سیکولرزم كا تعارف وارتقا اور مسلم دنیا پر اثرات

سیکولرزم (Secularism) کا اُردو معنیٰ ’لادینیت‘ ہے۔ سیکولر زم ’ایسی دُنیویت کو بھی کہتے ہیں جس کا آخرت یا دین سے کوئی تعلق نہ ہو‘۔ سیکولر انسان ’وہ ہوتا ہے جو مذہبی نہ ہو‘۔ سیکولر نظریہ ’وہ ہے جو دین یا مذہبی پیشوائیت کا پیش کردہ نہ ہو۔‘
انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق :
’’سیکولرزم ایک اجتماعی تحریک ہے جس کا مقصد لوگوں کو آخرت کی توجہ سے یکسر ہٹا کر فقط دنیا کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ ‘‘
امریکی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق :
’’سیکولرزم ایک ایسا اخلاقی نظام ہے جو آسمانی ادیان سے ہٹ کر اپنے اُصول وقواعد رکھتا ہے۔ ‘‘
سیکولرزم کا ایک معنی ہے :   فَصْلُ الدِّیْنِ عَنِ الدَّوْلَةِ اَوِ الْمُجْتَمِعِ
دین کو معاشرہ یا ریاست سے جدا کرنا
معاشرہ یا ریاست کو دین کے علاوہ کسی چیز پر اُستوار کرنا
دین کو عملی زندگی سے الگ کرنا یا عملی زندگی کو غیر دینی بنیادوں پر قائم کرنا۔
سیکولرزم کی بڑی بڑی اقسام یہ ہیں:
سیکولر سیاست جیسے مغربی جمہوری نظام یا کمیونزم
سیکولر معاشرت جیسے مرد وزَن کی مغربی مساوات ،حقوقِ نسواں کے مغربی تصورات
سیکولر اقتصاد جیسے مغربی سرمایہ دارانہ نظام یا سوشلزم
سیکولر تعلیم جو دینی اہداف وطریق کار سے آزادہو، جو وحی کو حجت تسلیم نہ کرے
سیکولر اخلاق جو انسان کے لیے کسی بھی مستقل قدر کو تسلیم کرنے سے انکار کرے
سیکولر فن واَدب جیسے رومانویت، واقعیت اور لامعقولیت کے ادبی فنی مکاتبِ فکر وغیرہ
بعض لوگوں کاخیال ہے کہ ’’سیکولرزم ایک سائنسی طرزِ فکر ہے جو مذہب سے ہٹ کر سوچنا سکھاتی ہے۔ مذہب جن اُمور میں خاموش ہوتا ہے یا براہِ راست کوئی راہنمائی نہیں کرتا، وہاں پر غیر مذہبی یعنی سائنسی انداز سے سوچنا سیکولرزم ہے اور یہ دین کے منافی نہیں۔‘‘ سیکولرزم کا یہ معنی انتہائی محدود ہے اور کئی قسم کے مغالطوں کا مجموعہ ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سیکولر سیاست اقلیتوں کو تحفظ دیتی ہے کیونکہ وہ کسی مذہب کی حامی نہیں ہوتی اور یہ اسلام کا بھی حکم ہے کہ اقلیتوں کو تحفظ دیا جائے۔ سیکولرزم کا یہ مفہوم بھی ایک مغالطہ ہے کیونکہ سیکولرزم صرف اقلیتوں کے تحفظ کا نام نہیں بلکہ بے شمار لادینی اہداف وطریق ہائے کا رکا نام ہے جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
مختلف افراد اور حکومتیں دین کے متعلق مختلف رویے اپنا تی ہیں ۔اُن میں دو رویے زیادہ اہم ہیں:
1.  بعض دین سے چشم پو شی کرتی ہیں جیسے لبرل ڈیمو کریٹک حکومتیں۔ اِن حکومتوں کے نظام کو دین مخالف سیکولرزم(non religious)کہتے ہیں۔یہ ایسے معا شروں پر مشتمل ہوتا ہے جو لادین ہیں لیکن بظاہر دین کے دشمن نہیں جیسے امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے نظام ہائے حکومت۔
2.  بعض سیکولر حکومتیں دین کی دشمن ہوتی ہیں اور کسی بھی صورت دین کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں، اُن کے نظام کو انتہا پسند سیکولرزم (Anti religious) کہا جاتا ہے۔اِس قسم کا سیکولرزم رُوس میں قائم ہوا۔
سیکولرزم تین سطحوں پر قائم ہوتا ہے:
1.     فرد کی سطح پر: جب اُس کی مکمل توجہ دنیا پر محدود ہوجائے اور دین کو عملی زندگی سے یکسر الگ کردے۔ وہ آخرت کی ضرورت اور تاثیر سے مکمل علیحدگی اختیار کرے۔
2.  معاشرے کی سطح پر : جب معاشرے کو تعلیم، اخلاق، تہذیب وثقافت، سیاست واقتصاد، ادب ومیڈیا کے میدان میں دین سے علیحدہ کر دیا جائے۔
3.  ریاست کی سطح پر: جب اُس کے تمام انتظامی، قانونی اور عدالتی ادارے غیر دینی بنیادوں پر قائم ہوں۔
یہ بات با لکل واضح ہے کہ اسلام میں سیکو لرزم کی دونوں اقسام کی کوئی گنجائش نہیں۔ہر وہ فکر جو اپنی مبادیات اور تطبیقا ت میں دینی نہ ہو، وہ دین مخا لف ہے۔ چنا نچہ اسلام اور سیکولرزم دو ایسے نقیض ہیں جو کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے اور اُن کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے !
اسلام فقط مسجد و مدرسے اور نماز روزے تک محدود نہیں بلکہ وہ مکمل زندگی کا احاطہ کرتا ہے ، چاہے وہ سیاست ہو یا قانون، گھر بار ہو یا کاروبار، نظامِ تعلیم ہو یا میڈیا وادب، داخلہ پالیسی ہو یا خارجہ وغیرہ۔ اسلام انفرادی واجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر اپنے احکامات لاگو کرتا ہے۔ اس میں دین اور دنیا الگ الگ نہیں۔ دین دنیا کے تمام شعبوں میں داخل ہے اور دنیا دینی واُخروی فضائل کو حاصل کرنے کاذریعہ ہے۔ اسلام مادی علوم اور مادی ترقی کے بھی خلاف نہیں بشرطیکہ وہ دین کے ماتحت ہو ، بالاتر نہ ہو۔
یورپ میں سیکولرزم کا ارتقا
جدید سیکولرزم کا آغاز وارتقا یورپ میں ہوا۔ جس کے دو بڑے مرحلے ہیں:
پہلا مرحلہ : جزوی سیکولرزم(١٦٠٠۔١٨٠٠ء) :اس دور میں دین بتدریج نجی وشخصی معاملہ بن گیا لیکن ریاست ابھی بھی کلیسا کا تحفظ کرتی تھی اور اُس کی وصولیوں کے نظام کی سرپرستی کرتی تھی۔ لوگ مسیحیت کو حیثیت تو دیتے تھے لیکن وہ اس کی بعض تعلیمات کا انکار کرتے، مسیحیت کو عقل کے تابع کیا جانے لگا۔ اس دور میں ’ڈی ازم‘ کا نظریہ عام ہواجو اللّٰہ کے وجود کا اعتراف کرتا لیکن وحی اور الٰہی تعلیمات کو من گھڑت قرار دیتا۔ یہ جزوی سیکولرزم کا دور تھاجس میں معاشرتی سطح پر دین کی شکست وریخت جاری رہی۔ اس دور کے بڑے مفکرین والٹیر، جان لاک، ہوبز، ڈیکارٹ، بیکن، سپائی نوزا اور روسو وغیرہ ہیں۔
دوسرا مرحلہ :کلی سیکولرزم (١٨٠٠ تا حال): یہ سیکولرزم کے ہمہ گیر غلبے کا دورہے۔ اس دور میں دین کو مکمل طور پر لغو قرار دیا گیا، غیبی اُمور سے انکار کیا گیا۔ اس دور میں ریاست نے کلیسا کی سرپرستی ختم کر دی۔ دین سے انحراف والحاد وبا کی صورت میں پورے یورپ پر چھا گیا۔ ریاست کے تمام شعبے سیاست، اقتصاد، تعلیم، معاشرت، اخلاق اور فنون وآداب دین سے آزاد ہوتے چلے گئے۔ یہ مکمل سیکولرزم کا دور ہے جب انفرادی، معاشرتی اور ریاستی سطح پر مسیحیت کی عمارت زمین بوس ہوگئی۔ اس دور کے مشہور مفکرین یہ ہیں: ہیگل، فیرباخ، ڈارون، فرائڈ، مارکس، ہیوم، کانٹ، وٹنگسٹائن، رالز وغیرہ
سیکولرزم اور عقل پرستی لازم ملزوم ہیں۔ کیونکہ وحی کے انکار کے بعد ضابطۂ حیات کا سب سے بڑا ماخذ عقل قرار پاتی ہے۔
عالم اسلام میں اسلام اور سیکولرزم کی کشمکش
1.     سیکولرزم کے نزدیک دین کو زندگی کے ہر شعبے میں لاگو کرنا ضروری نہیں ؟
سیکولرزم کے حامی کہتے ہیں کہ دین انسان اور ربّ کا انفرادی معاملہ ہے ، دین کا اجتماعی اور سیاسی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔کبھی وہ کہتے ہیں ،دین جدید دور کے حالات کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
2.  سیکولرزم کے حامی سود، پردہ، حدود الٰہی وغیرہ سے متعلق دینی احکامات کو لاگو کرنا ضروری نہیں سمجھتے ۔ اُن کے نزدیک اِن احکام پر عمل درآمدکرنا رجعت پسندی، تعصب اور تنگ نظری ہے۔ یہ اُمور تہذیب، ترقی اور روشن خیالی کے منافی ہیں۔
3.  سیکولرزم کے حامی ادیان کو برحق نہیں سمجھتے ۔ وہ بظاہر تمام ادیان کا احترام کرتے ہیں لیکن اُن کے نزدیک کوئی دین دوسرے دین سے زیادہ معتبر نہیں ۔اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مختلف ادیان کے حاملین کے درمیان ایک قسم کی دوستی پیدا کی جائے۔
یہ بات اسلام کی حیثیت کے عین منافی ہے۔ اللّٰہ کے ہاں قابل قبول دین فقط اسلام ہے۔ نیز اسلام اپنے مخالفین سے محبت ونفرت اپنے اُصول وقواعد کے مطابق سکھاتا ہے۔
4.  سیکولرزم کے حامی دین کے داعیوں اور علما کا دائرہ زیادہ سے زیادہ تنگ کرتے ہیں تاکہ اُن کا معاشرتی اثر ورسوخ کم کیا جائے۔وہ انھیں پس ماندہ ، تنگ نظر اور جامد قرار دیتے ہیں۔ سیکولرزم کے حامی جهاد کی بجائے فقط ایسی دفاعی جنگ کے قائل ہوتے ہیں جو مادی مفادات کے لیے ہو، وہ دین کے غلبہ کی جنگ کو شراور فساد قرار دیتے ہیں۔
5.  سیکولرز م کے حامی دین کی بجائے وطن، قوم، رنگ ، نسل اور قومی مفاد کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ سیکولر پارٹیوں میں دین کی بنیاد پر کوئی تقسیم نہیں ہوتی بلکہ دیگر مفادات و معیارات پر تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے۔
6.  سیکولرز م کا ہم نوا علما کا طبقہ ، جدیدیت پسند ہوتا ہے جو اسلام کو کھینچ تان کر مغرب کے مطابق قرار دیتا ہے یا مغرب کے اُصولوں کو اسلام کی اصلی تصویر سمجھتا ہے۔
7.  سیکولرزم کے حامی ثانوی درجے کے دینی مسائل پر خوب توجہ دیتے ہیں ، لیکن اسلام کے بنیادی اور مہتم بالشان مسائل نظر انداز کردیتے ہیں ۔ وہ دین کے فروعی اختلافی مسائل کو نمایاں کرتے ہیں لیکن دین کے متفقہ اور اجماعی اُمور نظر انداز کر دیتے ہیں ۔
8.  سیکولر میڈیا میں دینی پروگراموں کا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہوتا ہے اور ٩٥ فیصد حصہ تفریحی یا معلوماتی پروگراموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سیکولر میڈیا کے دینی پروگرام اپنے معیار کے لحاظ سے انتہائی گھٹیا اور محدود موضوع کے حامل ہوتے ہیں۔ سیکولر پرنٹ میڈیا میں دین کی حیثیت ایک صفحے پر مشتمل ہوتی ہے جو ’دینی صفحہ ‘کہلاتا ہے۔اِس کی وجہ یہی ہے کہ سیکولر لوگ دین کو فقط روحانی اُمور یا انفرادی زندگی تک محدود سمجھتے ہیں۔
9.  سیکولر نظام تعلیم میں دینی علوم کی نفی بجائے، ان کو نماز روزے اورشخصی عقائد ورسومات تک محدود کردیا جاتا اور ان کا نصاب چند ورقوں پر مشتمل رسالہ ہوتا ہے۔ جو کبھی غیر علما اور کبھی غیرمسلم مفکرین کا تحریر کردہ ہوتا ہے۔ سیکولرجامعات میں مذہبی علوم ایک ڈیپارٹمنٹ پر مشتمل اور یونیورسٹی کے کونے کھدرے میں پائے جاتے ہیں ،ان کو کسی دین سے منسوب علوم جیسے اسلامیات و عیسائیت کی بجائے زیادہ مناسب طور پر’ تھیالوجی‘ یا ’مذہبی علو م کا شعبہ‘ کہا جاتا ہے۔ ا ن میں کوئی اس مذہب سے غیر وابستہ جیسے ہندو شخص بھی ان علو م جیسے اسلامیات کی ڈگری حاصل کرکے، مستند وفاضل ٹھہرسکتا ہے، کیونکہ مذہبی علم کو معروضی طور پر عمل وپیروی سے بالاتر ہوکر پڑھا پڑھایا جاتا ہے۔ ایسے تعلیمی شعبوں میں تمام مذاہب کے مابین رواداری کی تلقین کرتے ہوئے، تمام مذاہب واہل مذاہب کو ایک میز پر ایک یکساں اور متفقہ حق کی جستجو میں مگن دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں کام کرنے والے لوگ کسی مذہب کی حقیقت پر یقین رکھنے کی بجائے مذاہب کی مشترکہ سچائیاں تلاش کرکے ایک عالمی مذہب بنانے میں کوشاں نظر آتے ہیں ۔یونیورسٹی کے باقی تمام علوم کے شعبوں میں بھی حسبِ ضرورت متعلقہ مذہب کی عبادات واخلاق پر مشتمل ایک رسالہ زیر تعلیم ہوسکتا ہے، لیکن کسی مخصوص علم کی رہنمائی اور اس کے بارے میں الہامی تعلیم کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھی جاتی۔
10.  عالم اسلام میں سیکولرزم کے مشہور داعی یہ ہیں:
مصر: احمد لطفی، اسماعیل مظہر، قاسم امین، طہ حسین، جمال عبد الناصر، انور سادات
ترکی : مصطفی ٰکمال اتاترک، وغیرہ
ہندوستان میں ١٧٩١ء تک قانونِ سلطنت شریعت اسلامی کے مطابق تھا، پھر انگریز کی حکومت میں بتدریج شریعت کو معطل کیا گیا اور ١٨٥٠ء تک یہ عمل مکمل ہو گیا۔
مصر ، الجزائر، تیونس، مراکش، ترکی، عراق اور شام میں بھی اِسی طرح شریعت کو بتدریج لغو کیا گیا۔
11.  نظری طور پرسیکولر نظام حکومت کے تین اہم عناصر ہوتے ہیں: مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ
عملی طور پر نظامِ حکومت اشرافیہ کا ہویا جمہوریہ کا ، فوجی آمریت کا ہو یا شہری آمریت ۔ دین کے الغا پر تمام سیکولر حکومتیں متفق ہوتی ہیں۔
یورپ میں سیکولرزم کی ابتدا کیسے ہوئی؟
یورپ میں سیکولرزم کی آمد سے قبل عیسائیت رائج تھی لیکن یہ دین عیسیٰ ﷤کی وفات کے بعد ہی پولس کے ہاتھوں تحریفات کا شکار ہوگیا۔ تثلیث اور عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دینا بنیادی ترین تحریفات تھیں۔
عیسائیت کی تحریف : عیسائیت سے قبل روم میں ایسے دیوتاؤں کی پوجا کی جاتی تھی جن کا عوام کی عملی زندگی پر کوئی اثر نہ تھا۔ دیوتاؤں کی مندروں میں پوجا پاٹ کی جاتی لیکن عوام مندروں سے باہر اپنی عملی زندگی میں آزاد ہوتے۔ رومی عوام نے عیسائیت کو قبول کیا تو صورتِ حال کچھ زیادہ تبدیل نہ ہوئی۔ عیسوی شریعت کو سرکاری سطح پر نفاذ کا کبھی موقع نہ ملااور وہ عوام کی عملی زندگیوں پر بھی لاگو نہ ہوسکی۔ کلیسا نے سیاسی مقبولیت تو حاصل کر لی لیکن دین اور ریاست کی تفریق مکمل عیسوی تاریخ میں قائم رہی بلکہ کلیسا نے اِسے ایک اُصول کے طور پر بھی قبول کر لیا۔
عیسائیت میں سب سے بڑی بدعت مذہبی پیشوائیت تھی۔ اِسی بدعت کے تحت اللّٰہ کے حلال وحرام میں مداخلت کی گئی، انسانوں کو ربّ تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا گیا اور غیر فطری انسان کش رہبانیت کو جنم دیا گیا۔ عیسائی مذہبی پیشوائیت نے لوگوں کو بخشنے اور محروم کرنے کا اختیار انسان پادریوں کے سپرد کیا جو پیسوں کے بدلے بخشش کے سر ٹیفکیٹ کھلے عام فروخت کرتے۔
کلیسا کا جبر اَدیان کی تاریخ کا بدترین جبر تھا۔ اُس نے اپنے دنیوی مفادات کے لیے ظالم بادشاہوں کی پشت پناہی کی، روم کی اَن پڑھ جاہل عوام کو صدیوں تک اپنا غلام بنایا۔ مخالفین پر محکمہ تفتیش کے ذریعے ظلم وستم کا بازار گرم کیا۔کلیسا کے طرف سے صدیوں تک کئی قسم کے مذہبی ومعاشی ٹیکس وصول کیے گئے جو عوام پر بھاری بوجھ تھے۔ عوام کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ کلیسا حیا ، زہد، معافی اور درگزری کی تعلیمات کی خود خلاف ورزی کرتا۔ وہ بادشاہوں سے بڑھ کر ظالم، عیاش اور مال پرست ثابت ہوا۔
کلیسا کے خلاف تحریکیں: کلیسا کی اِن خرابیوں کے خلاف بڑی بڑی عوامی اور عقلی تحریکیں اُٹھ کھڑی ہوئیں جیسے مارٹن لوتھر کی تحریک اصلاحِ مذہب اور تحریک احیاے علوم ۔ اُمرا او ربادشاہ جو کلیسا کی طاقت سے خائف تھے ، نے اِن کا ساتھ دیا۔ کلیسا کا زور بتدریج ختم ہوتا چلا گیااور ردّعمل میں سیکولرزم کا آغاز ہوا۔جدید علم نے خرافات پر مبنی مذہبی عقائد کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ کاپر نیکس نے اس کلیسائی عقیدے پر ضرب لگائی کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ برونو اور گلیلیو نے اس کام کو مزید آگے بڑھایا۔ لوگوں کے ہاں کلیسا کا علم مشکوک ہو گیا۔ ڈیکارٹ، بیکن اور لاک نے وحی کے مقابلے میں عقل وتجربے کی عظمت کو پیش کیا۔ سپائی نوزا اور پاسکل نے اناجیل میں فاش غلطیاں پکڑیں۔ نیوٹن نے کائنات کا ریاضی اُصولوں کے مطابق ہونا ثابت کیا۔ پورے یورپ میں ڈی ازم کی تحریک چلی کہ خدا نے کائنات کو پیدا کیا لیکن وہ کائنات سے لاتعلق ہے۔ کائنات اپنے اصولوں کے مطابق خود بخود چل رہی ہے۔ یہی نظریہ بعد میں خدا کے انکار تک پہنچا۔ عقل پرستی اور فطرت پرستی کے اندھے رجحانات وحی اور کتاب مقدس پر غالب آئے۔
انقلاب فرانس: انقلابِ فرانس (١٧٨٩ء) تک کلیسا اور علم کی کشمکش خواص تک محدود تھی لیکن انقلاب فرانس کے بعد عوام تک پھیل گئی۔ عوام نے دین کو ترک کیا اور اُس کی دشمنی میں دیوانے ہوگئے۔
انقلاب فرانس ایک خون ریز انقلاب تھا جو بادشاہوں، جاگیرداروں اور مذہبی پیشواؤں کے ظلم و استحصال کے خلاف پیدا ہوا۔ یہ یورپ کا پہلا انقلاب تھا جس نے عوام کی حاکمیت پر مبنی حکومت قائم کی اور اللّٰہ کی حاکمیت کا صریح انکار کیا۔ بادشاہوں اور کلیسا کے خزانے لوٹ لیے گئے۔ دینی عقائد کا شدت سے انکار کیا گیا۔ انقلاب سے قبل معاشرتی وسیاسی مفکرین نے فطری اور مثالی ریاست کے لادین نظریات پیش کیے۔ فلاسفہ نے دین سے آزادی کی دعوت دی جو خالص زندیقیت تھی۔ عوام لادین مفکرین اور فلاسفہ کے ہم نوا ہو کر کلیسا کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ لادینیت پر مبنی آزادی، مساوات اور اُخوت کے تصورات ’بنیادی انسانی حقوق‘ کہلائے۔ انقلابِ فرانس کے بعد یورپ کے تمام حصوں میں انقلابات جوالہ مکھی کی طرح پھٹ پڑے۔ دین اور کلیسا کا اثرورسوخ ختم ہوگیا۔ عقائد اور اقدار میں خوف ناک خلا پیدا ہوا جس کو لادین فکری معاشرتی اور سیاسی تحریکوں نے پر کرنے کی کوشش کی۔
ڈارون تھیوری: دین کے تابوت میں آخری کیل ڈارون کے نظریۂ ارتقا (١٨٥٩ء)کے ذریعے ٹھوکا گیا۔ ڈارون نے یہ تھیوری پیش کی کہ انسان کائنات کی اندھی قوتوں کے تحت بندر سے بتدریج انسانی نوع کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کی کوئی خاص تخلیق نہیں اور نہ کوئی مخصوص ہدف۔ یہ کوئی باقاعدہ علمی نظریہ نہ تھا لیکن یورپ کی دین بے زار فضا میں اس کو مسلّم قاعدہ سمجھا گیا۔ یورپی ماہرین نے اِس نظریے کی فنی ومنطقی تردید کی اور اس کے کئی حصے ابھی بھی محتاجِ ثبوت ہیں لیکن انکار خدا کے شدید تقاضوں کے زیر اثر عوام میں بے حد مقبول ہو گیا۔ مستقل اقدار اور اخلاق کا تصور ختم ہوگیا۔ نطشے، مارکس اور فرائڈ جیسے دہریے اوردین کے پکے دشمن یورپ کے امام ٹھہرے جو زندگی کو مادہ پرستی اور جنس پرستی میں غرق کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ انسانی علوم مقصدوغایت سے جدا ہو کر بے ہدف میکانزم پر استوار کیے گئے۔انسانی نسل کا ایسا خوف ناک فکری وجذباتی بحران برپا ہوا کہ یورپ کا فن وادب محرومی اور قلق کے کرب ناک احساسات سے بھر گیا۔ انسان کی حیوانیت اور مادیت مسلم ہوئی تو اقتصاد ، سماجیات اور نفسیات کے علوم حرص وہوس اور شہوانیت سے لبریز ہوگئے۔ دین، شادی اور خاندان کو انسان کے قدیم دور کی خرافات کہا گیا۔ جدید علم کا دور بزعم خود انسان کے بنائے ہوئے اِن من گھڑت خیالات کی گنجائش نہیں رکھتا۔
یورپی شعبہ ہائے زندگی میں سیکولرزم کا ارتقا
سیاست: مسیحی دور میں کلیسا کو انتہائی قوت نصیب ہونے کے باوجود عیسوی شریعت ملکی قانون نہ بن سکی۔ لیکن اس کے باوجود مسیحیت کا شہنشاہوں اور عوام کی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوتا تھا۔ شہنشاہ دین پر عمل نہ کرتے تھے لیکن خود کو دین کا سپاہی مانتے اور ملک میں دین کی مکمل سرپرستی کرتے۔ کلیسا کو شاہوں کے زیر سایہ دین کو پروان چڑھانے کی مکمل آزادی تھی اور اُن کا شاہوں کو عوامی مقبولیت دلانے میں خاص کردار ہوتا۔
یورپی سیاست میں لادینیت کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب یورپی مفکرین نے ایک تخیلاتی ریاست کا نقشہ پیش کیا۔ اس نقشے میں دین کے بغیر ایک عمدہ ریاست کا امکان پیش کیا گیا۔ اس کے بعد ’معاہدۂ عمرانی ‘کا تصور پیش ہوا کہ ریاست عوام اور حکمران کی باہمی رضامندی اور معاہدہ پر مبنی ہوتی ہے۔ معاہدۂ عمرانی کے قائلین میں سب سے بڑا مفکر روسو تھا۔ روسو نے ریاست کو دین سے الگ قرار دینے پر زور دیا۔ روسو کی کتابیں مذہب کے خلاف اعلانِ جنگ تھیں۔ انقلابِ فرانس کے ساتھ ہی لادین وطنیت، قومیت اور دنیویت کو مقبولیت ملی اور مسیحیت، دینی عالم گیریت اور اُخرویت کو زوال آگیا۔ مسیحی دور میں میکیاولی نے ریاست کو دین، انسانیت، اخلاق اور اُصول سے یکسر آزاد قرار دیا۔ کلیسا نے اُس کی کتابوں پر پابندی لگائی لیکن یورپ میں الحاد عام ہوتے ہی اُس کو پھر عروج نصیب ہوا۔
یورپ میں دین کے زوال کے ساتھ ہی اجتماعی نظام کی جگہ انفرادی نظام غالب آگیا یعنی دینی قوم، دین کا محافظ بادشاہ، زرعی جاگیردار اور کلیسا جو وسیع دینی اجتماعیت کی علامات تھیں، اُن کے بجائے انفرادی سرمایہ داری، انفرادی منفعت اور انفرادی حریت غالب آگئی۔ اس انفرادی نظام کو لادین لبرل ڈیموکریسی کہا گیا۔اس کا سب سے بڑا دعویٰ تھا کہ وہ فکری، معاشرتی، معاشی اور سیاسی آزادیاں اور حقوق دیتا ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد یہ یورپ کا مقبول ترین نظام تھا لیکن جلد ہی پتہ چل گیا کہ ڈیموکریسی سرمایہ داروں کا عوام کو دبانے اور پیسنے کا ایک آلہ ہے۔ یہ مال داروں کی آمریت ہے۔ اس میں سرمایہ دار میڈیا کے ذریعے عوام کی رائے کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ اس میں عام اور خاص کی رائے برابر ہوتی ہے۔ اس میں اکثریت کی رائے کے احترام کا دھوکہ ہوتا ہے لیکن عملاً سرمائے کی حکومت ہوتی ہے۔ لبرل ڈیموکریسی کبھی بھی دین کو عملاً نافذ نہیں کرتی بلکہ دین کو کمزور کرتی ہے تاکہ انفرادی حریت کا تحفظ ہو۔
لبرل ڈیموکریسی کے ردّعمل میں کمیونزم کا تصور آیا۔ اِس کا خیال تھا کہ تمام مسائل کی جڑ انفرادی ملکیت ہے لہٰذا اس کو ختم کرکے مزدوروں کی حکومت قائم کی جائے جو تمام ملکیّتوں کو ریاست کے کنڑول میں لاکر خوش حالی کو تمام خاص وعام تک پہنچائے۔ کمیونزم تاریخ کی بدترین آمریت ثابت ہوئی جس میں حکمران پارٹی نے عوام کو جبرواستبداد کے پنچے میں اس قدر کسا کہ کلیسائی دور کے جاگیردار اور شہنشاہ بھی شرما جائیں۔ کمیونزم لبرل ڈیموکریسی کے مقابلے میں دین کا سخت دشمن ثابت ہوا۔ اُس نے اپنے علاقوں سے دین کی تمام علامات ، رسوم اور طریقوں کو بالجبر مٹا ڈالا۔ دہریت پورے پورے ملک کا سرکاری جبری دین قرار پایا۔
اقتصاد:  مسیحی دور میں رہبانیت کے زیر اثر ہرقسم کی کمائی اور معاشی دھندے کو برا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب کلیسا کی بداعمالیوں کے سبب لوگوں کا مسیحیت پر اعتماد کمزور ہوا تو کئی لادین اقتصادی نظریات پیدا ہوئے۔ جن میں سب سے پہلا فطرت پرستی (فزیو کریسی) تھا۔ اس مکتب فکر کا خیال تھا کہ جس طرح کائنات طبعی اصولوں کے مطابق چل رہی ہے اسی طرح اقتصاد کو بھی کھلا چھوڑ دیا جائے توہ وہ فطری اصولوں پر خود بخود چلتی ہے۔ فطرت پسندوں کا خیال تھا کہ دین فطرت کے منافی ہے۔ فطرت پسندی کے نظریے کو نوزائیدہ سرمایہ دار طبقے نے خوب استعمال کیا اور مال داروں کے تمام غیر انسانی طریقے فطری قرار پائے۔ حریت عمل، حریت فرد اور ذاتی مصلحت کی آڑ میں عوام کو خوب لوٹا گیا ، آخر کار فزیو کریسی کا نظریہ متروک قرار پایا۔
فطرت پسندوں کے بعد لادین سرمایہ دار ی مقبول ہوئی جو ’کلاسیکل سرمایہ داری‘ بھی کہلاتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا مفکر آدم سمتھ تھا جس نے خود غرضی، حرص وحسد اور ذاتی منفعت کو عین خیر قرار دیا، اس سے پہلے یہ اوصاف دین کے زیر اثر صدیوں سے مذموم قرار دیے جاتے تھے۔ آدم سمتھ کے اُس دور کے استعمار پسندوں پر نہایت خوف ناک اثرات پڑے۔ دوسرا اہم کلاسیکی سرمایہ دار مفکرمالتھس تھا جس نے آبادی پر کنٹرول کا نظریہ پیش کیا۔ اس کا خیال تھا کہ غریب لوگوں پر خرچ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ غیر پیداواری خرچ ہے اور جب تک کوئی شخص کوئی خدمت پیش نہ کرے، اس کوروٹی نہیں ملنی چاہیے۔ اس کا خیال تھا کہ محروم طبقے معاشرے پر غیر فطری بوجھ ہیں جو کثرتِ پیدائش کی وجہ سے ہیں۔
کلاسیکل سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ کے نیتجے میں کمیونزم کا تصور پیدا ہوا۔ اس تصور کے لوگ خاندان، شادی، انفرادی ملکیت، دین اور فضائل ونیکیوں کو ڈھکوسلا سمجھتے تھے جو سرمایہ دار طبقے نے عوام کو لوٹنے کے لیے ایجاد کیے۔ کمیونزم دین کا سخت دشمن تھا اور ساری انسانی تاریخ کو معاش کی جنگ قرار دیتا۔ کمیونزم کے اہم نظریات میں ہیگل کی جدلیت، ڈارون کا تنازع للبقا، فیرباخ کا الحاد اور مارکس کی مادیت، تاریخ کی مادی تشریح اور انفرادی ملکیت کے خاتمے کا تصور ہے۔
لادین اقتصاد کے دو بڑے ستونوں لبرل سرمایہ داری اور کمیونزم کی وجہ سے ساری دنیا دو بڑے بلاکوں میں تقسیم ہوئی:
١۔ امریکی بلاک جو سرمایہ دار ملکوں کا سربراہ ہے۔                    ٢۔ روسی بلاک جو کمیونسٹ ملکوں کا سربراہ ہے۔
سرمایہ دار ملکوں کو آزاد دنیا قرار دیا جاتا ہے حالانکہ خدا کے انکار اور مادیت کی وجہ سے وہاں بدامنی، بے سکونی اور جرائم عام ہیں۔ خیروشر کا فرق مٹ چکا ہے۔ انسانوں پر آلات کی حکمرانی ہے۔ اخلاقی روایات، سعادت اور نیکی کے تصور ختم ہوگئے۔ میڈیا اپنے پروپیگنڈے سے ایک فکری جبر قائم کیے ہوئے ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اپنے اقتدار کے لیے ہر جائز وناجائز طریقے استعمال کرتا ہے۔
کمیونزم بھی مادیت، اخلاقی دیوالیہ پن اور الحاد میں سرمایہ داروں سے پیچھے نہیں۔ اُس نے دین، شادی اور دینی اخلاق کو ریاستی جبر سے منہدم کر دیا ہے۔ اس پر مستزاد اُس کا عوام ومزدوروں پر خوف ناک تسلط ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ ریاست کا غالب ترین حصہ ایک تاریخی استبداد کا شکار ہے۔
علوم : مسیحیت اور سائنس کے درمیان کشمکش کا آغاز اُس وقت ہوا جب کلیسا نے کہا کہ زمین چپٹی ہے اور سائنس نے کہا :گول۔ کلیسا نے کہا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور سائنس نے کہا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ کلیسا نے مکمل بائبل کو وحی الٰہی کہا اور عقل پرست مفکرین نے اس میں سے فاش غلطیاں ڈھونڈ نکالیں۔ کلیسا نے رہبانیت کو متبرک قرار دیا اور جدید علم نے اِسے انسانی ہلاکت کا یقینی ذریعہ ثابت کیا۔
اس کشمکش میں دین مغلوب ہوگیا۔ دین کو خرافات اور جھوٹے افسانوں پر مبنی سمجھا گیا۔ علوم وفنون میں دین کی رائے کو علمیت کی شان کے منافی سمجھا گیا۔ علم اور دین کے درمیان عارضی تعارض کو ایک مستقل مخاصمت میں بدل دیا گیا جس میں یہ سمجھا گیاکہ دین ہمیشہ غلط ہوگا اور سائنس کی بات ہمیشہ درست ہوگی۔ فلاسفہ کے نزدیک ’فکری آزادی ‘آزادی کی سب سے بڑی قسم قرار پائی۔
علم اور دین کے درمیان جدائی ڈالنے سے معاشرے پر خوف ناک اثرات ظاہر ہوئے۔ ہر قسم کے تعلیمی مناہج اور بحث وتحقیق کو دین کے ہر رنگ سے الگ کر دیا گیا۔ معاشرے کا غالب ترین حصہ جو مادی علوم کا طالب علم تھا، دین پر اپنے اعتقاد کو قائم نہ رکھ سکا۔ معاشرے میں پڑھے لکھے ملحدوں کی ایک فوج ظفر موج تیار ہوگئی۔ دین کو ماننے والے ضعیف العقل اور بے وقوف قرار پائے۔ ڈیکارٹ کی پیدا کی گئی علم اور دین کی جدائی ایک مستقل تفریق میں بدل گئی۔ ڈارون تھیوری نے انسانی زندگی کو بے مقصدیت کے سمندر کے حوالے کر دیا۔اس سے انسانی نسل انارکی، قلق، محرومی اور ناقدری سے بھر گئی۔ لاتعداد فلسفیانہ مکاتب فکر پیدا ہوئے جو باہم دست وگریبان تھے۔ تاریخ انسانی میں پہلی دفعہ اخلاقی اقدار اور خالص عقل کے درمیان جنگ ہوئی۔ علم معرفتِ الٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لیکن یورپ اس سے محروم ہوا ۔ یورپی علم کئی صدیوں سے استقرار کا حامل نہیں۔ ہر صدی کے مفکر پچھلی صدی کے مفکرین کا ردّ کرتے ہیں۔
معاشرت واخلاق :قرونِ وسطی میں اخلاق واقدارمستقل بالذات اور دین کی سند پر قائم تھیں۔ لوگ خیروشر کی پہچان کے لیے دین کو پیمانہ بنانے کے عادی تھے۔ کلیسا بذاتِ خود افراط وتفریط کا شکار تھا لیکن اس کے باوجود مسیحی اخلاق سے خروج کو ناپسند کیا جاتا۔
جب لادین مفکرین کا دور آیا تو میکیاولی اور ہوبز نے کلیسا کے مدمقابل یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان فطرتاً شریر ہے اور وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بھیڑیا ہے۔ سپائی نوزا نے لذت کو فی نفسہٖ خیر قرار دیا اور اَلم کو فی نفسہٖ شر۔ آ گسٹ کومٹے نے الٰہی دین کے مقابلے میں انسانی وضعی دین کی بنیاد رکھی۔ اس کے خیال میں انسانی وضعی دین فطرت کے عین مطابق ہے اور الٰہی دین فطرت کے مخالف۔
روسو کا خیال تھا کہ اخلاق کے لیے ایمان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ محض دنیوی مصالح سے ہی اخلاق تشکیل پاتے ہیں۔ وہ فرانسیسی انقلاب کا ہیروتھا اور اُس کی کتاب سوشل کنٹریکٹ یعنی ’معاہدہ عمرانی ‘فرانسیسی انقلاب کی انجیل۔
کانٹ نے انسانی اخلاق کے تین مراحل بنائے۔ پہلے مرحلے میں اخلاق خرافات پر مبنی تھے۔ پھر ادیان کے زیر اثر آئے، اب وہ انسانی علوم کے مرحلے میں ہیں۔ ہر مرحلہ پچھلے مرحلے سے آزاد ہوتا ہے۔ کانٹ کے نزدیک دینی اخلاق لغو اور وہم ہیں۔ ادیان کے تصور اُلوہیت و آخرت کی جگہ پر انسانیت کو لانا چاہیے۔
درخائم کلاسیکی معاشرتی مفکر ہے۔ اس کے خیال میں معاشرے کی مجموعی عقل اندھی بہری ہوتی ہے اور نامعلوم اسباب وعلل کے تحت فیصلے کرتی ہے اور اسکے سامنے انفرادی عقل بے بس ہوتی ہے۔ ادیان کی فکر بھی اللّٰہ سے نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ مختلف نفسیاتی انفعالی جذبات کا نتیجہ ہے۔ ہر معاشرے نے اپنے معبود خود گھڑ لیے۔
کمیونزم نے بھی خدا کا انکار کیا اور فقط مادے پر ایمان لایا۔ اس کے نزدیک حقیقتِ اولی فقط مادہ ہے۔ ادیان ، اخلاق اور خاندان کے تصورات اس لیے گھڑے گئے تاکہ بورژوا طبقہ پرولتاری طبقے کا استحصال کرسکے۔
یورپ کا مقبول عام معاشرتی واخلاقی مکتبِ فکر جرمی بینتھم کا نظریہ نفعیت ہے۔ یعنی خیر وہی ہے جو دنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دنیوی افادے کا سبب بنے۔ یہ تصور آخرت پرستی اور للہیت کی ضد ہے۔
٢١ ویں صدی میں تحلیل نفسی اور سلوکیت کے نفسیاتی مکاتبِ فکر نے انسان کو مجبورِ محض قرار دیا۔ انسان یا تو لاشعور کے ہاتھوں مجبورِ محض ہے یا خارجی واقعات کا میکانکی معلول۔ ان مکاتب نے انسان کو محض ایک حیوان یا مادہ قرار دیا۔
نسوانیت: کلیسائی اور جاگیر داری دور میں عورت کو کم تر مخلوق سمجھ کر اُس کو ادنیٰ اور رذیل زندگی پر مجبور کیا جاتا۔ لیکن اُس دور کی عورت مرد کی عزت وناموس سمجھی جاتی اور اُس کی بے پناہ حفاظت کی جاتی۔
انقلاب فرانس کے بعد عورت کے حقوق کی پہلی چنگاری پھوٹی۔ صنعتی انقلاب کے بعد عورت گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے علاوہ صنعتوں میں مزدوری بھی کرنے لگی۔ اُس نے بتدریج سیاسی حقوق کا مطالبہ بھی کیا۔ بالآخروہ معاشرتی وسیاسی سطح پر مرد کے برابر قرار پائی۔ اُسے مساوات، معاشی استقلال اور آزادانہ ماحول نصیب ہوا۔ ١٩٥٠ء تک عورت کو معاشرتی وسیاسی حقوق تو حاصل ہوگئے لیکن ’حقوق کی تحریک‘ آزادی کی تلاش میں مزید آگے بڑھ گئی۔عورت بتدریج گھربار، خاوند اور بچوں کی ذمہ داریوں سے آزاد ہوئی۔ طلاقیں عام ہوئیں، تنہا ماؤں کا بڑا گروہ وجود میں آیا، سیکس انڈسٹری مضبوط ہوئی اور ١٩٦٠ء میں مانع حمل گولیوں کی ایجاد سے فحاشی مزید آزاد ہوگئی۔
عورت کی مادر پدرآزادی کے ساتھ ہی بے شمار اخلاقی مفاسد پیدا ہو گئے۔ زنا سے پیدا ہونے والے بچے، گھریلو خاندانی زندگی کا انہدام، عورت کے مسائل میں اضافہ... اس نئی طرز زندگی کے کڑوے پھل تھے۔ بچوں کی تربیت ماں باپ کے بجائے نرسری ہومز کے سپرد ہوئی جہاں سے وہ کئی انحرافات کا شکار ہوئے۔ کھلی جنسی آزادی کے باوجود جنسی انحرافات اور ہم جنسی پرستی عام ہوئی بلکہ قانوناً جائز قرار پائی۔ خاندانی بگاڑ کی وجہ سے جرائم، نفسیاتی امراض اور منشیات کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ عورت کی آزادی اور بدلے میں خاندانی تباہی کے مصائب کمیونسٹ معاشرے کا بھی حصہ تھے لیکن وہ اُس کو صرف سرمایہ دار دنیا کا حصہ بتلاتا رہا۔
عصر حاضر میں تحریک حقوق نسواں کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اُس نے اپنا ایجنڈا اقوام متحدہ کے بنیادی چارٹر میں داخل کرا لیا ہے۔ جس کے مطابق جنس کے اعتبار سے عورت ومرد کے حقوق برابر ہیں۔ ١٩٥٥ء کی خواتین عالمی کانفرنس کے بعد اکثر ممالک نے اسی ایجنڈے کو قبول کر لیا ہے۔مغرب کے تمام اہم سیاسی واقتصادی نظریات اس وقت اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے دنیا میں پروان چڑھ رہے ہیں، جیسے معاشرے میں سیاسی تفریق، عوامی حاکمیت ، قومیت کا نظریہ اور ہم جنس پرستی وغیرہ
اسلام نے عورت ومرد کو ایک دوسرے کا تکملہ قرار دیا ہے۔ اللّٰہ تعالی نے عورت کو بے پناہ حقوق دیے ہیں لیکن اُس کا دائرہ کار مرد کے دائرہ کارسے مختلف بنایا ہے۔ اللّٰہ نے خاندانی انتظامی اُمور میں مردکو عورت پر نگران بنایا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اللّٰہ نے دونوں کے لیے الگ الگ حقوق وفرائض بھی مقرر کیے ہیں۔
ادب وفن : مسیحی دور میں فن وادب دینی روایات اور کلیسائی اقدار کے ارد گرد گھومتا تھا۔ لیکن سترہویں صدی کے بعد عہد بیداری کے ساتھ ہی یونانی ورثے کو زندہ کیا گیاجس میں مذہبیت کا نام ونشان نہ تھا ، اس کو نو کلاسیکی دور کے نام سے موسوم کیا گیا۔ چونکہ اِس دور کا فن وادب کلیسائی الٰہ کے بجائے عام انسانی زندگی کو موضوع بناتا ، اِس لیے اِس کو ہیومنزم کا نام بھی دیا گیا۔ دانتے، جیوتو اور شیکسپیئر اس دور کے اوّلین فن کار ہیں جنھوں نے دین سے آزاد فن وادب کی عکاسی کی اور اُس دور سے آج تک فن وادب دین سے آزاد ہی چلا آرہا ہے۔ کلیسائی دور کے ادب وفن پر رہبانیت غالب تھی لیکن عہد بیداری میں ردّعمل کے تحت اَبیقوریت[1]، لذت پسندی اور عقل پرستی غالب رہی۔ بیداری کے قائدین نے ہزار سالہ کلیسائی عہد کی عمارت منہدم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔
انقلاب فرانس کے بعد جدید دور کا آغاز ہوا جس میں دو مکاتب فکر نہایت اہم ہیں:
1.     رومانیت: اِس نے دینی ذوق وشوق کے بجائے محبت، حسن وعشق اور جذباتی خوشی والم کو موضوع بنایا۔ عقل ودین کے بجائے جذبات کی عکاسی ہوئی۔ آخرت کے بجائے دنیا کی سرمستی کو اجاگر کیا گیا۔ فطرت کو اللّٰہ کی جگہ پر رکھ کر پوجا گیا۔
2.  واقعیت: رومانیت مثالی کردار کی علم بردار تھی۔ واقعیت نے اِس کے برعکس عام انسان کی زندگی کو موضوع بنایا۔ واقعیت نے زندگی کے مسائل کے حل کی کوشش کی لیکن غیر دینی الحادی بنیادوں پر ۔ یہ مکتبِ فکر دین، مذہب اور اقدار کا دشمن تھا۔ واقعیت نے دین پر براہ راست حملے کیے اور فحاشی و فسق وفجور کی کھلی دعوت دی۔
معاصر دور واقعیت سے لامعقولیت کی طرف سفر کا دور ہے: لامعقولیت زندگی کی ناقدری، بے بسی، بے گانگی اور روحانی تنہائی کو موضوع بناتا ہے۔ یہ فرائڈ، ڈارون جیسے ملحد مفکرین، عالمی جنگوں کے مسائل او رمذہب سے یکسر علیحدگی کی وجہ سے انسانی غم والم کو ادب وفن کا سب سے بڑا موضوع بناتا ہے۔
معاصر ادب کے دو بڑے رجحانات ہیں:
١۔ اباحیت: یہ یورپ کے ہردور کا اہم رجحان ہے لیکن معاصر ادب میں اباحیت عریاں جنسی ادب تک پہنچ گئی۔ ساٹھ کی دہائی میں غلیظ جنسی ادب ہر طرف پھیل گیا۔ انسان کی جنسی زندگی کی بھرپور تصویر کشی کی گئی۔
٢۔ ضیاع: یہ رجحان انسان کی تنہائی اور بیگانگی کو بیان کرتا ہے، جو جدید تہذیب کی ترقی اور مذہب کے زوال کے ساتھ ہی ہر بڑے شہر میں معاشرے کے ہرانسان کے جسم وجان کا حصہ ہے۔ زندگی کی بے مقصدیت کا احساس سارتر کی وجودیت کی شکل میں انسان کو حریت میں غرق کرتا ہے اور کامو کے ہیرو کی شکل میں خالص لذات کو تلاش کرتا ہے۔ ضیاع کا ادب ادیان کا انکار کرتا ہے جس کی وجہ سے اُس پر گہری مایوسی اور قنوطیت چھائی ہے۔ وہ کسی بھی قدر کو مستقل تسلیم کرنے سے عاری ہے۔ اُس کا اپنی ذات پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔
عالم اسلام میں سیکولرزم کے داخل ہونے کی وجوہات
مغرب میں سیکولرزم اس لیے وارد ہوا کیونکہ اُن کا دین تحریف شدہ تھا جبکہ اہل اسلام میں سیکولرزم اِس لیے داخل ہوا کیونکہ وہ اپنے صحیح دین سے منحرف ہوگئے اور دین کے تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکے۔
اہل اسلام کا اپنے دین سے انحراف: اہل اسلام کا اپنے دین سے انحراف سب سے پہلے عقیدے یعنی توحید اُلوہیت کے مفہوم میں پیدا ہوا۔ مسلمان عبادت کے جامع تصور کو بھول گئے اور عبادت چند مخصوص اعمال اور اذکار واَوراد میں سمٹ آئی۔ زندگی کے تمام شعبے بتدریج اسلام سے خالی ہوتے چلے گئے۔ دین اور دنیا کی تفریق پیدا ہوگئی۔ تعلیم جہاد سے عاری ہوکر خالص صوفی تربیت میں تبدیل ہوگئی۔ اُمت مقبروں، مزاروں اور مردوں کے تقدس میں غلو کر کے شرک میں مبتلا ہو گئی۔ دین سے انحراف مغربی عسکری یلغار سے بھی پہلے واقع ہو چکا تھا۔
اہل اسلام کا دوسرا انحراف ’احکام الٰہی کی معاشرے پر حاکمیت کے تصور‘ میں تھا۔ صفوی اور مغلئی سلطنتیں تو ویسے ہی اسلام کی حقیقت سے دور تھیں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ عثمانی سلطنت نے بھی شریعت کی حاکمیت کو آخری ادوار میں مکمل روح کے ساتھ نہ اپنایا۔ عثمانی دورِ زوال میں حنفی فقہ نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا جس کی وجہ سے بالآخر مغربی وضعی قوانین درآمد کرنے پڑے۔ عثمانی فوجوں کی تربیت کے لیے غیر مسلم ماہرین کی امداد طلب کی گئی۔ عثمانی سلطنت نے شوریٰ کے بجائے جبرو استبداد کو لازم پکڑا حالانکہ ہمسایہ یورپی ممالک میں حریت کی تحریکیں برپا تھیں۔
اہل اسلام کا تیسرا انحراف قضاوقدر میں انحراف تھا۔ شروعِ اسلام میں ایمان بقضا وقدر ہمت، قوت اور اقدام پر اُبھارتا تھا لیکن آخری صدیوں میں یہ عقیدہ پستی اور ذلت کو برداشت کرنے کا ایک بہانہ بن گیا۔ یقیناً یہ انحراف سنتِ الٰہی سے غفلت کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اہل تصوف نے دین و پس ماندگی اور کفر وترقی کو لازم ملزوم سمجھا۔
اہل اسلام کی ذہنی پستی کا یہ عالم پیدا ہوا کہ وہ خود غیر مسلموں کی غلامی کے لیے تیار ہوگئے۔ مسلمان تاتاریوں سے بھی شکست خوردہ ہوئے تھے لیکن اُس وقت وہ ذہنی غلام نہ بنے تھے۔ ١٩ ویں اور ٢٠ ویں صدی کی عسکری شکست تہذیبی اور فکری غلامی بھی ساتھ لائی۔ مسلمان لادین حریت اور مساوات کو عین مقاصدِ شریعت قرار دینے لگے۔ عوام قوت وحکومت کا مصدر ٹھہرے۔ لادین اشتراکیت کو اسلام کے مطابق قرار دیا گیا۔ لادین جمہوریت کو اسلامی شوریٰ سے ماخوذ سمجھا گیا۔ لادین دستور کو عدل پر مبنی قرار دیا گیا۔
مسلمانوں کی تاریخ بتلاتی ہے کہ وہ جب بھی شکست خوردہ ہوئے تو داخلی کمزوری کی وجہ سے ہوئے۔ خارجی قوتیں جس قدر طاقت ور اور مضبوط ہوں، وہ مسلمانوں کو ہرا نہ سکیں، ہاں اُس وقت جب مسلمان خود اسلام سے دور ہوئے۔ مسلمانوں پر چار خارجی قوتیں حملہ آور ہوئیں اور انھوں نے مسلمانوں کو تباہ کیا۔
١۔ استعمار: استعمار نے پورے عالم اسلام پر قبضہ کیا اور اِس دفعہ اُس نے خود کو ایک نئے روپ میں پیش کیا۔ اُس نے کفر واسلام کی جنگ کو محض اقوام اور ممالک کی جنگ قرار دیا چنانچہ عثمانیوں کے خلاف مسلمانوں کو فوج میں بھرتی کیا گیا۔ عالم اسلام کی جہادی تحریکیں جیسے مہدی سوڈانی، عمر مختار، عبدالقادر جزائری، شاہ اسماعیل شہید اور امام حسن البنا کی تحریک کو سختی سے کچلا گیا۔ استعمار نے بلادِ اسلامیہ پر قبضہ کرتے ہی وہاں سے شرعی قوانین لغو کیے۔ ١٨٠٠ء سے ١٩٥٠ء کے دوران تمام اسلامی ممالک نے شریعت کو چھوڑ کر انسانی وضعی قوانین کو جاری کیا، ان معاشروں میں قرآن وسنت کی جگہ ’دستورِ مملکت‘ نے لینا شروع کردی۔ استعمار نے اسلامی نظام تعلیم کے مقابلے میں لادین نظام تعلیم رائج کیا۔
استعمار نے بعض علاقوں میں دینی تعلیم کے مراکز کو اصطبل بنایا۔ غیر اسلامی فرقوں اور گروہوں کو گمنامی سے نکال کر مسلم معاشروں میں تقویت دی گئی جیسے شام کے نصارٰی، نصیریہ فرقہ وغیرہ۔ بعض نئے کافر فرقے پیدا کیے گئے جیسے بابی، بہائی او رقادیانی۔ استعمار نے بعض علاقوں میں ٩٩فیصد اکثریتی مسلم علاقے میں غیر مسلم اقلیت کو حکومت سونپی۔ مسلمانوں کی نسل کو اپنا کارندہ بنانے کے لیے مخصوص افراد کو مسلمانوں کے راہنما بنا کر پیش کیا گیا۔
٢۔ مستشرقین : دوسرا خارجی عنصر مستشرقین کا تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کو اُن کے دین سے منحرف کرنے کے لیے علم کے نام پر ہر غیر علمی حربہ استعمال کیا۔ قرآن، نبی اکرم ﷺ اور اسلام پر اعتراضات اور شکوک کی بھرمار کی گئی۔ اسلام کو محض انفرادی دین کہا گیا۔ اسلامی تاریخ کے محاسن سلب کرکے عیوب نشر کیے گئے۔ مسلم عورت کو ذلیل قیدی کے طور پر پیش کیا گیا۔ عربی زبان اور اسلامی فقہ کو عصر حاضر کے ناموافق قرار دیا گیا۔ قدیم باطل فرقوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ قدیم لادین تہذیبوں کو اسلام کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا۔ جیسے فرعونیت، فینقیت، آشوریت، حمیریت وغیرہ۔ مستشرقین نے اُصول تحقیق کا ایک ایسا غیر علمی منہج پروان چڑھایا جو اسلامی روایت سے یکسر کٹا ہوا تھا اور علم کے نام پر ایک دھوکہ اور فریب تھا۔
٣۔مبشرین: تیسرا خارجی عنصر مبشرین کا تھا۔ یہ غریب مسلم عوام میں سکول، کالج، ہسپتال اور غذا وروزگار کے کیمپ قائم کرتے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کو دینی روح سے بیگانہ کرتے۔ انھوں نے مسلم عورت کو دین سے دور کرنے کے لیے ادب وثقافت کے نام پر بے حیائی اور بے پردگی کو فروغ دیا۔ انھوں نے دین کی بنیاد پر دوستی دشمنی ختم کی، مسلمانوں کے خیرخواہ بن کر سامنے آئے لیکن عالم اسلام کی نگرانی اور جاسوسی کرکے استعمار کی خدمت کی۔
٤۔ عرب نصاریٰ: چوتھا خارجی عنصر عرب کے نصاری کا تھا۔ اُنھوں نے سب سے پہلے سیکولرزم ، قومیت، وطنیت اور لادین عقلیت کی دعوت دی۔ انھوں نے لادین سیاسی پارٹیاں، الحادی ادبی مکاتب فکراور مذہب بے زار سماجی گروہ قائم کیے۔ اُنھوں نے کہا کہ دنیا کی ترقی کے لیے مذہب کو خیر باد کہنا پڑے گا جیسے یورپ نے دین سے جی چھڑا کر ترقی کی۔
عالم اسلام میں سیکولرزم کے اثرات
سیاست وقانون: ترکی: قرونِ اخیرہ میں عالم اسلام اسلام کے مثالی سیاسی نظام سے کافی حد تک ہٹ چکا تھااور اُس پر ایک گہرا جمود بھی طاری ہوچکا تھا۔ عوام اور حکمران اسلامی تصورات اور اُن کی عملی تطبیق میں کمزوری کا شکار تھے۔ مسلمانوں کا زوال اتنا خوف ناک تھا کہ وہ خود سیکولرزم کو قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔ شروع میں اصلاحات کا نعرہ لگایا گیا۔ اصلاح کی ضرورت مسلّم تھی لیکن اُس کا طریق کار دھندلا تھا۔ چنانچہ اصلاحی مفکرین نے مغربی تمدّن کی ہیبت مسلم عوام کے دلوں میں پیدا کی اور اسلام کی عظمت کو کمزور[2] کیا۔ آخر انقلابی تحریک پیدا ہوئی جس نے سلطان عبد الحمید کے وسیع اختیارات ختم کرکے دستوری حکومت کا مطالبہ کیا۔ عوام وخواص سلطان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ١٩٠٩ء میں انہیں خلافت سے بالجبر علیحدہ کر دیا گیااور بتدریج ایک دستور نافذ کیا گیا جو لادین اہداف پر مشتمل تھا، یعنی وطن کے نام پر مسلم وغیر مسلم کو برابر قرار دیتا، حریتِ مذہب پر زور دیتا۔ اُس نے شرعی عدالتوں کو معطّل کیا اور اسلام دشمن عناصر کو کھلا چھوڑ دیا۔
ترکی کے اس دور کے سیاسی حالات کے نتیجے میں کمال اتاترک ترکی کا نجات دہندہ بن کر سامنے آیا۔ اس نے خلافت کا منصب ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ دینی حکومت کو لادین جمہوریت میں ڈھالا۔ دینی آثار وشعائر کو بالشویک[3] حکومت کی طرز پر جبری طور پر ملک وقوم سے مٹایا اور مغربی قوانین کو عملاً لاگو کیا گیا۔
مصر: مصر کا سیکولرزم برطانوی قبضے کے دوران مستحکم ہوا۔ مصر کی پہلی سیاسی جماعت حزبِ وطنی ١٨٨٢ء میں قائم ہوئی جس نے لادینی طرزِ سیاست کو فروغ دیا۔ مصر میں روشن خیالی کی ترویج کے لیے استعمار نے تحریک اصلاح کی سرپرستی کی جس کے لیڈر محمد عبدہ تھے۔ محمد عبدہ کے اپنے دور کے عوام وخواص پر بڑے اثرات تھے۔ اس نے مغربی قوانین سے اخذو استفادہ کو مسلم عقلیت کے لیے قابل قبول بنایا۔ اس کے بعد سیکولرزم کے داعیوں کا ایک سلسلہ قائم ہو گیا۔ عبدالرحمن کواکبی نے ١٩٠٢ء میں دین وسیاست کو الگ کرنے کی دعوت دی۔ شریعت پر حملے کیے اور سود کو حلال قرار دیا۔ علی عبدالرزاق نے اسلام کو محض روحانی مذہب قرار دیا۔ عبدالمتعال نے حدود ِ الہی کو غیر واجب قرار دیا۔
تعلیم وتربیت : مسلمانوں کے آخری اَدوار میں مسلمانوں کا نظام تعلیم اسلام کی فرد ومعاشره پر مشتمل جامع روح کا عکاس نہ تھا۔ اُس پر جمود طاری تھا اور وہ زمانے کے مسائل كی وضاحت نہ كررہا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ نظام تعلیم عملیت سے عاری، تاثیر سے منقطع اور معاشرے کی تشکیل سے غیر متعلق تھا۔ اُمّت مسلمہ میں جدید مغربی علوم کا دُخول استعمار کے زیر سایہ ہوا۔ مغربی ممالک نے اسلامی ممالک پر قبضہ کرتے ہی ایک نئے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی۔ اُس وقت سے عالم اسلام میں علم کی دوئی پیدا ہوئی۔ یعنی
١۔ دینی تعلیم جو محدود اور تنگ ہونے کے ناطے شریعت کی حدود میں غور وفکر اور درپیش مسائل کی طرف متوجہ نہ تھی۔
٢۔ جدید تعلیم جو لادین اور غوروفکر کی تمام سرگرمیوں پر مشتمل تھی۔
قدیم دینی نظام تعلیم اپنے اہداف، طریق کار، اسلوب تدریس اور وسائل میں پس ماندہ تھا جبکہ جدید سکولوں کالجوں کا نظام تعلیم استعمار کے زیر سایہ اپنے وسائل اور مظاہر میں نہایت عالی شان تھا۔ لارڈ میکالے نے ہندوستان میں جدید تعلیم کا جو ہدف بیان کیا ، وہی ہدف بیروت، استنبول، قاہرہ وغیرہ میں اپنایا گیا۔ یعنی کلرکوں کی ایسی نسل تیار کرنا جو استعمار کی نوکری کرکے فخر کرے اور اپنے قومی سرمایہ افتخار کو بھول جائے۔ مسلمان طلباکے طائفے یورپ روانہ ہوئے جنھوں نے واپس آکر اپنی قوم میں بدیسی عظمت کے بیج بوئے۔ جدید تعلیم کے ذریعے مسلمان نسلوں میں اسلام اور اُس کی تاریخ وتہذیب کے متعلق مہلک شکوک اور اعتراضات پیدا کیے گئے۔ مغربی علوم کے تراجم میں عملی وتطبیقی علوم کو نظر انداز کر کے عشق ومحبت کے قصوں کی بھرمار کی گئی۔ مغربی تہذیب کو سوچے سمجھے اور بلا تمیز اپنانے کی دعوت پیش کرنے والے طہٰ حسین، احمد لطفی، اسماعیل مظہر اور قاسم امین تھے جن کی طرزِ فکر مکمل طور پر مغربی تھی۔ جدید تعلیم کی وجہ سے نئی نسل لادین تربیت کی حامل ہوئی۔ قدیم دینی نظام تعلیم کو بتدریج مغربی اغراض کے ماتحت کیا گیا۔ فصیح عربی زبان کو ترک کرکے لغتِ عامی کو ترویج دی گئی تاکہ قرآن کی زبان متروک ہوجائے۔ جدید یونیورسٹیوں میں مغربی علوم کو لادین منہج کے مطابق پڑھایا گیا۔ مردوزن کا اختلاط، رقص ڈرامے اور موسیقی کی تعلیم، جدید علوم کے الحادی نظریات، مغربی ادبی وتاریخی مکاتب فکر کی ترویج،جدید نظام تعلیم کی امتیازی خصوصیات تھیں۔ شعرا، ادبا، مفکرین اور میڈیا کے افراد پر مغربی علوم کا غلبہ عام ہوگیا۔ ہر طرف اباحیت، عقلیت، رومانیت، واقعیت، مارکسیت، ڈارونیت اور لامعقولیت وغیرہ کے اثرات غالب آگئے۔
معاشرت واخلاق: مسلمانوں کے دور انحطاط میں اُن کی معاشرتی زندگی خالص اسلامی تعلیمات کی عکاس نہ تھی بلکہ اُس پر جاہلی رسوم ورواج اور ادنیٰ جذبات کا غلبہ ہو چکا تھا۔جب مسلمانوں پر مغرب کا عسکری وسیاسی غلبہ ہوا تو وہ مغربی معاشرت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ مسلمان دین کی سند پر اپنی حیا اور عزت وناموس کی حفاظت کرتے تھے پھر بھی پس ماندہ تھے جبکہ مغرب بے حیائی ، اختلاط اور بے پردگی کے باوجود ترقی یافتہ تھا۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ عقلیت پیدا کی گئی کہ پس ماندگی کا سبب اسلام اور ناقص مشرقی معاشرت ہے۔
محمد علی مصری کے دور میں مسلم طلبا کے طائفے یورپی ممالک سے کھیپ در کھیپ پڑھ کر آئے۔ انھوں نے اسلامی معاشرت ا ور مغربی معاشرت کافرق کھول کھول کر بیان کیا اور مغربی طور طریقوں کو افضل قرار دیا۔ عالم اسلام میں نسوانی قضیے کی ابتدا جمال الدین افغانی سے ہوئی جس کے نزدیک مشرق کی خرابیوں کی جڑ عورت ومرد کو مساوی نہ سمجھنا تھا۔ محمد عبدہ اور قاسم امین افغانی کے شاگرد تھے۔ قاسم امین نے ١٨٩٧ء میں عورت کے اسلامی تصورات پر خطرناک ترین حملے کیے۔ اُس نے حجاب کو رذیل ترین اخلاق کا سبب قرار دیا اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ باور کرایا۔ قاسم کے نزدیک مسلمانوں کے مرض کا علاج یہ ہے کہ اُن کی تربیت مغربی طریقے پر کی جائے۔ ١٩١٩ء میں مصر کا استعمار کے خلاف انقلابی ماحول پیدا ہوا تو اس میں عورتوں نے احتجاجی سیاست کا بھرپور مظاہرہ کیا جس سے اُن کی لادین حقوق کی سیاست خوب مقبول ہوئی۔
بیدارئ نسواں کی اوّلین تحریک کی قیادت ہدی الشعراوی نے کی جس کا سرپرست سعد زغلول تھا۔ ١٩٤٥ء کی مصری نسوانی تحریکوں کی رسوائیوں کو مصری اخبارات نے خود نشر کیا۔ یہ تنظیمیں مغرب سے مال وصول کرتیں اور مسلمانوں میں بے حیائی پھیلاتیں۔ جدید مصری صحافت نے مغربی فیشن اور مغربی نسوانیت کو فروغ دینے میں بھرپور حصہ لیا۔ یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم کو طلبا کے احتجاج کے باوجود غالب کیا گیا۔ اسماعیل مظہر نے عورت کی گھر داری کو فرسودہ ناقص اور غیر اسلامی نظام قرار دیا۔ عورت کی وراثت، گواہی اور ملازمت کے حقوق وغیرہ کو مرد کے برابر قرار دیا۔ خالد محمد خالد نے تعدد ازواج اور خاوند کے اسلامی حق طلاق پر پابندی کا مطالبہ کیا۔
اس طرح عالم اسلام میں بتدریج اخلاقی بے راہ روی پروان چڑھ گئی۔ ترکی میں مختصر لباس اور اعلانیہ بوس وکنار عام ہوا۔ افریقہ ، الجزائر، تیونس وغیرہ میں فحاشی استعمار سے آزادی کے بعد زیادہ بڑھ گئی۔ الیکٹرونک میڈیا، اخبارات ورسائل اور سائن بورڈ نے فحاشی کے فروغ میں خوب حصہ لیا۔ ہر طرف مخلوط تعلیم، مخلوط سرکاری ادارے، گھر بازار اور عوامی مقامات پر مردو زن کی بے حجاب معاشرت پھیل گئی۔ نتیجہ میں معاشرتی جرائم، قتل، لوٹ مار، آوارہ گردی، گھروں کا ٹوٹنا، غیرمحفوظ نسل اور خاندانوں کا بکھرنا بھی عام ہوگیا۔ عالم اسلام میں ابھی بھی بے پردگی کو ترقی اور خوش حالی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
کیا عالم اسلام میں سیکولرزم کے وہ اسباب موجود ہیں جو یورپ میں تھے!
یورپ کا سیکولرزم تحریف شدہ مسیحیت سے پیدا ہوا۔ غیر عقلی اور غیر فطری نظریۂ تثلیث، اناجیل کی تحریف، خدائی حقوق پر مبنی پاپائیت، موروثی گناہ کا غیر عقلی تصور، بخشش کے سرٹیفکیٹ جو ادیان کی تاریخ کی بدترین بدعت تھی۔ یہ وہ اُمور تھے جن کی وجہ سے یورپ کے خواص وعوام دین سے متنفر ہوئے اور انھوں نے قدیم یونانی ورومی علوم و آداب کا احیا کیااور زندگی کی بنیاد وحی الٰہی کو چھوڑ کر فلسفے پر قائم کی۔
اسلام کو یورپ کے دین مسیحیت جیسے حالات پیش نہ آئے۔ اسلام کا عقیدۂ توحید سادہ اور فطری ہے۔ قرآن اللّٰہ کا محفوظ کلام ہے، محمدی شریعت زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ اسلام نبوی دور میں ہی شریعت الٰہی پر مبنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا جبکہ مسیحیت ایسا نہ کرسکی۔ اسلام کے علما کے لیے پاپائیت جیسے اختیارات بھی نہیں اور اُن جیسا جبر واستبداد بھی نہیں۔ اسلام میں باطل فرقے پیدا ہوئے لیکن وہ اسلام کی سنّی تشریح پر غالب نہیں آسکے جبکہ مسیحیت کا حقیقی دین شروع میں ہی مغلوب ہوگیا۔ اسلام میں مسیحیت کی طرح مذہبی پیشوائیت نہیں جو عوام اور اللّٰہ کی عبادت کے درمیان واسطہ ہو بلکہ یہاں ہر شخص براہ راست اللّٰہ سے تعلق قائم کر سکتا ہے۔ اسلام میں کبھی بخشش کے سرٹیفکیٹ تقسیم نہیں ہوئے اور نہ بندوں کے سامنے اقرارِ گناہ کی رسم موجود رہی۔ اسلام نے کلیسا کی طرح دینی پیشواؤں کی تنظیم نہیں بنائی جو عوام کا فکری، معاشی، معاشرتی اور سیاسی استحصال کرے۔ اسلام نے مسیحیت کی طرح علوم کی دینی ودنیاوی تقسیم نہیں کی اور نہ رہبانیت کی اجازت دی۔ اسلام کے نزدیک اللّٰہ نے آدم کا گناہ معاف کردیا تھااور اُن کا گناہ ان کی اولاد میں منتقل نہیں ہوا۔ اسلام میں کسی سطح پر واسطوں کا شرک پیدا ہوا لیکن علمائے اسلام نے اُس کے خلاف آواز اٹھائی اور حقیقتِ توحید کو گم ہونے سے محفوظ کیا۔ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کو ویسے حالات پیش نہیں آئے جیسے یورپ کو پیش آئے۔ لہٰذا اسلام کو سیکولرزم قبول کرنے کی ضرورت نہیں۔
اسلام میں سیکولرزم کا حکم
سیکولرزم دو اعتبار سے اسلام کے منافی ہے:
1۔سیکولرزم تصور عبادت کے منافی ہے:عبادت اللّٰہ کی کلی فرماں برداری اور مکمل زندگی رب کے حضور پیش کرنے کا نام ہے۔ سیکولر انسان اپنی فرماں برداری کے ٹکڑے کرتا ہے اور کچھ حصہ اللّٰہ کے لیے مختص کرتا ہے او رکچھ حصہ غیر اللّٰہ کے لیے بجا لاتا ہے۔ اسلام میں دنیا وآخرت کی سرگرمیاں ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ دنیا کا ہر وہ کام جو اللّٰہ کی رضا کے لیے کیا جائے وہ عبادت ہے ، چاہے وہ کاروبار ہو یا سیاست، فن وادب ہو یا تعلیم وتربیت، گھر بار ہویا وطن وقوم کی خدمت ۔
سیکولرزم غیر اللّٰہ کی فرماں برداری کو بھی روا سمجھتا ہے۔ غیر اللّٰہ کی فرماں برداری کو جائز سمجھنا، اُس کی غیر مشروط اطاعت کو لازم ماننا، اُس کے احکامات اور قوانین کو دین سے زیادہ قابل قدر سمجھنا...یہ تمام امور نصوص شرعیہ کے مطابق کفر اکبر ہیں۔
2۔ سیکولرزم ’حکم بغیر ما انزل اللّٰہ‘ ہے: یعنی اس میں اللّٰہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق انفرادی یا اجتماعی فیصلے نہیں ہوتے۔ یہ چیز فقط گناہ ہی نہیں بلکہ شرک ہے۔ جب کوئی شخص زندگی کے کسی شعبے میں شریعت کی اتباع کو لازم نہ سمجھے یا اللّٰہ کے حکم کی تنفیذ کو واجب قرار نہ دے تو وہ بالاتفاق دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ غیر اسلام کو قانون سمجھنا شرک ہے جیسا کہ قرآن وحدیث کی کئی نصوص دلالت کرتی ہیں۔اور قرآن وسنت سے خود ساختہ غیر معصوم قوانین کو دستوری حیثیت دینا گناہ ہے، جس کےنتیجے میں مسلم ممالک میں دسیوں شرعی اور متصادم قوانین متعارف ہوسکتے ہیں۔
٣۔سیکولرزم اپنی فکر کے اعتبار سے ادیان کو برحق نہیں سمجھتا: سیکولرلوگ خدا کے وجود کے اقرار کے باوجود دین اور وحی کو حجت نہیں سمجھتے اور نہ ہی اِس کی اتباع کو لازم قرار دیتے ہیں۔ سیکولرزم کا اخلاق فواحش، مادیت، اباحیت، دینی وسماجی روایات سے انحراف اور نفسانی خواہشات پر مبنی ہوتا ہے۔سیکولرزم کا قانون اور نظام دین سے علیحدگی پر مشتمل ہوتا ہے۔ دین کو چند انفرادی رسوم میں محدود کرکے زندگی کے باقی تمام اجتماعی شعبے دین سے آزاد کیے جاتے ہیں۔
سیکولرزم کی فکر، اخلاق اور قانون تینوں اسلام کی عبدیت کے منافی ہیں۔ انسان اپنی فکر، اخلاق اور قانون میں اللّٰہ کا عبد ہے اور اُس کی رضا کا پابند، وہ آزاد مخلوق نہیں۔
٭ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سیکولرزم کفر وشرک نہیں کیونکہ اس کے ماننے والے اللّٰہ کا اقرار کرتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔اُن کی بات کئی اعتبار سے غلط ہے:
1.     قریش مکہ اللّٰہ کا اقرار کرتے تھے اور نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اللّٰہ کے ساتھ شرک بھی کرتے تھے۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ نے اُن کے ساتھ ١٣ سال تبلیغی جدوجہد کی اور دس سال جہاد کیا۔
2.  علماے دین نے اسلام کو توڑ دینے والے اُمور بتلائے ہیں جن کا ارتکاب کرنے سے کلمہ پڑھنا اور نمازیں ادا کرنا بے معنیٰ ہوجاتا ہے اور انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اُن کو نواقض اسلام کہتے ہیں۔ سیکولرزم کو برحق جاننا ناقض اسلام ہے۔ اس کی موجودگی میں اللّٰہ پر ایمان اور نماز کی ادائیگی معتبر قرار نہیں پاتی ۔
سیکولرلوگ اللّٰہ کی عبادت کے معنی و مفہوم کو نہایت محدود قرار دیتے ہیں اور یہ بات قابل تعجب نہیں۔ حضرت عدی بن حاتم دورِ جاہلیت میں عبادت کو محدود سمجھتے تھے۔ نبی اکرم ﷺنے اُن کو بتلایا کہ اللّٰہ کے مقابلے میں کسی کے امرونہی کو تسلیم کرنا ، اُس کی عبادت کرنا ہے۔
سیکولرزم توحیدِ الٰہی میں شرک ہے، وہ نبوت کے خلاف بغاوت ہے، وہ غیر اللّٰہ کی حاکمیت کو جائز سمجھنا ہے۔ وہ اسلام کی اصل کے منافی ہے۔ وہ طاغوت کی عبادت ہے۔ سیکولرزم جاہلیت کا فروغ اور خواہش نفس کی عبودیت ہے۔سیکولرزم فساد فی الارض ہے!!
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسانی زندگی تبدیل ہوتی رہتی ہے جبکہ شریعت کے احکام ٹھوس اور جامد ہیں ، یہ زندگی کے تمام مسائل حل نہیں کرسکتی۔ یہ بات بھی بالکل باطل ہے۔ اسلام زندگی کے تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور قیامت تک انسان کی راہنمائی کرتا رہے گا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کے ذریعے معاشرے کی فلاح کا راستہ واضح کیا ہے۔ علوم نبوت کے حامل علماے کرام کو معاشرے کے ہر زندہ مسئلہ پر اسلامی رہنمائی کی بھر پور تیاری کرنی چاہیئے ، جیسے فلسفہ یونا ن کے دور میں علماے حقہ نے ہر انحراف کا کافی وشافی جواب دیا تھا۔ قرآن وسنت کے معانی ومفاہیم میں درک وبصیرت حاصل کیا جائے، ہر سوال کی کافی وضاحت یہاں سے مل سکتی ہے، یہی وہ چشمہ صافی ہے جس سے فیض پاکر شمع نبوت کے پروانے جاہلیت قدیمہ   اور وقت کی سپر پاورزکو اللّٰہ کے جھنڈے تلے لائے، اور اسی سے جاہلیتِ جدیدہ کے تاروپود بکھریں گے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ قرآن وسنت کو سیکھیں اور پڑھیں، وہ معتبر ومستند علماے دین سے سوال کریں، اور جب رہنمائی مل جائے تو اس پر خلوص دل سے عمل کریں تو کفر کی یہ ظلمتیں چھٹ جائیں گی اور اسلام کا نور دنیا پر غالب آجائے گا اور اس کا اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے وعدہ کررکھا ہے۔        ٭٭
حاشیہ و حوالہ جات:
[1]    یونان کے مشہور حکیم اپیکورس کا فلسفہ اور نظام جس میں حصولِ لذت کو افعالِ انسانی کی اصلی غرض بتایا گیا ہے: لذت پسندی، عیش پرستی، لذتیت۔ اسی نے نظریۂ ذرات کو بھی پیش کیا جو ایک طرح سے ابیقوریت کا احیا تھا۔ (تاریخ فلسفہ جدید: ۱ ؍ ۲۹۰)
[2]    آخری ادوار میں خلافتِ عثمانیہ ہی اسلام اور مسلمانوں کی سیاسی سرپرست تھی۔ اس خلافت نے عروج کی چھ صدیاں دیکھیں اور دنیا کے تین براعظموں پر حکومت کی۔ یورپ کے قلب تک مسلسل دو صدیوں تک یہ خلافت برسر جہاد رہی اور اس نے مغرب کی عسکری نفسیات پر کمزوری کے مسلسل وار کئے۔ لیکن دورِ زوال میں اسلام سے بعض بنیادی انحرافات نے اس کی اصل طاقت کو کمزور کردیا ۔ عثمانیوں نے اپنے عروج کی وجہ اسلام کی بجائے ، اپنی ترک قومیت کو بتانا شروع کیا، جس کے نتیجے میں باقی مسلم دنیا پر وہ غاصب وقابض ٹھہرنے لگے۔ یہی قومیت کا فتنہ عرب اقوام کے اندر بھی پروان چڑھا جس سے ملی وحدت پارا پارا ہوگئی اور آخر خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے ہوگئے۔            ح م
[3]    یہ کمیونزم کا روسی نام ہے۔ بالشویک پارٹی کا مقصد کارل مارکس کی تعلیمات کی روشنی میں روس کے محنت کشوں کو انقلاب کے لیے منظم کرنا اورزار روس کی حکومت کا تختہ الٹ کر محنت کشوں کی حکومت قائم کرنا تھا تاکہ ملک میں سرمایہ داری نظام کو ختم کرکے اشتراکی نظام رائج کیا جائے۔ 1917ء کے انقلاب روس کے بعد ’بالشویک پارٹی ‘کا نام روسی کمیونسٹ پارٹی (بالشویک) ہو گیا۔ ح م