سیدنا عیسی کے كَلِمَةُ اللّٰهِ اور رُوْحُ اللّٰهِ ہونے کی حقیقت
قرآنِ کریم اور بائبل کے تناظر میں
اعتراض: قرآنِ مجید نے کئی مقامات پر جناب مسیح کو ’کلمۃ اللّٰہ‘ اور ’روح اللّٰہ‘ قرار دیا ہے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کا ’کلمہ‘ ازلی ہے، مخلوق نہیں۔ اسی طرح ’روح اللّٰہ‘ سے مراد اللّٰہ تعالیٰ کی اپنی حیات ہے اور یہ بھی اَزلی ہے، لہٰذا مسیح ازلی و ابدی ہوئے اور یہ الٰہی خاصہ ہے ۔
جواب: مسیحیوں کا یہ استدلال کوئی نیا نہیں بلکہ رسول اکرم ﷺ کے پاس نجران کے عیسائی آئے تھے تو اُنہوں نے بھی یہ کہا تھا کہ ’’آپ جناب مسیح کو کلمۃ اللّٰہ اور روح اللّٰہ نہیں مانتے؟‘‘ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: بالکل مانتے ہیں۔ عیسائیوں نے کہا کہ ہمیں یہی بات کافی ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں یہ آیت اتاری :
﴿هُوَ الَّذى أَنزَلَ عَلَيكَ الكِتـٰبَ مِنهُ ءايـٰتٌ مُحكَمـٰتٌ هُنَّ أُمُّ الكِتـٰبِ وَأُخَرُ مُتَشـٰبِهـٰتٌ فَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم زَيغٌ فَيَتَّبِعونَ ما تَشـٰبَهَ مِنهُ ابتِغاءَ الفِتنَةِ وَابتِغاءَ تَأويلِهِ وَما يَعلَمُ تَأويلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرّٰسِخونَ فِى العِلمِ يَقولونَ ءامَنّا بِهِ كُلٌّ مِن عِندِ رَبِّنا وَما يَذَّكَّرُ إِلّا أُولُوا الأَلبـٰبِ ﴿٧﴾... سورةآل عمران[1]
’’ وہی اللّٰہ ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے اِس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری مُتشابہات، جن لوگوں کے دلو ں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ مُتشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو من گھڑت معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللّٰہ کے سوا کوئی نہیں جانتا بخلا ف اِس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے ربّ ہی کی طرف سے ہیں اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانش مند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں ۔‘‘
ایسا مُتشابہ لفظ جس کے کئی معانی (تعبیریں) ہو سکیں تواس کا حقیقی مصداق اور اصلی مطلب لینے کے لیے اس کلام (قرآن) اور صاحبِ کلام (شارح یعنی محمد ﷺ) کی طرف رجوع کیا جائے گا اور یہی اُصول تمام لوگوں کے ہاں تسلیم شدہ ہے۔
مسلمان، مسیحی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اس اُصول کو مد نظر رکھیں تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے لیکن تعصّب کی پٹی کوئی اتارنے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ ادھر بھی یہی صورتحال ہے، لہٰذا ان دونوں الفاظ کو اسلامی مصادر (قرآن وحدیث ) کے مطابق سمجھنا چاہیے اور پھر غور کریں ،آیا یہ اعتراض باقی رہتا ہے؟ تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
عیسائیوں نے جناب مسیح کو تثلیث کا ایک رکن (اُقنوم) اور ابن اللّٰہ قرار دینے کے لیے قرآنی الفاظ سے استدلال کیا، وہ اگر ان کے سیاق و سباق کو پڑھ لیتے تو اس گمراہی میں مبتلا نہ ہوتے، اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لا تَغلوا فى دينِكُم وَلا تَقولوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الحَقَّ إِنَّمَا المَسيحُ عيسَى ابنُ مَريَمَ رَسولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلقىٰها إِلىٰ مَريَمَ وَروحٌ مِنهُ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلا تَقولوا ثَلـٰثَةٌ انتَهوا خَيرًا لَكُم إِنَّمَا اللَّهُ إِلـٰهٌ وٰحِدٌ سُبحـٰنَهُ أَن يَكونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ وَكَفىٰ بِاللَّهِ وَكيلًا ﴿
١٧١﴾ لَن يَستَنكِفَ المَسيحُ أَن يَكونَ عَبدًا لِلَّهِ وَلَا المَلـٰئِكَةُ المُقَرَّبونَ وَمَن يَستَنكِف عَن عِبادَتِهِ وَيَستَكبِر فَسَيَحشُرُهُم إِلَيهِ جَميعًا ﴿
١٧٢﴾ فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ فَيُوَفّيهِم أُجورَهُم وَيَزيدُهُم مِن فَضلِهِ وَأَمَّا الَّذينَ استَنكَفوا وَاستَكبَروا فَيُعَذِّبُهُم عَذابًا أَليمًا وَلا يَجِدونَ لَهُم مِن دونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصيرًا ﴿
١٧٣﴾... سورة النساء
’’ اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلوّ نہ کرو اور اللّٰہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو، مسیح عیسیٰ ؑابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللّٰہ کا ایک رسول تھا اور ایک کلمہ تھا جو اللّٰہ نے مریمؑ کی طرف بھیجا اور وہ اللّٰہ کی طرف سے ایک روح تھی (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللّٰہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ تین ہیں، باز آ جاؤ، یہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔ اللّٰہ تو بس ایک ہی الٰہ ہے ، وہ اِس سے بالا تر ہے کہ کوئی اُس کا بیٹا ہو، زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں اس کی مِلک ہیں، اور ان کی کفالت و خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے۔مسیح کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھے گا کہ وہ اللّٰہ کا بندہ ہو، اور نہ مقرّب ترین فرشتے اِس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی اللّٰہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللّٰہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا۔ اُس وقت وہ لوگ جنہوں نے ایمان لا کر نیک طرز عمل اختیار کیا، اللّٰہ ان کو پورا پورا اجر دے گا اور اللّٰہ اپنے فضل سے ان کو مزید عطا فرمائے گا، اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے اُن کو اللّٰہ دردناک سزا دے گا اور اللّٰہ کے سوا جن جن کی سرپرستی و مددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے ۔‘‘
عیسائیوں نے جناب مسیح کے حوالے سے غلو کرتے ہوئے انہیں ’ابن اللّٰہ‘ اور ’ذاتِ الٰہ‘ میں شریک(حصہ) قرار دیاہے، جبکہ در حقیقت وہ اللّٰہ کے نبی اور رسول ہیں۔
قرآن کریم میں اُنہیں اللّٰہ کا کلمہ اور روح بھی قرار دیا گیا جس کا مطلب عیسائیوں نے غلط لیا ہے۔ پہلے ان جملوں کا اصل مفہوم ومطلب کیا ہے؟ ملاحظہ فرمائیں:
کلمۃ اللّٰہ
جناب مسیح کے حوالے سے آنے والے اس لفظ کے ازروئے قرآن دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی عیسائیوں کو مفید نہیں۔
اوّل: وہ اللّٰہ تعالیٰ کے کلمہ کُن سے پیدا شدہ تھے، اور یہ نسبت تشریفی ہے ۔ اس کلمہ کی ازلی اور ابدی تعبیروں میں نہیں الجھنا چاہیے کیونکہ یہ کلامی اصطلاحا ت ہیں۔ اس کی دلیل یہ آیات ہیں:
﴿إِذ قالَتِ المَلـٰئِكَةُ يـٰمَريَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنهُ اسمُهُ المَسيحُ عيسَى ابنُ مَريَمَ وَجيهًا فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ وَمِنَ المُقَرَّبينَ ﴿
٤٥﴾وَيُكَلِّمُ النّاسَ فِى المَهدِ وَكَهلًا وَمِنَ الصّـٰلِحينَ ﴿
٤٦﴾ قالَت رَبِّ أَنّىٰ يَكونُ لى وَلَدٌ وَلَم يَمسَسنى بَشَرٌ قالَ كَذٰلِكِ اللَّهُ يَخلُقُ ما يَشاءُ إِذا قَضىٰ أَمرًا فَإِنَّما يَقولُ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿
٤٧﴾... سورة آل عمران
’’ اور جب فرشتوں نے کہا:اے مریمؑ! اللّٰہ تجھے اپنے ایک کلمہ کی خوش خبری دیتا ہے اُس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا، دنیا اور آخرت میں معزز ہوگا، اللّٰہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا ۔ لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور ادھیڑ عمر کو پہنچ کر بھی، اور وہ ایک مرد صالح ہوگا۔ یہ سن کر مریمؑ بولی:پروردگار! میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا؟ مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ جواب ملا، ایسا ہی ہوگا، اللّٰہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے ۔‘‘
یہاں لفظ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُآیا ہے جو اس کلمۃ اللّٰہ کے مخلوق ہونے کی واضح دلیل ہے جبکہ عیسائیوں کا نظریہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی صفتِ کلام ہی مجسم ہو کر جناب مسیح کی صورت میں دنیا کے اندر آئی۔جبکہ ’پیدا شدہ چیز‘ کیسے اللّٰہ تعالیٰ کی صفتِ ازلی ہو سکتی ہے ؟
’کلمۃ اللّٰہ‘ بالکل اسی طرح ہے جیسے صالح کو اونٹنی کا معجزہ دیا گیا تھا ، تو اسے ’ناقۃ اللّٰہ‘ کہا گیا۔اسی طرح مسجدِ حرام میں واقع خانہ کعبہ کو ’بیت اللّٰہ‘ کہا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ چیزیں اللّٰہ تعالیٰ کے گھر یا سواری ہیں ،بلکہ یہ سب مخلوق ہیں۔ البتہ ان کی عزت و شرف اورفضیلت کے باعث ان کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کر دی گئی۔ اسے ’اضافتِ تشریفی‘ کہا جاتا ہے۔مزید تائید بائبل سے دیکھ لیں ،مثلاً:
1. جس پہاڑ پر سیدنا ابراہیم اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے لائے تھے، اسے بائبل میں ’خداوند کا پہاڑ‘کہا گیا ہے ۔
[2]
2. عہد کے صندوق کو ’خدا کا صندوق‘ کہا گیا ہے ۔
[3]
3. ہیکل کو ’رب الافواج کا گھر ‘کہا گیا ہے ۔
[4] نیز اسے ’خدا کا مقدس‘ کہا گیا ہے ۔
[5]
4. ’’آسمان خداوند کے کلام سے اور اس کا سارا لشکر اس کے منہ کے دم سے بنا۔‘‘
[6]
کیا مسیحی لوگ ان اشیاء : پہاڑ، صندوق، ہیکل، آسمان وغیرہ کو ازلی مانتے ہیں ؟
دوم: کلمۃ اللّٰہ سے مرادلفظ کُن ہے جو سیدنا عیسیٰ کی تخلیق کا سبب ہے چنانچہ مشہور مفسر شیخ محمد امین شنقیطی آیتِ مذکورہ بالا کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
لَمْ يُبَيِّنْ هُنَا هَذِهِ الْكَلِمَةَ الَّتِي أُطْلِقَتْ عَلَى عِيسَى ; لِأَنَّهَا هِيَ السَّبَبُ فِي وُجُودِهِ مِنْ إِطْلَاقِ السَّبَبِ وَإِرَادَةِ مُسَبِّبِهِ، وَلَكِنَّهُ بَيَّنَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ أَنَّهَا لَفْظَةُ كُنْ، وَذَلِكَ فِي قَوْلِهِ: ﴿إِنَّ مَثَلَ عيسىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ ءادَمَ خَلَقَهُ مِن تُرابٍ ثُمَّ قالَ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿٥٩﴾... سورة آل عمران"[7]
’’اس جگہ اس کلمہ کی وضاحت نہیں کی گئی جو سیدنا عیسیٰ (کی تخلیق) کے لئے بولا گیا۔ لیکن دوسری جگہ کلمہ کُن کی صراحت موجود ہے جو اس آیت میں ہے :
﴿إِنَّ مَثَلَ عيسىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ ءادَمَ خَلَقَهُ مِن تُرابٍ ثُمَّ قالَ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿٥٩﴾... سورة آل عمران" ’’ اللّٰہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللّٰہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا ، پس وہ ہو گیا ۔ یہاں کلمہ کُن جو عیسیٰ کی تخلیق کا سبب تھا، بول کر مسبّب (اللّٰہ تعالیٰ کا ارادہ )مراد لیاہے ۔‘‘
اور ایسی ہی بات امام غزالی نے بھی کہی ہے ۔
[8]
ایک اور انداز سے وضاحت: محض کلمۃ اللّٰہ کہنے سے اگر کوئی الٰہ یا ذات الٰہ کا جز بن سکتا ہے تو قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے کلمات بے شمار ہیں تو کیا وہ بھی یہی حکم رکھتے ہیں؟ مثلاً قرآن کریم میں ہے:
﴿قُل لَو كانَ البَحرُ مِدادًا لِكَلِمـٰتِ رَبّى لَنَفِدَ البَحرُ قَبلَ أَن تَنفَدَ كَلِمـٰتُ رَبّى وَلَو جِئنا بِمِثلِهِ مَدَدًا ﴿
١٠٩﴾... سورة الكهف
’’ پیغمبر! کہو کہ اگر سمندر میرے ربّ کے کلمات لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے ربّ کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے ۔‘‘
دوسرے مقام پر ہے:
﴿ وَلَو أَنَّما فِى الأَرضِ مِن شَجَرَةٍ أَقلـٰمٌ وَالبَحرُ يَمُدُّهُ مِن بَعدِهِ سَبعَةُ أَبحُرٍ ما نَفِدَت كَلِمـٰتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٢٧﴾... سورةلقمان
’’ زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (روشنائی بن جائے ) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللّٰہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ بے شک اللّٰہ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘
روح اللّٰہ
مسیحی فلسفی یہ کہتے ہیں کہ اس لفظ سے اللّٰہ تعالیٰ والی حیات ِازلی مراد ہے جبکہ درحقیقت ایسا نہیں کیونکہ اس کے لیے آنے والے قرآنی الفاظ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ میں لفظ مِن تبعیض (جز) کے لیے نہیں بلکہ کسی چیز کے صادر ہونے کے لیے ہے ، لہٰذا ترجمہ یوں ہوگا اور ’’اس ( اللّٰہ) کی طرف سے صادر ہونے والی روح۔‘‘ جیساکہ تفسیرالبحر المحیط میں ہے :
وَمَعْنَى رُوحٍ مِنْهُ أَيْ: صَادِرَةٌ، لِأَنَّهُ ذُو رُوحٍ وُجِدَ مِنْ غَيْرِ جُزْءٍ مِنْ ذِي رُوحٍ، كَالنُّطْفَةِ الْمُنْفَصِلَةِ مِنَ الْأَبِ الْحَيِّ، وَإِنَّمَا اخْتُرِعَ اخْتِرَاعًا مِنْ عِنْدِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ. وَقَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ: عِيسَى رُوحٌ مِنْ أَرْوَاحِ اللهِ تَعَالَى الَّذِي خَلَقَهَا وَاسْتَنْطَقَهَا بِقَوْلِهِ: أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى. بَعَثَهُ الله إِلَى مَرْيَمَ فَدَخَلَ. وَقَالَ الطَّبَرِيُّ وَأَبُو رَوْقٍ: وَرُوحٌ مِنْهُ أَيْ نَفْخَةٌ مِنْهُ، إِذْ هِيَ مِنْ جِبْرِيلَ بِأَمْرِهِ. [9]
’’ اور رُوْحٌ مِّنْهُ کا مطلب ہے :صادر ہونے والی روح کیونکہ سیدنا عیسیٰ ایسی روح ہیں جو کسی ذی روح کے حصّے کے طور پر وجود میں نہیں آئی،جیسے زندہ والد سے جدا ہونے والا نطفہ ہوتا ہے ۔ اور سیدنا عیسیٰ کو اللہ کی طرف سے اور اس کی قدرت سے پیدا کیا گیاہے ۔ اور اُبی بن کعب کہتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کی طرف سے ان روحوں سے ہے جنہیں اُس نے پیدا کرکے ان سے اَلَستُ بِرَبِّکُم کے جواب کا مطالبہ کیا تو اُنہوں نے بَلٰی کہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس روح کو سیدہ مریم کی طرف بھیجا اور وہ ان میں داخل ہوئی۔ اور امام طبری اورابو روق کہتے ہیں : رُوْحٌ مِّنْهُ کا مطلب ہے اللہ کی طرف سے پھونک کیونکہ جبریل اللہ کے حکم سے پھونک مارنے آئے تھے۔ ‘‘
اور اس کی مثل قرآنِ مجید کی یہ آیت بھی ہے:
﴿وَسَخَّرَ لَكُم ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ جَميعًا مِنهُ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايـٰتٍ لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ ﴿
١٣﴾... سورة الجاثية
’’ اس نے آسمانوں اور زمین کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اسی کی طرف سے ہے۔ ‘‘ (الجاثیہ: ۱۳)
﴿الشَّيطـٰنُ يَعِدُكُمُ الفَقرَ وَيَأمُرُكُم بِالفَحشاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَغفِرَةً مِنهُ وَفَضلًا وَاللَّهُ وٰسِعٌ عَليمٌ ﴿
٢٦٨﴾... سورة البقرة
’’شیطان تمہیں فقر اور بے حیائی کاوعدہ دیتا ہے اور اللہ تمہیں اپنے پاس سے مغفرت اور فضل کا وعدہ دیتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ وسعت اور علم والا ہے ۔‘‘
یعنی آسمان وزمین اللہ تعالیٰ کا جز نہیں ہیں اوران کے اللّٰہ کے مخلوق ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اور ان کی تسخیر بھی اس کی طرف سے ہے۔ اور مغفرت وفضل اس کے وعدے ہیں۔ گویا تسخیر اور مغفرت تاکیداًاسی کی عنایات ہیں۔
بائبل میں بھی اس طرح کے کئی جملے ہیں : (پہلے عربی عبارت اور پھر اس کا ترجمہ دیکھیں)
1. پولوس رقم طراز ہے :
هذا کله من الله ’’ اور یہ سب چیزیں خدا کی طرف سے ہی ہیں۔‘‘
[10]
2. من یؤمن بأن یسوع هو المسیح فهومولودٌ من الله.
’’ جس کا یہ ایمان ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے، وہ خدا سے پیدا ہوا ہے۔‘‘
[11]
3. کل مولود من الله لا یعمل الخطیئة لأن زرع الله ثابت فیه .
’’جو کوئی خدا کی طرف سے پیدا ہوا ہے، وہ گناہ نہیں کرتا کیونکہ اس کا تخم اس میں موجود رہتا ہے ۔‘‘
[12]
4. أیها الحبیب لا تتبع الشرّ، بل الخیر. من یعمل الخیر فهو من الله.
’’ اے پیارے! بدی کی نہیں بلکہ نیکی کی پیروی کر ۔ نیکی کرنے والا خدا کی طرف سے ہے ۔‘‘
[13]
کیا مسیحی حضرات تمام مخلوقات ، جناب عیسیٰ کو مسیح ماننے والوں، اور نیک اعمال کرنے والوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا جز اور حصّہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ حالانکہ ان کے لیے بھی لفظ مِن استعمال ہوا ہے بلکہ دوسرے اور تیسرے حوالے میں تو اللّٰہ سے پیدا ہونے کی بات ہے ۔ظاہر ہے کہ ان تمام جملوں میں ’اللّٰہ کی طرف سے ‘ والا مطلب مراد لینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔
تو جیسے قرآن اور بائبل کے ان جملوں میں لفظ مِن صدور (ابتدا) کے لئے ہے، اسی طرح لفظ رُوْحٌ مِّنْهُ میں بھی ’اس سے صادر ہونے والی مخلوق‘ کے لئے ہی ہے ۔
٭ تمام ارواح مخلوق ہیں: واضح رہنا چاہیے کہ اسلاف سمیت تمام اہل سنت انسانی جسم میں پائے جانے والی روح کو اللّٰہ تعالیٰ کی صفت قرار نہیں دیتے ،بلکہ تمام طرح کی اَرواح کو اس کی مخلوق تسلیم کرتے ہیں ۔چنانچہ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
رُوحُ الْآدَمِيِّ مَخْلُوقَةٌ مُبْدَعَةٌ بِاتِّفَاقِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا وَسَائِرِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَقَدْ حَكَى إجْمَاعَ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ مثلُ "مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ الْمَرْوَزِي" الْإِمَامِ الْمَشْهُورِ الَّذِي هُوَ أَعْلَمُ أَهْلِ زَمَانِهِ بِالْإِجْمَاعِ وَالِاخْتِلَافِ أَوْ مِنْ أَعْلَمِهِمْ. وَكَذَلِكَ "أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ قُتَيْبَةَ" قَالَ فِي "كِتَابِ اللقط" لَمَّا تَكَلَّمَ عَلَى خَلْقِ الرُّوحِ قَالَ: النَّسَمُ الْأَرْوَاحُ. قَالَ: وَأَجْمَعَ النَّاسُ عَلَى أَنَّ اللهَ خَالِقُ الْجُثَّةِ وَبَارِئُ النَّسَمَةِ أَيْ خَالِقُ الرُّوحِ. وَقَالَ أَبُو إسْحَاقَ بْنُ شاقلا فِيمَا أَجَابَ بِهِ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، سَأَلْتَ ــ رَحِمَك اللهُ ــ عَنْ الرُّوحِ مَخْلُوقَةٌ أَوْ غَيْرُ مَخْلُوقَةٍ قَالَ: هَذَا مِمَّا لَا يَشُكُّ فِيهِ مَنْ وُفِّقَ لِلصَّوَابِ إلَى أَنْ قَالَ: وَالرُّوحُ مِنْ الْأَشْيَاءِ الْمَخْلُوقَةِ وَقَدْ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ طَوَائِفُ مَنْ أَكَابِرِ الْعُلَمَاءِ وَالْمَشَايِخِ وَرَدُّوا عَلَى مَنْ يَزْعُمُ أَنَّهَا غَيْرُ مَخْلُوقَةٍ. وَصَنَّفَ الْحَافِظُ أَبُو عَبْدِ الله بْنُ مَنْدَة فِي ذَلِكَ كِتَابًا كَبِيرًا فِي "الرُّوحِ وَالنَّفْسِ" وَذَكَرَ فِيهِ مِنْ الْأَحَادِيثِ وَالْآثَارِ شَيْئًا كَثِيرًا؛ وَقَبِلَهُ الْإِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِي وَغَيْرُهُ وَالشَّيْخُ أَبُو يَعْقُوبَ الْخَرَّازُ وَأَبُو يَعْقُوبَ النَّهرَجُورِي وَالْقَاضِي أَبُو يَعْلَى وَغَيْرُهُمْ؛ وَقَدْ نَصَّ عَلَى ذَلِكَ الْأَئِمَّةُ الْكِبَارُ وَاشْتَدَّ نَكِيرُهُمْ عَلَى مَنْ يَقُولُ ذَلِكَ فِي رُوحِ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ لَا سِيَّمَا فِي رُوحِ غَيْرِهِ كَمَا ذَكَرَهُ أَحْمَدُ فِي كِتَابِهِ فِي الرَّدِّ عَلَى "الزَّنَادِقَةِ وَالْجَهْمِيَّة" [14]
’’آدمی کی روح مخلوق اور نئے سرے سے وجود میں آ نے والی ہے۔ اس میں ملتِ اسلامیہ کے اسلاف ، ائمہ کرام اور جملہ اہل سنت کا اتفاق ہے۔ اور روح کے مخلوق ہونے پر بہت سے ائمہ مسلمین ، مثلاً مشہور امام محمد بن نصر مروزی نے اجماع کی صراحت کی ہے جو اپنے دور کے اہل علم کے اختلافات واجماعات کو سب سے زیادہ جاننے والے یا اجل علما میں سے تھے۔ ان میں سے ایک ابو محمد بن قتیبہ بھی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب اللقط میں روح کی تخلیق پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’نَسم سے مراد ارواح ہیں اور لوگوں کا اجماع ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جنت کے خالق اور روح کے خالق ہیں۔ ‘‘ اور أبو اسحٰق بن شاقلا سے جب روح کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونےکے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: جس شخص کو اللّٰہ تعالیٰ نے درست موقف کی توفیق دی ہے ، اسےاس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے، کہ روح مخلوق چیزوں میں سے ہے۔‘‘اور اس مسئلہ میں اکابر علما ومشائخ نے گفتگو کرتے ہوئے اس شخص کی پرزور تردید کی ہے جو روح کے غیرمخلوق ہونے کا دعویدار ہے۔اور حافظ ابوعبد اللّٰہ بن مندہ نے ’روح ونفس‘ کے عنوان سے ایک عظیم کتاب لکھی ہےجس میں بے شماراحادیث وآثار کا ذکر کیا ہے ۔ اور اسے امام محمد بن نصر مروزی وغیرہ، شیخ ابو یعقوب خراز، ابویعقوب نہرجوری، قاضی ابو یعلیٰ وغیرہ نے بھی قبول کیا ہے ۔ اور کبار ائمہ نے اس کی صراحت کی، اور اُنہوں نے اس موقف کی سخت مذمت کی ہے جو شخص عیسیٰ بن مریم کی روح کو خصوصی طورپر اور باقی روحوں کو عمومی طورپر قرار غیرمخلوق کہتا ہے جیساکہ امام احمد نے اپنی تصنیف الرَّدّ عَلَى الزَّنَادِقَةِ وَالْجَهْمِيَّة میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔‘‘
٭
سیدنا عیسیٰ کے علاوہ دیگر کے لئے ’روح‘ کا لفظ :قرآن مجید کے مطابق لفظ رُوح فقط سیدنا مسیح کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ سیدنا جبریل کے لیے بھی یہ لفظ بولا گیا
[15]ہے ۔ فرمایا:
﴿فَاتَّخَذَت مِن دونِهِم حِجابًا فَأَرسَلنا إِلَيها روحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَرًا سَوِيًّا ﴿
١٧﴾... سورة مريم
’’ اور وہ پردہ ڈال کر اُن سے چھپ بیٹھی تھی اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی روح کو (یعنی فرشتے کو) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہو گیا ۔‘‘
اسی کو دوسری جگہ روح القدس اور تیسرے مقام پر روح الامین کا نام دیا گیا ہے :
﴿قُل نَزَّلَهُ روحُ القُدُسِ مِن رَبِّكَ بِالحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذينَ ءامَنوا وَهُدًى وَبُشرىٰ لِلمُسلِمينَ ﴿
١٠٢﴾... سورة النحل
’’ اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے ۔‘‘
﴿نَزَلَ بِهِ الرّوحُ الأَمينُ ﴿
١٩٣﴾... سورة الشعراء
’’ اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اُتری ہے ۔‘‘
سیدنا جبریل کو روح کہنے کی وجہ ان کا مادّی جسم نہ ہونا ہے، چنانچہ جب سیدہ مریم کے پاس آئے تو انسان کی صورت اختیار کی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿فَاتَّخَذَت مِن دونِهِم حِجابًا فَأَرسَلنا إِلَيها روحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَرًا سَوِيًّا ﴿
١٧﴾... سورة مريم
’’ اور وہ پردہ ڈال کر اُن سے چھپ بیٹھی تھی اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی طرف سے روح کو (یعنی فرشتے کو) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہو گیا ۔‘‘
٭ اُنہوں نے سیدہ مریم کے گریبان میں پھونک ماری تو اللّٰہ کے حکم سے حمل ہوگیا ، لہٰذا ان کی پیدائش سیدنا جبرائیل کی پھونک سے ہوئی تھی۔ جیساکہ قرآن کریم میں ہے :
﴿وَالَّتى أَحصَنَت فَرجَها فَنَفَخنا فيها مِن روحِنا وَجَعَلنـٰها وَابنَها ءايَةً لِلعـٰلَمينَ ﴿
٩١﴾... سورة الأنبياء
’’ اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی، ہم نے اُس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونکی اور اُسے اور اُس کے بیٹے کو دنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا ۔‘‘ (الانبیاء: ۹۱)
٭ یہ شرف سیدنا آدم کو بھی حاصل ہے، چنانچہ جب انہیں مٹی سے بنایا گیا تو پھر ان میں اللّٰہ نے اپنی طرف سے روح پھونکی۔قرآن میں ہے :
﴿ فَإِذا سَوَّيتُهُ وَنَفَختُ فيهِ مِن روحى فَقَعوا لَهُ سـٰجِدينَ ﴿٢٩﴾... سورة الحجر
’’ جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا ۔‘‘
الغرض مسلمانوں کے ہاں یہ نسبت عزت و اکرام کی ہے
[16]، جسے نسبت تشریفی کہتے ہیں۔ نہ کہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کا حصہ قرار دینے کے لیے جیسا کہ مسیحی کہتے ہیں۔ اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو آدم ،سیدنا مسیح کی نسبت خدا بننے کے زیادہ حقدار ہیں اور قرآن مجید میں اسی بنا پر ان دونوں کو ہم مثل کہا گیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے ٰ :
﴿إِنَّ مَثَلَ عيسىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ ءادَمَ خَلَقَهُ مِن تُرابٍ ثُمَّ قالَ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿
٥٩﴾... سورة آل عمران
’’ اللّٰہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللّٰہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہوجا اور وہ ہو گیا۔‘‘ ( آلِ عمران:۵۹)
کیا کوئی مسیحی سیدنا آدم کو بھی خداوند تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے ؟
یہ تو ہوئی قرآنی تعلیم ،اب ہم بائبل دیکھتے ہیں تو وہاں بھی کئی لوگوں پر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے روح بھیجنے کا تذکرہ کیا ، تو کیا وہ بھی خدا جیسے ہیں؟ مثلاً:
1. پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا:’’ دیکھ میں نے ’بضلی ایل بن اور ی بن حُور‘ کو یہوداہ کے قبیلے میں سے نام لیکر بلایا ہے اور میں نے اس کو حکمت ،فہم و علم اور ہر طرح کی صفت میں روح اللّٰہ
[17] سے معمور کیا ہے۔ ‘
[18]
عربی بائبل میں اس کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں: وملأته من روحي
2. موسیٰ نے جب بنی اسرائیل کو جا کر یہ وحی سنائی تو اس میں بھی یہی الفاظ آئے ہیں۔
[19]
’’موسیٰ نے اسے کہا: کیا تجھے میری خاطر رشک آتا ہے ، کاش خداوند کے سب لوگ نبی ہوتے اور خداوند اپنی روح ان سب میں ڈالتا ۔‘‘
[20]
یعنی ان کے نزدیک تمام انبیا میں ہی اللّٰہ تعالیٰ کی روح ڈالی جاتی ہے تو پھر مسیح کی خصوصیت کیا رہی؟
3. تو ان کا دم روک لیتا ہے اور یہ مر جاتے ہیں اور پھر مٹی میں مل جاتے ہیں۔ تو اپنی روح بھیجتا ہے اور یہ پید ا ہوتے ہیں ۔
[21]
4. اگر وہ اپنی روح اور اپنے دم کو واپس لے لے تو تمام بشر اکٹھے فنا ہو جائیں گے اور انسان پھر مٹی میں مل جائے گا۔
[22]
انجیل کے ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ ہر انسان میں ’اللّٰہ کی طرف سے روح‘ ہوتی ہے تو کیا سب خدا ہیں۔
5. جناب مسیح نے فرمایا:جو جسم سے پیدا ہوا ہے ،جسم ہے اور جو روح سے پیدا ہوا ہے، روح ہے ۔
[23]
آگے جا کر لکھا ہے: ’’خدا رو ح ہے۔ ‘‘
[24]
اب ہم بائبل سے ہی دیکھتے ہیں کہ خدا سے کون پیدا ہوتے ہیں، سو لکھا ہے :
جس کا یہ ایمان ہے کہ ’’یسوع ہی مسیح ہے، وہ خدا سے پیدا ہوا ہے ۔‘‘
[25]
انجیل یوحنا میں لکھا ہے کہ ’’جو جناب مسیح پر ایمان لاتے ہیں، وہ نہ خون سے، نہ جسم کی خواہش سے، نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے ہیں ۔
[26]
مزید لکھا ہے : ’’عزیزو! آؤ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں کیونکہ محبت خدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی محبت رکھتا ہے، وہ خدا سے پیدا ہوا ہے ۔‘‘
[27]
اس طرح عیسائی اور مسلمان تمام کے تمام روح ہوئے کیونکہ حضرت عیسیٰ کو سب مسیح تسلیم کرتے ہیں، نیز محبت کرنے والے لوگ خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھیں، وہ بھی روح ہیں تو کیا ان سب کو مسیحی حضرات خدا ماننے کے لیے تیار ہیں یا اس کا جز اور حصہ تسلیم کریں گے؟
6. پولوس نے اپنے مرید ین کو کہا : کیا تم نہیں جانتے کہ تم خدا کا مقدس ہو اور خدا کا روح تم میں بسا ہوا ہے ۔
[28]
7. اپنے متعلق پولوس نے کہا: اور میں سمجھتا ہوں کہ خدا کا روح مجھ میں بھی ہے ۔
[29] لکھا ہے :
’’اے عزیزو ہر ایک روح کا یقین نہ کرو بلکہ روحوں کو آزماؤ کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں یا نہیں کیونکہ بہت سے جھوٹے نبی دنیا میں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ خدا کے روح کو تم اس طرح پہچان سکتے ہو کہ جو کوئی روح اقرار کرے کہ یسوع مجسم ہو کر آیا ہے وہ خدا کی طرف سے ہے ۔
[30]
عربی بائبل میں یہاں روح الله اور روح من الله کے الفاظ ہیں۔ ظاہر ہے کہ تمام مسیحی ان حوالہ جات کی کوئی نہ کوئی تاویل کر کے ان کا ایسا معنی کریں گے جس سے شرک کی زد سے بچا جا سکے تو جناب مسیح کے متعلق آنے والے لفظ کی ایسی تفسیر کیوں نہیں ہو سکتی ؟
جناب مسیح کو ’روح منہ‘ کیوں کہا گیا؟
قرآن مجید میں لفظ روح کئی معانی میں استعمال ہوا ہے، پہلے وہ ملاحظہ کر لیں ،پھر آگے چلیں گے:
1. فرشتہ یعنی حضرت جبریل
﴿نَزَلَ بِهِ الرّوحُ الأَمينُ ﴿
١٩٣﴾... سورة الشعراء
’’ اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے ۔‘‘
﴿فَاتَّخَذَت مِن دونِهِم حِجابًا فَأَرسَلنا إِلَيها روحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَرًا سَوِيًّا ﴿
١٧﴾... سورة مريم
’’ اور پردہ ڈال کر اُن سے چھپ بیٹھی تھی اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی طرف سے روح (فرشتے) کو بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک کامل انسان کی شکل میں نمودار ہو گیا ۔‘‘
﴿قُل نَزَّلَهُ روحُ القُدُسِ مِن رَبِّكَ بِالحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذينَ ءامَنوا وَهُدًى وَبُشرىٰ لِلمُسلِمينَ ﴿١٠٢﴾... سورة النحل
’’ اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے ربّ کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے ۔‘‘
﴿وَأَيَّدَهُم بِروحٍ مِنهُ...﴿
٢٢﴾... سورة المجادلة
’’اللّٰہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی اپنی طرف سے ’روح‘کے ساتھ تائید کی۔‘‘
﴿تَنَزَّلُ المَلـٰئِكَةُ وَالرّوحُ فيها بِإِذنِ رَبِّهِم مِن كُلِّ أَمرٍ ﴿
٤﴾... سورة القدر
’’ فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں ۔‘‘
2. انسانی جان:
﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ الرّوحِ قُلِ الرّوحُ مِن أَمرِ رَبّى وَما أوتيتُم مِنَ العِلمِ إِلّا قَليلًا ﴿
٨٥﴾... سورة الإسراء
’’ یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو یہ روح امر ربی سے ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے ۔‘‘ (بنی اسرائیل:۸۵)
3. وحیٔ الٰہی:
﴿وَكَذٰلِكَ أَوحَينا إِلَيكَ روحًا مِن أَمرِنا ما كُنتَ تَدرى مَا الكِتـٰبُ وَلَا الإيمـٰنُ وَلـٰكِن جَعَلنـٰهُ نورًا نَهدى بِهِ مَن نَشاءُ مِن عِبادِنا وَإِنَّكَ لَتَهدى إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ ﴿
٥٢﴾... سورة الشورىٰ
’’ اور اِسی طرح (اے محمد!) ہم نے اپنی حکم سے ایک روح (وحی) تمہاری طرف بھیجی ہے۔ تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے؟ مگر اُس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو ۔‘‘
﴿يُنَزِّلُ المَلـٰئِكَةَ بِالرّوحِ مِن أَمرِهِ عَلىٰ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ أَن أَنذِروا أَنَّهُ لا إِلـٰهَ إِلّا أَنا۠ فَاتَّقونِ ﴿
٢﴾... سورة النحل
’’ وہ اِس روح (وحی) کو اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے (اِس ہدایت کے ساتھ کہ لوگوں کو) آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو۔‘‘
دیکھئے کہ مسیحیوں کا بیان کردہ معنی ومفہوم قرآن مجید کی کسی آیت میں مستعمل نہیں ، لہٰذا یہ محض ان کا تحکم اور سینہ زوری ہے ۔بہر حال ان تینوں معانی و مفاہیم کے لحاظ سے عیسیٰ کو روح منه کہا جاسکتا ہے :
[31]
1. چونکہ عام طریقہ حمل ووِلادت سے ہٹ کر ان کی پیدائش کلمہکُنْ سے ہوئی اس لیے انہیں کلمہ کُنْ کا نتیجہ ہونے کے سبب یہ لقب دیا گیا۔
2. جبریل خصوصی طور پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی نوید سنانے کے لیے مقرر ہوئے ۔
3. عام طریقہ حمل سے ہٹ کر ان کی روح ( انسانی جان) سیدہ مریم علیہا السلام میں پھونکی گئی، اس لیے لقب ملا۔
4. اللّٰہ تعالیٰ نے جناب مسیح کی خصوصی طور پر مدد و حمایت کی اور انہیں یہود کے چنگل سے بچا کر زندہ آسمان پر اُٹھا لیااور اس مدد و تعاون کے لیے جس خاص فرشتے کو مقرر کیا تھا، اس کا نام بھی روح القدس ہے جیسا کہ قرآن کے تین مقامات پر یہ بات آئی ہے، ملاحظہ ہو:
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 78، 253 اور سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 110
٭ اب ہم آتے ہیں بائبل کی طرف تو آپ نے پیچھے حوالہ جات ملاحظہ فرما لیے کہ لفظ روح مختلف معانی میں آیا ہے جن کا خلاصہ یہ ہے :
۱۔ اللّٰہ کا فضل و رحمت، چونکہ جناب مسیح اللّٰہ تعالیٰ کے خاص فضل و رحمت سے پیدا ہوئے، تو اس کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ ۲۔ انسانی جان ۳۔ وحی الٰہی ۴۔نبی ۵۔ قدرت
[32]
آخری الذکر معنیٰ کے لیے حسبِ ذیل عبارت دیکھیں۔ مسیح نے فرمایا تھا:
’’اگر میں خدا کے روح کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو خدا کی بادشاہی تمہارے پاس آ پہنچی۔ ‘‘
[33]
اسی بات کو انجیل لوقا میں یوں درج کیا گیا ہے:’’ اگر میں بدروحوں کو خدا کی قدرت سے نکالتا ہوں تو خدا کی بادشاہی تمہارے پاس آ پہنچی۔ ‘‘
[34] یعنی روح کا ترجمہ ’قدرت‘ ہے۔
لہٰذا جناب مسیح اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت سے پیدا ہوئے، اس لیے بھی ان پر یہ لقب صادق آ سکتا ہے۔
حوالہ جات:
[7] تفسیر أضواء البيان: 1؍200
[8] الرد الجمیل لالھیۃ عیسی بصریح الانجیل از ابو حامد الغزالی :ص۱۶۶؛ الداعی الی الاسلام از ابن الانباری : ص ۳۷۶
[9] تفسیر البحر المحیط از ابو حیان اندلسی:4؍143، دار الفکر، بیروت 1420ھ
[11] یوحنا کا پہلا خط5: 1
[12] یوحنا کا پہلا خط 9:3
[13] یوحنا کا تیسرا خط ۱: ۱۱
[14] مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: 4؍216
[15] حافظ ابن حزم لکھتے ہیں:
"كل روح: فَهُوَ روح الله تَعَالَى، على الْمِلك؛ لَكِن إِذا قُلْنَا: روح الله، على الْإِطْلَاق: يَعْنِي بذلك جِبْرِيل، أَو عِيسَى عَلَيْهِما السَّلَام، كَانَ ذَلِك فَضِيلَة عَظِيمَة لَهما " . (الفصل فی الملل:3؍9)
’’ہر روح اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتی ہے یعنی وہ اس کا مالک ہے (جو وہ فرشتہ کے ذریعے بھیجتا ہے)۔ تاہم جب ہم مطلق طور پر روح اللّٰہ کہیں تو اس سے مراد سیدنا جبریل ہیں یا سیدنا عیسیٰ علیہما السلام، کیونکہ دونوں کی اس حوالے سے عظیم فضیلت ہے۔ ‘‘(ح۔م)
[16] دیکھئے تفاسیر :ایسر التفسیر: 5؍319، تفسیر خازن: 5؍222، تفسیر التحریر والتنویر: 17؍138
[17] مسیحی لوگ لفظ ’اللّٰہ‘ سے بدکتے ہیں لیکن ان دونوں مقامات (دوسرا مقام اگلے حوالے میں) پر ان کی اُردو بائبل میں یہی لفظ آیا ہے ۔ لہٰذا ان کا کہنا کہ اللّٰہ ایک بت کا نام تھا ( نعوذ باللّٰہ) ناقابل التفات ٹھہرا۔
[25] یوحناکا پہلا خط 1: 5
[27] یوحنا کا پہلا خط 7:4
[30] یوحنا کا پہلا خط 1:4۔۳
[31] سیدنا مسیح کو بطورِ خاص کیوں روح منه کہا گیا جبکہ ساری اَرواح ہی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں تو امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
"وَسَمَّاهُ رُوحَهُ، لِأَنَّهُ خَلَقَهُ مِنْ نَفْخِ رُوحِ الْقُدُسِ فِي أُمِّهِ، لَمْ يَخْلُقْهُ كَمَا خَلَقَ غَيْرَهُ مِنْ أَبٍ آدَمِيٍّ." ("الجواب الصحيح لابن تيمية: 3؍302) ’’انہیں اپنی طرف سے روح کہنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ روح القدس کے ان کی والدہ میں پھونک مارنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ الله نے انہیں اس طرح پیدا نہیں کیا، جس طرح دوسرے کو وہ انسانی باپ سے پیدا کرتا ہے۔ ‘‘
اس کی مزید وضاحت حافظ ابن قیم نے یوں فرمائی:" الرّوح الَّذِي نفخ فِي مَرْيَم: هُوَ الرّوح الْمُضَاف إِلَى الله، الَّذِي اختصه لنَفسِهِ وأضافه إِلَيْهِ، وَهُوَ روح خَاص من بَين سَائِر الْأَرْوَاح، وَلَيْسَ بِالْملكِ الْمُوكل بالنفخ فِي بطُون الْحَوَامِل من الْمُؤمنِينَ وَالْكفَّار؛ فَإِن الله سُبْحَانَهُ وكل بالرحم ملكا ينْفخ الرّوح فِي الْجَنِين، فَيكْتب رزق الْمَوْلُود وأجله وَعَمله وشقاوته وسعادته؛ وَأما هَذَا الرّوح الْمُرْسل إِلَى مَرْيَم: فَهُوَ روح الله الَّذِي اصطفاه من الْأَرْوَاح لنَفسِهِ؛ فَكَانَ لِمَرْيَم بِمَنْزِلَة الْأَب لسَائِر النَّوْع، فإن نفخته لما دخلت فِي فرجهَا: كَانَ ذَلِك بِمَنْزِلَة لقاح الذّكر للْأُنْثَى، من غير أَن يكون هُنَاكَ وَطْء " (الروح:ص 155)
’’وہ روح جوسیدہ مریم علیہا السلام میں پھونکی گئی ، اس کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ اس روح کو اللّٰہ نے اپنے لئے خاص کرکے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اور وہ روح دیگر ارواح کی بہ نسبت خاص ؍اہم ہے۔ اور یہ روح اس فرشتہ کی طرف سے نہ تھی جو مادرِ رحم میں کفار ومؤمنوں کی روح پھونکتا ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے رحم کے جنین میں روح پھونکنے کے لئے ایک فرشتہ کی ذمہ داری لگا رکھی ہے جو اللّٰہ کے حکم سے مولود کا رزق، وفات کا وقت، اعمال اورسعادت وبدبختی وغیرہ لکھتا ہے ۔اب جو روح سیدہ مریم کی طرف بھیجی گئی تو وہ اللّٰہ کی طرف سے وہ روح تھی جس کو اس نے خاص اپنی طرف سے منتخب کیا تھا۔ سو وہ روح سیدہ مریم کے لئے تمام انسانوں کے ہاں باپ کے قائم مقام ہوگئی اور روح القدس کا پھونکنا جب ان میں داخل ہوا تو وہ مؤنث کے لئے مرد کے داخل ہونے کے قائم مقام ہوگیا،مگر یہاں کوئی جماع وغیرہ نہیں ہوا۔ ‘‘ (ح۔م)
[32] متی ۱۲: ،لوقا ۱۱: ۲۰