الحاد کے معاشرے پر اثرات

وٹس ایپ گروپ سے وابستہ اہل علم ودانش کی تربیتی ملاقات
مجلہ 'محدث' کے ذریعے علم وتحقیق اور 'محدث میڈیا' کے ذریعے انٹرنیٹ پر برسہا برس سے تحقیقی وابلاغی خدمات انجام دینے والے ادارے مجلس التحقیق الاسلامی Islamic Research Councilنے فروری 2016ء میں اپنے وٹس ایپ گروپ کے ذریعے عصری مسائل میں کتاب وسنت کی رہنمائی کا مبارک سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس تین سالہ عرصے میں ہزاروں موضوعات پر اہل علم ودانش نے تین لاکھ پوسٹوں میں بیش قیمت دلائل کے ذریعے مکالمہ علمیہ کی شاندار روایت کو قائم کیا۔ شرکاء کی دلچسپی،موضوعات کے تنوع واہمیت اور جاندار دلائل کے اعتبار سے یہ مجموعہ علما ے کرام اور اہل فکر ودانش میں ممتاز حیثیت اختیار کرگیا۔
مجموعہ ہذا کے اہل علم وفکر کی ملاقات اور ممتاز علماے کرام سے رہنمائی کے لئے 3؍ فروری 2019ء بروز اتوار،مجلس التحقیق الاسلامی اور الحکمہ انٹرنیشنل کے زیر اہتما م، جامعہ لاہور الاسلامیہ (البیت العتیق) میں تربیتی ملاقات کا انعقاد کیا گیا ، جس کی رپورٹ ہدیۂ قارئین ہے۔ ح ۔م
سوشل میڈیا نے دنیا کو 'گلوبل ویلیج' بنا دیا ہے ، اس سے انسانوں کے باہمی رابطے اور تعلقات کو نئی جہت ملی ہے ۔ اب ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھ کر دنیا بھر کے لاکھوں ، بلکہ کروڑ ہا لوگوں سے بیک وقت مخاطب ہوتا ہے ، کسی بھی مسئلہ میں بغیر کسی رکاوٹ، اپنا نقطۂ نظر پیش کرسکتا ہے، ہزاروں لوگوں کے افکار ونظریات سے واقفیت حاصل کرسکتا اوران پر تنقید اور تبصرہ بھی کرسکتاہے ۔ پہلے اکثر میڈیا گروپس کسی نہ کسی سیاسی ؍مذہبی جماعت سے وابستگی رکھتے تھے ، یا کم از کم اپنے مفادا ت کے پیش نظر کچھ اُصول رکھتے تھے ، اور وہی بات شائع کرتے تھے جوان کے نظریات ومفادات سے ہم آہنگ ہوتی ۔ دوسرے لوگ اپنی بات کہنے، مافی الضمیر کو بیان کرنے اور ابلاغ کی استعداد سے محروم تھے ۔ سوشل میڈیا کے آنےپر ہر شخص آزاد ہے اورکسی خاص انتظام یا زرِ کثیر خرچ کیے بغیر وہ فیس بک ، وٹس اپ یا ویب پر اپنا گروپ بناسکتا ہے۔ اہل علم کو بھی باہمی تبادلہ خیال کے لئے ایک جگہ پر طے شدہ وقت پر جمع ہونا پڑتا تھا، اب سوشل میڈیا کی بدولت ہر صاحبِ علم ، ہمہ وقتی مکالمہ علمیہ کرسکتا ہے، اپنے گھر بیٹھے اپنی کتب اور دلائل کی مدد سے اپنے موقف کو وضاحت کے ساتھ پیش کرسکتا ہے۔
سوشل میڈیا تک ہر شخص کی رسائی اور سب کو کہنے اور لکھنے کی آزادی ، اور ہر وقت مکالمہ ومباحثہ کے امکان نے بہت سے مسائل بھی پیدا کئے ہیں، تاہم بہت سارے گروپس بڑا شاندار کام کررہے ہیں اور اس طرح تعصّبات سے بالاتر ایک آزاد فضا بھی پیدا ہوئی ہے۔بعض گروپس علماےکرام سے سوال وجواب کے لیے خاص ہیں ، جن میں عوام الناس ااپنے من پسند علما سے اپنی ضرورت کے سوالات پوچھتے ،ا ور ان سے رہنمائی لیتے ہیں ، اور بعض گروپس علما ے کرام کے باہمی رابطے کے لیے ہیں ، اہل علم ہی کو ان کا رکن بنایا جاتا ہے ۔ ان میں کبار و صغار علما جدید مسائل پر دلائل اور آرا کا تبادلہ کرتے ہیں۔
اہل حدیث علماے کرام اور طلبۂ علم کے مابین تین وٹس اپ گروپس نمایاں مقام اور مقبولیت کے حامل ہیں: علماے اہل حدیث ، مجلس التحقیق الاسلامی اور لجنۃ الدعوۃ السّلفیہ ۔ ان گروپوں کی باضابطہ ملاقاتوں کے علاوہ ان میں ہونے والی بعض مفید مباحث کتابی شکل میں بھی چھپ چکی ہیں ۔
مجلس التحقیق الاسلامی کے نام سے قائم وٹس ایپ گروپ کا تعارف کرواتے ہوئے اس کے مرکزی ایڈمن ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ﷾(مدیر کلیۃ القرآن، جامعہ لاہور الاسلامیہ)لکھتے ہیں :
'' یہ وٹس ایپ گروپ 3 سال قبل 9؍ فروری 2016ءتشکیل دیا گیا تھا۔ الحمد للہ اس گروپ کے ذریعے ہم نے منہج اہل حدیث کے حوالے سے اپنے متوازن زاویۂ فکر کو جماعتِ اہل حدیث میں ایک مشن اور کام سمجھتے ہوئے منتقل کرنا شروع کیا۔ یہی کام ہم 50 سال سے زائد عرصہ سے ، لاہور میں 15 عمارتوں میں قائم بیسیوں علمی، تحقیقی، دعوتی اوررفاہی اداروں کے ذریعے سرانجام دے رہے ہیں۔ جن میں مجلس التحقیق الاسلامی کے تحت متعدد علمی مجلّات (مجلّہ محدث، مجلّہ رشد، مجلّہ نظریات، مجلّہ المسلمات)، تحقیقی ویب سائٹس (کتاب وسنت ڈاٹ کام، محدث فورم، محدث اردوفتویٰ، حدیث وشروح)، جامعہ لاہور الاسلامیہ (اور اس کی متعدد برانچیں: رحمانیہ، مرکز البیت العتیق، مرکز التوحید، مرکز النور) ، دعوتی تعلیمی نیٹ ورک کے دسیوں'اسلامک انسٹی ٹیوٹس'، متعدد اسلامی سکولز ، کئی جدید تعلیمی کالجز( LISS اور CFE وغیرہ )اور خدمتِ خلق کا وسیع نیٹ ورک بنام 'اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ'قابل ذکر ہیں۔
اس مجموعہ میں علماے گرامی کے روزانہ تبادلۂ خیال کے ذریعے بے شمار علمی موضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے۔ دوستوں کی روزانہ کی باہمی علمی ملاقات سے ہم سب ایک خاندان کی طرح آپس میں مانوس ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں ضروری محسوس ہوا کہ سب مل بیٹھ کر ایک دوسرے سے مکمل واقفیت بھی حاصل کریں اور ان اداروں سے بھی، جن کی وساطت سے یہ پلیٹ فارم سب کو میسر آیا۔ ''
3 ؍فروری 2019ء کو مجلس التحقیق الاسلامی نے اپنے رکن علما کا نمائندہ اجلاس بلایا ، جو کئی شہروں سے ایک روزہ ملاقات کے لئے جمع ہوئے۔ کئی ایک مشاورتی اجلاسوں کے بعد اس ملاقات کا لاہور میں ہوناطے پایا ۔ سیکڑوں علما کی میزبانی کا شرف جامعہ لاہور الاسلامیہ (مرکز بیت العتیق) اور الحکمۃ انٹر نیشنل، لاہور نے مشترکہ طور پر حاصل کیا ۔
دور دراز سے تعلق رکھنے والے معزز علماے کرام رات ہی کو جامعہ میں پہنچنا شروع ہوگئے تھے : آزاد کشمیر سے مولانا علی گیلانی ، سندھ سے مولانا عبدالرحمٰن ثاقب ، بلوچستان سے شیخ عبد المجید کینگی ، خیبر پختونخواہ سے شیخ عبد القہار ،اسلام آباد سے مولانا عبد القدوس سلفی، ڈاکٹر سمیع اللّٰہ زبیری (علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد)، جناب عبد الجلیل (مکتب الدعوۃ، اسلام آباد )اور خانیوال سے ڈاکٹر مسعود عبدالرشید اظہر، سیالکوٹ سے مولانا عبد الرزاق گھمن اور مولانا جاوید اقبال سیالکوٹی ، گوجرانوالہ سے حافظ عابد الٰہی ظہیر، حافظ ارشد محمود، پروفیسرمحمد صارم، مولانا محمد رفیق طاہر، شیخ ابو انس قیصر طیبی ، فیصل آباد سے شیخ نجیب اللّٰہ طارق اور مولانا عبد المنان راسخ تشریف لائے۔ پیغام ٹی وی،پاکستان کے ذمہ داران حافظ محمد ندیم، حافظ یوسف سراج، جناب عاصم حفیظ، جناب عبد الباسط بلوچ ، لاہور سے حافظ ہشام الٰہی ظہیر، جناب ابو بکر قدوسی، مولانا عمر فاروق قدوسی، مولانا شفیق الرحمٰن فرخ، قاری نعمان مختار لکھوی، مولانا عبد الماجد سلفی، ڈاکٹر عبد الغفار، مولانا زکریا زاہد وغیرہ اور دیگر بہت سارے مشائخ نے شرکت کی۔
محترم مولانا عبد الغفار روپڑی ﷾اور محترم میاں محمد جمیل﷾ اہم دینی مصروفیات کی وجہ سےتشریف نہ لاسکے، علاوہ ازیں مولانا حافظ محمد شریف ، مولانا مبشر احمد ربانی ، مولانا حافظ عبد الستار الحماد اور مولانا ڈاکٹر عبد الرحمٰن یوسف حفظہم اللّٰہ نے ناسازئ طبع کے سبب فون پر معذرت کی، ان حضرات علماے کرام کے لئے نماز ِظہر کے فوراً بعد خصوصی دعا کی گئی ۔
9 بجے صبح ، پرتکلف ناشتہ کا اہتمام کیا گیا ۔ دسترخوان پر ہی تعارفی نشست بھی ہوگئی ، بہت سارے احباب جو گروپ میں ہی ایک دوسرے سے متعارف تھے ، پہلی بار ایک دوسرے کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے۔ اور بعض دوستوں کی سالوں بعد ملاقات ہوئی تھی، اس لیے سب کی مسرت دیدنی تھی ۔
تعارفی نشست کے بعد پہلی نشست کا عنوان : 'اِلحاد کے سیاسی اور معاشرتی اثرات ' تھا، جس کی صدارت مولانا ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾ نے فرمائی۔ گیارہ بجے اجلاس کی باقاعدہ کاروائی کا آغاز ہوا ، نقابت کے فرائض محترم ڈاکٹر جواد حیدر نے ادا کئے اور اجلاس کے مقاصد پر روشنی ڈالی ۔ تلاوتِ قرآن کی سعادت قاری عبدالباسط منشاوی نے حاصل کی ، 8 مقررین کو طے شدہ عنوان کے تحت خطاب کی دعوت دی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے جامعہ کی مسجد کا وسیع ہال بھر گیا ۔
پہلا خطاب: ' الحادی فکر کے دنیا پر معاشرتی اثرات ' از مولانا عبدالحنان کیلانی
آپ کے خطاب کا خلاصہ یہ ہےکہ الحاد شروع سے چلا آرہا ہے ، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے کہ لوگوں کا نعرہ یہ تھا :﴿وَ مَا يُهْلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهْرُ﴾(الجاثیۃ :24)'' ہماری موت کا سبب وقت گزرنا ہے ۔ '' مگر آج کا الحاد بہت خطرناک ہے کیونکہ موجودہ الحاد ایک نظام اور سسٹم کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ آج کی معاشیات، اقتصادیات، نظامِ تعلیم اور سیاسی اداروں کی بنیاد اسی الحادِ جدید پر اٹھائی گئی ہے ۔ موجودہ الحاد کا آغاز ڈارون سے ہوا ، اور اس کا نظریۂ ارتقا اس کی اساس ہے ۔ قدیم ملحدین بھی اللّٰہ تعالیٰ کا انکارکیا کرتے تھے ، مگر انسانی نفسیات اور روحانیات میں ایسے سوالات اُٹھتے تھے جو انسان کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کو مانے۔ قدیم ملحدین کے پاس اُن کا کوئی جواب نہ تھا ۔ ڈارون وہ پہلا شخص تھا جس نے کہا کہ میں ان تمام سوالوں کے جواب دیتا اور انھیں حل کرتا ہوں ، جو خدا کو ماننے پر مجبور کرتے ہوں ۔ اس نے کہا کہ انسان اور یہ کائنات کسی خالق کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ ارتقاکا نتیجہ ہے ۔ یعنی انسان اور کائنات از خود بغیر کسی خالق کے اپنی اشکا ل بدلتے بدلتے موجودہ صورت میں پہنچے ہیں۔ جب خدا نہیں تو مذہب بھی نہیں !!
جب ہم معاشرے کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد اقدار ہوتی ہیں، ہر معاشرہ مثبت اقدار جیسے حیا، بڑوں کے احترام وغیرہ پر پروان چڑھتا ہے۔ ڈارون نے کہا کہ مذہب اور اقدار کو انسان نے اپنی ضروریات کے لیے ایجاد کیا ہے ۔ نظریۂ ارتقا نے آج بہت گہرے معاشرتی اثرات چھوڑے ہیں اور اقدار کو تبدیل کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اصل چیز تغیر اور تبدیلی ہے، چنانچہ اقدار میں بھی تبدیلی اور تغیر پیدا ہوتا ہے۔ نظریہ ارتقا سے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہر بعد میں آنے والا پہلے سے بہتر ہے کیونکہ ارتقا میں ایسا ہی ہوا ہے کہ بعد والا پہلے سے اور متأخر متقدم سے بہتر ہے۔ لہذا ہم اپنے اسلاف اور بزرگوں سے بہتر ہیں۔ ہر جدید قدیم سے بہتر ہے۔ بڑوں اور بزرگوں کا احترام بے معنی چیز ہے۔ نظریہ ارتقا سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا کہ جنس انسان کا حیاتیاتی تقاضا ہے اور اس کی تکمیل وتسکین کا حیا اور بے حیائی سے کوئی تعلق نہیں۔ نظریہ ارتقا کو ہی بنائے استدلال ٹھہراتے ہوئے مارکس نے مذہب کو افیون اور فرائیڈ نے سماج کا ڈھکوسلا قرار دیا۔ مختصر یہ الحادِ جدید کا منظم آغاز نظریۂ ارتقا سے ہوا، اور اسی نے معاشرے پر ناقابل تلافی نقصانات مرتب کئے۔
دینی علوم کے فاضل جب موجودہ الحاد سے شناسائی نہیں رکھتے تو اس کے اعتراضات کا جواب کیا دیں گے ؟ ہم دینی ماحول میں بیٹھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم الحاد سے محفوظ ہیں ، مگر ہماری نسلیں تو محفوظ نہیں۔ لہٰذا پہلے ہمیں اسے سمجھنے اور پھر اس کا حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
دوسرا خطاب: 'فکر الحاد اور اس کے اُصول ومبادی ' ا زحافظ فہد اللّٰہ مراد
اُنہوں نے فرمایا کہ فکر اِلحاد کے اُصول سے مراد یہ ہے کہ موجودہ الحاد کن اُصولوں پر کھڑا ہے ۔ سب سے پہلے ہمیں یہ ادراک کرلینا چاہئے کہ ہم آج مغلوب ہیں ۔ ہماری یہ مغلوبیت اور زوال اس وقت شروع ہوا جب خلافت کا ادارہ ختم ہوگیا ، اور اسے ابھی سو سال نہیں ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الحاد کا تدارک صرف علما کرسکتے ہیں ، کیونکہ انہی کے پاس علم وحی کی روشنی ہے ۔ صرف توجہ کی ضرورت ہے ، اگر یہ متوجہ ہوگئے تو مجھے پورا یقین ہے کہ الحاد کے اسی طرح پرخچے اُڑادیں گے ، جس طرح امام ابن تیمیہ نے یونانی فلسفہ کی دھجیاں اُڑا دی تھیں ۔ موجودہ الحادی تہذیب کے متعلق مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال نے کہا تھا :
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
کسی بھی فکر اور تہذیب کو سمجھنے کے لیے تین سوالوں پر غور کرنا چاہیے :
۱. اس تہذیب کا نظریۂ فرد کیاہے ؟
۲. اس کا تصورِ کائنات کیا ہے ؟
۳. اس کا تصورِ علم کیا ہے ؟
رومی ،یونانی اور دوسری تمام تہذیبیں جو مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں ، مذکورہ بالا تصورات میں متفق ہیں کہ کائنات اللّٰہ تعالیٰ کی تخلیق ہے ، اور انسان اس کائنات میں ایک دوسری زندگی کی تیاری کے لیے آیا ہے ۔اور علم کا منبع وحی الٰہی ہے ۔ انہی تصورات کو عقیدہ کہا جاتا ہے ۔ یعنی تمام تہذیبیں بنیادی عقائد میں تقریباً متفق ہیں ، جزئیات اورمصداقات میں اختلاف ہے۔
موجودہ مغرب جس نظریہ پر یقین رکھتا ہے ، وہ سابقہ تمام افکار اور تہذیبوں کے برعکس ہے۔ اس نے سابقہ تمام تصورات کو اُلٹ دیا اور نئے تصورات پیدا کئے ہیں ۔ مثلاً اسلام کہتا ہے کہ کائنات ایک خالق نے محدود مدت کے لیے قائم کی ہے ، اس زندگی کے بعد انسان کی ایک دوسری زندگی ہے ، جس میں یہاں پر کئے گئے اعمال کا حساب ہوگا ، اوراچھے اعمال کے بدلے میں جنت اور برے اعمال کے جزا کے طور پر جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ الحاد کہتا ہے کہ کائنات کو کسی خالق نے وجود نہیں بخشا ، بلکہ وہ ارتقا کے نتیجے میں خود بخود وجود میں آئی ہے ۔ انسان نہ کہیں سے آیا ہے ، اور نہ اسے مر کر کہیں جانا ہے ۔ آخرت اور جنت وجہنم کا کوئی تصور نہیں ہے ۔
اسلام کہتا ہے کہ علم کاماخذ اللّٰہ تعالیٰ ہے ، وحی الٰہی کے مطابق ہمیں اپنے تمام مسائل حل کرنا ہیں جبکہ الحاد کہتا ہے کہ علم باہر سے نہیں آیا ، ہمارے اندر سے پیدا ہوتا ہے ، یعنی ہمیں کہیں باہر سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کو یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کہاں سے آیا ہے ، اور کہاں جانا ہے ؟ اپنا خالق اور حاکم اور رہنما انسان خود ہے اور وہی علم کا اصل سرچشمہ اور ماخذ بھی ہے ۔
علم کسی خاص ذات یا اللّٰہ تعالیٰ سے نہیں، انسانی مشاہدے سے حاصل ہوتاہے ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو چیز مشاہدہ میں نہیں آتی ہے وہ دراصل موجود ہی نہیں ۔ اس اصول پر اُنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ ، وحی ،عذاب قبر ، آخرت اور جنت وجہنم کا بھی انکار کردیا ، کیونکہ ان کا مشاہدہ اور تجربہ نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح اسلام کے تمام بنیادی عقائد مغرب اور الحاد کے تصورِ علم میں موجود ہی نہیں ہیں ۔ چونکہ اس کے تصورات میں آخرت اور جنت وجہنم کا وجود نہیں ہے ، اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس صرف ایک چانس ہے ، اور وہ بس یہ دنیا کی زندگی ہے ، لہٰذا مجھے اسی زندگی میں آسائشیں جمع کر کے اسے جنت بنانا ہے ۔ ساری ٹیکنالوجی اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ دنیا کو ہی جنت بنالو اور اس طرح موت کو شکست دینے کاپروگرام بنایا جارہا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ دنیا میں راحت و آرام اور آسائشیں حاصل کرنے کےلیے دولت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا الحادی تہذیب میں عزت وذلت اور کامیابی کا معیار سرمایہ قرار پایا ۔
آج کل بچے کو ڈائریکٹ الحاد یا خدا کا انکار نہیں سکھا یاجاتا ، بلکہ میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ سرمایہ ہی کامیابی کا معیار اور معاشرتی قدر ہے ۔ آج ہر شخص کو اسی بات کا قائل کیا جارہا ہے کہ ''سرمایہ حاصل کرو ۔''اسی کے لیے ساری تگ ودو کی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں نے 'تعلیم برائے انسانیت' نہیں رہنے دی۔ ''پڑھو گے ، لکھو گے ، تو بنو گے نواب'' جیسے نعرے دیے جاتے ہیں ۔ تعلیمی ادارے اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنا سکھاتے ہیں، وہاں الحاد نہیں پڑھایا جاتا، بلکہ انسان میں دولت کی ہوس پیدا کی جاتی ہے ، تو وہ سرمایہ حاصل کرنے کے لیے الحاد کی ہر بات قبول کرتا چلا جاتا ہے ۔چونکہ مذہب اس کی ہوس کی تسکین نہیں کرتا ، اس لیے اس کی نظر میں اللّٰہ اور مذہب کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان بچے کے دل میں اللّٰہ کی محبت پیدا کی جائے ، اور اس کی ضرورت کا احساس بیدار کیا جائے ۔
تیسرا خطاب: ' فکری الحاد سے بچاؤ کی عملی تدابیر ' از پروفیسر ظفر اقبال ﷾
آپ نے فرمایا کہ مختلف تجربات کے بعد جو نتیجہ نکلتا ہے ، اسے 'سائنس' کہا جاتا ہے ۔جبکہ نظریہ انسانی سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے ، سائنس نہیں ۔ الحاد جو لاجیکل ڈویلپمنٹ پیش کررہا ہے ، وہ بطورِ سائنس پیش کرر ہا ہے ۔ جو بات صرف نظریہ اور آئیڈیالوجی ہے ، اسے جدید دور میں ردّ کیا جاچکا ہے ، حتیٰ کہ اس سے متأثر لوگوں نے بھی اس کو ردّ کردیا ، کیونکہ ان کا تجربہ نہیں ہوسکتا ۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جن نظریات کے سبب الحاد پیدا ہوا ہے ، وہ خود تجربہ شدہ اور سائنس نہیں ہیں ۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ موجودہ الحادی نظریات سائنسی اُصولوں پر ثابت ہونے کی بجائے وحی سے انحراف کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں ۔ اس وجہ سے وہ اللّٰہ سے دور ہوگئے ، دین کو ترک کردیا ، اور اپنے خیالات اور معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے رسم ورواج کو قانون اور مذہب بنا لیا ۔ ہندو ازم کیا ہے ؟ محض رسم ورواج کا نام ہے ۔ مغرب میں 'سوشو اکنامک نظریات' دین بن گئے ۔انھوں نے 'سوشل موومنٹ پولیٹکل نظریات' کو اختیار کیا ، جمہوریت اسی کا حصہ ہے ۔ اور اس کے مظاہر سودی نظام ہے اور آزادی ہے: فحاشی ، بے راہ روی کی آزادی ۔ یہ ساری چیزیں اللّٰہ کی وحی سے انحراف کی وجہ سے ہیں ۔ بذاتِ خود مُلحد کون ہوتے ہیں ؟ یہ فلسفی اور منطقی نہیں ہوتے ، بلکہ مُلحدین فلسفے کو بھی ردّ کرتے ہیں ، اور منطق کو بھی ، اور دین اوروحی کو بھی ردّ کرتے ہیں ، وہ اللّٰہ کے رسول اور کتبِ سماویہ بلکہ تمام غیبیات کو ردّ کرتے ہیں ۔ وہ صرف وُجودِ انسانی کو مانتے ہیں ، اور اسے ہر فکر کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کا وُجود قدیم ترین ہے ،اس سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا ۔ ان کا نظریہ ہے کہ انسان آزاد ہے ، وہ جیسے رہنا چاہے رہ سکتا ہے ، کپڑے پہنے یا برہنہ رہے ۔
تہذیب اور ثقافت میں فرق ہے: ثقافت کلچر کو کہتے ہیں ، اور کلچر کا معنیٰ ہے عقائد اور دین ،تہذیب کا معنیٰ ہے: تعمیرِ زندگی ۔ اسلام ہمار کلچر ہے ، رسول اللّٰہ کی محنت سے اسلام بطور کلچر قرار پایا ہے ۔ہمیں مغرب ، چین اور دوسرے ممالک کی تہذیب یعنی سولائزیشن سے فائدہ اُٹھانا ہے ۔ کیونکہ وہ ممالک خصوصاً مغرب تہذیب میں بہت آگے چلا گیا ہے ۔ مگر وہ ثقافت اور نظریات اسلام کے علاوہ کہیں سے اخذ نہیں کرسکتے ۔
فکرِ الحاد کے ردّ کی عملی تدابیر: حدیث پر وارد اعتراضات کا ردّ، منہج صحابہ سے تمسّک، عربی زبان کا فروغ، مصالح و مفاسد کا فہم، نصوص کی سائنسی تشریحات، حکمرانوں تک رسائی اور ان کی رہنمائی ہے ۔
تحریری پیغام: 'الحاد ؛شرک سے بھی بڑا گناہ' از ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ﷾
مدیر محدث ڈاکٹر حافظ حسن مدنی﷾ اپنے برادرِ گرامی ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ﷾ سے 'تربیتی ملاقات ' کی ترتیب وتنظیم کے بعد ،عمرہ کے لئے تشریف لے گئے، سو ان کا خطاب تحریری طور پر موجود تھا:
''الحاد سے مراد انسان اور کائنات کے خالق حقیقی کا انکار کرنا اور اُنہیں نظریۂ ارتقا جیسے گمراہ فلسفوں کا نتیجہ قرار دینا ہے۔الحاد کا یہ اساسی نظریہ ہمارے ہر سکول میں مسلم بچوں کو بچپن سے پڑھا یا جاتا ہے، اس لئے دنیا بھر میں سائنس کے نام پر ' دہریت' سرکار کی سرپرستی میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔
اکثر اہل علم بھی شرک کو سب سے بڑا گناہ سمجھتے ہیں، اور توحید کو 'شرک کی مذمت' تک ہی محدود کر دیتے ہیں، کیونکہ ماضی میں انبیاے کرام کے ساتھ مشرکین کی گہری مخاصمت رہی ہے اور شرک کا یہ ظلم ِ عظیم موجودہ دور تک چلا آرہا ہے ، حالانکہ شرک سے بھی بڑا گناہ اللّٰہ کا انکار یعنی الحاد و دہریت ہے۔ قرآن نے اس کو کہیں 'خواہش نفس کا شرک' اور کہیں غفلت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
الحاد سے مراد 'انسان و کائنات کے خالق اور یومِ آخرت کا انکار' ہے۔علامہ ابن تیمیہ﷫فرماتے ہیں:
مَن أنكر المعاد مع قوله بحدوث هذا العالم فقد كفَّرَه الله، فمن أنكره مع قوله بقدم العالم فهو أعظم كفرًا عند الله تعالىٰ
''جو آخرت کے انکار کے ساتھ اس دنیا کے بعد میں وجود میں آنے کا قائل ہے ،تواللّٰہ تعالیٰ نے اس کو کافر قرار دیا ہے، اور جو آخرت کے انکار کےساتھ اس دنیا کے بھی ازلی ہونے کے قائل ہیں تو وہ اللّٰہ کے نزدیک بدترین کافر ہے۔ ''
توحید انبیا کی دعوت ہے اور اسلامی دعوت کو اسی پر مرکوز ہونا چاہیے۔ اور توحید صرف قبر پرستی ہی نہیں بلکہ دہریت کی بھی بیخ کنی کرتی ہے۔ماضی میں انسان کمزور ہونے کے ناطے اپنی ذات سے باہر طاقتور چیزوں کو الٰہ مان کر شرک کا مرتکب ہوتا تھا، لیکن دورِ حاضر کے مغربی انسان نے اپنی عقل کے دھوکے میں آکراپنی ذات کو ہی الٰہ بنا لیا ہے اور اپنی عقل کی ہی پرستش کرتا ہے اور یہی بزبانِ قرآن خواہش نفس کا شرک ہے۔ مغربی انسان اپنی ذات سے باہر ہر قسم کےالہ اور معبود کی نفی پر مصر ہے،اور یہی مغرب میںُ اٹھنے والی نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا بنیادی نکتہ ہے۔ جس نے اگلے تین سو سالوں میں متعدد گمراہیاں پیدا کی ہیں۔ چنانچہ توحید کو صرف شرک تک محدود کرنے کی بجائے، معرفتِ الٰہ اور اتباع رسالت تک لانا چاہیےاور جدید دور کے کفر اعظم کی بھی اصلاح کرنی چاہیے۔ توحید میں توحیدِ ربوبیّت و الوہیّت اسی الحاد کا خاتمہ کرتی ہیں۔ اور شرک و قبر پرستی کی تردید کے ساتھ الحاد کے خلاف بھی دعوتِ توحید کو وسیع کرنا چاہیے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫نے ذات باری تعالیٰ اور آخرت کے منکروں کو ابلیس سے بھی بڑا کافر قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:
... تلتزم الإعراض عن معرفة اللّه وعبادته وذكره، فلا تذكره قط، ولا تعبده، ولا تدعوه، ولا ترجوه، ولا تخافه، فيكون جحدك له أعظم من جحد إبليس الذي اعترف به.
''اس سے اللّٰہ کی معرفت، اس کی عبادت اور ذکر سے اعراض یعنی منہ موڑنا لازم آتا ہے۔ تو اس کو کبھی یاد بھی نہیں کرتا، کبھی اس کی بندگی بھی نہیں کرتا، کبھی اس سے دعا نہیں کرتا، کبھی اس سے امید بھی نہیں رکھتا، کبھی اس سے خوف نہیں کھاتا۔ سو تیرا اللّٰہ کا انکار کرنا تو اس ابلیس سے بھی سنگین تر ہے کیونکہ اس نے ربّ کا اعتراف تو کیا تھا۔ ''
امام ابن تیمیہ نے ارسطو کو ابلیس اور مشرکین مکہ سے بڑا کافر قرار دیا ،کیونکہ مشرک تو اللّٰہ کی بہت سی باتیں مانتا ہے ،اور مُلحد کسی شرعی حکم کا سرے سے قائل نہیں ہوتا۔ لکھتے ہیں:
" قَوْلَ الْفَلَاسِفَةِ - الْقَائِلِينَ بِقِدَمِ الْعَالَمِ وَأَنَّهُ صَادِرٌ عَنْ مُوجَبٍ بِالذَّاتِ مُتَوَلَّدٌ عَنْ الْعُقُولِ وَالنُّفُوسِ الَّذِينَ يَعْبُدُونَ الْكَوَاكِبَ الْعُلْوِيَّةَ وَيَصْنَعُونَ لَهَا التَّمَاثِيلَ السُّفْلِيَّةَ: كَأَرِسْطُو وَأَتْبَاعِهِ - أَعْظَمُ كُفْرًا وَضَلَالًا مِنْ مُشْرِكِي الْعَرَبِ الَّذِينَ كَانُوا يُقِرُّونَ بِأَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ بِمَشِيئَتِهِ وَقُدْرَتِهِ وَلَكِنْ خَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَأَشْرَكُوا بِهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا. وَكَذَلِكَ المباحية الَّذِينَ يُسْقِطُونَ الْأَمْرَ وَالنَّهْيَ مُطْلَقًا وَيَحْتَجُّونَ بِالْقَضَاءِ وَالْقَدَرِ أَسْوَأُ حَالًا مِنْ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَمُشْرِكِي الْعَرَبِ؛ فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مَعَ كُفْرِهِمْ يُقِرُّونَ بِنَوْعِ مِنْ الْأَمْرِ وَالنَّهْيِ وَالْوَعْدِ وَالْوَعِيدِ وَلَكِنْ كَانَ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنْ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ بِخِلَافِ المباحية الْمُسْقِطَةِ لِلشَّرَائِعِ مُطْلَقًا فَإِنَّمَا يَرْضَوْنَ بِمَا تَهْوَاهُ أَنْفُسُهُمْ...
''فلاسفہ کا یہ موقف کہ دنیا قدیم سے ہے، اور ایسی واجب الوجود ذات سے نکلی ہے جو عقول ونفوس سے پیدا ہوئی، جن کی وہ بلند ستاروں کی طرح بندگی کرتے اور اس کے لئے گھٹیا مثالیں بناتے ہیں ، جیسا کہ ارسطو اور اس کے پیروکاروں کا موقف ہے ۔ تو یہ موقف رکھنے والے مشرکین عرب سے بڑے کافر اور بڑے گمراہ ہیں، جو آسمان وزمین اور ان کے مابین چیزوں کے چھ دنوں میں اللّٰہ کی طرف سے، اس کی مشیت اور قدرت کے ساتھ تخلیق کرنے کا تو اقرار کرتے تھے، تاہم اُنہوں نے بلاعلم اللّٰہ کے بیٹے بیٹیاں بنا رکھی تھیں اور وہ اللّٰہ کی طرف سے نازل کردہ کسی دلیل کے بغیر اس کے ساتھ شریک بناتے تھے۔ ایسے ہی وہ اباحیت پسند لوگ جو مطلق طورپر اللّٰہ کے حکم ومنع کے منکر ہیں اور قضا وقدر کے ساتھ حجت پکڑتے ہیں تو یہ لوگ بھی یہود ونصاریٰ اور مشرکین عرب سے زیادہ بدترین ہیں۔ کیونکہ یہ یہود ونصاریٰ اور مشرکین تو اپنے کفر کے ساتھ ساتھ اللّٰہ کی حکم ومنع ، وعد اور وعید کے اقراری تھے۔ تاہم وہ اس کے ساتھ اللّٰہ کے ایسے شریک ٹھہراتے تھے، جو اللّٰہ نے مقرر نہیں کئے، برخلاف ان اباحیت پرستوں کے جو سرے سے تمام شرعی احکام کے ہی منکر ہیں۔ وہ سارے ایسے ہی کام پسند یا ناپسند کرتے ہیں جو صرف ان کو من بھاتے ہیں۔ وہ اللّٰہ کے اوامر ونواہی کے مطابق نہ تو حکم دیتے اور نہ ہی روکتے ہیں۔ ہاں جب ان کی کوئی نفسانی خواہش ہو تو ہر کام اپنی خواہش نفس کے تحت کرتے ہیں، اپنی معبود کی عبادت کے طورپر ہرگز نہیں۔ پھر یہ لوگ کسی کفر، گناہ اور سرکشی کو اس وقت تک برا نہیں جانتے ، جب تک ان کے ذاتی مقاصد کے خلاف نہ ہو۔ تو ان کا گناہ کو یہ برا جاننا طبعی اور شیطانی ہے، نہ کہ شرعی اور رحمانی۔ اسی بناپر شیاطین اپنے ان بھائیوں کی مدد کرکے ان کو سرکشی میں دور تک دھکیل دیتے ہیں اور پھر یہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ اور شیاطین ان لوگوں کے لئے مجسم مثال بنتے، ان سے اسی طرح باتیں کرتے اور ان کی خواہشات میں ان کی مدد کرتے ہیں ،جیسے یہ شیاطین بتوں کے بچاری مشرکین کی مدد کرتے ہیں۔ ''
دور جدید کے مغربی سائنس دان بھی ارسطو ، افلاطون کی طر ح ایسے ہی دہریانہ نظریات کے حامل ہیں، نہ وہ الٰہ کے قائل اور نہ کسی شریعت کے ، صرف اپنے نفس کے پجاری۔ 6 دسمبر 2018ء کو نیویارک میں معروف زمانہ سائنس دان آئن سٹائن کا جرمن زبان میں 1954ء میں تحریرشدہ یہ خط 29لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا ہے جس میں اس نے اپنا نظریۂ خدا یوں بیان کیا ہے:
''آئن سٹائن جرمن فلسفی ایرک گٹ کائنڈ کے نام اس خط میں لکھتے ہیں کہ 'لفظ خدا میرے لیے انسانی کمزوری کے اظہار اور پیداوار کے علاوہ کچھ نہیں... بائبل قابلِ قدر مگر دقیانوسی اساطیر کا مجموعہ ہے... کوئی تفسیر، چاہے وہ کتنی ہی باریک کیوں نہ ہو، اس بارے میں میرے خیالات بدل نہیں سکتی۔'
1929ء میں آئن سٹائن نے خدا کے بارے میں اپنا نظریہ ایک انٹرویو میں یوں پیش کیا کہ
''میں دہریہ نہیں ہوں۔ ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے وہ ہمارے محدود ذہنوں کے مقابلے پر انتہائی عظیم ہے۔ ہماری مثال اس بچے کی سی ہے جو ایک وسیع و عریض لائبریری میں داخل ہوتا ہے جو مختلف زبانوں کی کتابوں سے بھری ہوئی ہے۔ بچے کو معلوم ہے کہ کسی نے ضرور یہ کتابیں لکھی ہوں گی، لیکن یہ نہیں پتہ کیسے۔اسے وہ زبانیں نہیں آتیں جن میں یہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ بچہ کتابوں کی ترتیب میں ایک پراسرار ترتیب دیکھتا ہے لیکن اسے پتہ نہیں وہ ترتیب کیا ہے...ہم کائنات کو دیکھتے ہیں جو پراسرار طریقے سے ترتیب دی گئی ہے اور وہ بعض قوانین کے تابع ہے، لیکن وہ ان قوانین کو بہت مدہم انداز میں سمجھتا ہے۔''
معلوم ہوتا ہے کہ آئن سٹائن کے خدا کے بارے میں خیالات بدلتے رہے ہیں، اور اپنی وفات سے ایک سال قبل 1954ء میں وہ خدا کے وجود کا منکر ہو گیا تھا، جیسا کہ مذکورہ خط کے الفاظ بتاتے ہیں۔
علماے کرام جس طرح شرک کی مذمت میں عظیم دعوتی خدمات انجام دیتے ہیں ، اس طرح ان کو شرک سے بھی بڑے گناہ دہریت والحاد پر بھی توجہ کرنی چاہیے ،اور عقیدۂ توحید سے اس کی اصلاح بھی کرنی چاہیے۔ یہی بات شیخ عبد العزیز بن باز﷫ اپنے ایک فتوی میں لکھتے ہیں:
وهٰكذا من ينكر وجود الله ويقول: ليس هناك إله والحياة مادة كالشيوعيين والملاحدة المنكرين لوجود الله هؤلاء أكفر الناس وأضلهم وأعظمهم شركا وضلالا، نسأل الله العافية.
''اور جو شخص اللّٰہ کے وجود کا ہی منکر ہو، اور کہے کہ یہاں کوئی الٰہ ہے ہی نہیں، اور زندگی صرف مادی ہے۔ جیسے کمیونسٹ اور ملحدوں کا خیال ہے ، جو وجود الٰہی کے ہی منکر ہیں۔ تو یہ لوگ سب سے برے کافر، سب سے زیادہ گمراہ اور سب سے بڑے مشرک اور بھٹکے ہوئے ہیں۔ ''
پانچواں خطاب: ' یونانی فلسفہ کے اصول اور اثرات ' ا ز مولانا محمد رفیق طاہر ﷾
یونان زمانۂ قدیم سے ہی علم وحکمت کا گہوارا تھا۔ یہاں تقریبا 400-580 قبل مسیح فیثاغورث سے اس علم کا آغاز ہوا ۔سقراط (399-469 ق م) اس کا شاگرد تھا اور یہ الٰہیات اور اخلاقیات کے بارے میں بحث کرتا اور زیادہ ترریاضت میں مشغول رہتا اور زاہدانہ زندگی گزارتا۔افلاطون (347-427 ق م) سقراط کا شاگرد تھا، جسے اساطین متقدمین کی آخری کڑی سمجھا جاتا ہے۔اس کے شاگرد ارسطو (322-384 ق م) نے حکماے متقدمین کے کلام سے استنباط کرکے علم منطق مرتب کیا، اسی بنا پر اسے 'معلّم اول' بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا جانشین اس کا بھتیجا'ثاؤفراسطوس' بنا ، جس کی محنت سے 'مشائیہ' کی حکمت کو فروغ ملا۔ اسی طرح یونان کا ایک اور مشہور حکیم 'مُقراطیس' (370-460 ق م) ہے۔ اسی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اجسام عنصریہ ایک ہی ماہیت کے چھوٹے چھوٹے ذرّات سے مرکب ہیں جو حواسِ ظاہرہ سے محسوس نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی اُنہیں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح بقراط جو کہ علم طب کا واضع ہے ، یہ بھی یونان کے جزیرہ کوس میں پیدا ہوا تھا۔یونان سے علم وحکمت کے اس تعلق کی بناپر اس علم کو فلسفہ یونان یا حکمتِ یونان کہا جاتا ہے۔'فلسفہ' یونانی زبانی کا لفظ ہے، اس کا معنىٰ ہے علم وحکمت۔ لفظ 'فلسفہ' پہلے مفید اور حقیقی علم کے معنوں میں مستعمل تھا، پھر 'علم وحی کے مقابل' استعمال ہونے لگا۔ یعنی غور وفکر کے ذریعہ اشیا کی حقیقت تک پہنچنا 'فلسفہ' کہلایا۔
فلاسفہ کے مکاتبِ فکر
فلسفہ یونان کے دو بنیادی مکاتب ِفکر ہیں: ۱۔ مشّائیہ ۲۔ اِشراقیہ
مشائیہ: یہ لوگ غور وفکر اور استدلال وبراہین پہ اعتماد کرتے ہیں۔ اور مسائل عقلیہ کو دلائل سے ثابت کرتے ہیں۔ ابو نصر محمد فارابی (260ھ – 339ھ) اور ابو علی حسین بن عبد اللّٰہ المعروف ابن سینا (370ھ – 428ھ) اسی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔
متکلمین: یہ در اصل مسلمان مشائیـین ہیں، جو فلسفہ کو مسلمان کرنے کی کوشش کرکے متکلمین کہلائے۔ ابو حامد محمد بن محمد طوسی الغزالی (450ھ – 505ھ) اور فخر الدین محمد بن عمر الرازی (544ھ – 606ھ) معروف متکلمین ہیں۔
اِشراقیہ:فلسفہ یونان کا ایک مکتبِ فکر جس کا بانی افلاطون تھا، اس کے ماننے والے 'اشراقیہ' کہلاتے ہیں ۔ یہ لوگ مسائل عقلیہ کے حل میں بھی باطن کی صفائی اور اشراقِ نوری پر اعتماد کرتےہیں۔ شہاب الدین سہروردی (549ھ – 587ھ) کا تعلق اسی مکتبِ فکر سے تھا۔
صوفی:اشراقیہ ہی کے مذہب کے اثرات 'تصوف' میں پائے جاتے ہیں،یعنی وہی اشراقیہ کا انداز، بس اس پہ مذہب کا لبادہ اوڑھا دیا گیا۔
فلسفہ کے اثرات
جب فلسفہ کا عربی میں ترجمہ ہوا تو اس کے طرزِ بیان واستدلال، اور دلائل عقلیہ سے اثباتِ توحید نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور کچھ لوگ یونانی حکمت سیکھنے لگے۔ لیکن اس نے اسلامی نظریات پہ برے اثرات مرتب کیے کہ لوگوں نے فلسفہ کو نصوصِ شرعیہ پہ فوقیت دینا شروع کر دی اور جو نصوص فلسفہ کے مخالف محسوس ہوئیں، اُنہیں نظر انداز یا باطل تاویلات کرنا شروع ہوگئے ،جس کے نتیجہ میں گمراہ فرقوں کا ظہور شروع ہوا اور دن بدن ان میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
علمائے اسلام نے جب اسے محسوس کیا تو حکماے مشّائیہ کے اُصولوں اور نظریات کی کتاب وسنت کے دلائل سے تردید شروع کی، اور عقائد اسلامیہ کو اس انداز سے مدوّن کیا کہ اس سے مشّائیین کے نظریات کا ابطال ہوگیا۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ علما نے فلاسفہ کے نظریات کے تردید کے لیے فلسفہ کا ہی استعمال کیا ،ان میں سے اکثر خود بھی صراطِ مستقیم پہ پوری طرح قائم نہ رہ سکے ، اور فلسفہ کی رو میں بہہ گئے،جیسا ابو حامد الغزالی (1058 - 1111 م)کے ساتھ ہوا۔ بہت کم ایسے تھے جو فلسفہ کے ماہر بھی بنے اور اس کے اثراتِ بد سے بچے بھی رہے ،جن میں امام ابن تیمیہ کا نام نمایاں ترین ہے۔ حافظ محمد گوندلوی ﷫ (جون ۱۹۸۵ء م)بھی ان علما میں شامل ہیں جنہوں نے فلسفہ کے سفسطہ کو طشت از بام بھی کیا اور اپنا دامن بھی بچا لے گئے۔
جدید سائنس بھی در حقیقت قدیم حکمتِ یونان ہی سی نکلی ہے، جو وحی کے مقابلہ میں ہے، اور عقل ہی پہ اعتماد کرکے موجودات اور حقائق اشیا کا اقرار یا انکار کرتی ہے۔دراصل انسان کے پاس حصول علم کے تین بنیادی ذرائع ہیں: ۱۔ حواس ۲۔ معلومات پہ غور ۳۔ وحی
فلسفی اور سائنس دان علم کے پہلے ذریعہ'حواس' کو اصل مانتے ہیں ۔جو چیز حواس سے محسوس کی جاسکے خواہ ظاہرِ حواسِ خمسہ یا محض تخیل یا توہم یا صرف تعقل ہی سے، یہ ان کے ہاں اصل علم ہے۔ اور جو ان کی عقل میں نہ آئے وہ شے ان کے ہاں معدوم ہے۔ اب چونکہ ذاتِ باری تعالىٰ کو نہ تو حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی خدا بننے کا تجربہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح نبوت بھی وہبی شے ہے، یہ بھی تجربہ سے حاصل نہیں ہوسکتی ، سواُنہوں نے مغیبات کا انکار کر دیا۔
اور جو مسلمان 'اشراقیہ' کا طرز اختیار کرکے صوفیا کہلائے، انہوں نےکشف والہام کے نام پر نبوت پہ ہاتھ صاف کیے اور کبھی أنا الحق کا نعرہ لگا کر تو کبھی 'خدا بننے کا گُر' سکھا کر'خدا' بننے کے تجربات کیے!
اشاعرہ و ماتریدیہ ہوں یا معتزلہ و خوارج و شیعہ وغیرہ، سبھی وحی الٰہی کی غیر مشروط اطاعت چھوڑ کر اور اسی فلسفیانہ عقل پرستی کا شکار ہوکر گمراہ ہوئے ہیں۔اور عصر حاضر میں وحید الدین خان(ولادت1925ء) اور جاوید احمد غامدی(ولادت1951ء)اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔
ہمارے نونہال جب سکول و کالج میں سائنس پڑھتے ہیں اور علوم دینیہ میں ناپختہ ہونے کی وجہ سے وحی کے بجائے سائنس پہ ان کا اعتماد بڑھتا چلا جاتا ہے تو وہ بہت جلد دہریت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ علوم وحی میں نئی نسل کو پختہ کیا جائے، اور مغیبات پہ ان کا ایمان مضبوط کیا جائے۔ اور فلسفہ کا ردّ فلسفہ سے کرنے کی بجائےوحی الٰہی سے کیا جائے، تاکہ سائنس و فلسفہ کے مقابل وحی الٰہی کی حیثیت و اہمیت ان کے قلوب واذہان میں راسخ ہو۔اور یہ کام کرنے کے لیے علماے کرام کو اجتہاد واستنباط کی مشق مسلسل کرتے رہنا چاہیے تاکہ ملکہ استنباط پیدا ہو ،اور سلف صالحین کی طرح براہِ راست وحی الہٰی سے مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔
چھٹا خطاب : ' الحاد کا تدارک اور اعتصام بالکتاب والسنۃ وفہم سلف ' از غلام مصطفیٰ ظہیر ﷾
ہمارے ہاں صرف دہریت کو الحاد کہہ دیا جاتا ہے ، جبکہ اسلامی لٹریچر میں الحاد کی اصل 'فہم سلف کے مقابلے میں کوئی مبنی بر عقل دعویٰ' پیش کرنا ہے۔ ہر بگاڑ کا سبب ائمہ محدثین سے دشمنی ہے اور ائمہ محدثین کے فہم پر اعتماد ہر فتنے کا توڑ ہے۔ ائمہ محدثین فتنوں کے نباض تھے۔تقویٰ، حفظ اور دیانت ان پر ختم تھی، اُنہوں نے اپنے اساتذہ سے سنی گئی 'واؤ' بھی بعینہٖ بیان کی ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ آپ کن اسلاف کی بات کرتے ہیں؟ تو ہم کہیں گے جن اسلاف کی بات امام اوزاعی نے کی ہے۔ فرماتے ہیں:
عليك بآثار من سلف وإن رفضك الناس، وإياك ورأي الرجال وإن زخرفوه لك بالقول، فإن الأمر ينجلي وأنت على طريق مستقيم.
'' اسلاف کے نقش قدم پر چلناتجھ پر لازم ہے ، اگر چہ لوگ تجھے غلط کہیں ۔اور لوگوں کی ذاتی آرا سے بچو ، اگر چہ ان کے اقوال خوبصورت ہوں ۔ حقیقت عنقریب آشکارا ہوجائے گی اور آپ جادہ حق پر ہوں گے۔''
آپ محدثین کی روایات لیتے ہیں، تو ان کا فہم کیوں نہیں لیتے۔ کیا یہ الحاد نہیں ہے ؟ علامہ جلال الدین سیوطی  (م1505ء) فرماتے ہیں:
وكل من عدل عن الحق فهو ملحد، وكل من كذب علىٰ الله تعالى أو علىٰ رسوله فهو ملحد. وكل من فسّر القرآن برأيه فهو ملحد، وكل من لم ير بتأويل الأحاديث المتعارضة فهو ملحد، وكل من لا يرى بالنسخ في الكتاب أو السنة فهو ملحد.
'' ہر وہ شخص جو حق سے منحرف ہوگیا ، وہ ملحد ہے ۔ اور جس نے اللّٰہ تعالیٰ پر یا اس کے رسول پر جھوٹ بولا وہ ملحد ہے اور جس نے قرآنِ مجید کی تفسیر اپنی رائے سے کی وہ ملحد ہے ۔ ہر وہ شخص جو بظاہر متعارض احادیث کی تطبیق کا قائل نہیں ، وہ ملحد ہے اور جو کتاب وسنت میں نسخ کا قائل نہیں ، وہ ملحد ہے۔ ''
الحاد علم کلام سے آیا جبکہ دین کی حفاظت علم نبوت سے ہوئی ہے، اسی لیے امام شافعی (م 204 ھ)نے فرمایا :
"حُكْمِي فِي أَهْلِ الْكَلَامِ أَنْ يُضْرَبُوا بِالْجَرِيدِ وَيُطَافُ بِهِمْ فِي الْعَشَائِرَ وَالْقَبَائِلَ، هَذَا جَزَاءُ مَنْ تَرَكَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَأَخَذَ فِي الْكَلَامِ."
''علم کلام سیکھنے والوں کے متعلق میرا فیصلہ تو یہ ہے کہ اُنہیں چھڑی سے پیٹا جائے ، اونٹ پر بیٹھا کر مختلف قبائل اور خاندانوں کا چکر لگوایا جائے اور آواز لگا کر بتایا جائے کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو کتاب وسنت کو چھوڑ کر علم الکلام حاصل کرتا ہے ۔ ''
امام سرخسی نے کہا ہے کہ نبی ﷺ پگڑی کا مسح نہیں کر رہے ،بلکہ پگڑی درست کرنا چاہ رہے تھے جسے صحابی نے مسح سمجھ لیا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ روایت تو پانچ چھ صحابہ نے کیا اور کیا سبھی کو غلطی لگ گئی؟! ایسا ہی رویّہ الحاد کے راستے کھولتا ہے۔ اس لیے امام ابن عبد الہادی  (744 ھ)نے فرمایا :
"ولا يجوز إحداث تأويل في آية أو سنة، لم يكن على عهد السلف ولا عرفوه، ولا بيّنوه للأمة، فإن هذا يتضمّن أنهم جهلوا الحق في هذا وضلّوا عنه، واهتدى إليه هذا المعترض المستأخر.
'' کسی آیت یا حدیث کی ایسی تفسیر کرنا جائز نہیں جو عہدِ سلف میں موجود نہ ہو ، اور وہ اسے نہ جانتے ہوں ، اور نہ انھوں نے اُمت کو بیان کی ہو ۔ کیونکہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ اس مسئلہ میں حق سے جاہل تھے اور اس سے نابلد تھے ، اور آج اسی بعد میں آنے والے معترض کو ہدایت نصیب ہوئی ہے۔''
' فہمِ سلف سے آزادی' کا نام الحاد ہے۔ ائمہ سلف اور محدثین نے یہ الحاد کبھی قبول نہیں کیا، اس لیے آج روئے زمین پر اسماء و صفات کے باب میں سوائے سلف كے جو أهل السنة والجماعة ہیں، کوئی حق پر نہیں۔ اسی بات کو امام شاطبی  (م790 ھ)نے یوں بیان کیا ہے:
الحذر الحذر من مخالفة الأوّلين فلو كان ثمّ فضلٌ ما لكان الأولون أحقّ به.
'' بچنا چاہئے اس شخص سے جو سلف صالحین کی مخالفت کرتا ہے ، چاہے وہ کتنا ہی صاحبِ فضل ہو ، البتہ پہلے لوگ اس کے زیادہ مستحق تھے ۔ ''
اور حافظ ابن کثیر  (م774 ھ ) فرماتے ہیں:
أهل السنة يقولون في كل فعل أو قول لم يثبُت عن الصحابة، أنها بدعة، لأنه لو كان خيرًا لسبقونا إليه
'' علماے اہل سنت فرماتے ہیں کہ ہر وہ فعل یا قول جو صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے ، بلاشبہ وہ بدعت ہے، کیونکہ اگر وہ خیر ہوتا تو وہ اس کے لیے ہم سے سبقت لے جانے والے تھے ۔''
حیرانی کی بات ہے کہ لوگ فہمِ سلف کو تقلید کہتے ہیں، حالانکہ یہ صراط الذين أنعمت عليهم ہے۔ امام سیوطی (م911 ھ ) نے کہا ہے کہ ''اس آیت میں سلف کی اقتدا کی طرف اشارہ ہے۔ ''
ایک صاحب نے کہا کہ ''اللّٰہ ہر جگہ ہے۔'' اور قرآن سے دلیل دینے لگا۔ تو میں نے کہا کہ
''آیات مجھے بھی آتی ہیں، سبیل المؤمنین بتلاؤ یا ائمہ سلف سے کوئی دلیل لاؤ...! ''
حافظ ابن قیم  (م751 ھ )فرماتے ہیں کہ اہل باطل کے ہاں چار طاغوت ہیں :
1.إن كلام الله وكلام رسوله ﷺ أدلة لفظية لا تفيد علمًا ولا يحصل منها يقين.
2. إن آيات الصفات وأحاديث الصفات مجازات لا حقيقة لها.
3.إن أخبار رسول الله ﷺ الصحيحة التي رواها العدول وتلقتها الأمة بالقبول، لا تفيد العلم، وغايتها أن تفيد الظن.
4.إذا تعارض العقل ونصوص الوحي، أخذنا بالعقل ولم نلتفت إلى الوحي.
'' (جس نے کہا ) اللّٰہ تعالیٰ کا کلام اور اس کے رسول کی بات لفظی طور پر دلالت کرتے ہے ، علم کا فائدہ نہیں دیتی ، اور اس سے یقین حاصل نہیں ہوتا ۔
بلاشبہ صفات کے متعلق آیات اور احادیث مجازی ہیں ، ان کا حقیقی معنی مراد نہیں ۔
رسول اللّٰہ ﷺ کی احادیث صحیحہ جنہیں عادل راویوں نے روایت کیا او رامت نے اسے قبول کیا ، ان سے علم حاصل نہیں ہوتا ، وہ صرف ظن کا فائدہ دیتی ہیں ۔
جب عقل اور نصوص متعارض ہو ں تو ہم عقل کی بات لیں گے اور وحی کی طرف نہیں دیکھیں گے ۔''
خبرِ واحد کا لفظ دراصل حدیث نبوی کی اہمیت کم کرنے کے لئے بولا جاتا ہے، کیونکہ صحیحین سمیت 99 فیصد احادیثِ نبویہ اسی قسم سے ہیں۔ اور محدثین کرام میں سے ابنِ حبان کے علاوہ کسی نے اسے ذکر تک نہیں کیا۔ اور اُنہوں نے بھی ردّ کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا۔
آج بھی ملحدین کو تکلیف اصل 'احادیث اور محدثین' سے ہے۔ امام ابو نصر بن سلام فرماتے ہیں :
ليس شيء أثقل على أهل الإلحاد ولا أبغض إليهم من سماع الحديث وروايته بإسناده.
'' ملحدین کےلیے حدیث کے سماع اور اسناد کے ساتھ اس کی روایت سے بڑھ کر ثقیل اور قابل نفرت کوئی چیز نہیں ہے ۔''
ردِّ الحاد کیسے ؟
سب سے پہلا کام : محدثین کی کتب عام کر دیں۔ بڑی کتابوں کی مختصرات کو ہر گھر میں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد مولانا ثناء اللّٰہ امرتسری اور مولانا عبد الرحمٰن کیلانی رحمہما اللّٰہ کی کتابوں کو عام کریں۔ میں نے ایک ملحد کو مولانا ثناء اللّٰہ امرتسری﷫ کی کتاب دی تو وہ تائب ہو گیا۔ الحمد لله
دوسرا کام : بد عملی سے چھٹکارا پائیں، الحاد کی عمارت اس اعتراض پر کھڑی ہے کہ دین داروں کا اپنا کردار دیکھو!
تیسرا کام : نوجوانوں کو فرداً فرداً سمجھائیں اور ان کے شکوک کا ازالہ کریں۔ صاحب الفَرق بین الفِرق نے باطنیہ کے کسی قائد کا قول ذکر کیا ہے کہ تم مسلمانوں کی اُمہات الکتب میں شکوک پیدا کرو اور مسلمہ قوانین فطرت کو ہی مشکوک کر دو، جیسے انسان کی تخلیق کا مسئلہ ہے، تو اس سے بے دینی کا راستہ خود ہی کھل جائے گا۔ اس لیے نوجوانوں کے شکوک دور کرنا بہت ضروری ہے۔
ساتواں خطاب: فضیلۃ الشیخ مولانا ڈاکٹر عبدالرحمٰن مدنی ﷾ (رئیس مجلس التحقیق الاسلامی)
مذکورہ علما کنونشن مولانا عبدالرحمٰن مدنی ﷾ کی زیر صدارت تھا ، ا پنے صدارتی خطاب میں انہوں نے پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ پر مفصل روشنی ڈالی ۔ اُنہوں نے فرمایا:
الحاد کے حوالے سے ہمیں بعض واقعاتی مسائل کا سامنا ہے جنہیں جاننا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔الحاد پر مبنی سیکولرزم (یعنی نظام حکومت سے دین کو بے دخل کردینے) کی اس دور میں اہم ترین صورت اللّٰہ کی شریعت کی بجائے انسانوں کے ہاتھوں دستور کی تشکیل ہے۔ محمد علی جناح 1940ء میں حیدرآباد میں خطاب کررہے تھے ، اسی دوران سوال آیا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا ؟ تو اُنہوں نے فرمایا: پاکستان اسلام کے نام پر بن رہا ہے، اسے الگ سے دستور کی ضرورت نہیں ہے ، اس کا دستور قرآن ہوگا ۔ مگر جب پاکستان بنا تو اسلامی نہ سہی، آزاد تو ہوتا۔ اس کے لئے شرط لگائی گئی کہ جب تک دستور نہ بنے گا، آزاد مملکت نہ ہوگا۔ انڈیا نے 1949ء میں دستور بنا کر برطانوی بادشاہت سے آزادی حاصل کرلی، لیکن پاکستان کو تاجِ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے میں 23 مارچ 1956ء تک ، یعنی 1956ء کے دستور (9 سال )تک انتظار کرنا پڑا، اس دوران پاکستان پر تاج برطانیہ کے ماتحت مسلسل چار گورنر جنر ل نے حکومت کی۔
پاکستان کا سیاسی المیہ یہ ہے کہ یہاں اسلام کو منزل کی بجائے اپنی حکومت کے استحکام کے لئے بطور آلہ استعمال کیا گیا۔ نظام مصطفیٰ کی تحریک کے نتیجہ میں مار شل لا لگایا تو کہا گیا کہ قرآن وسنت کا غلبہ ہوگا ، مگر عملاً ایسا کچھ نہ ہو ا۔ پھر جب ضیاالحق آیا تو اس نے کہا میرےمشیر علماء ہوں گے ،گیارہ علما ے کرام کو مشیر مقرر کیا گیا ، ان کے مگر تقرر کا کبھی باقاعدہ نوٹیفیکیشن نہ کیا گیا۔جب نوٹیفکیشن ہی نہ ہوا تواسلام اور علماے کرام کو اہمیت کیسے ملتی؟ نفاذِ شریعت کا نام لیا گیا ، مگر عملا شریعت بل سرد خانے کی نذر ہوگیا۔
سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز(م1953ء‎) نے آغاز میں ہی طے کردیا تھا کہ ہمارا دستور قرآن وسنت ہوگا ، اور جب شاہ فہد (م2005ء)نے اسے باقاعدہ تحریر کروایا تو اس میں وضاحت سے لکھ دیا کہ
المادة الأولى: المملكة العربية السعودية دولة عربية إسلامية، ذات سيادة تامة، دينها الإسلام، ودستورها كتاب الله تعالى وسنة رسول الله، ولغتها هي اللغة العربية.
''آرٹیکل1: مملکت ِ سعودی عرب مکمل طور پر خود مختار عرب اسلامی ملک ہے، اس کا دین'اسلام'، دستور'کتاب اللّٰہ اور سنت رسولﷺ'، زبان 'عربی'اور دارالحکومت 'الریاض' ہے۔''
پھر سعودی عرب کے نظا م عدل میں بھی کسی انسانی قانون کی بجائے اللّٰہ کی شریعت کو برتری حاصل ہے:
المادة السادسة والأربعون: القضاء سلطة مستقلة ولا سلطان على القضاة في قضائهم لغير سلطان الشريعة الإسلامية.
''آرٹیکل 46: 'عدلیہ'ایک آزاد اور بااختیار ادارہ ہوگا جس پرشریعت ِاسلامیہ کی بالادستی و برتری کے علاوہ اور کوئی بالادستی نہیں ہوگی۔''
المادة الثامنة والأربعون: تطبق المحاكم على القضايا المعروضة أمامها أحكام الشريعة الإسلامية وفقًا لما دلّ عليه الكتاب والسنة، وما يصدره ولي الأمر من أنظمة لا تتعارض مع الكتاب والسنة.
آرٹیکل48:تمام عدالتیں پیش ہونے والے جملہ مقدمات میں شریعت ِاسلامیہ کے احکامات کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی جیساکہ وہ کتاب اللّٰہ اور سنت رسولﷺسے ثابت ہیں۔نیز انتظامی عدالتیں حکام کی طرف سے نافذ کردہ اُن نظاموں کے مطابق فیصلہ کریں گی جو کتاب اللّٰہ اور سنت ِرسولﷺکے مخالف نہ ہوں۔''
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، اس کے دستور میں اسلام کے بارے میں بہت سے آرٹیکلز موجود ہیں مگر پاکستان میں کسی بھی حاکم نے شریعت نافذ نہ کی ، اور نہ شرعی عدالتیں مؤثر ہوسکیں ۔ حالیہ حکومت نے ریاستِ مدینہ کا نعرہ بلند کیا ہے ، لیکن وہ بھی آئی ایم ایف اور امریکہ کی غلامی کے رستے پر چل نکلی ہے۔
دینی جماعتوں کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں ہے ، شریعت بل کے نام پر حنفی فقہ کو سپریم لاء بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجلس عمل کے اعلامیہ میں لکھا ہوا ہے کہ ملک کا قانون فقہ حنفی ہوگی ، باقی سب اقلیتیں ہیں۔ معلوم نہیں کہ اہل حدیث قیادت نے کیسے اس اعلامیہ پر دستخط کرکےمجلس عمل میں شامل ہونا قبول کیا؟
جو بات اللّٰہ کی وحی نہیں ہے ، وہ شریعت نہیں ہے۔ اجماع اور قیاس حجت تو ہیں مگر شریعت نہیں ہیں۔ قرآن وسنت کے علاوہ کوئی چیز بھی مسلمانوں کے لیے اَتھارٹی نہیں ہے ۔
افسوس ہے کہ اہل حدیث جماعتی اعتبار سے پیچھے ہیں، مگر مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ کتاب وسنت کی غیر مشروط اطاعت ہمارا طرّۂ امتیاز ہے۔ اور اسی سے ملتِ اسلامیہ کی کامیابی مشروط ہے۔ ہمیں علم میں رسوخ اور عمل بالکتاب والسنّہ کی اعلیٰ مثال پیش کرنی چاہیے ۔ ٭٭ (باقی دونشستوں کی رپورٹ آئندہ شمارے میں)