سعودی عرب میں خطبہ جمعہ کا نظام
کچھ عرصہ سے پاکستان میں خطبا حضرات کو حکومتی تقریر کا پابند کرنے کا نظریہ پیش کیا جاتا ہے اور ا س سلسلے میں سعودی عرب کے نظام مساجد کی دلیل بھی دی جاتی ہےکہ وہاں خطیب حکومت کی طرف سے لکھی لکھائی تقریر کرتے ہیں۔سعودی عرب میں خطبہ جمعہ کا نظام پاکستان سے مختلف ہے، لیکن بہرصورت وہاں حکومتی تقریر کی پابندی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
سعودی عرب کے کچھ اہل علم اور خطبا کے تجربات و مشاہدات
پاکستان سے کئی ایک اہل علم، علما و خطبا سعودی عرب میں دعوتی میدان میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان سے معلومات لیں تو حقیقتِ حال بالکل واضح ہوجائے گی۔
1. اس سلسلے میں ایک صاحب علم سے بات کی گئی تو بولے:
’’جى ایسا ہرگز نہیں ۔میں ذاتی طور پر کئی خطبا کو جانتا ہوں۔ہر خطيب اپنے طور پر نیٹ سرچ کرتا ہے جو خطبہ پسند آتا ہے اسے پرنٹ کرکے پیش کرتا ہے۔کچھ تو اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا خطبہ لے کر منبر پر تشریف لاتے ہیں،ہاں اگر کوئی خاص مہم ہو جیسے کوئی تكفيری منہج پر دہشت گردی کی کوئی واردات ہو یا اور اس جیسا كوئى واقعہ ہو توحكومت كى طرف سے اس کی مذمت پر خطبہ دینے کا حکم آئے تو پھر اسى موضوع پر خطبہ ہوتا ہے۔‘‘
2. ایک اور صاحب کہتے ہیں:
’’یہ بات بالکل بےبنیاد ہے۔ گزشتہ رمضان کے چاروں جمعے اور محرم کا ایک جمعہ اپنے ایک استاد کی کی مصروفیت کی وجہ سے ان کی جگہ پڑھانے کا اتفاق ہوا تھا اور مسجد بھی وزارت اسلامی امور کے تحت تھی اور اکثر سعودی تھے،لیکن موضوع اپنی مرضی کا تھا۔‘‘
3. عرصہ دراز سے جدہ میں مقیم ایک عالم دین لکھتے ہیں:
’’الحمد للہ جدہ میں تقریباً 28 مساجد میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام اُردو زبان میں خطباتِ جمعہ ہو رہے ہیں۔ میں خود بھی ربع صدی سے وزارت داخلہ اور وزارت اسلامی امور کی اجازت سے جدہ میں معروف خطیبوں کے خطبات کا ترجمہ کر رہا ہوں۔ بلکہ بہت سے خطیبوں کو موضوع اور مواد بھی فراہم کیا ہے، حکومت کی طر ف سے تقریر آنے کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ ہاں اہم مواقع پر بعض دفعہ، کسی خاص موضوع پر تقریر کرنے کا کہا جاتا ہے۔‘‘
4. مدینہ منورہ میں عرصہ دراز سے مقیم ایک عالم دین لکھتے ہیں:
’’یہ بات غلط ہے کہ سعودی میں حکومت کی طرف سے خطبہ ملتا ہے۔ میں نے خود کئی مرتبہ مدینہ میں ائیرپورٹ روڈ پر خطبہ دیا ہے اور خود لکھ کر لے جاتا تھا، کبھی کہیں سے کوئی ایسی پابندی نہیں تھی۔‘‘
5. ایک اور خطیب لکھتے ہیں:
’’یہ خبر بالکل بے بنیاد ہے، خطبہ جمعہ ہو یا دوسرے پروگرام اکثر مشائخ عنوان کے متعلق نوٹس تیار کرکے سامنے رکھتے ہیں، بعض مشایخ موبائل سے پڑھ کر بھی خطبہ دیتے ہیں۔الحمدللہ میں کئی سالوں سے جمعہ کاخطبہ دیتا ہوں، نہ کوئی سرکاری ورقہ ہوتاہے نہ اپنی طرف سے کوئی ورقہ۔حکومت کو جب ضرورت ہوتو وہ صرف ایک پیغام چھوڑ دیتےہیں کہ اس عنوان پر بولا جائے جیسے گذشتہ 15ستمبر کاجمعہ تقریباً پوری مملکت میں ایک ہی عنوان پر دیا گیا۔‘‘
6. ایک اور عالم دین اپنا مشاہدہ یوں بیان کرتے ہیں:
’’حرمین شریفین، مسجد قبلتین، مسجد وطنیہ بریدہ، ان سب کے بارے میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سب خود لکھ کر لاتے ہیں، حکومت کی جانب سے لکھا ہوا نہیں ملتا۔ بلکہ لکھا ہوا ہونا بھی ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ مسجد قبلتین کے ایک خطیب عبد الرزاق البدر لکھ کر لاتے ہی نہیں، زبانی خطبہ دیتے ہیں۔ ایسے مسجد عائشہ راجحی ،مکہ میں ایک بار جمعہ ادا کرنے کا موقع ملا تو اُنہوں نے بھی زبانی خطبہ دیا تھا، لکھا ہوا تھا ہی نہیں۔‘‘
یہ سب ان لوگوں کے تجربات و مشاہدات ہیں، جو عرصہ دراز سے سعودی عرب میں دعوتی میدان میں مصروفِ عمل ہیں، اسی طرح وقتاً فوقتاً سعودی عرب آنے والے پاکستانی اہل علم اور مشائخ کا بھی یہی تجربہ تھا کہ ہم اُردو کمیونٹی میں تقاریر اور خطباتِ جمعہ میں اپنی مرضی کے موضوعات اور مسائل بیان کرتے ہیں، حکومتی تقریر والی بات کا کوئی وجود نہیں ہے۔
اس معاملے کو دیکھنے کا ایک اور انداز
سعودی عرب میں سوشل میڈیا وغیرہ کا استعمال پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ یہاں تقریر و تحریر کی ترویج و تشہیر کا نظام بھی پاکستان سے کافی بہتر ہے۔ سعودی عرب میں درجنوں علما ہیں، جن کے خطبات لائیو نشر ہوتے ہیں۔ ان کو سن لیں تو ہر ایک کا اپنا مضمون اور بیان کرنے کا اپنا انداز ہوگا۔ اگر تقریر حکومت کی طرف سے ہو، تو الگ الگ خطبے ہونے کا کیا مطلب؟
اسی طرح حرمین شریفین یعنی مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی میں ہونے والے ایک ہی جمعے کے دو خطبات کو آپس میں ملا کر دیکھ لیں تو ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔ ہر خطیب کی صلاحیت، انداز ، اُتار چڑھاؤ، فصاحت و بلاغت اور دلچسپیاں اُن کے خطبات سے واضح ہوں گی۔ اگر حکومت کی طرف سے لکھی لکھائی تقاریر ہوتی ہوں تو یہ اختلاف کیوں؟
7. ایک باخبر صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ جو سعودی عرب کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں خطبہ گورنمنٹ کی طرف سے لکھا ہوا ملتا ہے یہ بالکل غلط ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مختلف مساجد میں مختلف موضوعات بیان کیے جاتے ہیں حتیٰ کہ حرمین شریفین کے اندر مکہ اور مدینہ میں ایک موضوع نہیں ہوتا ۔مسجد قبا اور دیگر مساجد میں خطبہ جمعہ کے عناوین مختلف ہوتے ہیں اور خطیب خود لکھ کے لاتا ہے۔ دراصل یہاں خطیب حضرات لکھ کر خطبہ دیتے ہیں ۔چند خطیب ایسے ہیں جو لکھے بغیر خطبہ دیتے ہیں۔ میں نے کئی مساجد میں خطبہ جمعہ کا ترجمہ جمعہ کے بعد کیا ہے تو بعض مرتبہ خطیب وہ لکھا ہوا جمعہ پکڑا دیتا ہے تاکہ ترجمہ میں مدد لی جاسکے اور وہ خطبہ اس کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوتا ہے۔‘‘
بلکہ آپ کو کئی ایسے خطبات اور تقاریر بھی ملیں گی، کہ جن کی وجہ سے خطبا کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا، اگر خطبہ حکومت کی طرف سے ہو تو پھر حکومت اپنا ہی خطبہ پڑھنے والے پر پابندی کیوں لگائے گی؟
حکومت اپنی ہی تیار کردہ تقریر پر کس منطق سے پابندی لگائے گی؟
غلط فہمی کا سبب کیا ہے؟
جب صورت حال یہ ہے تو پھر سعودی عرب کے متعلق یہ غلط فہمی کیوں پھیلی کہ یہاں حکومت کی طرف سے لکھی لکھائی تقریر کی جاتی ہے؟
میں جب سعودی عرب میں آیا تو ایک حد تک میرے ذہن میں بھی یہ تاثر موجود تھا۔ اور اس تاثر کو مزید تقویت اس وقت ملی، جب مسجد نبوی و مسجد حرام میں خطبا کو ہاتھ میں ورقے تھام کر تقریریں کرتے دیکھا۔ مدینہ یونیورسٹی اور ارد گرد کی مساجد میں بھی یہی رواج نظر آیا۔ عموماً خطبا ہاتھ میں ورقہ تھام کر تقریر کیا کرتے تھے، بلکہ بعض مساجد میں خطبا تو اس قدر ورقے کے عادی تھے کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے سے پہلے ورقہ کھول لیتے، اور وآخر دعوانا... کہنے کے بعد ورقے سے نظر ہٹاتے۔ بڑی حیرانی ہوتی کہ اُنہیں السلام علیکم بھی ورقے کے بغیر کہنا نہیں آتا۔
بلکہ ہمیں ایک دفعہ ایک اُستاد محترم نے لطیفہ بھی سنایا کہ ایک خطیب جمعے کی تیاری کرکے ورقہ جیکٹ میں ڈال کر لے گیا، مسجد میں جاکر وضو کرنے کےلیے جب جیکٹ اُتاری تو ایک شرارتی نے چپکے سے ورقہ نکال لیا۔ خطیب صاحب ورقہ پر اعتماد کرتے ہوئے منبر پڑ چڑھ گئے، خطبہ مسنونہ پڑھتے ہوئے جب ورقہ کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو پیشانی سے پسینہ اُترنے لگا، جیسے تیسے کرکے خطبہ ختم کیا۔ اگلی مرتبہ پھر اسی شرارتی کے ہتھے چڑھ گئے۔ تیسری مرتبہ اُنہوں اپنے خطبہ کی دو کاپیاں کروالیں۔ شرارتی شرارت کرکے خطیب صاحب کی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ سے محظوظ ہونے کے لیے منتظر بیٹھا تھا، کہ خطیب صاحب نے فاتحانہ انداز میں دوسری جیب سے ورقہ نکالا، اور دھواں دھار خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔
مقصد یہ ہے کہ یہاں خطبہ لکھ کر لانے کا رواج ہے، گو فی البدیہ خطبہ یا تقریر کرنے والے اہل علم اور خطباء بھی موجود ہیں۔اور یہ صرف خطبہ ہی نہیں، یہاں بہت ساری تقاریب میں شرکت کی۔ شاہ ،وزیر مشیر اورمدیر الجامعہ وغیرہ سب لوگ جو بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں، عموما ایک ورقے پر لکھ کر( یا اپنے سیکرٹری سے لکھوا کر) ساتھ لائے ہوتے ہیں۔ اور یہ رواج صرف سعودیہ میں ہی نہیں، بلکہ اور کئی جگہ پر اس کی مثالیں موجود ہیں۔
جب ہمارے ہاں عام طور پر خطبا کا انداز ورقہ دیکھ کر تقریر پڑھنے کا نہیں ہوتا، تو سعودیہ کے ورقے والے خطبا دیکھ کر ہماری نظر میں پہلا تصور یہی آتا ہے کہ شاید یہ حکومت کی بھیجی ہوئی تقریر سنائی جارہی ہے۔حرمین میں ورقے والی تقریر پڑھنے کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ یہاں کا خطبہ جمعہ ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوتا ہے، جن لوگوں نے ترجمہ کرنا ہوتا ہے، خطیب صاحب پہلے سے خطبہ لکھ کر مترجمین تک پہنچادیتے ہیں، تاکہ ساتھ ساتھ ترجمہ کرنے میں زیادہ مشکل اور پریشانی نہ ہو۔
سعودی عرب میں لکھی ہوئی تقریر نہیں ہوتی لیکن:
سعودی عرب ایک اسلام پسند ملک ہے، اور اس میں کتاب وسنت اور اس کے احکامات کو باقاعدہ طور پر حکومتی سطح پر پھیلایا جاتا تھا۔جس طرح ہمارے ہاں داخلہ، خارجہ اور مالی وزارتیں ہیں، تو یہاں اوقاف اور اسلامی اُمور باقاعدہ ایک باصلاحیت وزیر کے تحت ہوتے ہیں۔ اس لیے اُنہوں نے لوگوں کو اپنا دیندار ہونا ثابت کیا ہے، اور لوگوں کے دینی جذبات کی تسکین کا بھرپور انتظام بھی کر رکھا ہے، اس لیے لوگ دینی معاملات میں بھی ان پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ تمام مساجد، دینی مدارس وجامعات وغیرہ براہِ راست حکومت کی کفالت میں ہیں، اور حکومت اس پر بھاری خرچ کرتی ہے۔ یہاں خطیب یا امام مسجد ہونا تو بڑی بات، خالی مؤذن کے لیے بھی مناسب سہولیات موجود ہیں۔
سعودی عرب میں دینی معاملات میں پابندیاں لگانے ،اُٹھانے اور نگرانی کرنے والے وقت کے بڑے بڑے علما کرام تھے، جو مختلف شرعی وسماجی مصالح کے تحت ایسا کیا کرتے۔ آج تک یہاں مساجد و مدارس کو جن باتوں کا پابند کیا جاتا ہے، عموماً لوگ اس پابندی کا احترام کرتے ہیں۔ اب نظام میں کچھ تبدیلی کی وجہ سے بعض لوگ بے چین بھی ہیں ، تو اب بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہی ہے، جو حکومتی پالیسیوں پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرنے والے ہیں۔ یہاں خطبا و واعظین کو لکھی لکھائی تقریریں تونہیں ملتیں، لیکن حکومتِ وقت کی مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور اسے فتنہ پروری اور ناسمجھی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کئی لوگ جنہوں نے منبر و محراب اور قلم و لسان کو بے دریغ استعمال کیا، آج پابندیوں کا شکار ہیں۔
’رياستِ مدینہ ‘ کی درست سمت ؟
حکومت پاکستان ’ریاست مدینہ ‘ کا نام لیتی ہے تو یہ دعویٰ قابل قدر ہے اور اس کی تعریف کی جانی چاہیے، تاہم اس سلسلے میں عملی اقدام بھی کرنے ضروری ہیں، اس عظیم مقصد کے لئے ایک مستقل کمیشن بھی بنانا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو سعودی عرب میں نگرانی اور سختی پر توجہ کی بجائے،حکومت کی طرف سے دینی طبقے کو دی جانے والی سہولیات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ مدارس و مساجد کو سرکاری سہولیات اور بجٹ میں حصّہ دیا جائے۔ شیخ الحدیث ، اساتذہ کرام، خطیب، امام اور مؤذن وغیرہ کو باقاعدہ گریڈ سسٹم کے تحت تنخواہ دی جائے، اور طلبہ کی دینی تعلیم کو منظور کیا جائے تو شاید پابندی لگاتے وقت پاکستان کا دینی طبقہ بھی آپ کا حمایتی ہوگا۔
یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، ہمارا دعویٰ اسے ریاست مدینہ بنانے کا ہے، لیکن ہر آنے والے دن میں یہاں اسلام پسندوں پر ہی سختیاں ہورہی ہیں۔ جبکہ پارلیمنٹ جیسا حکومتی منبر ہو یا پھر میڈیا جیسا ایک عام فورم، ہر جگہ پر پابندی اور قواعد و ضوابط نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔کون سی اسلام مخالف سرگرمی ہے جو اس ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ میں نہیں ہوتی؟ اس پر پابندی اور نگرانی کس نے کرنی ہے؟
جو حکومت اپنے حکومتی سیٹ اپ میں موجود چند سو افراد کے لیے دینی رہنمائی کا خاطر خواہ بندوبست نہیں کرسکتی، وہ سارے پاکستان کو اپنی تقریر کا پابند کیسے بنائے گی؟تختِ حکومت پر براجمان یا اس کے اُمیدواران کی آئے دن کی تقریریں ان کے دینی مزاج وقابلیت کا مذاق اُڑاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔درجنوں تقریروں اور بیانات میں قرآن اور سنت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اگر ہمت کرلیں، توکوئی سورۂ اخلاص میں الجھ جاتا ہے، کسی کو خاتم النبیین کے ہجے پھنس جاتے ہیں۔ یہ بسم اللہ، کلمہ شہادت اور سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں، تو یوں محسوس ہوتاہے، جیسے عرب ممالک میں کوئی اجنبی عربی بولنے پر مجبور کردیا گیاہے۔
جس ملک کی پارلیمنٹ میں اسرائیل کے حق میں تقریریں ہوں، اُس ملک کی مساجد و مدارس میں پابندی کی بات کرنے والوں کونئے پرانے پاکستان کے چکر میں اُلجھنے کی بجائے اپنے لیے نیا ضمیر اوردماغ تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والے پاکستان اور ریاست مدینہ منورہ کے لیے سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔