سیدنا عیسیٰ کے خالق اور عالم الغیب ہونے کی حقیقت
سوال نمبر1: جناب مسیح کو قرآن مجید خالق کہتا ہے اور یہ لفظ صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ پر ہی بولا جاتا ہے:
﴿ وَإِذ تَخلُقُ مِنَ الطّينِ كَهَيـَٔةِ الطَّيرِ بِإِذنى فَتَنفُخُ فيها فَتَكونُ طَيرًا... ﴿
١١٠﴾... سورة المائدة
’’ (اللّٰہ تعالیٰ مخاطب ہے: جناب مسیح ) اور جب تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل تخلیق کرتے تھے جیسے پرندے کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا۔ ‘‘
دوسرے مقام پر جناب مسیح کا جواب یوں نقل ہواہے:
﴿أَنّى أَخلُقُ لَكُم مِنَ الطّينِ كَهَيـَٔةِ الطَّيرِ فَأَنفُخُ فيهِ فَيَكونُ طَيرًا بِإِذنِ اللَّهِ...﴿
٤٩﴾... سورة آل عمران
’’ میں تمہارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ تخلیق کرتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔‘‘
جواب: گمراہ لوگ ہمیشہ سے سیدھی بات کو ٹیڑھا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ ملاحظہ کریں:
اوّل: اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کی صراحت میں تین اوصاف کا تذکرہ کیا ہے:
’’ہر چیز پیدا کرنے والا۔‘‘ (الزمر: ۶۲)
’’ بغیر ماڈل اور نمونے کے نئے سرے سے پیدا کرنے والا۔‘‘ (الحشر: ۲۴)
’’کسی بھی چیز کو صحیح انداز ے اور تخلیق کے تقاضوں کے مطابق عدم سے وجود میں لانے والا‘‘ یعنی ’الباری‘
[1]
’’اور یہ صرف اللّٰہ تعالیٰ کی صفت ہے ۔‘‘
جبکہ اپنے علاوہ اگر کسی کو خالق ہونے کا تذکرہ کیا تو یہ وصف مقید اور خاص چیز میں تھا ، جیسا کہ حضرت عیسیٰ کے حوالے سے استدلال میں تذکرہ ہوا یعنی ان کو فقط مٹی سے پرندے کی شکل بنانے کے سبب خالق کہا گیا اور یہ شکل بھی اُنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے بنائی۔ کیا ایسی شخصیت اللّٰہ ہو سکتی ہے؟
دوم : مٹی سے پرندے کی شکل بنانا کونسا مشکل کام ہے۔ یہ تو عام لوگ بھی بناتے ہیں ، اس میں کونسی کاریگری ہے تو ان کو بھی اللّٰہ کہنا چاہیے؟ دراصل بات یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کبھی بھی انسانوں کو تصویر سازی اور بت بنانے کی اجازت نہیں دی ، صرف عیسیٰ کو خاص اجازت مرحمت فرمائی، اسی لیے ان کی خصوصیات میں یوں ذکرآیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے بھی اللّٰہ تعالیٰ کی اجازت اور اِذن کا تذکرہ ہے۔
بہر حال ان کا اصل معجزہ اس شکل میں پھونک مارنا ہے جو اللّٰہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا۔
سوم: مسیحی حضرات کا استدلال چونکہ قرآن مجید سے ہے۔ لہٰذا جب مکمل الفاظ سامنے رکھتے ہیں تو ان کی بنیاد ریت سے بنی نظر آتی ہے۔ وہ اس طرح کہ یہاں تو اس کی بھی وضاحت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے پرندے کی شکل اللّٰہ تعالیٰ کے حکم و اجازت سے بنائی ، تو کیا جو کسی سے اجازت کا محتاج ہو، وہ اللّٰہ ہو سکتا ہے ؟
چہارم: اگر جناب مسیح خود ہی اللّٰہ ہیں اور وہ خود ہی کام کرنے کے لیے خود سے ہی اجازت لیں ، تو یہ بالکل ناممکن اور فضول بات ہے ۔
[2]
پنجم: جناب مسیح نے تو صرف پرندے کی شکل بنائی جس کو اُنہوں نے دلیل بنا کر خدائی کا رتبہ دینا چاہا ۔ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون کے معجزے سے بے شمار جوئیں بنیں اور وہ بھی جیتی جاگتی۔لکھا ہے :
’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہا۔ ہارون نے اپنی لاٹھی لے کر اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اور زمین کی گرد کو مارتا کہ وہ تمام ملکِ مصر میں جوئیں بن جائے۔انہوں نے ایسا ہی کیااور ہارون نے اپنی لاٹھی بڑھا کر زمین کی گرد کو مارا اور انسان اور حیوان پر جوئیں ہو گئیں۔اور تمام ملک مصر میں زمین کی ساری گرد جوئیں بن گئیں اور جادو گروں نے کوشش کی کہ اب جادو سے جوئیں کریں، لیکن ایسا نہ کر سکے اور انسان اور حیوان دونوں پر جوئیں
[3] چڑھتی رہیں۔‘‘
[4]
ظاہر ہے کہ یہ کام اللّٰہ کے حکم سے ہوا تھا، لہٰذا حضرت ہارون کا معجزہ ہے جو کہ ان کی نبوت پر دلالت کرتا ہے، نہ کہ خدائی پر۔
ششم :اگر لفظ تخلیق (پیدا کرنا) کے سبب جناب عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی کو ثابت مان لیا جائے تو بائبل میں اس طرح تو کئی خدا سامنے آجائیں گے، جیسے :
$1a آشر نفیس اناج پیدا کیا کرے گا۔
[5]
$1b زمین اپنے نباتات پیدا کرتی ہے۔
[6]
$1c ان تمام گناہوں کو جن سے تم گنہگار ہوئے، دور کرو اور اپنے لیے نیا دل اور نئی روح پیدا کرو۔
[7]
$1d اے اُستاد! ہمارے لیے موسیٰ نے لکھا ہے کہ اگر کسی کا بھائی بے اولاد مر جائے اور اس کی بیوی رہ جائے تو اس کا بھائی اس کی بیوی کو کر لے گا کہ اپنے بھائی کے لیے نسل پیدا کرے۔
[8]
$1e انجیل لوقا میں بھی اسی طرح ’پیدا کرنے‘ کے الفاظ
[9] ہیں۔ گو ان عبارات کو مفہوم اپنی جگہ واضح ہے لیکن ہم نے صرف ان کو محض لفظ کے استعمال کی تردید کے لیے بیان کیا ہے۔ یعنی ایک لفظ دو مختلف شخصیات پر بولنے سے ان دونوں کا ہر ایک معاملے میں یکجا ہونا لازم نہیں آتا۔
ہفتم: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ خَالق دو مفہوم کے لیے آتا ہے :
اوّل: ظاہری شکل و صورت بنانا، اس اعتبار سے اللّٰہ کے علاوہ کے لیے بھی بولا گیا ہے جیسا کہ فرمان باری ہے :
﴿فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحسَنُ الخـلِقينَ ﴿
١٤﴾... سورة المؤمنون
’’سو بہت برکت والا ہے اللّٰہ جو بنانے والوں میں سب سے اچھا ہے۔‘‘
اس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث نبوی سے بھی ہوتی ہے جس میں قیامت کے دن تصویریں بنانے والوں کو اللّٰہ تعالیٰ ڈانٹتے ہوئے فرمائے گا:
«اَحیُوا مَا خَلَقتُم» [10] ’’ تم نے جو خلق کیا، اسے زندہ کرو۔‘‘
حوالہ جات:
[1] تفسیر اضواء البیان8؍123، تفسیر سورۃ الحشر:آيت 24
[2] مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ۴؍۲۷تا ۳۳
[3] کیتھولک فرقے کے مطابق مچھر بنے تھے جبکہ پروٹسٹنٹ کی بائبل میں جوؤں کا لفظ ہے۔ دوسرا اختلاف یہاں یہ ہے کہ کیتھولک بائبل کے مطابق جادو گروں نے ان مچھروں کو اپنے جادو کے زور پر بھگانے کی کوشش کی جبکہ پروٹسٹنٹ بائبل میں ہے کہ جادو سے اُنہوں نے بھی مزید جوئیں پیدا کرنے کی کوشش کی۔
[10] صحيح بخاری: البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ ۔ ح ۲۱۰۵