تکفیر و جہاد اور حساس مسائل پر امام ابن تیمیہ عدالتی کٹہرے میں

دورِحاضر میں کوئی بھی فتویٰ آپ کی نظر سے گزرے تو اس میں آپ کو بکثرت امام ابن تیمیہ ( م 728ھ) کے اقوال سے استدلال پڑھنے کو ملے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ﷫ پر اغیار کی بجائے اپنوں نے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں۔ ان کی علمی آرا سے غلط استدلالات کیے گئے۔ ان میں زمان و مکان کی تفریق پیش نظر نہ رکھی گئی ہے۔ قدیم وجدید اَدوار کا خیال نہ کیا گیا۔ حالانکہ ابن تیمیہ ایک صاحبِ کمال شخصیت تھے۔ تمام علومِ شریعہ کی گہرائی میں اُتر گئےتھے۔ ہر فن پر کمالِ مہارت کے ساتھ کلام کیا۔ یونانی منطق و فلسفہ میں لازوال درک حاصل کیا۔ صاحبِ انصاف لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ابن تیمیہ  علم و فن کے کسی بھی میدان میں اُترتےہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بس اسی کے شاہ سوار ہیں۔
دورحاضر میں بعض ریاستیں تو صرف ابن تیمیہ کا لٹریچررکھنے پر ہی پابندِ سلاسل کردیتی ہیں۔ کچھ ریاستوں نے ابن تیمیہ کی مخصوص کتب اور بعض نے تو تمام کتب کی اشاعت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان کے مطابق ابن تیمیہ کی دینی آرا سے ان کے جاری کردہ دینی موقف متاثر ہوتے ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امام ابن تیمیہ﷫ نے مختلف علوم میں چھوٹےبڑے چارہزار سے زائد کرّاسے(مقالات) لکھے ہیں جنہیں ’مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ‘ کی 37 جلدوں میں جمع و تالیف کردیا گیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے مترشح ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ مسلمانوں کے علمی و عملی مسائل سے کس قدر گہری واقفیت رکھتے تھے۔ ان کا فہم کتنا رساتھا۔وہ اُمت کو پیش آمدہ بحرانوں کا کس قدر مناسب حل تجویز فرماتے تھے اور ان کے صلہ میں انہیں کس قدر آزمائشوں اور مصائب سے گزرنا پڑا تھا۔ جمود و تعصّب نے ان کے لیے کتنی مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کئی تنظیموں نے ابن تیمیہ کی آرا کا استحصال بھی کیا ہے۔ ان میں سابق مصری صدر انورسادات کو قتل کرنے والی جماعة الجهاد،شام و عراق کی الجماعة الإسلامية اور الدولة الإسلامية في الشام والعرق’داعش‘ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح شیخ رشید رضا نے اپنے مجلہ ’المنار‘ میں بھی افکارِ ابن تیمیہ کو پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ برصغیر میں مولانا ابوالکلام آزاد، اور جماعت اہل حدیث نے بھی ان کے بہت سے رسائل کے تراجم کرکے ان کو پھیلایا ہے۔
ذیل میں ’تکفیر، جہاد اور قتال‘ کے بارے میں امام ابن تیمیہ کی رائے جاننے کےلیے انہی کے لٹریچر کی روشنی میں ایک فرضی محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔ جس میں وہ ان مسائل کے بارے میں جج کے سوالوں کاجواب دیتے ہیں، جس کے لئے امام ابن تیمیہ کی اکثر تحریروں کو من وعن پیش کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد صرف حقائق کی درست تفہیم اور علمی وضاحت ہے۔
وکیل استغاثہ: وکیل استغاثہ عدالت میں پیش ہوکر درج ذیل دلائل دیتا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ تشدد اور قتل و غارت کو ہوا دینے والےہیں:
1.  فاضل جج صاحب! دورِ حاضر کی متشدداسلامی تحریکیں زیادہ تر ابن تیمیہ کی علمی آرا کا سہارا لیتی ہیں جیسے داعش وغیرہ ۔ یہ لوگ تکفیرو قتال میں شریعت کی بجائے ابن تیمیہ کے قول سے استدلال کرتے ہیں۔ اور 37 جلدوں پر مشتمل مجموع فتاویٰ جو ان کی علمی آرا کا مجموعہ ہے، اس میں اسی طرح کے اقوال منقول ہیں۔ جن میں دو کتابیں بالخصوص قابل ذکر ہیں: ایک الصارم المسلول على شاتم الرسول اور دوسری اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة أصحاب الجحیم ہے۔ ان دونوں کتب میں جداگانہ نوعیت کا فکری منہاج بیان کیا گیا ہے جس سے تشدد جنم لیتا ہے۔
2.  ابن تیمیہ کی اس فکر کے اثرات عرب سے دوردراز علاقہ ہندوستان پر بھی پڑے ہیں۔ مثلاً وہاں شاہ ولی اللّٰہ جب ان کی فکر سے متاثر ہوتے ہیں تو ہندوستانی فقہا جو حنفی تھے، ان سے سخت مخالفت مول لیتے ہیں۔ پھر گزشتہ صدی میں وہاں سید ابوالاعلیٰ مودودی ان کے تجدیدی نظریہ سے متاثر ہوئے تو ’جماعتِ اسلامی‘ کی بنیاد رکھی۔
3.  مصر میں بھی کئی اسلامی جماعتیں ان کی فکر سے متاثر ہوئی ہیں جیسے جماعة الجهاد ہے۔ جس نے سابق مصری صدر انورسادات کو قتل کیا تھا۔ اسی طرح شام و عراق میں داعش وغیرہ ہیں۔ شيخ رشید رضا بھی ابن تیمیہ کی فکر سے متاثر ہوئے اور اسے اپنے مجلہ ’المنار‘ میں شائع کرتے رہے۔ اسی وجہ سے میری معزز عدالت سے گزارش ہے کہ وہ ایسے شخص کے بارے میں کڑی سے کڑی سزا تجویزکرے جس کے افکار وفتاویٰ کی وجہ سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں تشدد نے جنم لیا ہے۔ اور جسے ہر متشدد گروہ سند کے طورپر پیش کرتا ہے۔
تاریخی واقعات
وکیل استغاثہ: میں معزز عدالت کے سامنے ابن تیمیہ کے کچھ ذاتی واقعات بھی پیش کردیتا ہوں جن سے اس بات کو تقویت ملے گی کہ وہ تشدد کو جنم دیتے ہیں۔
4.  693ھ میں شام کی ایک بستی سویداء کے عیسائی نے رسول اللّٰہﷺ پر زبان درازی کی تھی۔ ابن تیمیہ کی زیرقیادت لوگوں کے ایک بہت بڑے مجمع نے اس مجرم سے قصاص لینے کا مطالبہ کیا۔ ایک ترکی امیر نے عیسائی کی حمایت کی جس سے حالات بگڑ گئے۔ آخرکار ابن تیمیہ کو قید کرنا پڑا۔ اس واقعہ سےمتاثر ہوکر اُنہوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول لکھی۔
5.شوال 699ھ میں ابن تیمیہ اپنے ساتھ اہل حوران کے رضاکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد لے کر جبل جرد اور کسروان والوں کے خلاف لڑائی کرنے کے لیے نکلے۔ ان کے بقول وہ نصیریہ کافر تھے۔ اُنہوں نے تاتاریوں کی معاونت کی تھی۔ وہ کافر، گمراہ اور اطاعتِ امیر سے خارج ہوچکے تھے۔
6.  اور 699ھ میں ہی ابن تیمیہ اپنے رفقا کے ساتھ نکلے۔ اُنہوں نے شراب کی دکانیں اور کلب بند کروادیے جو تاتاریوں کی دمشق آنے کے بعد کھولی گئیں تھیں۔ موصوف نے شراب انڈیل دی، دکانداروں کو سزا دی اور انہیں آئندہ اس برائی سے منع کردیا۔
7.  701ھ میں حاسدین کی ایک جماعت نے ابن تیمیہ پر حدوداللّٰہ کے قیام، تعزیر اور بچوں کے سرمونڈھنے پر اعتراض کیا۔ لیکن موصوف اپنی روش کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا نام دیکر اس پر بضد رہے۔
8.  704ھ میں ابن تیمیہ نے بعض جاہل صوفیا کو اپنے افعال و اعتقادات ترک کرنے کی تلقین کی۔ جیسے شیخ ابراہیم القطان تھے جو اپنی شکل حیوانوں جیسی بنائے ہوئے تھے اور جیسے محمد بن خباز بلاسی تھے جو محرمات کا ارتکاب کرتے تھے۔ اور اسی سال ابن تیمیہ دمشق کی تاریخی جامع مسجد کی طرف اپنے رفقا کے ساتھ گئے۔ ان میں سے کچھ سنگ تراش بھی تھے جنہیں اس چٹان کے کاٹ دینے کا حکم دیا گیا جس سے لوگ ڈرتے اورزیارت کیا کرتے تھے۔ ان کے بقول اُنہوں نے اس چٹان کو کاٹ کر مسلمانوں کو اس شرک سے نجات دلائی جس میں وہ مبتلا ہوچکے تھے۔
عدالتی استفسارات اور امام ابن تیمیہ کے جوابات
1.     قاضی          : جی! آپ کا نام؟
ابن تیمیہ: احمد بن شہاب الدین ابو المحاسن عبد الحلیم بن مجد الدین عبد السلام بن ابو محمد عبد اللّٰہ بن ابی القاسم الخضر بن محمد بن تیمیہ
2.  قاضی : آپ کا سال پیدائش اور جائے پیدائش؟
ابن تیمیہ: 661ھ 10ربیع الاول، سوموار کا دن،بمقام حران (شام)
3.  قاضی: آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی اور آپ کے مشائخ کون ہیں؟
ابن تیمیہ: میں نے دوسو سے زائد مشائخ سے علم حاصل کیا ہے، جن میں چار خواتین اساتذہ بھی ہیں۔
4.  قاضی:آپ نے کہاں اور کب تعلیم حاصل کی؟
ابن تیمیہ: 663ھ میں ’ دار الحدیث ‘ دمشق سے تعلیم کا آغاز کیا۔ اور بائیس سال کی عمر تک میرے پاس چیف جسٹس اور ائمہ مذاہب آتے تھے۔ جیسے شافعی مسلک کے شیخ تاج الدین الفزاری تھے۔ اور عمر کے اسی سال میں جامع مسجد اُموی میں تفسیر و شرح کے لیے بیٹھ گیا تھا جو دمشق و شام کی سب بڑی اور مشہور مسجد تھی۔
5.  قاضی : آپ کےتلامذہ میں سے کون ہیں؟
ابن تیمیہ: ابن قیم جوزیہ، امام ذہبی، امام ابن کثیر اور امام ابن رجب وغیرہ ہیں۔
6.  قاضی : آپ کے نزدیک اسلام کیا ہے؟
ابن تیمیہ: اسلام وہ دین ہے جسے اللّٰہ نے اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ نازل کیا ہے۔ اس میں بندہ اللّٰہ ربّ العالمین کے سامنے جھکتا اور اس کے اکیلے ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ اسے وحدہ لاشریک تسلیم کرتا ہے۔ اس اکیلے کو ہی معبود مانتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر معبود کی نفی کرتا ہے۔ سب سے افضل کلام اور اسلام کی اساس لاالہ الاللّٰہ کی گواہی دینا ہے۔ تکبر اور شرک اس کی ضد ہیں۔ اسی وجہ سے نوح﷤ نے اپنے بیٹوں کو لاالہ الا اللّٰہ اور سبحان اللّٰہ کا حکم دیا اور اُنہیں تکبر و شرک سے منع کیا۔ میں کئی بار تحریر کر چکا ہوں کہ متکبر اس کی عبادت نہیں کرتا، وہ اسے تسلیم نہیں کرتا۔ جو شخص اسکی اور اس کے غیر کی عبادت کرتا ہے، وہ مشرک ہے۔ اس نے صحیح طریقے سے اسے تسلیم نہیں کیا۔ اسلام کا مطلب سلامتی ہے اور سلامتی سے مراد اخلاص ہے۔ [1]
7.  قاضی : آپ کا عقیدہ اور مذہب کیا ہے؟
ابن تیمیہ: میں تو کیا اگر کوئی مجھ سے بڑا عالم بھی ہو تو اس سے عقیدہ نہیں لینا چاہیے۔ وہ صرف اللّٰہ، رسول سے لینا چاہیے یا اس رائے کو لینا چاہیے جس پر اسلافِ اُمّت کا اتفاق ہو۔ یعنی قرآن جسے تسلیم کرنا لازم قرار دے اور جو صحیح احادیث سے ثابت شدہ ہو، جیسے بخاری و مسلم ہیں۔ مجھ سے مصر یا کسی بھی علاقہ کے کسی بھی شخص نے کبھی بھی آکر عقیدے کے بارے میں سوال کیا ہے تو میں نے ہمیشہ قرآن و سنت اور اسلافِ امت کے موقف کے مطابق جواب دیا ہے۔ [2]
8.  قاضی : آپ کی رائے میں تکفیر کیا ہے؟
ابن تیمیہ: سب سے پہلے تو تکفیر ایک وعید ہے۔ جس سے مراد کسی کے جہنم میں جانے کی گواہی دینا ہے۔ بعض ایسے اقوال بھی ہیں جن سے حدیثِ رسولﷺ کی بظاہر تکذیب ہوتی ہے،لیکن اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی نیا نیا مسلمان ہوتا یا اس کی تربیت غیر اسلامی خطوط پر ہوتی ہے تو ایسا شخص کسی حدیث کا انکار بھی کرے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، پہلے اس پر حجت قائم کی جائے گی۔ اور کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص نے شرعی نص سنی ہی نہیں ہوتی یا اگر سنی ہوتی ہے تو وہ اسے صحیح ثابت شدہ نہیں سمجھتا یا اس کے نزدیک کسی دوسری نص کے معارض ہوتی ہے۔ ایسی صورتوں میں بھی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ [3]
9.  قاضی: آپ کی ان لوگوں کے بار ےمیں کیا رائے ہے جوآپ کے مخالف ہیں اور آپ کی طرف تکفیر کی نسبت کرتےہیں؟
ابن تیمیہ: اہل سنت اور اہل علم اپنے مخالفین کی تکفیر نہیں کیا کرتے۔ چاہے مخالف ان کے بارے میں تکفیر کی رائے ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔ کیونکہ تکفیر ایک شرعی حکم ہے۔ انسان کو اس طرح انتقام نہیں لینا چاہیے۔ جیسے کوئی شخص کسی پر بہتان طرازی کرے اور اس کی بیوی سے زنا کرے تو متاثرہ فریق کے لیے مناسب نہیں کہ وہ بھی انتقاماً ایسی ہی روش اپنائے۔ کیونکہ بہتان اور زنا حرام ہیں، یہ اللّٰہ کے حقوق میں دخل اندازی ہے۔ [4]
10.  قاضی : توپھر آپ کی ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے ہے جو آج کشادہ دلی سے ہر ایک کی تکفیر کرتے پھرتے ہیں؟
ابن تیمیہ: میری صحبت میں بیٹھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ میں نے لوگوں کو سب سے زیادہ جس چیز سے منع کیا ہے وہ ’تکفیر معین‘ ہے۔ اسی طرح فسق و معصیت کی تعیین سے منع کیا[5] ہے۔ البتہ جب کسی پر شرعی حجت قائم ہوجائے۔ اور شرعی حجت کا انکار کرنے والا کبھی کافر، کبھی فاسق اور کبھی عاصی ہوتا ہے۔ اور کئی بار یہ واضح کرچکا ہوں کہ علمی آرا میں سلف سے منقول تکفیر مطلق ہے، جو بالکل درست ہے۔ لیکن مطلق اور معین تکفیر میں فرق ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ [6]
11.  قاضی : آپ کی ایسے گروہوں سے قتال کرنے کے بارے میں کیا رائے ہے جو اسلام کو جزوی طورپر لیتے ہیں؟ اور یہ کون ہیں؟
ابن تیمیہ: ہر ایسے گروہ کے خلا ف جہاد وقتال کرنا فرض ہےجو اسلام کو جزوی طورپر لیتا ہے۔ اور ان سے اس وقت تک قتال کیا جائے جب تک وہ مکمل اسلام کو نہ اپنا لے۔ چاہے وہ زبان سے کلمہ شہادت کا اقرار بھی کریں اور اسلام کی بعض تعلیمات پر عمل بھی کریں[7]۔ جیسے سیدنا ابوبکر صدیق﷜ نے مانعین زکاۃ کے خلاف قتال کیا تھا۔ جس میں حضرت عمر﷜ اور دیگر صحابہ﷢ نے بھی آخر کار اتفاق کرلیا تھا۔ یہ اسلام کے حقوق کا مسئلہ اور کتاب و سنت پر کلی طورپر عمل کرنے کا مسئلہ تھا۔ چنانچہ ہر وہ گروہ جوفرضی نماز، روزہ، حج یا جان ، مال، شراب اور زنا کی حرمت میں سے کسی چیز کا انکار کرے وہ ایسا ہی گروہ ہے جو اسلام کو جزوی طورپر لیتا ہے۔ان سے قتال کیا جائے گا چاہے وہ اسلام کا اقرار ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ یہ امت کا اتفاقی و اجماعی مسئلہ ہے اور محقق علما کے نزدیک ایسے اسلام پر جزوی عمل کرنے والے لوگ امام کے خلاف خروج کرنے والے یا باغیوں جیسے نہیں ہیں ، نہ ہی ان اہل شام کی طرح امام کی اطاعت سے باہر نکلنے والے ہیں، جو امیر المؤمنین سیدنا علی کے خلاف نکلے تھے، کیونکہ یہ تو وہ لوگ تھے، جو ایک متعین حاکم کے خلاف نکلے تھے یا اس کی حکومت ختم کرنے کے لئے نکلے تھے ۔بلکہ یہ تو جزوی اسلام پر عمل کرنے والے دراصل امام کی بجائے اسلام سے نکلنے والے ہیں اور مانعین زکاۃ او ران خارجیوں کی طرح ہیں ، جن سے سیدنا علی نے لڑائی کی تھی۔
لہٰذا ایسا گروہ جو اسلام کی جزوی تعلیم کو مانتا ہے، ان کے خلاف قتال ان مانعین زکاۃ کی طرح یا خوارج کی طرح ہے جن کے خلاف حضرت علی﷜ نے قتال کیا تھا۔ اور جائز قتال کی اصل درحقیقت جہاد ہے، جس کا مقصد اللّٰہ کے دین کو کاملا اس کے لئے خالص کردینا اور اس کے کلمہ کو سربلند کردینا ہوتا ہے۔ جو شخص بھی اس کی راہ میں رکاوٹ بنے، (یعنی اسلام پر کامل عمل نہ کرے) تو اس کے خلاف قتال کرنے میں سب کا اتفاق ہے۔ [8]
12.قاضی : آج بعض لوگ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے قتل کو آپ کی طرف منسوب کیوں کرتےہیں؟
ابن تیمیہ : بچوں، عورتوں ، بزرگوں، اندھوں اور راہبوں میں سے جو قتال میں شرکت نہ کریں تو جمہور علماء کا موقف انہیں قتل نہ کرنے کا ہے۔ البتہ اگر وہ اپنے قول و فعل سے مقابلہ کی کوشش کریں تو ان کا قتل جائز ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کے ہاں بس ان کے کفر کی وجہ سے قتل کرنا جائز ہے۔ وہ بھی اس میں عورتوں اوربچوں کو مستثنیٰ کرتے ہیں۔ یہ قتل و قتال کی اجازت اللّٰہ نےمخلوق کی اصلاح کی خاطر دے رکھی ہے۔ قرآن میں ہے کہ فتنہ قتل سے زیادہ بدتر ہے۔ یعنی اگرچہ قتل میں بھی شرو فساد ہے لیکن فتنۂ کفار کا شرو فساد اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ تاہم جو مسلمانوں کے لیے اقامتِ دین کی جدوجہد میں رکاوٹ نہ ہو، اس کا کفر نقصان دہ نہیں۔ اس کا کفر صرف اسی تک محدود ہے۔ [9]
13.  قاضی: آپ کا حکم بغیر ما أنزل اللهکے بارے میں کیا موقف ہے؟ اوران لوگوں کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں جو حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں؟
ابن تیمیہ: حقیقت یہ ہے جو حکم بما أنزل اللهکے وجوب کا قائل نہیں وہ کافر ہے۔ جو اللّٰہ کے قانون کو چھوڑ کر فیصلے کے جواز کا اصلاً قائل ہے وہ کافر ہے۔ ہر اُمت کو عدل کے مطابق فیصلے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور ہر اُمت کا عدل اس کے دین میں منحصر ہے۔ اور بعض لوگوں نے عدل اپنے دینی اکابر کی آرا کو بنا رکھا ہے ، بہت سے لوگ خود کو مسلمان تو کہلاتے ہیں لیکن اپنی دیہاتی رسوم ورواجات یا ان کے قبائلی سرداروں کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جو اللّٰہ کی شریعت کےمطابق نہیں، یہ سب کفر ہے۔[10]
14.  قاضی : آپ کے نزدیک تکفیر کی شرائط کیا ہیں؟
ابن تیمیہ: اگر مسلمانوں میں سے کوئی غلطی یا خطا کرے تو اس کی تب تک تکفیر نہ کی جائے جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو جائے۔ اس کے سامنے حجت واضح نہ کی جائے۔اس کے بعد تکفیر کی کچھ شرائط اور موانع ہیں۔ تکفیر معین میں ان کا خیال ضرور رکھا جاتا ہے۔ تکفیر مطلق سے تکفیر معین بس اسی وقت لازم آتی ہے جب شرائط پوری ہو ں اور موانع نہ پائے جائیں۔ [11]
15.  قاضی: آپ کی خوارج کے بارے میں کیا رائے ہے جو مسلمانوں کی تکفیر کے قائل ہیں؟
ابن تیمیہ : خوارج مارقين یعنی ’دین سے نکل جانے والے‘ ہیں۔ رسول اللّٰہﷺ نے ان سے قتال کا حکم دیا ہے۔ تاہم سیدنا علی بن ابوطالب، سعد بن ابی وقاص وغیرہ جیسے جلیل القدر صحابہ ﷢ نے ان کی تکفیر نہیں کی۔ اور ان سے قتال کرنے کے باوجود انہیں مسلمان ہی کہا ہے۔ اور سیدنا علی﷜ نے بھی تب ان سے قتال کیا تھا جب اُنہوں نے مسلمانوں کا خون بہایا اور مال لوٹ لیا۔ ان کے ظلم اور سرکشی کو ختم کرنے کے لیے ان سے قتال کیا۔ ان کی کفر کی وجہ سے نہیں۔ چنانچہ ان کی بیویوں کو لونڈیاں نہیں بنایا، ان کے مال کو غنیمت نہیں سمجھا۔ ان کی گمراہی نص اور اجماع سے ثابت ہونے کے باوجود صحابہ ﷢ نے ان کی تکفیر نہیں کی۔ حالانکہ رسول اللّٰہﷺ نے ان سے قتال کا حکم بھی دیا ہے۔ [12]
16.  قاضی : ہم آپ کے پیروکاروں میں توحید کا بہت تذکرہ سنتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ابن تیمیہ: ہمارا ایمان ہے جو اس کائنات کےنظام پر غور کرے گا اسے معلوم ہوگا کہ اس میں ہر خیر توحیدِالٰہی، عبادت اور اطاعتِ رسول کی وجہ سے ہے۔ اور اس میں ہر شر جیسے فتنے، آزمائشیں، قحط اور دشمنوں کا تسلط و قبضہ وغیرہ یہ سب رسول کی مخالفت اور غیراللّٰہ کی دعوت کی وجہ سے ہے۔ جو اس میں غور کرے گا وہ اس حقیقت کو اسی طرح ہی پائے گا۔
17.  قاضی : آپ کی صوفیا کے بارے میں کیا رائے ہے؟ ...وہ مسلمان ہیں یاکافر؟
ابن تیمیہ: لفظ صوفی پہلی تین صدیوں میں معروف نہیں تھا، یہ اس کے بعد مشہور ہوا ہے۔ صوفی کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ ایک رائے کے مطابق قرشی و مدنی کی طرح یہ ایک نسبتی نام ہے۔ دوسری رائے کے مطابق یہ ’صوف‘ کا لباس پہننے والوں کو کہا جاتا ہے۔ صوفیت کا آغاز بصرہ سے ہوا تھا۔ عبد الواحد بن زید جو کہ صوفیا کا شیخ اور واعظ ہے، کے ساتھیوں نے سب سے پہلے خانقاہ بنائی تھی۔ بعد میں سیدنا حسن بصری وغیرہ نے ان سے اپنی نسبت قائم کرلی۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللّٰہ کی اطاعت میں اسی طرح محنت کرتے ہیں جس طرح دیگر نیک لوگ کرتے ہیں۔ بعض ان میں سے اپنی محنت کی وجہ سے السابقون الأولون میں شامل ہو جاتے ہیں۔ کچھ مقتصِد ہوتے ہیں جو اہل یمین بھی ہوتے ہیں۔ اور ان دونوں قسموں والوں میں سے بعض لوگ محنت کے دوران خطا بھی کھاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ توبہ کرتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ اُنہیں ظالم لنفسہٖ کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے ربّ کے نافرمان ہیں۔ بعض اہل بدعت اور زندیق لوگ بھی خود کو صوفی کہتے ہیں۔ لیکن محقق اہل تصوف انہیں تسلیم نہیں کرتے، جیسے منصور حلاج ہے۔ اس میدان کے اکثر مشائخ نے انہیں تسلیم نہیں کیااورانہیں اس سے نکال دیا ہے۔ سید الطائفہ جنید بن محمد وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ [13]
18.  قاضی : کیا آپ اس سے پہلے جہاد و قتال کی سرگرمیوں میں شامل ہوچکے ہیں؟
وکیل صفائی: معزز عدالت سے التماس ہے کہ مجھے بولنے کا موقع دیا جائے۔ اس نکتہ کے حوالے سے میں اپنے موکل امام ابن تیمیہ کی طرف سے چند توضیحات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
میرے موکل امام ابن تیمیہ نے اُمتِ مسلمہ کی بھلائی اور دفاع کے لیے عظیم خدمات سرانجام دیں ہیں۔ 699ھ میں معرکۂ قازان میں جب شام پر محمود قازان کی زیرقیادت تاتاری یورش ہوئی تھی اور ناصر محمد بن قلاوون کی فوج شکست سے دوچار ہوئی گئی تھی۔ اور تاتاریوں نے فواحش و منکرات اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا تو تب ابن تیمیہ نے اعیان سلطنت اور علما کو جمع کیا۔ سب متفقہ طورپر قازان تاتاری کے پاس گئے اور اس سے اہل دمشق کے لیے امان طلب کی۔ سب کی موجودگی میں ابن تیمیہ نے وہاں قازان کے ساتھ سخت اور مدلل گفتگو کی، اس سے مسلمانوں کو بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ پھر امام ابن تیمیہ دمشق آئے۔ اور امیر قلعہ ارجواش کو ہر حال میں قلعہ کی حفاظت پر آمادہ کیا۔ ارجواش نے آپ کی نصیحتوں پر عمل کیا۔ چنانچہ قلعہ ناقابل تسخیر ہوگیا۔ تاتاری کئی مہینے اسے فتح کرنے کوشش میں لگے رہے، آخرکار ناکام ہوگئے۔ قلعہ کی حفاظت سے اہل دمشق تاتاری حملہ سے محفوظ رہے۔ ابن تیمیہ ایک دفعہ پھر تاتاری سردار کے خیمہ کی طرف گئے۔ اسے مسلمان قیدیوں کی رہائی پر آمادہ کیا۔ بلکہ ابن تیمیہ نے اس کے سامنے مسلمانوں اور اسلام کے عفو ودرگزر کی مثالیں بیان کیں۔ ذمیوں کے ساتھ اسلامی ریاست کا سلوک بیان کیا۔ ان عیسائیوں کو رہا کرنے کی بات کی جنہیں تاتاریوں نے بیت المقدس سے قید کرلیا تھا۔ بلکہ ذمیوں کی رہائی مسلمانوں کی رہائی کے ساتھ مربوط کردی۔ قطلو شاہ جو کہ تاتاری کمانڈر تھا، وہ تمام قیدیوں کی رہائی پر آمادہ ہوگیا۔
دمشق پر تاتاری حملہ کے وقت امام ابن تیمیہ نے بہت اہم کردار کیا۔ وہ ہر رات دیواروں پر چڑھتے۔ عوام اور مجاہدین کو صبر وقتال کی تلقین کرتے۔ ان پر جہاد اور رباط کی آیات تلاوت کرتے۔ قلعہ کا دفاع مضبوط کرتے۔ لوگوں کی زندگیوں پر اس کا روحانی اثر پڑا۔ اُنہوں نے قتال میں صبرو ثبات کا مظاہرہ کیا۔
700ھ ؍1300ء میں جب شام پرایک بار پھرتاتاری یورش کی اطلاعات مسلسل آرہی تھیں تو دمشق کی فضا خوف زدہ تھی۔ لوگ اپنا سامان سفر باندھ رہے تھے۔ اشیا کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگی تھیں۔ کئی اعیان سلطنت، علما اور قضاۃ شہر چھوڑ کر مصر کی طرف جا رہے تھے۔ ان حالات میں ابن تیمیہ جم گئے۔ دمشق کی جامع مسجد میں لوگوں کو خطبہ دیا۔ قتال، صبر اور ثابت قدمی کی تلقین کی، تاتاریوں کے خلاف لڑنا ان پر فرض کیا۔ لوگ پرسکون ہوگئے اوران کے دل مطمئن ہوگئے۔[14]
حوالہ جات

[1]     رَأْسُ الْإِسْلَامِ: وَهُوَ شَهَادَةُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ. وَلَهُ ضِدَّانِ: الْكِبْرُ وَالشِّرْكُ(مجموع فتاوى:7/623)

[2]     فَمَا كَانَ فِي الْقُرْآنِ وَجَبَ اعْتِقَادُهُ وَكَذَلِكَ مَا ثَبَتَ فِي الْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ (مجموع فتاوى:3/161)
[3]     لَا يَكْفُرُ بِجَحْدِ مَا يَجْحَدُهُ حَتَّى تَقُومَ عَلَيْهِ الْحُجَّةُ (مجموع فتاوى:3/231)
[4]    أهل العلم والسنة لا يكفرون من خالفهم، وإن كان ذلك المخالف يكفرهم. (الرد على البكري:260)
[5]     أَنِّي مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ نَهْيًا عَنْ أَنْ يُنْسَبَ مُعَيَّنٌ إلَى تَكْفِيرٍ وَتَفْسِيقٍ وَمَعْصِيَةٍ (مجموع فتاوى:3/229)
[6]   ابن تیمیہ کی تکفیر کے بارےمیں یہ رائے ہے۔ جبکہ آج جاہل لوگ ہر ایک کی تکفیر کرتے پھرتےہیں۔ حالانکہ تکفیر معین حجت قائم ہونے کے بعد ہونی چاہیے۔ اگرچہ معاشرے میں بعض بدعات شدید نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن جو ایک بار ایمان لے آیا، اس کا کفر حجت کے بعد ہی ثابت ہوتا ہے۔ یعنی حجت قائم ہونے کے بعد بھی اگر وہ اپنے انکار پر بضد اور مصر رہے۔ یہ ایک ’اجماعی‘ مسئلہ ہے جس پر علماے امت کا اتفاق ہے۔
[7]     يَجِبُ قِتَالُهُمْ حَتَّى يَلْتَزِمُوا شَرَائِعَهُ وَإِنْ كَانُوا مَعَ ذَلِكَ نَاطِقِينَ بِالشَّهَادَتَيْنِ (مجموع فتاوى:28/502)
[8]     الطَّائِفَةَ الْمُمْتَنِعَةَ تُقَاتَلُ عَلَيْهَا وَإِنْ كَانَتْ مُقِرَّةٌ بِهَا وَهَذَا مَا لَا أَعْلَمُ فِيهِ خِلَافًا (مجموع فتاوى28/503)
[9]     وَأَمَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْ أَهْلِ الْمُمَانَعَةِ وَالْمُقَاتِلَةِ كَالنِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَالرَّاهِبِ وَالشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْأَعْمَى وَالزَّمِنِ وَنَحْوِهِمْ فَلَا يُقْتَلُ عِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ؛ إلَّا أَنْ يُقَاتِلَ بِقَوْلِهِ أَوْ فِعْلِهِ... (مجموع فتاوى: 28/ 354)
[10]   فَعَلَى جَمِيعِ الْخَلْقِ أَنْ يُحَكِّمُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، لَيْسَ لِأَحَدِ أَنْ يَخْرُجَ عَنْ حُكْمِهِ فِي شَيْءٍ سَوَاءٌ كَانَ مِنْ الْعُلَمَاءِ أَوْ الْمُلُوكِ أَوْ الشُّيُوخِ أَوْ غَيْرِهِمْ. (مجموع فتاوى:35/ 363)فَالشَّرْعُ هُوَ الْعَدْلُ وَالْعَدْلُ هُوَ الشَّرْعُ وَمَنْ حَكَمَ بِالْعَدْلِ فَقَدْ حَكَمَ بِالشَّرْعِ (أيضًا:35/ 366)
[11]   وَلَيْسَ لِأَحَدِ أَنْ يُكَفِّرَ أَحَدًا مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَإِنْ أَخْطَأَ إلَّا بَعْدَ إقَامَةِ الْحُجَّةِ وَإِزَالَةِ الشُّبْهَةِ. (12/ 466)
[12]   وكَلَامُ عَلِيٍّ وَغَيْرِهِ فِي الْخَوَارِجِ يَقْتَضِي أَنَّهُمْ لَيْسُوا كُفَّارًا كَالْمُرْتَدِّينَ عَنْ أَصْلِ الْإِسْلَامِ(28/513، 518)
[13]   أَمَّا لَفْظُ "الصُّوفِيَّةِ" فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ مَشْهُورًا فِي الْقُرُونِ الثَّلَاثَةِ وَإِنَّمَا اُشْتُهِرَ التَّكَلُّمُ بِهِ بَعْدَ ذَلِكَ.. (11/ 5)
[14] امام ابن تیمیہ کے جہاد و قتال اور اس کے لیے تلقین وتبلیغ کی داستانیں ان کے سوانح نگاروں نے تفصیل سے لکھی ہیں، بطور مثال آپ کے شاگردِ رشید امام ابن عبد الہادی کی کتاب العقود الدّرية ( 196 تا 207)ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔