مقدمہ ختم نبوت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سوالات کے جوابات
کیا ریاست قادیانیوں کو مسلمان قرار دے سکتی ہے؟ اور کیا یہ بنیادی حقوق میں مداخلت نہیں؟
گذشتہ شمارے میں مقدمہ ختم نبوت کی تفصیلات ،تمہیدی گذارشات اور تین بنیادی حقائق کی مدلل وضاحت کے بعد اب آتے ہیں ان چھ سوالات کی طرف جو فاضل عدالت نے معاونین کے سامنے رکھے:
پہلا سوال: کیا اسلامی ریاست کوئی ایسا قانون وضع کرسکتی ہے جس سے کسی غیر مسلم کو بالواسطہ یا بلا واسطہ
بطورِ مسلم تصور اور شناخت کیا جائے؟
1974ء میں پاکستانی ریاست نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا تھا۔ پیش نظر سوال اس کے برعکس ہے کیونکہ ’الیکشن اصلاحات بل‘ کے تناظر میں یہی مسئلہ قوم کو درپیش رہا۔ سادہ الفاظ میں
’’کیا قادیانیوں کو مسلمان قرار دینے کا قانون بنایا جاسکتاہے؟‘‘
اس سوال کا قانونی ؍تکنیکی جواب تو یہ ہے کہ پاکستان میں نافذ العمل قانون کے کئی درجے ہیں: دستورِ پاکستان کا بالاتر قانون،ایکٹ وغیرہ کے ذیلی قوانین ،عدالتوں کے ذریعے قانون کی تشریحات وغیرہ اور عارضی نوعیت کے صدارتی آرڈیننس۔ حال ہی میں امین وصادق کیس میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ
’’چونکہ دستور میں تبدیلی کل ایوان کی دو تہائی اکثریت سے ہوتی ہے جبکہ قانونی ایکٹ وغیرہ حاضر ارکان کی سادہ اکثریت سے پاس ہوتے ہیں۔ چنانچہ پارٹی سربراہ کے لئے امین وصادق کی شرط ختم کرنے کا ذیلی ایکٹ ، دستور کی دفعہ 62 کے منافی ہونے کی بناپر غیرآئینی ہے۔ ماتحت قانون کے ذریعے آئین کو بائی پاس نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
[1]
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ
’’پارلیمنٹ آئین سے متصادم قانون نہیں بنا سکتی، پارلیمنٹ کے اوپر بھی ایک چیز ہے وہ آئین ہے۔ کل کہا گیا: سپریم کورٹ قانون میں مداخلت نہیں کرسکتی،قانون سازی کے جائزے کا اختیار رکھتی ہے۔‘‘
[2]
یہی صورت حال یہاں بھی ہے کہ آئین کا آرٹیکل 260 جو مسلم و غیرمسلم کی تعریف کرتا ہے، میں تبدیلی ذیلی قوانین یعنی ’الیکشن اصلاحات بل‘ وغیرہ کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔ اور اس دستوری بنیاد کو تبدیل کرنے کے لئے کل ایوان کی دوتہائی اکثریت درکار ہے۔
جہاں تک فاضل عدالت کے فیصلے کا تعلق ہے تو یہ عدالت بھی اپنے فیصلوں میں دستور کی پابند ہے ۔
نیز ’امتناع قادیانیت کے قانون 1984ء ‘کی بھی پابند ہے جس کے تحت قادیانیوں کے لئے اسلامی شعائر کا استعمال اور اسلام کے نام پر اپنے قادیانی مذہب کی تبلیغ قابل سزا جرم ہے جیساکہ پیچھے اس کا متن گزر چکاہے ۔
نیز اسلام آباد ہائیکورٹ ، سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کی بھی پابند ہے جیسا کہ پیچھے ’دستور پاکستان اور اسلام‘ کے نکتہ نمبر 12 (آرٹیکل 203 زز )میں اس پابندی کو واضح کردیا گیا ہے۔
کیا کوئی جج کسی مجرم کی سزا یا حیثیت کو قانون سے ماورا ختم کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ پاکستانی جج پاکستانی قانون کا پابند ہے اور اس کا قانون سے ماورا ہر اقدام ناقابل اعتبار ہے۔
اس سوال کا شریعت کی روشنی میں جواب یہ ہے کہ
دستورِ پاکستان کا پہلا جملہ حاکمیتِ الٰہیہ یعنی ’’اقتدارِ اعلیٰ اللّٰہ کے لئے ہے ۔‘‘کی اساس کو واضح کرتا ہے جس کا مطلب قرآن وسنت کی حاکمیت ہے او راسلام میں حاکم کی اطاعت حاکمیت ِ الٰہیہ سے مشروط ہے،سو مسلم حکام(ریاست
[3]) بھی شرعی اُصولوں کے پابند ہیں اور اُن سب نے اپنے حلف نامے میں اس کا عہد کیا ہے۔ ان کے اقدامات واختیارات کا میزان شرعِ اسلامی ہے اورہمارا دستور بھی قرآن وسنت کو اپنے سے بالاتر قرار دینے کا تصور پیش کرتا ہے ۔پاکستانی حکام کا فرض ہے کہ معاشرے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی اللّٰہ اور اس کے رسول کے احکام کو جاری وساری کریں، جیسا کہ تمہیدی عنوان نمبر ایک میں ریاست کا فریضہ بیان کردیا گیا ہے۔ اگر حکام کا کوئی اقدام اس دائرۂ اختیار میں آتا ہے جو قرآن وسنت نے اُنہیں دیا ہے تو وہی اقدام درست ہوگا ، وگرنہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کی بنا پر شرعا ًناقابل قبول ہوگا اورقانوناً اس کا محاسبہ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت میں کیا جائے گا۔
جہاں تک خلافِ شرع امر کو حکومت کی طاقت سے جاری کردینے کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ شرعاً اس کا کوئی اعتبار نہیں اور یہ اپنے فرائض میں کوتاہی بلکہ اللّٰہ کی دی ہوئی منصبی امانت میں سراسر خیانت ہے جس کی آخرت میں سنگین سزا ہے ، سیدنا معقل بن یسار سے یہ فرمان نبوی ﷺمروی ہے:
«مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللهُ رَعِيَّةً، يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.»[4]
’’ کوئی ایسا بندہ جسے اللّٰہ رعایا پرنگران بناتا ہے اور مرنے کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ اپنی رعیت سے دھوکا کرنے والا ہے تو اللّٰہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔‘‘
بطورِ مثال اسلامی ریاست نبی کریم ﷺکی نبوت کو منسوخ یا غیرضروری قرار دے دے یا نماز کو منسوخ قرار دے دے تو اس قانون کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ ریاست ؍حکومت کا یہ اختیار خلاف ِ اسلام اُمور میں غیرمعتبر ہے اور اس پر واضح فرامین نبویہ موجود ہیں، سیدنا عبد اللّٰہ بن عمرؓ سے مروی کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ عَلَيْهِ وَلَا طَاعَةَ»[5]
’’جب تک معصیّت کا حکم نہ دیاجائے مسلمان پر سمع وطاعت لازم ہے خواہ وہ پسندکرے یا ناپسندکرے اور اگر اسے معصیت کا حکم دیاجائے تو نہ اس کے لیے سنناضروری ہے اورنہ اطاعت کرنا۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
فإذا أمروا بمعصية الله فَلَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ فَإِنْ تَنَازَعُوا فِي شَيْءٍ رَدُّوهُ إلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ ﷺ، وَإِنْ لَمْ یَفْعَلْ وُلَاةُ الْأَمْرِ ذَلِكَ، أُطِيعُوا فِيمَا يأمرون به من طاعة الله ورسوله، لِأَنَّ ذَلِكَ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَأُدِّيَتْ حقوقهم إليهم كما أمر الله ورسوله[6]
’’جب حکام اللّٰہ کی معصیت میں کوئی حکم دیں، تو خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ۔ اگر حکام ورعایا میں اس پر تنازعہ ہوجائے تو دونوں کو قرآن وسنت پر لوٹایا جائے۔ اگر حکام ایسا نہ کریں تو ان کی اطاعت اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں بجالائی جائے گی کیونکہ یہ دراصل اللّٰہ اور اس کے رسول کی ہی اطاعت ہے۔ اور ان حکام کے حقوق ویسے ہی دیے جائیں گے جیسے اللّٰہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ۔ ‘‘
ماضی میں بھی ائمہ کرام : اما م ابو حنیفہ،اما م مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللّٰہ نے جب اُموی اور عباسی خلفا کے ناجائز شرعی اقدامات کو قبول نہیں کیا تھا اور ملتِ اسلامیہ نے ان ائمہ کو ہی حق پر سمجھا تو حتمی طورپر ثابت ہوا کہ حکام کا شریعت کے بارے میں ناجائز فیصلہ کوئی شرعی یا قانونی وزن ؍اعتبار نہیں رکھتا۔
عین اسی طرح اگر پاکستانی ریاست قادیانیوں کو مسلم قرار دے دے یا اُنہیں مسلمانوں والے حقوق عطا کرے تو خلافِ شریعت ہونے کی بنا پر اس کا کوئی شرعی اعتبار نہیں ہوگا، اور قانونی طور پر اگر پاکستانی سٹیٹ ایسا کام کرتی ہے تو یہ اپنے فریضہ اور حلف سے انحراف ہوگا، اور وفاقی شرعی عدالت میں اس کو چیلنج کرکے ختم کیا جائے گا، اور ذاتی غرض یا مفادات ثابت ہوجانے پرعدالت اس کی سنگین سزا بھی عائد کرسکتی ہے۔
جب قادیانی اُمت مسلمہ کے اجماع کی بناپر کافر ہیں، اور پاکستانی دستور بھی اسی کو ثابت کرتا ہے، تو پھر ایک خلافِ حقیقت بات کو ریاست کی طاقت پر قائم کرنا ایسے ہی ہےجیسے مرد کو عورت یا سیاہ کو سفید قرار دے دینا۔
ریاست کب کسی قادیانی کو مسلمان قرار دے سکتی ہے ؟
ریاست ایسا اس وقت کرسکتی ہے جب قادیانی اپنی جھوٹی نبوت سے انکار کردیں، توبہ کرکے اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کرلیں، اور اس اصلاح پر علما ے کرام کی شہادت قائم ہوجائے اور علمااپنے ماضی کے اتفاق کی طرح یہ متفقہ فتوٰی دیں کہ قادیانی اپنے طرزِ عمل سے تائب ہوچکے ہیں ، تب ریاست کے لئے اپنے موقف میں تبدیلی کا کوئی امکان ہوگا۔اور اگر یہ سب کچھ ہوجائے تو بظاہر قادیانیوں کو مسلمان قرار دینے کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی، کیونکہ اس وقت انہیں قادیانیت کا نام رکھنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔
قرآنِ کریم نے ارتداد اور توبہ کے اُصول بیان کئے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿إِلَّا الَّذينَ تابوا وَأَصلَحوا وَبَيَّنوا فَأُولـئِكَ أَتوبُ عَلَيهِم وَأَنَا التَّوّابُ الرَّحيمُ ﴿
١٦٠﴾... سورة البقرة
’’البتہ جن لوگوں نے توبہ کرلی اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلی اور کھلم کھلا وضاحت کردی تو میں ایسے ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہوں اور میں ہر ایک کی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہوں۔‘‘
اس کی تفسیر میں مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں:
’’صرف توبہ کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ ان کے اس کتمانِ حق سے جو بگاڑ پیدا ہوا تھا، اس کی انہیں اصلاح بھی کرنا ہوگی۔ پھر اپنی غلطی کا لوگوں کے سامنے برملا اعتراف بھی کریں تو صرف ایسے لوگوں کی اللّٰہ توبہ قبول کرے گا ورنہ نہیں ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک مصنف احکامِ الٰہی کی غلط تاویل کر کے اپنے ملحدانہ خیالات پر مشتمل ایک کتاب شائع کر دیتا ہے، بعد میں توبہ کرلیتا ہے۔ لیکن اس کے جو ملحدانہ خیالات عوام میں پھیل چکے۔ جب تک وہ ان کی تردید میں اپنی دوسری کتاب لکھ کر اس پیدا شدہ بگاڑ کی اصلاح نہ کرے گا۔ اس کی توبہ قبول ہونے کی توقع نہ ہوگی اور یہی بَيَّنُوْا کا مفہوم ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ قادیانیت سے اسلام پر واپس لوٹ آنے اور توبہ کا صرف دعویٰ کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے مطابق اپنے عقائد واعمال کی اصلاح کرنا اور اس کو لوگوں میں مشتہر کرنا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ کسی شخص کے اسلام یا غیراسلام کا علم صرف اس کی زبانی دعوے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے اعمال واقدامات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اور ان باتوں کا علم اس کے اہل محلہ، اہل مسجد، عزیز واقارب، پیشہ وارانہ ساتھیوں (پروفیشنل فیلوز)کی گواہی کی بنا پر ہوتا ہے
[7]۔چنانچہ ضروری ہے کہ جس طرح فوج میں بھرتی کے لئے کسی فرد کی باقاعدہ تحقیق و تفتیش کی جاتی ہے ،اسی طرح اہم ذمہ داریوں پر مامور افراد کا بھی عوامی جائزہ ہونا چاہیے۔اس سلسلے میں متعلقہ محلہ کی مسجد کے امام، علاقہ کے تھانے اور سپیشل برانچ کے اہل کاروں، اس کی سابقہ مصروفیات اور ساتھیوں کے بیانات اور حکومت میں میسر تفصیلات سے بھی مدد لینی چاہیے۔ حساس ذمہ داریوں کے لئے صرف کرپشن کے جائز ے پر اکتفاکیا جاتا ہے جبکہ اس میں نظریاتی کرپشن خاص طورپر قادیانیوں کی دھوکہ دہی کا جائز ہ لیا جانا ضروری ہے ۔
دوسرا سوال: کیا اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو اس امرکی اجازت دی جاسکتی ہے کہ
وہ اپنے آپ کو بطورِ مسلم ظاہر؍ پیش کریں؟
یہ سوال سادہ الفاظ میں یوں ہے کہ کیا مسلم معاشرے ؍ریاست میں غیرمسلم لوگ مسلمانوں جیسا تشخص، نام، علامتیں، لباس، عادات، بول چال، رہن سہن، اختیار کرسکتے ہیں؟ یا ان کے تشخص اور شناخت کو مسلمانوں سے ممتاز کرنا ضروری ہے ۔
جس طرح وطنیت کی بنا پر قائم 180 سے زائد ممالک میں بسنے والی دنیا کی ہر قوم ، اپنی قومی شناخت، مستقل پرچم، پاسپورٹ، شناختی کارڈ، مستقل کرنسی، قومی رنگ، قومی کھیل، قومی پھول، قومی ترانہ، قومی شارع اور قومی زبان رکھتی ہے، اسی طرح اس کائنات کے خالق نے پوری انسانیت کو دو گروپوں میں تقسیم کیا ہے: حزب اللّٰہ اور حزب الشیطان اور اس کی بھی علامتیں اور شعائر قائم کردی ہیں۔اسلام نے اپنے مستقل شعائر قائم کئے ہیں اور عیسائیوں کے ناقوس، نرسنگھا ، گرجا،یہودیوں کے تہواروں کی بجائے اذان، مسجد، عیدین اور روزے وغیرہ متعارف کرائے ہیں۔
جس طرح ہر قوم اپنی کرنسی دوسروں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور دنیا کا ہر قانون اس کا تحفظ کرتا ہے، اسی طرح اسلامی شعائر وعلامات کو بھی غیرمسلم استعمال نہیں کرسکتے۔ یہ مسئلہ کسی کی تحقیر وعداوت کا نہیں بلکہ اس مسلّمہ عالمی اخلاقی بنیاد پر قائم ہے کہ ہر شخص جو ہے، اس کو ویسے ہی ظاہر کرنا چاہئے، اپنی شناخت پر مطمئن ہونا چاہیے اور دوسروں کو مغالطہ دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
قادیانیت ایک مستقل گمراہ مذہب ہے۔ ان کا اسلام، یہودیت اور عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ پیچھے ذکر ہوچکا ہے ۔ان کی گمراہی کا فیصلہ روزِ محشرمیں اسی طرح ہی ہوگا جیسے کسی یہودی، عیسائی یا ہندو کا۔ اگر وہ اسلام کا دعویٰ سرے سے نہ کریں اور اسلامی شعائر وعلامات کو ترک کردیں تو ان کے پیدائشی بچے کافر اور اپنے ظاہری احکام کے لحاظ سے کفار کے تابع ہوں گے اور ان پر قبولِ اسلام کا کوئی جبر کرنا درست نہیں ہوگا۔ تاہم کسی ایک مذہب کا حامل ہونا اور دوسرے مذہب میں مداخلت کرنا ، دو علیحدہ باتیں ہیں۔ قادیانیوں کو اپنا گمراہ مذہب اختیار کرنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن جب وہ اس گمراہی پر شرحِ صدر سے مطمئن ہیں تو اُنہیں دعویٰ اور شناخت بھی اپنے مذہب کی ہی اختیار کرنی چاہیے۔
دھوکہ دہی ہر قوم وسماج میں ناجائز ہے، اور پاکستان کے مجموعہ تعزیرات میں دفعہ 416 اور اس کے مابعد اس کی نوعیت کے مطابق سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں۔ جب پاکستان کا دستور مذہبی شناخت کا تعین کرتا ہے اور دستور کی صورت میں غیرمسلموں نے ایک معاہدہ عمرانی کررکھا ہے تو اس کی پاسدار ی کرنا بھی ضروری ہے جس میں آرٹیکل نمبر 5 کے تحت ’’ریاست سے وفاداری بھی شامل ہے۔‘‘ اور نمبر6 کے تحت ’’کوئی شخص جو دستور کو معطل کرنے میں مدد دے تو وہ سنگین غداری کا مرتکب ہے۔ ‘‘ اور جب یہ دھوکہ دہی مذہبی شناخت کے حوالے سے ہو تو اس کے نتائج واثرات بہت سنگین ہوجاتے ہیں۔
شناخت اور تشخص کی پابندی کو تحقیر اور ذلت سے جوڑنا درست نہیں، اسلام نے غیر حربی کفار کی عیادت، ان کے جنازوں کے احترام میں کھڑے ہونا، ان سے نرمی سے پیش آنا، ان کی تالیفِ قلب کرنے اور ان سے نیک برتاؤ
[8]، اور عدل وانصاف کے عظیم احکام دیے ہیں، لیکن شناخت کا تعلق تحقیر کی بجائے غلط فہمی کو دور کرنا اور ان شرعی احکام کی پاسداری ہے جو شناخت کے بغیر پور ے نہیں ہوسکتے۔ جیسے غیرمسلم سے سلام میں پہل کرنے سے روکا گیا کیونکہ وہ بدنیتی برت سکتے ہیں، اس لئے عام معاشرے میں یہ شناخت واضح ہونی چاہیے کہ کون مسلمان ہے اور کون غیرمسلم؟
شعار اور علامت کسے کہتے ہیں اور اس باب میں شریعت کا تقاضا کیا ہے ؟
قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُحِلّوا شَعـئِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهرَ الحَرامَ وَلَا الهَدىَ وَلَا القَلـئِدَ...﴿
٢﴾... سورة البقرة
’’اے ایمان والو! اللّٰہ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو، نہ حرمت والے مہینہ کی، نہ قربانی کی اور نہ پٹے والے جانوروں کی ۔‘‘
مولانا مفتی محمد شفیع اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
’’ اس میں شعائر جس کا ترجمہ نشانیوں سے کیا گیا ہے۔ یہ شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت، اسی لئے شعائر اور شعیرہ اس محسوس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی علامت ہو ۔ شعائر اسلام ان اعمال وافعال کو کہا جائے گا جو عرفاً مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور محسوس و مشاہد ہیں جیسے نماز، اذان، حج، ختنہ اور سنت کے موافق داڑھی وغیرہ۔ شعائر اللّٰہ کی تفسیر اس آیت میں مختلف الفاظ سے منقول ہے مگر صاف بات وہ ہے جو بحر محیط اور روح المعانی میں حضرت حسن بصری اور عطاءرحمہم اللّٰہ سے منقول ہے اور امام جصاص نے اس کو تمام اقوال کے لئے جامع فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’شعائر اللّٰہ سے مراد تمام شرائع اور دین کے مقرر کردہ واجبات و فرائض اور ان کی حدود ہیں ۔ ‘‘
عربی لغت المعجم الوسیطمیں ہے:
جمع شَعِيرَة، مَظَاهِرُ العِبَادَةِ وَتَقَالِيدُهَا وَمُمَارَسَتُهَا[9]
’’یہ شعیرہ کی جمع ہے۔ جس سے مراد عبادات کی ظاہری صورتیں، رسوم اور روزمرہ عبادات ہیں۔‘‘
مولانا عبد الرحمن کیلانی اپنی تفسیرمیں شعائر کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’
شعائر شعیرہ کی جمع ہےیعنی امتیازی علامت۔ ہر مذہب اور ہر نظام کی امتیازی علامات کو شعائر کہا جاتا ہے۔ مثلاً اذان، نماز باجماعت اور مساجد مسلمانوں کے۔ گرجا اور صلیب عیسائیوں کے۔ تلک، زنار، چوٹی اور مندر ہندوؤں کے۔ کیس، کڑا اور کرپان سکھوں کے۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کے اور سرکاری جھنڈے، قومی ترانے، فوج اور پولیس کے یونیفارم وغیرہ حکومتوں کے امتیازی نشان ہوتے ہیں ۔ جن کا احترام ضروری سمجھا جاتا ہے ۔اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ کے بھی کئی شعائر ہیں ۔‘‘
[10]
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ
’’شعائر کا مفہوم یہ ہے کہ امت کی ایسی خصوصیات یا امتیازی نشانات جن سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔ اگر کوئی اسلامی ریاست برسراقتدار ہونے کے باوجود غیرمسلموں کو ایسے شعائر اسلام اختیار کرنے کی اجازت دیتی ہے جن سے امت مسلمہ کی امتیازی حیثیت متاثر ہوتی ہے تویہ اس ریاست کی غفلت اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکامی شمار ہوگی۔ریاست کے اختیار ات میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ایسے غیرمسلموں کو سزا دے جو شعائر اسلام کو اختیار کرنے سے باز نہیں آتے۔‘‘
[11]
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر طرح سے منع کردیا ، کہ مسلمان نہ تو کسی دوسری قوم کا مذہبی یا سماجی شعار استعمال کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا مذہب مسلمانوں کے شعائر استعمال کرنے کا مجاز ہے۔ اسلامی ریاست کو چاہیے کہ وہ ہر دو سمت نگرانی کرے اور مسلمان وغیرمسلم دونوں کو ایک دوسرے کی مشابہت سے روکے۔ یہ اسلامی تاریخ کی مسلّمہ روایت رہی ہے، جو خلافتِ راشدہ سے خلافتِ عثمانیہ تک بلاانقطاع مسلم معاشروں میں جاری وساری رہی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہم اللّٰہ کے فتاویٰ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے دور میں غیرمسلموں کی شناخت کا یہی مسئلہ پیش آیا ۔یہ پورا واقعہ ان کے شاگرد حافظ ابن قیم جوزیہ نے بیان کیا اور اس کے بعض حصے فتاوٰی ابن تیمیہ میں بھی مذکورہیں۔ابن قیم بتاتے ہیں کہ جب حاكم وقت نے غیر مسلموں کو عمامے بدلنے اور مسلمانوں سے مختلف رنگ پہننے کا حکم دیا تو اس سے غیرمسلموں پر قیامت ٹوٹ پڑی کہ معاشرے میں ان کاتشخص نمایاں ہونے لگا ۔ تب شیطان نے اُنہیں یہ تدبیر سجھائی کہ ایک فتویٰ کی صورت میں یہ مسئلہ اہل علم سے پوچھ کر اس تشخص وامتیاز کا خاتمہ کیا جائے۔
[12]
فتوٰی کی عبارت فتاوٰی ابن تیمیہ میں یوں ہے:
مَا تَقُولُ السَّادَةُ الْعُلَمَاءُ: فِي قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ أُلْزِمُوا بِلِبَاسِ غَيْرِ لِبَاسِهِمْ الْمُعْتَادِ وَزِيٍّ غَيْرِ زِيِّهِمْ الْمَأْلُوفِ وَذَلِكَ أَنَّ السُّلْطَانَ أَلْزَمَهُمْ بِتَغْيِيرِ عَمَائِمِهِمْ وَأَنْ تَكُونَ خِلَافَ عَمَائِمِ الْمُسْلِمِينَ فَحَصَلَ بِذَلِكَ ضَرَرٌ عَظِيمٌ فِي الطُّرُقَاتِ وَالْفَلَوَاتِ وَتَجَرَّأَ عَلَيْهِمْ بِسَبَبِهِ السُّفَهَاءُ وَالرَّعَاعُ وَآذَوْهُمْ غَايَةَ الْأَذَى وَطَمِعَ بِذَلِكَ فِي إهَانَتِهِمْ وَالتَّعَدِّي عَلَيْهِمْ. فَهَلْ يَسُوغُ لِلْإِمَامِ رَدُّهُمْ إلَى زِيِّهِمْ الْأَوَّلِ وَإِعَادَتِهِمْ إلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ مَعَ حُصُولِ التَّمْيِيزِ بِعَلَامَةِ يُعْرَفُونَ بِهَا؟ وَهَلْ ذَلِكَ مُخَالِفٌ لِلشَّرْعِ أَمْ لَا؟ [13]
’’حضرات علماء ومفتیان کیا فرماتے ہیں کہ حاکم وقت نے غیرمسلموں کو ان کے روزمرہ لباس اور مروجہ اطوار کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ کہ حاکم نے ان کو اپنے عمامے بدلنے اور مسلمانوں کے عماموں سے مختلف کرنے کا پابند کیا ہے۔ اس سے راستوں اور بیابانوں کے سفر میں بہت سی مشکلات رونما ہوگئی ہیں۔ اور ا س کے سبب کم عقل اور رذیل لوگ نے غیرمسلموں کو بے پناہ تکلیف دینا اور ذلیل کرنا شروع کردیا ہے۔ کیا ممکن ہےکہ حاکم انہیں پہلی عادات واطوار پر پلٹنے کی اجازت دے دے اور اس کی کوئی ایسی علامت رکھ دے جس سے ان کی پہچان ہوجائے۔ اور کیا ایسا کرنا مخالفِ شرع ہے یا نہیں ؟‘‘ حافظ ابن قیم پھر بتاتے ہیں کہ
فَأَجَابَهُمْ مِنْ مَنْعِ التَّوْفِيقِ وَصَدٍّ عَنْ الطَّرِيقِ بِجَوَازِ ذَلِكَ وَأَنَّ لِلْإِمَامِ إعَادَتَهُمْ إلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ. قَالَ شَيْخُنَا: فَجَاءَتْنِي الْفَتْوَى. فَقُلْت: لَا تَجُوزُ إعَادَتُهُمْ وَيَجِبُ إبْقَاؤُهُمْ عَلَى الزِّيِّ الَّذِي يَتَمَيَّزُونَ بِهِ عَنْ الْمُسْلِمِينَ. فَذَهَبُوا ثُمَّ غَيَّرُوا الْفُتْيَا ثُمَّ جَاءُوا بِهَا فِي قَالَبٍ آخَرَ فَقُلْت: لَا تَجُوزُ إعَادَتُهُمْ. فَذَهَبُوا ثُمَّ أَتَوْا بِهَا فِي قَالِبٍ آخَرَ فَقُلْت: هِيَ الْمَسْأَلَةُ الْمُعَيَّنَةُ وَإِنْ خَرَجَتْ فِي عِدَّةِ قَوَالِبَ. قَالَ ابْنُ الْقَيِّمِ: ثُمَّ ذَهَبَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ إلَى السُّلْطَانِ وَتَكَلَّمَ عِنْدَهُ بِكَلَامِ عَجِبَ مِنْهُ الْحَاضِرُونَ فَأَطْبَقَ الْقَوْمُ عَلَى إبْقَائِهِمْ. وَلِلَّهِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّةُ.[14]
’’بعض علما نے اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق نہ ملنے (بھٹکے لوگ) اور صراط مستقیم سے ہٹ جانے کی بنا پر اس کو جائز قرار دے دیا کہ حاکم انہیں سابقہ (مشترکہ) عادات واطوار پر پلٹنے کی اجازت دے دے۔ تو میرے استاد (ابن تیمیہ) کے پاس جب بعض علما کا یہ فتویٰ پہنچا تو آپ نے جواب دیا کہ ان کو مشترکہ عادات پر لوٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور انہیں ایسے اطوار کو ہی اپنانا ہوگا جس سے وہ مسلمانوں سے جدا نظر آئیں۔ غیرمسلم چلے گئے، پھر فتویٰ کی عبارت بدل کرلائے تو میں نے پھر کہا کہ ہرگز جائز نہیں۔پھر وہ سوال کی تیسری شکل بنا کر لائے ، میں نے کہا : مسئلہ بالکل وہی ؍متعین ہے، اگرچہ اس کے متعدد قالب بنا لئے جائیں۔پھر ابن قیم کہتےہیں: کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ حاکم کے پاس چلے گئے اور اس کو ایسے دلائل اور نصیحتیں کیں کہ سب درباری ؍ حاضرین ششد ر ہوکر رہ گئے۔ چنانچہ حاکم نے غیرمسلموں کو ان امتیازی عادات پر باقی رکھا ، الحمد للہ والمنہ۔‘‘
حافظ ابن قیم لکھتے ہیں کہ ’’بہت سے مفتیان سوال کی ظاہری تبدیلی سے نفس مسئلہ میں الجھ جاتے ہیں ، اور بہت سے کسی دنیوی مفاد میں بہہ جاتے ہیں، مگر جن کو اللّٰہ تعالیٰ محفوظ رکھے
[15]۔ ‘‘لیکن مسئلہ کی اصل صورت کو پہچاننا اور اس کو دلائل وبراہین سے واضح کردینا، اور اس کے لئے حاکم کے دربار میں جاکر جدوجہد کرنا اور شریعتِ الٰہیہ کو نافذکروانا اللّٰہ تعالیٰ کی اپنے بعض بندوں پر خاص رحمت ہے ۔ اس واقعہ سے واضح ہواکہ
غیرمسلموں کی سماجی علامتوں او رتشخص میں فرق کرنا شریعتِ مطہرہ کا حکم ہے۔
تمام مذاہب وادیان کے مابین تشخص اور امتیاز کو قائم کروانا حاکم وقت کا فریضہ ہے۔
مذہبی تشخص کے امتیاز پر خلافتِ راشدہ سے گذشتہ تیرھویں صدی ہجری تک متواتر عمل ہوتا رہا۔
علماء کو حاکم وقت کو قرآن وسنت پر مبنی مسئلہ بتانے کی ہرممکنہ جدوجہدکرنی چاہیے۔
یہ فتویٰ اور مذکورہ بالا شرعی بنیاد تو جملہ مذاہب کے مابین شعائرکے امتیاز کاتقاضا کرتی ہے۔ جبکہ قادیانیت کے ساتھ شعائر کا امتیاز اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ کیونکہ ہندومت، عیسائیت یا یہودیت اسلام کے نام پر مسلمانوں کو گمراہ نہیں کرتے، اپنا جھوٹا مذہب قبول نہ کرنے پر مسلمانوں پر دشنام طرازی نہیں کرتے، جبکہ قادیانیت تو اسلام میں تحریف کر کے، اساسیاتِ دین میں ...اور اسلام کی سب سے بڑی اساس نبوتِ محمدیﷺ ہے...طعنہ زنی کرتے اور لوگوں کو اپنے مسلمان ہونے کا جھانسا دے کر ان کو متاعِ ایمان سے محروم کرتے ہیں۔ اس لئے عیسائیت ویہودیت ایسے دیگر مذاہب سے قطع نظرقادیانیت کا معاملہ دھوکہ، فریب اور مغالطہ آرائی کا ہے۔ چنانچہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں قادیانیت کے اس زہر آلود پودے کی نشو ونما ہوئی ہے، انتہائی ضروری ہے کہ ان کے لئے اسلامی شعائر، اسلام اورمحمد ﷺ کا نام نامی، مساجد اور اذان کا استعمال سراسر ممنوع قرار دیا جائے تاکہ عوام مسلمان کے دین وایمان کی حفاظت ہوسکے۔
اور اس کی دلیل قرآن کریم میں مذکور مسجدِ ضرار کا واقعہ بھی ہے کہ جب منافقین نے اسلام کے پردے میں دھوکہ دہی اور منافرت کو فروغ دینے کے لئے اپنا ایک مرکز بنانا چاہا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی نبیﷺکو فوری طور پر اس مرکز کے خاتمے کا حکم دیا اور ان کو مسجد کے اسلامی شعار کو استعمال کرنے سے حکومتی طاقت استعمال کرکے روک دیا گیا، چنانچہ سورۃ التوبہ میں ارشاد باری ہے :
﴿وَالَّذينَ اتَّخَذوا مَسجِدًا ضِرارًا وَكُفرًا وَتَفريقًا بَينَ المُؤمِنينَ وَإِرصادًا لِمَن حارَبَ اللَّهَ وَرَسولَهُ مِن قَبلُ وَلَيَحلِفُنَّ إِن أَرَدنا إِلَّا الحُسنى وَاللَّهُ يَشهَدُ إِنَّهُم لَكـذِبونَ ﴿
١٠٧﴾ لا تَقُم فيهِ أَبَدًا لَمَسجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقوى مِن أَوَّلِ يَومٍ أَحَقُّ أَن تَقومَ فيهِ فيهِ رِجالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّروا وَاللَّهُ يُحِبُّ المُطَّهِّرينَ ﴿
١٠٨﴾... سورة التوبة
’’ کچھ اور لوگ جنہوں نے ایک مسجد بنائی اس لیے کہ وہ (دعوتِ اسلام کو) نقصان پہنچائیں، کفر پھیلائیں، مومنوں میں تفرقہ ڈالیں اور یہ مسجد ایسے لوگوں کو کمین گاہ کا کام دے جو اس سے پیشتر اللّٰہ اور اس کے رسول سے برسرپیکار رہے ہیں ۔ اور وہ قسمیں یہ کھاتے ہیں کہ ’ہمارا ارادہ تو بھلائی کے سوا کچھ نہیں‘ اور اللّٰہ گواہی دیتا ہے کہ یقینا یہ جھوٹے لوگ ہیں۔
(اے نبی )! آپ اس (مسجد ضرار) میں کبھی بھی (نماز کے لئے) کھڑے نہ ہونا۔ وہ مسجد جس کی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیاد رکھی گئی تھی، زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں ۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللّٰہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔‘‘
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی ان آیات کی تفسیر میں اپنی تفسیر ’تیسیر القرآن ‘لکھتے ہیں:
’’عبد اللّٰہ بن اُبی منافق نے اپنے مذہب کے واسطہ سے قیصر روم کو مسلمانوں پر چڑھا لانے کا منصوبہ تیار کیا۔ مدینہ کے منافقین ایسے تمام کاموں میں اس کے ہمراز اور معاون تھے۔ جب وہ اس غرض کے لیے روم کی طرف روانہ ہونے لگا تو اس نے منافقوں سے کہا کہ فوراً ایک مسجد تیار کرو جہاں ہم لوگ جمع ہو کر صلاح و مشورہ کر سکیں اور میں یا میرا کوئی قاصد آئے تو وہ وہاں اطمینان سے قیام کر سکے اور ایسی ناپاک سازشیں چونکہ مذہبی تقدس کے پردہ میں ہی چھپ سکتی تھیں ۔
مسجد ضرار کا انہدام : تبوک کے واپسی کے سفر میں جب آپ مدینہ کے قریب ذی اوان کے قریب پہنچے تو اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو مسجد ضرار کی تعمیر کی غرض و غایت اور منافقوں کی ناپاک سازشوں سے مطلع کردیا اور حکم دیا کہ آپ کو ہرگز اس مسجد میں افتتاح کے لیے نماز نہ پڑھانا چاہیے۔ چنانچہ آپ نے وہیں سے دو صحابہ مالک بن خشم اور معن بن عدی کو حکم دیا کہ فوراً جا کر اس مسجد کو آگ لگادیں ۔ انہوں نے فوراً آپ کے حکم کی تعمیل کی اور آپ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس مسجد کو پیوند خاک کردیا گیا۔‘‘
اس جواب کی مزید تفصیل کہ ’’غیرمسلم ، مسلمانوں کی علامات استعمال نہیں کرسکتے۔‘‘راقم کے بیان کا اہم ترین حصہ تھا جس کو ردّقادیانیت کی تحریک میں پہلی بار پیش کیا گیا،کیونکہ اس کا تعلق علما ے کرام کے فتاوی کی بجائے اجماعِ صحابہ سے تھا، جو مسلم اُمّہ پر پابندی کو قائم کرتی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں مسلمانوں کا غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، جس کے بہت سے دلائل ہیں، اسی طرح غیر مسلموں کے لئے بھی ناجائز ہے کہ وہ مسلمانوں کی مشابہت اختیار کریں، اور اس کی تفصیل ’شروطِ عمریہ‘ میں ہے کہ مسلم معاشرے میں حاکم اُنہیں مسلمانوں کی مشابہت سے روکنے کا پابند ہے۔موضوع کی مستقل اہمیت کے پیش نظراس سوال کے جواب کو مستقل مضمون کے طور پر آئندہ پیش کیا جائے گا جس میں خلافتِ راشدہ سے لے کر موجودہ زمانے تک اس کی تفصیل ، احادیث، فقہا کے اقوال، حکمتیں اورتاریخی آثار پیش کئے جائیں گے۔
چھٹا سوال: کیا کسی شہری کے مذہب یا مذہبی عقائد کے بارے معلوم کرنا بنیادی حقوق
کی خلاف ورزی کے ضمن میں آتا ہے ؟
بنیادی حق اور مذہبی تشخص دو جداگانہ چیزیں ہیں!
1. پاکستانی دستور ہی تو ریاست کے اسلامی ہونے کا تعین کرتا ہے۔ پھر یہی دستور رعایا کے مسلم اور غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیوں نہیں کرسکتا ۔ اسی بنا پر دستور کے آرٹیکل 260 میں مسلم کی تعریف کی گئی ہے ۔
2. پاکستانی آئین میں باب اوّل: انسانی حقوق (آرٹیکل نمبر8 تا 28) کے تحت بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے ، اور اسی آئین کے آرٹیکل نمبر 260 میں مسلم وغیر مسلم کی تعریف بھی کردی گئی ہے۔یہی پاکستانی دستور بنیادی حقوق کے تحفظ کے ساتھ مذہبی شناخت کو بھی تحفظ دیتا ہے، ایک دستور ی تحفظ قبول کرنا اور دوسرا دستوری تعین چھوڑ دینا ناانصافی ہے۔ یہ بھی علم ہوا کہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے متضاد نہیں، بلکہ دراصل شناخت کے بعد ہی حقوق کا تعین او رتحفظ ممکن ہے۔ اس کی مثال میثاقِ مدینہ بھی ہے کہ یہود اور مسلم کے تشخص کے بعد، ان کے حقوق وفرائض اور معاہدے کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔اسی طرح مدینہ تشریف آوری کے کچھ عرصہ بعد ہی نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی، تاکہ ان کا تشخص متعین ہونے اورتعداد معلوم ہونے کے بعد ان کے حقوق وفرائض کی طرف توجہ دی جاسکے۔ گویا مذہبی تشخص ، اوّل تو تحقیر وامتیاز کا موجب نہیں ، بلکہ ہر ایک کے جداگانہ حقوق ہونے کی بناپر، پہلے تشخص وشناخت کا تعین کیا جاتاہے، پھر ان کے طے شدہ حقوق دیے جاتے ہیں۔
3. پاکستانی دستور مسلمانوں اور غیر مسلموں کا تعین اس لئے کرتا ہے کیونکہ پاکستان میں دونوں کے حقوق وفرائض کا تحفظ اس کے بغیر ممکن نہیں اور اسی مقصد کےلئے دونوں کا کوٹہ مختص کیا گیا ہے ۔ پاکستان میں بہت سے حقوق وفرائض میں مسلمان اور غیرمسلم کے حقوق وفرائض میں فرق ہے، جیسا کہ
1. پاکستان کا صدر او روزیر اعظم غیر مسلم نہیں بن سکتا۔
2. دستور کے آرٹیکل 106 کے تحت صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں غیرمسلموں کا مستقل کوٹہ رکھا گیا ہے جیسا کہ پنجاب میں مسلمانوں کی 371 نشستوں کے ساتھ غیرمسلموں کے لئے بھی 8 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔ سندھ 168 ؍9 اور بلوچستان 124؍3 وغیرہ۔
3. اسی طرح شراب کی خرید واستعمال میں مسلم وغیرمسلم کے قوانین میں اختلاف ہے ۔
4. اسی طرح نظام عشر و زکاۃ کے ذریعے مسلمانوں سے بنکوں میں زکاۃ بھی لی جاتی ہے اور غیرمسلموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
5. مختلف تعلیمی اداروں میں مذہبی کوٹہ کی بنا پر داخلہ کی نشستیں مقرر کی گئی ہیں۔
6. پاکستانی فو ج کا شعار ایمان، تقویٰ او رجہاد ہے جبکہ بعض اقلیتیں اسلامی جہاد کی منکر ہیں۔ اگر شناخت کا تعین نہ کیا جائے تو فوج میں نظریاتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
7. مسلم فیملی لاء آرڈی نینس کا اطلاق مسلمانوں پر ہی ہوتا ہے، جبکہ عیسائیوں ، ہندؤوں اور سکھوں کے لئے پاکستان میں مستقل میرج ایکٹ موجود ہیں۔
8. حرمین شریفین میں غیرمسلم کا داخلہ ممنوع ہے جس میں مذہب کا تعین پاکستانی پاسپورٹ میں حکومتِ پاکستان کو ہی کرنا ہے۔ وغیرہ
ایسی بہت سی وجوہ کی بنا پر مذاہب کے تشخص کا تعین ہونا اشد ضروری ہے تاکہ مسلم وغیرمسلم کے قانونی حقوق وفرائض کو پورا کیا جاسکے۔
4. پاکستانی دستور Law of the Land ہونے کے ناطے پاکستان کے تمام شہریوں پر لاگو ہے جو یہاں آنے اور قیام کرنے والے تمام افراد کو قبول کرنا لازمی ہے۔
قادیانیت کو اسلام قرار دینا بنیادی حق ہے یا دھوکہ دہی کا جرم؟
پیچھے (گزشتہ شمارےمیں )مذکور قادیانی مذہب کی تین حقیقتیں پڑھ لینے کے بعد واضح ہوتا ہے کہ
5. قاديانی بنیادی حقوق کے نام پر دراصل اسلام اور نبی اسلامﷺ کے حق تکریم پر قابض ہونا اپنا حق سمجھتے ہیں، جو حق نہیں بلکہ سنگین دھوکہ دہی او ربدترین جرم ہے۔ جو عزت او رمقام
﴿وَرَفَعنا لَكَ ذِكرَكَ ﴿٤﴾... سورة الشرح كے تحت الله تعالیٰ نے اپنی نبی محمدﷺ کو دیا ہے، وہ اس عزت وتکریم کو اپنے جھوٹے مدعی نبوت کے لئے حاصل کرنے کا ’حق ‘ مانگتے ہیں۔ جو اسلام کی تکریمات وتقدسات پر غاصبانہ قبضہ او رتسلط کی منافقانہ سازش ہے۔ چناچہ قادیانی اسلام کا نام، اس کا کلمہ، قادیان کو مکہ مکرمہ، اپنے سالانہ جلسہ کو حج، اپنی مسجد کو مسجدِ اقصیٰ، مرزا کی بیوی کو اُمّ المؤمنین، مرزا کے ساتھیوں کو صحابہ کرام قرار دے کر اسلام کو مسخ کرنا اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔
6. خلافِ واقعہ حیثیت کا دعویٰ کرکے دھوکہ دینا حق نہیں بلکہ قابل سزا جرم ہے۔ قادیانیوں کو چاہیے کہ پہلے اپنا اسلام ثابت کریں پھر اس کا نام لینے کے حق کی بات کی جائے۔ جب ان کے کفر پر علماے اُمت کا اجماع ہوچکا ہے اور ہر حلقے کے ایک ہزار سے زائد علما ومفتیان،100 سے زائد مدارس ومراکز کے فتاوٰی منظر عام پر آچکے
[16] ہیں، مملکتِ پاکستان نے دستور پاکستان کی دوسری ترمیم (7؍ستمبر 1974ء ) میں ان کو کافر قرار دے دیا ہے، توپھر خلاف حقیقتِ چیز کا مطالبہ حق نہیں بلکہ ڈھٹائی اور دھوکہ دہی کا جرم ہے۔
7. مرزا ناصر نے قومی اسمبلی میں یہ بھی تسلیم کیا کہ کسی بھی مذہب کو غلط اظہار سے روکنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ کوئی غیرمسلم مکہ، مدینہ جانے کے لئے غلط ڈیکلریشن دے کر جائے اور پکڑے جانے پر مذہبی آزادی کا عذر پیش کرے تو کیا یہ عذر درست ہوگا؟
مرزا ناصر نے کہا کہ ’’وہ مجرم ہےاور وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری آزادی سلب کی گئی ہے۔ اور اس بارے میں کورٹ یا اتھارٹی مداخلت کرسکتی ہے۔‘‘
[17]
8. مذہب پر رہنے کا حق تسلیم ہے لیکن دھوکہ دینے کا حق قبول نہیں جیسا کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی میں قادیانیوں کی ’اسلام کے نام پرتبلیغ‘ کو جرم قرار دیتے ہوئے اسکی سزا تین سال مقرر کی گئی ہے۔
پاکستانیوں کے سماجی حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے!
9. قادیانی اسلامی تکریمات پر ناجائز قبضہ اوراسلام کے نام کو ناجائز استعمال کرنے کو حق کہتے ہیں۔ان کے حقوق تو دھوکہ دہی پر مبنی او ر جرم ہونے کی بنا پر ناقابل اعتبار ہیں۔ لیکن پاکستان میں مسلمانوں کے بھی حقوق ہیں جن کی پاسداری کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ان کا اہم سماجی حق یہ بھی ہے کہ اگر کوئی دوسرے کو گالی دے، اس کے مقدسات کی توہین کرے، اس پر ناحق قبضہ کرے،اس کو کافر قرار دے، ان کو گمراہ کرے تو ان پاکستانیوں کو تحفظ دینا اور ا ن کی داد رسی کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔ اور پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ قادیانی ان تمام جرائم میں ملوث ہیں۔ سو ان سماجی جرائم سے مسلمانانِ پاکستان کو تحفظ دینا حکومت کا سیاسی فریضہ ہے۔
10. سماجی حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو وہ ظاہر کرے جو وہ نہیں ہے، جیسے ایک اپنے آپ کو ڈاکٹر یا پرنسپل بتائے جبکہ حقیقت اس کی تائید نہ کرتی ہو، تو یہ دھوکہ دہی ہے۔ اور اس دھوکہ دہی سے بچانے کے لئے حکومت کو اقدام کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر معاشرے میں تخریب و فساد اور حق تلفی ہوگی۔ قومی اسمبلی میں ہونے والے مباحثے میں مرزا ناصر سے پوچھا گیا کہ اقلیتوں کے کوٹہ سے سیٹ لینے کے لئے کوئی مسلمان خود کو غیرمسلم ظاہر کرے تو کیا کرنا چاہیے؟
تو مرزا ناصر نے جواب دیا کہ ’’دغا باز کی ملامت کرنی چاہیے، میں مذمت کرتا ہوں اس نوجوان کی جو دستاویزات میں جعل سازی کرتا ہے ۔ ‘‘
[18]
11. اقوام متحدہ کا ’چارٹر برائے انسانی حقوق ‘بھی یہ قرار دیتا ہے کہ
’’آرٹیکل نمبر 30: اس اعلان کی کسی چیز سے کوئی ایسی بات مراد نہیں لی جاسکتی، جس سے کسی ملک، گروہ، یا شخص کو کسی ایسی سرگرمی میں مصروف ہونے یا کسی کام کو انجام دینے کا حق پیدا ہو، جس کا منشا ان حقوق اور آزادیوں کی تخریب ہو، جو یہاں پیش کی گئی ہیں۔ ‘‘
12. اس چارٹر پر عمل کرتے ہوئے اقوام متحدہ کا ’بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری وسیاسی حقوق‘ ICCPR مجریہ 1976ء بیان کرتا ہے کہ تمام آزادیاں اور حقوق قانون میں عائد پابندیوں اور دوسروں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے احترام سے مشروط ہیں، چنانچہ آرٹیکل نمبر 19(2) میں ہے :
’’شق نمبر 2 میں مذکور حقوق اس امر سے مشروط ہیں کہ دوسروں کے حقوق کا احترام اور اس کی معاشرتی ساکھ کو ملحوظ رکھا جائے۔ ‘‘
13. پورے یورپ میں نافذ ’یورپی کنونشن برائے تحفظ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیاں‘ECHRمجریہ 1953ء کے آرٹیکل 10 (2) میں قرار دیا گیا ہے کہ
’’آزادیوں اور حقوق پر ایسی شرائط عائد کی جاسکتی ہیں،جو دوسروں کے حقوق کی حفاظت سے متعلق ہوں۔‘‘ مختصراً
گویا ’انسانی حقوق کا عالمی چارٹر ‘ ،بین الاقوامی معاہدے اور یورپی یونین میں نافذ العمل قوانین بھی ان حقوق کے نام پر دوسروں کے حقوق میں مداخلت ، تخریب یا اس کی کوشش کو منع قرار دیتے ہیں ۔
پاکستان میں بنیادی حقوق قرآن وسنت سے مشروط ہیں!
14. پاکستان میں حاکمیتِ الٰہیہ کے تحت ،بنیادی حقوق اسلام سے مشروط ہیں، جیسا کہ پیچھے ’دستور پاکستان اور اسلام ‘میں نکتہ نمبر 3 کے تحت گزر چکا ہے ۔
15. پاکستان میں بنیادی حقوق مطلق Absoluteنہیں بلکہ شریعت ِ اسلامیہ سے مشروط ہیں۔ اس بنا پر انہی آئینی حقوق کا دعویٰ معتبر ہوگا جن کو تحفظ شریعتِ اسلامیہ نے دیا ہے۔پاکستانی دستور میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے اسلامی قوانین کا تعین (آرٹیکل 227) اور پھر نفاذ اور وفاقی شرعی عدالت کے ذریعے غیر اسلامی قوانین کا خاتمہ (آرٹیکل 203د) کے مسلمہ آئینی ادارے یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کےدستور پر اُصولی طور پر قرآن وسنت کی بالاتر ی ہے،قوانین ان کے مطابق بنائے جائیں او ران کے خلاف قوانین کو ختم کیا جائے۔
16. یہی بات OIC نے5؍ اگست 1990ء میں منعقدہ قاہرہ کانفرنس میں اسلامی انسانی حقوق کے 25 نکاتی چارٹر Cairo Declaration on Human Rights in Islam (CDHRI)میں پیش کرکے،رکن ممالک سے دستخط لئے ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر کا متبادل ہے۔اس چارٹر کے آخری آرٹیکلز 24 اور 25 کا انگریزی متن یہ ہے :
24. All the rights and freedoms stipulated in this Declaration are subject to the Islamic Shari'ah.
25. The Islamic Shari'ah is the only source of reference for the explanation or clarification of any of the articles of this Declaration.
’’24۔ اس اعلامیہ ؍چارٹر میں مندرج تمام حقوق اور آزادیاں شریعتِ اسلامیہ سے مشروط ہیں۔ ‘‘
25۔اس اعلامیہ میں مندرج تمام آرٹیکلز کی تشریح اور وضاحت کا واحد مستند ماخذ شریعتِ اسلامیہ ہے۔ ‘‘
کیا شریعت ِ اسلامیہ شہریوں کے عقائد کو جاننے کا فرض ریاست پر عائد کرتی ہے!
17. شریعت کی رو سےپیچھے گزر چکا ہے کہ اسلامی ریاست اللّٰہ کے حکم پر، نبی کریم کی نیابت میں مسلمانوں کی سیاست کرتی ہے۔ سیاسی عہدے اللّٰہ کی امانت ہیں، اور ان کا مقصد اللّٰہ اور اس کے رسول کے احکام کو مسلم معاشرے میں پھیلانا اور برائیوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے بھی سیاسی فرائض میں اقامتِ صلوٰۃ اور ایتاے زکوۃ کے بعد احکام شریعت کے فروغ کی ذمہ داری مسلم ریاست پر ڈالی ہے اور مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح کو حکام کا فریضہ قرار دیا ہے ۔ نبی کریمﷺ نے خود جب اپنے حکام کو بھیجا تو ان کا فریضہ یہی تھا کہ وہ لوگوں کو توحید ورسالت کی دعوت دیں، صلوٰۃ وزکوٰۃ کو جاری کریں جیسا کہ اس کی تفصیلات پیچھے گزر چکی ہیں۔
اسلامی ریاست کے مذکورہ بالا مقاصد کےلئے نہ صرف ضروری بلکہ اوّلین فریضہ ہے کہ لوگوں کے عقائد کی اصلاح پر توجہ دی جائے اور ان کے دینی حالات کی جانچ کی جائے۔
18. دورِ نبوی میں صلح حدیبیہ کے بعد جب بعض خواتین نے دُنیوی مفادات کے لئے مدینہ میں پناہ لینے کا ارادہ کیا ، کیونکہ آپﷺ خواتین کو واپس نہیں کرتے تھے تو اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریم کو خاص ہدایت جاری کی:
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا جاءَكُمُ المُؤمِنـتُ مُهـجِرتٍ فَامتَحِنوهُنَّ اللَّهُ أَعلَمُ بِإيمـنِهِنَّ فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنـتٍ فَلا تَرجِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ...﴿
١٠﴾... سورة الممتحنة
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس مہاجر مؤمن خواتین آئیں تو ان کی جانچ کرلیا کرو۔ ان کے ایمان کی حقیقت کو تو اللّٰہ ہی جانتاہے۔ اگر تم انہیں مؤمن پاؤ تو کفار کو مت لوٹاؤ۔‘‘
مفسرین لکھتے ہیں کہ ’’نبی کریم ﷺحلف کے ذریعے خواتین کا امتحان لیا کرتے اور وہ قسم کھاتیں کہ وہ صرف اللّٰہ کے لئے ہی نکلی ہیں، شوہروں سے ناراضی کی بنا پر نہیں،نہ ہی کسی مالی طمع کی غرض سے۔‘‘
[19]
19. مسلم ریاست کے بہت سے شرعی فرائض بھی مسلم اور غیر مسلم کی شناخت کے بغیر نہیں ہوسکتے، جیسا کہ
1. غیرمسلم کو سلام نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ وہ دل میں بدنیتی اور کینہ کو چھپاسکتے ہیں۔
2. غیر مسلم پرزکوٰۃ صرف نہیں کی جاسکتی، دیگر صدقات دیے جاتے ہیں۔
3. غیرمسلموں سے زکوٰۃ وعشر کے بجائے جزیہ وخراج لینا
4. غیرمسلم مردوں سے نکاح نہیں کیا جاسکتا، اور وہ مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔
5. غیرمسلموں کا مسلمانوں کا گواہ او رقاضی بننا
6. احترام رمضان، اور دیگر اسلامی تہواروں میں عدم شمولیت وغیرہ
پاکستان میں قومی اسمبلی ہی مذہبی مسائل کے حل اور قانون سازی کا باضابطہ فورم ہے!
20. مذہب کے بارے میں فیصلہ کرنا پاکستان کی قومی اسمبلی کا ہی کام ہے، جس نے ماضی میں دستور کے اسلامی قوانین سمیت، قادیانیوں کوغیرمسلم قرار دینے، حدود قوانین ، قانون توہین رسالت، شراب نوشی کے امتناع کے قوانین پاس کرکے دینی معاملات کو بھی طے کیا ہے۔ اور اسمبلی کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کا معاون ادارہ اسی مقصد کے لئے قائم کیا گیا ہے کہ وہ حسب ضرورت دینی مسائل میں انہیں راہنمائی بھی فراہم کرسکے۔ بالفرض اگر ریاست یعنی پارلیمنٹ کا یہ کا م نہیں کہ وہ مذہبی معاملات کے فیصلے کرے، تو پھر یہ کا م پاکستان میں کس قومی ادارے کا ہے۔ دراصل پاکستان یورپی ممالک کی طرح کوئی سیکولر ملک نہیں ہے بلکہ ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے اس کے نظام میں اسلامی فرائض پوری وضاحت سے موجود ہیں اور اس کا دستور سیکولرزم کی پوری طرح نفی کرتا ہے،جیسا کہ اس کی تفصیلات پیچھے گزر چکی ہیں۔
تیسرا سوال: اگر غیر مسلم اپنے آپ کو مسلم کے لبادہ میں چھپائیں تو کیا یہ ریاست
کے ساتھ دھوکہ دہی کی تعریف میں آئے گا؟
دھوکہ کی نوعیت: پیش نظر سوال کی وضاحت سے قبل دھوکہ دہی کی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے ۔ دھوکہ ایک مشترک لفظ ہے جو چھوٹی سے چھوٹی ہیرا پھیری سے لے کر اپنی سنگین ترین نوعیت کو شامل ہے ۔ سودا فروخت کرنے والے کا 100 گرام کم سامان ڈالنا بھی دھوکہ ہے اور دشمن کو قومی راز بتادینا بھی دھوکہ ہے۔ دھوکہ کی سنگین ترین قسم کو دراصل ’غداری‘ کہا جاتاہے۔ جب کوئی سرکاری ملازم ملک کے ایٹمی راز اپنے دوست کو بتائے تو یہ بھی دھوکہ ہے اور جب اس دشمن کو بتادے جو اس کو تباہ کرنے کی جدوجہد کررہا ہو اور ا س کی طاقت بھی رکھتا ہو تو یہ سنگین ترین غداری ہے۔ جب کوئی سرکاری ملازم ریاست کے حساس راز، اورنظام دشمن کے علم میں لے آئے تو یہ ریاست کو نقصان پہنچانے کی ’سنگین سازش‘ کہلائے گی اور اس کی سزا کا دارومدار اس کی نوعیت اور کیفیت پر ہوگا۔
اسلامی ریاست کا مرکز ومحور رسول کریمﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ جدید سیاسی نظام میں ریاست کے حقوق بالاترہیں، جبکہ اسلام ایک نظریاتی ملت کی بات کرتا ہے جو رسول کی ذات پر قائم ہوتی ہے۔ اسلامی نظریہ کے مطابق رسول اکرم کے حقوق ریاست کے حقوق سے بھی بالاتر ہیں، چنانچہ نامور مفکر محمد عطاء اللّٰہ صدیقی مرحوم لکھتے ہیں:
’’چونکہ ریاست لاکھوں کروڑوں افراد کی اجتماعیت کی نمائندہ ہے، اس کے وجود و بقا پر کروڑوں شہریوں کی زندگیوں کا انحصار ہوتا ہے لہٰذا کسی بھی فرد کی طرف سے ریاست کے وجود کے خلاف معمولی سی کارروائی کے لئے بھی سخت ترین سزا (موت) تجویز کی جاتی ہے۔ ریاست کے خلاف سرگرمی کو عظیم ترین غداری (High Treason) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس جرم کی سزا دورِجدید کی ریاستوں میں بلااِستثنا موت ہی ہے۔ جدید سیکولر ریاست کے آئینی و قانونی اُسلوب میں بات کی جائے تو ریاست کے حقوق کو بلا شبہ ’اُمّ الحقوق‘ کا درجہ حاصل ہے۔
اسلامی نظام میں ریاست کی بجائے رسالتؐ کے حقوق کو’اُمّ الحقوق‘ کا درجہ حاصل ہے۔ کیونکہ ریاست اسلام میں مقصود بالذات نہیں ہے بلکہ یہ رسالت کی طرف سے انسانیت کی فلاح کے لئے وضع کردہ ضابطوں کو عملی جامہ پہنانے کا ایک ذریعہ ہے۔ چونکہ Ends (نصب ُالعین) کو ہمیشہ Means (ذرائع) پر فوقیت حاصل ہوتی ہے، لہٰذا منطق کا تقاضا یہ ہے کہ ریاست کو رسالت کے مقابلے میں ثانوی یا کمتر حیثیت حاصل ہو۔ اگر ریاست اور رسالت کے تعلق پر غور کیا جائے تو یہ تعلق ’کل‘ اور ’جز‘ کے درمیان کا تعلق ہے۔ رسالت ’کل‘ او رریاست ’جز‘ ۔ رسالت ریاست کے بغیر بھی اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے جیسا کہ رسولِ اکرمﷺ کے مکی دور میں ہوا۔ مگر ایک اسلامی ریاست کا ’رسالت‘ کے بغیر تصور ناممکن ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے ، جیسا کہ دورِجدید کی سیکولر ریاست کا وجود اس کے آئین کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ آئین ہی اس کے مختلف اداروں کے فرائض منصبی کا تعین کرتا ہے۔ ’رسالت‘ ہی اسلامی ریاست کے آئین کا اصل سرچشمہ و مآخذ ہے۔ لہٰذا سرچشمہ کی عدم موجودگی میں ریاست کا قیام ممکن ہی نہیں۔ رسالت ایک ماورا اور برتر تصور ہے جس کے مقاصد کا دائرہ کسی خاص خطہ ٔ ارضی کی بجائے پوری انسانیت یا کائنات تک پھیلا ہوا ہے۔ اسلامی ریاست ایک خاص علاقے میں قائم ہونے کے باوجود پوری انسانیت کی فلاح کا عظیم نصب ُ العین کبھی بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی۔
اسلامی نظریہ کے مطابق رسالت کے حقوق کا حقیقی مظہر محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات ِاقدس ہے۔لہٰذا جناب رسالت ِ مآبؐ کے مسلمانوں پر جو حقوق ہیں، وہی درحقیقت ’اُمّ الحقوق، ہیں۔ یہ اُمّ الحقوق ا س بنا پر ہیں کہ باقی تمام ’حقوق‘ کا یہ نہ صرف سرچشمہ ہیں بلکہ ان کے تعین کا اصل معیار بھی ہیں۔ اسلامی ریاست چونکہ رسالت کے نصب ُالعین کے تابع ہے لہٰذا اس کے اہم ترین فرائض میں سے ’اُمّ الحقوق‘ کا تحفظ بھی ہے۔ ا گرریاست کے وجود کے خلاف کوئی کارروائی High Treason کا درجہ رکھتی ہے، تو رسالت کے خلاف کوئی توہین آمیز اقدام اس سے کہیں بڑھ کر سنگین اور قابل سزا ہے۔ اسلامی ریاست میں ’اُمّ الحقوق‘ کا تحفظ محض ریاست کی ذمہ داری ہی نہیں ہے، افراد بھی اس ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے خود رسالت ِمآبؐ کی حیاتِ اقدس کے دوران بعض صحابہ کرامؓ نے ان ’حقوق‘ کی بے حرمتی کے مرتکب افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، اگرچہ بعد میں انہیں تائید رسالتؐ ( یا ریاست) بھی میسر آگئی۔‘‘
[20]
اس بنا پر اسلامی ریاست کے مرکز ومحور پر دھوکہ دہی، متاعِ ایمان کا دھوکہ ہے جس کو اپنے اثرات ونتائج کے اعتبار سے سنگین ترین غداری قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور جب اس غداری کو تسلیم کرنے کی بجائے، اس کو حق باور کرایا جائے ، تکرار کے ساتھ اس پر اصرار کیا جائے، ڈھٹائی کے ساتھ اس کے لئے جدوجہد کی جائے تو اس جرم کی شدت وشناعت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، سیدنا علیؓ نے زندقہ پر کاربند گروہ کو اپنے کفر کو تسلیم نہ کرنے پر توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کروا دیا تھا، جیساکہ صحیح حدیث آگے تین صفحات کے بعد آرہی ہے ۔
چنانچہ فاضل عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ غیرمسلم قرار پانے کے باوجود، ریاست سے دھوکہ دہی کرتے ہوئے حساس عہدوں تک پہنچنا دھوکے کا کونسا مرحلہ ہے اور اس کے نتائج کتنے سنگین ہیں۔ سرظفر اللّٰہ قادیانی جیسے شخص کا کھلم کھلا اپنے موقف پر اصرار کرنا اور قائد اعظم محمد علی جناح کو خراجِ تحسین پیش کرنے سے صریح انکار کرنا اور ان کے جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کردینا اس خبثِ باطن کا پتہ دیتا ہے جو ایسے شخص میں اہم ترین سرکاری منصب پانے کے باوجود پایا جاتا تھا ۔ ایسے ہی پاکستان کے سرکاری خزانے سے تربیت اور شناخت پانے والا ڈاکٹر عبد السلام قادیانی، قادیانیوں کے کافر قرار پانے کے دستوری فیصلے کے بعد پاکستان تو چھوڑ دیتا ہے، لیکن نوبل پرائز کے اجلاس میں اپنا قادیانی لبادہ اور شناخت نہیں چھوڑتا اور ربوہ میں دفن ہونا ہی موجبِ سعادت خیال کرتا ہے۔ وہ اپنے مقام کو صرف اس لئے استعمال کرتا ہے کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق سے مل کر انہیں قادیانیت کے بارے میں قومی موقف پر نظر ثانی کو آمادہ کرسکے۔
پاکستانی تاریخ میں قادیانی افسران کی پاکستان اور اسلام کے ساتھ غداری کا مطالعہ چشم کشا ہے۔انہوں نے اپنی زبان اور اپنے عمل سے ، ہر جگہ سنگین نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ایسے بدبخت لوگوں کادھوکہ دہی کے ذریعے کسی ذمہ دار مقام تک پہنچنا نہ صرف سنگین جرم ہے بلکہ ریاست کو بدترین خطرات کا شکار کردیتا ہے۔ اس لئے اس کی روک تھام بھی مضبوط قانون سازی اور دھوکہ کی شدت کے مطابق ہونی چاہیے۔اور اس کی بعض سنگین صورتوں کو واقعتاً ریاست سے غداری قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
پانچواں سوال: کیا اسلامی ریاست کے لئے یہ لازم نہیں کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے مذہب اور مذہبی عقائد کے
بارے میں مکمل طور پر آگاہ ہو او راس حوالہ سے ایک مؤثر اور جامع طریقہ کار وضع کرے۔
اس سوال کی کافی وضاحت پہلے جوابات میں گزر چکی ہے۔ مزید درج ذیل ہے:
مسلمان کا کافر ہوجانا یا دعواے کفر کرنا
جو مسلمان سماجی مفادات کے لئے اپنا مذہب تبدیل کرکے اسلام کی جگہ کفر کو ظاہر کرتا ہے ، تو ریاست کو شریعتِ اسلامیہ کے مسلمہ ضابطے کے مطابق اس پر سزاے ارتداد کو نافذ کرنا چاہئے جو اس حدیثِ رسول سے ثابت ہے جسے سیدنا عکرمہ نے روایت کیا ہے کہ
أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِزَنَادِقَةٍ فَأَحْرَقَهُمْ فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: "لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحْرِقْهُمْ لِنَهْيِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ «لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ» وَلَقَتَلْتُهُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ «مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ»"[21]
’’حضرت علی ؓ کےپاس زندیق لائے گئے تو اُنہوں نے انہیں جلادیا۔ یہ بات حضرت ابن عباس ؓ تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا: اگر میں ہوتا تو اُنہیں نہ جلاتا کیونکہ رسول اللّٰہ ﷺ نے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے: ”اللّٰہ کے عذاب کے ساتھ کسی کو عذاب نہ دو“ بلکہ میں اُنہیں قتل کرتا کیونکہ رسول اللّٰہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”جو شخص اپنا دین بدل دے، اسے قتل کردو۔“
اور واضح رہنا چاہیے کہ ارتداد کی سزا، صرف اسلام کو چھوڑنے کی سزا
[22] ہے جس کو دیگر سزاؤں کی طرح فوری قائم کرنا ضروری ہے ۔ اگر وہ اس کے ساتھ ریاست کے خلاف کوئی اقدام بھی کرتا ہے تو وہ کافر ہو یا مسلمان اس کو فساد اور دہشت گردی کی سزاے حرابہ بھی دی جائے گی۔فرمانِ نبویﷺ ہے:
«لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ، أَوْ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ، أَوِ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ»[23]
’’کسی مسلمان شخص کا خون بہانا جائز نہیں مگر (تین آدمیوں کا:) وہ آدمی جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا اور وہ شخص جس نے اسلام لانے کے بعد کفر کیا یا قاتل کو قصاص میں مارا جائے گا۔‘‘
نبی کریمﷺ سے جب مسیلمہ کذاب کے مرتد قاصدملنے آئے تو آپ نے پوچھا :
"أَتَشْهَدَانِ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟" قَالَا: نَشْهَدُ أَنَّ مُسَيْلِمَةَ رَسُولُ اللهِ فَقَالَ: «لَوْ كُنْتُ قَاتِلًا رَسُولًا، لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا» قَالَ: فَجَرَتْ سُنَّةً أَنْ لَا يُقْتَلَ الرَّسُولُ...[24]
’’ کیا تم میرے رسول اللّٰہ ہونے کا اقرار کرتے ہو۔ وہ دونوں بولے: ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ ہی اللّٰہ کا رسول ہے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں ایلچیوں کو قتل کرنے والا ہوتا تو میں ضرور تمہاری گردنیں مار دیتا۔ ‘‘ سو یہ روایت جاری ہوگئی کہ ایلچی کو قتل نہ کیا جائے۔ ‘‘
اس واقعہ میں نبی کریمﷺ نے خود مرتدوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا،لیکن ایلچی ہونے کی بنا پر اپنا ارادہ ترک کردیا۔ اور خیر القرون کا ایک اور واقعہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے یوں بھی مروی ہے کہ
أَنَّ رَجُلًا أَسْلَمَ ثُمَّ تَهَوَّدَ فَأَتَى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَهُوَ عِنْدَ أَبِي مُوسَى فَقَالَ مَا لِهَذَا قَالَ أَسْلَمَ ثُمَّ تَهَوَّدَ قَالَ لَا أَجْلِسُ حَتَّى أَقْتُلَهُ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ﷺ[25]
’’ ایک آدمی اسلام لایا،پھر یہودی ہوگیا۔سیدنا معاذ بن جبل ؓ آئے تو وہ شخص سیدنا ابو موسٰی ؓ کے پاس تھا۔ سیدنا معاذ ؓ نے پوچھا: اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے کہا: یہ اسلام لانے کے بعد یہودی بن گیا ہے۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں، اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا۔ اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ کا یہی فیصلہ ہے۔‘‘
اس حدیث میں قضاء رسول الله یعنی رسول اللّٰہ کے عدالتی فیصلہ کی بات ہے، اور واضح ہے کہ عدالتی فیصلہ حکومتی طاقت کے ساتھ نافذ العمل ہوتا ہے ، نہ کہ اس کو آخرت پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
اسلامى فقہ كے اجماعى مسائل پر مشتمل انسا ئيكلوپيڈيا میں ہے كہ مرتد کی سزا قتل ہے:
اتفقوا على أن من كان رجلا مسلما حرًّا ... ثم ارتد إلى دين كفر...أنه حل دمه.[26]
" تمام فقہاے اسلام كا اتفاق ہے كہ آزاد مسلمان مرد مرتد ہوجائے تو اس كا خون بہانا جائز ہے۔‘‘
نیز ائمہ اربعہ كے فقہى مسائل پر مبنى كتاب الفقه على مذاهب الأربعة میں ہے كہ
واتفق الأئمة الأربعة عليهم رحمة الله تعالىٰ على أن من ثبت ارتداده عن الإسلام والعياذ بالله وجب قتله، وأهدر دمه.[27]
’’ائمہ اربعہ كااس پر اتفاق ہے كہ جو شخص اسلام سے پهر جائے ... اللّٰہ بچائے... اُس كا قتل واجب ہے اور اُس كا خون بہانا جائز ہے۔‘‘
قادیانی کا دعواے اسلام کرنا
اگر کوئی قادیانی مرزاقادیانی کی نبوت پر ایمان لانے کے باوجود اسلام کا دعویٰ کرے تو اس پر ارتداد اور زندقہ کی سزا کو نافذ کیا جائے۔اور اس میں توبہ کی گنجائش اس وقت ہے ، جب وہ زبان سے کفر کا اقرار ی ہو، اگر کفر کا دعویٰ ہی نہ کرے تو پھر توبہ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ سیدنا علی کے واقعہ میں ہے :
أتى على رضي الله عنه بناس من الزنادقة ارتدوا عن الإسلام فسألهم فجحدوا فقامت عليهم البينة العدول قال: فقتلهم ولم يستتبهم وقال: وأتى برجل كان نصرانيا وأسلم ثم رجع عن الإسلام قال: فسأله فأقر بما كان منه فاستتابه فتركه فقيل له: كيف تستتيب هذا ولم تستتب أولئك؟ قال: إن هذا أقر بما كان منه وإن أولئك لم يقروا وجحدوا حتى قامت عليهم البينة فلذلك لم أستتبهم.[28]
’’ سیدنا علی کے پاس کچھ زنادقہ لوگ لائے گئے جو اسلام سے مرتد ہوچکے تھے۔ سیدنا علی نے ان سے اسلام کا پوچھا تو انہوں نے انکار کردیا۔ (لیکن ان کے ارتداد) پر عادل گواہی قائم ہوگئی، راوی کہتے ہیں کہ آپ نے ان کوقتل کروا دیا اور ان سے توبہ نہ کروائی۔ جبکہ آپ کے پاس ایک عیسائی کو لایا گیا جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا تو اس نے ارتداد کا اقرار کیا، آپ نے اس سے توبہ کراکے اسے چھوڑ دیا۔ پوچھا گیا کہ اس عیسائی سے آپ نے توبہ کرائی اور ان سے نہیں کرائی۔ توآپ نے کہا کہ عیسائی نے تو ارتداد کا اقرار کیا ہے اور زنادقہ نے انکار کیاتھا ، حتی کہ ان پر گواہی قائم کرنا پڑی، چنانچہ ان سے میں نے توبہ نہیں کرائی۔ ‘‘
ثانیاً: ارتداد کی شرعی سزا تو واضح ہے، تاہم اگر کوئی قادیانی غلط بیانی یا دھوکہ دہی کا جرم تکرار و اصرا رکے ساتھ کرے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے تو ہر دھوکہ دہی کی سزا تو قتل نہیں ہے لیکن تکرار کی بنا پر اس کی سزا ؍ تعزیر بھی سنگین تر حتیٰ کہ قتل تک ہوسکتی ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے:
«من شرب الخمر فاجلدوه، ثم إذا شرب فاجلدوه، ثم إذا شرب فاجلدوه، ثم إذا شرب في الرابعة فاقتلوه»[29]
’’جو شراب پئے،اس کو درّے مارو، پھر پئے تو پھر درّے مارو، پھر پئے تو پھر درّے مارو۔ پھر چوتھی بار بھی پئے تو اس کو قتل کردو۔‘‘
اور قاضی ابن عابدین شامی (م 1252ھ) لکھتے ہیں :
مَا جَاءَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ مِنْ الْقَتْلِ فِي مِثْلِ هَذِهِ الْجَرَائِمِ عَلَى أَنَّهُ رَأَى الْمَصْلَحَةَ فِي ذَلِكَ وَيُسَمُّونَهُ الْقَتْلَ سِيَاسَةً، وَكَانَ حَاصِلُهُ أَنَّ لَهُ أَنْ يُعَزِّرَ بِالْقَتْلِ فِي الْجَرَائِمِ الَّتِي تَعَظَّمَتْ بِالتَّكْرَارِ وَشُرِعَ الْقَتْلُ فِي جِنْسِهَا ...أَنَّ لِلْإِمَامِ قَتْلَ السَّارِقِ سِيَاسَةً أَيْ إنْ تَكَرَّرَ مِنْهُ ... وَكُلُّ مَنْ كَانَ كَذَلِكَ يُدْفَعُ شَرُّهُ بِالْقَتْلِ، وَسَيَأْتِي أَيْضًا فِي بَابِ الرِّدَّةِ أَنَّ السَّاحِرَ أَوْ الزِّنْدِيقَ الدَّاعِيَ إذَا أُخِذَ قَبْلَ تَوْبَتِهِ ثُمَّ تَابَ لَمْ تُقْبَلْ تَوْبَتُهُ وَيُقْتَلُ، وَلَوْ أُخِذَ بَعْدَهَا قُبِلَتْ.[30]
’’جو نبی کریمﷺ اور آپ کے صحابہ سے ایسے جرائم کے بارے میں منقول ہے کہ اگر حاکم مناسب سمجھے تو بطور سیاست (مصلحت ) قتل کا حکم دے سکتا ہے ، اوراس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر بعض جرائم تکرار کی وجہ سے بڑے ہوجائیں اور اس جیسے جرائم میں قتل کی سزا دی جاتی ہو، تو قاضی وہاں بھی قتل کی سزا نافذ کرسکتا ہے ۔ چنانچہ حاکم چور کے لئے بطور مصلحت قتل کی سزا تجویز کرسکتا ہے اگر چوری کا جرم بکثرت وتکرار ہو۔ اور ہر ایسا جرم جس کی خرابی کا ازالہ قتل سے ہی ہوسکتا ہو۔ او رعنقریب ارتداد کے باب میں آئے گا کہ اپنی گمراہی کا داعی زندیق اگر توبہ کرنے سے قبل پکڑ لیا جاے پھر وہ توبہ کرے تو توبہ کا کوئی اعتبار نہیں اور اس کو قتل کیا جائے گا، اور اگر توبہ کے بعد زندیق کو پکڑا جائے تو اس کی توبہ مقبول ہوگی۔ ‘‘
ثالثاً: اگر کسی قادیانی ملازم، عہدیدار کی مذہب کے بارے میں دورانِ ملازمت غلط بیانی کا علم ہوجائے تو غلط بیانی کی سنگینی اور شدید اثرات کی بنا پر اس کی ملازمت فوری طورپر ختم کردی جائے اور اگر کسی سرکاری ملازم نے اپنی سرکاری حیثیت سے فائدے اُٹھانے کے بعد اگر اپنا مذہب تبدیل کیا ہو تو اس کو پنشن؍ملازمت کے باقی سرکاری فوائد واعزاز کے خاتمے کے ساتھ ساتھ، جتنے مشاہرات وفوائد ا س نے حاصل کئے ہوں، ان کو ریاست کے خزانے میں واجب الادا قرار دیا جائے یا کم ازکم ماضی میں اس حیثیت سے اُٹھائے جانے والے فوائد میں سے موجود چیزوں کی ضبطی کی قانون سازی کی جانا ضروری ہے۔ا س کے بغیر مذہبی حیثیت میں تبدیلی کو منع قرار دیا جائے۔
٭ اگر فی الواقع کوئی قادیانی ، مرزا کی نبوت سے تائب ہوکر اسلام لانا چاہتاہے تو اس کے لئے اس کو توبہ کے شرعی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ جیساکہ پیچھے سوال نمبرایک کے آخر میں گزر چکا ہے۔
چوتھا سوال: اگر درج بالا سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو ریاست کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
اسلامی حکومت کا فریضہ؛ تاریخ کے آئینہ میں
مسلم حکومت نے ہر دور میں مرتدین اور زنادقہ کے بارے میں فوری اقدام کئے، جیسا کہ
1. نبی کریم ﷺ نے مسجدِ ضرار کو فوری طور پر ڈھا دیا، جیساکہ تفصیلات پیچھے گزریں۔
2. توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے زندیق کعب بن اشرف کو خود قتل کروایا
[31]اور عبد اللّٰہ بن خطل سمیت چار شاتمین کے قتل کے احکام
[32]جاری کئے۔
3. سیدنا ابوبکر نے مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کے ساتھ لشکر کشی کی۔ سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے :
لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ فَقَالَ وَاللهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ فَقَالَ عُمَرُ فَوَاللهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ[33]
’’جب رسول اللّٰہ ﷺ کی رحلت ہوئی اور آپ کے بعد سیدنا ابو بکر ؓ خلیفہ منتخب کیے گئے تو عرب کے کچھ لوگ کافر ہوگئے۔ (ابوبکر ؓ نے ان سے جنگ کرنا چاہی۔) سیدنا عمر ؓ نے سیدنا ابو بکر ؓ سے کہا: آپ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے : ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں کافر لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ اللّٰہ کا اقرار کرلیں، لہذا جوشخص لا الہ اللّٰہ کا اقرار کرے گا تو میری طرف سے اس کا مال اور ا سکی جان محفوظ ہے مگر حق اسلام باقی رہے گا اور ان کے اعمال کا حساب اللّٰہ کے ذمے ہے؟“ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: اللّٰہ کی قسم! میں ہر اس شخص سے ضرور جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکاۃ میں فرق کیا کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللّٰہ کی قسم ! اگرانہوں نے مجھ سے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللّٰہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے اس کے انکار پر جنگ کروں گا۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: میں نے غور کیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ واقعی اللّٰہ تعالیٰ نے جنگ کے لیے سیدنا ابو بکر ؓ کا سینہ کھول دیا ہے اور وہ جنگ کرنے کے سلسلے میں حق پر ہیں۔‘‘
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صرف کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ دین کے مسلّمہ تقاضوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ اور ان مسلمات میں نبوت، ارکانِ اسلام، محارم سے نکاح ، جہاد وغیرہ شامل ہیں، اور ایسا نہ کرنے والے کو راہِ راست پر لانےکے لئے ریاست کو اقدامات کرنے ہوں گے۔
[34]
اس حدیث میں وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ کے الفاظ سے پتہ چلا کہ ان میں سے بعض لوگ مرتد بھی تھے۔ اس حدیث کی شرح میں مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ نُسِبُوا إِلَى الرِّدَّةِ كَانُوا صِنْفَيْنِ: صِنْفٌ رَجَعُوا إِلَى عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ وَصِنْفٌ مَنَعُوا الزَّكَاةَ وَتَأَوَّلُوا قَوْلَهُ تَعَالَى ﴿خُذ مِن أَمولِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم...﴾[35]
’’مرتد قرار پانے والے لوگ دو طرح کے تھے: پہلی قسم ان لوگوں پر تھی جو (نبوت محمدی کو چھوڑ کر) بتوں کی پرستش کی طرف لوٹ گئے تھے، اوردوسری قسم ان کی تھی جنہوں نے زکاۃ ادا کرنے سے انکار کردیا تھا اور قرآن کریم کی مذکورہ آیت کی تاویل کرلی تھی۔ ‘‘
اور ارتداد کی اہم ترین صورت رسالتِ محمدی سے انکار کرنا ہے، جیساکہ نبی کریم ﷺنے مسیلمہ کی نبوت ماننے والے قاصدوں کو قتل کرنے کا ارادہ اسی ارتداد کی بنا پر کیا تھا، لیکن ایلچی ہونے کی بنا پر چھوڑ دیا۔
4. سیدنا عمر فاروقؓ نے بھی مرتدین کو سزا دی، جیسا کہ اس حدیث میں ہے :
أخذ ابن مسعود قومًا ارتدوا عن الاسلام من أهل العراق، فكتب فيهم إلى عمر، فكتب إليه:"أن اعرض عليهم دين الحق وشهادة أن لا إله إلا الله فإن قبلوها فخلّ عنهم وإن لم يقبلوها فاقتلهم." فقبلها بعضهم فتركه ولم يقبلها بعضهم فقتله.[36]
’’سیدنا عبد اللّٰہؓ بن مسعود نے اہل عراق میں بعض مرتدین کو پکڑ لیا اور ان کا معاملہ سیدنا عمرؓ کو لکھ بھیجا۔ تو آپ نے جواب دیا: کہ ان پر اسلام اور کلمہ توحید کو پیش کرو، اگر قبول کرلیں تو جانے دو، اگر نہ مانیں تو ان کو قتل کردو۔ چنانچہ بعض نے توحید کو قبول کرلیا تو عبد اللّٰہؓ بن مسعود نے اُنہیں چھوڑ دیا، بعض نے نہ مانا تو اُنہیں آپ نے قتل کردیا۔ ‘‘
5. سیدنا علیؓ نے عبد اللّٰہ بن سبا کو سزا ے قتل دی،جیسا کہ زنادقہ کو سزا دینے کا واقعہ چار صفحے قبل گزر چکا ہے ۔
6. دورِ بنو اُمیہ میں جعد بن درہم کو سزا ے قتل دی گئی: فرقہ جہمیہ کے بانی جعد بن درہم نے اللّٰہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کیا، اور واسط کے حکمران عبد اللّٰہ قسری نے عید الاضحیٰ 128ھ؍ 746ء کو اسے سزا دیتے ہوئے قتل کردیا۔
فَإِنِّي مُضَحٍّ بِالْجَعْدِ بْنِ دِرْهَمٍ.
[37]اس کا کہنا تھا کہ اللّٰہ نے سیدنا ابراہیمؑ کو خلیل نہیں بنایا، اور سیدنا موسیٰؑ سے کلام نہیں کیا۔ سو عبد اللّٰہ قسری نے علما ے سلف سے فتویٰ لے کر اسکو قتل کردیا۔
7. اسی طرح مسلم خلفا نے منصور حلاج اور ابن ابی عزافیر کو ان کے غلط عقائد کی بنا پر قتل کروا دیا ۔ قاضی عیاض (م476ھ) لکھتے ہیں:
وأجْمَع فُقَهَاء بَغْدَاد أيَّام المُقْتَدِر مِن المَالِكِيَّة وقاضِي قُضاتِهَا أبو عمر الْمَالِكِيّ عَلَى قَتْل الْحَلَّاج وصَلْبِه لِدَعْوَاه الإلهِيَّة والقول بالحُلُول وَقَوْلِه: "أَنَا الْحَقّ" مَع تمسُّكه فِي الظّاهِر بالشّرِيعَة وَلَم يَقْبَلُوا تَوْبَتَه[38]
’’مالکی فقہاے بغداد کا اپنے چیف جسٹس ابوعمر مالکی کے ہمراہ، مقتدر باللّٰہ کے دور میں اس پر اتفاق تھا کہ منصور حلّاج کو قتل کرکے سولی دی جائے کیونکہ اس نے اُلوہیت اور اپنے میں ربّ کے حلول کرجانے کا دعوٰی کیا تھا۔ اور اس کا موقف تھا کہ وہی ’ حق‘ (تعالیٰ) ہے۔ باوجود اس کے ، کہ وہ بظاہر شریعت کی پابندی کرتا تھا۔ ان فقہا نے اس کی توبہ کو بھی قبول نہ کیا۔ ‘‘
حسین بن منصور حلاج ایرانی شہر بیضاء کا رہائشی تھا، اور واسط وعراق میں اس نے تربیت پائی۔ ذوالقعدہ 309ھ میں مقتدر باللّٰہ کے حکم سے اس کو ہزار کوڑے مارنے اور ہاتھ پاؤں کاٹنے کے بعد سرقلم کیا اور جسم کو جلا دیا گیا۔ فقہاے بغداد کا یہی فیصلہ ابن ابی عزافیر کے بارے میں تھا، جو خلیفہ راضی باللّٰہ کے دور میں منصور حلاج کے نقش قدم پر چلا، اور اس وقت بغداد کے قاضی القضاۃ ابو عمر مالکی کے بیٹے ابو الحسین تھے۔(ایضاً)
حکومتِ پاکستان کا دینی فریضہ
حکومتِ پاکستان نے ماضی میں شاندار قانونی اقدامات کئے، اور اب اس کو یوں جاری رہنا چاہیے کہ
1. قادیانیوں نے گذشتہ برسوں میں امتناع قادیانیت کے قوانین کے بعد ، اپنا لبادہ تبدیل کرکے مختلف ناموں سے لوگوں میں گمراہی پھیلانا شروع کررکھی ہے۔ جیساکہ ان قادیانی تنظیموں اور کاموں سے واضح ہے:
1. تحریکِ جدید (قادیانیت کے مطابق قرآن کا ترجمہ کرنا اور اس کو سکھانا)
2. تحریکِ وقف جدید ( دیہات میں مبلغ پیدا کرنے کے لئے )
3. مدرسۃ الظفر، چناب نگر ( پوری دنیا میں قادیانیت کی دعوت پھیلانے کے لئے )
4. تحریک وقف نو ( پیدائش سے پہلے تبلیغ قادیانیت کے لئے بچہ وقف کرنا)
5. نصرتِ جہاں تحریک ( سکول وکالج میں مسلم شناخت والے اساتذہ کے ذریعے تبلیغ قادیانیت)
6. بیوت الحمد تحریک (ہر علاقے میں مسجد کی تعمیر کے لئے )
7. سیدنا بلال فنڈ ( تبلیغ قادیانیت میں پکڑے جانے والوں اور ان کے لواحقین کی مدد کے لئے )
8. مریم شادی فنڈ ( غریب مسلم لڑکیوں کو جہیز دے کر قادیانیت کا فروغ کرنا)
9. لجنۃ اماء اللّٰہ ( عورتوں کو تبلیغ کے لئے تیار کرنا )
10. خدام الاحمدیہ ( نوجوانوں کو تبلیغ کے لئے تیارکرنا)
11. مجلس انصار اللّٰہ ( 40 سال سے زائد مسلمانوں میں فروغ قادیانیت)
12. اسی طرح قادیانیوں کے بہت سے فرقے بھی ہیں، جو ایک دوسرے کو بھی کافر کہتے ہیں جیساکہ لاہوری موومنٹ، جماعت احمدیہ المسلمین، انوار الاسلام موومنٹ نائیجیریا، جماعت صحیح الاسلام، گرین احمدیہ، احمدیہ ریفارم موومنٹ، الاحمدیہ، اسد شاہ الاسلام احمدیہ کینیڈا وغیرہ وغیرہ
1. قادیانیوں کی روز افزوں بڑھتی شرانگیزیوں کی نگرانی اور خاتمے کے لئے تمام مسالک پر مشتمل ایک ’امتناع قادیانیت بورڈ ‘تشکیل دیا جائے ...
1. پاکستان میں ایسے بورڈ کا بننا اس لئے ضروری ہے کہ دیگر ممالک کے برعکس قادیانی فتنہ کا شکار اور مرکز یہی مادرِ وطن ہے اور یہاں ہی ان کے اہم مقامات او رمراکز وادارے کام کررہے ہیں۔
2. یہی بورڈ حساس عہدوں کے لئے مشتبہ امیدواروں کی ’نظریاتی کلیئر نس‘ Ideological Verificationکی ذمہ داری پوری کرے۔ اور اس مقصد کے علماے کرام کے ساتھ ماہرین نفسیات کو بھی شامل کیا جائے۔
3. اس بورڈ کے تحت ملک بھر میں امتناع قادیانیت کی سرگرمیوں کی رپورٹ جمع کرائی اور ان پرنظررکھی جائے۔ پاکستان میں قادیانی مسلم ٹی وی احمدیہ، یورپ سے چلنے والی قادیانی ویب سائٹس کی روک تھام، سوشل میڈیا پر قادیانیت کی سرگرمیوں کی روک تھام
4. قادیانیت کے حوالے سے شرعی فتاویٰ اور سماجی رہنمائی کے لئے مجاز بورڈ بھی یہی قرار پائے ۔
5. قادیانی تنظیمات اور میڈیا پر ان کے بارے میں چھپنے والی تمام تفصیلات کی ایک کاپی یہاں میسر کرنا قانوناً لازمی ہو۔
6. یہی بورڈ قادیانیوں کے سماجی جائزے اور واپس اسلام قبول کرنے والوں یا کفر کا دعویٰ کرنے والوں کا فیصلہ کرے۔
2. ضروری ہے کہ دستورِ پاکستان میں موجود صدر ووزیر اعظم کے لئے حلف نامے کو
1. لازمی طور پر ان کی جگہ قائم مقام بننے والے صدر ؍ وزیر اعظم یعنی چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی کے لئے توسیع کیا جائے۔
2. اس حلف نامے کو وفاقی کابینہ کے تما م وزرا تک توسیع دینا بھی ضروری ہے۔کیونکہ تمام حساس فیصلے یہیں کئے جاتے ہیں اور حساس مشاورت کے لئے مشیروں کا امین و خیرخواہ ہونا ضروری ہے جیساکہ قرآن کریم میں ہے :
﴿وَقالَ ما نَهىكُما رَبُّكُما عَن هـذِهِ الشَّجَرَةِ إِلّا أَن تَكونا مَلَكَينِ أَو تَكونا مِنَ الخـلِدينَ ﴿
٢٠﴾ وَقاسَمَهُما إِنّى لَكُما لَمِنَ النّـصِحينَ ﴿
٢١﴾... سورة الاعراف
’’شیطان کہنے لگا :’’تمہیں تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لئے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ یہاں رہنے والے نہ بن جاؤ۔‘‘پھر ان دونوں کے سامنے قسم کھائی کہ میں فی الواقع تمہارا خیر خواہ ہوں۔‘‘
اس واقعے سے علم ہوا کہ مشیر کوخیرخواہی کا دعویٰ کرنے والا ہی نہیں، بلکہ حقیقتاً خیرخواہ ہونا چاہیے۔وگرنہ وہ خیرخواہی کے پردے میں تباہی وبربادی کو مسلط کرسکتاہے جیسا کہ سیدنا آدم وحوا کے لئے بڑے دھوکے باز شیطان نے یہی کیا ۔ چونکہ پاکستان میں مشاورتی جمہوریت قائم ہے، جس میں فرد واحد کی بجائے متعدد افراد کی حکومت ہوتی ہے، اس لئے کابینہ اور وفاقی وزرا سمیت ممتاز حکام کا خیرخواہ ہونا اشد ضروری ہے۔
4. امتناع قادیانیت کے قانون 1984ء کے تحت کلمہ، مسجد، اذان، اسلام، اُمّ المؤمنین اور صحابہ کرام کی مسلم اصطلاحات کا قادیانیوں کے لئے استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے، جبکہ قادیانی
1. اپنے لئے ’دین حق‘
2. اسلامیات کی تعلیم کے لئے قادیانی اساتذہ
3. MTA یعنی ’مسلم ٹی وی احمدیہ ‘
4. رضی اللّٰہ عنہ کی جگہ ’اللّٰہ ان سے راضی ہوا ‘
5. مرزا اور اس کے متعلقین کے لئے یا اس کے مخفف ’ ؑ ‘کو استعما ل کرنا
6. مرزا کو ’مسیح موعود‘ یا ’مہدی‘ کہنا
7. مرزا کے جانشینوں کو ’خلیفۃ المسیح‘ قرار دینا یا اپنے نظام کو خلافت کہنا
8. فوت شدگان کو رحمۃ اللّٰہ، نور اللّٰہ مرقدہ، قدس اللّٰہ سرہ، رحمۃ اللّٰہ علیہ ، شہید، مرحوم
9. ’جنت الفردوس‘ وغیرہ بولنا، یا ان کے اُردو تراجم بولنا
10. کلمہ طیبہ یا ’بسم اللّٰہ‘ کو کتبہ قبر پر لکھنا
11. مسلمان قبرستان میں دفن ہونا
12. مسجد کی ہیئت پر اپنی عبادت گاہ کو بنانا، وغیرہ
13. عید الاضحیٰ اور عید الفطر منانا اور عید قربان پر قربانی کرنا
14. اپنی عبادت کو نماز اور روزہ قرار دینا
ایسی بہت سے چیزیں ہیں، جو ناجائز طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان سب پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔
5. اسلامی نام اور ’احمدیہ‘ کے لفظ کو بھی اختیار کرنا قادیانیوں کے لئے ناجائز ہے۔ پاکستانی معاشرے میں مسلمان اسلامی اور صحابہ کرام کے ناموں کو ہی استعمال کرتے ہیں، اور کوئی مسلمان یوحنا، متی، میتھیو، کمار، وغیرہ جیسے نام نہیں رکھتا۔ عمل میں کوتاہ لوگوں کے ہاں بھی دین، رحمن، ہاشمی ، بخاری ، ترمذی ، سید جیسے نام ہی بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ اس سے علم ہوتا ہے کہ ناموں کے ذریعے مذہبی تشخص کا اظہار پاکستان کی ایک مسلمہ عمرانی روایت ہے جس پر اس وقت تک پوری پابندی سے عمل ہوتا ہے ۔ قادیانی مسلمان نہیں، نہ ہی عیسائی اور یہودی ہیں کیونکہ سیدنا عیسیٰ کا تذکرہ مرزا قادیانی نے نہایت گندی زبان سے کیا ہے۔ ان کا مذہب ایک مستقل مذہب ہے، جس کا الہامی مذاہب سے کوئی تعلق نہیں، اس بنا پر قادیانیوں کا اپنے آپ کو احمدی قرار دینا خلافِ واقعہ ہے کہ مرزا قایادنی کا نام احمد نہیں بلکہ مرزا غلام احمدقادیانی
[39] ہے۔
ثانیاً : ’احمد‘ تو مسلمانوں کا نام ہے، یہ ان کے نبی کا نام ہے جو قرآن کریم میں آیا ہے :
﴿وَمُبَشِّرًا بِرَسولٍ يَأتى مِن بَعدِى اسمُهُ أَحمَدُ فَلَمّا جاءَهُم بِالبَيِّنـتِ قالوا هـذا سِحرٌ مُبينٌ ﴿
٦﴾... سورة الصف
’’ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔‘‘
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’احمد کے دو معنی ہیں: ایک اپنے پروردگار کی بہت زیادہ حمد بیان کرنے والا۔ دوسرے وہ جس کی بندوں میں سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو ۔ اور یہ دونوں صفات آپ کی ذاتِ اقدس میں پائی جاتی ہیں ۔ علاوہ ازیں آپ نے خود ہی فرمایا ہے کہ ’’میرے کئی نام ہیں : میں محمد ہوں، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں، اللّٰہ میری وجہ سے کفر کو مٹائے گا، میں حاشر ہوں ۔ یعنی لوگ میری پیروی پر حشر کئے جائیں گے اور میں عاقب (تمام پیغمبروں کے بعد آنے والا) بھی ہوں ۔‘‘
[40]
اس بنا پر اُنہیں ’احمدی‘ قرار دینا بھی سراسر ناجائز ہے ،انہیں مرزائی سمجھنا اور کہنا چاہیے۔ احمدی قرار دے کر ہم مرزائی دجل وفریب اور اسلامی شعائرپر ہاتھ صاف کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔ اسلام غیرمسلموں کو مسلم معاشرے میں خالص اسلامی نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اس پر اجماعِ صحابہ
[41] ہے۔
اسی طرح قادیانیوں کو اسلامی اور متبرک شخصیات کے نام رکھنے سے بھی قانونًا روکنا چاہیے ، اور اُنہیں کوئی ایسا نام نہیں رکھنا چاہیے جس سے مسلمانوں سے ان کا کوئی اشتباہ ہو، یا اسلام سے قربت کا کوئی قرینہ سمجھ میں آئے۔ ہر مرزائی کے لئے محمد، احمد، انبیا اور صحابہ کرام وصحابیات اور مسلم ائمہ کرام کے ناموں کو استعمال کرنے پر پابندی ہونی چاہئے۔ (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی )
حوالہ جات:
[1] روزنامہ نوائے وقت: 2؍ مارچ 2018ء
[2] روزنامہ نوائے وقت: 20؍ فروری2018ء
[3] ریاست کی تعریف:’’آرٹیکل نمبر7:ریاست سے وفاقی حکومت( مجلس شوری؍ پارلیمنٹ) کوئی صوبائی حکومت، کوئی صوبائی اسمبلی، اور پاکستان میں ایسی مقامی ہئیت ہائے مجاز مراد ہیں جو ازروے قانون کوئی محصولی یا چونگی عائد کرنے کا اختیار ہو۔ ‘‘ یعنی پاکستانی ریاست میں سارے قومی وصوبائی ارکان اسمبلی، اور ٹیکس نافذ کرسکنے والے سرکاری ادارے واہل کار شامل ہیں۔ ‘‘
[4] صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ )بَابُ اسْتِحْقَاقِ الْوَالِي الْغَاشِّ لِرَعِيَّتِهِ النَّارَ)،رقم141 ، صحیح بخاری : 7151
[5] جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْجِهَادِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ )بَابُ مَا جَاءَ لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ( ،1707
[6] السیاسۃ الشرعیۃ از ابن تیمیہ: ص 6، 1418ھ
[7] اگر کوئی قادیانی واقعتاً اسلام پر لوٹ آئے اور مرزا کی نبوت سے توبہ کرلے، اُس کو دعواے نبوت کی بنا پر کافر جانے تو لاہور کی بادشاہی مسجد میں موجود دفتر جملہ اعتقادی اور معاشرتی لوازمات پورے کرنے کے بعد اس کا باقاعدہ تصدیق نامہ جاری کرتا ہے۔
[8] صحيح بخاری: احادیث نمبرز 1312، 1356، 6024
[9] قاموس المعجم الوسيط، زیر مادہ شعائر
[10] تفسیر تیسیر القرآن: زیر آیت سورۃ المائدۃ:1
[11] فیصلہ شرعی عدالت1984ء :پی ایل ڈی 1985ء ، فیصلہ نمبر 8
[12] إعلام الموقعين از حافظ ابن قیم 4 ؍ 193
[13] مجموع فتاوی ابن تیمیہ : 28؍658
[15] اعلام الموقعین از حافظ ابن قیم:1؍144
[16] ’قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ پر متفقہ فتویٰ‘ مرتب: مولانا خواجہ رشید احمد، ناشر مرکز سراجیہ، غالب مارکیٹ لاہور ، 2011ء
[17] ’پارلیمنٹ میں قادیانی شکست‘ از مولانا اللّٰہ وسایا: ص 43، علم وعرفان پبلشرز، لاہور
[18] ’پارلیمنٹ میں قادیانی شکست‘ از مولانا اللّٰہ وسایا: ص 39، علم وعرفان پبلشرز، لاہور
[19] تفسیر ’لطائف الإشارات ‘از عبد الكریم بن ہوازن قشیری ،م 465ھ: 3؍ 573، مصر
[20] محمد عطاء اللّٰہ صدیقی مرحوم، مضمون ’ام الحقوق‘ ...ماہ نامہ محدث، لاہور ،شمارہ جون 2000ء ، ص 29 ، 30
[21]
صحيح البخاري: كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ (بَابُ حُكْمِ المُرْتَدِّ وَاسْتِتَابَتِهِمْ)، رقم 6922
[22] فاضل عدالت كے سامنے قانونی معاون ڈاکٹر اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے یہ غلط موقف پیش کیا کہ ’’ارتداد کی سزا صرف آخرت میں ہے، دنیا میں نہیں۔ اور سزاے ارتداد دراصل ریاست سے بغاوت اور اس کے خلاف اقدام کی سزا ہے۔ ‘‘
[23] سنن النسائي: كِتَابُ المُحَارَبَة (بَابُ ذِكْرِ مَا يَحِلُّ بِهِ دَمُ الْمُسْلِمِ)، ح 4019
[24] مسند احمدبن حنبل: رقم 3709، قال شعیب ارناؤط : صحیح
[25] صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ: بَابُ الحَاكِمِ يَحْكُمُ بِالقَتْلِ عَلَى مَنْ وَجَبَ عَلَيْهِ، دُونَ الإِمَامِ الَّذِي فَوْقَهُ، رقم 7157
[26] موسوعة الإجماع :1؍ 436 مزید تفصیل کے لئے ماہ نامہ محدث لاہور: ’مرتد کی سزا ‘از محمد رفیق چودھری: فروری 2007
[27] الفقه على مذاهب الأربعة از عبدالرحمن جزيرى: 5؍423
[28] الصارم المسلول مترجم، ناشر مکتبہ قدوسیہ:ص 469، طبع 2011ء مسند احمد 2552، سنن دارمی: ص 113، طبع اوّل، حديث صحیح
[29] سنن أبو داود : ح 4484 صحيح
[30] رد المحتار از قاضی ابن عابدین : 4؍63، دار الفکر، بیروت
[31] صحیح البخاري 2510،1303،4037، صحیح مسلم: 1801، سنن أبي داود: 2768
[32] سنن نسائی: باب الحكم فی المرتد،ح4067، صحیح... صحيح بخاری:ح1846،4286
[33]
صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ(، رقم 7285
[34] فَكُلُّ طَائِفَةٍ مُمْتَنِعَةٍ عَنْ الْتِزَامِ شَرِيعَةٍ مِنْ شَرَائِعِ الإِسلام الظَّاهِرَةِ الْمُتَوَاتِرَةِ يَجِبُ جِهَادُهَا(السياسۃ الشرعيۃ: 60)
[35] تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی: 7؍282،زیر حدیث 2607
[36] مصنف عبدالرزاق: رقم18708
[37] شرح عقیدہ طحاویہ از امام ابن ابی العز حنفی:2؍395
[38] الشفاء بتعریف حقوق المصطفی: 2؍ 298، دارالفکر 1988ء
[39] قادیان بھی اللّٰہ کی زمین اور ہندوستان کے ایک علاقے کا نام ہے ۔اس لئے ان کا نام قادیانی کی بجائے مرزائی ہی بہترہے۔
[40] صحيح بخاری، کتاب التفسیر: تفسیر سورۃ الصف: رقم 4896
[41] وَلَا نَتَكَلَّمَ بِكَلَامِهِمْ وَأَنْ لا نَتَكَنَّى بِكُنَاهُمْ (احكام اهل الملل از ابوبكر احمد بغدادی: رقم 1000)، ص 358