فروری 2020ء

مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کا دوغلا کردار اور ملتِ اسلامیہ

جہاں ’حق خود ارادی‘ کے مغربی ڈھونگ کی حقیقت کھلتی ہے!
زیر نظر تحریر سے قبل ’حق خود ارادی اور جہاد‘ پر اسی شمارے میں شائع شدہ راقم کے اُصولی مضمون کا مطالعہ مناسب ہوگا، جو مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ہی لکھا گیاہے۔              ( ح۔م)
مسئلہ کشمیر کے دو حل ہیں: ایک اسلامی جہاد اور دوسرا مغربی حق خود ارادی۔ تقسیم ہند کے وقت جہاد کی بجائے، حق خود ارادی کے ذریعے اُن خطوں کو پاکستان سے ملانے کا فیصلہ کیا گیا، جہاں مسلمان اکثریت میں تھے۔ پھر اس وقت موجود متعدد خود مختارریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ چاہیں تو پاکستان یا بھارت کے ساتھ اپنا الحاق کرسکتے ہیں۔ جب کشمیری راجہ ہری سنگھ نے اس سے انکار کیا تو پاکستان نے آزادی کے فوراً بعد 1948ء میں کشمیری عوام کی داخلی تائید کے ساتھ، جہاد کے ذریعے اس خطے کو اپنے ساتھ ملانے کی جدوجہد[1] کی۔ اس موقع پر اقوام متحدہ عالمی طاقتوں کے جلو میں اپنے الحادی نظریۂ حق خود ارادی کے ساتھ نمودار ہوئی اور اس نے پاکستان وبھارت کو حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے، کشمیری عوام کے لئے حق خود ارادی اور ووٹنگ کی ضمانت دی۔ پھر مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کا اپنا نعرہ اس کے گلے کی پھانس بن گیا، چنانچہ اگلے ستر سال اسی ٹال مٹول میں گزر گئے کہ جہاد کا راستہ بند کرنے والی اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو ا ن کا مسلمہ انسانی حق بھی نہ لے کردیا۔ کیونکہ اقوام متحدہ کی سرکردہ طاقتیں اسلام یا الحاد، کسی بھی صورت میں مسلمانوں کوریلیف دینے کو تیار نہیں ، چاہے ان کے مسلمہ نظریات کا بھانڈا پھوٹ جائے۔
کشمیر کو اس وقت انڈیا کی وفاقی حکومت کے زیر انتظام کرکے درحقیقت اسے مسئلہ فلسطین بنانے کی پیش بندی کی جارہی ہے، جس میں فلسطینیوں کی اکثریت کو چند دہائیوں میں اقلیت میں بدلنے کے بعد ، آئے روز ان پر نئے مظالم کی داستان رقم کی جاتی ہے، اور دنیا ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم ‘کی مصداق بنی بیٹھی ہے۔ یہی صورت حال کشمیر کے تاریخی حصے چین کے صوبہ سنکیانگ میں نصف صدی سے جاری ہے جس کے نتیجے میں 1948ء کے 94 فیصد اکثریتی ؍3 کروڑ مسلمان اس وقت چینی جبر واستبداد کے بعد 48 فیصد کی کمتر اقلیت میں بدل چکے ہیں۔ اور انہیں اسلام سے مزید منحرف کرنے کی کوشش جاری ہے۔ امریکہ فلسطین میں غاصب یہودی طاقتوں کا پشتیبان اور سنکیانگ میں اپنے سیاسی مقاصد کےلئے پابندیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔بہرحال کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کے دوغلے کردار کا نکات آئینہ درج ذیل ہے:
مقبوضہ کشمیر کے حالیہ حقائق
5؍ اگست2019ء کو بھارت نے دستوری دہشت گردی کرکے، ’اپنے زیر انتظام کشمیر‘ میں کشمیریوں کے شہری حقوق پر دست درازی کر دی اور ماضی میں مہاراجہ کشمیر سے طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کو فلسطین کے باشندوں کی طرح اپنے ہی وطن میں اجنبی بنانے کا اقدام کرلیا۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل370 کے ذریعے ’’کشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں سے خصوصی حیثیت دی گئی تھی او راس کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ اُمور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر بھارتی قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔‘‘
آرٹیکل 35 ؍اے کے مطابق
’’کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے، اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتا ہے۔‘‘
اب ان قوانین کے خاتمے کا نتیجہ یہ ہے کہ انڈیا کے ایک اَرب، 10 کروڑسے زائد غیر مسلم بھی وہاں زمین کی خرید وفروخت کرسکتے ہیں تو پھر کشمیر ی عوام کی اکثریت تحلیل ہونے میں چند ماہ کا عرصہ ہی درکار ہے جو تاریخی طور پر 96 فیصد مسلم اکثریت پر مشتمل رہی ہے۔
کشمیر کے بارے میں ظالمانہ بھارتی قانون کے بعد ، 5؍ اگست 2019ء سے مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری سماجی پابندیوں کوچھ ماہ؍200 دن سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ ہزاروں اضافی فوجی تعینات کرنے کے بعدمسلسل دفعہ 144 یعنی کرفیو نافذ ہے۔ 90 لاکھ سے زیادہ مسلمان اس تہذیب یافتہ دور میں نقل وحرکت، ابلاغی رابطوں اور مذہبی وسیاسی آزادی کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ [2] اور امریکہ محکمہ خارجہ [3] کے آزادی اور حالات کو معمول پر لانے کے احکامات سمیت اقوام متحدہ کے معتبر عالمی پلیٹ فارم پر ان مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور دہائی دی جاچکی ہے ، لیکن بھارتی سرکار اپنے ظلم وجبر میں اندھی ہوچکی ہے۔ سری نگر کی جامع مسجد میں اذان و باجماعت نماز سمیت، وادی میں تمام مذہبی وسیاسی اجتماعات پر پابندی ہے۔ کشمیریوں کو اپنے بارے میں خبریں بیرونی دنیا سے ملتی ہیں، خود آپس میں ان کا رابطہ ممکن نہیں ۔ سرکاری مرکز میں چند گھنٹوں کے لئے برائے نام چھ کمپیوٹرز پر انٹرنیٹ کو صحافیوں کے لئے کھولا [4] جاتا ہے۔
نام نہاد تہذیب وتمدن کے اس دور میں انسانوں کی اتنی بڑی تعداد بنیادی حقوق سے محروم ہے، لیکن عالمی برادری اور اقوام متحدہ کسی سنجیدہ اقدام پر غور نہیں کر رہی۔ امریکہ نے چین پر سنکیانگ کے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بعد پابندیوں کا بل تو کانگریس میں پیش کردیا ہے، لیکن انڈیا کے کھلے مظالم کے بارے اس کی آنکھیں بند ہیں۔ اس کے باوجود مسلمانوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مغربی اقوام کو غیرجانبدار مانیں۔ کشمیر پر مسلسل پابندی کے بعد اور مزید کس دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ بھارتی حکومت بدترین جبر واستحصال کے ستّرسالوں کے باوجود بھی کشمیریوں کا فیصلہ تبدیل نہیں کرسکی۔انٹرنیٹ پر پابندی کا اس کے سوا کیا مطلب ہے کہ مودی سرکار اپنے کشمیری مظالم پر دنیا کو لاعلم اور بے خبر رکھنا چاہتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے شہری 14؍ اگست کو یوم آزادی منا کر ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو واضح کرتے رہے ہیں۔
کشمير کی خصوصی آئينی حيثيت کے خاتمے سے متعلق بھارتی فيصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جموں و کشمير کو دو مختلف خطوں میں تقسیم کردیا گیاہے ۔ صدر رام ناتھ کووند کے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر نےکے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت 30 ؍ اکتوبر 2019ء کو ختم ہو گئی ہے۔ ايک حصہ جموں و کشمير جب کہ دوسرا بدھ مت کے پيروکاروں کی اکثريت والا لداخ قرار پایا ہے۔ ان دونوں کا انتظام نئی دہلی کی وفاقی حکومت کے ذمے کردیا گیا ہے ۔ جموں اور وادی کے لیے گریش چندر مرمو کو اور لداخ کے لیے آر کے ماتھر کو گورنر مقرر کیا ہے۔ بھارتی حکومت اس علاقے میں تمام ہندوستانیوں کو جائیداد کی خرید و فروخت کی اجازت دے کر ، ایک طرف کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتی ہے اوروہاں اقتصادی ترقی کی رفتار بڑھانے اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے مغالطے دیتی ہے،تاکہ کشمير میں دہائيوں سے جاری تحريک آزادی کسی طرح  کمزور پڑجائے ۔
کشمير کے مرکزی شہر سری نگر ميں سڑکيں وغيرہ مسلسل ویران ہیں ۔ مقامی افراد نے احتجاجاً دکانيں بھی بند رکھی ہوئی ہيں۔ کسی ممکنہ نا خوشگور واقعے سے نمٹنے کے ليے پوليس اور فوج کی بھاری نفری تعينات ہے۔ تاہم سری نگر سے پتھراؤ کرنے کے بيس واقعات کی رپورٹيں موصول ہوئی ہيں۔[5]
جنوری کے وسط میں بھارتی سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل بنچ نے انٹرنیٹ پر مستقل پابندی کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے، پابندیوں کے متعلق فیصلہ سنایا:
’’انٹرنیٹ کو اظہار کی آزادی کے بنیادی حقوق کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ پر غیر معینہ مدت کی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ دفعہ 144 کے تحت مظاہروں اور جلسے جلوسوں پر پابندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا اس کا نفاذ جمہوری حقوق کو دبانے کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے۔ ۔ عوام کو حکومت سے اختلاف کے پر امن اظہار سے نہیں روکا جا سکتا۔‘‘[6]
تاریخی تناظر اور اقوامِ متحدہ
1.  کشمیر اور قادیانی سازش: مسئلۂ کشمیر دراصل اس قادیانی سازش کا نتیجہ ہے جب تقسیم برصغیر کے وقت 1947ء میں سر ظفر اللّٰہ قادیانی نے قادیان کے ضلع گورداسپور کو قادیانی سٹیٹ قرار دلوانے کے لئے انگریز سامراج سے ساز باز کی ۔ تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلمان خطے اور ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرسکتے تھے۔ لیکن قادیانیوں نے اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دے کر پاکستان کے ساتھ ملنے سے انکار کیا تو کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا۔ پھر گورداسپور تو قادیانیوں کو نہ ملا لیکن بھارت زمینی طور پر کشمیر سے منسلک ہوگیا اور کشمیر ایک سلگتا مسئلہ بن گیا۔ ثابت ہوا کہ قادیانی اسلام اور پاکستان کے بد ترین دشمن ہیں۔ [7]
2.  اقوام متحدہ کی ضمانت: کشمیر تقسیم پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے، حالیہ بھارتی یک طرفہ اقدامات کے بعد کشمیر کا مسئلہ 1948ء کے مقام پر واپس چلا گیا ہے، جہاں اقوام متحدہ نے اسے اپنے تصرف میں لے لیا تھا۔ اقوام متحدہ کے کشمیر پر کردار کا جائزہ لیں تو درج ذیل عجب تضادات سامنے آتے ہیں :
جنوری 1948ء میں جب پاکستانی فوج کشمیر میں کامیابی کے قریب پہنچ چکی تھی تو بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے مطالبے پر اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور مسئلہ کے تینوں فریقوں کو ایک ایک ہدایت کی :
’’اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 21 ؍اپریل 1948ء کو ایک قرارداد نمبر 47منظور کی گئی جس میں اس مسئلے کے حل کے لیے تین مرحلہ وار نکات تجویز کیے گئے:
1.  پاکستان کشمیر سے اپنے تمام شہری [یعنی فوجی اورسِول افراد] واپس بلوائے۔
2.  انڈیا کشمیر میں صرف اتنی فوج رکھے جو کہ امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو۔
3.  انڈیا اقوامِ متحدہ کا نامزد کردہ رائے شماری کمشنر تعینات کرے جو ریاست میں غیر جانبدار
               رائے شماری کروائے۔‘‘[8]
یعنی اقوام متحدہ نے پاکستانی فوج ، قبائلیوں اور سول افراد کو فوری طور پر کشمیر سے نکل جانے کا حکم دے کر کشمیر کو بھارتی فوج کے زیر انتظام دے دیا، اور ووٹنگ کمشنر مقرر کرنے کی ذمہ داری لیتے ہوئے قرار دیا کہ کشمیر کا فیصلہ یہاں کے عوام کی استصوابِ رائے سے ہوگا۔[9]
3.اقوام متحدہ نے پھر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے، اپنے اقدامات کے اس باب ششم میں ڈال دیا ، جس پر کوئی جارحانہ اقدام کرنے کی بجائے، صرف وعظ ونصیحت اور تلقین وسفارش سے ہی کام لیا جاتا ہے۔ معروف صحافی وسعت اللّٰہ خان لکھتے ہیں:
’’کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں اقوامِ متحدہ چارٹر کے باب ششم کے تحت منظور کی گئی ہیں۔ان کی نوعیت محض اخلاقی و سفارشی ہے۔ اگر کوئی فریق ان قراردادوں پر عمل نہیں کرتا تو اس کے خلاف اقوامِ متحدہ کوئی ٹھوس تادیبی کارروائی نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کے خلاف منظور کی جانے والی قراردادوں کی نوعیت بھی ایسی ہی ہے۔
اگر یہی قراردادیں اقوامِ متحدہ چارٹر کے باب ہفتم کے تحت منظور ہوتیں تو پھر ان پر عمل درآمد کے لئے سیکورٹی کونسل رکن ممالک کو اقتصادی و عسکری طاقت کے استعمال کا حکم بھی دے سکتی تھی۔ جیسا کہ سنہ 1950 کی جنگِ کوریا اور پھر کویت پر سے عراقی قبضہ چھڑوانے والی قراردادوں کے نتیجے میں ہوا۔‘‘[10]
ان قرارد ادوں کو باب ہفتم کی بجائے باب ششم کے تحت منظور اور درج کرنا بھی اقوام متحدہ کی انتظامی جانب داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
4.  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پچاس برس بعد 16؍ اگست 2019ء کو مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا ، جس کا اجلاس بھی باقاعدہ ہونے کی بجائے ایک غیر رسمی بند کمرے کی مشاورتی میٹنگ پر مشتمل تھا۔ اس سے اقوام متحدہ کی اپنے فرائض سے غفلت اور انسانی حقوق   کے محض رسمی سیاسی نعرے کا علم ہوتا ہے۔
5.  اقوام متحدہ کا اپنے فرائض سے انحراف: عرصہ دراز سے بھارت ناجائز طور پر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہا ، کشمیر پر اپنے تسلط کو قائم کرنے کے لئے اپنی فوج کی تعداد بڑھاتا رہا، حالانکہ اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر47 میں انڈیا کو صرف اتنی فوج رکھنے کا پابند کیا گیا تھا جو صرف امن وامان کی صورتحال کنٹرول رکھ سکے جبکہ غیرقانونی طور پر انڈین فوج کی کشمیر میں تعینات فوج 6لاکھ سے سے زیادہ رہی، جس کی تعداد ان دنوں 9 لاکھ سے متجاوز ہے۔
ایسی صورت حال میں اقوام متحدہ پر لازم تھا کہ وہ بھارتی حکومت کو اپنے اٹوٹ انگ کے دعوؤں سے باز رہنے کی ہدایت کرتا ، کیونکہ کشمیر کی حیثیت اس کے زیر انتظام علاقے سے زیادہ نہیں ہے جس کو اقوام متحدہ نے ہی اس کے حوالے کیا تھا ۔ پھر اس آرٹیکل 370اور 35 ؍اے کو بھارتی دستور سے ختم کرنے پربھی اقوام متحدہ کو بھارت پر اس کا ناجائز قانونی اقدام واضح کرنا چاہیے تھا، لیکن سلامتی کونسل کے غیر رسمی اجلاس میں اقوام متحدہ نے اپنے مسلمہ فرائض سے کوتاہی کی ۔ ایسے ہی رویے بھارت کو ڈھٹائی اور من مانی کرنے پر اُبھارتے ہیں۔
6.  عالمی طور پر مسلمہ حق خود ارادی کے حصول کی منظم جدوجہد: اقوام متحدہ کے حالیہ واقعاتی کردار اور اپنے حاصل کردہ فرائض سے واضح غفلت سے قطع نظر، اس کا ایک اصولی فریضہ ہے جو اقوام متحدہ کے عالمی منشور انسانیت UNHRمیں مندرج ہے کہ
’’آرٹیکل 21:(1) ہر شخص کو اپنے ملک کی حکومت میں براہ راست یا آزادانہ طور پر منتخب کئے ہوئے نمائندوں کے ذریعے حصہ لینے کا حق ہے۔
(3) عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیاد ہوگی۔ یہ مرضی وقتاً فوقتاً ایسے حقیقی انتخابات کے ذریعے ظاہر کی جائے گی جو عام اور مساوی رائے دہندگی سے ہوں گے ۔ اور جو خفیہ ووٹ یا اس کے مساوی کسی دوسرے آزادانہ طریق رائے دہندگی کے مطابق عمل میں آئیں گے۔ ‘‘
اس آرٹیکل کی رو سے ہر خطے کے عوام کو اپنا حاکم چننے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ بغیر کسی تاریخی پس منظر اور ذمہ داری کے بھی، یہ اقوام متحدہ کا اپنا مستقل آئینی فریضہ ہے کہ وہ کشمیریوں کو یہ حق دلوانے کی مضبوط جدوجہد کرے۔ جیساکہ اقوام متحدہ نے 2002ء میں مشرقی تیمور اور 2011ء میں جنوبی سوڈان میں اپنے اسی آئینی کردار کو فوری طور پر ادا کیا، جب وہاں عیسائیوں کی حق رائے دہی کا مسئلہ تھا، اور دو اسلامی ممالک انڈونیشیا اور سوڈان کو تقسیم کرکے رکھ دیا۔ وہاں نہ تو کشمیر کی طرح ،اقوام متحدہ کی پہلے سے کسی ضمانت پر کوئی فوج باہر بھیجی گئی تھی ، نہ کوئی معاہدہ ہوا تھا۔اور نہ ہی اس اقدام کو باب ششم میں رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوا۔
حق خود ارادی پر مشتمل اقوام متحدہ کے اس قانون سے دنیا کی مختلف اقوام فائدہ اُٹھاتی ہیں، لیکن جب بات کشمیر یا مسلمانوں کی ہو تو عالمی اداروں کوچپ سادھ جاتی ہے۔ ابھی 23؍ نومبر 2019ء کو آسٹریلیا کے قریبی ملک پاپوا نیوگنی کے ایک 10 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل جزیرے   ’بوگن ول‘ پر آباد تین لاکھ انسانوں نے اپنا خود ارادی کا حق استعمال کرتے ہوئے عالمی طاقتوں:امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان کی فنڈنگ سے ریفرنڈم منعقد کیا ہے۔ جس کے بعد عنقریب ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں اس چھوٹے سے ملک کو پاپوا نیو گنی سے آزادی مل جائے گی۔ بوگن ول سونے اور کانسی کی معدنیات سے مالا مال، مسیحی اکثریت پر مشتمل ہے۔ [11]
انڈیا بھر میں پھیلتا احتجاج : انڈیا میں’نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز‘ NRC کے بعد 12؍ دسمبر 2019ء کو جاری ہونے والے ’شہریت کے ترمیمی قانون ‘ CAA سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر فسادات کا آغاز ہوگیا ہے۔ دو درجن سے زائد مسلمانوں کی شہادت اور 200 سے زیادہ زخمیوں کے بعد، انڈیا کے مسلمان شدید بے اعتمادی اور بے چینی کا شکار ہوگئے ہیں۔
15؍ دسمبر 2019ء کو جامعہ ملیہ، دہلی سے شروع ہونے والی عوامی تحریک کے بعد دہلی کے شاہین باغ میں دوماہ کے دوران مظاہرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جس کو غالب ومتعصّب ہندو میڈیا مسلسل نظرانداز کررہا ہے۔ دوصدیوں کی سرد ترین ، 31 دسمبر 2019ء کی رات کو دریائے جمنا کے کنارے لاکھوں مسلمان خواتین کے عزم کو شدید سرد ہوا کی لہریں بھی متزلزل نہیں کرسکیں، کیونکہ اُنہیں مودی حکومت کے ان قوانین کو ماننے کے نتیجے میں مسلمانوں کے لئے جیل یا دربدر ٹھوکریں نظر آرہی ہیں۔ یہ وہ گھریلو خواتین ہیں جو کسی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں بلکہ ان حقیقی جذبات کا اظہار کرنے پر مجبور ہیں جن سے ہندوستان کی عظیم مسلم اکثریت دو چار ہے۔
’شہریت کے نیشنل رجسٹر ‘ میں اندراج کے لئے مسلمانوں کو تو ضروری دستاویزات پیش کرنا لازمی ہیں، جبکہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے ذریعے ہندو، سکھ اور عیسائی بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے نقل مکانی کا دعویٰ کرکے، انڈین شہری ہونے کا استحقاق رکھتے ہیں، اس بنا پر یہ قانون سیدھا سادا بھارتی مسلمانوں کو انڈیا سے بے دخل کرنے اور ان پر ہردم لٹکتی تلوار کی مانند ہے، جس کے تحت دیگر مذاہب کے برعکس کسی بھی مسلمان کی شہریت کو منسوخ کیا جاسکتا ہے اور مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو اکثریت سے اقلیت میں بدلا جاسکتا ہے۔ اسی بنا پر آسام کے صوبے میں دہائیوں سے قیام پذیر 19؍لاکھ مسلمانوں کو  بھارتی شہریت سے محروم کردیا گیا ہے ۔اسی طرح مسلمانوں کی اکثریت والے صوبے اُتر پردیش میں احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے پوسٹر ز بڑے پیمانے پر پھیلاکر پولیس گردی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لئے ملک سے اپنی وفاداری کو ثابت کرنا ہوگا، یا اسلام کو خیر باد کہنا ہوگا۔
1955ء کے قانون شہریت میں شہریت ترمیمی بل 2019ء CAAکے قانونی جواز کے خلاف تین فریقوں کی اپیل کی پیروی کرنے والی سپریم کورٹ کی وکیل فوزیہ شکیل کا کہنا ہے کہ” CAAغیر قانونی تارکین وطن کی از سر نو تعریف کرتا ہے اور تین ممالک سے آنے والے چھ مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو مستثنیٰ قرار دیتا ہے اور انھیں پانچ سال کی مدت میں شہریت دینے کی بات کہتا ہے۔‘‘[12]
چونکہ بھارتی حکومت کا یہ قانون مسلمانوں سے واضح امتیاز پر مبنی ہے جس کی آئین میں مندرج انسانی حقوق کے آرٹیکل 14، 15 اور 21 مخالفت کرتے ہیں ، اس بنا پر ملک بھرسے اس کی مخالفت میں آوازیں بلند ہورہی ہیں، جن کو پوری شدت سے دبایا جارہا ہے۔ احتجاج کرنے والے کشمیری اور بھارتی مسلمان ملک بھر میں قیام پاکستان کے دو قومی نظریے کے تاریخی نعرے کو دُہرا رہے ہیں: ’تیرا میرا رشتہ کیا... لا الٰہ الا اللّٰہ‘ ۔مسلمانوں میں اسلامی اخوت کے اس طاقتور نعرے سے خائف ہوکر لبرل بھارتی شہری، مسلمانوں کو متحدہ قومیت پر یقین کرنے اور انسانی بنیادوں پر اپنی مدد پر اعتماد کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔
متحدہ قومیت کا یہ فریب ، کانگریس کا وہی دعویٰ ہے جس کو سب سے پہلے علامہ اقبال نے بھانپ کر خطبہ الٰہ آباد1930ء میں پاکستان کا نقشہ پیش کیا تھا، پھر قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستانی صوبائی انتخابات 1937ء میں برصغیر میں بننے والی پہلی ہندو اکثریتی کانگریسی حکومت کے واضح جانبدارانہ رویے کے بعد دوقومی نظریے کا نعرہ بلند کیا تھا، جب کانگرس نے 12 صوبوں میں حکومت بنا کر، اذان پر پابندی، نماز کے اوقات میں ڈھول بجانے، ہر تقریب کا آغاز بندے ماترم سے کرنے، اور گائے کے ذبیحہ پر پابندی[13] لگا دی تھی۔ تب قائد اعظم نے 1940ء میں مینار پاکستان پر برصغیر کے مسلمانوں کی علیحدہ قوم ہونے کے نظریے کی قرارداد لاہور پیش کی تھی۔ اس وقت بھی مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابو الکلام آزاد اسی متحدہ قومیت کے نظریےکے اسیر تھے، جس پر علامہ اقبال نے سنگین الفاظ میں تنقید کی تھی:
عجم ہنوز نہ داند رموزِ دین ورنہ                  ز دیوبند، حسین احمد، چہ بوالعجبی ست
سرود بر سرِ منبر کہ ملت از وطن است              چہ بے خبر ز مقامِ محمدؐ عربی ست
آج جس طرح کشمیر کی صورتحال 1948ء کے مقام پر وہیں واپس آگئی ہے، جہاں سے شروع ہوئی تھی، اور مسلمانوں کے 70 سال ہندؤوں کے مظالم سہنے میں گزر گئے، اسی طرح پورے انڈیا میں متحدہ قومیت کا نظریہ بھی ایک بار پھر اپنی حقیقت طشت ازبام کرچکا ہے۔ اور قائد اعظم کا دوقومی نظریہ دوبارہ موجودہ حالات میں اپنی صداقت کی گواہی دے رہا ہے۔ انڈیا کے حالات ایک نئے پاکستا ن بننے کی طرف جارہے ہیں۔
کفرکے دعوے ماضی کی طرح جھوٹے ہیں، اور مسلمانوں سے ان کی نفرت کی وجہ صرف ان کا اسلامی عقیدہ ہے۔ کفر کے مقابل اسلام کی نظریاتی طاقت ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کا حقیقی تحفظ کرسکتی اور باقی دنیا کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار اور اپنی ذمہ داریوں کا شعور پیدا کرسکتی ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو اپنی اصل نظریاتی طاقت سے کسی طور دستبردار ہونے کی بجائے، مختلف مخصوص علاقوں میں یکجا ہوکر، پاکستان کی طرح دو قومی نظریے کی بنا پر اپنے سیاسی حق کے لئے آواز بلند کرنا اور دنیا میں جاری نظام پر اپنے حق خود ارادی کی مسلسل دستک [14]دینا ہوگی، تاآنکہ انڈیا ان مسلمانوں کے لئے ریفرنڈم کی ووٹنگ کرانے پر مجبور ہوجائے۔ انڈیا کے مسلمانوں کو کانگرس نے مسلسل مغالطوں کا شکار کرکے آہستہ آہستہ ستّر سال کے عرصہ میں اس قدر کمزور کردیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت ہوکر بھی اپنے بنیادی حقوق کے لئے وہ انتہا پسند ہندوؤں کے رحم وکرم پر ہیں۔ مسلمانوں کے ان مختلف معاشروں کو منظم ہوکر ،ان مسلمان ممالک اور مسلمان تنظیموں کے ساتھ مسلسل اپنے حقوق حاصل کرنے اور انڈیا کا اصل بھیانک چہرہ دکھانے کی جدوجہد کرنی چاہیے جن کو اپنے ملک کی ترقی اور عیش وعشرت کی بلندیوں کوچھونے کے علاوہ کسی ملّی رشتے کی کوئی فکر نہیں۔
گذشتہ صدی میں تین بار جہادی معرکوں   کا مرکز بننے والی، ایودھیا کی مشہور بابری مسجد کے انہدام کے سیاسی نعرے سے انڈیا بھر میں مذہبی تشدد کی داعی بی جے پی نے اپنا سیاسی تشخص حاصل کیا، پھر عملاً 1992ء میں مسجد کو شہید کرکے چھوڑا۔ آج مودی کی دوسری حکومت اسی ہندو مسلم کارڈ کو کھیل کر، امریکہ کی تائید سے انڈیا میں مسلمانوں کی قسمت کا حتمی فیصلہ کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔
7.  شہری حقوق کا تحفظ: عالمی منشور انسانیت کے آرٹیکل13، 18 اور 19 کے تحت انسانوں کے شہری، اطلاعی، آزادانہ نقل و حرکت کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی اقوام متحدہ کا آئینی فریضہ ہے۔ لیکن اقوام عالم کی اس پر گھمبیر خاموشی معنی خیز ہے۔ گویا اپنے جانوروں تک کو حقوق دینے کا دعویٰ کرنے والا مغرب، جب مسلمانوں کے حقوق پر آتا ہے تو وہاں ان کی زبانیں کنگ ہوجاتی ہیں۔ عمران خان نے اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں بجا کہا ہے کہ اتنا طویل عرصہ اگر جانوروں کو بھی قید رکھا جاتا تو مغربی اداروں کی پھرتیاں دیدنی ہوتیں، لیکن یہ ظالم عالمی برادری مسلمانوں کو حیوانوں جتنا حق آزادی دینے کو بھی تیار نہیں۔
امریکا کے سینیٹر گیری پیٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر سے فوج باہر نکالے اور شہریوں کو آزائ اظہار کی اجازت دے۔ اس نے یقین دہانی کرائی کہ ’’وہ مسئلہ پر دیگر اراکین سینیٹ سے بات کریں گے اور سینیٹ میں قراردادپیش کی جائے گی۔‘‘[15]
دراصل اس طرح کے امریکی مطالبے اور حکام کے دعوے ظلم کے دباؤ سے ہوا نکالنے اور خوابِ غفلت   میں سلانے کی ناروا کوشش کے سوا کچھ نہیں ۔ تاہم ایسے بیانات سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ اس مسئلہ کی سنگینی کو ماننے پر غیرمسلم بھی مجبور ہیں۔ اگر یہ لوگ سنجیدہ ہوں تو کوئی امریکی سینیٹر سنکیانگ کے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر، چین کی طرح بھارت پر پابندیوں کا بل کیوں امریکی کانگرس میں پیش نہیں کرتا؟
8.  جان ومال اور تشدد سے بچاؤ کا حق: انسانوں کے جان ومال کا تحفظ اور تشدد سے بچاؤ بھی اقوام متحدہ کا فریضہ ہے۔ 9 ؍اگست2019ء کو سری نگر میں ’صورہ‘ کے مقام پر احتجاج پر بھارت فوج کی پیلٹ گن سے سیدھی فائرنگ بھی بہیمانہ ظلم و تشدد ہے۔صورہ احتجاج کے مرکز کے طور پر سامنے آیا ہے۔ کشمیر میں خوف وہراس کا یہ عالم ہے کہ سرکاری سکول کھلنے کے باوجود طلبہ سکولوں میں آنے سے گریز اں ہیں، یہ ایسے وقت میں ہے جب کہ وادی کی پوری سیاسی قیادت نظربند ہے اور کسی طرف سے بھی احتجاج کی کال نہیں دی گئی۔ سیاسی رہنماؤں، کاروباری شخصیات اور کارکنان سمیت تقریباً25 ہزار افراد کو زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔ کئی افراد کو ریاست کے باہر موجود جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔چھن کر آنے والی ظلم کی چند عالمی خبروں کے مطابق ، بعض کشمیریوں کا بیان ہے کہ
’’انھوں نے میرے جسم کے ہر حصے پر مارا پیٹا۔ انھوں نے ہمیں لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے، تاروں سے پیٹا۔ انھوں نے ہمیں ٹانگوں کی پچھلی جانب مارا۔ جب ہم بے ہوش ہو گئے تو انھوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔ جب انھوں نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو اُنھوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر دیے۔
جب میں نے کپڑے اتارے تو انھوں نے تقریباً دو گھنٹے تک مجھے بے رحمی سے ڈنڈوں اور سلاخوں کے ساتھ پیٹا۔ جب بے ہوش ہو گیا تو انھوں نے مجھے ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔‘‘[16]
بعض کشمیریوں کے مطابق، بہت سے شہری ہلاک ہوگئے ہیں لیکن شہری یونینیں اُنہیں موت کے تصدیق نامے جاری نہیں کررہیں۔
کشمیر میں ہونے والے ان تمام مظالم کو نظرانداز کرکے اور اپنے تمام فرائض سے منہ موڑ کر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا صرف یہ کہہ کر اُٹھ جانا کہ ’فریقین تشدد سے بچیں[17]‘ سراسر مفاد پرستی، فرائض سے انحراف اور بھارت کو کھلی چھوٹ دینا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت جو بھی کرلے، بس چیخیں بلند نہ ہونی چاہئیں۔
9.  مذکورہ بالا نکات سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر پر باقاعدہ قرار دادوں کے علاوہ اقوام متحدہ کے’ حقوق انسانی کا چارٹر ‘بھی اُسے کئی اعتبار سے اُصولاً کشمیریوں کی مدد کا پابند کرتا ہے ۔ حتیٰ کہ 1972ء کے شملہ معاہدے کی پہلی شق کی رو سے بھی ہندوپاک میں تعلقات کی مستحکم بنیاد اسی اقوام متحدہ کے چارٹر کو قرار دیا گیا[18] ہے۔ لیکن یہاں بھی اقوام متحدہ کا کردار مفاد پرستانہ اور دوغلاہے۔پاکستانی سفارتکار شمشاد احمد خان کے مطابق
’’عمل درآمد کے پہلو پر سلامتی کونسل کو ہم محض ایک ’ڈبیٹنگ کلب‘ ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ادارہ اب ایک رسمی کارروائی کے علاوہ کچھ نہیں اور انسانی حقوق پر بھی اب ملکی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جب اقوام متحدہ بنی تھی تو اسے دنیا میں انسانیت کی بہترین امید کہا جاتا تھا لیکن اب یہ آخری بدترین سے بھی بد ترین اُمید کہلائی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے سامنے سینکڑوں قراردادیں پڑی ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔ کشمیر پر بھی قراردادیں یو این آرکائیو کا حصہ ہیں۔ ایک اور سفارتکار تسنیم اسلم کا کہنا ہے کہ انڈیا نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے سے انکار کیا تو بھی اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکے گی ۔ ‘‘[19]
10.  اقوام متحدہ عالمی طاقتوں کا آلہ کار اور ان کے مفادات کی ڈھال ہے: اقوام متحدہ نے عراق کی جھوٹی جنگ 2003ء پر بھی امریکہ وبرطانیہ کا کوئی ہاتھ نہ روکا، بلکہ صرف شور ڈالنے پر اکتفا کیا۔ جب امریکہ نے عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کا جھوٹا الزام عائد کیا، جس کی بعد میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے وزراے اعظم نے عراقی عوام سے باقاعدہ معافی مانگی۔ برطانیہ کی سرچلکوٹ رپورٹ نے اس مسئلہ میں ظلم وتباہی کا ذمہ دار سراسر بش حکومت کو قرار[20] دیا۔ان مظالم کا نتیجہ ہے کہ 2003ء کے بعد 17 سال گزرگئے اور عراق ابھی تک لاکھوں مسلمانوں کی قربانی اور شہروں کی بربادی کے ساتھ سلگ رہا ہے۔ ڈھٹائی اور سینہ زوری دیکھئے کہ جنر ل قاسم سلیمانی پر ڈرون حملہ کے بعد جب امریکہ کو عراقی پارلیمنٹ نے باہر نکلنے کی قرار داد پیش کی تو امریکی صدر کا جواب تھا کہ پہلے یہاں پر لگے ہمارے اربوں ڈالر ادا کئے جائیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ایسے سفاکانہ اقدام پر امریکہ وبرطانیہ کی نری معذرت کی بجائے، ان کو سنگین سزا دی جاتی، اُنہیں انسانی حقوق کا مجرم قرار دے کے عالمی ضمیر کو اُن کے خلاف متحد کیا جاتا ، لیکن عالمی برادری میں ایسا انصاف ہی ناپید ہے۔ اسی رویے نے نام نہام تہذیب وتمدن کے اس دور میں دنیا کو طاقتوروں کے لئے جنت اورکمزوروں کے لئے جہنم بنارکھا ہے۔ دور حاضرکا یہ عالمی ظلم قرون وسطی کے مظالم سے کہیں زیادہ سنگین اوربھیانک ہے۔
11.  اقوام متحدہ نے جب مسلمانوں پر اپنے خودساختہ انسانی حقوق عائد کرنے ہوں تو اس کی رعونت قابل دید ہوتی ہے۔ 1989ء میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف قائم ہونے والا اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘ FATF کس طرح فرضی جرائم کے دعوے کرکے، پاکستانی معیشت کو دباؤ میں لاتا اور اس سے دسیوں سماجی اور سیاسی اقدام کرواتا ہے، ہر باشعور پاکستانی اس سے آگاہ ہے۔
دراصل اقوام متحدہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کو طاقتور ممالک نے اپنے بہیمانہ مفاد ات کے لئے خود ہی قائم کیا، اور اپنی ڈھال بنا رکھا ہے، چونکہ ویٹو کے ذریعے اقوام متحدہ کے اقدامات پر سیکورٹی کونسل میں بیٹھی چند طاقتوں کی اجارہ داری ہے۔ چنانچہ بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کی بھاری اکثریت سے منظور ہونے والی قرار داد ہو، یا بھارتی شہریت کے قانون کے خلاف اکثریتی قرارداد، ایسے ہی ہرسال کئی روز تک نیویارک میں ہونے والی اقوام متحدہ کی تقاریر، جیساکہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کشمیرکے بارے میں خطاب کیا، یہ سارے اقدامات صرف اخلاقی حیثیت رکھتے ہیں جن کا اقوام متحدہ کے کردار سے کوئی تعلق نہیں، جبکہ دوسری طرف جب مسلمانوں کی بات آتی ہے تو اقوام متحدہ نے پہلے کشمیر میں مزاحمت کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا، پھر جماعت الدعوۃ اور مجاہدین کی دیگر تنظیموں کو مجرم بتایا، پھر اپنی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے ایک طرف کشمیر میں تمام مزاحمت کو بند کرکے رکھ دیا، پھر ایسے تمام اداروں کے فنڈز منجمد کردیے، اوراب لگاتار حکومت پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھ کر، آئے روز نت نئے مطالبے کئے جارہے ہیں۔ پاکستان میں ہر سطح پر جاری اقلیتوں کی نازبرداریاں ہوں، یا دینی اداروں پر آے روز کی بندشیں[21] یہ سب اسی فنانشل ٹاسک فورس کا کیا دھرا ہے؟ عالمی قوانین کے اصل مجرم انڈیا پر تو اقوام متحدہ بالکل خاموش اور مجبور دِکھتا ہے، اور مظلوم مسلمانوں اور پاکستان کو دبانے کے لئے اس کے ترکش میں سارے تیر موجود ہیں۔ کوئی ملک خود پیش قدمی کرے تو دہشت گرد ٹھہرے اور سیکورٹی کونسل تک رسائی کے لئے لمبی جدوجہد کرے، بمشکل اس کی آواز سنی جائے اور اس کے ایجنڈے پر آجائے تو ویٹو کا سامنا کرے!
اقوام متحدہ کے یہی دوغلے رویے دنیا میں اس کے خلاف نفرت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ پھر بعض لوگ اس کو ظلم کے خلاف معیار قرار دیں تو ان کی دانش پرسوال اُٹھتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انصاف کا دعویٰ اور اس سے امید کے راگ الاپنے والے جاوید غامدی جیسے مفکر ایمانی جذبہ وفراست سے عاری ہیں۔پھر جب وہ جہاد کا معیار اقوام متحدہ کو قرار دیتے ہیں تو ان کی فکری بے چارگی اور ذہنی افلاس پر رحم آتا ہے۔
12.  شملہ معاہدہ پر بھی اقوام متحدہ کا چارٹر نگران ہے: قضیہ کشمیر پر پاکستان کا اُصولی موقف بہرحال اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے زیادہ قرب رکھتا ہے، جبکہ بھارت بظاہر شملہ معاہدے(2؍جولائی 1972ء )کو سامنے لاتا ہے کیونکہ شملہ معاہدہ اس موقع پر انڈین سفارتکاری کی کوشش تھی ، جب پاکستانی فوج مشرقی پاکستان میں  شکست کھا چکی تھی۔ شملہ معاہدہ کے متن کو دیکھا جائے تو اس میں بھی دوسری شق اقوام متحدہ کے چارٹر کو مرکزی حیثیت دیتی ہے، تاہم بھارتی سفارتکار شملہ معاہدے کا وہ مفہوم بیان کرتے ہیں جس سے ان کے موقف کی ترجمانی ہوتی ہے کہ کشمیر انڈیا اورپاکستان کا باہمی مسئلہ ہے، اس میں کسی تیسرے فریق کو نہیں ڈالا جاسکتا۔ اور اس دعوے سے پاکستانی سفارتکار متفق نہیں ہیں۔ گویا انڈیا کے پاس لے دے کر، شملہ معاہدے کی من مانی تشریح ہی ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی قرار دادیں پاکستانی موقف کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔
٭کشمیر کے بارے میں تین موقف پائے جاتے ہیں: پاکستان کے ساتھ انضمام کا، اور یہی عظیم کشمیری اکثریت کا مطالبہ ہے۔ انڈیا کے ساتھ الحاق کا، جو اتنی کمزور سی آواز ہے کہ انڈیا کو چھ ماہ بعد بھی کرفیو اُٹھانے کی ہمت نہیں ہورہی ۔اور عالمی طاقتیں کشمیر کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کرکے اس اہم خطے کواپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم کشمیر کا قضیہ چونکہ اسلا م او ر مسلمانوں کا معاملہ ہے، یہ تقسیم پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے، اس لئے کشمیریوں کی اکثریت آزاد کشمیر کی طرح پاکستان کے ساتھ ہی انضمام چاہتی ہے جیساکہ وہ اپنا یوم آزادی 14؍ اگست کو ہی مناتے ہیں اور کشمیریوں کو انڈیا کی طرف سے اسی کی سزا دی جارہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا آزاد کشمیر کے شہریوں کے ساتھ جتنابہتر رویہ ہوگا، کشمیری اتنا زیادہ پاکستان کے ساتھ انضمام پر ہی کاربند رہیں گے۔
مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا ایک طریقہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ہیں اور دوسرا ملتِ اسلامیہ کے جسد واحد کا نظریہ اور جہاد ۔ پاکستان کے مقدمے میں ہر دو لحاظ سے قوت پائی جاتی ہے، دنیا بھرسے کشمیریوں کے انسانی حقوق کے نام پر ہمدردی سمیٹی جائے، لیکن یاد رکھیے کہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہمارا اصل تعلق علاقائی سے بڑھ کر اسلام اور ملتِ واحدہ کا ہے۔ نظریات کی یہ طاقت سب سے دیرپا اور مؤثر ہے، اور اس پر ہی ملت اسلامیہ کو متحد کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو اپنی پوری کوشش جاری رکھنی چاہیے، کیونکہ انڈیا کے تمام اقدامات یک طرفہ ہیں، عوام سراپا احتجاج ہیں اور ملک بھر میں حالات مزید بگڑتے جارہے ہیں۔
پس چہ باید کرد؟
1.     امریکہ کی ثالثی نرا دھوکہ ہے: کشمیر کے مسئلہ پر امریکی صدر اب تک چار بار ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں، جسے انڈیا فریقین کا باہمی مسئلہ قرار دے کر ٹھکراتا آیا ہے۔ امریکی کانگریس میں بھی کشمیر پر پابندی اور صحافیوں کو جانے کی آزادی کا مطالبہ دہرایا جاچکا ہے۔ تاہم امریکہ سے کسی خیرکی اُمید رکھنا سراسر دھوکہ کھانا ہے۔ امریکہ کی ثالثی کی دعوت اُسی گریٹ گیم کا حصہ ہے کہ پہلے پاکستان سے کشمیر کی حمایت کے بدلے میں افغانستان میں مدد لی جائے ۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی حمایت ایک ڈھونگ ہے اور بھارت کا امریکہ کو آنکھیں دکھانا نرا دھوکہ ہے۔ آخر امریکہ کشمیر کو آزاد خطہ ہی قرار دے گا جس کے تحفظ اور انتظامی مفادات بھارت کے ساتھ منسلک ہوں گے۔کیونکہ افغانستان کے بعد اس خطے میں امریکہ کو اپنے اڈے قائم کرنے کے لئے ایک آزاد علاقے کی از حد ضرورت ہے۔لداخ کے نام سے مقبوضہ کشمیر کو علیحدہ کرکے، بھارت پہلے ہی امریکہ کو فوجی اڈے دینے پر حامی بھر چکا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ گذشتہ دنوں کہہ چکا ہے کہ ٹرمپ کی شکل میں وائٹ ہاؤس میں ہندوؤں اور ہندوستان کا بہترین دوست موجود ہے۔چنانچہ اپنے دوست مودی کی طرف سے پیش کئے گئے لداخ میں اپنے اڈے قائم کرکے، امریکہ ایک طرف چین کو ستائے گا تو دوسری طرف سی پیک کے پاکستانی منصوبے کو ملیا میٹ کرے گا۔ پاکستان کو امریکہ سے کسی خیر کی اُمید رکھنا نری خوش فہمی ہے کیونکہ امریکہ کا مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام سےدیرینہ سفاکانہ او رظالمانہ کردار اسی کا آئینہ دار ہے۔ فلسطین میں ثالثی کا نتیجہ بالکل ظاہر ہے۔
2.  بھارتی مسلمانوں پر مظالم سراسر پاکستان کی کمزوری کا شاخسانہ ہے:کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کی طاقت مضبوط اور پراعتماد پاکستان میں ہے۔ جب پاکستان کمزور ہوگیا تو کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کا کوئی چارہ گر نہ رہا۔موجودہ حالات میں بھارت کی طرف سے کشمیر کا یک طرفہ فیصلہ کردینا دراصل آئی ایم ایف کی قسطوں کی قیمت ہے۔ پاکستان داخلی سیاست کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے اور آئی ایم ایف کی مسلسل قسطوں کی وجہ سے پاکستان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ کشمیر کے موجودہ حالات چین کا ساتھ چھوڑ کر اور سی پیک سے نکل کر عالمی برادری کے چنگل میں پھنسنے اور جماعۃ الدعوۃ پر پابندی کا سیدھا سادا نتیجہ ہیں۔یہ یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ ہے، ہنود نے اقدام کیا اور یہود نے سلامتی کونسل میں اسے تحفظ دیا۔ قرآن کی گواہی سچی ہے:
﴿لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النّاسِ عَدوَةً لِلَّذينَ ءامَنُوا اليَهودَ وَالَّذينَ أَشرَكوا... ﴿٨٢﴾... سورة المائدة
’’اے نبی ! آپ بلاشبہ ضرور ایسے لوگوں کو ایمان والوں کا بدترین دشمن پائیں گے، جو یہودی ہوئے اور جنہوں نے شرک کا راستہ اختیار کیا۔ ‘‘
ہنود جو بتوں کے بچاری مشرک ہیں یعنی انڈیا ، اور یہود یعنی اسرائیل ، دونوں کی دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اور جب عالمی طاقتیں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے ذریعے ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرکے ، ان کی مدد کو آن موجود ہوتی ہیں، تو وہاں بھی یہودیوں کی وہی مسلمانوں سے نفرت اور قوت کارفرما ہے، جو معیشت وسیاست کے میدانوں میں مسلسل جدوجہد کے بعد اُنہوں نے عیسائی دنیا اور عالمی اداروں کو اپنا ذہنی ، فکری اور سیاسی غلام بنا کر اُنہوں نے حاصل کی ہے۔
جب کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا کی سیاست کا محور ہے۔ بھارت کو یہود کی پوری آشیر باد حاصل ہے۔ عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ نے اس کو حل کرنے کی بجائے مزید گھمبیر کردیا ہے۔اور پاکستان کے لئے کشمیر صرف مسلمانوں کے حقوق اور ان کے حق رائے دہی کے علاوہ اس کی قومی بقا کا بھی مسئلہ ہے کہ ہمارے موسم اور دریا فطری طور پر کشمیر سے ہی آتے ہیں ، کشمیر بلاشبہ پاکستان کی شاہ رگ ہے۔ تو پاکستان کے لئے ملی اور قومی تقاضوں کی بنا پر کشمیر کو انڈیا کے قبضہ سے آزاد کرائے بنا کوئی چارہ نہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت چھ ماہ کے طویل عرصے میں اس مسئلہ پر بیان بازی سے آگے بڑھ کر کسی حکومت کے سنجیدہ اقدام اور حمایت میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اقوام متحدہ کے غیررسمی سیشن 16؍ اگست میں کشمیر کے بارے میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوسکی، اور وزیر اعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر محض بیان بازی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اب حکومت ستمبر 2020ء کے انتظار کی تلقین کررہی ہے۔
3.  جہاد میں ہی اُمت کی بقا ہے : کشمیر کی آزادی کے لئے دوبارہ پاکستانی قوم کو اسی جہاد کی طرف جانا ہوگا، جس کا راستہ اقوام متحدہ نے 1948ء میں بند کیا تھا۔ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشمیر جیسا سلگتا مسئلہ اس خطے کے امن وامان کے لئے خطرہ ہے۔ ایسے حالات میں ہر مسلمان اور پاکستانی کو کشمیریوں کے حق میں دعا اور اپنے ہر ممکنہ کردار کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
افسوس کہ ان حالات میں جہاد کی عظیم طاقت کی ایمانی روح ختم کرنے والے غامدی مفکر، اُمت کو اسی اقوام متحدہ کی طرف لوٹنے کی ترغیب دے کر فکری اور نظریاتی بحران پیدا کررہے ہیں۔؏  
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب            اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!
اسلام کی رو سے جب بھی ملتِ اسلامیہ پرکسی خطے میں ظلم ہو، تو ان سے قریب سے قریب تر، اور زیادہ سے زیادہ امکان رکھنے والوں پر اس ملی ظلم کے خاتمے کے لئے جہاد کرنا واجب اور فرض عین ہوجاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ جہاد کی صورتیں بیان کرکے ان کے احکام واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَأَمَّا إذَا أَرَادَ الْعَدُوُّ الْهُجُومَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَإِنَّهُ يَصِيرُ دَفْعُهُ وَاجِبًا عَلَى الْمَقْصُودِينَ كُلِّهِمْ، وَعَلَى غَيْرِ الْمَقْصُودِينَ، لِإِعَانَتِهِمْ، كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ﴾ [الأنفال:72] . وَكَمَا أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بنصر المسلم، وسواء كان الرَّجُلُ مِنْ الْمُرْتَزِقَةِ لِلْقِتَالِ أَوْ لَمْ يَكُنْ. وَهَذَا يَجِبُ بِحَسَبِ الْإِمْكَانِ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، مَعَ الْقِلَّةِ وَالْكَثْرَةِ، وَالْمَشْيِ وَالرُّكُوبِ، كَمَا كَانَ الْمُسْلِمُونَ لَمَّا قَصَدَهُمْ الْعَدُوُّ عَامَ الخندق لم يأذن الله في ترك لأحد، كَمَا أَذِنَ فِي تَرْكِ الْجِهَادِ ابْتِدَاءً لِطَلَبِ الْعَدُوِّ، الَّذِي قَسَّمَهُمْ فِيهِ إلَى قَاعِدٍ وَخَارِجٍ. بَلْ ذَمَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَ النَّبِيَّ ﷺ ﴿يَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌ وَ مَا هِيَ بِعَوْرَةٍ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا﴾ [الأحزاب:13]. فَهَذَا دَفْعٌ عَنْ الدِّينِ وَالْحُرْمَةِ وَالْأَنْفُسِ، وَهُوَ قِتَالُ اضْطِرَارٍ، وَذَلِكَ قِتَالُ اخْتِيَارٍ، لِلزِّيَادَةِ فِي الدِّينِ وَإِعْلَائِهِ، وَلِإِرْهَابِ الْعَدُوِّ، كَغُزَاةِ تَبُوكَ وَنَحْوِهَا.[22]
’’جب بھی دشمن مسلمانوں پر اقدام کرے تو براہِ راست نشانہ بننے والوں پر اس کا دفاع کرنا واجب ہے، اور جو مسلمان نشانہ نہیں بنے، اُن پر لازم ہے کہ ان کی مدد کریں۔ جیساکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ ’اگر وہ تم سے دین میں مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازمی ہے، سوائے ایسی صورت کے، کہ تمہارے اور اس قوم کے درمیان کوئی پہلے سے معاہدہ موجود ہو۔‘اور ایسے مسلمانوں کی مدد کرنے کی دلیل نبی کریمﷺ کا ہر مسلمان کی مدد کرنے کا حکم بھی ہے۔اور اس میں بھی کوئی فرق نہیں کہ ایسے دفاعی جہاد میں مسلمانوں کے پاس جہاد کا سامان ہوبھی یا نہیں ۔ اور یہ جہاد ہر مسلمان پر اس کی ذات اور مال کے لحاظ سے فرضِ عین ہے۔ وہ قلیل ہوں یا زیادہ،پیادہ ہوں یا سوار۔ جیساکہ جب مسلمانوں پر دشمن نے غزوہ خندق میں اقدام کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے کسی کو اجازت نہیں دی، برخلاف ایسے اقدامی جہاد کے جس میں خوددشمن کا سامنا کیا جاتا ہے اور اُسی جہادِ اقدامی کو اللّٰہ تعالیٰ نے قاعد اور مجاہد میں تقسیم کرکے فضیلت کو بیان کیا ہے۔دفاعی جہاد میں جو لوگ نبی کریمﷺ سے اجازت مانگتے تھے، تو قرآن کریم نے ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں : ہمارے گھر خالی ہیں، حالانکہ گھروں کے خالی ہونے کی بات فضول ہے، وہ تو صرف جہاد سے جان بچانے کے بہانے بناتے ہیں۔ چنانچہ دفاعی جہاد دین، مسلمانوں کی جانوں اور ان کی عزتوں کے دفاع کا جہاد ہے، اور یہ مجبوری کا جہاد ہے۔ جبکہ دوسرا اقدامی جہاد ، دین کی کثرت ،کلمۃ اللّٰہ کی سربلندی اور دشمن کو بھگانے کا جہاد ہے، جیسا کہ غزوہ تبوک وغیرہ میں ہوا تھا۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دفاعی جہاد کے احکام اقدامی جہاد سے مختلف ہیں، اور اس کے آغاز کرنے میں ہمارا اختیار نہیں، بلکہ جب مسلمانوں پر ظلم وزیادتی ہوئی تو باقی مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا ضروری ہے، چاہے ان کی تیاری ہو یا نہیں؟ وہ کم ہوں یا زیادہ، اُنہیں ہر صورت میں اپنی اپنی ہر صلاحیت کے ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا ہے تاکہ ملتِ اسلامیہ جسد ِواحد بن کر، دشمن کے سامنے کھڑی نظر آئے۔
4.  جہاد عالمی معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہمارا اقوام متحدہ سے سرحدوں کی پاسداری کا معاہدہ ہے، اور ایسا ہی معاہدہ انڈیا کے ساتھ بھی ہے، اور قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں بھی معاہدوں کی پاسداری کی بات کی گئی ہے۔ تو ایسی صورت میں پہلے پاکستانیوں اور پھر ملتِ اسلامیہ پر ان عالمی سرحدوں کی پاسداری کرنا شرعاً ضروری ہے۔ معاہدوں کے سلسلے میں ہمیں سیرتِ نبویہ سے رہنمائی ملتی ہے کہ یہودمدینہ نے جب دفاعی معاہدوں کی خلاف ورزی کی تو نبی کریم ﷺ نے بھی ان کو 5 ہجری میں جلاوطن کردیا...قرآن کریم کی رہنمائی اس سلسلے میں بڑی واضح ہے:
﴿وَإِمّا تَخافَنَّ مِن قَومٍ خِيانَةً فَانبِذ إِلَيهِم عَلى سَواءٍ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الخائِنينَ ﴿٥٨﴾... سورة الأنفال
’’اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت (عہد شکنی) کا خطرہ ہو تو برابری کی سطح پر ان کا معاہدہ ان کے آگے پھینک دو ۔ کیونکہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(دیکھیں تیسیر القرآن زیر آیت الانفال:58)
پھر دیکھیے کہ صلح حدیبیہ 6ھ کے اہم ترین معاہدے کے بعد فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے کیسے معاہدوں کی پاسداری کی؟صلح حدیبیہ کی رو سے مسلمان بنوخزاعہ کے حلیف ہوئے اور قریش بنوبکر کے۔ بعدازاں شعبان 8 ھ میں قریش نے مکہ مکرمہ میں بنوبکر کے ظلم وقتل کے جواب میں نہ تو حرم کا پاس کیا اور نہ ہی معاہدے کی رو سے اپنے زیر سایہ بلکہ اپنی مدد سے ہونے والے بنو خزاعہ کے قتل کا خون بہا دینے پر آمادہ ہوئے تو عمر و بن سالم خزاعی نے مدینہ پہنچ کر نبی کریمﷺ سے مدد کی فریاد کی، اور انہیں ان کا معاہدہ یاد دلایا۔ نامور سیرت نگار مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں :
’’قریش اور اس کے حلیفوں نے جو کچھ کیا، وہ کھلی ہوئی بدعہدی اورصریح پیمان شکنی تھی، جس کی کوئی وجہ جواز نہ تھی...قریش نے ابوسفیان کو تجدید معاہدہ کے لئے بھیجا، مدینہ سے واپس پہنچ کر ابوسفیان نے قریش کو یہ رپورٹ دی کہ میں محمد کے پاس گیا، تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا، ابوبکر کے پاس گیا تو کوئی بھلائی نہ ملی، عمر بن خطاب کے پاس گیا تو سب سے سخت پایا، پھر علی کے پاس گیا تو انہوں نے نرم ترین بات کی۔ پھر نبی کریم نے رمضان 8ھ میں فتح مکہ کے لئے لشکر کی قیادت کی۔‘‘ مختصراً[23]
قرآن كريم اور سیرت النبیﷺ کے ان واقعات سے علم ہوتا ہے کہ جب دشمن معاہدوں کا پاس نہ کرے تو مسلمانوں پر بھی معاہدوں کی پاسداری لازمی نہیں۔ کشمیر سے پاکستانی فوج اور شہریوں کا اخراج 1948ء میں اقوام متحدہ کے معاہدوں کا نتیجہ ہے، اسی نے انڈیا کو کشمیر پر عارضی فوجی کنٹرول دیا تھا۔ جب اقوام متحدہ کو اپنی مسلمہ ذمہ داریوں اور عالمی معاہدات کا کوئی پاس نہیں، اور انڈیا بھی اپنے دستور میں مذکور معاہدات سے منحرف ہوکر طاقت کی زبان بول رہا ہے، تو شرعاً ایسے عالمی اور علاقائی معاہدوں کی پابندی مسلمانوں پر بھی لازمی نہیں رہی۔ موجودہ عالمی قانون کی رو سے پاکستان کو اقوام متحدہ سے رجوع کرنا چاہیے لیکن وہاں تو اپنے فرائض کا کوئی احساس اور مسلمانوں کی کوئی شنوائی نہیں جس کی تفصیلات پیچھے گزریں، تو اس پر انحصار اور اعتماد کیسا؟
بالفرض شملہ معاہدہ 1972ء کی رو سے کشمیر کا مسئلہ دو طرفہ طور پر حل کیا جانا چاہیے تھا، توجب انڈیا نے یکطرفہ طور پر آئینی دہشت گردی کی، تو اس طرح وہ اپنے معاہدے سے منحرف ہوگیا اور شملہ معاہدہ کی بھی کوئی حیثیت باقی نہ رہی، جیساکہ پاکستان کے حالیہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی لگاتار یہی بات کہہ رہے ہیں۔ اب کشمیر کا معاملہ سیدھا سادا طاقت کا کھیل ہے، جیسا کہ نئے بھارتی آرمی چیف نے بھی آزاد کشمیر کو حاصل کرنے کی دھمکی لگا دی ہے۔ اس کے لئے ملتِ اسلامیہ میں ضروری لابنگ اور منصوبہ بندی کرکے، پاکستانی حکومت کو کشمیری مسلمانوں کو مظالم سے تحفظ اور دفاع کو یقینی بنانے کے لئے اقوام متحدہ پر مزید انحصار کی بجائے اسلامی جہاد کی طرف جانا ہی پڑے گا۔ یہی شریعت کا مطالبہ، حالات کا تقاضا اور نوشتۂ دیوار ہے۔ عالمی برادری کا ڈھونگ آشکارا ہوچکا اور اقوام متحدہ کے دعوؤں کی قلعی کھل چکی ہے!!
5.  وطنی مفادات کی بجائے وحدت اُمت ہی مسائل کا حل ہے: اُمتِ مسلمہ کے زوال اور مسلمانوں پر آئے روز بڑھتے مظالم کی وجہ زبان رسالت سے بیان ہوچکی ہے، سید المرسلین نبی مکرّمﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے:
«يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا». فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلٰكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ! وَلَيَنْزَعَنَّ اللهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْـمَهَابَةَ مِنْكُمْ، وَلَيَقْذِفَنَّ اللهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ»، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: «حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْـمَوْتِ»[24]
” ایسا وقت آنے والا ہے کہ دوسری اُمتیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو بلائیں گی جیسے کہ کھانے والے اپنے پیالے پر ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ۔“ تو کہنے والے نے کہا : کیا یہ ہماری ان دنوں قلت اور کمی کی وجہ سے ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:” نہیں ،بلکہ تم ان دنوں بہت زیادہ ہو گے ، لیکن جھاگ کی طرح ہو گے جس طرح کہ سیلاب کا جھاگ ہوتا ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وَهن ڈال دے گا ۔ “ پوچھنے والے نے پوچھا : اے اللّٰہ کے رسول ! وَهن سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا:” دنیا کی محبت اور موت كو ناپسند كرنا۔“ یعنی اپنے اپنے دنیوی مفادات کی فکر اور آخرت کو بھول جانا۔‘‘
مسلمان اس لئے پریشان حال ہیں کہ مسلم اقوام نے مغربی نظریہ وطن پرستی کے تحت ذاتی ذاتی مفادات کے علم اُٹھا رکھے ہیں اور ملت کا پاسباں کوئی بھی نہیں۔جس حجاز سے اسلام طلوع ہوا اور جس ملک کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ پر اُٹھی، ان سمیت سارے مسلمان اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ جس طرح پاکستان کو افغانستان کی جنگ 2001ء میں امریکہ کی مدد کرنے ، اور سنکیانگ کے مسلمانوں کے حق میں آوازاٹھانے سے چین سے وابستہ ملکی مفادات نے روک رکھا تھا ، اسی طرح عرب ممالک بھی انڈیا سے اپنے اپنے وطنی مفادات کی بنا پر تعلقات بنا رہے ہیں، اور یہی ذاتی مفادات اور دنیا سے محبت اُمت کی اصل کمزوری ہے۔
نبی مکرمﷺ نے سچ فرمایا تھا کہ دنیا کی قومیں تم پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گی، تمہاری تعداد اور وسائل بے شمار ہوں گے، لیکن تمہارا وزن سیلاب پر بہنے والے خس وخاشاک سے زیادہ نہ ہوگا۔ وجہ پوچھنے پر آپ نے جواب دیا کہ تم دنیا کی طرف لپکو گے اور آخرت کو بھلا بیٹھو گے۔
جب ہنود کو یہود کی طاقت سیکورٹی کونسل نے سپورٹ کیا ، ملتِ کفر میں قدرِ مشترک اسلام دشمنی ہے تو اس کا سامنا اکیلے نہیں، صرف نظریاتی اور ملی طاقت سے ہوسکتا ہے جو افسوس کہ امت کے مقتدرافراد واداروں میں جنس نایاب ہے۔یہی نظریاتی طاقت اصل قوت ہے، اسی کو حاصل کرنا ملت کی معراج ہے۔
مغربی اقوام کے نظریات اور ان کی محافظ اقوام متحدہ کا بنایا ہوا نظام دراصل مسائل کی جڑ ہے۔ ایک طرف جہاد کی نفی کرکے اقوام متحدہ نے حق خود ارادی (رائے عامہ) کوحکومت کی بنیاد قرار دیا، بالخصوص مسئلہ کشمیر میں تو اسی اساس پر 1948ء میں فیصلہ سنایا گیا، تو دوسری طرف اسی حق خود ارادی کو قائم کرنے سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اقوام متحدہ اپنے طے شدہ فیصلوں، فرائض اور نظام سے کھلا انحراف کررہی ہے۔ غیر مسلموں کے حقوق اور ان کی ریاست کے لئے تو اقوام متحدہ فوری حرکت میں آتی ہے، جبکہ مسلمانوں کی بات ہو، یا کفر کے بڑے مفادات پر زد پڑے تو چپ سادھ لی جاتی ہے۔ کفرکے ان دھوکوں اور مغالطوں سے امت کے فہیم عناصر کو پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے۔
کشمیر کے موجودہ حالات سے اقوام متحدہ کے قائم کردہ قومی ریاست National State؍ وطن پرستی کے الحادی نظریے کی حیثیت بھی کھل جاتی ہے۔ وطن پرستی کا یہ نعرہ جہاں ایک طرف حق خود ارادیت پر قائم ہے جو کھوکھلا ہوچکا ہے تو دوسری طرف اس نے ملت اسلامیہ کے جسدِ واحد کے شرعی مطالبے کو بھی سنگین نقصان پہنچایا ہے۔ ملت کو وطنیت کے سیاسی افتراق میں مبتلا کرکے، جہاں اپنے اپنے مفادات میں اُلجھا دیا گیا ہے ، وہاں جہاد کی ملی طاقت کو بھی بے معنی کردیا گیا ہے، حق خود ارادیت دراصل جہاد کی نفی پر مبنی ہے۔
مسلمانوں کی جو طاقت بھی تحفظ وبقا کی جائز جدوجہد کرے، عالمی میڈیا کے ذریعے مسلمانوں سمیت تمام انسانوں کو کبھی دہشت گردی ، کبھی شدت پسندی اور کبھی انسانی حقوق کی مخالفت کے نام پر مغالطہ کا شکار کردیا جاتا ہے۔ اور یوں جائز مزاحمت کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کو ہی منظم کردیا جاتا ہے۔ حال ہی میں افغانستان میں طالبان کے خلاف ہونے والے بدترین مظالم ، اس کی غلط رپورٹنگ اور طالبان کی غلط تصویر کشی ، اس ابلاغی دھوکہ دہی[25] کی نمایاں مثال ہیں۔
6.  ملی اداروں کا قیام: ملت کے موجودہ حالات واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ احیاے ملت اور ہمہ نوعیتی دعوت و جہاد کے سوا ، مسلمانوں کے پاس کوئی چارہ کا ر نہیں۔ سعودی عرب کے ایران و یمن کے ساتھ مسائل ہوں، ترکی کی کردوں کے ساتھ مشکلات ہوں یا پاکستان کےلئے کشمیر وافغانستان کے مسائل۔ تمام مسلم ممالک کو آپس میں سرجوڑ کر، ملت کے ناطے اپنے مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔
آخری تین دہائیوں میں تمام قتل وغارت اور جنگ وجدال مسلم یا غیرمسلم ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ بوسنیا، افغانستان، عراق، شام، یمن، لیبیا، چیچنیا، صومالیہ، برما، فلسطین، کشمیر، انڈیا، مصر، بنگلہ دیشں،ڈنمارک، ناروے، امریکہ، چین، نیوزی لینڈ، فرانس ، برطانیہ اور جرمنی وغیرہ میں مسلسل اسلام اور مسلمان ہی نشانے پر ہیں۔ پھر بھی مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہ ہوں تو کس کو دوش دیا جائے؟
اس تمام ظالمانہ منظر نامے کو تشکیل دینے کے لئے کفر نے کم ازکم ایک صدی پر محیط مسلسل جدوجہد کرکے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں پر مشتمل ایک عالمی نظام تشکیل دیا ہے، جن کا مقابلہ بھی اکیلے اکیلے ، یا کفر کی حاشیہ نوازی کی بجائے مشترکہ ملی طاقت کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔ موجودہ ریاستی مظالم ایک عالمی نظام کے بل بوتے پر جاری ہیں، ان ریاستوں کو اقوام متحدہ نے قائم اور تحفظ دے رکھا ہے۔ اور متبادل؍ متوازی عالمی نظام بنائے بغیر اس کا دائمی ازالہ ممکن نہیں۔ تین چار مسلم ممالک بھی متحد ہوگئے اور اپنی طاقت کو مجتمع کرکے سیاسی، عسکری، اور مالی حقیقی اتحاد تشکیل دے لیا، فوری طور پر چین یا روس کو ساتھ ملا لیا، تو مغربی مظالم کو کہیں پناہ نہ ملے گی۔ ان سنگین ملی حالات میں سعودی اور ترکی بلاکوں کی باہمی کشمکش افسوس ناک ہے۔ آپسی الجھنوں کی بجائے تقسیم کار کے ذریعے ملی مقاصد کی طرف پیش قدمی ضروری ہے جس کے لئے درج ذیل اداروں کو تشکیل دینا اور مؤثر کرناہوگا:
1.      عقائد ونظریات اور ان کے فروغ کا ملی فورم: جدید فقہی مسائل کے مشترکہ ملی فورمز کی طرح نظریاتی اور اعتقادی وحدت کے ملی ادارے تشکیل دیے جانے بھی بہت ضروری ہیں، جہاں سے مغربی تہذیب کے اسلام کے خلاف مسلسل نظریاتی حملوں اور نظریاتی وعملی اقدامات پر نظر رکھی جائے۔ کفر واسلام کے متقابل ومتخالف نظریات میں نکھار ، اور جوابی علمی بیانیہ تشکیل دیا جائے۔ عملی فقہی مسائل سے بڑھ کر نظریاتی طور پر اتفاق کی ضرورت کو سمجھا جائے اور اس کو باطل ادیان کے ساتھ ساتھ ، غالب مغربی تہذیب اور اس کے نفوذ کے طریقوں کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اس نظریاتی ملی بیانیہ کو تعلیم وابلاغ کے ذریعے پوری اُمت کی سطح پر پھیلایا جائے۔ مغربی اقدار کے بالمقابل اسلامی اقدار کو واضح اور مسلم نظریہ حیات کو راسخ کیا جائے، کیونکہ عقائدو نظریات پر ہی قوموں کی تشکیل ہوتی ہے۔
2.      ملت کی سطح پر ابلاغ کی طاقتور ایجنسی : کم ازکم فوری طور پر ابلاغ ؍ نیوز کا ایسا مؤثر مرکز ؍ایجنسی ہی تشکیل دی جائے جو مغربی مفادات یا مسلمانوں کے علاقائی مفاد کی ترجمانی کی بجائے حقائق کی ملت کی سطح پر درست ترجمانی کرے۔کیونکہ اوّلاً درست معلومات ہی دراصل کسی واقعہ کی حقیقی میزان ہیں اور اس سے صحیح نوعیت کا علم ہوتا ہے ، جس کے نتیجے میں اقدامات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
3.      سیاسی وحدت کا قیام :او آئی سی یا اس سے ملتے جلتے پلیٹ فارم کو متحرک کیا جائے۔ وطنیت اور ذاتی مفادات کو پیچھے کیا جائے، اور کسی ایک ملک کے مفاد کی بجائے مشترکہ ملی مقاصد کے لئے اسلامی ممالک کی متحدہ فوج کو تقویت دے کر، جہاد کا احیا کیا جائے۔ رابطہ عالم اسلامی کی صورت میں مسلم علما کا ایک عالمی فورم موجود ہے، او آئی سی کی شکل میں مسلم حکام کاایک ملی فورم موجود ہے۔ ان کو علاقائی حکام ، ممالک اور وطنیت کے اثرات سے نکال کر ملی وحدت کا محافظ اور امین بنایا جائے۔
جلد یا بدیر ملتِ اسلامیہ کے مسائل کا حل ، نبوی تعلیمات کی طر ف پلٹنے میں ہی ہے۔اور اس کے لئے ہر میدان میں مسلسل اور مشترکہ جدوجہد از بس ضروری ہے۔             (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)
حوالہ جات:
[1]    en.wikipedia.org/wiki/Indo-Pakistani_War_of_1947–1948
[2]    بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی اناکشی گنگولی نے درخواست میں کہا کہ مودی حکومت نے جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے بعد سے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ اس کے نتیجے میں کشمیری بچے اور کم عمر لڑکے انتہائی مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں۔ بھارتی چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے ریمارکس دیے کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ پہنچنا کیوں مشکل ہے، کیا کوئی راستہ روک رہا ہے؟ ہم ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے صورتحال جاننا چاہتے ہیں، اگر لوگ ہائی کورٹ نہیں پہنچ پارہے تو یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے، ضرورت پڑنے پر میں خود سری نگر جاؤں گا۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ ’’جموں و کشمیر کی صورتحال فی الفور معمول پر لائی جائے، لوگوں کو طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔سپریم کورٹ نے کانگریس کے رہنما غلام نبی کو بھی وادی کا دورہ کرنے اور وہاں کشمیریوں سے ملاقات کی اجازت دے دی۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت: 16؍ ستمبر 2019ء)
[3]    نیو یارک میں امریکی دفتر خارجہ کی سینئر اہلکار ایلس ویلس کا کہنا تھا کہ امریکا جلد از جلد کشمیر میں معمولات زندگی بحال ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔ اس نے کہا کہ بھارتی حکومت کے اگست میں کیے گئے اقدامات کے بعد سے امریکا کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر میں پابندیاں ختم کی جائیں، بھارتی حکومت کشمیری رہنماؤں سے بات چیت کرے اور وعدے کے مطابق وہاں جلد انتخابات کا اعلان کرے۔
[4]     ’’صحافیوں کا کہنا ہے کہ کسی طرح اگر خبر بھیج بھی دیں تو ادارے اس میں کانٹ چھانٹ کر دیتے ہیں۔ صحافی رضیہ نور ایک ہندی اخبار کے لیے کام کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ایک عشرے سے زیادہ وقت سے صحافت میں ہیں لیکن ایسی صورت حال کبھی سامنا نہیں کیا: "ہمیں لگتا ہے کہ ہم گزشتہ چار ماہ سے پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ایک طرف صحافتی کام مشکل ہوگیا ہے تو دوسری جانب کشمیر کی حقیقت کو پیش نہیں کر سکتے۔ اتنے مخدوش حالات کے باوجود ایڈیٹر صورت حال کو نارمل بتانے پر زور دیتے ہیں۔ دفتر سے ہدایات آتی ہیں کہ کیا لکھنا ،کیا نہیں لکھنا۔"
[5]     روزنامہ نوائے وقت: 31؍ اکتوبر 2019ء
[7]    واقعے کی تفصیل کے لئے: 1974ء میں ہونے والی ’قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ‘ از مولانا اللّٰہ وسایا
بھارت کا یہ ظالمانہ رویہ کشمیر سمیت دیگر ریاستوں کو بھی آزادی پر مجبور کررہا ہے۔ ’منی پور‘ نامی ریاست نے 1946ء میں برطانوی ہند سے آزادی کا اعلان کردیا تھا جس پر کشمیر کی طرح 1949ء میں بھارت نے غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ منی پور کے لوگ بھارت کے جابرانہ قوانین میں رہنے پر مجبور ہیں اور وہاں پر بھارتی فوج کو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں جس کے باعث ریاست میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات عام ہیں۔بھارتی فوج کی جانب سے منی پور میں گذشتہ 10 سالوں میں ساڑھے 4 ہزار سے زائد افراد قتل کیے جاچکے ہیں جب کہ 1500 سے زائد افراد غیر قانونی طور پر جیلوں میں قید ہیں۔
29؍ اکتوبر 2019ء کو منی پور کے مہاراجہ لیشمبا ساناباؤجا کے نمائندوں نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے منی پور ریاست کی جلا وطن حکومت کا بھی اعلان کیا۔ منی پور کونسل یامبین بائرن اور وزیرخارجہ و دفاع کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کے انڈیا میں ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں، مودی کے شدت پسندانہ خیالات کی وجہ سے ان کے ساتھ رہنا ناممکن ہے۔ (https://urdu.geo.tv/latest/207364-)
٭ایسی ہی صورت بھارت کی ایک اور ریاست ناگا لینڈ کی ہے جو 14؍ اگست کو صرف اپنا یوم آزادی ہی نہیں مناتے بلکہ پاکستان، کشمیریوں اور خالصتان کے عوام کی طرح بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔چیئرمین ’نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالزم ‘(NSCN) نے 73 ویں یوم آزادی کے موقع پر خظاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ناگا لینڈ کے عوام اپنے آباؤ اجداد کے قومی فیصلے پر بالکل مطمئن ہیں کہ ناگا لینڈ 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا اور ہم ناگا لینڈ کی عوام کے درمیان تقسیم کرنیوالے کسی بھی بیرونی فیصلے کو تقسیم نہیں کریں گے۔
ناگا لینڈ بھارت کے شمال مشرق میں واقع ایک انتہائی خوبصورت پہاڑی خطہ ہے اور یہاں کے لوگ قدیم قبائلی رسم و رواج کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق ناگا لینڈ کی 88 فیصد آبادی غیر ہندو مذاہب سے تعلق رکھتی ہے جس میں سے 67 فیصد عیسائی جب کہ باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔1951 میں ہونے والے ریفرنڈم کے مطابق ناگا لینڈ کی 99 فیصد سے بھی زائد عوام نے بھارت سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن اسکے باوجود بھارت نے وہاں اپنی فورسز کو بھیج کر قبضہ کر لیا تھا۔ (جیو نیوز: 15؍ اگست 2019ء )
[13] ur.wikipedia.org/wikiہندوستانی صوبائی انتخابات 1937ء /
[14] مذاہب سے بالاتر ہوکر متحدہ قومیت کا نعرہ نرا ڈھونگ ہے اور اَزل سے ابد تک چراغِ مصطفوی ؐسے شرارِ بولہبی ستیزہ کار رہا ہے۔ وطنی ریاست کی بجائے ’نظریاتی ملت‘ ہی درحقیقت اسلامی تقاضا ہے۔اور ملت ِاسلامیہ کی تشکیل اصلاً تو دعوت و جہاد کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ حق خودارادی کے ذریعے بھی اگر نظریاتی ملت بنتی ہو تو معلوم تاریخی حقائق کے برعکس اس کی کوشش کرلینی چاہیے۔
[20] تفصیل كے لئے: ’عراق پر امریکی سفيد جھوٹ اور مغربی ميڈیا ‘از راقم ، محدث ستمبر 2017ء
[22] السياسۃ الشرعیۃ از ابن تیمیہ: ص 103،الریاض 1418ھ
[23] الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارک پوری:ص538،540، مکتبہ سلفیہ، لاہور
[24] سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْمَلَاحِمِ (بَابٌ فِي تَدَاعِي الْأُمَمِ عَلَى الْإِسْلَامِ)
[25] دوہزارصفحات پر جاری ہونے والی واشنگٹن پوسٹ کی دستاویزات سے علم ہوا جس میں جنگ میں براہِ راست شامل چھ سو افراد بشمول فوجی جرنیلوں، سفارتکاروں، امدادی کارکنوں اور افغان حکام کے غیر مطبوعہ نوٹس اور انٹرویوز شامل ہیں کہ ’’کس طرح امریکی حکومت نے دانستہ طور پر عوام کو گمراہ کیا ہے۔ کابل میں فوجی ہیڈکوارٹرز اور وائٹ ہاؤ‎س میں اعداد و شمار سے چھیڑ چھاڑ عام بات تھی۔ جس کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش ہوتی کہ جنگ جیتی جا رہی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔‘‘