وفاقی وزارتِ مذہبی اُمور كا کیلنڈر’ نظامِ اوقاتِ نماز‘
تقریباً دو سال پہلے وزارتِ مذہبی اُمور کی طرف سے اسلام آباد میں موجود مساجد کے لیے اوقاتِ نماز کے تعین کا اعلان کیا گیا۔ اتحادِ اُمت کے تناظر میں بظاہر یہ خوش کن امر ہے لیکن حقیقت میں اپنے اندر بہت سی خرابیاں لیے ہوئے تھا۔ ایسی خرابیاں جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف بھی تھیں ۔کچھ عرصے کے لیے یہ معاملہ پس منظر میں چلا گیا، لیکن سننے میں آیا ہے کہ وفاقی وزارتِ مذہبی اُمور سنجیدگی سے اس پر عمل کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی اور بل کی تیاری کررہی ہےجو منظوری کے بعد باقاعدہ قانون بن جائے گا۔ زیر نظر سطور میں اس متوقع اقدام کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائز ہ لیا گیاہے۔
1. ’کیلنڈر نظام اوقات‘دین میں دخل اندازی ہے اور اس طرح شرعی حکم پر عمل سے روکا گیا ہے:
’کیلنڈر نظام اوقات‘ میں دین میں دخل اندازی اور اس بات سے روکنا ہےجس کی شرعی حیثیت جناب رسول کریمﷺنے اپنے قول و عمل سے اُمّت کے لیے بیان فرمائی۔
اس حقیقت کو اُجاگر کرنے کی غرض سے ذیل میں دو مثالیں ملاحظہ فرمایئے:
(ا) : کیلنڈر میں اذان عصر کا وقت [5 تا 18 جولائی] 5 بج کر 14 منٹ ہے۔ [اور یہ وہ وقت ہے، جب اسلام آباد میں ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوتا ہے۔]
نبی کریمﷺکی سنتِ طیبہ سے ثابت ہے کہ اذان عصر کا وقت [ہر چیز کا سایہ ایک مثل] کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے اور اسلام آباد میں [5 تا 18 جولائی] اس وقت کا آغاز 3 بج کر 57 منٹ پر ہو جاتا ہے۔ اب 3:57 سے 5:14 کے درمیانی وقت[ 1 گھنٹہ 17 منٹ] میں عصر کی اذان دینا اس کیلنڈر کے قانونی شکل اختیار کرنے کی صورت میں خلافِ قانون ہو گا اور خلافِ قانون کام کا ارتکاب کرنے والا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ سزا… سرزنش یا جرمانہ یا قید یا تینوں سزاؤں کا… مستحق قرار پائے گا۔
جس کام کا آغاز نبی کریمﷺکے زمانہ مبارک سے ہوا، وہ خیرالقرون سے ہوتے ہوئے، صدیوں میں جاری و ساری رہتے ہوئے، پندرھویں صدی کے اڑتیسویں سال [1438ھ] میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین میں جرم بن جائے۔ اور یہ وہی سنت نبویﷺ، جس پر آج بھی دنیا بھر میں اہل حدیث مساجد میں توفیق الٰہی سے عمل ہو رہا ہے۔ کیا اس قسم کے ’کیلنڈر اوقاتِ نماز‘ کو نافذ کرنا درست ہو سکتا ہے؟
دو شبہات کا ازالہ
اوّل:کسی کو یہ مغالطہ نہ رہے کہ اس نظام اوقات کے قانون بن جانے کے باوجود، مقرر کردہ اوقات سے پہلے اذان کہنے سے روکا نہ جائے گا۔ اور جس وقت بھی کوئی اذان دینا چاہے، ان پر کسی قسم کی پابندی نہ ہوگی۔
یہ کہنا درست نہیں، کیونکہ اگر اذان کے اوقات میں یہ اختیار باقی رہنا ہے، تو پھر اس ’کیلنڈر اوقات نماز‘کو قانونی شکل دینے کی کیا حکمت ہے؟ ایسی صورتِ حال تو قانون بنائے بغیر پہلے ہی سے موجود ہے۔
دوم: کوئی شخص اس غلط فہمی کا بھی شکار نہ ہو کہ اذانِ عصر تاخیر سے دینا بھی تو جائز ہے، لہٰذا اسے قانونی شکل دینے میں کیا قباحت ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ شدید ترین خرابی اور سنگین ترین قباحت مقرر کردہ وقت سے پہلے ثابت شدہ وقت میں اذانِ عصر دینے کی ممانعت میں ہے۔ کیا یہ مداخلت فی الدین نہیں؟ کیا یہ شریعتِ اسلامیہ اور اُمتِ اسلامیہ میں تواتر سے ثابت شدہ جائز کام کو ناجائز قرار دینا نہیں؟
کیا اس صورتِ حال پر حسب ذیل آیتِ شریفہ صادق آنے کا خدشہ نہیں؟
﴿أَم لَهُم شُرَكـؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ...﴿
٢١﴾... سورة الشورى
’’یا اُن ہی کے لیے ایسے شریک ہیں، جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا، جس کی اللّٰہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔‘‘
(ب): ’کیلنڈر اوقات نماز‘ میں یکم جنوری سے 31 دسمبر تک، اذانِ مغرب کا وقت غروبِ آفتاب سے پانچ منٹ بعد رکھا گیا ہے۔اس کے برعکس سنتِ طیبہ سے اذانِ مغرب کے وقت کا آغاز غروبِ آفتاب ہے۔
امام مسلم نے حضرت سلمہ بن اکوعسے روایت کیا ہے کہ
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یُصَلِّی الْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَمْسُ وَتَوَارتْ بِالْحِجَابَ[1]
’’بے شک نبی کریمﷺسورج غروب ہو جانے، چھپ جانے کے وقت مغرب پڑھتے۔‘‘
امام نووی لکھتے ہیں:
"إِذَا غَرَبَتِ الشَمْسُ وَتَوَارَتْ بِالْحِجَاب."[2]
’’دونوں الفاظ ہم معنیٰ ہیں اور ایک دوسرے کی تفسیر ہے۔‘‘
علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
"وَتَوَارتْ بِالْحَجَاب" ’’یعنی چھپ جاتا، یہ "غَرَبَتِ الشَمْسُ"کی تفسیر اور تاکید ہے۔‘‘
[3]
امام مسلم نے حضرت رافع بن خدیجسے روایت کیا ہے، کہ انھوں نے فرمایا:
"کُنَّا نُصَلِّی الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُوْلِ الله ﷺ، فَیَنْصَرِفُ أَحَدُنَا، وَاِنَّه لَیُبْصِرُمَوَاقِعَ نَبْلِهِ"[4]
’’ہم رسول اللّٰہﷺکے ساتھ مغرب پڑھتے، تو ہم میں سے ایک [مسجد سے] لوٹتا، تو وہ اپنے نیزے کے گرنے کی جگہ کو دیکھتا تھا۔‘‘
علامہ نووی شرحِ حدیث میں لکھتے ہیں:
’’اس کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ سورج غروب ہوتے ہی اس کے اوّل وقت میں اسے ادا کرنے میں جلدی کرتے۔‘‘
پھر علامہ دونوں حدیثوں کے متعلق رقم طراز ہیں:
"وَفِىْ هَذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ أَنَّ الْمَغْرِبَ تُعَجَّلُ عَقِبَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ، وَهٰذَا مُجْمَعٌ عَلَیْهِ وَقَدْ حُکِیَ عَنِ الشِّیْعَةِ فِیْهِ شَیْئٌ لَا اِلْتِفَاتَ إِلَیْهِ، وَلَا أَصْلَ لَه." [5]
’’ان دونوں حدیثوں میں ہے کہ بے شک مغرب سورج کے غروب ہوتے ہی جلدی ادا کی جاتی ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اس بارے میں شیعہ سے کچھ چیز حکایت کی گئی ہے، [لیکن] وہ نہ تو قابل توجہ ہے اور نہ اس کی کوئی اساس ہے۔‘‘
علامہ قرطبی نے قلم بند کیا ہے:
"قوله: «اِذا غَرَبَتِ الشَمْسُ»: أَیْ سَاعَةَ تَغَرُبُ، وَهٰذَا یَدُلُّ عَلى تَأَهُّبِه قَبْلَ وَقْتِهَا، وَمُراقَبَةِ وَقْتِهَا" [6]
’’آنحضرتﷺکا ارشاد: «اِذا غَرَبَتِ الشَمْسُ»’’یعنی غروب ہوتے ہی‘‘ یہ آنحضرتﷺکے اس کے وقت [داخل ہونے] سے پیشتر [ہی] اس کے لیے تیار ہو جانے اور اس کے وقت کا خیال رکھنے پر دلالت کرتا ہے۔‘‘
ضروری تنبیہ: اگر یہ کہا جائے، کہ غروب آفتاب کے پانچ منٹ بعد اذان دینا ممنوع نہیں، جائز ہے۔ تو عرض کیا جائے اس مقام پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ غروبِ آفتاب سے لے کر اس کے چار منٹ بعد تک مجوزہ کیلنڈر اوقات کے مطابق، اذانِ مغرب دینا ممنوع، جرم اور موجب سزا ہو گا۔تو کیا مزعومہ اتفاق و اتحاد کے نام پر سنت نبوی سے ثابت، بلکہ افضل واعلیٰ بات کو جرم اور موجبِ سزا ہونے پر موافقت کی جائے گی؟
2. مسنون اوقات نماز اور حکومتی کیلنڈر کے اوقات میں بعض اوقات بہت زیادہ فرق ہونا:
سنتِ نبویﷺ اور کیلنڈر اوقات نماز میں فرق کے متعلق یہ نہ سمجھا جائے کہ فرق بہت معمولی اور قلیل ہے۔بسا اوقات دونوں میں نمازِ عصر کے اوقات میں فرق نہایت زیادہ ہے۔ ایک مثال ملاحظہ فرمایئے:
’کیلنڈر اوقاتِ نماز‘ کے مطابق
25 جون سے 4 جولائی تک اذانِ عصر کا وقت 5:13
5 جولائی سے 19 جولائی تک اذانِ عصر کا وقت 5:14
سنت کے مطابق
25 جون سے 27 جون تک اذان عصر کا وقت 3:55
28 جون سے 3 جولائی تک اذان عصر کا وقت 3:56
4 جولائی سے 9 جولائی تک اذان عصر کا وقت 3:57
11 جولائی سے 18 جولائی تک اذان عصر کا وقت 3:58
دونوں قسم کے نمازِ اوقات میں فرق 1 گھنٹہ 16 منٹ، 1 گھنٹہ 17 منٹ اور 1 گھنٹہ 18 منٹ تک ہے۔
کیا ایک ہی نماز کے اوقات میں ایک گھنٹے سے زیادہ فرق کو معمولی اور قلیل سمجھا جائے ؟
3. نظام اوقات کے وقت عصر کا محقق علماے احناف کے ہاں بھی ثابت نہ ہونا:
مجوزہ نظام اوقات سے نماز عصر کے لیے اس وقت کو بزورِقانون و قوت جاری کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، جس کا راجح ہونا محقق علمائے احناف کے ہاں بھی ثابت نہیں۔
اس حوالے سے ذیل میں تین شواہد ملاحظہ فرمایئے:
i: امام محمدنے بیان کیا:
وَأَمَّا فِىْ قَوْلِنَا: فَاِنَّا نَقُوْلُ: إِذَا زَادَ الْفَیْء عَلی الْمِثْل، فَصَارَ مِثْلَ الشَّیْئِ وَزِیَادَةً مِنْ حِیْن زَالَتِ الشَمْسُ، فَقَدْ دَخَلَ وَقْتُ الْعَصْرِ. وَأَمَّا أَ بُوْ حَنِیْفَةَ رحمه الله فَإنَّهُ قَالَ: "لا یَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ حَتّٰی یَصِیْر الظِّلُّ مِثْلَیْه."[7]
’’جہاں تک ہمارے قول کا تعلق ہے، تو بے شک ہم کہتے ہیں: ’’جب سایہ ایک مثل ہو جائے، [یعنی] جب سورج کے زوال کے وقت سے سایہ، چیز اور اس سے کچھ زیادہ ہو جائے، تو عصر کا وقت داخل ہو جاتا ہے۔ جہاں تک [امام] ابوحنیفہکا تعلق ہے، تو بے شک انھوں نے کہا: ’’عصر کا وقت سایہ کے دو مثل ہونے تک نہیں ہوتا۔‘‘
ii : ہدایہ میں ہے:
"وَآخِرُوَقْتِهَا عِنْدَ أَبِي حَنِیْفَةَ - رحمه الله تعالىٰ- اِذَا صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَیْهِ سِوَیَ فَیْ ءَ الزَّوَالِ. وَقَالَا: "إذَا صَارَ الظِّلُّ مِثْلَهُ، وَهُوَ رِوَایَةٌ عِنْدَ أَبِي حَنِیْفَةَ - رحمه الله تعالىٰ." [8]
’’اور [امام] ابوحنیفہکے نزدیک اس [نماز ظہر] کا آخری وقت زوال کے سائے کے علاوہ ہر چیز کا سایہ دو مثل ہونے تک ہے۔ اور ان دونوں
[9]نے کہا: [اس کا آخری وقت] سائے کے ایک مثل ہونے تک ہے اور وہ [امام] ابوحنیفہسے [بھی] ایک روایت ہے۔‘‘
ب: علامہ محمد عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں:
"وَالْإنْصَافُ فِيْ هٰذَا الْمُقَامِ أَنَّ أحَادِیْثَ الْمِثْل صَرِیْحَةٌ صَحِیْحَةٌ، وَأَخْبَارُ الْمِثْلَیْنِ لَیْسَتْ صَرِیْحَةً فِيْ أَنَّهُ لَا یَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ إِلَی الْمِثْلَیْنِ." [10]
’’اس مقام پر انصاف یہ ہے کہ بے شک مثل والی احادیث صریح اور صحیح ہیں۔ مثلین والی احادیث اس بارے میں صراحت نہیں کرتی، کہ عصر کا وقت مثلین ہونے تک نہیں ہوتا۔‘‘
ج: شیخ محمد تقی عثمانی بیان کرتے ہیں:
’’مثلین یعنی ظہر کا وقت ختم ہونے کے سلسلے میں عموماً احناف کی طرف سے تین دلیلیں پیش کی جاتی ہیں، لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ ان میں کوئی حدیث بھی اوقات کی تحدید پر صریح نہیں۔ اس کے برخلاف حدیثِ جبریل میں بصراحت پہلے دن عصر کی نماز مثل اوّل میں پڑھنے کا ذکر موجود ہے۔ اس لیے یہ حدیثیں حدیثِ جبریل کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اسی لیے بعض حنفیہ نے مثل اول والی روایت کو لیا ہے۔ کما فی درَّمختار۔‘‘
[11]
سبحان اللّٰہ! حضرات حنفیہ کے بعض کبار محقق ائمہ وعلما کے نزدیک غیر راجح رائے کو تو قانونی شکل دی جائے اور نبی کریمﷺکے مبارک عہد سے لے کر اُمت کے ایک طبقے کے ہاں آج تک موجود جاری و ساری سنت کو خلافِ قانون قرار دیا جائے؟
4. نماز عصر کے مقرر کردہ وقت کا نماز ظہر کے ضائع ہونے کا سبب ہونا:
’اوقاتِ نماز کا مجوزہ کیلنڈر‘ نمازِ ظہر کے ضائع ہونے کا سبب بنے گا۔ سمجھنے سمجھانے میں آسانی کی غرض سے حسبِ ذیل مثال پر غور فرمائیے:
25جون سے 4 جولائی تک
ان دنوں میں ظہر کے وقت کی انتہا 3بج کر 55 منٹ اور 3بج کر56 منٹ ہے، کیونکہ ان دنوں میں ہر چیز کا سایہ اسلام آباد میں، اس کے برابر، اسی وقت ہوتا ہے۔
جبکہ مجوزہ کیلنڈر میں وقتِ ظہر کی انتہا 5بج کر 13 منٹ ہے، جب کہ ہر چیز کا سایہ دو مثل کے برابر ہوتا ہے۔ دونوں اوقات میں فرق 1 گھنٹہ 16 منٹ یا 1 گھنٹہ 17 منٹ ہے۔
اب حدیثِ نبوی کی اتباع کرنے والے اہل حدیث حضرات و خواتین میں سے جو لوگ اس درمیانی وقت میں نمازِ ظہر پڑھیں گے، تو وہ ادا ہو گی یا قضا؟ ... کون شخص اپنے اندر ان سب لوگوں کے نماز ظہر کو فوت کروانے کا بوجھ اٹھانے کی ہمت اور حوصلہ پاتا ہے؟
5. افطاری کے لیے اذان کی ممانعت اور سائرن کا بجنا:
نبی کریمﷺنے فرمایا:
«اذَا أَقْبَلَ اللَّیْلُ مِنْ هَهُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هٰهُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّآئمُ.»[12]
’’جب ادھر سے رات آئے اور ادھر سے دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے، تو روزے دار نے [روزہ] افطار کر لیا [یعنی اس کے لیے افطاری کا وقت ہو گیا]۔‘‘
عہدِ نبویﷺسے لے کر آج تک روئے زمین پر اہل اسلام کی مساجد میں غروب ِآفتاب کے وقت نماز مغرب کی اذان کے ساتھ افطاری کی جاتی ہے۔ اب مجوزہ اوقات نماز کے کیلنڈر کے مطابق اس وقت اذان دینا خلافِ قانون قرار پائے گا، اور اس کی جگہ سائرن بجایا جائے گا۔ اذان دینے کی اجازت پانچ منٹ بعد ہوگی۔إِنَّا لِلهِ وَ اِنَّا إِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی شعائر میں سے ایک کو مٹانے کی یہ تجویز!!!
’اتفاق و اتحاد‘ کے نام پر خیرالقرون سے اب تک جاری و ساری خیر کو مٹا کر ایک غیر اسلامی طریقہ اختیار کیا جائے! کیا آیت شریفہ:
﴿أَتَستَبدِلونَ الَّذى هُوَ أَدنى بِالَّذى هُوَ خَيرٌ﴾ [13]’’اسی پر صادق نہیں آتی؟ ‘‘
کیا یہ طرز عمل وہی نہیں، جسے ہمارے نبی کریمﷺنے’مردود‘ قرار دیا ہے؟
«مَنْ أَحَدَثَ فِىْ أَمْرِنَا هٰذا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدُّ.»[14]
’’جس نے ہمارے اس معاملے [یعنی دین] میں وہ نئی بات کی، جو اس میں نہیں، وہ مردود ہے۔‘‘
ایک شبہ کا ازالہ
یہ نہ کہا جائے کہ ہمارا مقصود اُمت کی وحدت اور یکجہتی ہے، کیونکہ "اَلْغَايَةُ النَّبِیْلَةُ لَا تُسَوِغُ ارْتِکَابَ الْمُحَرَّمَ" یعنی ’’نیک مقصد حرام کے ارتکاب کے لیے وجہ جواز نہیں بنتا۔‘‘
یہ عذر پیش کرنا بھی معقول نہیں، کہ ’’ہماری نیت صرف خیر کی ہے۔‘‘
کیونکہ کسی کام کے درست قرار دینے کے لیے صرف ’حسن نیت‘ کافی نہیں، اس کے ساتھ نہایت ضروری بات یہ بھی ہے، کہ وہ عمل اسلامی شریعت کے مخالف نہ ہو۔
کیا حضرت آدمنے ممنوعہ درخت کا پھل بری نیت سے کھایا تھا۔ بلکہ اُنھوں نے اسے فرشتہ بننے اور جنت میں ہمیشہ رہنے کی خاطر کھایا، لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ ...ارشاد تعالیٰ سماعت فرمایئے:
﴿فَأَكَلا مِنها فَبَدَت لَهُما سَوءتُهُما وَطَفِقا يَخصِفانِ عَلَيهِما مِن وَرَقِ الجَنَّةِ وَعَصى ءادَمُ رَبَّهُ فَغَوى ﴿
١٢١﴾... سورة طه
’’پس دونوں نے اس [ممنوعہ درخت] سے کھایا، تو دونوں کے لیے ان کی شرم گاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ دونوں اپنے آپ پر جنت کے پتے چپکانے لگے اور آدمنے اپنے رب کی نافرمانی کی، تو وہ بھٹک گئے۔‘‘
6. ایک وقت میں نماز وحدتِ اُمت کے لیے ذریعہ، نہ شرط:
ایک وقت میں تمام مساجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے یہ استدلال کرنا، کہ اس سے وحدت اُمت ہو گی، محل نظر ہے۔ کیا کتاب و سنت میں کوئی آیتِ شریفہ یا حدیثِ شریف اس کی تائید کرتی ہے؟
وحدتِ اُمت کے لیے طریقہ و ذریعہ ’’کتاب و سنت کی طرف لوٹنا اور اُنھیں مضبوطی سے تھامنا‘‘ہے۔ اس کے بغیر امت کا اتحاد و اتفاق ممکن نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم فَإِن تَنـزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ذلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿
٥٩﴾... سورة النساء
’’اے ایمان والو! اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول اللّٰہﷺکی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اہل اختیار کی ، پھر اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو، تو اسے اللّٰہ تعالیٰ اور رسولﷺکی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللّٰہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ وہ [یعنی ایسا کرنا] وہ بہت بہترہے اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔‘‘ (سورۃ النساء: 59)
کیا نبی کریمﷺنے اپنے زمانہ مبارک میں، جو کہ بلاشک و شبہ خیرالقرون تھا، اہل مدینہ کو تمام مدنی مساجد میں ایک ہی وقت پر نمازیں پڑھنے کا پابند کیا؟... کیا آنحضرتﷺنے مخصوص مقرر کردہ وقت سے آگے پیچھے نماز ادا کرنے کو خلافِ قانون قرار دیا؟ کیا ان لوگوں کو کوئی سزا دی گئی، جن کے اوقاتِ نمازِ مسجد نبوی کے اوقات سے قدرے مختلف تھے؟ایسی کوئی بات قطعی طور پر نہیں تھی، بلکہ اس کے برعکس قطعی نصوص کے ساتھ ثابت ہے۔ ذیل میں دو شواہد ملاحظہ فرمایئے:
ا: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت جابرکے حوالے سے روایت کی ہے، کہ انھوں نے بیان کیا:
کَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَل رضي الله عنه یُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّﷺ، ثُمَّ یَأْتِيْ قَوْمَه، فَیُصَلِّیْ بِهِمْ [15]
’’معاذ بن جبلنبی کریمﷺکے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے، پھر اپنی قوم کے ہاں آتے اور انھیں نماز پڑھاتے تھے۔‘‘
ب: ایک شخص کا نبی کریمﷺکے ساتھ نماز عصر پڑھنا، پھر اس کا انصار کی ایک قوم کے پاس سے گزرنا، جو کہ نمازِ عصر ادا کرتے ہوئے رکوع کی حالت میں تھے۔
[16]
عہد نبویﷺکے بعد والے زمانے سے تین شواہد:
ا۔ امام ابن ابی شیبہ نے معاویہ بن قرہ سے روایت کیا، کہ
کَانَ حُذَیْفَةُ رضي الله عنه إِذَا فَاتَتْهُ الصَّلَاةُ فِىْ مَسْجِدِ قَوْمِه، یُعَلِّقُ نَعْلَیْه، وَیَتْبَعُ الْمَسَاجِدَ، حَتّٰی یُصَلِّیْهَا فِىْ جَمَاعَةٍ." [17]
’’حضرت حذیفہکی جب اپنی قوم کی مسجدمیں [باجماعت] نماز رہ جاتی، تو وہ اپنے جوتے لٹکاتے اور [مختلف] مساجد [میں با جماعت نماز کی تلاش] میں نکلتے، یہاں تک کہ [کسی نہ کسی مسجد میں] جماعت کے ساتھ اسے ادا کر لیتے۔‘‘
ب: امام بخاری نے بیان کیا:
وَکَانَ الْأَسْوَدُ اِذَا فَاتَتْهُ الْجَمَاعَةُ، ذَهَبَ إِلىٰ مَسْجِدٍ آخَرَ [18]
’’اسود کی جب با جماعت [نماز] رہ جاتی، تو وہ دوسری مسجد میں جاتے۔‘‘
ج: امام عبدالرزاق نے ربیع بن ابی راشد سے روایت بیان کی، کہ بے شک انھوں نے کہا:
رَأَیْتُ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ جَآءنَا، وَقَدْ صَلَّیْنَا، فَسَمِعَ مُؤَذِّنًا، فَخَرَجَ لَهُ.
[19]
’’میں نے سعید بن جُبیرکو دیکھا، کہ وہ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم نماز پڑھ چکے تھے، تو انھوں نے [ایک دوسری مسجد میں] موذن کو [اذان دیتے ہوئے] سنا، تو وہ اس کی جانب نکل گئے۔‘‘
7. مجوزہ نظام اوقات کا اسلام آباد کی اہل حدیث مساجد میں سبب اختلاف بننا:
نمازوں کے اوقات کے ایک ہونے کا وحدت امت کا ذریعہ نہ ہونے کی تاکید اس بات سے بھی ہوتی ہے، کہ اس کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر میں اتحاد کی بجائے، خود اہل حدیث مساجد میں بھی اختلاف پیدا ہوگیا۔
2016ء میں وزارت مذہبی اُمور کے نظام اوقات کے جاری کرنے پر اسلام آباد اور مضافات میں موجود 60؍اہل حدیث مساجد میں سے ابتدا میں صرف چارمساجد نے اس پر عمل کا آغاز کیا۔56 نے قطعی طور پر نہ اسے تسلیم کیا اور نہ اس کے مطابق عمل کیا۔ پھرچارمیں سے بھی دو نے اس پر عمل ترک کر دیا۔ پھر دو میں سے ایک مسجد رہ گئی اور بالآخر اس ایک نے بھی اسی پر عمل قطعی طور پر ترک کر دیا۔
وَالْحَمْد لِلهِ الَّذِیْ هَدَانَا لِهٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَهْتَدِیْ لَوْ لَا أَنْ هَدَانَا اللهُ
’’سب تعریف اللّٰہ تعالیٰ کے لیے، کہ انھوں نے ہمیں اس کی ہدایت دی، [وگرنہ] ہم تو ہدایت نہ پانے والے تھے، اگر اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نہ دیتے۔‘‘
اب اس معاملے کو دوبارہ اُٹھایا جا رہا ہے۔ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے حضور اپنے، امت اسلامیہ اور پیارے وطن کے لیے خیروعافیت کی التماس اور ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھنے کی التجا کرتے ہیں۔ إِنَّهُ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ
8. غیر اہل حدیث مکاتب فکر کے ساتھ اتحاد کا محض ظاہری ہونا:
وزارتِ مذہبی امور کے مختلف مکاتب فکر کے علما کے اجتماعات میں علماے احناف کے موقف کے بارے ان اجتماعات میں شرکت کرنے والے شیخ حفیظ الرحمٰن لکھتے ہیں:
’’احناف نمازِ عصر میں دو مثل سے ایک منٹ پیچھے آنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘
وزارتِ مذہبی اُمور کے اوقات نماز کے کیلنڈر میں یکم جنوری سے 31 دسمبر تک نماز عصر کا وقت سو فیصد علماے احناف کے موقف کے مطابق ہے۔
کیا اسی کا نام ’اتفاق و اتحاد‘ ہے، کہ واضح احادیثِ نبویہ پر عمل پیرا ایک مکتبِ فکر ’اہل حدیث‘پر دوسرے مکتبِ فکر ’احناف‘کے فقہی موقف کو ٹھونس دیا جائے؟
حضرات احناف کے متعلق بیان کیا گیا کہ اُنھوں نے نمازِ فجر کے لیے اذان طلوع فجر کے وقت اور نمازِ فجر قدرے پہلے پڑھنے پر موافقت کی ہے۔ ظہر کی اذان قدرے پہلے اور عشاء کی اذان قدرے تاخیر سے دینے سے اتفاق کیا ہے۔
جبکہ اسلام آباد میں رہنے والے لوگ سنتے اور اچھی طرح جانتے ہیں، کہ حضرات احناف گزشتہ اوقات میں نمازِ عصر کے لیے اذان قطعی طور پر اپنی ہی رائے کے مطابق اور ظہر، عشاء اور فجر کی اذانیں بھی وزارتِ مذہبی امور کے نظام اوقات کے مطابق نہیں دیتے، بلکہ اپنے موقف کے مطابق دیتے رہے اور اب بھی دے رہے ہیں۔
کیا اسی کا نام اتفاق و اتحاد اور وحدت ہے؟
غیر اہل حدیث حضرات اپنے موقف کے مطابق طرزِ عمل اختیار کرتے رہیں، اور اہل حدیث حضرات خیرالقرون سے لے کر اب تک جاری و ساری مسنون طریقے سے دستبردار ہو جائیں؟ کیا عدل و انصاف کا یہی تقاضا ہے؟
اور اگر …اللّٰہ تعالیٰ نہ کریں کہ ایسے کبھی ہو… یہ نظام اوقات قانونی شکل اختیار کر جائے، تو صریح، قطعی واضح نصوص اور عملی تواتر سے ثابت شدہ سنت قابل مؤاخذہ جرم بن جائے اور اہل اقتدار اس پر عمل پر ہونے والوں کے لیے اپنی خواہش کے مطابق قید یا جرمانہ یا دونوں یا جیسے وہ پسند کر کے سزا متعین کریں۔
رب کریم ہر ابتلا سے اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔ آمین!
9. اوقاتِ نماز میں بازاروں وغیرہ کو بند کروانے کے لیے کسی پیش رفت کا نہ ہونا:
نماز کے نظام اوقات کی یکسانیت کا مقصد ’’بازاروں، دفاتر اور سرکاری، غیر سرکاری اداروں کو نماز کے اوقات میں بند کر کے نماز کا قائم کرنا‘‘بیان کیا جاتا ہے۔
یہ خوبصورت اور خوش کن مقصد، بیانات اور گفتگو سے آگے بڑھتا ہوا نظر نہیں آیا۔ مندرجہ ذیل تین باتوں پر غور فرمانے کی التجا ہے، ان شاء اللّٰہ تعالیٰ معاملہ نکھر کر سامنے آجائے گا:
ا: نماز کے اوقات میں بازاروں وغیرہ کو بند کروانے کے لیے تیاری اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود باتوں کے سوا اس بارے میں کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ب: گزشتہ سالوں میں مرکزی حکومت نے بجلی کی کمی پر قابو پانے کی غرض سے آٹھ بجے شب بازار بند کرنے کا اعلان کیا ۔بازار والوں نے اس حکومتی کو اعلان کو ماننے سے انکار کیا، حکومت نے بے بس ہو کر اپنا اعلان واپس لے لیا۔جو حکومت دن میں ایک مرتبہ بازار بند نہیں کروا سکی، کیا اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے، کہ وہ ہر روز چار نمازوں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء، کے لیے چار مرتبہ بازار بند کروا سکے گی؟
مزید برآں حکومت کی دلچسپی نماز کے قائم کرنے کے متعلق ویسے نہیں، جیسی بجلی کی کمی کے معاملے پر قابو پانے کے بارے میں تھی۔
ج: بازاروں کو نمازوں کے اوقات میں بند کروانے کی خاطر تعزیری سزائیں دینے کی ضرورت ہوتی ہے، تو جو حکومت اپنے سارے اقتدار کے زمانوں میں اسلامی حدود کے لیے پہلے سے طے شدہ سزائیں نافذ نہیں کر سکی، کیا وہ تعزیری سزائیں ملک میں نافذ کرے گی؟
10. حکومت کی اسلامی شریعت کے ساتھ سلوک کی تاریخ:
حکومت کی اسلامی شریعت کے خلاف سابقہ تاریخ اس کے خوش نما جذبات کے تسلیم کرنے اور اس کی شیریں باتوں پر اعتماد کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلامی شریعت کے خلاف نواز شریف حکومت کی تاریخ میں سے چار واقعات کی طرف اشارہ ذیل میں ملاحظہ فرمایئے:
ا: سود کی شریعت کورٹ کی طرف سے ممانعت کے خلاف رِٹ دائر کرنا۔
ب: جمعۃ المبارک کی تعطیل منسوخ کر کے اتوار کی چھٹی مقرر کرنا۔
ج: حکومت پنجاب کی طرف سے 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کی ممانعت کا قانون۔
د: پنجاب میں شریعت کے خلاف [حقوق نسواں] کا قانون منظور کرنا۔
11. مجوزہ نظام کا مقصد وحدت امت کی بجائے مساجد کو قابو کرنا ہے:
حکومت کے اگلے پچھلے اقدامات اس دعویٰ کی نفی کرتے ہیں، کہ اس مجوزہ نظام اوقات کا مقصد وحدت امت ہے۔ اسلامی مدارس کے خلاف مسلسل عداوت اور معاندانہ طرز عمل اور سب مساجد میں وزارت مذہبی امور کا تیار کردہ خطبہ جمعہ کا پروگرام
[20] اس بات پر دلالت کرتے ہیں… اللّٰہ تعالیٰ ایسے کبھی نہ ہو… کہ اس ساری تگ و تاز کا مقصد مساجد کو بتدریج اپنے قابو میں لانا، ان کی دعوتی، تعلیمی، فلاحی سرگرمیاں کم از کم اور پھر یکسر ختم کرنا، تاکہ مساجد کی خیر کو صرف نمازوں تک محدود کیا جائے اور امت کو ان کی گوناگوں، ہمہ جہت خیر سے محروم کیا جائے۔
لَا قَدَّرَ اللهُ تَعالىٰ
مزید برآں اہل اقتدار اپنی انتہائی منصوبہ بندی اور بہت ہی زیادہ جدوجہد کے باوجود امت کو اسلامی مدارس کی خیر سے محروم نہیں کر سکے۔ اللّٰہ تعالیٰ کبھی ایسے نہ ہونے دیں، کہ مساجد پر تسلط کے ذریعے امت کا مدارس سے رابطہ توڑا یا کمزور کیا جائے، کیونکہ عامۃ المسلمین کی جانب سے مدارس کے ساتھ تعاون و ہمدردی کا ایک بڑا ذریعہ مساجد ہی ہیں۔
ربِّ کریم مساجد اور مدارس کو ہر شر سے محفوظ رکھیں، ہم سب کو اپنے عذابوں سے اور ان عذابوں کو دعوت دینے والے برے اعمال سے ہمیشہ محفوظ رکھیں اور ہمارے ملک پاک کی ہر طرح اور ہر جانب سے حفاظت فرمائیں۔ آمین یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ
12. اوقات نماز اختیار کرنا ہر مکتب فکر کا دستوری حق ہے:
یہ نہ کہا جائے، کہ اس نظام اوقات پر مجبوری کی وجہ سے عمل کر لینا چاہیے۔ اس خیال کی دین، قانون اور اخلاق سب نفی کرتے ہیں۔ اسلامی ریاست میں ریاست کو یہ حق نہیں، کہ وہ غیر مسلم اقلیت کے ذاتی معاملات میں اس کے عقیدے کے خلاف قانون سازی کرے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمارا دستوری حق ہےکہ جس وقت نمازوں کا ادا کرنا سنت سے ثابت ہے، بلکہ… حضرات محدثین کے مطابق نصوصِ ثابتہ کی روشنی میں … افضل ہے، ہم اس کے مطابق اذانیں دیں اور نمازیں ادا کریں۔
علاوہ ازیں وزیر مذہبی امور نے علیٰ الاعلان کہا تھا، کہ فیصلہ کرنا علماء کا کام ہے، حکومت کا نہیں۔ انھوں نے مرکزی جامع مسجد اہل حدیث جی 3؍6 اسلام آباد، میں 18؍ جنوری 2016ء کو علمائے اہل حدیث سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارا کوئی سیاسی مقصد نہیں، پھر یہ کام اصل میں تو علما کا ہے، حکومت کا کام تو اس کا نفاذ ہے۔ یہ فقہی مسائل ہیں، ان کا فیصلہ علما ہی کرتے ہیں۔ کسی وزیر، ممبر اسمبلی، وزیراعظم، صدر پاکستان یا اسمبلی نے اوقاتِ نماز طے نہیں کرنے۔ یہ آپ علما نے کرنے ہیں۔ مجھے آپ کی رائے سے اتفاق ہے اور اس پر خوشی ہے کہ آپ تسلی کرنا چاہتے ہیں، بالکل آپ ٹائم لیں، ضرور غورو خوض کریں۔ ہماری تو اتحاد واتفاق کے لیے ایک کوشش ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں کامیابی عطا فرمائے۔‘‘
کیا اس کے بعد یہ کہنا، کہ مجوزہ نظام اوقات کو اپنانا ہماری مجبوری ہے؟
مزید برآں جماعتی سطح پر اس یا اس جیسے نظام اوقات نماز کے ساتھ موافقت کی صورت میں اہل حدیث حضرات کے لیے ملکی اعلی عدالتوں میں رٹ دائر کرنے کا حق بھی باقی نہ رہے۔ لَا قَدَّرَ اللهُ تَعَالٰى
خلاصہ: ساری گفتگو کا نچوڑ اور ما حاصل یہ ہے، کہ ملک کی مساجد کے اذان دینے کے اوقات کے متعلق ’حریت اختیار‘ کے ثابت شدہ اور صدیوں سے مسلمہ حق کو سلب کرنے کی ہر کوشش اور قدم سے قطعی طور پر گریز کیا جائے۔ کسی بھی مرحلے پر احادیث کے خلاف ایسے اقدام کی تائید وحمایت سے کلی گریز کیا جائے تاکہ ملکی اعلیٰ عدالتوں میں رٹ دائر کرنے کا حق برقرار رہے۔
کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کی بنا پر کسی نئے فتنے کو جگانے کا سامان مہیا نہ کیا جائے۔ ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں۔ ربّ کریم ہمارے دین اور ملک کی ہر قسم کے شرور و فتن سے تا قیامت حفاظت فرمائیں۔ آمین یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ ... وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ! (مؤرخہ: 15؍مارچ 2016ء)
حوالہ جات:
[1] صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، رقم الحدیث 216۔ (636)،1؍ 441
[2] شرح النووی:5؍ 136-135
[4] صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، رقم الحدیث: 217، (637)، 1؍ 441
[6] المفہم لما اشكل من تلخيص كتاب مسلم: 2؍ 263، دار ابن کثیر،بیروت
[7] الموطا للامام محمد، کتاب الصلاۃ، ص:44-43۔ ناشر: وزارۃالتعلیم الفیدر الیہ، اسلام آباد
[8] الہدایۃ، کتاب الصلاۃ، باب المواقیت: 1؍ 135۔ ناشر: مكتبہ بشری ، کراچی
[9] یعنی قاضی ابو یوسف اور امام محمد نے۔
[10] التعلیق الممجد علی مؤطا الإمام محمد ، ص: ۴۴
[11] درس ترمذی، مکتبہ دارالعلوم کورنگی ،کراچی، 1983ء
[12] متفق علیہ... صحيح بخاری: کتاب الصوم، باب متی یحل فطر الصائم، ح 1954
[13] سورۃ البقرۃ: 61 ...
’’کیا تم وہ چیز جو کمتر ہے، اس چیز کے بدلے مانگ رہے ہو، جو بہتر ہے؟‘‘
[14] متفق علیہ... صحيح بخاری: کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی الصلح، ح 2697
[15] متفق علیہ: صحيح بخاری: رقم 711
[16] جامع الترمذی [المطبوع مع تحفۃ الأحوذی]، أبواب تفسیر القرآن، سورۃ البقرۃ، رقم الحدیث: 3142، 8؍ 240
[17] المصنف، کتاب الصلوات، الرجل تفوتہ الصلاۃ فی مسجد قومہ: 2؍21، رقم 5990
[18] صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،2؍ 131، رقم 645
[19] المصنف، کتاب الصلاۃ، باب الرجل ید خل المسجد، فیسمع الاقامۃ فی غیرہ، رقم الروایۃ، 1973، 1؍ 515
[20] ملاحظہ ہو: عبدالقیوم سومرو مشیر مذہبی امور حکومت سندھ کا روزنامہ ’اسلام‘مؤرخہ 18 ؍جنوری 2016ء میں اعلان