بناء كالدير)، ولا صومعة راهب، (2) ولا نجدد ما خرب من كنائسنا، ولا ما كان منها في خطط المسلمين، (3)وأن لا نمنع كنائسنا من المسلمين أن ينزلوها في الليل والنهار، وأن نوسع أبوابها للمارة وابن السبيل، (4)ولا نؤوي فيها ولا في منازلنا جاسوسًا، وألا نكتم غشا للمسلمين، (5) وَأَلَّا نَضْرِبَ بَنَوَاقِيسِنَا إِلَّا ضَرْبًا خَفِيًّا فِي جَوْفِ كَنَائِسِنَا، وَلَا نُظْهِرَ عَلَيْهَا صَلِيبًا، وَلَا تُرْفَعَ أَصْوَاتُنَا فِي الصَّلَاةِ وَلَا الْقِرَاءَةِ فِي كَنَائِسِنَا فِيمَا يَحْضُرُهُ الْمُسْلِمُونَ، (6) وَأَلَّا نُخْرِجَ صَلِيبًا وَلَا كِتَابًا فِي سُوقِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَلَّا نُخْرِجَ بَاعُوثًا - قَالَ: وَالْبَاعُوثُ يَجْتَمِعُونَ كَمَا يَخْرُجُ الْمُسْلِمُونَ يَوْمَ الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ - وَلَا شَعَانِينَ، (7) وَلَا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا مَعَ مَوْتَانَا، وَلَا نُظْهِرَ النِّيرَانَ مَعَهُمْ فِي أَسْوَاقِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَلَّا نُجَاوِرَهُمْ بِالْخَنَازِيرِ وَلَا بِبَيْعِ الْخُمُورِ، وَلَا نُظْهِرَ شِرْكَنَا، (8) وَلَا نُرَغِّبَ فِي دِينِنَا وَلَا نَدْعُوَ إِلَيْهِ أَحَدًا، (9)وَلَا نَتَّخِذَ شَيْئًا مِنَ الرَّقِيقِ الَّذِي جَرَتْ عَلَيْهِ سِهَامُ الْمُسْلِمِينَ، (10) وَأَلَّا نَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَقْرِبَائِنَا أَرَادُوا الدُّخُولَ فِي الْإِسْلَامِ، (11)وَأَنْ نَلْزَمَ زِيَّنَا حَيْثُمَا كُنَّا، وَأَلَّا نَتَشَبَّهَ بِالْمُسْلِمِينَ فِي لُبْسِ قَلَنْسُوَةٍ وَلَا عِمَامَةٍ وَلَا نَعْلَيْنِ وَلَا فَرْقِ شَعْرٍ وَلَا فِي مَرَاكِبِهِمْ، وَلَا نَتَكَلَّمَ بِكَلَامِهِمْ وَأَنْ لا نَتَكَنَّى بِكُنَاهُمْ، (12) وَأَنْ نَجُزَّ مَقَادِمَ رُءُوسِنَا، وَلَا نَفْرُقَ نَوَاصِيَنَا، وَنَشُدَّ الزَّنَانِيرَ عَلَى أَوْسَاطِنَا، وَلَا نَنْقُشَ خَوَاتِمَنَا بِالْعَرَبِيَّةِ، وَلَا نَرْكَبَ السُّرُوجَ، وَلَا نَتَّخِذَ شَيْئًا مِنَ السِّلَاحِ وَلَا نَحْمِلَهُ وَلَا نَتَقَلَّدَ السُّيُوفَ، (13)وَأَنْ نُوَقِّرَ الْمُسْلِمِينَ فِي مَجَالِسِهِمْ وَنُرْشِدَهُمُ الطَّرِيقَ وَنَقُومَ لَهُمْ عَنِ الْمَجَالِسِ إِنْ أَرَادُوا الْجُلُوسَ، وَلَا نَطَّلِعَ عَلَيْهِمْ فِي مَنَازِلِهِمْ، (14) وَلَا نُعَلِّمَ أَوْلَادَنَا الْقُرْآنَ، (15)وَلَا يُشَارِكَ أَحَدٌ مِنَّا مُسْلِمًا فِي تِجَارَةٍ إِلَّا أَنْ يَكُونَ إِلَى الْمُسْلِمِ أَمْرُ التِّجَارَةِ، (16)وأن نضيف كل مسلم عابر سبيل ثلاثة أيامٍ، ونطعمه من أوسط ما نجد. ضَمِنَّا لَكَ ذَلِكَ عَلَى أَنْفُسِنَا وَذَرَارِيّنَا وَأَزَوْاجِنَا وَمَسَاكِنِنَا، وَإِنْ نَحْنُ غَيَّرْنَا، أَوْ خَالَفْنَا عَمَّا شَرَطْنَا عَلَى أَنْفُسِنَا، وَقَبِلْنَا الْأَمَانَ عَلَيْهِ فَلا ذِمَّةَ لَنَا، وَقَدْ حَلَّ لَكَ مِنَّا مَا يَحِلُّ لِأَهْلِ الْمُعَانَدَةِ وَالشِّقَاقِ. فَكَتَبَ بِذَلِكَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَنْمٍ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ: أَنْ أَمْضِ لَهُمْ مَا سَأَلُوا، وَأَلْحِقْ فِيهِ حَرْفَيْنِ اشْتَرِطْهَا عَلَيْهِمْ مَعَ مَا شَرَطُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ: (17)أَنْ لا يَشْتَرُوا مِنْ سَبَايَانَا شَيْئًا، (18)وَمَنْ ضَرَبَ مُسْلِمًا عَمْدًا فَقَدَ خَلَعَ عَهْدَهُ. فأنفذ عبد الرحمن بن غنم ذلك، وأقر من أقام من الروم فِي مدائن الشام عَلَى هذا الشرط.[15]
’’اہل جزیرہ نے عبد الرحمن بن غنم کو لکھا کہ جب آپ ہمارے علاقوں پر فاتح ہوگئے تو ہم اپنے اور اپنے مذہب والوں کے لئے آپ سے ان شرطوں پر امان مانگتے ہیں کہ(1) ہم اپنے پر لازم کرتے ہیں کہ ہم اپنے شہروں اور ان کے گرد ونواح میں کوئی نیا گرجا ، بلند گرجا، راہب کا معبد خانہ[16] نہیں بنائیں گے اور (2) اپنے خراب شدہ کنیساؤں کی تجدید نہیں کریں گے، نہ ہی ان کنیساؤں کی جو مسلمانوں کے علاقوں میں ہیں۔ (3) اور اپنے کنیساؤں میں مسلمانوں کو رات یا دن کے کسی حصے میں قیام سے نہیں روکیں گے۔ اور راہ گزروں ، اور مسافروں کے لئے ان کے دروازے کشادہ کریں گے۔(4) اور ان کنیساؤں یا اپنے گھروں میں کسی جاسوس کو ٹھکانہ نہیں دیں گے۔ مسلمانوں سے دھوکہ کرتے ہوئے کسی کو نہیں چھپائیں گے۔ (5) اور یہ کہ ہم اپنے ناقوس اس سے زیادہ بلند نہ کریں گے کہ ان کی آواز کنیسہ کے اندر ہی سنائی دے۔ اورہم صلیب کو نمایاں نہیں کریں گے۔ اور اپنی نماز یا انجیل پڑھتے ہوئے ہماری آوازیں مسلمانوں تک نہیں پہنچیں گی۔ (6) اور ہم صلیب یا کوئی جتھہ مسلمانوں کے بازار میں نہیں نکالیں گے۔ اور باعُوث بھی نہیں نکالیں گے، باعوث عیسائیوں کے ایسے اجتماع کو کہتے ہیں جیسا کہ مسلمان عید الفطر اور عید الاضحیٰ کو کھلے میدان میں جمع ہوتے ہیں۔شعانین (باعوث سے ملتا جلتا تہوار)نہیں نکالیں گے۔(7) اور اپنے مردوں کے ساتھ مسلمانوں کے بازار میں آواز یں اور آگ کو بلند نہیں کریں گے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ خنزیروں کو نہیں رکھیں گے اور نہ شراب فروخت کریں گے۔ اور نہ اپنے شرک کو نمایاں کریں گے۔ (8) اپنے دین کی ترغیب اور دوسروں کو اس کی دعوت نہیں دیں گے۔ (9) اس غلام کے حصے سے دستبردار ہوجائیں گے جس میں مسلمانوں کا بھی حصہ ہو۔(10)اپنے اقربا کو اسلام قبول کرنے سے نہیں روکیں گے، اگر وہ اسلام لانا چاہیں۔ (11) اور جہاں بھی ہوں، اپنے اطوار وعادات پرکاربند رہیں گے۔ اور ہم مسلمانوں کے لباس، ٹوپی، عمامہ، جوتے، بال سنوارنے میں ان کی مشابہت نہیں کریں گے۔ ان کے طرز تکلم کو اختیار نہ کریں گے، ان جیسی کنیّتیں نہ رکھیں گے۔ (12) اپنی پیشانی کے بال کٹوائیں گے، اور (مسلمانوں کی طرح )مانگ نہ نکالیں گےاور اپنی کمر میں پٹی باندھیں گے۔اپنی انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں بنوائیں گے، اور گھوڑے پر (مسلمانوں جیسی ) زین نہ رکھیں گے۔ کوئی اسلحہ نہ رکھیں گے، نہ لے کر چلیں گے اور نہ ہی تلوار لٹکائیں گے۔ (13) نشستوں میں مسلمانوں کی عزت افزائی کریں گے اور ان کو راستہ بتائیں گے۔ اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو اپنی نشستوں سے اٹھ جائیں گے۔ ان کے گھروں میں نہیں جھانکیں گے۔ (14) اپنی اولاد کو قرآن نہیں پڑھائیں گے۔ (15) اور ہم میں کوئی مسلمان سے شراکتی کاروبار کرے تو اس میں مسلمان فیصلہ کن ؍بالاتر ہوگا۔ (16)اور ہر مسلمان مسافر کی تین روز تک مہمان نوازی کریں گے، اور بقد ر طاقت اوسط درجے کا کھانا اسے کھلائیں گے۔ہم مسلمانوں کے ساتھ ان شرائط میں اپنے آپ، اپنی اولاد، اپنی بیویوں اور اپنے گھروں کو ضامن بناتے ہیں۔ اگر ہم نے ان میں کوئی تبدیلی کی یا طے شدہ شرطوں اور جن پر ہم نے امان لی ہے، ان کی مخالفت کی تو ہمارا مسلمانوں پر کوئی ذمہ نہیں۔ اور آپ کے لئے ہمارے ساتھ وہ سلوک جائز ہے جو لڑائی اور اختلاف والوں سے جائز ہوتا ہے۔یہ شرطیں عبد الرحمٰن بن غنم نے سیدنا عمر کو لکھ بھیجیں تو سیدنا عمر بن خطاب نے جواب دیا کہ جو وہ مانگ رہے ہیں، وہ اُنہیں دے دواور ان کی اپنے اوپر قائم کردہ شرائط پر دو شرطوں کا اضافہ کردو کہ (17) ہمارے قیدیوں سے کچھ نہیں خریدیں گے، اور (18) جس نے کسی مسلمان کو عمداً مارا پیٹا تو اس کا عہد ختم ۔ سو عبد الرحمٰن بن غنم نے(16 ھ میں) ان شرطوں کو شامی شہروں میں بسنے والے رومی عیسائیوں پر نافذ کردیا۔ ‘‘
اس متن کو نامور محدث وفقیہ امام ابوبکر خلال (311ھ) نے اپنی کتاب أحكام أهل الملل (جو بیس جلدوں پر محیط الجامع لمسائل الامام احمد بن حنبل کا حصہ ہے) میں عبد اللّٰہ بن احمد بن حنبل کے طریق سے بیان کیا ہےجس کی سند یوں ہے :
فقد روى ابنه عبد الله في زوائده على المسند، فقال: حدثني أبو شرحبيل الحمصي حدثني(عمي) أبو اليمان وأبو المغيرة قالا: أخبرنا إسماعيل بن عياش قال: حدثنا غير واحدٍ من أهل العلم قالوا:...
’’عبد اللّٰہ بن احمد بن حنبل نے مسند احمد کے زوائد میں روایت کیا ہے، کہتے ہیں کہ مجھے ابو شرحبیل حمصی نے بتایا کہ مجھے میرے چچا ابو یمان اور ابومغیرہ نے بتایا ، ان دونوں کو اسماعیل بن عیاش نے کہا کہ مجھے ایک سے زیادہ اہل علم نے روایت کرتے ہوئے کہا :...
2.  یہی روایت سنن کبریٰ از اما م بیہقی (م 458ھ) میں بعض الفاظ کے معمولی فرق سے یوں ہے:
كَتَبْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حِينَ صَالَحَ أَهْلَ الشَّامِ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا كِتَابٌ لِعَبْدِ اللهِ عُمَرَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ نَصَارَى مَدِينَةِ كَذَا وَكَذَا إِنَّكُمْ لَمَّا قَدِمْتُمْ عَلَيْنَا سَأَلْنَاكُمُ الْأَمَانَ لِأَنْفُسِنَا وَذَرَارِيِّنَا وَأَمْوَالِنَا وَأَهْلِ مِلَّتِنَا وَشَرَطْنَا لَكُمْ عَلَى أَنْفُسِنَا أَنْ لَا نُحْدِثَ فِي مَدِينَتِنَا وَلَا فِيمَا حَوْلَهَا دَيْرًا وَلَا كَنِيسَةً وَلَا قَلَّايَةً وَلَا صَوْمَعَةَ رَاهِبٍ وَلَا نُجَدِّدَ مَا خَرِبَ مِنْهَا وَلَا نُحْيِيَ مَا كَانَ مِنْهَا فِي خُطَطِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنْ لَا نَمْنَعَ كَنَائِسَنَا أَنْ يَنْزِلَهَا أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فِي لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ وَأَنْ نُوَسِّعَ أَبْوَابَهَا لِلْمَارَّةِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَأَنْ نُنْزِلَ مَنْ مَرَّ بِنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَنُطْعِمَهُم وَأَنْ لَا نُؤَمِّنَ فِي كَنَائِسِنَا وَلَا مَنَازِلِنَا جَاسُوسًا وَلَا نَكْتُمَ غِشًّا لِلْمُسْلِمِينَ وَلَا نُعَلِّمَ أَوْلَادَنَا الْقُرْآنَ وَلَا نُظْهِرَ شِرْكًا وَلَا نَدْعُوَ إِلَيْهِ أَحَدًا وَلَا نَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ قَرَابَتِنَا الدُّخُولَ فِي الْإِسْلَامِ إِنْ أَرَادَهُ وَأَنْ نُوَقِّرَ الْمُسْلِمِينَ وَأَنْ نَقُومَ لَهُمْ مِنْ مَجَالِسِنَا إِنْ أَرَادُوا جُلُوسًا وَلَا نَتَشَبَّهَ بِهِمْ فِي شَيْءٍ مِنْ لِبَاسِهِمْ مِنْ قَلَنْسُوَةٍ وَلَا عِمَامَةٍ وَلَا نَعْلَيْنِ وَلَا فَرْقِ شَعَرٍ وَلَا نَتَكَلَّمَ بِكَلَامِهِمْ وَلَا نَتَكَنَّى بِكُنَاهُمْ وَلَا نَرْكَبَ السُّرُوجَ وَلَا نَتَقَلَّدَ السُّيُوفَ وَلَا نَتَّخِذَ شَيْئًا مِنَ السِّلَاحِ وَلَا نَحْمِلَهُ مَعَنَا وَلَا نَنْقُشَ خَوَاتِيمَنَا بِالْعَرَبِيَّةِ وَلَا نَبِيعَ الْخُمُورَ وَأَنْ نَجُزَّ مَقَادِيمَ رُءُوسِنَا وَأَنْ نَلْزَمَ زِيَّنَا حَيْثُ مَا كُنَّا وَأَنْ نَشُدَّ الزَّنَانِيرَ عَلَى أَوْسَاطِنَا وَأَنْ لَا نُظْهِرَ صُلُبَنَا وَكُتُبَنَا فِي شَيْءٍ مِنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا أَسْوَاقِهِمْ وَأَنْ لَا نُظْهِرَ الصَّلِيبَ عَلَى كَنَائِسِنَا وَأَنْ لَا نَضْرِبَ بِنَاقُوسٍ فِي كَنَائِسِنَا بَيْنَ حَضْرَةِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنْ لَا نُخْرِجَ سَعَانِينًا وَلَا بَاعُونًا وَلَا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا مَعَ أَمْوَاتِنَا وَلَا نُظْهِرَ النِّيرَانَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ مِنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا نُجَاوِرَهُمْ مَوْتَانَا ... فَلَمَّا أَتَيْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِالْكِتَابِ زَادَ فِيهِ: وَأَنْ لَا نَضْرِبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ شَرَطْنَا لَهُمْ ذَلِكَ عَلَى أَنْفُسِنَا وَأَهْلِ مِلَّتِنَا وَقَبِلْنَا مِنْهُمُ الْأَمَانَ فَإِنْ نَحْنُ خَالَفْنَا شَيْئًا مِمَّا شَرَطْنَاهُ لَكُمْ فَضَمِنَّاهُ عَلَى أَنْفُسِنَا فَلَا ذِمَّةَ لَنَا وَقَدْ حَلَّ لَكُمْ مَا يَحِلُّ لَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْمُعَانَدَةِ وَالشَّقَاوَةِ.[17]
’’میں نے سیدنا عمر کو یہ معاہدہ لکھ بھیجا ، جب انہوں نے اہل شام سے صلح کی ... بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، یہ اللّٰہ کے بندے عمر بن خطاب کا فلاں فلاں شہروں کے عیسائیوں سے معاہدہ ہے۔ اور یہ کہ اپنے کنیساؤں اور گھروں میں کسی جاسوس کو پناہ نہیں دیں گے۔ اور مسلمانوں کے لئے دل میں بغض وکینہ نہیں رکھیں گے۔ (1) اور اپنی اولاد کو قرآن کریم نہیں سکھائیں گے۔ (2) شرک کو نمایاں کریں گے نہ اس کی دعوت دیں گے۔ اپنے اقربا کو ان کی کھلی مرضی سے اسلام قبول کرنے سے نہیں روکیں گے۔ مسلمانوں کی عزت افزائی کریں گے، اگر بیٹھنا چاہیں تو اپنی نشست چھوڑدیں گے۔ (3) اور ہم مسلمانوں کے لباس، ٹوپی، عمامہ، جوتے، بال سنوارنے میں ان کی مشابہت نہیں کریں گے۔ (4) ان کے طرز تکلم کو اختیار نہ کریں گے، ان جیسی کنیّتیں نہ رکھیں گے۔ (5) گھوڑے پر زین نہ رکھیں گے۔ (6) تلوار کو گلے میں نہ لٹکائیں گے، نہ اسلحہ رکھیں گے، نہ ساتھ لے کر چلیں گے۔ (7) اپنی انگوٹھیوں پر عربی نقوش نہ بنوائیں گے۔ اور شراب کی خرید وفروخت نہ کریں گے۔ (8) پیشانی سے اوپر بالوں کو منڈائیں گے ۔ (9) اپنے اطوار اور فیشن ہی اختیار کریں گے۔ اور زنار (حزام؍پٹکا)کو درمیان میں باندھیں گے۔ (10) اپنی صلیبیں اور کتابیں مسلمانوں کے راستوں اور بازاروں میں نہیں رکھیں گے۔ (11) سَعانین اور باعون[18](عیسائی عیدیں) نہ نکالیں گے۔ (12) اپنے مردوں پر آوازیں بلند نہ کریں گے۔ مسلمانوں کے راستے میں اپنے مردوں کے ساتھ آگ لے کر نہ چلیں گے۔(13) اور اپنے مردے ان کے ساتھ دفن نہ کریں گے۔ ‘‘
جب یہ معاہدہ سیدنا عمر کے پاس پہنچا تو آپ نے اس میں ان باتوں کا مزید اضافہ فرمایا: (14) کسی مسلمان کو ماریں گے نہیں۔ (15) ہم نے ان سے امان لی ہے ، تو خود ان شرطوں کو اپنے اوپر اور اپنے دین والوں قائم کیا ہے۔ (16) اگر ان شرطوں میں کسی کی ہم مخالفت کریں تو اس پر اپنے آپ کو ہی ضامن بناتے ہیں،تب ہمارا کوئی ذمہ نہ ہوگا۔ اور ہماری وہی سزا جو دشمنوں اور بدبختوں کا مقدر ہے۔‘‘
3.  امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللّٰہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن عبد العزیز نے یہ حکم نامہ جاری کیا :
كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَنْهَوُا النَّصَارَى أَنْ يَفْرِقُوا رُءُوسَهُمْ، وَتُجَزَّ نَوَاصِيهِمْ، وَأَنْ تُشَدَّ مَنَاطِقُهُمْ، وَلَا يَرْكَبُوا عَلَى سَرْجٍ، وَلَا يَلْبَسُوا عَصَبًا وَلَا خَزًّا، وَأَنْ يُمْنَعَ نِسَاؤُهُمْ أَنْ يَرْكَبْنَ الرَّحَائِلَ، فَإِنْ قُدِرَ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ فَعَلَ ذَلِكَ بَعْدَ التَّقَدُّمِ إِلَيْهِ فَإِنَّ سَكَنَهُ لِمَنْ وَجَدَهُ.[19]
’’عیسائیوں کو روکیں کہ وہ بالوں کی مانگ نکالیں، اور وہ پیشانی کے بال کاٹیں۔ اور یہ کہ وہ کمر پر پٹی باندھیں، اور زِین پر سواری   مت   کریں ۔ پگڑی اور ریشم مت پہنیں۔ ان کی عورتیں چمڑے کی زین میں سوا ر نہ ہوں۔ اگر حکم پہنچنے کے باوجود کوئی شخص پکڑا گیا تو پکڑنے والا اسکی رہائش کا مالک ہوگا۔‘‘
احکام اہل الذمہ کے محقق یوسف بن احمدبکری تلمیذ شیخ محمد ناصر الدین البانی لکھتے ہیں کہ
"وهذا إسناد صحیح رجاله ثقات رجال الشيخين، سوٰى عبد الله بن الإمام أحمد بن حنبل وهو ثقة كما في التقريب"[20]
’’اس اثر کی سند بالکل صحیح ہے ، اس کے راوی ثقہ ؍معتمد اور صحیحین کے راوی ہیں۔سوائے عبد اللّٰہ بن امام احمد بن حنبل کے اور وہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ تقریب میں صراحت ہے۔‘‘
4.  ابو شیخ اصبہانی نے معمر بن راشد سے روایت کیا کہ سیدنا عمر بن عبد العزیز نے یہ حکم نامہ جاری کیا:
أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ "أَنِ امْنَعْ مَنْ قِبَلَكَ فَلَا يَلْبَسُ نَصْرَانِيٌّ قَبَاءً وَلَا ثَوْبَ خَزٍّ وَلَا عَصَبٍ، وَتَقَدَّمَ فِي ذَلِكَ أَشَدَّ التَّقَدُّمِ حَتَّى لَا يَخْفَى عَلَى أَحَدٍ نَهْيٌ عَنْهُ، وَقَدْ ذُكِرَ لِي أَنَّ كَثِيرًا مِمَّنْ قِبَلَكَ مِنَ النَّصَارَى قَدْ رَاجَعُوا لُبْسَ الْعَمَائِمِ وَتَرَكُوا الْمَنَاطِقَ عَلَى أَوْسَاطِهِمْ وَاتَّخَذُوا الْوَفْرَ وَالْجُمَمَ، وَلَعَمْرِي إِنْ كَانَ يُصْنَعُ ذَلِكَ فِيمَا قِبَلَكَ إِنَّ ذَلِكَ بِكَ ضَعْفٌ وَعَجْزٌ، فَانْظُرْ كُلَّ شَيْءٍ نُهِيتَ عَنْهُ وَتَقَدَّمْتَ فِيهِ فَلَا تُرَخِّصْ فِيهِ وَلَا تُغَيِّرْ مِنْهُ شَيْئًا "[21]
’’آپ کی طرف رہنے والے لوگوں کو روکو کہ نصرانی قبا، اور ریشمی کپڑا اور پگڑی نہ پہنیں۔ اور اس میں پوری سختی کرو، تاکہ کسی سے یہ آرڈر مخفی نہ رہے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کی طرف رہنے والے بہت سے عیسائیوں نے عمامے پہننے شروع کردیے ہیں، اور اپنے کمر بند چھوڑ دیے اور بال چھوٹے رکھنے کی بجائے کان کی لو تک بال اور لمبے پٹے (زلفیں) رکھنا شروع کر دیے ہیں۔ میری عمر کی قسم! اگر یہ سب کچھ تمہارے پاس ہوتا رہا تو یہ سراسر تمہاری کمزوری اور حکم کی تعمیل سے روگردانی ہے۔ جس جس چیز سے تمہیں روکا گیا اور تم نے تجاوز کیا، تو اسی میں سستی مت کرو اور کچھ بھی تبدیلی نہ کرو۔‘‘
5.  ابو شیخ اصبہانی نے اپنی سند سے عبد الرحمٰن بن حبان سے روایت کیا ہے کہ
دَخَلَ نَاسٌ مِنْ بَنِي تَغْلِبَ عَلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَلَيْهِمُ الْعَمَائِمُ كَهَيْئَةِ الْعَرَبِ، قَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلْحِقْنَا بِالْعَرَبِ. قَالَ: فَمَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: نَحْنُ بَنُو تَغْلِبَ. قَالَ: أَوَلَسْتُمْ مِنْ أَوْسَطِ الْعَرَبِ؟ قَالُوا: نَحْنُ نَصَارَى. قَالَ: عَلَيَّ بِجَلَمٍ، فَأَخَذَ مِنْ نَوَاصِيهِمْ وَأَلْقَى الْعَمَائِمَ وَشَقَّ مِنْ رِدَاءِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ شِبْرًا يَحْتَزِمُ بِهِ وَقَالَ: لَا تَرْكَبُوا السُّرُوجَ، وَارْكَبُوا الْأُكُفَ وَدَلُّوا أَرْجُلَكُمْ مِنْ شَقٍّ وَاحِدٍ.[22]
’’بنو تغلب کے چند لوگ سیدنا عمر بن عبد العزیز کے پاس آئے اور انہوں نے عربوں جیسے عمامے پہن رکھے تھے۔ تو کہنے لگے: یا امیرالمؤمنین! ہم عرب   میں ملے ہوئے ہیں۔ آپ نے پوچھا: تم کون ہو؟ بولے: ہم بنوتغلب ہیں۔ پوچھا: کیا عرب قبائل سے نہیں؟ تو بولے: ہم عیسائی ہیں۔ تو سیدنا عمر بن عبد العزیز نے قینچی منگائی اور ان کی پیشانی کے بال کاٹ دیے۔ اور ان کے عمامے اُتروا دیے۔ اور ہر ایک کی چادر کو بقدر بالشت کاٹ دیا،جس سے وہ کمر باندھتے تھے۔پھر انہیں حکم دیا کہ زینوں پر سوار نہ ہوں، اور پالانوں پر سوار ہوں اور ایک طرف پاؤں لٹکاؤ۔ ‘‘
سیدنا عمر بن عبد العزیز کے آخری روایت میں مذکورہ اقدام اُصولی نہیں بلکہ ان میں تنبیہ وسزا کا پہلو بھی موجود ہے کیونکہ اُنہوں نے عہدشکنی اور مغالطہ دہی کی کوشش کی تھی۔
اس حدیث (موقوف) کی تخریج وتحقیق
یہ روایت درجنوں اسانید کے ساتھ مروی ہے، اور صحیح السند کے ساتھ مقبول ہے، جیساکہ
1.     مسند احمد کے زوائد میں، عبد اللّٰہ بن احمد بن حنبل (م 290ھ) نے   اس کے متن کو سب سے پہلے عبد الرحمن بن غنم کے حوالےسے بیان کیا ہے۔[23] جس کو امام ابوبکر خلال بغدادی (م311ھ) نے اپنی کتاب أحکام أهل الملل (جو الجامع لمسائل احمد بن حنبل کا حصہ ہے ) میں ذکر کیا ہے۔ پھر متداول کتب ِحدیث میں امام بیہقی (م 458ھ) نے السنن الکبری میں ذکر کیا ہے۔انہی سالوں میں حافظ ابن حزم (م452ھ) نے المحلی میں بھی اس کو ذکر [24]کیا ہے۔
2.  شروطِ عمریہ کی متعدد روایات کو قاضی ابو محمد حافظ ابن زبررِبعی (م329ھ)نے جزء فيه شروط النصارٰى کےنام سے مستقل رسالہ میں جمع کیاہے (جو راقم کے پاس موجود ہے۔) اور یہ شروطِ عمریہ کی دوسری پرانی اور بنیادی دستاویز ہے۔ Prinston University کے امریکی یہودی مستشرق مارک کوہن Mark Cohen نے تحقیق کے بعد اس کو شائع کیاہے اور دار الکتب المصریہ کے مخطوطہ[25] کو بنیاد بنایاہے ۔ [26]
3.  شروطِ عمریہ کی مزید اسانید کو ابو عمرو عثمان ابن السماک (م344ھ ) نے ایک مستقل رسالہ جزء فيه   شروط   أميرالمؤمینن عمر بن الخطاب على النصاری کے نام سے جمع کیاہے ، اور یہ رسالہ ہالینڈ کے لائیڈن یونیورسٹی کے سیکشن ’Oriental Mauniscripsts‘ میں نمبر 951 OR. کے تحت محفوظ ہے۔ وورہوف Voorhoeve نے Handlist of Arabic Manuscripts, (1980) کے صفحہ 104 پر اس کا تذکرہ کیاہے۔یہ رسالہ بھی راقم کے پاس موجود ہے۔[27]
4.  حافظ ابن الزبر، ابو عمروابن السماک اور حافظ ابن کثیر ﷭ نے تین مستقل رسالے اس کی روایات واسناد پر لکھے ہیں۔ اور اس کی بہت سی اسناد تاریخ دمشق ( ناشر: دار احیاء التراث العربی ) کے جلد دوم، ص 119 تا 127 پر بھی جمع کردی گئی ہیں۔
5.  اس روایت کی ایک سند صحابی خالد بن عرفطہ سے بھی مروی ہے، جسے ابو شیخ اصبہانی نے شروط اہل الذمہ میں اپنی سند سے روایت کیا ہے ۔ اور ابو شیخ نے عیسائی عورتوں کے لباس میں   مشابہت کرنے پر بھی سیدنا عمر کا قول اپنی سند سے روایت کیاہے۔[28]
6.  شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ابوبکر خلال کی روایت سے ’شروطِ عمریہ ‘کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ
روٰى حرب بإسناد صحيح عن عبد الرحمن بن غنم قال: كتب لعمر بن الخطاب حين صالح نصارى أهل الشام: "هذا كتاب لعبد الله أمير المؤمنين من مدينة كذا وكذا إنكم لما قدمتم علينا سألناكم الأمان لأنفسنا وذرارينا وأموالنا على أن لا نحدث وذكر الشروط إلى أن قال: ولا نظهر شركا ولا ندعوا إليه أحدا..."[29]
’’حرب کرمانی نے صحیح سند کے ساتھ اس کو عبد الرحمن بن غنم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے شام کے نصاری سے معاہدہ صلح کے وقت یہ معاہدہ سیدنا عمر کو بھیجا ، جس کا متن یوں ہے :.....‘‘
7.  امام ابن تیمیہ کے ہم عصر شیخ الاسلام ، قاضی القضا ۃ تقی الدین سبکی شافعی اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں:
ورواها جماعة بأسانيد ليس فيها يحيي بن عقبة، لکنها أو أكثرها ضعيفة وبانضمام بعضها إلي بعض تقوي.[30]
’’شروطِ عمریہ کو ایک جماعت نے متعدد اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے ، جن میں ضعیف راوی یحییٰ بن عقبہ نہیں ہے۔ لیکن وہ روایات یا اکثرروایات ضعیف ہیں۔ تاہم یہ متعدد روایات ایک دوسرے سے مل کر درجہ قبولیت کو پہنچ جاتی ہیں۔‘‘
8.  یہی بات مفسرومؤرخ حافظ ابن کثیر نے مسند الفاروق میں اس روایت کے متعدد اسانید بیان کرنے کے بعد کہی:   فهذه طُرق يشدّ بعضها بعضًا.[31]
        ’’اس کی متعدد اسانید ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔‘‘
ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ
’’عبد الرحمن بن غنم تک اس کی معتبراسنادپہنچتی ہیں، اور میں نے ایک مستقل تصنیف میں ان کو یکجا کردیاہے۔‘‘[32]
آپ نے اپنی ’مسند الفاروق‘ میں شروطِ عمریہ کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کرکے بھی اس کی تفصیلات پیش کی ہیں۔
تفسیر ابن کثیر میں سورۃ التوبۃ کی آیت جزیہ : 29کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وذلك مما رواه الأئمة الحفاظ من رواية عبد الرحمن بن غنم[33]
9.  شیخ ابن تیمیہ نے الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح میں اس کی معنوی بنیاد کے طور پر سنن ابو داود کا بھی تذکرہ کیاہے۔ [34]
10.  شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی چار کتب: الصارم المسلول[35]، إقتضاء الصراط المستقيم، الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح[36] اور مجموع فتاوى ابن تيمية میں شروطِ عمریہ کی روایات اور تفصیلات پیش کی ہیں، اور ان سے متعدد فقہی استدلال کئے ہیں۔ ایسے ہی ان کے شاگردِ رشید حافظ ابن قیم نے اپنی مایہ ناز کتاب أحكام اهل الذمة کی چھ فصلوں میں، 1159 تا 1352 یعنی دو صد صفحات اور إعلام الموقعين میں اس پر تفصیلاً گفتگو کی ہے اور ان کی بسیط شرح پیش کرتے ہوئے، ان شرائط کے قرآن وسنت میں شرعی دلائل   کو بیان کیا ہے۔
اسناد پر مزید تحقیق میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ’زوائد مسند امام احمد بن حنبل ‘ نامی کتاب میں ، شروطِ عمریہ کی اوّلین روایت کی سند کو تلاش کیا جائے ،جبکہ زوائد کے ڈاکٹر عامر حسن صبری کے تحقیق شدہ ایک مجموعے ، طبع دار البشائر الاسلامیہ میں یہ روایت راقم کو نہیں مل سکی۔
شروطِ عمریہ کی بعض اسانید ضعیف بھی ہیں جبکہ شیخ ابن تیمیہ نے جس حرب کرمانی کی روایت کو کبھی صحیح اور کبھی جید قرار دیا ہے، اس کی مکمل سند بھی بسیار کوشش کے باوجود نہیں مل سکی۔ جب تک اس کی سند دریافت نہ ہوجائے، اس وقت تک شیخ ابن تیمیہ کے حکم صحت پر انحصار کیا جاسکتاہے۔
حافظ ابن کثیر اورامام سبکی شافعی کا موقف ہے کہ شروطِ عمریہ کی متعدد اسانید مل کر قوی ہوجاتی ہیں۔
جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو شروطِ عمریہ کی فقہی اور شرعی حیثیت سیدنا عمر بن عبد العزیز کے اجرا سے بھی متعین ہوجاتی ہے جس کی سند أحکام أهل الملل کے حوالے سے بلاشبہ صحیح ومعتمد ہے اور خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے اس کو تابعین عظام سے لینے کا دعویٰ کیا ہے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
’شروط ِعمریہ‘  تاریخ اسلام کے ہردور میں
1.     شیخ الاسلام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (م 728ھ) لکھتےہیں:
وَكَمَا كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ هَذِهِ الشُّرُوطَ وَالْتَزَمُوهَا، أَوْصَى بِهِمْ نُوَّابَهُ وَمَنْ يَأْتِي بَعْدَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ وَغَيْرِهِمْ، وَهَذَا هُوَ الْعَدْلُ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ وَرَسُولُهُ.[37]
’’جیساکہ سیدنا عمر بن خطاب نے غیرمسلموں پر ان شرطوں کو لاگو کیا،انہوں نے ان کی پابندی کی ۔تو آپ نے اپنے ماتحت حکام اور بعد میں آنے والے خلفاوغیرہ کو بھی اس کی نصیحت کی۔ اور یہی وہ عدل ہے جس کا اللّٰہ اور اس کے رسول نے حاکم کو حکم دیا ہے ۔‘‘
2.  حافظ ابن تیمیہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
وكذلك فعل جعفر بن محمد بن هارون المتوكل بأهل الذمة في خلافته، واستشار في ذلك الإمام أحمد بن حنبل، وغيره، وعهوده في ذلك، وجوابات أحمد بن حنبل له معروفة.[38]
’’عباسی خلیفہ جعفر بن محمد بن ہارون المتوکل باللّٰہ (م 247ھ) نے اپنے( 14 سالہ )دورِ خلافت میں غیرمسلموں سے یہی رویہ رکھا۔ اور ا س سلسلے میں امام احمد سے مشورہ ؍رہنمائی بھی لی۔اور متوکل باللّٰہ کے حکم نامے اور اس پر امام احمد بن حنبل کے جوابات معروف ہیں۔‘‘
3.  شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
وَهَذِهِ الشُّرُوطُ قَدْ ذَكَرَهَا أَئِمَّةُ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَهْلِ الْمَذَاهِبِ الْمَتْبُوعَةِ وَغَيْرِهَا فِي كُتُبِهِمْ وَاعْتَمَدُوهَا؛ فَقَدْ ذَكَرُوا أَنَّ عَلَى الْإِمَامِ أَنْ يُلْزِمَ أَهْلَ الذِّمَّةِ بِالتَّمَيُّزِ عَنْ الْمُسْلِمِينَ فِي لِبَاسِهِمْ وَشُعُورِهِمْ وَكُنَاهُمْ وَرُكُوبِهِمْ: بِأَنْ يَلْبِسُوا أَثْوَابًا تُخَالِفُ ثِيَابَ الْمُسْلِمِينَ: كَالْعَسَلِيِّ وَالْأَزْرَقِ وَالْأَصْفَرِ وَالْأَدْكَنِ وَيَشُدُّوا الْخِرَقَ فِي قَلَانِسِهِمْ وَعَمَائِمِهِمْ وَالزَّنَانِيرِ فَوْقَ ثِيَابِهِمْ. وَقَدْ أَطْلَقَ طَائِفَةٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ أَنَّهُمْ يُؤْخَذُونَ بِاللَّبْسِ وَشَدِّ الزَّنَانِيرِ جَمِيعًا وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: هَذَا يَجِبُ إذَا شُرِطَ عَلَيْهِمْ. وَقَدْ تَقَدَّمَ اشْتِرَاطُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - ذَلِكَ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا حَيْثُ قَالَ: وَلَا يَتَشَبَّهُوا بِالْمُسْلِمِينَ فِي شَيْءٍ مِنْ لِبَاسِهِمْ فِي قَلَنْسُوَةٍ وَلَا غَيْرِهَا: مِنْ عِمَامَةٍ وَلَا نَعْلَيْنِ. إلَى أَنْ قَالَ: وَيُلْزِمُهُمْ بِذَلِكَ حَيْثُ مَا كَانُوا وَيَشُدُّوا الزَّنَانِيرَ عَلَى أَوْسَاطِهِمْ. وَهَذِهِ الشُّرُوطُ مَا زَالَ يُجَدِّدُهَا عَلَيْهِمْ مَنْ وَفَّقَهُ اللَّهُ تَعَالَى مِنْ وُلَاةِ أُمُورِ الْمُسْلِمِينَ كَمَا جَدَّدَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ - رَحِمَهُ اللَّهُ - فِي خِلَافَتِهِ وَبَالَغَ فِي اتِّبَاعِ سُنَّةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - حَيْثُ كَانَ مِنْ الْعِلْمِ وَالْعَدْلِ وَالْقِيَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بِمَنْزِلَةِ مَيَّزَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِهَا عَلَى غَيْرِهِ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَجَدَّدَهَا هَارُونُ الرَّشِيدُ وَجَعْفَرٌ الْمُتَوَكِّلُ وَغَيْرُهُمَا[39]
’’ان شرطوں کو معروف مسالک کے نامور امام علما نے اپنی کتب میں بیان کرکے ان پر اعتماد کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حاکم کو غیرمسلموں کو پابند کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کے لباس، حجامت، کنیتیں، سواریوں میں ان سے جدا رہیں۔ اور ایسے کپڑے پہنیں جو مسلمانوں کے کپڑوں سے مختلف ہوں۔ جیسے شہدی، نیلا، زرد، سیاہی مائل رنگ اور اپنی ٹوپیوں، عماموں اور جنیئو(کمرپرپٹی) پر اپنے کپڑوں کے اوپر مزید چیتھڑے لگائیں۔اور علما کی ایک جماعت نے خلط ملط ہونے اور جنیئوباندھنے پر ان کو سزا دینے کا موقف بھی اختیار کیا ہے۔اور دوسروں کا خیال ہے کہ اگر ایسا کرنا شرط معاہدہ میں داخل ہو تب ہوسکتاہے ۔ اور سیدنا عمر کی ان پر عائد کردہ یہ ساری شرطیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ جب اُنہوں نے کہا کہ غیرمسلم ،مسلمانوں کے ٹوپی ، عمامہ اور جوتے وغیرہ تک پہننے میں مشابہت نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہہ دیا کہ وہ جہاں بھی ہوں، توحاکم ان سے اس کی پابندی کرائے گا اور وہ اپنے درمیان میں پٹکا باندھیں گے۔ اور اللّٰہ کی توفیق سے بہر ہ مند مسلم حکمران ہردور میں ان شرطوں کی تجدید کرتے رہے ہیں۔ حتی کہ سیدنا عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور خلافت میں اس کو پختہ کیا اور سیدنا عمر بن خطاب کی اتباع کی سنت کو مستحکم کیا۔کیونکہ آپ علم، عدل،قرآن وسنت کی اتباع میں دیگر خلفاکی بہ نسبت ممتاز مقام پر فائز تھے۔ اور ان شرائط کو خلفاے عباسیہ: ہارون الرشید اور جعفر ومتوکل باللّٰہ نے بھی دوبارہ تازہ ؍تجدیدکیا۔‘‘
4.  شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے دور میں غیرمسلموں کی شناخت کا مسئلہ عملاً بھی پیش آیا ۔یہ پورا واقعہ ان کے شاگرد حافظ ابن قیم جوزیہ نے بیان کیا اور اس کے بعض حصے فتاوٰی ابن تیمیہ میں بھی مذکورہیں۔ابن قیم بتاتے ہیں کہ جب حاكم وقت نے غیر مسلموں کو عمامے بدلنے اور مسلمانوں سے مختلف رنگ پہننے کا حکم دیا تو اس سے غیرمسلموں پر قیامت ٹوٹ پڑی کہ معاشرے میں ان کاتشخص نمایاں ہونے لگا ۔ تب شیطان نے اُنہیں یہ تدبیر سجھائی کہ ایک فتویٰ کی صورت میں یہ مسئلہ اہل علم سے پوچھ کر اس تشخص وامتیاز کا خاتمہ کیا جائے۔[40]         فتوٰی کا متن یوں ہے:
مَا تَقُولُ السَّادَةُ الْعُلَمَاءُ: فِي قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ أُلْزِمُوا بِلِبَاسِ غَيْرِ لِبَاسِهِمْ الْمُعْتَادِ وَزِيٍّ غَيْرِ زِيِّهِمْ الْمَأْلُوفِ وَذَلِكَ أَنَّ السُّلْطَانَ أَلْزَمَهُمْ بِتَغْيِيرِ عَمَائِمِهِمْ وَأَنْ تَكُونَ خِلَافَ عَمَائِمِ الْمُسْلِمِينَ فَحَصَلَ بِذَلِكَ ضَرَرٌ عَظِيمٌ فِي الطُّرُقَاتِ وَالْفَلَوَاتِ وَتَجَرَّأَ عَلَيْهِمْ بِسَبَبِهِ السُّفَهَاءُ وَالرَّعَاعُ وَآذَوْهُمْ غَايَةَ الْأَذَى وَطَمِعَ بِذَلِكَ فِي إهَانَتِهِمْ وَالتَّعَدِّي عَلَيْهِمْ. فَهَلْ يَسُوغُ لِلْإِمَامِ رَدُّهُمْ إلَى زِيِّهِمْ الْأَوَّلِ وَإِعَادَتِهِمْ إلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ مَعَ حُصُولِ التَّمْيِيزِ بِعَلَامَةِ يُعْرَفُونَ بِهَا؟ وَهَلْ ذَلِكَ مُخَالِفٌ لِلشَّرْعِ أَمْ لَا؟ [41]
’’حضرات علماء ومفتیان کیا فرماتے ہیں کہ حاکم وقت نے غیرمسلموں کو ان کے روزمرہ لباس اور مروجہ اطوار کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ کہ حاکم نے ان کو اپنے عمامے بدلنے اور مسلمانوں کے عماموں سے مختلف کرنے کا پابند کیا ہے۔ اس سے راستوں اور بیابانوں کے سفر میں بہت سی مشکلات رونما ہوگئی ہیں۔ اور ا س کے سبب کم عقل اور رذیل لوگ نے غیرمسلموں کو بے پناہ تکلیف دینا اور ذلیل کرنا شروع کردیا ہے۔ کیا ممکن ہےکہ حاکم انہیں پہلی عادات واطوار پر پلٹنے کی اجازت دے دے اور اس کی کوئی ایسی علامت رکھ دے جس سے ان کی پہچان ہوجائے۔ اور کیا ایسا کرنا مخالفِ شرع ہے یا نہیں ؟‘‘                    حافظ ابن قیم پھر بتاتے ہیں کہ
فَأَجَابَهُمْ مِنْ مَنْعِ التَّوْفِيقِ وَصَدٍّ عَنْ الطَّرِيقِ بِجَوَازِ ذَلِكَ وَأَنَّ لِلْإِمَامِ إعَادَتَهُمْ إلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ. قَالَ شَيْخُنَا: فَجَاءَتْنِي الْفَتْوَى. فَقُلْت: لَا تَجُوزُ إعَادَتُهُمْ وَيَجِبُ إبْقَاؤُهُمْ عَلَى الزِّيِّ الَّذِي يَتَمَيَّزُونَ بِهِ عَنْ الْمُسْلِمِينَ. فَذَهَبُوا ثُمَّ غَيَّرُوا الْفُتْيَا ثُمَّ جَاءُوا بِهَا فِي قَالَبٍ آخَرَ فَقُلْت: لَا تَجُوزُ إعَادَتُهُمْ. فَذَهَبُوا ثُمَّ أَتَوْا بِهَا فِي قَالِبٍ آخَرَ فَقُلْت: هِيَ الْمَسْأَلَةُ الْمُعَيَّنَةُ وَإِنْ خَرَجَتْ فِي عِدَّةِ قَوَالِبَ. قَالَ ابْنُ الْقَيِّمِ: ثُمَّ ذَهَبَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ إلَى السُّلْطَانِ وَتَكَلَّمَ عِنْدَهُ بِكَلَامِ عَجِبَ مِنْهُ الْحَاضِرُونَ فَأَطْبَقَ الْقَوْمُ عَلَى إبْقَائِهِمْ. وَلِلَّهِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّةُ.[42]
’’بعض علما نے اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق نہ ملنے (بھٹکے لوگ) اور صراط مستقیم سے ہٹ جانے کی بنا پر اس کو جائز قرار دے دیا کہ حاکم انہیں سابقہ (مشترکہ) عادات واطوار پر پلٹنے کی اجازت دے دے۔ تو میرے استاد (ابن تیمیہ) کے پاس جب بعض علما کا یہ فتویٰ پہنچا تو آپ نے جواب دیا کہ ان کو مشترکہ عادات پر لوٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور انہیں ایسے اطوار کو ہی اپنانا ہوگا جس سے وہ مسلمانوں سے جدا نظر آئیں۔ غیرمسلم چلے گئے، پھر فتویٰ کی عبارت بدل کرلائے تو میں نے پھر کہا کہ ہرگز جائز نہیں۔پھر وہ سوال کی تیسری شکل بنا کر لائے ، میں نے کہا : مسئلہ بالکل وہی ؍متعین ہے، اگرچہ اس کے متعدد قالب بنا لئے جائیں۔پھر ابن قیم کہتےہیں: کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ حاکم کے پاس چلے گئے اور اس کو ایسے دلائل اور نصیحتیں کیں کہ سب درباری ؍ حاضرین ششد ر ہوکر رہ گئے۔ چنانچہ حاکم نے غیرمسلموں کو ان امتیازی عادات پر باقی رکھا ، الحمد لله والمنه۔‘‘
حافظ ابن قیم لکھتے ہیں کہ ’’بہت سے مفتیان سوال کی ظاہری تبدیلی سے نفس مسئلہ میں الجھ جاتے ہیں ، اور بہت سے کسی دنیوی مفاد میں بہہ جاتے ہیں، مگر جن کو اللّٰہ تعالیٰ محفوظ رکھے[43]۔ ‘‘لیکن مسئلہ کی اصل صورت کو پہچاننا اور اس کو دلائل وبراہین سے واضح کردینا، اور اس کے لئے حاکم کے دربار میں جاکر جدوجہد کرنا اور شریعتِ الٰہیہ کو نافذکروانا اللّٰہ تعالیٰ کی اپنے بعض بندوں پر خاص رحمت ہے ۔
5.  مفسر قرآن حافظ ابن کثیر (م774ھ) نے اپنی مشہور تاریخ ’البدایہ والنہایہ‘ میں ساتویں صدی ہجری کے واقعات میں بیان کیا ہے:
وَفِي يَوْمِ الِاثْنَيْنِ قُرئت شروط الذمة على أهل الذمة وألزم بِهَا وَاتَّفَقَتِ الْكَلِمَةُ عَلَى عَزْلِهِمْ عَنِ الْجِهَاتِ، وَأُخِذُوا بِالصِّغَارِ، وَنُودِيَ بِذَلِكَ فِي الْبَلَدِ وَأُلْزِمَ النَّصَارَى بِالْعَمَائِمِ الزُّرْقِ، وَالْيَهُودِ بِالصُّفْرِ، وَالسَّامِرَةُ بِالْحُمْرِ، فحصل بذلك خَيْرٌ كَثِيرٌ وَتَمَيَّزُوا عَنِ الْمُسْلِمِينَ.[44]
’’سوموار کو غیرمسلموں کی شرائط کو اُن پر پڑھ کر سنایا گیا، اور اُنہیں ان کا پابند کیا گیا۔ اور ذمہ دار مناصب سے ان کی معزولی پر موقف پختہ ہوگیا اور انہیں ماتحت ہونا پڑا۔ شہر میں اس کی منادی کی گئی، اور عیسائیوں کو نیلے عماموں ، یہود کو زرد عماموں اور یہودی فرقے سامرۃ کو سرخ عماموں کا پابند کردیا گیا۔ اس کے ساتھ بڑی خیر پھیلی اور وہ مسلمانوں سے جدا ہوگئے۔ ‘‘
6.  حافظ ابن کثیر کے دور 751 ھ؍ 1350ء میں شروطِ عمریہ نافذ تھیں۔جیساکہ محمد جمال شوربجی لکھتے ہیں:
نصت الشروط العمرية في صيغتها التي كُتبت بها في عام 700هـ/ 1300م أيام السلطان الناصر محمد بن قلاوون على "أن لا يحدثوا في البلاد الإسلامية وأعمالها ديرًا ولا كنيسة ولا صومعة، ولا يجدد منها ما خرب، ولا يمنعوا أن ينزل عليهم أحد من المسلمين ثلاث ليال يطعمونه، ولا يكتموا غشاً للمسلمين، ولا يعلموا أولادهم القرآن، ولا يمنعونهم من الإسلام إذا أرادوا، وإن أسلم أحدهم لا يؤذوه، ولا يتشبهوا بشيء من ملابس المسلمين، ويلبس النصراني من العمامة الزرقاء ثلاثة أذرع فما دونها، واليهودي العلامة الزرقاء كذلك، وتمنع نساؤهم من التشبه بنساء المسلمين، ولا يتسموا بأسماء المسلمين وألقابهم، ولا يركبوا الخيل والبغال، ويسمح لهم بركوب الحمير من دون زينة، ولا ينقشوا خواتمهم بالعربية، ولا يدخلوا الحمام إلا بعلامة تميزهم في عنقهم من حديد أو نحاس أو غير ذلك، ولا يستخدموا مسلماً في أعمالهم، ولا يعلوا بناء قبورهم، ولا يعلوا في البناء على بناء المسلمين، ولا يضربوا بالناقوس إلا ضرباً خفيفاً، ولا يرفعوا أصواتهم في كنائسهم، ولا يشتروا من الرقيق مسلماً ولا مسلمة، ولا يمشوا وسط الطريق توسعة للمسلمين، ولا يفتنوا مسلماً عن دينه، ولا يدلوا على عورات المسلمين، ومن زنى بمسلمة قتل، وكل من مات من اليهود والنصارى والسامرة في سائر المملكة يحتاط ديوان المواريث الحشرية على ماله إلى أن يثبت ورثته ما يستحقونه وفق الشرع الحنيف، فإذا استحق يعطونه بمقتضاه وينقل الباقي إلى بيت المال، ومن مات ولا وارث له يحمل تركته إلى بيت المال شأنهم في ذلك شأن المسلمين."[45]
’’جو شروطِ عمریہ 700 ھ؍ 1300 ء میں سلطان ناصر محمد بن قلاوون کی طے کردہ شرائط میں لکھا گیا کہ   وہ بلادِ اسلامیہ اور اس کے کاموں میں کوئی گرجا، کنیسہ اور معابد نہیں بنائیں گے۔ جو خراب ہوگیا، اس کی تجدید نہ کریں گے، اور مسلمانوں کو اس سے نہ روکیں گے کہ وہ ان کے ہاں تین دن تک بطور مہمان قیام کریں ، اور دھوکہ دیتے ہوئے مسلمانوں سے کچھ نہیں چھپائیں گے ۔ اور اپنے بچوں کو قرآن نہیں پڑھائیں گے۔ اور اگر وہ اسلام لانا چاہیں تو انہیں نہیں روکیں گے۔ اگر کوئی اسلام لے آئے تو اس کو اذیت رسانی نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے ملبوسات جیسے کپڑے نہیں پہنیں گے۔ اور عیسائی تین ہاتھ یا اس سے کم عمامہ پہنے گا۔ اور یہودیوں کی بھی ایسی ہی نیلی علامت ہوگی۔ اور ان کی عورتیں مسلمان عورتوں سے مشابہت نہیں کریں گی۔ وہ مسلمانوں جیسے نام اور القاب نہیں رکھیں گے۔وہ گھوڑے اور خچر پر سوار نہیں ہوں گے۔ تاہم گدھے پر بلاآرائش کے سواری کرنے کی اجازت ہے۔ وہ اپنی انگوٹھیوں میں عربی نقش نہ کروائیں گے۔ اور وہ حمام میں اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ان کے گلے میں لوہے، تانبے وغیرہ جیسی کوئی علامت ہو۔ اپنے کاموں میں مسلمانوں کو مزدوری پر نہیں رکھیں گے۔ اور اپنی قبریں بلند نہیں کریں گے۔ اپنے گھر مسلمانوں سے بلند نہیں بنائیں گے۔ اور گھنٹیاں صرف آہستہ آواز میں ہی بجاسکتے ہیں۔ اور اپنے کلیساؤں میں آوازیں بلند نہیں کریں گے۔اور ایسا غلام نہیں خریدیں کے جو مسلمان مرد یا عورت ہو۔ اور مسلمانوں کے لئے راستہ چھوڑتے ہوئے ،درمیان میں نہیں چلیں گے۔ اور مسلمانوں کے دین میں کوئی فتنہ ؍آزمائش پیدا نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے مخفی اُمور کی نشاندہی نہیں کریں گے۔ اور جس نے مسلمان عورت سے زنا کیا تو اس کی سزا قتل ہے۔ اور یہود ونصاریٰ اور (یہودی فرقہ )سامرۃ میں سے جو پوری مملکت میں کہیں فوت ہوجائے تو ’وراثتیں جمع کرنے کا ادارہ ‘یہ انتظام کرے گا کہ شرعِ اسلامی کے مطابق ہی ان کی وراثت تقسیم ہو۔ اگر ورثا(شرع کے مطابق وراثت کے ) مستحق ہوئے تو انہیں اس کے مطابق حصہ ملے گا، اور باقی ماندہ بیت المال میں منتقل ہوجائے گا۔ اوران میں سے جو بلاوارث فوت ہوجائے تو اس کا ترکہ دیگر مسلمانوں کی طرح بیت المال میں جمع کرا دیا جائے۔‘‘
7.  حافظ ابن حجر کے شاگرد نامور امام شمس الدین سخاوی شافعی (م 902ھ) لکھتے ہیں :
وجمع قبله الشيخ شمس الدين ابن القيم الحنبلي مجلدًا حافلاً في شروط أهل الذمة وأحكامهم ينتفع به وكذا لشيخه التقي ابن تيمية عدة تآليف وفتاوى في آخرين، اجتمع عندي منها جملة "كشروط أهل الذمة" للحافظ أبي الشيخ ابن حيان و"الإيضاح والبيان" للشيخ أبي عبد الله ابن النعمان المالكي و"استعمال أهل الذمة" لأبي أمامة ابن النقاش الشافعي، و"إلزام أهل الذمة بالشروط العمرية" أظنه للعماد ابن كثير الحافظ، ومصنف للحافظ ابن زبر، ولو أردت البسط في هذه المسألة لكان مجلدًا حافلاً، لكن الوقت أضيق عن الاشتغال بما هو معلوم، مقرر، مفهوم، على أن لي جزءًا لطيفًا جمعته حين رام الظاهر حشقدم رحمه الله إلزام أهل الذمة بالشروط العمرية، سميته "القول المعهود فيما على أهل الذمة من العهود" ثم إن اليهود الكذبة الخونة زعموا في أيام الظاهر جقمق رحمه الله في مكان بحارة رويلة كان معدًا لتعليم أطفالهم، والسكنى به، يعرف بدار ابن شميخ أنه كنيسة، فقام المسلمون في صرفهم عن ذلك، واثبتوا على نائب القاضي الحنفي وغيره، أن الدار المشار إليه، مستحقة لبيت المال المعمور بحكم أن ابن سميح المذكور هلك، ولم يعقب، ولم يترك من يحجب بيت المال عن استحقاقها، سفلاً وعلوا وأن رؤساء اليهود القرابين، ومشايخهم يتداولون وضع أيديهم عليها خلفًا عن سلف بغير طريق شرعي، وسر المسلمون بذلك سرورًا كبيرًا. [46]
’’اس سے قبل شیخ شمس الدین ابن قیم حنبلی نے اہل ذمہ کی شرائط واحکام پر ایک بھرپور جلد لکھی ہے، جس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ ایسے ہی ان کے استاد ابن تیمیہ نے متعدد تالیفات اور دیگر فتاویٰ میں بھی لکھا ہے۔ یہ سب چیزیں میرے پاس
شروط اہل الذمہ                     از حافظ ابو شیخ ابن حیان
الایضاح والبیان                     ا ز شیخ ابو عبداللّٰہ ابن نعمان مالکی
استعمال اہل الذمہ                              از ابو امامہ ابن نقاش شافعی
الزام اہل الذمہ بالشروط العمریہ         از حافظ عماد الدین ابن کثیر        غالباً
اور مصنف                                   از ابن زبر نامی کتب
کی صورت میں جمع ہیں۔اگر میں تفصیل سے انہیں قلم بند کروں تو ایک کامل جلد بن جائے۔ لیکن میری معلوم وطے شدہ اور سمجھ میں آنے والی مصروفیات ؍ تنگی وقت کی وجہ سے ، میں نے ایک مختصر جزء پر ہی اکتفا کیا ہے۔ جس کو میں نے اس وقت لکھا جب   سلطان ظاہر حشقدم  نے اہل ذمہ کو شروط عمریہ کا پابند کیا، اس کا نام میں نے القول المعهود فيما على أهل الذمة من العهود رکھا ہے ۔پھر جھوٹے خائن یہودیوں نے سلطان ظاہر جقمق  کے دور میں قرب سمندر ایک وسیع عمارت پر قبضہ کرنا چاہا جو بچوں کی تعلیم اور قیام کے لئے تعمیر ہوئی تھی۔ لوگوں میں وہ دار ابن شمیخ کے نام سے مشہور تھی کہ وہ ایک گرجا ہے۔ تو مسلمانوں نے یہودیوں سے اسے واپس لینے کی جدوجہد کی۔ اور حنفی نائب قاضی کے سامنے یہ ثابت کردیا کہ مذکورہ عمارت بیت المال کی ملکیت ہونی چاہیے۔کیونکہ ابن شمیح مذکور مر چکا ہے اور اس کا کوئی وارث نہیں ہے۔ اور اس نے نیچے یا اوپر ایسی کوئی رکاوٹ نہیں چھوڑی جو بیت المال کو اس کی ملکیت سے روکتی ہو۔ اور قریبی یہودی اور ان کے بزرگ اس کو بلاکسی معقول بنیاد کے ہتھیانے کی کوشش میں ہیں۔ سو اس فیصلہ سے مسلمان بے پناہ خوش ہوئے۔ ‘‘
8.  محمود زیباوی لبنانی روزنامہ ’النہار‘ میں اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں:
... یختصر العلامة السرياني أبو الفرج جمال الدين بن العبري هذا التحول في كتابه "تاريخ الزمان" حيث يقول: "تمادى في بغض المسيحيين حتى اضطرهم أن يتعمموا بعمائم صوف وأن لا يخرجوا خارجاً وأن لا يتزينوا بزنار وكستيج، ومن كان له عبد ألزمه أن يخيط على قميصه من قدّام ومن خلف رقعة لونها غير لون القميص. وأن تُقوّض الكنائس الحديثة البناء. وإذا كان للنصارى كنيسة واسعة ولو قديمة وجب أن يؤخذ جانب منها ويُجعل مسجدًا. وأن لا يطوفوا بالصلبان في احتفالاتهم.
بحسب تاريخ الطبري، أصدر المتوكل هذه الأوامر في عام 235 للهجرة، وتبدو صيغة ابن العبري ملطّفة، مقارنةً بالنص الأصلي المطوّل الذي نقله الطبري.
یہ ’امتیازپر مبنی احکامات ‘ تاریخ کے بعض عہدوں میں پائے گئے ہیں۔ جن میں سب سے مشہور ترین وہ زمانہ ہے جو خلیفہ متوکل کا ہے ۔ یہ وہ دور ہے جب عباسی مملکت زوال اور کمزوری کا شکار ہوگئی۔ نویں صدی کے نصف میں متوکل حکومت پر متمکن ہوا، اور معتزلہ کا اس نے ناطقہ بند کیا، امام احمد بن حنبل کو آزاد کردیا اور ان سے ظلم کو دور کیا۔
علامہ سریانی ابوالفرج جمال الدین بن عبری نے اس تغیر کو اپنی کتاب ’تاریخ الزمان‘ میں مختصر طورپر یوں بیان کیا ہے کہ اس نے عیسائیوں سے نفرت میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے ان کو مجبور کیا کہ وہ اونی عمامے پہنا کریں، باہر مت نکلا کریں، وہ پٹکا اور کستیج (ایسی کپڑوں کے اوپر لگائی جانے والی ایک انگلی کے برابر موٹی پٹی ؍زنار جو کپڑے یا روئی سے بنی ہو )کی زینت استعمال نہیں کرسکتے۔ اور جس کا کوئی غلام ہو تووہ اس کو قمیص پر اس کے رنگ سے مختلف، پٹی آگے سے پیچھے تک باندھا کرے ۔ اور نئے بننے والے کلیساؤں کو گرا دیا جائے۔ اگر عیسائیوں کا کوئی وسیع کلیسا ہو ، چاہے قدیم سے چلا آرہا ہو تو ضروری ہے کہ اس کی جانبی جگہ لے کروہاں مسجد بنائی جائے ۔ متوکل نے یہ احکام 235ھ میں جاری کئے۔ اور ابن عبری کے الفاظ کا اگر امام طبری کے مفصل اور اصلی متن سے مقابلہ کیا جائے تو وہ قدرے نرم نظرآتے ہیں۔‘‘
9.  محمود زیباوی لبنان کے اخبار ’النہار‘ میں مزید لکھتے ہیں:
في الأزمنة الحديثة، نقع على ما يُشبه ذلك في القرن التاسع عشر، أي في زمن أقول العهد العثماني. في كتابه "جسر اللثام عن نكبات الشام"، يخبرنا شاهين مكاريوس أن والي دمشق محمد درويش أصدر في العشرين من شهر حزيران 1821 مرسومًا إلى مشايخ أهالي قرية صيدنايا المسلمين "ليجروا بحسبه ويعتمدوه". يقول هذا المرسوم إن النصارى قلّدوا المسلمين "في ملابسهم وعمائمهم ونعالهم وتعدّوا درجاتهم وخالفوها، فهذا ضد رضانا، ولا يعطى به رخصة، فبناء على ذلك أرسلنا لكم مرسومنا هذا لأجل أن تحذروهم وتنذروهم من عواقب ذلك المراد حالاً وتنبهوا عليهم ألّا يلبسوا ملبوسًا أرزق وعمامة سوداء ونعالا سودا، ولا تدعوهم يقلدوا الإسلام بأدنى شيء، لا نساء ولا رجالا، وإن بلغنا أن واحدا تعدّى الحدود المذكورة فما له أن يُغنى عن حاله، وخطيئته في عنقه".[47]
’’تازہ دو رمیں ، ہم 1نیسویں صدی عیسوی میں اس کے قریب قریب دیکھتے ہیں ، یعنی جس کو میں عہد عثمانی کہہ سکتا ہوں۔ تو شاہین مکاریوس اپنی کتاب جسر اللثام عن نكبات الشام میں لکھتے ہیں کہ حاکم دمشق محمد درویش نےجون 1821ء میں قصبہ صیدنایا کے مسلمان بزرگوں کے نام ایک حکم نامہ جاری کیا کہ وہ اس کے مطابق چلیں، اس پر ہی انحصار کریں۔
یہ حکم نامہ قرار دیتا ہے کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے ملبوسات، عماموں اور جوتوں کی نقالی شروع کردی ہے ۔ اور اپنے مقام سے تجاوز کرکے ان شرطوں کی مخالفت کی ہے، تو یہ چیز ہماری رضا کے مخالف ہے۔ اس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ بایں وجہ میں یہ حکم نامہ آپ کو بھیج رہا ہوں کہ آپ ان کو روکیں اور اس کے انجام بد سے ڈرائیں اور انہیں خبردار کردیں کہ وہ   نیلا لباس، سیاہ عمامہ یا سیاہ جوتے مت پہنیں۔ اور ان کے مردوزن کو کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بھی مسلمانوں کی نقالی نہ کرنے دیں۔ اگر ہمیں پتہ چلا کہ کسی نے بھی مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی کی ہے تو اسے اپنے بارے میں بے پروا نہیں ہونا چاہئے اور اس کی غلطی کا وبال اس کی گردن پر ہوگا۔ ‘‘
شروطِ عمریہ پر عمل کا جدول... مسلم تاریخ کے آئینے میں
دور                 خلیفہ؍ حاکم                        مصنف          كتاب
     16 ھ؍637ء                خلیفہ سیدنا عمر بن خطاب ﷜      ابن زبر، بیہقی                 مسند احمد، سنن کبریٰ
30ھ ؍651ء           خلافتِ راشدہ   ومابعد                     ابن تیمیہ             فتاوی ابن تیمیہ
100ھ؍718ء                   سیدنا عمر بن عبد العزیز﷫        ابن قیم              احکام اہل الذمہ
185ھ؍802ء         خلیفہ ہارون الرشید                       ابن تیمیہ            فتاوی ابن تیمیہ
235ھ؍850 ء          خلیفہ جعفر بن محمدالمتوکل باللّٰہ    ابن تیمیہ            تاریخ طبری
680ھ؍1280ء       حاکم کے دربار میں شیخ ابن تیمیہ نے مناظرہ کیا            فتاوی ابن تیمیہ
700 ھ؍ 1300 ء       سلطان الناصر محمد بن قلاوون     حافظ ابن کثیر                  البدایہ والنہایہ
900 ھ؍1495ء       الظاہر حشقدم؍ الظاہر جقمق                 شمس الدین سبکی      فتاویٰ سبکی
1236ھ؍1821ء     حاکم دمشق :محمد درویش                    محمود زیباوی                   لبنانی اخبار ’النہار‘
خلاصہ بحث
مذکورہ بالا تفصیلات سے علم ہوتا ہے کہ شروط عمریہ اور عہد عمریہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ اور غیرمسلموں کے لئے ان شرائط کی پاکستان جیسے ملک میں خاص اہمیت ہے۔یہ شرائط کتب حدیث میں بیان ہوئی ہیں، اور ان کی دسیوں اسانید کی وجہ سے انہیں مستند سمجھا جاتا ہے۔ نیز ان پر صحابہ کرام کے اجماع کا دعویٰ بہت سے علما نے کیا ہے۔ تاریخ اسلامی کے نامور مسلم حکام نے بھی ان شرائط کو ہر دور میں ، کم وبیش 12 صدیوں تک مسلم معاشروں میں قائم اور نافذ رکھا ہے۔ ٭٭
زیر نظر مضمون میں تفصیل کے ساتھ شروطِ عمریہ کی وضاحت ، آثار ، روایات کی تحقیق، اور مختلف ادوار میں اس کے نفاذ کی تاریخی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ آئندہ ایک مستقل مضمون میں شروط عمریہ کے بارے میں جملہ فقہی مذاہب کے فقہاے کرام کے اقوال اور ان شرائط کی شرعی اساسات (ایسی احادیث وآثار جن کی بنا پر یہ شرائط قائم کی گئیں) ، معنویت، حکمتیں، اور قابل ذکر شرائط کو اصل اسلامی مراجع سے بیان کیا جائے گا۔ اِن شاء اللّٰہ
حوالہ جات:
[1]   عبد الرحمٰن بن غنم نامور تابعین سے ہیں، دورنبوی میں پیدا ہوئے، 78ھ میں وفات ہوئی، مسند احمد میں بہت سی مرسل احادیث ان سے مروی ہیں، اور یحییٰ بن بکیر اور امام ترمذی کا موقف ہے کہ وہ صحابی ہیں، آپ فقیہ اور اہل شام کے استاد تھے۔ (سیر اعلام النبلاء   از محمد بن احمد ذہبی:5؍10 وممن أدرك زمان النبوة، دار الحدیث قاہرہ، 1427ھ)
[2]   عہد عمریہ کی تفصیلات کے لئے دیکھیں مقالہ: روايات العهد ةالعمرية: دراسة توثيقية از ڈاکٹر رمضان إسحاق زیان، پروفیسر شعبہ دراسات اسلامیہ، جامعہ اقصیٰ، غزہ، فلسطین
[3]   محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری: 2/ 449، دار التراث، بیروت 1387 هـ؛ تاریخ یعقوبي:2/147؛ إسماعیل بن عمر بن کثیر، أبو الفداء، البدایة والنهاية:5/281، دار إحیاء التراث العربي، 1408 هـ
[4]   26؍اپریل 1984ء کو صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے آرڈیننس نمبر 20’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘ جاری کیا۔
[5]   فیصلہ سپریم کورٹ 1994ء، جسٹس عبد القدیر چودھری مرحوم ... بحوالہ ’قادیانیت کے خلاف عدالتی فیصلے‘ از محمد متین خالد: ص201، علم وعرفان پبلشرز لاہور، 2002ء
[6]   فیصلہ لاہورہائیکورٹ ، پی ایل ڈی 1992، لاہور :1 ،بحوالہ ’قادیانیت کے خلاف عدالتی فیصلے‘ از محمد متین خالد:ص 201
[7]   یاد رہے کہ اسی کیس میں بطور عدالتی معاون راقم نے شروطِ عمریہ کی تفصیلات کو عدالتِ عالیہ کے سامنے بطور ایک مستند شرعی بنیاد، واضح کیا تھا۔ پھر مفصل فیصلہ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے کئی مقامات پر ان سے استدلال کیا ہے۔
[8]   اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر رِٹ پٹیشن 3862 كا فیصلہ مؤرخہ 4؍ جولائی 2018ء
[9]   سابق فرانسیسی صدر شیراک نے 2003ء میں تیونس کے دورے میں کہا کہ ’’ مکمل سیکولر فرانسیسی حکومت طالبات کو اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ اپنے ہدایت یافتہ ہونے کا اعلان کرتی پھریں۔ حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔‘‘ (ماہ نامہ محدث، لاہور: شمارہ اپریل 2004ء، ص 9)                                        https://www.dw.com/ur/a-51481733
[10]         جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَنَاقِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ)، رقم 3805، صحیح
[11] شرح عقیدہ طحاویہ از امام ابن ابی العز حنفی : ص 299، طبع وزارت اوقاف ، الرياض ، 1418ھ
[12]         سنن ابن ماجه: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ)، رقم 42، شیخ البانی، شیخ ارناؤط نے اس حدیث کو صحیح اور شیخ زبیر علی زئی نے حسن قرار دیا ہے۔ امام ترمذی، امام نووی، ابو نعیم ، اور قاضی زکریا انصاری(م 926ھ) نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
[13]         جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ فِي مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ)، رقم 3682، صحیح
[14]         سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ (بَابٌ فِي تَدْوِينِ الْعَطَاءِ)، رقم 2961
[15]         أبوبكر الخلال البغدادي (311 هـ)، أحكام أهل الملل والردة من الجامع لمسائل أحمد بن حنبل: حاشيه ص 11 رقم 1000، 1/ 360، طبع أوّل ، دار الکتب العلمیة، 1994م و زوائد مسند احمد بن حنبل (لم أجده)
[16]         عیسائیوں کے ہاں معابد کی کئی ایک قسمیں ہیں، بعض انفرادی اور بعض اجتماعی عبادت کے لئے اور بعض بلند، بعض عام گھروں جیسے۔ اور ان خصوصیات کے لحاظ سے ان کے نام مختلف ہیں۔ صومعہ صرف معبد کو کہا جاتا ہے، کنیسہ ،دیر اور قلایۃ عیسائی گرجاؤں کے مختلف نام ہیں۔ جن میں قلایۃ کی بجائے قلابۃ یعنی ی کی بجائے ب کا لفظ بھی بولا گیا ہے۔ اور بیع کا لفظ یہودی اور عیسائی معابد ، دونوں کے لئے عام ہے۔ ان معابد کی مزید تفصیل نواب صدیق حسن خاں کی زبانی آیتِ ذمہ (التوبہ: 29)کی تشریح میں دیکھی جاسکتی ہے۔
[17]         أحمد بن حسین، أبوبکر بیهقي(م458 هـ) السنن الکبری: 18717، ج 9/ص339 ، باب الإمام يكتب كتاب الصلح على الجزية، دار الکتب العلمیة، بیروت2003م
[18]         سعان کو گذشتہ حدیث میں ش کے ساتھ شعان بھی لکھا گیا ہے، جبکہ پچھلی روایت میں ہی باعون کو باعوث یعنی ن کی بجائے ث کے ساتھ بھی لکھا گیا ہے۔ چونکہ یہ اسم الصوت ہیں، اس لئے ان کے ضبط میں لکھنے والوں کے مابین اختلاف رہا ہے۔ بہرحال ان سے مراد عیسائیوں کے مسلمانوں کی عید الفطر اور عید الاضحیٰ سے ملتے جلتے تہوار ہیں۔
[19]         أحكام اهل الملل والردة من الجامع لمسائل أحمد بن حنبل : رقم 993، 1/354، دار الکتب العلمیة، بیروت 1994م؛ أحکام أهل الذمة:3/1278
[20]         ابو عبد الله محمد بن أبوبكر ابن قیم الجوزیة، أحکام أهل الذمة: 3/1278، محقق: یوسف بن أحمد البکری، الرمادی للنشر، الدمام،1997م
[21]         أحمد بن عبد الحلیم ابن تیمیة، إقتضاء الصراط المستقیم: ص 368، دار عالم الکتب، بیروت 1419 هـ ؛ احکام أهل الذمة:3/1273
[22]         أحکام أهل الذمة:3/1274؛ اقتضاء الصراط المستقیم: ص 368
[23]         ابوبكر خلال بغدادی نے اپنی کتاب أحكام أهل الملل میں عبد اللّٰہ بن احمد بن حنبل کے طریق سے نمبر 1000 كے تحت اس کو روایت کیا ہے۔
[24]         حافظ علی بن أحمد ابن حزم اندلسي، المحلى بالآثار: 7/346،(5؍414، 415)، رقم 959دار الفکر ، بیروت ،س ن ... المحلی كے مقدمہ میں آپ لکھتے ہیں: لم نحتج إلا بخبر صحيح من رواية الثقات مسند.
[25]         حدیث اورتاریخ کے دوعلوم سے متعلق ہونے کی بنا پر دو جگہ پر اس کا ریکارڈ ہے: تاریخ تیمور نمبر 2252 اور حدیث 2218، مائیکروفلم نمبر 48608
[26] دیکھیے: نظام محمد صالح یعقوبي، جزء فیه شروط أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب: ص 12، دار البشائر الإسلامیة، بیروت2001ء
[27]         یہ دونوں قیمتی رسالے دار البشائر الاسلامیہ، بیروت نے 2001ء اور 2006ء میں پوری تحقیق کے ساتھ شائع کردیے ہیں۔
[28]         أحمد بن عبد الحلیم ابن تیمیة، اقتضاء الصراط المستقیم: ص 366، دار عالم الکتب، بیروت 1419 هـ
[29]            أحمد بن عبد الحلیم ابن تیمیة ، الصارم المسلول: ص 208، الحرس الوطني السعودي ، الرياض س ن؛ إقتضاء الصراط المستقیم: ص 364،رواه حرب بإسناد جيد... امام ابوبكر خلال كی تصنیف ’أحکام الملل‘ میں اس سلسلے کی بہت سی روایات ہیں۔
[30]         تقی الدین علی الکافي السبکی، فتاویٰ السبکي: 2/399،دار المعارف، القاهرة
[31]         حافظ إسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، مسند الفاروق: 2/399، دار الفلاح مصر2009م
[32]         حافظ إسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، إرشاد الفقیه:2؍341،مؤسسة الرسالة، بیروت
[33]         تفسیر ابن کثیر:4؍133
[34] أخرجه أبو دادود في سننه. (الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح از احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ) : ص 308
[35]         أحمد بن عبد الحلیم ابن تیمیة، الصارم المسلول: ص 208، 209، الحرس الوطنی السعودي، الرياض
[36]         أحمد بن عبد الحلیم ابن تیمیة، الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح :ص 304 تا 314، تحقیق وتعلیق: د/علی بن حسن بن ناصر، دارالعاصمة، سعودی عرب 1999م
[37]         الجواب الصحيح لمن بدّل دين المسيح:1/ 312، دار العاصمة، سعودی عرب 1999ء
[38]         اقتضاء الصراط المستقیم : ص 368،دار عالم الکتب، بیروت 1419ھ
[39]         أحمد بن عبد الحلیم ابن تیمیة، مجموع فتاویٰ ابن تیمیه: 28/654، مجمع ملك فهد، المدینه الطیبة، 1995م
[40]            إعلام الموقعين :4 / 193، دار الكتب العلمیة، بیروت 1411هـ
[41]         مجموع فتاویٰ ابن تیمیة: 28/658، مجمع ملك فهد، المدینه الطیبة، 1995م
[42]         ایضًا
[43]            إعلام الموقعين : 1؍144، دار الكتب العلمیہ، بیروت 1411ھ
[44]         البدايۃ والنہايۃ از حافظ ابن كثير: 14؍19...أحداث سنة 700 هــ
[45]         http://www.alhayat.com/article/869011, dated: 10th Jan, 2019.
[46]         محمد بن عبد الرحمٰن السخاوی،الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية: 3؍1027،دار الرایہ للنشر، 1418ھ