سوفیصد تعلیم یافتہ مغلیہ اسلامی ہندوستان کو اَن پڑھ کس نے بنایا؟
شاید چند برسوں بعد کوئی اس قافلے کے لٹنے کا ماتم کرنے والا بھی میسر نہ ہو۔آج یہ داستان رقم کر دو، مرتب کردو کہ شاید گردآلود الماریوں میں موجود بوسیدہ کتابوں سے آج سے کئی سال بعد کسی کو اس تہذیب کے لٹنے اور برباد ہونے کا سراغ مل جائے۔ تہذیبیں آہستہ آہستہ اُجڑتی ہیں اور لوگ نئی تہذیب کو بھی آہستہ آہستہ اوڑھتے ہیں۔ لیکن اگر کسی منصوبہ بندی سے تبدیلی لائی جا رہی ہو تو اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور دوسری بات یہ کہ تبدیلی لانے والے گذشتہ تہذیب کے نشان تک بھی مٹا دیتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں مسلم تہذیب کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ پوری دنیا میں علم و عرفان اور تہذیب و ترقی کی علامت یہ تہذیب اب صرف چند ناقابل زوال،عالی شان عمارتوں کی صورت دنیا کے نقشے پر موجود ہے جسے اب ان عمارات کے فنی محاسن کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان عظیم فنکاروں،کاریگروں، کاشی کاروں اور منبت کاروں [نقش گری]کے فن کی داد، تاج محل سے شیش محل اور فتح پور سیکری سے قطب مینار تک ہر جگہ دی جاتی ہے، لیکن آج کوئی اس تہذیب کی کہانی سنانے والا موجود نہیں۔ان علمی مراکز کے قصے کوئی بیان نہیں کرتا جن کی تعلیم و تربیت سے ایسے نابغہ روزگار فنکاروں نے جنم لیا۔ کوئی اس معاشرے کی داستان نہیں سناتا، جس کے ذوقِ سلیم اورحسِ جمالیات کا یہ عالم تھا کہ ان کے آباد کئے گئے شہروں کی کوئی چھوٹی سی عمارت بھی ایسی نہ تھی جو حسن وخوبی سے آراستہ نہ ہو۔
ان عمارتوں میں بسنے والے کیسے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے تھے۔ کن علما کی صحبت میں بیٹھ کر اپنی جمالیاتی حس کی آبیاری کرتے تھے اور ان کے اردگرد کونسا ایسا ماحول تھا جس نے اس عظیم باذوق معاشرے کو حسن ترتیب سے آراستہ کر رکھا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کا یہ معاشرہ جو سترہویں صدی تک اپنے بامِ عروج پر تھا اور جس کی بنیاد گیارہویں صدی میں اس وقت رکھی گئی جب قطب الدین ایبک کے سر یر آراے سلطنت ہونے کے بعد،دلّی اور لاہور کے دو تہذیبی مراکز کی بنیاد رکھی گئی۔ 1192ء سے 1765ء تک ساڑھے پانچ سو سال تہذیبی ارتقا کے سال ہیں۔ ان برسوں نے ایک ایسے ہندوستان کو جنم دیا جس کی نوّے فیصد آبادی پڑھی لکھی تھی اور جس کی عام زندگی میں بھی گفتگو کے موضوعات اپنے زمانے کے دنیا بھر کے تمام علمی مراکز میں ہونے والی فلسفیانہ گفتگو اور تخلیقی مباحث سے بہتر تھے۔ اس تہذیب کے زوال کے دنوں میں بھی جو چند یورپی سیاح اور افسران یہاں آئے جن میں برطانوی سفارتکار سر تھامس رو اور لارڈ میکالے شامل ہیں، اُنہوں نے بھی اپنے تعصّب کے باوجود یہاں کے علمی ماحول اور سماجی جمالیات کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس کی چھوٹی سی جھلک بھی اس دور کی مغربی دنیا کے علمی مراکز میں نظر نہیں آتی تھی۔
ہر مؤرخ یا ماہر آثارِ قدیمہ جب کسی خطے کی تاریخ مرتب کرتا ہے تو پہلا سوال جو وہ اپنے آپ سے کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس قدر عظیم الشان عمارات بنائیں اور اس قدر آراستہ شہر آباد کئے، ان کا علمی وتہذیبی مقام ومرتبہ اور سائنسی و تحقیقی معیار کیا ہو گا؟ دنیا کی ہر تہذیب کے بارے میں یہ سوال پوچھا جاتا ہے اور اس کے جواب میں سرگرداں ہو کر کتابوں پر کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ مثلاً مصر کے اہرام، بابل کے لٹکتے باغات، سائرس اعظم کے محلّات، روم کے کھیلوں کے میدان، چین کی ٹیرا کوٹا فوجی مجسمے اور یونان کے پارتھنون کو دیکھنے کے بعدہر مؤرخ وہاں کے علمی خزانوں اور تعلیمی مراکز کا سراغ لگاتا ہے جہاں سے ایسے نابغہ روزگار لوگ پیدا ہوئے، جنہوں نے نہ صرف یہ عمارتیں تخلیق کیں بلکہ ان عمارتوں میں ایک چلتی پھرتی، ہنستی بولتی جمالیاتی زندگی کو بھی آباد رکھا۔
لیکن برصغیر کے ساتھ یہ تعصّب برتا گیا کہ ان پانچ سو برسوں کے علمی مراکز اور تہذیبی ماحول کو جان بوجھ کر گرد آلود کر دیا گیا۔ ان پر کوئی تحقیق نہ کی گئی اور آج لوگوں میں یہ تصور عام ہوچکا ہے کہ ہم شاید جاہل، گنوار اور اَن پڑھ رہ جاتے، اگر یہاں انگریز نہ آتا اور وہ انگریزی تعلیم کے ادارے نہ کھولتا۔ آج کا نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے پورا برصغیر جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، بادشاہ اور اُمرا عالی شان عمارتیں اور محلّات بنانے میں مصروف تھے اور خلق خدا روکھی سوکھی کھا کر زندگی گزار رہی تھی۔ انگریز آیا اور اس نے یہاں علم کی شمع روشن کی، کالج اور اسکول کھولے اور ہمیں مغربی دنیا کے علمی ورثے سے منسلک کیا۔ اسی وجہ سے آج ہم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔ یہ ہے وہ عام تاثر جو گذشتہ سو برسوں سے ہمارے مؤرخین دانشور ادیب صحافی اور تاریخ دان اپنی تحریروں اور لچھے دار گفتگو سے قائم کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے سے ہم اپنے ماضی پر شرمندہ اور مستقبل سے مایوس قوم بن چکے ہیں۔
ان مغرب زدہ مؤرخوں اور دانشوروں نے ہمارے ماضی سے متعلق بے تحاشہ جھوٹ بول کر ہمیں اس سے برگشتہ کیا اور ہمیں مغربی تہذیب و علم کے سہانے خواب دکھائے۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ماضی پر شرمندہ ہیں مگر ہم اپنے مستقبل سے بھی اس لئے مایوس ہو چکے ہیں کیونکہ ہم آج تعلیمی اداروں میں جو علم حاصل کر رہے ہیں اس کی کھپت ہمارے معاشروں میں نہیں۔ ہماری صلاحیتوں کا عروج ہی مغرب کے قائم کردہ معاشروں میں ہوتا ہے۔ہم یہاں ایک ایسا ناکارہ وجود ہیں کہ جس نے جتنا علم حاصل کیا ہے اور جیسی تہذیب کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہے، جن سیکولر، لبرل اقدار کو ہم نے دل و جان سے چاہا ہے، ایسا ماحول ہمیں اپنے معاشرے میسر نہیں۔ اس لیے ہر آنے والی نسل اپنے، اپنی قوم اور ملک کے مستقبل سے مایوس ہے اور یہ مایوسی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ وہ مغرب میں جاکر آباد ہونا چاہتی ہے جہاں اس کی صلاحیتیں پروان چڑھیں اور وہ اپنی مرضی کے ماحول میں زندگی گزار سکے۔
اس مایوسی کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ اپنے ماضی کی عظمت کا صحیح ادراک حاصل کیا جائے اور اس کی تباہی کے ذمہ دار کرداروں کا تعین کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر اسی ماضی کی عظمت رفتہ کی بنیاد پر اپنے مستقبل کی نئی عمارت کی تعمیرکی جائے۔ ؏
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کہ یہی ہے اُمتوں کے مرض کہن کا چارہ
سب سے پہلے اس علم و تہذیب کے زوال کے عوامل اوران کرداروں کا جائزہ لیں کہ اسی زوال کی داستان میں ہی ہماری عظمتِ رفتہ کی تہذیبی بالادستی بھی پوشیدہ ہے اور ہمارے دوستوں اور دشمنوں کے چہرے بھی چھپے ہوئے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے برصغیر پاک و ہند میں آمد سے پہلے پورا خطہ علم و آگہی کا ایک گہوارہ تھا۔ دنیا بھر میں غیر رسمی تعلیم کو متعارف کروانے کا سہراہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے سر جاتا ہے۔ ہندوستان کے ہر گاؤں میں ایک اتالیق مقرر تھا بلکہ اکثر جگہوں پر دو اتالیق (ایک مسلمان، دوسرا ہندو) مقرر تھے۔ ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ ہر فرد کو فارسی زبان اس قدر سکھاتے تھے کہ وہ کتاب پڑھ سکے اور عرضی نامہ لکھ سکے۔ اس کے علاوہ اسے حساب کتاب بھی سکھایا جاتا تاکہ وہ سودا بیچ سکے، خرید سکے اور مالی معاملات میں کسی کا محتاج نہ ہو۔ جب کہ مسلمان کو قرآن پاک پڑھایا جاتا تھا اور ہندو کو وید اور گیتا۔ یوں پورا ہندوستان ایک ایسا تعلیم یافتہ معاشرہ تھا جو نوے فیصد تک پڑھا لکھا تھا۔
اس حقیقت کا اعتراف جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب The Discovery of India میں کیا ہے جو اس نے اپنی قید کے چار برسوں میں تحریر کی، جب وہ 1942ء سے 1946ء تک احمد نگر کے قلعے میں انگریز کی قید کاٹ رہا تھا۔ یہ کتاب ان شواہد پر مبنی ہے جو برطانیہ میں انگریزوں کے آنے سے پہلے عالی شان تہذیب کلچر فلسفہ اور علم و عرفان سے متعلق تھے۔ نہرو نے مغلوں کے اس ہندوستان کی بات کی ہے جس میں نہ صرف ہر شخص پڑھا لکھا تھا بلکہ پورے ملک میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک ایسا جال بچھا ہوا تھا جہاں اپنے زمانے کی اعلیٰ ترین تعلیم دی جاتی تھی۔ انگریز کے کلکتہ آنے سے پہلے اور بنگال میں اپنی حکومت کے قیام تک تین بڑے تعلیمی مراکز تھے جن کے زیرِسایہ بے شمار تعلیمی ادارے ان کے نصاب کے مطابق تعلیم دیتے تھے:
1۔ لکھنؤ کا فرنگی محل 2۔دلی کا مدرسہ رحیمیہ اور 3۔خیرآباد کا جدید سائنسی علوم کا سکول
اورنگزیب عالمگیر (م 1707ء) کا ہندوستان اپنے دور میں آباددنیا کی تہذیبوں میں علم و عرفان کا ایک درخشندہ ستارہ تھا۔ ایک ایسا خطہ جس میں گلی گلی اور گاؤں گاؤں سکول کالج اور یونیورسٹیاں لوگوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہی تھیں۔ اس عظیم علمی میراث کی گواہی کسی مسلمان مؤرخ یا ہندوستان میں آباد شاہی وظیفہ خوار ہندولکھاری نے نہیں بلکہ انگریز حملہ آوروں نے دی ہے، جنہوں نے حکومت سنبھالنے کے بعد اس سارے علمی ماحول کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیاتھا۔ ہندوستان کے عظیم نظام تعلیم کی پہلی گواہی ایک برطانوی پادری ولیم ایڈم نے اپنی ان تین رپورٹوں میں دی ہے جو اس نے گورنر جنرل کے کہنے پر تحریر کیں تھیں۔ یہ شخص 1818ء میں ہندوستان آیا اور اس نے یہاں 27 سال گزارے۔ اس دور میں گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک نے اسے بنگال اور بہار کے تعلیمی نظام کے سروے کی ذمہ داری سونپی تاکہ برصغیر کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی جاسکیں۔
اس نے اپنی پہلی رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ بنگال اور بہار میں تقریبا ایک لاکھ سکول ہیں جو بنیادی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق سکول جانے کے قابل ہر 32لڑکوں کے لیے ایک سکول میسر ہے۔ اس رپورٹ کے بعد اس نے ان سکولوں کے نظام کار کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لئے، ضلع راج شاہی کے قصبے نلتور کو منتخب کیا جس کی آبادی 129,640 تھی۔ اس نے لکھا ہے کہ یہاں دو قسم کے سکول ہیں، ایک رسمی تعلیم کے سکول جن میں جدید تعلیم دی جاتی تھی اور دوسرے گھریلو سکول، جہاں ایک اُستاد یا اتالیق پورے خاندان کو ایک ساتھ بٹھا کر تعلیم دیتا ہے۔ رسمی تعلیم والے سکول میں داخلے کی اوسطاً عمر آٹھ سال ہے اور پانچ سال تعلیم کے بعد اوسط 14 سال کی عمر میں ایک لڑکا فارغ التحصیل ہو جاتا ہے۔نلتور کی اتنی چھوٹی سی آبادی میں بھی گیارہ سکول تھے جو عربی زبان میں تعلیم اور قرآن پڑھانے کے لیے مخصوص تھے، جبکہ دس بنگالی میں تعلیم دیتے تھے اور چار فارسی میں۔ ہر کسی کو آزادی تھی کہ وہ پرائمری تعلیم عربی، فارسی یا بنگالی کسی ایک میں حاصل کرے۔ اوسطاً ایک اسکول میں دس سے پندرہ طلبہ زیر تعلیم تھے۔
اسی عرصے میں یعنی 1822 ء سے 1826 ء تک مدراس کے علاقے میں بھی علاقائی نظام تعلیم کا جائزہ لینے کے لیے سروے کیا گیا۔ یہ رپورٹ Survey of indigenous education in Madras presidency کے نام سے شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس علاقے میں 12,498 سکول تھے جن میں 1,88,650 طلبہ زیر تعلیم تھے۔ ایسا ہی سروے بمبئی کے علاقے میں بھی ہوا اور وہاں بھی ہر تیس طلبا پر ایک سکول کی موجودگی پائی گئی۔ پنجاب کے بارے میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل گوٹلب ولیم لائٹنزکی ہزاروں صفحات پر مشتمل کتابHistory of indigenous education in Punjab وہ مہر تصدیق ہے کہ جس میں ہر گاؤں میں موجود اُستادوں کے نام، طلبہ کی تعداد، مضامین کی اقسام اور معیار تعلیم کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔یہ تو ان سکولوں کا تذکرہ ہے جو رسمی تعلیم دیتے تھے۔ جبکہ دیہاتوں میں ایسے استاد اور اتالیق مقرر تھے جو گھروں میں تعلیم دیتے تھے، ان کی وجہ سے ہر شخص ایک پڑھی لکھی، مہذب دنیا کا فرد نظر آتا ہے۔
ایڈورڈ تھامسن ایک برطانوی ادیب اور ناول نگار تھا۔ اس نے بنگالی ادب کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کےلئے بہت کام کیا۔ اس کے مطابق ہندوستان کے بازار کا ماحول بھی ایک پڑھے لکھے معاشرے کا نقشہ کھینچتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’ہندوستان کے غریب عوام جو کسی بھی سکول میں پڑھنے نہیں گئے، وہ بھی لکھنا پڑھنا جانتے ہیں۔ یقیناً ان لوگوں کے لئے علم حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ ہوگا، ورنہ جتنے سکول یہاں موجود ہیں ان کے حساب سے کئی گناہ زیادہ پڑھے لکھے افراد یہاں پائے جاتے ہیں۔ ہر بنگالی بازار میں کتابوں کی دکانوں کی بھرمار ہے اور کتب کی فروخت لاکھوں میں ہے۔‘‘ اس نے لکھا ہے کہ مشہور بنگالی ناول نگار سرات چندر چیٹرجی جس نے ’دیوداس‘ ناول تحریر کیا تھا، اس نے بتایا کہ اس کے اس ناول ،جس کی قیمت صرف بارہ آنے تھی، اس نے اسے بارہ ہزار روپے رائلٹی فراہم کی،جس کا مطلب ہے کہ دیوداس کے دو لاکھ نسخے فروخت ہوئے۔
عام آدمی پڑھا لکھا بھی تھا اوررعایا کے بچوں کے لئے پرائمری سکول کی تعلیم کا بھی اہتمام تھا۔ بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا۔ 1820 ء سے 1830 ء تک بمبئی صوبے کے دیسی نظام تعلیم کا سروے کیا گیا، جس کے مطابق صرف احمد نگر میں 16 بڑے کالج موجود تھے اور پونا شہر میں 164 کالج اعلیٰ تعلیم کے لئے مخصوص تھے۔ جبکہ پورے صوبے بمبئی میں 222 بڑے کالج اور یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ یہی حال مدراس کے علاقے کا تھا جہاں اعلی تعلیم کے لیے 1,101 کالج موجود تھے۔ سب سے زیادہ کالج، 279 راج مندر میں تھے جبکہ ترچن لوبائی میں 173، بنگلورمیں 137 اور تنجور میں 109 کالج تھے۔ان کالجوں میں 5431 طلبہ کو قانون، فلکیات، فلسفہ، شاعری، جہاز رانی، طب، فن تعمیر اور آلاتِ حرب بنانے کے علوم سکھائے جاتے تھے۔
کروشیا کا ادیب ’فراپاولینو دی بارلٹو لومیو‘ جو بعد میں رومن چرچ سے وابستہ ہوگیاتھا، اس نے ہندوستان کے تعلیمی و ادبی ماحول پر بہت کام کیا ہے۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے سنسکرت کی گرامر تحریر کی تھی۔ یہ 1774 ء میں ہندوستان آیا اور یہاں اس نے 14 سال گزارے۔ یہ زبانوں کا ماہر تھا، یہ بیک وقت جرمن، لاطینی، یونانی، عبرانی، رومن، پرتگیزی،انگریزی، سنسکرت اور ہندوستان کی دیگر کئی زبانیں بول سکتا تھا۔ اس نے 1798 ء میں جس ہندوستانی تعلیمی نظام کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس کے مطابق یہ اپنے دور کی موجود دنیا کا سب سے بہترین اور اعلی پائے کا تعلیمی نظام تھا، جس میں ایسے تمام فکری، مابعدالطبیعاتی اور سائنسی علوم پڑھائے جاتے تھے جن کا تصور بھی یورپ میں نہیں ہوتا تھا۔
مسلمان بادشاہوں کا کمال یہ تھا کہ ان کے آنے سے پہلے برصغیر میں تعلیم صرف اور صرف برہمنوں اور شاہی خاندانوں تک محدود تھی،لیکن مغلوں کے دیے گئے نظام ہائے تعلیم نے ہر رنگ اور نسل کے بچے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کردیا۔ انگریزوں نے جب بنگال میں ذات پات کے حوالے سے پہلا سروے کیا تو وہ حیران رہ گئے کہ 1,75,089 ہندو طالب علموں میں صرف 24 فیصد یعنی 42,502 برہمن نسل کے تھے، جبکہ 19,669 ویش اور 85,400 شودروں کے بچے تھے۔ ٹیپو سلطان کے میسور کے سکولوں میں 65 فیصد شودر بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ یہ ان تمام علاقوں کا حال ہے جو دلّی دربار سے دور تھے، جیسے بنگال، بہار، اڑیسہ، مدراس،میسور، پنجاب وغیرہ۔یہاں انگریز 1857 ء کی جنگ آزادی سے بہت پہلے آ گیا تھااور اس نے وہاں حکومتیں بھی بنا لیں تھیں۔اسی لئے اس نے یہاں کی تہذیب اور تعلیمی ماحول کو بدلنے کے لئے سروے کیے تھے اور یہی سروے پور ہندوستان کے تعلیمی ماحول کی گواہی دیتے ہیں۔
لیکن اس دور دراز ہندوستان کے علاوہ دلی اور اس کے ملحقہ علاقے تو علم و عرفان کے مراکز تھے جنہیں دبستان (Seats of Learnings) کہا جاتا تھا۔ یہاں کے مدرسہ رحیمیہ، فرنگی محل، اور خیرآباد سکول پورے ملک کے لئے اعلیٰ ترین نصابی تعلیم مرتب کرتے تھے، اساتذہ کی کھیپ تیار کرتے تھے اور یوں پورا ہندوستان ایک مربوط تعلیمی نظام سے منسلک تھا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ کا نظام تعلیم سولہویں صدی سے اٹھارہویں صدی کے وسط تک ایسے مضامین سے نا آشنا تھاجو ہندوستان میں پڑھائے جاتے تھے۔ پورے برطانیہ میں اٹھارویں صدی تک صرف 500 گرامر سکول تھے اور ان میں بھی تعلیم صرف اور صرف اعلیٰ نسل (Elites) کے بچوں تک محدود تھی۔ اے ای دوبز (A. E. Dobbs) کی 1920 ء میں چھپنے والی کتاب (A Short History of Education) برطانیہ کے تعلیمی نظام کی پسماندگی اور اس کے خاص طبقوں تک محدود ہونے کے المیے کی داستان ہے۔
آکسفورڈ جسے سب سے بڑا خیراتی ادارہ اور سب سے بڑا گرامر سکول سمجھا جاتا تھا، وہاں بھی طبقاتی نظام تعلیم رائج تھا۔ برطانیہ میں یہ قانون رائج تھا کہ ’’کوئی شخص اپنے بچے کو اس وقت تک سکول میں داخل نہیں کرے گا جب تک اس کی زمین یا مکانوں کے کرائے کی آمدنی 20 شیلنگ سے کم نہ ہو۔‘‘ سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں جب مغلیہ ہندوستان میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ ہر کوئی بلاتخصیصِ مذہب، رنگ، نسل اور ذات پات، اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرا سکتا تھا تو اس وقت برطانیہ میں تعلیم صرف اشرافیہ کے بچوں تک محدود تھی۔ آکسفورڈ کمیشن کی رپورٹ جو 1852 ء میں شائع ہوئی، اس کے مطابق برطانیہ میں یہ قانون نافذ تھا کہ ’’کوئی شخص اپنے بچے کو تعلیم کے لئے نہیں بھیجے گا جب تک اسے زمین یا مکانوں کے کرایے سے 20 شلنگ آمدن نہ ہوتی ہو۔‘‘
بائبل کا انگریزی ترجمہ ہوچکا تھا مگر اسے عام آدمی کی دسترس سے دور رکھنے کے لئے گرجاگھروں میں پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ 1780 ء میں سنڈے سکول تحریک شروع ہوئی ، جس نے عام آدمی کو تعلیم کے حق کے لیے آواز اٹھائی۔ اس کے نتیجے میں 1802 ء میں Peel's Act آیا جس کے تحت عام بچوں کے لئے بھی پڑھنا لکھنا اور حساب سیکھنا لازم قرار دے دیا گیا۔ تعلیم کا یہ طریقہ جو برطانیہ میں جوزف لنکاسٹر اور اینڈریو بیل نے شروع کروایا، دراصل مغلیہ ہندوستان کے اتالیق سسٹم سے مستعار لیا گیا تھا۔ جس دور میں ہندوستان میں لاکھوں کے حساب سے سکول کام کر رہے تھے، 1801 ء کے انگلینڈ میں صرف 3,363 سکول اور طلبا کی تعداد چالیس ہزار تھی۔ 1818ء میں یہ تعداد بڑھ کر 6,74,883 ہوئی اور1851ء میں 21,44,377 طلبہ سکول میں علم حاصل کر رہے تھے اور اسکولوں کی تعداد بھی بڑھ کر 46,114 ہو چکی تھی۔ دوسری جانب انگریز حکمرانوں نے برصغیر کے صدیوں پرانے تعلیمی نظام کی تباہی کا پورا خاکہ تیار کرلیا تھا۔
یہ نظام تعلیم دین و دنیا دونوں علوم کا احاطہ کرتا تھا۔ تفسیر اور حدیث کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، علم ریاضی، جیومیٹری ، الجبرا، علم الہندسہ، طب ،گرامر، ادب اور فن تعمیرات پڑھائے جاتے تھے۔ ان مدارس سے ایک ایسی نسل برآمد ہوتی تھی جو ہندوستانی سول سروس ،عدلیہ، صحت، تعلیم اور تعمیرات جیسے تمام شعبوں میں اپنی کارکردگی دکھاتی تھی اور جو اپنے اپنے مذاہب کے علم سے بھی آراستہ ہوتی تھی۔ اس تعلیمی نظام کی داغ بیل شاہ عبدالرحیم نے ڈالی تھی جنہوں نےبادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی فرمائش پر فتاویٰ عالمگیری مرتب کی۔ ان کے مدرسہ رحیمیہ کا ہی نصاب تھاجو سب کے لیے قابل قبول تھا۔ اس وقت تک دین اور دنیا کی تعلیم میں کوئی امتیاز نہ تھااور نہ علیحدہ علیحدہ مدارس تھے۔ ایک ہی سکول کالج اور یونیورسٹی دونوں علوم ساتھ ساتھ پڑھائے جاتے تھے۔
اس جامع نظام پر پہلی کاری ضرب گورنر جنرل وارن ہٹینگز نے لگائی۔ اس نے 1781ء میں کلکتہ میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا جس کا کام بنیادی طور پر شرعی قوانین کی تعلیم تھی، اس لیے کہ ہندوستان میں ابھی تک فقہ حنفی کے تحت شرعی عدالتیں کام کرتی تھیں اور اسے اپنے اہل کاروں کو یہ تعلیم دلوانا تھی۔ اس مدرسے میں پہلی دفعہ ’ہدایہ‘ اور ’سراجیہ‘ کا انگریزی ترجمہ کیا گیا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا انوکھا سکول تھا جس میں صرف فقہ اور شرعی قوانین پڑھائے جاتے تھے۔ ظاہر ہے اس کے ساتھ تفسیر اور حدیث بھی نصاب میں شامل تھی۔ یوں جب برصغیر میں انگریز نے پہلا علیحدہ دینی مدرسہ قائم کردیا تو برطانیہ میں عیسائی مشنریوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق شور مچا دیا کہ ہندوستان میں عیسائی مشنریاں کھولنے کی اجازت دی جائے۔ 1813 ء میں عیسائی مشنریوں کو ہندوستان میں جدید سکول اور مشنریاں کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ مشنری سکول انگلش میڈیم تھے اور ان میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ انجیل کی اخلاقیات (Ethics Biblical) بھی پڑھائی جاتی تھی۔
1835ء میں گورنر جنرل لارڈ ولیم بنٹیک نے انگریزی کو سرکاری طور پر ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے نافذ کر دیا اور 1840 ء میں سرکاری نوکریوں کے لئے انگریزی لازمی قرار دے دی گئی۔ 1835 ء سے 1855 ء تک ان مشنری سکولوں کی وجہ سے لاکھوں لوگ عیسائی ہوگئے تھے۔ ان مشنریوں نے اسلام اور رسول اکرم ﷺکی ذات کے خلاف لٹریچر اور کتابیں شائع کیں اور پورے ہندوستان میں مناظروں کا آغاز کیا جو دلّی، آگرہ اور لکھنؤکے علما کے ساتھ کیے جاتے تھے۔ ان مناظروں اور مباحثوں کا آخری بڑا معرکہ 1854 ء میں آگرہ میں ہوا، جس میں پادری فونڈر اور رحمت اللّٰہ کیرانوی مدمقابل تھے۔ پہلا دور جنوری میں چلا اور پھر 11؍اپریل 1854ء کو دوبارہ دونوں آمنے سامنے ہوئے۔ مولانا رحمت اللّٰہ کیرانوی یہ دعویٰ لے کر آئے کہ اگر میں بائبل میں تحریفات ثابت نہ کرسکا تو عیسائی ہو جاؤں گا۔ یہ معرکہ رحمت اللّٰہ کیرانوی جیت گئے۔ اس کے صرف تین سال بعد 1857ء کی جنگ آزادی برپا ہو گئی جس میں انگریز فتح یاب ہوا اور ہزاروں علما کو چوراہوں میں پھانسیاں دی گئیں، توپوں کے سامنے باندھ کر اُڑا یا گیا اور بہت سوں کو عمر بھر کے لئے کالا پانی بھیج دیا گیا۔ رحمت اللّٰہ کیرانوی کو گورے پاگلوں کی طرح تلاش کر رہے تھے مگر وہ قسطنطنیہ ؍استنبول میں خلافتِ عثمانیہ کے پاس جا پہنچے جہاں اُنہوں نے سلطان عبدالعزیز کے کہنے پر اس مناظرے میں کی گئی بحث پر مشتمل کتاب ’اظہار الحق‘ لکھی۔ لیکن اس بڑے مناظرے اور 1857 ء کی شکست کے بعد تمام علما نے خود کو ان مناظروں و مباحثوں سے علیحدہ کر لیا اور دین کی اساس پر جو حملہ ہو رہا تھا، اس سے بچنے کے لیے اپنی نگرانی میں علیحدہ ادارے قائم کرنے کی سوچ بڑھ گئی۔
دوسری جانب انگریزی کے لازمی ہونے اور جدید نظام تعلیم کے آنے کی وجہ سے سرسید احمد خان اور نواب عبداللطیف جیسے لوگوں نے مسلمانوں کو انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا درس دیا۔ شاہ عبدالعزیز جیسے شخص جنہوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا تھا، انہوں نے بھی انگریزی زبان سیکھنے کو جائز کر دیا۔ مولانا کرامت علی جونپوری نے گوروں کی زبان اور تعلیم سیکھنے کی بات کی۔ اسی دوران ایک اور شخصیت عبدالرحیم داہری پیدا ہوئی جو اپنے دہریہ ہونے کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ داہری لکھتی تھی، اس نے انگریزی زبان سیکھنے کے حق میں رسالہ بھی لکھا۔
1857ء سے پہلے کے 50 سال کے دوران جدید تعلیم کے سکولوں سے جو تباہی ہندوستان میں آئی تھی، وہ بہت خوفناک تھی۔ مغلوں کا اتالیق کا نظام اور اسکول سسٹم ختم کر دیا گیا تھا اور اس کی جگہ چند انگلش میڈیم سکولوں اور کالجوں نے لے لی تھی۔یوں صرف 50 سالوں میں برصغیر کی تین نسلیں جہالت کے سمندر میں ڈوب گئیں۔ جو پڑھ لکھ جاتا، وہ دین سے متنفر اور جدید سیکولر لبرل نظریات کا حامل ہو جاتا۔علما نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب اوّلین فریضہ دین کی حفاظت ہے اورہمیں علماء کی ایک ایسی کھیپ کی ضرورت ہے جو مساجد اور مسندِ ارشاد کو سنبھالے۔ [مدرسہ رحیمیہ، دہلی جہاں شاہ اسحٰق دہلوی کے حجاز کو ہجرت کرجانے کے بعد 1842ء کے بعد سید نذیر حسین دہلوی صدر مدرّس تھے، کے ساتھ ساتھ] اس ضرورت کا مزید ادراک کرتے ہوئے 1864ء میں مولانا قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ شروع میں تو یہ اجازت دی گئی کہ پہلے یہاں تعلیم مکمل کرلیں پھر کسی انگریزی سکول میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں لیکن بعد میں یہ معمول بھی ترک کردیا گیا۔ اس کے بعد دارالعلوم ندوہ 1892 ء میں قائم ہوا، مدرسہ فرنگی محل لکھنؤ 1905 ء میں اور مدرسہ الہٰیات کانپور 1910 ء میں قائم کیاگیا۔ ان تمام مدارس کے علماء انگریزی پڑھنے کی اجازت تو دیتے تھے مگرخوف ایسا تھا کہ کوئی مدرسے سے اپنے طالب علموں کو جدید تعلیم کی طرف جانے نہیں دیتا تھا ۔یوں پورا ہندوستان دو گروہوں میں تقسیم ہوگیا۔ سیکولر تعلیم والے علی گڑھ اور سرکاری کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور دین پڑھنے والے اپنے اپنے مسالک کے مدرسوں
[1] میں۔
1857ء میں یہی ہندوستان تھا جو انگریز کو ملا تو وہ 90 فیصد خواندہ اور پڑھا لکھا تھا مگر جب انگریز 1947 میں اسے چھوڑکر گیا تو یہ 88فیصد اَن پڑھ اور ناخواندہ ہو چکا تھا اور صرف 12 فیصد خواندہ اور پڑھا لکھا رہ گیا تھا۔ یہ ہے قافلہ لٹنے کی مختصر داستان اور لٹیروں کا تعارف۔ 20؍ اکتوبر 1931ء کو مہاتما گاندھی نے لندن کے انٹرنیشنل افیئرز کے انسٹی ٹیوٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تم لوگوں نے مغلوں سے ایک پڑھا لکھا ہندوستان لیا تھا اور اب اسے مکمل طور پر ان پڑھ بنا چکے ہو۔‘‘
یہ ہے نام نہاد ترقی اور انگریزاستعمارکے احسانات کی حقیقت!
(مضمون ’یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟‘: روزنامہ 92 نیوز: 26 تا 28؍ نومبر 2019ء )
حوالہ جات:
[1] ضرورت تو اس امر کی تھی کہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں ہی ان کے وحدانی نظریہ تعلیم کے مطابق دین ودنیا کےجملہ علوم کی تعلیم ایک جگہ ہی دی جاتی، مگر ان مدارس کے مالی وسائل واوقاف پربندش وضبطی، ان کی شہادات و اسناد کی نامنظوری، اور معاشرے میں ان کے خلاف سرکاری زہریلے پروپیگنڈا کی وجہ سے ان مدارس کے لئے اپنے دائرہ کار کو وسیع رکھنا ممکن نہ رہا۔ یوں بھی مسلما ن عوام ملازمت اور روزگار کے لئے سرسید احمد خاں کی دعوت کے نتیجے میں نئے انگریزی سکول وکالج کی طرف راغب ہوتے گئے اور مدارس کے پسے ہوئے تعلیمی مراکز سے دنیوی علوم حاصل کرنے میں کسی کو دلچسپی نہ رہی۔
قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کو اپنے مثالی روایتی نظام تعلیم کی طرف واپس آنا چاہیے تھا جس نے پورے ہندوستان کو صدیوں تک سوفیصد شرح تعلیم دی تھی، اور تعلیمی ثنویت کی بجائے اہل پاکستان کو ایک دار العلوم میں، ایک ہی نظریہ علم کے تحت دینی ودنیاوی علوم سیکھنے چاہیے تھے، لیکن ہنوز پاکستان کی اسلامی حکومت کا رویّہ دینی تعلیم اور مدارس اسلامیہ کے ساتھ ، اپنی پیش رو انگریز استعمار سے مختلف نہیں ہے۔ نہ تو مسلم حکومت کی طرف سے سکول وکالج کی طرح مشاہرات وعمارات کے مالی وسائل، نہ اسناد کی منظوری اور پھر معاشرے میں آئے روز کا مخالفانہ پروپیگنڈا بھی پوری شدت سے جاری ہے۔ان حالات میں وحدانی نظریہ تعلیم کے برخلاف، ثنویت پر مبنی نظام تعلیم ہی نہ چلے تو اور کونسا تعلیمی معجزہ رونما ہو...؟
تاہم ایک امر ضرور واضح ہے کہ ملتِ اسلامیہ اور برصغیر کے شاندار نظامِ تعلیم کے کسی درجے میں وارث اگر کوئی ہیں تو وہ مدارس اسلامیہ ہیں، انگریز کے پروردہ تعلیمی ادارے نہیں۔ حالات کی ستم ظریفی نے ان کا حلیہ او ر نقشہ بہت حد تک بگاڑ دیا ہے لیکن ان میں اسلامی نظریہ تعلیم کی روح اور اساس تاحال باقی ہے جس چنگاری کو شمع بنانے کی ضرورت ہے!! (ح ۔م)