اہل بیت اورصحابۂ کرام كا فضائل مىں اشتراك
نبیٔ کریمﷺ اپنے لیے وہی مقام اور مرتبہ پسند فرماتے تھے جو اللّٰہ نے آپ کو عطا کیا تھا۔ از حد محبت سے جنم لینے والے غلوّ کو آپﷺ نے اپنے لیے بھی پسند نہیں فرمایا، چہ جائیکہ کوئی آپ کے صحابہ یا اہل بیت کے متعلق غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لے۔ غلو سے احتیاط کے متعلق چند فرامین نبویہ یہ ہیں:
1. بنو عامر کا وفد بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوا تو شرکائے وفد نے بایں الفاظ عقیدت کے پھول نچھاور کیے: ’’آپ ہمارے سردار ہیں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’حقیقی سردار اللّٰہ تعالیٰ ہے۔‘‘ اُنہوں نے عرض کیا: ’’آپ ہم سب سے انتہائی برتر، افضل ترین اور صاحبِ جود و سخا ہیں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا:
«قُولُوا بِقَوْلِكُمْ أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ»[1]
’’اپنی بات یا اس سے کچھ ملتی جلتی کہہ لیا کرو لیکن شیطان تمہیں کسی صورت اپنے جال میں نہ پھنسا لے۔‘‘
یعنی ’ہمارے سردار‘ جیسے الفاظ کہنے ہیں تو شیطان کے حملوں سے محفوظ بھى رہنا ہے۔
2. ایک حدیث میں ہے:
«أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰـهِ وَرَسُولُ اللّٰـهِ، وَاللّٰـهِ مَا أُحِبُّ أَنْ تَرْفَعُونِي فَوْقَ مَا رَفَعَنِيَ اللّٰـهُ عَزَّ وَجَلَّ»[2] ’’مىں محمد بن عبداللّٰہ، اللّٰہ كا رسول ہوں، اللّٰہ کی قسم! مجھے پسند نہیں کہ تم مجھے اس مقام سے بلند تر کروجس پر اللّٰہ نے مجھے فائق کیا ہے۔‘‘
3. ایک اور حدیث میں ہے:
«لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ» [3]
’’ تم مجھے اس قدر بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا چڑھا دیا تھا۔‘‘
یہ مبالغہ آرائی دین کے نام پر ہوتی ہے، اس وجہ سے رسول اللّٰہﷺ نے دین کے کسی بھی معاملے میں غلو سے روکتے ہوئے ارشاد فرمایا:
«إِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّینٍ…»[4] ’’دىن مىں غلو كرنے سے بچو۔‘‘
یہود کٹ حجتی، ضد اور تعصّب کی وجہ سے عذاب میں گرفتار تھے تو نصاریٰ کی ہلاکت خیزی ان کے غلوّ کے باعث ہوئی۔جب دین کے کسی حکم میں، کسی معاملے میں حتی کہ رسول اللّٰہﷺ کی ذات میں غلو اور ازحد مبالغہ آرائی سے روکا گیا ہے تو پھر آپ کے اہل بیت ىا صحابہ کے بارے مىں غلو کی اجازت کیونکر ہوسکتی ہے؟
شخصیات میں غلو جہاں عقیدے میں خلل کا باعث بن سکتا ہے وہاں غیر اللّٰہ کی محبت کو اللّٰہ کی محبت پر غالب بھی کر سکتا ہے، اور عموماً ایسا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے شخصیات جس قدر بھی عظیم الشان اور جلیل القدر ہوں ان کے بارے میں افراط و تفریط سے ہٹ کر اسلام کا اعتدال پسندانہ طرزِ فکر كسى صورت دھندلانا نہیں چاہیے۔ قرآن وحدىث مىں جن كے جو فضائل ثابت ہىں انھىں افراط و تفرىط كے بغىر قبول كرنا چاہىے۔
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ فضائل و مناقب کے باب میں قرآن و سنت کى نصوص ہی معتبر ہیں۔ اور فضائل دوطرح کے ہیں:
1۔عمومی فضائل و مناقب 2۔خصوصی فضائل و مناقب
1. عمومی فضائل کی بھی دو قسمیں ہیں:
الف) ایک تو وہ فضائل ہیں جو قرآن و سنت میں اہل بیت یا صحابۂ کرام کے بارے میں ثابت ہیں، ان فضائل سے نہ تو اپنے طور پر کسی کو محروم رکھا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو اپنی مرضی سے حقدار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ نہ کوئی اپنی مرضی سے شرفِ صحابیت حاصل کر سکتا ہے اور نہ کسی صحابی کو اس سے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ کئی لوگ جلیل القدر صحابہ کو شرفِ صحابیت سے محروم کرنے کی اور جو صحابی نہیں تھے جیسے جناب ابوطالب ، توان کو صحابی بنانے کی سعی لا حاصل میں لگے رہتے ہیں۔
ب ) عمومی فضائل میں دوسری قسم ایسے اوصاف پر مشتمل ہے جس میں ہر اُمتی شریک ہوسکتا ہے جیسے محسنین، متقین، مستقدمین اور مؤمنین وغیرہ۔
2. خصوصی فضائل و مناقب سے مراد وہ فضائل ہیں جو اہل بیت یا صحابہ میں سے کسی کے لیے ىا اُمت کے کسی خاص فرد کے لیے ثابت ہیں جیسے اویس قرنى اور امام مہدى کے بارے میں۔
فضائل کے باب میں چونکہ اعتبار نصوص اور روایت کا ہے کیونکہ فضائل اجتہاد سے ثابت نہیں ہوتے، اس لیے قرآن و سنت میں جس جس کے عمومی یا خصوصی جو جو فضائل ثابت ہیں انھیں اپنے اصلی مفہوم میں سمجھنا، ان کا اظہار کرنا اور ان کے بارے میں اپنے ذاتی رجحانات سے بچنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص صحابہ کرام کے فضائل سے گریزاں رہے، بلکہ انکار کرے تو ایسے کج فکر شخص کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اہمیت قرآن وسنت کو نہیں بلکہ اپنے رجحان و میلان کو دے رہا ہے۔ اور ىہى حال اس كا ہوگا جو اہل بىتكے ساتھ اىسا كرے۔
اگر قرآن و سنت کے مطابق ذہن بنایا ہو تو پھر ہر ایک کے بارے میں رویّہ اور طرزِ فکر عادلانہ اور یکساں ہونا چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں عموماً ذاتی اور حزبى رجحانات غالب ہوتے ہیں اور ہم ہر بات، واقعے اور سانحے کو اپنى خود ساختہ میزان میں تولنے کے عادی ہیں۔
جس دن نبیٔ کریم ﷺ کے لختِ جگر ابراہیم اس دنیا سے رخصت ہوئے، اسی دن سورج گرہن ہوا۔ لوگ کہنے لگے کہ سورج گرہن ابراہیم کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلٰكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللّٰـهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا» [5]
’’سورج اور چاند نہ تو کسی کی موت کی وجہ سے گہناتے ہیں اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے بلکہ وہ تو اللّٰہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جب تم اللّٰہ کی نشانیاں دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔‘‘
لوگوں کا جو موقف سامنے آیا، وہ ابراہیم کی وفات کے باعث سورج گرہن کا تھا۔ آپﷺ نے اس کے ساتھ چاند کو بھی ملایا اور دوسری طرف موت کی ضد زندگی کا تذکرہ کیااور پھر ایسے موقف کی کھلی تردید کر دی جو کائنات کے کسی تصرف کو کسی عظیم شخصیت کی موت و حیات سے منسلک کرتا ہو۔ ىہ فكرى تربىت فرما كر اس كائنات مىں اللّٰہ كے سوا كسى كے تصرف كى كلى نفى فرما دى۔
اگر کئی لوگوں نے کائنات کی ان نشانیوں کو تو کیا، خود کائنات ہی کو مخلوق میں سے کسی کے رحم و کرم پر مانا ہوا ہے اور وہ معمولى تصرف تو کیا پوری کائنات کا متصرف کسی اور کو مانتے ہوں تو ایسے نظریے کے اسلام سے متصادم ہونے کے لیے اور کون سی دلیل درکار ہے...؟
ذیل میں ہم ایک موازنہ پیش کرنا چاہتے ہیں جس کا مدعا یہ ہے کہ قرآن وسنت میں اہل بیت اور صحابۂ کرام کے ایسے فضائل جن میں باہمی طور پر معنوی مشابہت پائی جاتی ہے حتیٰ کہ بعض فضائل میں لفظی مشابہت بھی موجود ہے، وہ سامنے لائے جائىں تاکہ لوگوں کی یہ ذہن سازی ہوسکے کہ یہ دونوں ایک ہی چراغ کے پرتو اور کرنیں ہیں۔ اگر اہمیت زبان نبوت و رسالت کو دی گئی ہے تو پھر اس سے صادر ہونے والے ایک ایک حرف کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ پھر اپنے ذاتی رجحانات اور پسند و ناپسند اس کے تابع ہونی چاہیے اور اگر اہمیت اپنے نظریات اور شخصیات كے خود ساختہ تصور کو دی گئی ہے تو اس کے لیے قرآن و سنت کے دلائل کی یا انھیں تاویلوں کی بھینٹ چڑھانے کی ضرورت نہیں، اس کے لیے انسان کا نفس ہی کافی ہے جو اسے دین کے معاملے میں بھی ذاتی چاہتوں کا سرور دیتا رہتا ہے اور اسے مطمئن بھی رکھتا ہے۔
ذیل میں اہل بیت اور صحابہ کرام، دونوں کے ملتے جلتے فضائل کو پیش کرکے ، ان کا تقابلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔ اس موازنے سے دعوت کسی خاص فریق کو نہیں، ہر ایک کو ہے!!
اوّل: فضائل اہل بیت
نبیٔ کریمﷺ نے غدیرخم کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’میں تم میں دو گراں مایہ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: ایک کتاب اللّٰہ اور دوسرى میرے اہل بیت۔‘‘ حدیث طویل ہے، اسی میں آپﷺ نے تین مرتبہ فرمایا:
«أُذَكِّرُكُمُ اللّٰـهَ فِى أَهْلِ بَيْتِى»[6]’’میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہىں اللّٰہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘
فضائل صحابہ کرام
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«اِحْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي»[7] ’’میرے صحابہ کے بارے میں میرا خیال رکھو۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
«لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي» ’’میرے صحابہ کے بارے کوئی بھی نازیبا انداز اختیار نہ کرو۔‘‘[8]
موازنہ: اہل بیت کے بارے میں فرمایا کہ اللّٰہ کی یاد دلاتا ہوں اور صحابہ کے بارے میں فرمایا کہ میرے صحابہ کے بارے میں میری لاج رکھنا۔ اہل بیت کے بارے میں اس حکم کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ ان کے بارے میں نامناسب ذہن یا رویہ نہ رکھا جائے۔ اور «اِحْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي»کا بھی قریب قریب یہی مفہوم ہے۔ کوئی شخص صحابہ کرام کے لیے تو محتاط رویہ رکھے اور ان کی شان بیان کرے مگر اہل بیت کے بارے میں غیر محتاط رویہ رکھے تو وہ غلط ہے ۔اور اگر کوئی اہل بیت کا ادب و احترام اور شان بیان کرے مگر صحابہ کے بارے میں غیر محتاط رویہ اختیار كرے تو وہ بھی غلط ہے کیونکہ زبانِ نبوت سے دونوں کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنے کی تعلیم ہے حتیٰ کہ قرآنِ مجید میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ بعد والے یہی دعا کرتے ہیں:
﴿رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخوٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءوفٌ رَحيمٌ ﴿
١٠﴾... سورة الحشر
’’اے ہمارے ربّ! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے اورہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رکھنا۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بہت ہی شفقت اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
دوم: فضائل اہل بیت
غدىر خم والى سابقہ حدىث کے بعض طرق میں یہ بھی ہے کہ
«إِنِّى قَدْ تَـرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِى، الثَّقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ كِتَابُ اللّٰـهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ، وَعِتْرَتِى أَهْلُ بَيْتِى أَلَا وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتّٰى يَرِدَا عَلَىَّ الْحَوْضَ»[9]
’’میں تم میں وہ کچھ چھوڑ کے جا رہا ہوں اگر تم اسے تھامے رکھو گے تو میرے بعد گمراہ نہیں ہوگے، وہ دو انتہائی گراں مایہ ہیں۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ اللّٰہ کی کتاب جو رسی کی شکل میں آسمان سے زمین تک پھیلا دی گئی ہے اور میرے اہل بیت۔ اور بے شک وہ دونوں جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے۔‘‘
فضائل صحابہ
عرباض بن ساریہ کہتے ہیں کہ ایک دن نماز فجر کے بعد رسول ﷺ نے ہم سے بڑا فصیح و بلیغ خطاب فرمایا۔ اس کی اثرآفرینی یہ تھی کہ آنکھیں اشک بار اور دل سہمے ہوئے تھے۔ اسی وعظ میں آپﷺ نے فرمایا:
«أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللّٰـهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى، ىَرَى اخْتِلَافاً كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ بَعْدِى عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ …»[10]
’’میں تمہیں اللّٰہ کے تقوے اور سمع و طاعت کی تلقین کرتا ہوں اگرچہ تمہارا امیرحبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ تو تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا تو وہ بہت سا اختلاف دیکھے گا، لہٰذا تم میری اور میرے بعد میرے خلفاء کی سنت اور طریقے کو اختیار کرنا، وہ خلفاء جو بھلائی کے خوگر اور اسی کو ترویج دینے والے اور ہدایت یافتہ ہیں۔ تم انتہائی مضبوطی سے اسے تھام کر رکھنا۔‘‘
موازنہ: «عِتْرتِي» والی حدیث میں بھی یہ الفاظِ نبوی ہیں کہ ’’قریب ہے کہ میرے ربّ کا فرشتہ (پیغام وفات لے كر) آجائے اسى طرح خلفائے راشدین والی حدیث میں بھی صحابہ نے وعظ کی اہمیت سے یہی سمجھا کہ كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّع ’’گویا کہ یہ الوداعی وعظ ہے۔‘‘ اور صحابہ نے آپﷺ سے اس کا اظہار بھی کیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے وہ الفاظ ارشاد فرمائے جو اوپر درج ہیں۔ گویا نبیﷺ نے بھی یہ تسلیم کیا کہ یہ آخری وعظوں میں سے ہے۔اور حدیثِ غدیر خُم بھی ۱۰ ہجری کے آخری مہینے یعنی ذوالحجہ کی بات ہے۔
اسی طرح آپﷺ نے اہل بیت اور خلفائے راشدین دونوں کی اطاعت و وابستگی کو ہدایت قرار دیا اور ان سے وابستگى كو گمراہی سے تحفظ قرار دیا۔ یاد رہے! اہل بیت میں آپﷺ کی ازواج شامل ہیں۔ اگر انہیں یا ان سے مروی احادیث مبارکہ کو دین سے نکال دیا جائے تو دین میں ایک بہت بڑا خلا نظر آتا ہے۔ جو بجائے خود گمراہی کا ایک بہت بڑا سبب بن سکتا ہے۔
ہاں! جیسے خلفاء کے ساتھ راشدین (صحیح راہ نما) اور مَهدىـىن (ہدایت یافتہ) ہونے کی قید لگائی گئی ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خلفاء، صحابہ اور اہل بیت میں سے اسی فعل کی اتباع ہوگی جو مذکورہ اوصافِ راشدہ کا حامل ہو، بصورت دیگر کسی وقتی ىا ذاتى فىصلے میں ان کی اتباع کی پابندی ضروری نہیں۔ جیسے سیدنا عمر فاروق نے اپنے عہدمیں طلاق کی شرح میں اضافے کے پیش نظر طلاق ثلاثہ کو ایک قرار دے دیا۔
«تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَینِ …» والی حدیث کو بھی ملا لیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ جلیل القدر شخصیات میں سے جس جس کا اقدام کتاب وسنت کے موافق ہے ، اسے قبول کرنا ہے اور ناموافق کو چھوڑ دینا ہے۔ جیسے ہم نماز میں درودِ ابراہیمی میں ’آل ابراہیم‘ پڑھتے ہیں، حالانکہ قرآنِ مجید میں ہے کہ آلِ ابراہیم میں سے مؤمن بھی تھے اور ظالم بھی۔ تو ظاہر ہے یہ دعا یا تشبیہ ان ظالم آل ابراہیم کے لیے تو نہیں۔
اتنا ضرور ہے کہ خلفائے راشدین کے مقابلے میں
«عِتْرتِي»کے بارے میں آپﷺ نے یہ فرمایا کہ کتاب اللّٰہ اور «عِتْرتِي» ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوں گے اور دونوں اکٹھے ہی حوضِ کوثر پر میرے پاس آئیں گے۔ یہ اہل بیت کی انفرادی شان ہے۔ مگر اُمت کے فکر و عمل کے اعتبار سے دونوں ہی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ خلفائے راشدین کے بارے میں بھی یہ فرمایا گیا کہ میری اور میرے خلفاء کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور دوسری حدیث میں ’’نجات یافتہ اُمت کا گروہ اسے قرار دیا گیا جس پر آپﷺ اور آپ کے صحابہ (بشمول اہل بیت )ہیں۔‘‘
[11]
نوٹ: حسب ذىل حدیث کو ضعیف ہونے کی بنا پر شامل نہیں کیا گیا:
«اَللّٰـهَ اَللّٰـهَ فِي أَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوهُ غَرَضًا بَعْدِي…»[12]
’’میرے صحابہ کے بارے اللّٰہ سے ڈر جاؤ۔ اللّٰہ کو یاد رکھو، انھیں میرے بعد تختۂ مشق نہ بنانا۔‘‘
اسی طرح آپﷺ کی طرف منسوب اس قول کو من گھڑت ہونے کی بنا پر درج نہیں کیا گیا۔
«أَصْحَابِي کَالنُّجُومِ بِأَیِّهِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِهْتَدَیْتُمْ» [13]
’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے۔‘‘
سوم: فضائل اہل بیت
رسول اللّٰہﷺ کا فرما ن ہے: «فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّى، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي»
’’فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے جس نے انھیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
[14]
فضائل صحابہ
صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث میں آپﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیق کے بارے میں فرمایا:
«إِنَّ اللّٰـهَ بَعَثَنِى إِلَيْكُمْ فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ. وَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: صَدَقَ. وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو لِى صَاحِبِى. مَرَّتَيْنِ فَمَا أُوذِىَ بَعْدَهَا»[15]
’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری طرف مجھے مبعوث فرمایا، تو تم نے میرے بارے میں کہا کہ تم غلط کہتے ہو اور ابوبکر نے کہا :آپ نے سچ فرمایا اور اُنہوں نے اپنی جان اور مال سے مجھے سپورٹ کیا ہے تو کیا تم میرے لیے میرے رفیق ابوبکر صدیق کو چھوڑ سکتے ہو۔ یہ آپ نے دو مرتبہ فرمایا۔ اس فرمان کے بعد پھر ابوبکر کو کوئی اذیت نہیں دی گئی۔ ‘‘
موازنہ: سیدہ فاطمہ ؓکو ناراض نہ کرنے کی تلقین نبوی ہے تو دوسری طرف سیدنا ابوبکر صدیق ؓکو ناراض کرنے پر نبی کریمﷺ کا یہ انداز ان سے گہری محبت کا اظہار اور اُمت کو ان کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنے کی تلقین ہے۔ اسی لیے تو حدیث میں بھی الفاظ ہیں کہ پھر اس واقعے کے بعد انہیں اذیت نہیں پہنچائی گئی۔سیدہ فاطمہ کے بارے میں بھی آپ نے اپنے جذبات کا اظہار اس وقت فرمایا جب سبب پیدا ہوا۔ سیدنا ابوبکر کے بارے میں بھی اس وقت آپ نے فرمایا جب سبب سامنے آیا۔ اسلوب مختلف ہىں اور مفہوم اىك!
چہارم: فضائل اہل بیت
سیدنا حسنین کریمین رضی اللّٰہ عنہماکے بارے میں رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
«اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ»[16]
’’حسن اورحسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
فضائل صحابہ
سیدنا شیخین کریمین رضی اللّٰہ عنہما کے بارے میں رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
«هٰذَانِ سَیِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْـجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخَرِيْنَ، إِلَّا النَّبِيّـیِنَ وَالْـمُرسَلِیْنَ»[17]
’’یہ دونوں (سیدناابوبکر ؓو عمر ؓ) انبیاء و رسل عظام کے سوا ادھیڑ عمر میں فوت ہو کر جنت میں جانے والوں کے سردار ہوں گے۔‘‘
موازنہ: پہلی حدیث میں جنتی نوجوانوں کے سردار سیدنا حسنین کریمین رضی اللّٰہ عنہما کو بتایا گیا ہے اور دوسری میں سیدنا شیخین کریمین رضی اللّٰہ عنہما کو جنت کے ادھیڑ عمر لوگوں کا سردار بتایا گیا ہے۔ یاد رہے! پہلی حدیث میں اشارۃً اور دوسری حدیث مىں صراحۃً جنت میں نوجوانوں اور عمر رسیدہ لوگوں کی تقسیم سے یہ مراد ہے کہ جو عالم جوانی میں فوت ہوں گے اور جو ادھیڑ عمر میں فوت ہوں گے۔ کیونکہ جنت میں سب جوان ہی ہوں گے۔ اور شیخین والی حدیث میں جو یہ فرمایا گیا کہ پہلی امتوں اور اس امت کے جنتی افراد کے سردار ہوں گے سوائے انبیاء و مرسلین کے تو اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انبیاء و رسل کے علاوہ سب کے سردار سیدنا ابوبکرؓ و عمر ؓہوں گے اور نوجوانوں کے سردار سیدنا حسن ؓو حسینؓ ہوں گے۔ یہی دونوں احادیث مبارکہ کا صحیح مفہوم ہے۔ لىكن برا ہو تعصّب كا كہ اىك كو جنت كا مالك بنا دىا گىا اور اىك كو اپنے طور پر جنت سے محروم كر دىا گىا۔
پنجم: فضائل اہل بیت
رسول اللّٰہﷺ کا فرمان ہے:
«حُسَیْنُ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَیْن» [18]
’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘
اسی طرح نبیﷺ نے سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ کے بارے میں بھی فرمایا:
«أَمَّا عَلَيٌّ فَهُوَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْهُ»[19]
’’رہے علی! تو وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔‘‘
فضائل صحابہ
نبی مکرّم ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ الْأَشْعَرِيِّينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِى الْغَزْوِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِى ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوا بَيْنَهُمْ فِى إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّى وَأَنَا مِنْهُمْ»[20]
’’اشعری قبیلے کے افراد ایسے ہیں کہ انہیں سفر میں کوئی ضرورت پیش آجائے یا شہر میں رہتے ہوئے ان کا کھانا کنبے کو پورا نہ آسکے تو وہ جتنے افراد ہوں ان کے پاس جو جو بھی ہو وہ کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں پھر ایک برتن سے بھر بھر کر آپس میں برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ لہٰذا وہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔‘‘
موازنہ: «هُوَ مِنِّی وَأَنَا مِنْهُ» اظہارِ محبت کا ایک کلمہ ہے جوکسی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے عربی میں مستعمل ہے۔ اگر یہ صرف سیدنا حسین کے بارے میں زبانِ نبوت سے جاری ہوتا تو اس سے نہ جانے کیا کیا مطلب اخذ کیا جاتا۔ یہ جملہ آپﷺ نے کئی صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا ہے اور اپنے اسی تعلق کا اظہار کئی احادیثِ مبارکہ میں بعد والے اُمتیوں کے بارے میں بھی فرمایا ہے۔اس قسم کے الفاظ صرف صحابہ کے لیے نہیں بعد والوں کے حق میں بھی آپﷺ نے ارشاد فرمائے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
’’… اور جس نے حکمرانوں کے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کی اور ظلم و جور پر ان کی مدد نہ کی تو ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا:
«هُم مِنِّی وَ أَنَا مِنْهُمْ» [21]’
’وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔‘‘
زبانِ نبوت سے صادر ہونے والے ایک ہی طرح کے کلمات جو متعدد شخصیات کے بارے میں ہوں، ان سے علیحدہ علیحدہ مفہوم لینا درست نہیں۔
ششم: فضائل اہل بیت
حدیثِ مذکور میں یہ الفاظ بھی ہیں:
«أَحَبَّ اللّٰـهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا»[22]
’’اللّٰہ اس سے محبت کرے جو حسین رضی اللّٰہ عنہ سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
«إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُمَا»[23]
’’بے شک میں ان دونوں (حسن و حسین رضی اللّٰہ عنہما) سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا اے اللّٰہ! تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کرے۔‘‘
فضائل صحابہ
نبی کریمﷺ نے سیدنا ابوہریرہ کے بارے میں فرمایا:
«اَللّٰهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هٰذَا - يَعْنِى أَبَا هُرَيْرَةَ - وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْـمُؤْمِنِينَ وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْـمُؤْمِنِينَ»[24]
’’اے اللّٰہ! اپنے اس عاجز سے بندے کو اور اس کی والدہ کو اپنے مومن بندوں کے ہاں محبوب بنا دے اور ان کے ہاں مؤمنوں کو محبوب بنا دے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’قیامت تک جو بھی مؤمن آئے گا ،وہ مجھے دیکھے گا تو نہیں لیکن مجھ سے محبت ضرور کرے گا۔ ‘‘
اسی طرح آپﷺ نے انصار کے متعلق فرمایا:
«فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللّٰـهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللّٰـهُ»[25]
’’جو ان سے محبت کرے اللّٰہ بھی ان سے محبت کرے اور جو ان سے بغض رکھے، اللّٰہ بھى ان سے دشمنى رکھے۔‘‘
ایک حدیث میں تو آپﷺ نے سیدنا حسن اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللّٰہ عنہما کے لیے وہی دعا فرمائی جو اوپر مذکور ہے:
«اللَّهُمَّ أَحِبَّهُمَا، فَإِنِّي أُحِبُّهُمَا»[26]
موازنہ: اگر ایک طرف اللّٰہ تعالیٰ سے محبت کا حصول سیدنا حسین کی محبت سے وابستہ کیا گیا ہے تو دوسری طرف، سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللّٰہ عنہما اور جملہ انصار کو بھی اس بلند مقام پر فائز کیا گیا کہ جو ان سے محبت کرتا ہے اللّٰہ اس سے محبت کرے۔ لیکن ایک فرق ضرور ہے کہ انصار کے تذکرے میں انصار سے محبت کے ساتھ ساتھ ان سے بغض و عداوت کی سزا بھی بتائی گئی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سیدنا حسین سے بغض رکھنے والے نہیں ہوں گے مگر انصار اور دیگر صحابہ کرام سے بغض رکھنے والے موجود ہوں گے۔ اگر دیکھا جائے تو سیدنا حسین کے لیے یہ دعائے نبوی اس لیے نہیں تھی کہ باقی کسی سے اللّٰہ کی محبت نہ ہو بلکہ بعض اوقات کسی خاص پس منظر میں بات ہوتی ہے، اسی طرح اگر انصارکے بارے میں آپ نے یہ فرمایا تو اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ مہاجرین سے محبت کرنے والوں سے اللّٰہ محبت نہ کرے۔
ہفتم: فضائل اہل بیت
نبیﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا سے سرگوشی کی تو وہ رونے لگیں، دوبارہ سرگوشی کی تو ہنسنے لگیں۔ ان كے رونے كا سبب ىہ تھا کہ آپﷺ نے دنیا سے اپنى رخصتی کا بتایا تھا اور خوش اس لیے ہوئیں کہ آپﷺ نے انہیں بشارت دی کہ
«أَنِّي أَوَّلُ مَنْ يَتْبَعُهُ مِنْ أَهْلِهِ فَضَحِكْتُ»[27]
’’میں اہل بیت میں سے پہلی ہوں گی جو آپﷺ کے پیچھے (دنیا سے) جاؤں گی، تو میں ہنسنے لگی۔‘‘
فضائل صحابہ
اہل سنّت کے تمام مسالک کے نزدیک اُمّہات المؤمنین اہل بیت میں شامل ہیں مگر شیعہ انھیں ان میں شمار نہیں کرتے۔ ذیل کا تقابل انہی کے لیے كىا جارہا ہے۔ اس لىے زىنب رضى اللّٰہ عنہا كا شمار صحابہ مىں كىا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:
«أَسْرَعُكُنَّ لِحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا»[28]
’’تم میں سے سب سے جلدی مجھ سے ملنے والی وہ ہوں گی جن کا ہاتھ کھلا ہے۔‘‘
موازنہ: نبی کریمﷺ نے اہل بیت میں سے سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کو نامزد کرکے بشارت دی مگر ازواج کو اشارۃً بشارت دی۔ اور اس بشارت میں دونوں كى بابت اپنے اپنے وقت پر دنیاسے رخصت ہو کر آپﷺ سے ملنے کا تذکرہ ہے۔ ازواجِ مطہرات رضی اللّٰہ عنہن کو نبىﷺ سے ملنے كا شوق تھا، وہ اس اعزاز کے لیے اپنا جائزہ لیتی رہیں۔ پھر جب نبیﷺ کی وفات کے بعد سیدہ زینب بنت جحش رضی اللّٰہ عنہا کی وفات ہوئی تو انہیں پتہ چلا۔ سىدہ زىنب كے ہاتھ بہت كھلے تھے ىعنى وہ اپنے ہاتھوں سے سخاوت بہت كىا كرتى تھىں۔ الغرض!دونوں کے لیے بشارت تھی اور یہ بشارت دونوں کے لیے اعزاز تھی۔ یہ حدىث دوسری ازواج کے آپ سے دارِ آخرت مىں ملنے اور جنت مىں آپﷺ كى معىت مىں ہونے کی بھی واضح دلیل ہے۔
ہشتم: فضائل اہل بیت
نبیﷺ نے فرمایا:
«سَیِّدُ الشُّهَدَاءِ حَمْزَةُ»[29]
’’سیدنا حمزہ شہداء کے سردار ہیں۔‘‘
فضائل اُمّت
حدیثِ مذكور كا دوسرا حصہ ىہ ہے :
«وَرَجُلٌ قَامَ إِلٰى إِمَامٍ جَائِرٍ فَأَمَرَهُ وَنَهَاهُ فَقَتَلَهُ»[30]
’’اور وہ شخص بھی شہداء کا سردار ہے جو کسی ظالم و جابر حکمران کو نیکی کا حکم دے اور برائى سے روکے تووہ حکمران اسے قتل کر دے۔‘‘
موازنہ:’سید الشہداء‘ کا شرف اور اعزاز یقیناً سیدنا حمزہ کے لیے بہت قابل قدر ہے مگر یہ اعزاز مذکورہ صفات کے حامل شخص کے لیے بھی ہے۔
نہم: فضائل اہل بیت
سیدنا علی فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے مجھ سے وعدہ کیا کہ
«لَا يُحِبُّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُنِى إِلَّا مُنَافِقٌ»[31]
’’ مجھ سے مؤمن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے منافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘
فضائل صحابہ
نبیﷺ نے انصار کے بارے میں فرمایا:
«الأَنْصَارُ لاَ يُحِبُّهُمْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يُبْغِضُهُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ»[32]
’’انصار سے محض مؤمن ہی محبت کرے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘
موازنہ: سیدنا علی بھی ایمان و نفاق کا پیمانہ ہیں تو دوسری طرف تمام انصار صحابۂ کرام بھی ایمان ونفاق کی کسوٹی ہیں۔ دونوں کو زبانِ نبوت سے یہ اعزاز ملا ہے۔ اگر اہمیت زبانِ نبوت کو ہو تو دونوں کے اس اعزاز کو منظر عام پر لایا جائے۔ کسی بھی اىك طرف کو بہت اہمیت دینا اور دوسری طرف کا تذکرہ نہ کرنا بلکہ نعوذباللّٰہ انھی کو ہی منافق قرار دینا جو زبانِ نبوت سے ایمان و نفاق معلوم کرنے کی کسوٹی قرار پائے! یہ عدل وانصاف سے بالکل ہٹی ہوئی بات ہے۔ یہاں یہ فرق بھی ضروری ہے کہ اگر کسی نامناسب موقف کی تردید دلائل کی روشنی میں کی جارہی ہو تو اسے سیدنا علی یا اہل بیت کے کسی فرد سے بغض تصور نہ کیا جائے۔
دہم: فضائل اہل بیت
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهيرًا ﴿
٣٣﴾... سورة الأحزاب
’’اہل بیت! اللّٰہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی ناپاکی دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے۔‘‘
اُمّت کے فضائل
عمومی طور پر اُمّتِ مسلمہ کے متعلق فرمایا:
﴿وَلـٰكِن يُريدُ لِيُطَهِّرَكُم وَلِيُتِمَّ نِعمَتَهُ عَلَيكُم ...﴿٦﴾... سورة المائدة
’’اور لیکن اللّٰہ تعالیٰ ارادہ رکھتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے۔‘‘ (المائدة ۵ : ۶)
موازنہ: اہل بیت، جن میں ازواج النبیﷺ بھی شامل ہیں، ان کو آیتِ مذکور میں خاص اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اگرچہ سورۂ نساء کی آیت میں انداز بعینہٖ وہی تو نہیں مگر خاصی حد تک ملتا جلتا ہے۔ اہل بیت اور عام اُمتی کا کوئی تقابل نہیں لیکن یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ باقی مسلمان اور خصوصاً جو قرآن کے اوّلین مخاطبین تھے، وہ بھی تطہیر کے عمل سے گزرے تھے۔ اس لیے پانچ کو پاک قرار دینا اور باقی اصحاب کے بارے میں نامناسب رویہ اختیار کرنا کسی طور درست نہیں۔ كىونكہ فرقِ مراتب كے باوجود تطہیر كا ارادۂ الٰہى سارى امت سے بھى ہے۔
یازد ہم: فضائل اہل بیت
سیدنا علی کی کعبہ میں ولادت كى بات مشہور ہے، گو ىہ مستند ذرىعے سے ثابت نہىں۔ تاہم اس كو تسلىم بھى كرلىا جائے تو اس سے كوئى خاص فضىلت ثابت نہىں ہوتى۔
فضائل صحابہ
سیدنا حکىم بن حزام کی کعبہ میں ولادت ہوئی۔
[33]
موازنہ: حضرت على كى ولادت كى دلىل کتب سے تو ہمیں نہیں ملی۔ بالفرض اس کو مان بھی لیا جائے، توپھر بھی یہ سعادت دیگر صحابہ کو بھی حاصل ہوئی۔ اور اگر یہ ایسے کسی اعزاز کی بات ہوتی تو كم از كم نبیﷺ کی ولادت بھى تو کعبۃ اللّٰہ میں ہونی چاہیے تھی۔
دواز ہم: فضائل اہل بیت
سیدنا علی کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا:
«مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِىٌّ مَوْلَاهُ اللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»[34]
’’جس جس کا میں دوست ہوں، علی بھی اس کے دوست ہیں۔ اے اللّٰہ! جو اسے دوست رکھے اسے تو بھی دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو بھى اس سے دشمنی رکھ۔‘‘
اسى حدىث كے پىش نظر ’على مولا‘ كا نعرہ عام ہے۔
فضائل صحابہ
سیدنا زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہما کے متعلق رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
«أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا»[35]
’’تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو۔‘‘
علاوہ ازیں نبیﷺ نے جنہیں اپنا دوست بنائے رکھا اورسفر و حضر، مشکل و آسانی، جلوت اور خلوت میں جو ساتھ رہے۔ جن کے بارے میں خود سیدنا علی کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ سے اکثر سنا کرتا تھا کہ ’’میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر آئے۔‘‘ وہ بھی تو نبیﷺ کے دوست تھے۔ ایسے دوست کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ساتھ جگہ بھی نصیب فرما دی۔
موازنہ: ’مولا‘ کے لغت میں ۱۸ معانی درج ہیں۔ سیدنا علی کے لیے ان نبوی الفاظ کے معنی دوست کے ہیں جیسا کہ آخری دعائیہ الفاظ مفہوم متعین کر رہے ہیں کیونکہ وہاں وَالِ کے مقابلے میں عادِ استعمال ہوا ہے۔ اور ’مولا‘ کے الفاظ نبیﷺ نے سیدنا زید کے بارے میں بھی فرمائے۔
’مَولیٰ‘ کے ایک معنی ’آزاد کردہ غلام‘ کے بھی ہیں اور سیدنا زید آزاد کردہ غلام تو تھے ہی لیکن حدیثِ مذکور میں آپﷺ سیدنا زید کو اضافی اعزاز مرحمت فرما رہے تھے كىونكہ جو مرتبہ پہلے سے حاصل تھا ، اس کے اظہار کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔
سیزدہم: فضائل اہل بیت
سیدنا حسین کی شہادت کی پیش گوئی نبیﷺ نے فرمائی۔ ارشادِ نبوی ہے:
«قَامَ مِنْ عِنْدِی جِبْرِیلُ قَبْلُ فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ»[36]
’’اس سے پہلے جبریل میرے پاس سے اُٹھ کر گئے ہیں، اُنہوں نے مجھے بتایا ہے کہ حسین کو فرات کے ساحل پر شہید کیا جائے گا۔‘‘
فضائل صحابہ
آپ ﷺ نے سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللّٰہ عنہماکی شہادت کی پیش گوئی فرمائی۔ نبی کریمﷺ، ابوبکر، عمر اور عثمان اُحد پہاڑ پر تھے کہ پہاڑ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ نبیﷺ نے فرمایا:
«أُسْکُنْ أُحُدُ فَلَیْسَ عَلَیْكَ إِلَّا نَبِيٌّ وَصِدِّیقٌ وَ شَهِيدَانِ»[37]
’’احد! حرکت بند کردے۔ تجھ پر اس وقت ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘
موازنہ: صحابۂ کرام آپﷺ کی مبارک زندگی میں بھی شہید ہوئے اور کئی صحابہ اور اہل بیت کے بارے میں آپ نے شہادت کی پیش گوئی بھی فرمائی۔ یہ شہدائے کرام کے لیے اعزاز بھی تھا۔ اگر شہادت كى پیش گوئی اہل بیت کی بابت تھی، توصحابہ کی بابت بھی تھی۔ اىك كى شہادت پر بے انتہا خوشى اور اىك كى شہادت پر حد سے زىادہ غم كس بات كى غمازى كرتا ہے؟
چہار دہم :فضائل اہل بیت
نبیﷺ نے سیدنا علی کے قاتل کو بدبخت ترین قرار دیا۔ آپﷺ نے سیدنا علی سے فرمایا:
يا أبا تراب! ألا أحدثكما بأشقى الناس رجلين؟ قلنا: بلى يا رسول الله! قال: أحيمر ثمود الذي عقر الناقة، والذي يضربك على هذه (يعني قرن علي) حتى
تبتلّ هذه من الدم - يعني لحيته -.
[38]
’’کیا میں تمہیں دو انتہائی بدبخت لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں اے رسول اللہ !...اور دوسرا شخص وہ ہے ( پھر آپﷺ نے سیدنا علی كے سرکی چوٹی پر ہاتھ رکھا) اور فرمایا: جو یہاں ضرب لگائے گا اور جس سے یہ داڑھی خون سے تر ہو جائے گی۔ ‘‘
فضائل دیگر
اسى حدىث میں مذكور ،پہلا شخص یہ ہے:
’’اور پہلا بدبخت ترین شخص وہ ثمودى ہے جس نے صالح کی اونٹنی کی کونچیں کاٹیں۔‘‘ (اور وہ جانبر نہ ہوسکی)۔‘‘[39]
موازنہ: ایک کی بدبختی یہ ہے کہ اس نے سیدنا علی کو شہید کیا، دوسرے کی بدبختی یہ ہے کہ اس نے صالح کی اونٹنی کی کونچیں کاٹیں۔ اس فرمانِ نبوى سے سیدنا علی اور صالح کی اونٹنی کی اہمیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
پانز دہم: فضائل اہل بیت
نبی کریمﷺ نے سیدنا علی سے فرمایا:
«أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُّوسیٰ إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي»[40]
’’تمہارا میرے ہاں وہی مقام ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے ہاں ہارون علیہ السلام کا تھا مگر بات ىہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘
فضائل صحابہ
نبیﷺ نے سیدنا عمر کے بارے میں فرمایا:
«لَوْ کَانَ نَبِيٌّ بَعْدِی لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ»[41]
’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔‘‘
موازنہ: مذکورہ احادیث سے سیدنا علی کی اشارۃً اور سیدنا عمر كى صراحۃً فضیلت ثابت ہورہی ہے۔ سیدنا علی سے کہا جا رہا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور سیدنا عمر سے کہا جا رہا ہے کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتے تو عمر بن خطاب ہوتے۔ اسلوبِ کلام میں قدرے فرق ہے لیکن نتیجہ ایک ہے۔ اور اظہار محبت بھى دونوں سے ہے۔
آخری بات: سابقہ روایات کے مطالعے سے کئی اُمور سامنے آتے ہیں:
1. اگر اہل سنت کے ہاں اہل بیت کے لیے کوئی نفرت ہوتی تو ان کے ہاں متفقہ کتب حدیث میں ایسی کوئی حدیث نہ ہوتی۔ لیکن آپ نے دیکھا متقدمین اور متاخرین سبھی نے اہل بیت سے متعلقہ احادیث کو بیان کیا ہے۔
2. اہل بیت کا مقام و مرتبہ یقیناً بہت زیادہ ہے، مگر ان کے بارے میں احادیثِ مبارکہ یا آیاتِ قرآنیہ سے من مانے مفہوم لیے جاتے ہیں، وہ اس لیے درست نہیں کہ اس جیسے یا اس سے ملتے جلتے فضائل اللّٰہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو بھی دلوائے ہیں۔
3. مذکورہ تقابل کا مطلب اہل بیت کى شان گھٹانا قطعاً نہیں اور نہ کوئی اس سے یہ سمجھے۔ بس اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے کوئی من مانا مفہوم نہ لیا جائے۔ اگر حىثىت زبانِ نبوت كو دى گئى ہے تو اىك اىك حرفِ نبوت كى لاج ركھى جائے۔
4. عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اہل بیت کی شان میں استعمال کیے گئے الفاظ دیگر صحابہ کرام کے لیے مستعمل نہیں تو یہاں اس موقف کی تردید بھی ضروری تھی۔
ىہ تقابل کوئی حرفِ آخر یا آخری فیصلہ نہیں ہے۔ یہ تودعوت کا ایک اُسلوب اور بحث کا ایک نیا رخ ہے اور لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانی ہے كہ اگر اہمیت وحی کو ہے تو وحی میں آنے والے جملہ فضائل جس جس کے لیے ثابت ہیں ان کا بلا تعصب علیٰ الاعلان اظہار کیا جائے۔ اس طرح طرفین کی غلط فہمیاں دور ہونے کے امکانات بھی نظر آتے ہیں۔
حوالہ جات:
[1] سنن أبي داود، كتاب الأدب، باب في كراهية التمادح: ۴۸۰۶
[2] مسند احمد بن حنبل : ۳؍۲۴۱
[3] صحیح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب قول الله واذكر فى الكتاب مريم:رقم۳۴۴۵
[4] مسند أحمد، مسند بني هاشم:رقم ۳۲۴۸
[5] صحیح البخاري، أبواب الكسوف، باب الصلاة فى كسوف الشمس: رقم ۱۰۴۲، ۱۰۴۳
[6] صحیح مسلم ،كتاب الفضائل، باب من فضائل علي بن أبي طالب:رقم 6225
[7] سنن ابن ماجه، أبواب الأحكام، باب الرجل عنده الشهادة لا يعلم بها صاحبها: رقم ۲۳۶۳
[8] صحیح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب قول النبي ﷺ لو كنت متخذا خليلا: رقم ۳۶۷۳
[9] مسند أحمد: مسند الأنصار، حديث زيد بن ثابت : ۳ ؍۱۴، رقم21578
[10] السلسلة الصحیحة للشيخ محمد ناصر الدين الألباني:رقم ۲۷۳۵
[11] جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْإِيمَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ)، رقم 2641، حسن
[12] السلسلة الضعیفة للشيخ محمد ناصر الدين الألباني:رقم ۲۹۰۱
[13] السلسلة الضعیفة: ۱؍۱۴۴، رقم: ۵۸
[14] صحیح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب مناقب فاطمة رضي الله عنها:رقم ۳۷۶۷
[15] صحیح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب قول النبي ﷺلو كنت متخذا خليلا: ۳۶۶۱
[16] جامع الترمذي، أبواب المناقب، باب مناقب أبي محمد الحسن بن على بن أبي طالب...:رقم ۳۷۶۸
[17] جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ الله (بَابٌ اِقتَدُوا بِالَّذَینَ مِن بَعدِی اَبِي بَکرٍوَعُمَرَ)، رقم ۳۶۶۵
[18] جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخِي عَلِيٍّ)، رقم ۳۷۷۵
[19] المستدرك للحاکم: ۳؍۱۳۰
[20] صحیح البخاري: كِتَابُ الشَّرِكَةِ (بَابُ الشَّرِكَةِ فِي الطَّعَامِ وَالنِّهْدِ وَالعُرُوضِ)،رقم ۲۴۸۶
[21] مسند أحمد بن حنبل : ۳؍۳۲۱
[22] جامع الترمذي: أبواب المناقب، باب: رقم3775،
حسن
[23] جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخِي عَلِيٍّ)، رقم 3769
[24] صحيح مسلم: كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبي هريرة:رقم 2491
[25] صحيح البخاري: كتاب مناقب الأنصار، باب حب الأنصار:رقم 3783
[26] صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ ذِكْرِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ)، رقم 3735
[27] صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ (بَابُ فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِيِّ ﷺ):رقم 6312
[28] صحیح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ زَيْنَبَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ) ، رقم 6316
[29] السلسلة الصحیحة :رقم ۳۷۴
[30] السلسلة الصحیحة:رقم ۳۷۴
[31] صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب الدليل على أن حب الأنصار وعلى:رقم ۲۴۹
[32] صحیح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب حب الأنصار:رقم ۳۷۸۳
[33] سیر أعلام النبلاء : ۳؍۴۶
[34] مسند أحمد بن حنبل: ۱؍۱۱۹
[35] المستدرك للحاکم : ۳؍۱۳۰
[36] السلسلة الصحیحة : ۳؍۲۴۵ :رقم ۱۱۷۱
[37] صحيح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب مناقب عثمان بن عفان أبى عمرو القرشي: 3699
[38] السلسلة الصحیحة :1743
[39] السلسلة الصحیحة:ايضاً
[40] سنن ابن ماجه، باب في فضائل أصحاب رسول الله ﷺ، باب فى فضل على بن أبي طالب:رقم 121
[41] جامع الترمذي، أبواب المناقب، باب في مناقب أبي حفص عمر بن الخطاب:رقم 3686