دینی مدارس کے لیے متفقہ حکمتِ عملی
دینی مدارس و جامعات کو مربوط نظام
کے تحت لانے کے لیے مجوزه حکمتِ عملی
1. اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان کی رکن پانچوں تنظیمات کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ’تعلیمی بورڈز‘ کا درجہ دینا ۔ یہ تنظیمات درج ذیل ہیں :
وفاق المدارس العربیہ، پاکستان تنظیم المدارس اہل سنت، پاکستان
وفاق المدارس السّلفیہ ،پاکستان وفاق المدارس الشیعہ، پاکستان
رابطۃ المدارس الاسلامیہ، پاکستان
2. دینی مدارس وجامعات وفاقی وصوبائی وزارتِ تعلیم کے ساتھ مربوط ہوں گے۔
3. پاکستان میں قائم دینی مدارس وجامعات کوفعال رہنے کے لیے ان پانچوں تنظیمات میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنا ہو گا۔
4. پانچوں تنظیمات اپنا دینی نصاب طے کرنے کے لیے آزاد ہوں گی۔
5. دستور پاکستان کے آرٹیکل 25؍اے کے تحت ریاست کے ذمے داری ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کی عمر تک کے بچوں کے لیے یکساں اور مفت تعلیم کے بندوبست کرے، اور اس کے لیے ضروری قانون سازی کرے ۔اس کا دائرہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور شمالی علاقہ جات تک محیط ہونا چاہیے اور یہ سب کے لیے یکساں طور پر عصری ودینی تعلیم پر مشتمل ہونا چاہیے ۔
6. اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کی رکن پانچوں تنظیمات درجہ ثانویہ عامہ (مساوی میڑک ) اور درجہ ثانویہ خاصہ ( مساوی انٹر میڈیٹ ) تک اپنے نصاب میں لازمی عصری مضامین شامل کریں گی:
(الف) میٹرک کے لازمی مضامین یہ ہیں : (1) اردو (2) انگلش (3) اسلامیات (4) مطالعہ پاکستان (5) ریاضی
نوٹ : کمپیوٹر سائنس کی تعلیم اختیاری ہو گی۔
(ب) انٹرمیڈیٹ کی سطح کے لازمی مضامین یہ ہیں : (1) اردو (2) انگلش (3) اسلامیات (4) مطالعہ پاکستان
نوٹ : وزیر تعلیم محترم میاں بلیغ الرحمن صاحب کے زیر صدارت ایک اجلاس میں یہ طے کیا جاچکا ہے کہ دینی مدارس وجامعات کے طلبہ وطالبات پر اسلامیات لازمی کے مضمون کا اطلاق نہیں ہو گا، کیونکہ ان کی قابلیت اسلامیات میں مسلّم ہے ۔
7. نصاب ، معیارِ تعلیم اور امتحانات میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے عصری مضامین کی حد تک فیڈرل بورڈ آف سیکنڈری اینڈ انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کی منظور کردہ نصابی کتب کو تمام تنظیمات کے بورڈز اپنے نصاب کا حصّہ بنائیں گے۔
8. وفاقی یا صوبائی وزارتِ تعلیم پانچوں تنظیمات کی مجالس نصاب میں عصری مضامین کی حد تک اپنا ایک نمائندہ مقرر کرسکیں گی ۔
9. پانچوں تنظیمات کے نصاب مطبوعہ صورت میں دستیاب ہوں گے تا کہ تمام رکن تنظیمات کو ایک دوسرے کے نظام تعلیم کے بارے میں آگہی ہو اور حسب ضرورت ایک دوسرے کے تجربات سے تقابل اور استفادہ کر سکیں ۔
10. ہر تنظیم اپنے سند یافتگان؍ ڈگری ہولڈر طلبہ وطالبات کا امتحانی اور اسناد کا ریکارڈ محفوظ رکھے گی اور ہر وقت برائے معائنہ دستیاب ہو گا۔
11. غیر ملکی طلبہ کے داخلے کے لیے وزارت تعلیم ؍وزارت داخلہ کی تصریح (کلیئرنس) ضروری ہوگی۔
12. پانچوں رکن تنظیمات کے ملحق مدارس ’سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860ء‘ کی اضافی دفعہ 21 (مجریہ 2005 ء) کے تحت مندرجہ ذیل شرائط کے پابند ہوں گے:
(الف) کوئی مدرسہ ؍جامعہ عسکری تعلیم وتربیت نہیں دے گا اور نہ ہی ایسا مواد رکھے گا۔
(ب) کوئی مدرسہ ؍جامعہ نفرت انگیزی پر مبنی تعلیم نہیں دے گا، البتہ خالص اکیڈمک سطح پر تقابل ادیان ، تقابل مذاہب اور علم الکلام کی تعلیم پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا ۔
13. وفاقی یا صوبائی حکومتیں دینی مدارس وجامعات کے بارے میں کوئی پالیسی مرتب کرتے وقت یا معلومات حاصل کرنے کے لیے اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کی رکن پانچوں تنظیمات کو اعتماد میں لیں گی۔
14. پانچوں تنظیمات اپنے اپنے دائرہ کار میں وقتاً فوقتاً ’ تدریب المعلمین‘ کے پروگرام مرتب کریں گی اور اس سلسلہ میں حسبِ ضرورت وفاقی وصوبائی وزارت تعلیم اور فیڈرل ایجوکیشن بورڈ سے فنی معاونت حاصل کرسکیں گی۔
نظامِ امتحانات
اتحادتنظیمات مدارس پاکستان کی رکن پانچوں تنظیمات حسب سابق اپنے امتحانات منعقد کریں گی۔ دینی مضامین کی طرح عصری مضامین کے پرچوں کی تیاری ، امتحانات کا انعقاد اور پرچوں کی چیکنگ پانچوں تنظیمات اپنے اپنے نظام کے تحت کریں گی اور محکمہ تعلیم چاہے تو اُن کا معائنہ کر سکتا ہے ۔
اسناد کا اجرا
دینی وعصری مضامین کے درمیان نشانات (نمبرز) کا تناسب باہمی مشاورت سے طے ہو گا اور اسی کے مطابق تنظیمات اسناد کا اجراکریں گی۔
نوٹ :درجہ عالیہ کی شہادہ ( ڈگری) کو بی اے کے مساوی قرار دینے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن پہلے ہی اپنی پالیسی کانوٹیفکیشن جاری کرچکا اور وہ یہ ہے :
1. کسی بھی تنظیم کے درجہ عالیہ کی شہادت کا حامل ( ڈگری ہولڈر) جب کسی بھی یونیورسٹی سے بی اے کی سطح کی انگریزی اور مطالعہ پاکستان کا امتحان پاس کرلے ، تو اس کی ڈگری بی اے کی مساوی تسلیم کی جائےگی اور وہ ملازمت اور مقابلے کے امتحان میں شرکت کا اہل ہو گا ۔
2. پانچوں تنظیمات کی الشهادة العالمية فى العلوم العربية والاسلامية کی ڈگری کو ’ ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ پہلے ہی ایم اے عربی و اسلامیات کے مساوی تسلیم کر چکا ہے اور ہمارے کئی علما پہلے ہی ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں اور بہت سے ان مراحل میں زیر تعلیم ہیں ۔ لہٰذا اس کے لیے یہاں الگ سے کوئی عنوان قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
3. جو مدارس عصری مضامین کی تدریس کیلئے حکومت کی اعانت چاہتے ہوں تو حکومت اُنہیں سرکاری معیار پر اساتذہ فراہم کرے ، لیکن ان کے عزل ونصب (ہائر اینڈ فائر) کا اختیار متعلقہ ادارے کے پاس ہونا چاہیے ۔
4. اگر عصری مضامین کے لیے ہماری پانچوں تنظیمات کو بااختیار نہیں بنایا جاتا ، ہماری اسناد کو قانونی حیثیت نہیں دی جاتی تو ہمارے طلبہ آزاد ہیں ، پاکستان کے جس بورڈ سے چاہیں پورے مضامین کے امتحان دے کر میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی اسناد حاصل کر سکتے ہیں اور پھر یہ ساری مشق بے سود رہے گی۔
مؤرخہ: 15؍ جنوری 2018ء
دستخط ذمہ داران : ٭ مولانا مفتی منیب الرحمٰن ٭مولانا قاری حنیف جالندھری
٭مولانا محمد یاسین ظفر ٭مولانا عبد المالک ٭سید نیاز حسین نقوی